Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 40

سورة الأعراف

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمۡ اَبۡوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الۡجَمَلُ فِیۡ سَمِّ الۡخِیَاطِ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿۴۰﴾

Indeed, those who deny Our verses and are arrogant toward them - the gates of Heaven will not be opened for them, nor will they enter Paradise until a camel enters into the eye of a needle. And thus do We recompense the criminals.

جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے اور ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Doors of Heaven shall not open for Those Who deny Allah's Ayat, and They shall never enter Paradise Allah said, إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِأيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُواْ عَنْهَا ... Verily, those who belie Our Ayat and treat them with arrogance, ... لااَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء ... for them the gates of the heavens will not be opened, According to Mujahid, Sa`id bin Jubayr and Ibn Abbas, as Al-`Awfi and Ali bin Abi Talhah reported from him, meaning, their good deeds and supplication will not ascend through it, Ath-Thawri narrated that, Layth said that Ata narrated this from Ibn Abbas. According to Ad-Dahhak who reported this from Ibn Abbas that it was also said that; the meaning here is that the doors of the heavens will not be opened for the disbelievers' souls, As-Suddi and several others mentioned this meaning. What further supports this meaning, is the report from Ibn Jarir that Al-Bara' said that the Messenger of Allah mentioned capturing the soul of the `Fajir' (wicked sinner or disbeliever), and that his or her soul will be ascended to heaven. The Prophet said, فَيَصْعَدُونَ بِهَا فَلَ تَمُرُّ عَلَى مَلٍَ مِنَ الْمَلَيِكَةِ إِلاَّ قَالُوا مَا هَذِهِ الرُّوحُ الْخَبِيثَةُ فَيَقُولُونَ فُلَنٌ بِأَقْبَحِ أَسْمَايِهِ الَّتِي كَانَ يُدْعَى بِهَا فِي الدُّنْيَا حَتَّى يَنْتَهَوا بِهَا إِلَى السَّمَاءِ فَيَسْتَفْتَحُونَ بَابَهَا لَهُ فَلَ يَفْتَحُ لَه So they (angels) ascend it and it will not pass by a gathering of the angels, but they will ask, who's wicked soul is this?' They will reply, `The soul of so-and-so,' calling him by the worst names he was called in this life. When they reach the (lower) heaven, they will ask that its door be opened for the soul, but it will not be opened for it. The Prophet then recited, لااَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء (For them the gates of heaven will not be opened). This is a part of a long Hadith which was also recorded by Abu Dawud, An-Nasa'i and Ibn Majah. Ibn Jurayj commented on the Ayah, لااَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء (for them the gates of heaven will not be opened), "(The gates of heaven) will not be opened for their deeds or souls." This explanation combines the two meanings we gave above, and Allah knows best. Allah's statement, ... وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ... and they will not enter Paradise until the Jamal goes through the eye of the needle. refers to the male camel. Ibn Mas`ud said it is a male camel from the she camel. In another narration it refers to the spouse of the she camel. Mujahid and Ikrimah said that Ibn Abbas used to recite this Ayah this way, "Until the Jummal goes through the eye of the needle," whereas `Jummal' is a thick rope. ... وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ Thus do We recompense the criminals. Allah's statement,

بدکاروں کی روحیں دھتکاری جاتی ہیں کافروں کے نہ تو نیک اعمال اللہ کی طرف چڑھیں ، نہ ان کی دعائیں قبول ہوں ، نہ ان کی روحوں کے لئے آسمان کے دروازے کھلیں ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جب بدکاروں کی روحیں قبض کی جاتی ہیں اور فرشتے انہیں لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں تو فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گذرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کس کی ہے؟ یہ اس کا بد سے بد نام لے کر بتاتے ہیں کہ فلاں کی ۔ یہاں تک کہ یہ اسے آسمان کے دروازے تک پہنچاتے ہیں لیکن ان کے لئے دروازہ کھولا نہیں جاتا ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ( لا تفتح لھم ابو اب السماء ) پڑھی یہ بہت لمبی حدیث ہے جو سنن میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں یہ حدیث پوری یوں ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک انصاری کے جنازے میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں یہ حدیث پوری یوں ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک انصاری کے جنازے میں ہم حضور کے ساتھ تھے جب قبرستان پہنچے تو قبر تیار ہونے میں کچھ دیر تھی سب بیٹھ گئے ہم اس طرح خاموش اور با ادب تھے کہ گویا ہمارے سروں پر پرند ہیں ۔ آپ کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا جسے آپ زمین پر پھرا رہے تھے تھوڑی دیر میں آپ نے سر اٹھا کر دو بار یا تین بار ہم سے فرمایا کہ عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو ، پھر فرمایا مومن جب دنیا کی آخری اور آخرت کی پہلی گھڑی میں ہوتا ہے اس کے پاس آسمان سے نورانی چہروں والے فرشتے آتے ہیں گویا کہ ان کا منہ آفتاب ہے ان کے ساتھ جنت کا کفن اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے وہ آ کر مرنے والے مومن کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے اطمینان والی روح اللہ کی مغفرت اور رضامندی کی طرف چل یہ سنتے ہی وہ روح اس طرح بدن سے نکل جاتی ہے جیسے مشک کے منہ سے پانی کا قطرہ ٹپک جائے ۔ اسی وقت ایک پلک جھپکنے کے برابر کی دیر میں وہ جنتی فرشتے اس پاک روح کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور جنتی کفن اور جنتی خوشبو میں رکھ لیتے ہیں اس میں ایسی عمدہ اور بہترین خوشبو نکلتی ہے کہ کبھی دنیا والوں نے نہ سونگھی ہو ۔ اب یہ اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں فرشتوں کی جو جماعت انہیں ملتی ہے وہ پوچھتی ہے کہ یہ پاک روح کس کی ہے؟ یہ اس کا بہتر سے بہتر جو نام دنیا میں مشہور تھا وہ لے کر کہتے ہیں فلاں کی ۔ یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں دروازہ کھلوا کر اوپر چڑھ جاتے ہیں یہاں سے اس کے ساتھ اسے دوسرے آسمان تک پہنچانے کے لئے فرشتوں کی اور بڑی جماعت ہو جاتی ہے اس طرح ساتویں آسمان تک پہنچتے ہیں اللہ عزوجل فرماتا ہے اس میرے بندے کی کتاب ( علیین ) میں رکھ کر اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو میں نے انہیں اسی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا ۔ پس وہ روح لوٹا دی جاتی ہے وہیں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے ۔ پھر پوچھتے ہیں کہ وہ شخص جو تم میں بھیجے گئے کون تھے وہ کہتا ہے وہ رسول اللہ تھے صلی اللہ علیہ وسلم ۔ فرشتے اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تجھے کیسے معلوم ہوا ؟ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور اسے سچا مانا ۔ وہیں آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ میرا بندہ سچا ہے اس کیلئے جنت کا فرش بچھا دو ۔ اسے جنتی لباس پہنا دو اور اس کیلئے جنت کا دروازہ کھول دو ۔ پس اس کے پاس جنت کی تروتازگی اس کی خوشبو اور وہاں کی حوا آتی رہتی ہے اور اسکی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے ۔ جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے اسے کشادگی ہی کشادگی نظر آتی ہے اس کے پاس ایک نہایت حسین وجمیل شخص لباس فاخرہ پہنے ہوئے خوشبو لگائے ہوئے آتا ہے اور اس سے کہتا ہے خوش ہو جا یہی وہ دن ہے جس کا تجھے وعدہ دیا جاتا تھا ان سے پوچھتا ہے تو کون ہے؟ تیرے چہرے سے بھلائی پائی جاتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا نیک عمل ہوں ۔ اب تو مومن آرزو کرنے لگتا ہے کہ اللہ کرے قیامت آج ہی قائم ہو جائے تاکہ میں جنت میں پہنچ کر اپنے مال اور اپنے اہل و عیال کو پالوں اور کافر کی جب دنیا کی آخر گھڑی آتی ہے تو اس کے پاس سیاہ چہرے والے فرشتے آسمان سے آتے ہیں ان کے ساتھ ٹاٹ ہوتا ہے اس کی نگاہ تک اسے یہی نظر آتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے خبیث روح اللہ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی طرف چل یہ سن کر وہ روح بدن میں چھپنے لگتی ہے جسے ملک الموت جبراً گھسیٹ کر نکالتے ہیں اسی وقت وہ فرشتے ان کے ہاتھ سے ایک آنکھ جھپکنے میں لے لیتے ہیں اور اس جہنمی ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے نہایت ہی سڑی ہوئی بدبو نکلتی ہے یہ اسے لے کر چڑھنے لگتے ہیں فرشتوں کا جو گروہ ملتا ہے اس سے پوچھتا ہے کہ یہ ناپاک روح کس کی ہے؟ یہ اس کی روح جس کا بدترین نام دنیا میں تھا انہیں بتاتے ہیں پھر آسمان کا دروازہ اس کیلئے کھلوانا چاہتے ہیں مگر کھولا نہیں جاتا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی یہ آیت ( لا تفتح ) الخ ، تلاوت فرمائی ۔ جناب باری عزوجل کا ارشاد ہوتا ہے اس کی کتاب ( سجین ) میں سب سے نیچے کی زمین میں رکھو پھر اس کی روح وہاں سے پھینک دی جاتی ہے ۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ( ومن یشرک باللہ فکانما خر من السماء فتخطفہ الطیر او تھوی بہ الریح فی مکان سحیق ) یعنی جس نے اللہ کے ساتھ شریک یا گویا وہ آسمان سے گر پڑا پس اسے یا تو پرند اچک لے جائیں گے یا ہوائیں کسی دور دراز کی ڈراؤنی ویران جگہ پر پھینک دیں گی ۔ اب اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے ۔ اور اس کے پاس وہ فرشتے پہنچتے ہیں اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے؟ یہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے خبر نہیں ۔ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ جواب دیتا ہے افسوس مجھے اس کی بھی خبر نہیں ۔ پوچھتے ہیں بتا اس شخص کی بابت تو کیا کہتا ہے جو تم میں بھیجے گئے تھے ؟ یہ کہتا ہے آہ میں اس کا جواب بھی نہیں جانتا ۔ اسی وقت آسمان سے ندا ہوتی ہے کہ میرے اس غلام نے غلط کہا اس کیلئے جہنم کی آگ بچھا دو اور جہنم کا دروازہ اس کی قبر کی طرف کھول دو وہاں سے اسے گرمی اور آگ کے جھونکے آنے لگتے ہیں اس کی قبر اس پر تنگ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی ادھر ہو جاتی ہیں ، اس کے پاس ایک شخص نہایت مکروہ اور ڈراؤنی صورت والا برے کپڑے پہنے بری بدبو والا آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ اب اپنی برائیوں کا مزہ چکھ اسی دن کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا یہ پوچھتا ہے تو کون ہے؟ تیرے تو چہرے سے وحشت اور برائی ٹپک رہی ہے؟ یہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا خبیث عمل ہوں ۔ یہ کہتا ہے یا اللہ قیامت قائم نہ ہو ۔ اسی روایت کی دوسری سند میں ہے کہ مومن کی روح کو دیکھ کر آسمان و زمین کے تمام فرشتے دعائے مغفرت و رحمت کرتے ہیں اس کیلئے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ہر دورازے کے فرشتوں کی تمنا ہوتی ہے کہ اللہ کرے یہ روح ہماری طرف سے آسمان پر چڑھے اس میں یہ بھی ہے کہ کافر کی قبر میں اندھا بہرا گونگا فرشتہ مقرر ہو جاتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک گرج ہوتا ہے کہ اگر اسے کسی بڑے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہو جائے پھر اسے جیسا وہ تھا اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے ۔ فرشتہ دوبارہ اسے گرج مارتا ہے جس سے یہ چیخنے چلانے لگتا ہے جسے انسان اور جنات کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے ابن جریر میں ہے کہ نیک صالح شخص سے فرشتے کہتے ہیں اسے مطمئن نفس جو طیب جسم میں تھا تو تعریفوں والا بن کر نکل اور جنت کی خوشبو اور نسیم جنت کی طرف چل ۔ اس اللہ کے پاس چل جو تجھ پر غصے نہیں ہے ۔ فرماتے ہیں کہ جب اس روح کو لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں دروازہ کھلواتے ہیں تو پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے ، یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو وہ اسے مرحبا کہہ کر وہی کہتے ہیں یہاں تک کہ یہ اس آسمان میں پہنچتے ہیں جہاں اللہ ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ برے شخص سے وہ کہتے ہیں اے خبیث نفس ! جو خبیث جسم میں تھا تو برا بن کر نکل اور تیز کھولتے ہوئے پانی اور لہو پیپ اور اسی قسم کے مختلف عذابوں کی طرف چل ۔ اس کے نکلنے تک فرشتے اسے یہی سناتے رہتے ہیں ۔ پر اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو آسمان کے فرشتے کہتے ہیں اس خبیث کو مرحبا نہ کہو ۔ یہ تھی بھی خبیث جسم میں بد بن کر لوٹ جا ۔ اس کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور آسمان و زمین کے درمیان چھوڑ دی جاتی ہے پھر قبر کی طرف لوٹ آتی ہے ۔ امام ابن جریر نے لکھا ہے کہ نہ ان کے اعمال چڑھیں نہ ان کی روحیں اس سے دونوں قول مل جاتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ اس کے بعد کے جملے میں جمہور کی قرأت تو جمل ہے جس کے معنی نر اونٹ کے ہیں ۔ لیکن ایک قرأت میں جمل ہے اس کے معنی بڑے پہاڑ کے ہیں ۔ مطلب بہ ہر دو صورت ایک ہی ہے کہ نہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گذر سکے نہ پہاڑ ، اسی طرح کافر جنت میں نہیں جا سکتا ان کا اوڑھنا بچھونا آگ ہے ظالموں کی یہی سزا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 اس سے بعض نے اعمال، بعض نے ارواح اور بعض نے دعا مراد لی ہے، یعنی ان کے عملوں، یا روحوں یا دعا کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، یعنی اعمال اور دعا قبول نہیں ہوسکتی اور روحیں واپس زمین میں لوٹا دی جاتی ہیں (جیسا کہ مسند احمد، جلد 2 صفحہ 364، 365 کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تینوں ہی چیزیں مراد ہوسکتی ہیں۔ 40۔ 2 یہ تعلیق بالمحال ہے جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا ممکن نہیں، اسی طرح اہل کفر کا جنت میں داخلہ ممکن نہیں۔ اونٹ کی مثال بیان فرمائی ہے اس لئے کہ اونٹ عربوں میں متعارف تھا اور جسمانی اعتبار سے ایک بڑا جانور تھا اور سوئی کا ناکہ (سوراخ) یہ اپنے باریک تنگ ہونے کے اعتبار سے بےمثال ہے۔ ان دونوں کے ذکر کرنے اس تعلیق بالمحال کے مفہوم کا درجہ واضح کردیا ہے۔ تعلیق بالمحال کا مطلب ہے ایسی چیز کے ساتھ مشروط کردینا جو ناممکن ہو۔ جیسے اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اب کسی چیز کے وقوع کو، اونٹ کے سوئی کے ناکے میں داخل ہونے کے ساتھ مشروط کردینا تعلیق بالمحال ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٠] یہ عربی زبان کا محاورہ ہے جو کسی ناممکن العمل بات کے موقع پر بولا جاتا ہے یعنی جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ ویسے ہی شیطان سیرت آدمیوں کا جنت میں داخل ہونا ناممکن ہے اور جنت میں داخلہ تو دور کی بات ہے ایسے لوگوں کی روح کو جب فرشتے لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو آسمان کا دروازہ ہی نہیں کھولا جاتا جبکہ نیک لوگوں کا شاندار استقبال کیا جاتا ہے۔ بدکار لوگوں کی روح کو وہیں سے نیچے پھینک دیا جاتا ہے اور قبر کے امتحان میں ناکامی کے بعد اسے سجین میں قید کردیا جاتا ہے۔ وَلَجَ کے معنی کسی تنگ جگہ میں داخل ہونا، گھسنا یا گھسنے کی کوشش کرنا ہے جیسے تلوار کا میان میں یا بارش کے پانی کا زمین میں داخل ہونا ہے اور اولج کے معنی کسی چیز کو تنگ جگہ میں داخل کرنا یا گھسیڑنا ہے جیسے ارشاد باری ہے آیت ( يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۭ وَهُوَ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ ۝) 57 ۔ الحدید :6) یعنی اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا : آیت (يُكَوِّرُ الَّيْلَ عَلَي النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَي الَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اَلَا هُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفَّارُ ۝) 39 ۔ الزمر :5) یعنی رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر۔ اور آیت (يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ 40؀) 7 ۔ الاعراف :40) عربی زبان کا محاورہ ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۔۔ : یہ پچھلی آیت میں مذکور وعید ” پس چکھو عذاب ۔۔ “ کی کچھ تفصیل ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ آسمانوں کے دروازے ہیں۔ بہت سی صحیح احادیث میں ان دروازوں کا ذکر موجود ہے۔ دروازے نہ کھولے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اعمال اور دعا کے اوپر جانے کے لیے دروازے نہیں کھلتے اور یہ بھی کہ مرنے کے بعد ان کی روحوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، جیسا کہ مومن کی روح کے اوپر چڑھنے کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ براء بن عازب (رض) سے مروی ایک لمبی حدیث کے ضمن میں ہے کہ مومن کی روح اوپر چڑھتی ہے تو اس کے لیے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور فرشتے مرحبا کہہ کر اس کا استقبال کرتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ساتویں آسمان پر چلی جاتی ہے، مگر جب کافر کی روح آسمان تک پہنچتی ہے تو اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : ( اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۔۔ ) [ مسند أحمد : ٤؍٢٨٨، ح : ١٨٥٦١ ] حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ ۭ: یہ ایک محاورہ ہے جو ایسے کام کے لیے بولا جاتا ہے جس کا ہونا ممکن ہی نہ ہو۔ نہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو سکے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned first in the set of verses cited above (35-37) is a pledge taken from every human being in the world of spirits, before being born into the material world. The pledge envisaged that they would, when the prophets of Allah come to them with Divine guidance and injunctions, listen to them in earnest and act accordingly. They were also told that those who abide by the pledge and fulfill what it entails, will have their salvation from sorrows and deserve eternal peace and comfort. And conversely, those who belie prophets or rebel against injunctions they bring shall have the eternal punishment of Jahannam waiting for them. The later set of verses presents what actually hap¬pened when different groups of human beings came into the world and started acting differently. Some of them threw the pledge behind their backs and settled to oppose it. Others held to it and acted righteously. The ultimate end of the two groups and the reward and punishment for them has been described in the later four verses (40-43). Mentioned in verses 40 and 41 are deniers and criminals, and in verses 42 and 43, the believers and God-fearing who fulfilled the pledge. In the first verse (40), it was said that those who belied the proph¬ets of Allah and acted arrogantly against Divine guidance and &Ayat, for them, the gates of heaven will not be opened. Reported in Al-Bahr Al-Muhit is a Tafsir of this verse from Sayyid¬na ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) عنہما which says that the gates of heaven will be opened neither for them, nor for their prayers. It means that their prayer will not be answered and their deeds will be stopped from reaching the place where the deeds of the righteous servants of Allah are kept preserved, the name of which, according to the Qur&an, is: عِلِّيِّينَ (` Illiyyin) (Surah Al-Mutaffifin - 83:18-21). This subject has been referred to in yet another verse of the Qur&an where it is said: إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْ‌فَعُهُ , that is, ` one&s good words are taken to Allah Ta` ala and one&s good deed carries them& meaning that man&s good deeds become the cause of Tayyib Kalimat (good words) reaching Allah Ta` ala. In a narration from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas and other Saha¬bah (رض) ، the Tafsir of the verse also says that the gates of heaven will not be opened for the spirits of deniers and disbelievers - and these spirits will be thrown down. This subject is supported by a Hadith of Sayyidna Bara& ibn ` Azib (رض) which has been reported in detail by Abu Dawud, Nasa&i, Ibn Majah and Imam Ahmad, a summary of which is given below. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) went to a Janazah of some Ansari Companion. The grave was not ready yet, so he sat down on an open spot. The Companions (رض) sat around him, silent. He raised his head and said: When the time of death comes for a believing servant of Allah, angels with white, radiant faces come from the heaven with the shroud and fragrance of the heaven and sit down in front of the person to die. Then, comes the angel of death, ‘Izra’ il (علیہ السلام) and he addresses his Ruh (spirit, soul): 0 soul at peace, come out to receive the forgive¬ness and pleasure of your Rabb. Then, his Ruh comes out of the body, nice and easy, just like water coming out of a leather water-bag when opened. The angel of death receives his Ruh in his hands and entrusts it with the angels sitting there. These angels start moving out with the Ruh of the deceased. Wherever they meet a group of angels on their way, they are asked: Whose sacred Ruh is it? These angels introduce the Ruh of the deceased by his name and title with which he was known as a mark of respect in his life of the world. They tell him who he is, so and so, son of so and so. Then, comes the time when these angels reach the first heaven with the Ruh. They ask for the gate to be opened. The gate is opened. More angels join them from here until they reach as far as the seventh heaven. At that time, Allah Ta` ala says: Write down the record of the deeds of this servant of Mine in the ` Illiyyin and then send him back. The Ruh returns to the grave again. In the grave come angels who keep the account of deeds. They make him sit up, and ask him: ` Who is your Rabb?& and ` what is your religion?& He says: Allah Ta` ala is my Rabb and Islam is my religion. Then, comes the question: This pious person who has been sent for you – who is he? He says: He is the Rasul of Allah Ta` ala. Then comes a heavenly call: My servant is true. Roll out for him the carpet of Jannah. Dress him up in the apparel of Paradise. Open for him the door towards the Jannah. Through the door come the fragrance and breeze of Jannah and his good deed transformed into a handsome presence comes near him to help him become familiar and rested in company. In contrast, when the time of death comes for disbelievers and de¬niers, angels with dark and terrifying profile come from the heaven carrying a coarse piece of ragged rug and sit down in front of him. Then, the angel of death draws his Ruh out as if it were a thorny branch with wet wool wrapped round it and through it the thorny branch was to be pulled out. When this Ruh comes out, its stench is deadlier than the stench of a spoiled dead animal. The angels start moving out with the Ruh of the deceased. When other angels meet en-route, they ask: Whose evil Ruh is this? The angels tell them the worst of his name and title with which he was known in the world. They tell them that he is so and so, the son of so and so. Until they reach the first heaven and ask for the gate to be opened. The gate is not opened for him. The command comes to keep his record of deeds in Sijjin where the record of the disobedient ones is maintained. His Ruh is thrown away. The Ruh returns to the grave. The angels responsible for account-taking make him sit up. They ask him the same questions they had asked the believer. His answer to every question is nothing but: ھَاہُ ھَاہُ لَا اَدرِی ، I do not know). He is given the bed of Jahannam and the dress of Jahannam. In his grave, a door is opened toward the Jahannam through which he keeps receiving the heat and flames of Jahannam. His grave is made to become straightened on him. We seek the refuge of Allah from it. To sum up, it can be said that the spirits of deniers and disbeliev¬ers are taken upto the gate of the heaven. When the door does not open, they are thrown back from there. The verse: لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ (the gates of the heavens will not be opened for them -40) may also mean that it is at the time of death that the gates of the heavens are not opened for them. Towards the end of the verse, it was said: وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ (and they shall not enter the Paradise unless a camel enters into the eye of a needle). Here, the word: & يَلِجَ (yalij) is from: وَلوُج (wuluj) which means to enter a narrow opening. Jamal is camel and Samm, the eye of a needle. The translation covers the meaning literally. The sense of the verse is that the camel is a big animal and its entry into the eye of a needle is functionally impossible. So, equally impossible is their entry into Paradise. The purpose is to state that the punishment of Hell for them is everlasting. Then, follow the words which describe the added severity of the punishment in Hell: لَهُم مِّن جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِن فَوْقِهِمْ (For them there is a bed from the Jahannam, and over them there are cov¬erings). The word: مِهَادٌ (mihad) means a place of rest, bed or floor and: غَوَاشٍ (ghawash) is the plural form of: (ghashiyah) which means something which covers. The sense is that for these people to rest, the bed and the top sheet will all come from Hell (an eloquent manner of putting the extreme severity of the punishment in everyday idiom). It will be noticed that at the end of the first verse, which mentions the deprivation from Paradise, it was said: وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ (And this is how We recompense the sinners). Then, in the second verse, which describes the punishment of Hell, it was said: وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ (And this is how We recompense the transgressors) because it is more severe than the former.

خلاصہ تفسیر (یہ حالت تو کفار کے دخول نار کی ہوئی، اب حرمان جنت کی کیفیت سنو کہ) جو لوگ ہماری آیتوں کو جھوٹا بتلاتے ہیں اور ان (کے ماننے) سے تکبر کرتے ہیں ان (کی روح کے صعود) کے لئے (مرنے کے بعد) آسمان کے دروازے نہ کھولے جاویں گے (یہ تو حالت مرنے کے بعد برزخ میں ہوئی) اور (قیامت کے روز) وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جاویں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جاوے (اور یہ محال ہے تو ان کا جنت میں داخل ہونا بھی محال ہے) اور ہم ایسے مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں (یعنی ہم کو کوئی عداوت نہ تھی جیسا کیا ویسا بھگتا، اور اوپر جو دوزخ میں جانا مذکور ہوا ہے وہ آگ ان کو ہر چہار طرف سے محیط ہوگی کہ کسی طرف سے کچھ راحت نہ ملے، چناچہ یہ حال ہوگا کہ) ان کے لئے آتش دوزخ کا بچھونا ہوگا اور ان کے اوپر اسی کا اوڑھنا ہوگا، اور ہم ایسے ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں (جن کا ذکر (آیت) فمن اظلم ممن۔ میں اوپر آیا ہے) اور جو لوگ (آیات الٓہیہ پر) ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے (اور یہ نیک کام چنداں مشکل نہیں، کیونکہ ہماری عادت ہے کہ) ہم کسی شخص کو اس قدرت سے زیادہ کوئی کام نہیں بتلاتے (یہ جملہ معترضہ تھا غرض) ایسے لوگ جنت (میں جانے) والے ہیں، (اور) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور ان کی حالت اہل دوزخ کی سی نہ ہوگی کہ وہاں بھی ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرتے رہیں گے، بلکہ ان کی یہ کیفیت ہوگی کہ) جو کچھ ان کے دلوں میں (کسی معاملہ کی وجہ سے دنیا میں باقتضائِ طبعی) غبار (اور رنج) تھا ہم اس کو (بھی) دور کردیں گے (کہ باہم الفت و محبت سے رہیں گے اور) ان کے (مکانات کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور وہ لوگ (غایت فرح و سرور سے) کہیں گے اللہ تعالیٰ کا (لاکھ لاکھ) احسان ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی (یہاں تک) رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو نہ پہنچاتے (اس میں یہ بھی آگیا کہ یہاں تک پہنچنے کا جو طریقہ تھا ایمان اور اعمال وہ ہم کو بتلایا اور اس پر چلنے کی توفیق دی) واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی باتیں لے کر آئے تھے (چنانچہ انہوں نے جن اعمال پر جنت کا وعدہ کیا تھا وہ سچا ہوا) اور ان سے پکار کر کہا جاوے گا کہ یہ جنت تم کو دی گئی ہے تمہارے اعمال (حسنہ) کے بدلے۔ معارف و مسائل چند آیات میں پہلے ایک عہد و میثاق کا ذکر ہے جو ہر انسان سے اس کی اس دنیا میں پیدائش سے پہلے عالم ارواح میں لیا گیا تھا، کہ جب ہمارے رسول تمہارے پاس ہماری ہدایات اور احکام لے کر آئیں تو ان کو دل و جان سے ماننا اور ان کے مطابق عمل کرنا، اور یہ بھی بتلا دیا گیا تھا کہ جو شخص دنیا میں آنے کے بعد اس عہد پر قائم رہ کر اس کے مقتضیات کو پورا کرے گا وہ ہر رنج و غم سے نجات پائے گا اور دائمی راحت و آرم کا مستحق ہوگا، اور جو انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب یا ان کے احکام سے سرکشی کرے اس کے لئے جہنم کا دائمی عذاب مقرر ہے، مذکور الصدر آیات میں اس صورت واقعہ کا اظہار ہے جو اس دنیا میں آنے کے بعد انسانوں کے مختلف گروہوں نے اختیار کی، کہ بعض نے عہد و میثاق کو بھلا دیا، اور اس کی خلاف ورزی کی اور بعض اس پر قائم رہے، اور اس کے مطابق اعمال صالحہ انجام دئیے، ان دونوں فریقوں کے انجام اور عذاب وثواب کا بیان ان چار آیات میں ہے۔ پہلی اور دوسری آیت میں عہد شکنی کرنے والے منکرین و مجرمین کا ذکر ہے، اور آخری دو آیتوں میں عہد پورا کرنے والے مؤمنین ومتقین کا۔ پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں نے انبیاء (علیہم السلام) کو جھٹلایا اور ہماری ہدایات اور آیات کے مقابلہ میں تکبر کے ساتھ پیش آئے ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔ تفسیر بحر محیط میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس کی ایک تفسیر یہ نقل فرمائی ہے کہ نہ ان لوگوں کے اعمال کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے نہ ان کی دعاؤں کیلئے، مطلب یہ ہے کہ ان کی دعا قبول نہ کی جائے گی، اور ان کے اعمال اس مقام پر جانے سے روک دیئے جائیں گے جہاں اللہ کے نیک بندوں کے اعمال محفوظ رکھے جاتے ہیں، جس کا نام قرآن کریم نے سورة مطففین میں علّیتین بتلایا ہے، اور قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں بھی اس مضمون کی طرف اشارہ ہے، جس میں ارشاد ہے : (آیت) الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ، یعنی انسان کے کلمات طیبات اللہ تعالیٰ کے پاس لیجائے جاتے ہیں، اور ان کا نیک عمل ان کو اٹھاتا ہے، یعنی انسان کے اعمال صالحہ اس کا سبب بنتے ہیں کہ اس کے کلمات طیبات حق تعالیٰ کی بارگاہ خاص میں پہنچائے جاتے ہیں۔ اور ایک روایت حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور دوسرے صحابہ کرام سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی ہے کہ منکرین و کفار کی ارواح کیلئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے، یہ روحیں نیچے پٹک دی جائیں گی، اور اس مضمون کی تائید حضرت براء بن عازب (رض) کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد رحمة اللہ علیہ نے مفصل نقل کیا ہے، جس کا اختصار یہ ہے کہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی انصاری صحابی کے جنازہ میں تشریف لے گئے، ابھی قبر کی تیاری میں کچھ دیر تھی تو ایک جگہ بیٹھ گئے، اور صحابہ کرام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد خاموش بیٹھ گئے، آپ نے سر مبارک اٹھا کہ فرمایا کہ مومن بندہ کے لئے جب موت کا وقت آتا ہے تو آسمان سے سفید چمکتے ہوئے چہروں والے فرشتے آتے ہیں، جن کے ساتھ جنت کا کفن اور خوشبو ہوتی ہے، اور وہ مرنے والے کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، پھر فرشتہ موت عزرائیل (علیہ السلام) آتے ہیں، اور اس کی روح کو خطاب کرتے ہیں کہ اے نفس مطمئنہ رب کی مغفرت اور خوشنودی کے لئے نکلو، اس وقت اس کی روح اس طرح بدن سے بآسانی نکل جاتی ہے جیسے کسی مشکیزہ کا دہانہ کھول دیا جائے تو اس کا پانی نکل جاتا ہے، اس کی روح کو فرشتہ موت اپنے ہاتھ میں لے کر ان فرشتوں کے حوالے کردیتا ہے، یہ فرشتے اس کو لے کر چلتے ہیں، جہاں ان کو کوئی فرشتوں کا گروہ ملتا ہے وہ پوچھتے ہیں یہ پاک روح کسی کی ہے، یہ حضرات اس کا وہ نام و لقب لیتے ہیں، جو عزت و احترام کے لئے اس کے واسطے دنیا میں استعمال کیا جاتا تھا، اور کہتے ہیں کہ یہ فلاں ابن فلاں ہے، یہاں تک یہ فرشتے بھی ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتے ہیں اس وقت حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے اس بندے کا اعمال نامہ علییّن میں لکھو، اور اس کو واپس کردو، یہ روح پھر لوٹ کر قبر میں آتی ہے، اور قبر میں حساب لینے والے فرشتے آکر اس کو اٹھاتے اور سوال کرتے ہیں، کہ تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ کہ میرا رب اللہ تعالیٰ ہے اور دین اسلام ہے، پھر سوال ہوتا ہے کہ یہ بزرگ جو تمہارے لئے بھیجے گئے ہیں کون ہیں وہ کہتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اس وقت ایک آسمانی ندا آتی ہے کہ میرا بندہ سچا ہے، اس کے لئے جنت کا فرش بچھا دو اور جنت کا لباس پہنا دو اور جنت کی طرف اس کا دروازہ کھول دو ، اس دروازہ سے اس کو جنت کی خوشبوئیں اور ہوائیں آنے لگتی ہیں، اور اس کا نیک عمل ایک حسین صورت میں اس کے پاس اس کو مانوس کرنے کے لئے آجاتا ہے۔ اس کے بالمقابل کافر ومنکر کا جب وقت موت آتا ہے تو آسمان سے سیاہ رنگ مہیب صورت فرشتے خراب قسم کا ٹاٹ لے کر آتے ہیں، اور بالمقابل بیٹھ جاتے ہیں، پھر فرشتہ موت اس کی روح اس طرح نکالتا ہے جیسے کوئی خار دار شاخ گیلی اون میں لپٹی ہوئی ہو اس میں سے کھینچی جائے یہ روح نکلتی ہے تو اس کی بدبو مردار جانور کی بدبو سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے، فرشتے اس کو لے کر چلتے ہیں راہ میں جو دوسرے فرشتے ملتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ یہ کس کی خبیث روح ہے، یہ حضرات اس وقت اس کا وہ برے سے برا نام و لقب ذکر کرتے ہیں جن کے ساتھ وہ دنیا میں پکارا جاتا تھا کہ یہ فلاں بن فلاں ہے، یہاں تک کہ سب سے پہلے آسمان پر پہنچ کر دروازہ کھولنے کے لئے کہتے ہیں تو اس کے لئے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا، بلکہ حکم یہ ہوتا ہے کہ اس بندہ کا اعمال نامہ سجیّن میں رکھو، جہاں نافرمان بندوں کے اعمال نامے رکھے جاتے ہیں، اور اس روح کو پھینک دیا جاتا ہے، وہ بدن میں دوبارہ آتی ہے فرشتے اس کو بٹھا کر اس سے بھی وہی سوالات کرتے ہیں جو مومن بندہ سے کئے تھے، یہ سب کا جواب یہ دیتا ہے ھاہ ھاہ لا ادری، یعنی میں کچھ نہیں جانتا، اس کے لئے جہنم کا فرش، جہنم کا لباس دے دیا جاتا ہے، اور جہنم کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے جس سے اس کو جہنم کی آنچ اور گرمی پہنچتی رہتی ہے، اور اس کی قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے، نعوذ باللہ منہ خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ منکرین و کفار کی ارواح آسمان تک لیجائی جاتی ہیں آسمان کا دروازہ ان کے لئے نہیں کھلتا تو وہیں سے پھینک دی جاتی ہے، آیت مذکورہ (آیت) لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَاب السَّمَاۗء کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ بوقت موت ان کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ آخر آیت میں ان لوگوں کے متعلق فرمایا (آیت) وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ ، اس میں لفظ یلج ولوج سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں تنگ جگہ میں گھسنا، اور جمل اونٹ کو کہا جاتا ہے اور سَمّ سوئی کے روزن کو، معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک اونٹ جیسا عظیم الجثہ جانور سوئی کے روزن میں داخل نہ ہوجائے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح سوئی کے روزن میں اونٹ کا داخل ہونا عادةً محال ہے اسی طرح ان کا جنت میں جانا محال ہے، اس سے ان لوگوں کا دائمی عذاب جہنم بیان کرنا مقصود ہے، اس کے بعد ان لوگوں کے عذاب جہنم کی مزید شدت کا بیان ان الفاظ سے کیا گیا (آیت) لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ، مہاد کے معنی فرش، اور غواش، غاشیة کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں ڈھانپ لینے والی چیز کے، مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا اوڑھنا بچھونا سب جہنم کا ہوگا، اور پہلی آیت جس میں جنت سے محرومی کا ذکر تھا اس کے ختم پر (آیت) ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِيْنَ ، فرمایا اور دوسری آیت میں عذاب جہنم کا ذکر ہے، اس کے ختم پر (آیت) ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ ارشاد فرمایا، کیونکہ یہ اس سے زیادہ اشد ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَہُمْ مِّنْ جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَّمِنْ فَوْقِہِمْ غَوَاشٍ۝ ٠ ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِــمِيْنَ۝ ٤١ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے مهد المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] ، ومِهاداً [ النبأ/ 6] م ھ د ) المھد ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا : فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ الْغَاشِيَةُ في الأصل محمودة وإنما استعیر لفظها هاهنا علی نحو قوله : لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهادٌ وَمِنْ فَوْقِهِمْ غَواشٍ [ الأعراف/ 41] کہ لفظ غاشیۃ اصل میں اچھی چیز کیلئے استعمال ہوتا ہے مگر یہاں بطور استعارہ عذاب کے معنی میں استعمال ہوا ہے جس طرح آیت کریمہ : ۔ لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهادٌ وَمِنْ فَوْقِهِمْ غَواشٍ [ الأعراف/ 41] ایسے لوگوں کے لئے ( نیچے ) بچھانا بھی ( آتش ) جہنم کا ہوگا اور اوپر سے اوڑھنا بھی ۔ میں ہے کہ ( یہاں مھاد ( بچھونے ) کے مقابل میں غواش لفظ آیا ہے جس سے جہنم کا عذاب مراد ہے ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٠) قرآن کریم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جھٹلانے والے لوگوں کے اعمال اور ارواح کے چڑھنے کے لیے آسمانی دروازے نہیں کھولے جائیں گے جیسا کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں نہیں داخل ہوسکتا ہے یا یہ کہ تاوقتیکہ وہ موٹی رسی جس سے کشتی کو باندھا جاتا ہے، سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے یہ چیز ناممکن ہے تو ان کا جنت میں داخلہ بھی ناممکن ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْہَا لاَ تُفَتَّحُ لَہُمْ اَبْوَاب السَّمَآءِ ) اگرچہ یہ بات حتمیت سے نہیں کہی جاسکتی ‘ تاہم قرآن مجید میں کچھ اس طرح کے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم اسی زمین پر برپاہو گی اور ابتدائی نُزُل (مہمانی ) والی جنت بھی یہیں پر بسائی جائے گی۔ (وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ ) (الانشقاق ) کی عملی کیفیت کو ذہن میں لانے سے یہ نقشہ تصور میں یوں آتا ہے کہ زمین کو جب کھینچا جائے گا تو یہ پچک جائے گی ‘ جیسے ربڑ کی گیند کو کھینچا جائے تو وہ اندر کو پچک جاتی ہے۔ اس عمل میں زمین کے اندر کا سارا لاوا باہر نکل آئے گا جو جہنم کی شکل اختیار کرلے گا (واللہ اعلم) ۔ احادیث میں مذکور ہے کہ روز محشر میدان عرفات کو کھول کر وسیع کردیا جائے گا اور یہیں پر حشر ہوگا۔ قرآن حکیم میں (وَجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا ) (الفجر ) کے الفاظ بھی اس پر دلالت کرتے ہیں کہ پروردگار شان اجلال کے ساتھ نزول فرمائیں گے ‘ فرشتے بھی فوج در فوج آئیں گے اور یہیں پر حساب کتاب ہوگا۔ گویا قصۂ زمین برسرزمین والا معاملہ ہوگا۔ اہل بہشت کی ابتدائی مہمان نوازی بھی یہیں ہوگی ‘ لیکن پھر اہل جنت اپنے مراتب کے اعتبار سے درجہ بدرجہ اوپر کی جنتوں میں چڑھتے چلے جائیں گے ‘ جبکہ اہل جہنم یہیں کہیں رہ جائیں گے ‘ ان کے لیے آسمانوں کے دروازے کھولے ہی نہیں جائیں گے۔ (وَلاَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ ط) اسے کہتے ہیں تعلیق بالمحال۔ نہ یہ ممکن ہوگا کہ سوئی کے ناکہ میں سے اونٹ گزر جائے اور نہ ہی کفار کے لیے جنت میں داخل ہونے کی کوئی صورت پیدا ہوگی۔ بالکل یہی محاورہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے بھی ایک جگہ استعمال کیا ہے۔ آپ ( علیہ السلام) کے پاس ایک دولت مند شخص آیا اور پوچھا کہ آپ ( علیہ السلام) کی تعلیمات کیا ہیں ؟ جواب میں آپ ( علیہ السلام) نے نماز پڑھنے ‘ روزہ رکھنے ‘ غریبوں پر مال خرچ کرنے اور دوسرے نیک کاموں کے بارے میں بتایا۔ اس شخص نے کہا کہ نیکی کے یہ کام تو میں سب کرتا ہوں ‘ آپ بتایئے اور میں کیا کروں ؟ آپ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ ٹھیک ہے تم نے یہ ساری منزلیں طے کرلی ہیں تو اب آخری منزل یہ ہے کہ اپنی صلیب اٹھاؤ اور میرے ساتھ چلو ! یعنی حق و باطل کی کشمکش میں جان و مال سے میرا ساتھ دو ۔ یہ سن کر اس شخص کا چہرہ لٹک گیا اور وہ چلا گیا۔ اس پر آپ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا ممکن ہے مگر کسی دولت مند شخص کا اللہ کی بادشاہت میں داخل ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہاں یہ واقعہ قرآن میں مذکور محاورے کے حوالے سے بر سبیل تذکرہ آگیا ہے ‘ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے اس فرمان کو کسی معاملے میں بطور دلیل پیش کرنا مقصود نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: یہ ایک عربی زبان کا محاورہ ہے، اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک اونٹ سوئی کے ناکے میں کبھی داخل نہیں ہوسکتا، اسی طرح یہ لوگ کبھی جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(40 ۔ 41) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ مسلمان کے دروازے نہ کھولے جانے سے مراد یہ ہے کہ کوئی عمل نیک اور دعا ان کی آسمان پر نہیں جاتی اور قبول نہیں ہوتی یا جبکہ وہ مرتے ہیں تو ان کی ارواح کے واسطے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے امام احمد ابوداؤد ابن ماجہ اور نسائی میں براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا فرشتے جب نافرمان شخص کی روح کو آسمان پر لے جاتے ہیں تو کسی جماعت فرشتوں پر گذر نہیں ہوتا مگر وہ ملائکہ کہتے ہیں کہ کیا روح خبیث ہے روح لے جانے والے کہتے ہیں کہ فلاں شخص ہے پھر وہ روح کے لے جانے والے فرشتے آسمان کا دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں تو کھولا نہیں جاتا پھر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت شریف کو پڑھا لاتفتح لھم ابواب السماء یہ ایک بڑی حدیث کا ٹکڑا ہے اور اس کی سند معتبر ہے پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لوگ جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور تکبر سے ان کو نہیں مانتے یہ جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک اونٹ سوئی کے ناکہ میں نہ گھسے یہی قول حضرت ابن عباس (رض) کا ہے اونٹ عرب کے نزدیک سب حیوانوں میں بڑا ہے اور سوئی کا ناکہ میں نہیں گھس سکتا تو اب اس مثال کا یہ مطلب ٹھہرا کہ کافر مشرک بہشت میں داخل ہونے سے قطعی محروم ہیں حضرت ابن عباس (رض) نے لفظ جمل کو جس کے معنے اونٹ کے ہیں جمل جیم کے پیش اور میم کے تشدید سے بھی پڑھا ہے جس کے معنی موٹا رسہ جیسے ناؤ کا یا لاؤ کا رسا موٹا ہوتا ہے سوئی کے ناکہ میں اس کا گھسنا بھی محال ہے اس مثال کا بھی وہی مطلب ہے جو پہلی مثال کا ہے۔ پھر فرمایا مجرموں کی یہی سزا ہے کہ آگ ہی ان کا لحاف ہوگا ظاملوں کو یہی بدلہ ملے گا کیونکہ شرک بڑا ظلم ہے جس اللہ نے انسان کو انسان کی آسائش کے ہر طرح کے سامان کو پیدا کیا اس کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرنا اس سے بڑھ کر کوئی شے بےانصافی کی دنیا میں نہیں ہوسکتی ہے آسمان کے دروازے نہ کھلنے کے باب میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے دو قول ہیں ایک یہ کہ نافرمان لوگوں کے نیک عملوں کے آسمان پر جانے کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے دوسرا یہ کہ ایسے لوگوں کے مرنے کے بعد ان کی روح کو آسمان پر لے جانے کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے لیکن ان دونوں قولوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے کیونکہ سورة الفرقان میں آوے گا کہ ایسے لوگوں کے نیک عمل نافرمانی کے سبب سے اکارت ہوجاتے ہیں جزا کے قابل نہیں قرار پاتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے لوگوں کے عمل نہ آسمان پر جانے کے قابل ہیں نہ ان کے واسطے آسمان کے دروازے کھولے جانے کی ضرورت ہے اس لئے کہ یہ سورة ویل للمطففین میں آویگا کہ جو نیک عمل جزا کے قابل ہوتے ہیں ان کا نا مہ اعمال ساتویں آسمان پر علیین مقام میں رکھا جاتا ہے اور جو بدعمل سزا کے قابل ہیں ان کا نامہ اعمال ساتویں زمین کے سجین مقام میں رکھا جاتا ہے اس صورت میں نافرمان لوگوں کے نیک عمل جب اکارت ہوگئے اور بدعملوں کا نامہ اعمال ساتویں زمین میں رہتا ہے تو حاصل معنی آیت کے یہی میں کہ جن لوگوں کا آیت میں ذکر ہے جیتے جی ان کے عملوں کے لئے اور مرنے کے بعد ان کی روحوں کے لئے آسمان کے دزوازے نہیں کھولے جاتے۔ ان ہی معنے کو حافظ ابوجعفر ابن جریر ١ ؎ نے ترجیح دی ہے براء بن عازب (رض) کی صحیح حدیث جو اوپر گذری ٢ ؎ اس سے بھی ان معنے کی تائید ہوتی ہے کیونکہ اس حدیث میں بھی نیک وبد روحوں کا آسمان کے دروازوں کے کھولے جانے اور نہ کھولے جانے کا اور نیک عملوں کے نامہ اعمال کا علیین میں اور بدعمل کے نامہ اعمال کا سجین میں رکھے جانے کا ذکر ساتھ کے ساتھ ہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کے دروازوں کا کھلنا نہ کھلنا روحوں اور بدعملوں سب کے لئے عام ہے :۔ ١ ؎ تفسیر ابن جریر ج ٨ ص ١٧٦ طبع جدید و تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٢١٣ ٢ ؎ یعنی صفحہ ٢٥٣ پر

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:40) یلج ولج یلج سے مضارع منصوب واحد مذکر غائب۔ دلوج۔ مصدر۔ داخل ہوجائے۔ سم الخیاط۔ مضاف مضاف الیہ۔ سم۔ ناکہ۔ سوارخ۔ خیاط۔ سوزن۔ سوئی۔ سم الخیاط سوئی کا ناکہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اوپر کی آیت میں جو وعید مذکور ہے یہ کہ اس کا تمتہ ہے اس سے معلوم کہ آسمانوں کے دروازے بہت سی صحیح احادیث میں ان دروازوں کا ذکر موجود ہے۔ دروازے نہ کھولے جانے کا مطلب تو یہ ہے کہ ان کے اعمال اور دعا کے اوپر جانے کے لیے درد ناک کھلتے یا یہ کہ مرنے کے بعد ان کی اراوح کے لیے دروازے نہیں کھلتے جیسا کہ مومن کی صعود کے لیے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ چناچہ ایک طویل حدیث کے ضمن میں ہے کہ مومن کی روح اوپر چڑھتی ہے تو اس کے لیے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور فرشتے مرحبا کہہ کر اس کا استقبال کرتے ہیں حتی کہ وہ ساتویں آسمان پر چلی جاتی ہے مگر جب کافر روح آسمان تک پہنچتی ہے تو اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا بلکہ اسے زجر و توبیخ کے ساتھ واپس کردیا جاتا ہے بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ ان پر خیر و برکت نازل نہیں ہوتی بہر حال آیت میں بہت بڑی وعید اور تہدید ہے۔ ( کبیر)3 یہ تعلیق بالمحال کے قبیل سے ہے اور اور اونٹ چونکہ باعتبار جسامت بڑاجانور ہے اس لیے اس کے داخل ہونے کا ذکر ہے کردیا ہے مطلب یہ ہے کہ ان کا جنت میں داخل ہونا محال ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہاں فرماتے یہاں الجمل کے معنی موٹے رسے کے ہیں اور سوئی کے ساتھ اس کا ذکر زیادہ مناسب ہے۔ ( کبیر۔ ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 5 ۔ آیات 40 تا 47 ۔ اسرار و معارف : دعا پر عدم اعتماد کی وجہ : جو لوگ ہمارے ارشدات کو قبول نہیں کرتے اور اکڑ دکھاتے ہیں ان کا سارا کروفر مھض دکھاوا ہی رہ جاتا ہے کہ ان کے سارے کمالات زیر آسمان ہی رہتے ہیں اور ان پر آسمانوں کے دروازے نہیں کھلتے۔ اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوسکیں حتی کہ اونٹ سوئی کے ن کے سے گزر جائے یعنی جس طرح یہ امر محال ہے کفار کے لیے دخول جنت بھی محال ہے۔ مفسرین کرام نے آسمانوں کے دروازے نہ کھلنے سے متعدد امور مراد لیے ہیں اول دعا کہ ان کی دعا کو بارگاہ الوہیت تک رسائی کی اجازت نہیں ملتی اور یہ بھی بہت بڑی محرومی ہے غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے کہ دعا پر بہت کم لوگ اعتماد رکھتے ہیں یعنی صرف ایسے لوگ اعتماد کرتے ہیں جن کے لیے آسمانوں کے دروازے کھلتے ہیں لوگوں کی اکثریت مادی اسباب ہی پہ پورا بھروسہ رکھتی ہے حالانکہ دعا بھی ایک سبب ہے اور دوسرے تمام اسباب سے زیادہ موثر ہے دوسری بات جو متعدد احادیث کے مضامین سے اخذ کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ موت کے فوراً بعد روح کو آسمانوں سے اوپر لے جا کر بارگاہ الوہیت میں پیش کیا جاتا ہے۔ قبض کرنے والے فرشتے بڑی عزت سے لے کر جاتے ہیں اور ہر آسمان پر اسے عزت دی جاتی ہے تا آنکہ پیش ہو کر بھی مزید عزت سے نوازی جاتی ہے اور اس کے بعد قبر میں حساب و کتاب کا مرحلہ آتا ہے جس کے ک نتیجے میں اس کا رابطہ جنت سے کردیا ہے روشنی خوشبوئیں اور نظارے یہ سب اسے نصیب ہوتا ہے آگے چل کر اپنے مقام پر اس کی تفصیل بھی آئے گی انشاء اللہ مگر کافر ایسا بدبخت ہے کہ موت کے فرشتے بھی ہیبت ناک صورت میں آتے ہیں روح بھی تکلیف دے کر قبض کرتے ہیں اور جب لے کر اوپر جاتے ہیں تو آسمانوں کا دروازہ ہی نہیں کھولا جاتا وہیں رد کردیا جاتا ہے لہذا فرشتے پھینک کر اسے واپس مارتے ہیں اور سوال و جواب کے بعد قبر کا رابطہ جہنم سے کردیا جاتا ہے اور اس کا نامہ اعمال بھی سجین میں رکھا جاتا ہے علیین اور سجین برزخ کے دو حصے ہیں ایک اوپر کو جاتا ہے اور دوسرا زمین سے نیچے کو اوپر والا علیین کہلاتا ہے جو مومنین کا مسکن ہے اور نیچے والا سجین جو کفار یا مبتلائے عذاب لوگوں کا ٹھکانہ ہے اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق نیچے دھنستے چلے جاتے ہیں جہاں نامہ اعمال بھی رکھے جاتے ہیں اور ارواح بھی۔ عدم اطمینان : تیسری حیثیت یہ ہے کہ روح عالم امر سے متعلق ہے جہاں عرش و کرسی اور ہر طرح کی مخلوق کی حد ختم ہوتی ہے وہاں سے عالم امر شروع ہوتا ہے ایمان دل اور روح میں حیات پیدا کرتا ہے پھر عمل صالح اور صحبت صالح اسے عروج بخشتی ہے حتی کہ روح آسمانوں سے اوپر عرش پھر عرش کی منازل سے گذر کر عالم امر سے تعلق قائم کرتی ہے اسی راستے پر چلنے کو سلوک کہا جاتا ہے اور اسی راستے کی منازل سلوک کی منازل کہلاتی ہیں ایمان اور عمل صالح کے ساتھ صحبت صالح کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ از خود روح یہ راستہ طے نہیں کرسکتی صحانہ نے صحبت نبوی سے یہ دولت حاصل کی تابعین نے ان کی صحبت سے اور اسی طرح بعد میں آنے والے پہلوں کی صحبت سے یہ نعمت پاتے رہے مجاہدہ تو طالب خود کرتا ہے مگر راستہ شیخ کے بغیر نہیں پا سکتا اور کفر ایسی مصیبت ہے کہ کافر کی روح پر آسمان کا دروازہ ہی نہیں کھلتا اس لیے عالم بالا کے حقائق پہ کبھی اطلاع پاتا ہے نہ ان سے فیض یاب ہوسکتا ہے اور جب تک روح کو یہ نسبت نصیب نہ ہو نہ دوام ذکر نصیب ہوتا ہے نہ اطمینان قلب اور یہ سب سے بڑی محرومی ہے یہ اتنی سخت سزا انہیں کیوں دی گئی ہے فرمایا یہ ان کے جرم کفر پر مرتب ہونے والا فطری نتیجہ ہے اگر وہ بھی کفر سے توبہ کرلیتے تو تمام مدار ج کو پانے کی استعداد ان میں بھی تھی مگر انہوں نے زیادتی کی اور فطری استعداد کو کھودیا جہنم کا راستہ اختیار کیا جہاں نہ صرف سخت اور دردناک عذاب ہوں گے بلکہ اوڑھنا بچھونا دوزخ ہی دوزخ ہوگا انہیں دوزخ ہی سے ڈھانپ بھی دیا جائے گا کہ یہی ان کے ظلم کا ماحصل ہے اور یہی اس کا بدلہ۔ جنت کا راستہ آسان ترین راستہ ہے : اس کے مقابلے میں ایمان قبول کرکے اللہ کے پسندیدہ اعمال اور طرز حیات کو اختیار کرنے والے لوگ کس قدر آسان زندگی پاتے ہیں کہ انہیں کوئی ایسا کام کرنے کا حکم ہی نہیں دیا جاتا جو ان کے بس نہ ہو اور وہ کر نہ سکتے ہوں اس سے زیادہ آسانی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جو نہیں کرسکتے چھوڑ دو مگر جو کرسکتے ہو وہ اس طریقے سے کرو جس طرقے سے کرنے کا اللہ کریم اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے ایسے لوگ تو جنت کے باسی ہیں جہاں ہمیشہ رہیں گے کوئی دکھ کوئی رنج کبھی ان کے پاس بھی نہ بھٹکے گا بلکہ بحیثیت انسان دنیا میں دو اچھے انسانوں میں بھی شکر رنجی ہوسکتی ہے اختلاف رائے کا ہونا بھی پایا جاتا ہے ایک دوسرے سے خفا بھی ہوسکتے ہیں مگر جنت ایسی جگہ ہے جہاں داخلے پر دلوں سے تلخیاں ہٹا دی جائیں گی۔ اور صرف محبت ہی ہوگی وہاں کی شادابیاں بھی ان کی پسند کے تابع ہوگی اور وہ وہاں بھی اللہ کا شکر کریں گے اور کہہ اٹھیں گے کہ اے اللہ یہ تیرے ہی احسانات ہیں کہ ہمیں اس مقام رفیع تک پہنچا دیا اگر تو دستگیری نہ فرماتا تو ہم ان عظمتوں تک پہنچ ہی نہ سکتے تھے واقعی تیرے رسول اور انبیاء حق کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے یہ سب تیری رحمت کے کرشمے تھے کہ انبیاء مبعوث فرمائے اور ہمیں توفیق اطاعت بخشی در اصل ہدایت بھی اللہ کی طرف سے ہے اور ایمان لانے سے لے کر عملی زدگی اور پھر ابدی زندگی ہیں۔ ہدایت کے مدارج : ہدایت کے مختلف مدارج ہیں چونکہ قرب الہی میں ترقی پانے کا نام ہدایت ہے اس کی کوئی انتہا نہیں اسی لیے ایک عام مسلمان سے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہی دعا کرتے ہیں اھدنا الصراط المستقیم یہاں تک کہ جنت کا داخہ بھی ہدایت ہی کا مظہر ہے اور وہاں بھی ہر گھڑ ترقی نصیب ہوتی رہے گی لہذا ہدایت یا مقامات سلوک اور کیفیات قرب الہی کی کوئی انتہا نہیں ہاں انہیں یہ کہہ دیا جائے گا کہ یہ جنت تمہاری ہے اس لیے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وفا کی اور عملی زندگی میں اطاعت اختیار کی۔ اہل جنت اور اہل نار میں مکالمہ : جب جنتی اپنے مقام پر پہنچیں گے تو دوزخ والوں سے جو اپنے کفر کے سبب ہمیشہ کے لیے دوزخی ٹھہرے بات کریں گے ۔ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو بدن مکلف بالذات ہوتا ہے اور روح اس کے تابع موت کے بعد برزخ میں روح مکلف بالذات ہوتی ہے اور بدن اس کے تابع میدان حشر میں اور اس کے بعد روح اور بدن برابر مکلف ہوں گے اور روحانی یا مادی آرام ہو یا رنج برابر برابر محسوس کریں گے رو جس طرح مومن جنت میں رہتے ہوئے مسافت بعید سے دوزخ اور اس کے رہنے والوں کو دیکھ سکے گا اسی طرح کافر بھی باوجود دوزخ میں رہنے کے جنت تک کو دیکھ لے گا بات سن سکے گا کر بھی سکے گا یہ دیکھنا مومن میں جذبہ تشکر پیدا کرے گا اور کافر کے لیے مزید حسرت کا سبب ہوگا۔ دنیا میں بصیرت ایمانی : نور ایمان کا کمال یہ ہے کہ مومن یہ نعمت دار دنیا میں حاصل کرسکتا ہے اور یہی انعام کیفیات قلبی سے نصیب ہوتا ہے جو محض دل سے دل کو منتقل ہوتی ہیں سب سے زیادہ قوت انبیاء علیہم الصلوہ والسلام کے قلوب کو نصیب ہوتی ہے جس کے باعث مکالمہ باری سے سرفرازہوتے ہیں برزخ کا دیکھنا فرشتوں سے کلام اور عالم بالا سے اطلاع پانا ہی دین ہی کی اساس ہے اور سارا دین انہی ذرائع سے انبیاء کو موصول ہوتا ہے ایسے ہی مومن نبی کا اتباع کرکے اور کیفیات قلبی حاصل کرکے قوت مشاہدہ اور کشف سے سرفراز ہوتا ہے اسی کو ولایت خاصہ یا بصیرت ایمانی کہا جاتا ہے۔ نبی کو براہ راست نصیب ہوتی ہے ولی اس کی اطاعت سے پاتا ہے نبی غلطی سے پاک ہوتا ہے اور ولی کا مشاہدہ نبی کے ارشاد کے اندر درست ورنہ اسے سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے اور یہی مومن کو امتیاز ہے کہ وہ اس کمال کو دنیا میں بھی پا سکتا کافر ہرگز نہیں پا سکتا اور آخرت میں تو چونکہ روح بھی برابر محسوسات رکھتی ہوگی وہاں کافر بھی دیکھ سکے گا دنیا میں یہ صرف نور ایمان مجاہد اور صحبت شیخ سے ممکن ہے۔ اعراف : تو اہل جنت اہل نار سے کہیں گے میاں ہم نے تو اللہ کریم کے وعدوں کو کھرا پایا اگرچہ دنیا میں تم لوگ ہمیں مذاق کرتے تھے اور بیوقوف اور جاہل تک کہنے سے نہ چوکتے تھے مگر ہمیں جس بات کا یقین تھا وہ بات ہو کے رہی تم سناؤ تم پہ کیا گزری کیا وہ باتیں جن سے تمہیں دنیا میں خبردار کیا گیا تھا اور انبیاء نے اطلاع دی تھی سچ ثابت ہوئیں کہیں گے۔ بیشک وہی ہوا جو ہمیں بتایا گیا تھا اور انبیاء نے اطلاع دی تھی سچ ثابت ہوئیں۔ کہ ایک ندا دینے والا پکار کر کہے گا ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو جو زندگی بھر دوسروں کو بھی اللہ کی راہ سے روکنے کی سعی کرتے رہے اور اپنی پسند کے غلط راستے تلاش کرتے رہے اور آخرت کا انکار کرتے تھے یعنی گمراہی کا سبب آخرت پہ یقین میں کمی یا اس کا انکار ہے ان کے درمیان جو دیوار یا حد فاصل ہوگی کچھ لوگ ابھی وہاں رکے ہوئے ہوں گے اس جگہ کو اعراف کہا گیا ہے یعنی حد فاصل یا حصار کا وہ حصہ جو اوپر ہے یہ رہنے کا ٹھکانہ نہیں ہے مگر حدیث شریف کے مطابق کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ نور ایمان کے ساتھ گناہوں کا بوجھ بھی ہوگا اور نیکی اور بدی برابر ہوں گی نہ جنت کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ نور ایمان کے ساتھ گناہوں کا بوجھ بھی ہوگا اور نیکی اور بدی برابر ہوں گی نہ جنت میں داخل ہوسکیں اور نہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے وہ پل صراط سے گزر کر اس جگہ ٹھہرجائیں گے جو جنت اور دوزخ کے درمیان حد فاسل ہے نہ اس پر جنت کی نعمت میسر ہے نہ دوزخ کے عذاب کا اثر۔ حدیث شریف کے مطابق آخر کار اللہ کریم انہیں جنت میں داخل فرما دیں گے۔ یہ لوگ دونوں طرف کے لوگوں کو ان کے چہروں سے ہی پہچان رہے ہوں گے اور اہل جنت کو دیکھ کر خوش ہوں گے اور جنت میں داخلے کی دعاوں میں شدت آجائے گی امیدیں باندھ رہے ہوں گے اور اہل جنت کو سلامتی کا پیغام اور مسنون سلام کہیں گے لیکن آنکھ دوسری طرف اٹھے گی اور دوزخ والوں کو دیکھیں گے تو فوراً پکار اٹھیں گے اے اللہ ہمیں ان ظالموں کے ساتھ شامل نہ فرمانا اگرچہ انہیں بھی خوب پہچان رہے ہوں گے مگر غضب الہی سے لرزاں و ترساں پناہ کے طالب ہوں گے۔ انسان کو چاہئے کہ دنیا میں نیک لوگوں کا ساتھ اختیار کرے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (40 تا 43 ) ۔ لا تفتح (کھولے نہیں جائیں گے) ۔ ابواب السمآء (آسمان کے دروازے ) ۔ لا یدخلون ( داخل نہ ہوں گے ) ۔ حتی یلج (جب تک داخل نہ ہوجائے) ۔ الجمل (اونٹ ) ۔ فی سم الخیاط (سوئی کے ناکے میں ) ۔ مھاد (آرام کی جگہ۔ بچھونا ) ۔ غواش (اوڑھنے کی چیز) ۔ نزعنا ( ہم نے کھینچ لیا۔ ہم کھینچ لیں گے) ۔ غل (کینہ ۔ بغض ) ۔ نودوا (آواز دی (جائے گی) ۔ اور ثتمو ھا (جس کے تم مالک بنائے گئے) ۔ تشریح : آیت نمبر (40 تا 43 ) ۔ ” ان آیتوں میں اہل جنت اور اہل دوزخ کے متعلق ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اللہ کی آیتوں کو قول اور عمل سے جھٹلانا اور آیات کو پیش کرنے والے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے مقابلے میں اپنے نظریات، خیالات اور رسموں کو باعظمت سمجھتے ہوئے تکبر کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسے لوگوں کو جنت کی ہوا تک نہ پہنچے گہ۔ فرمایا کہ جس طرح یہ ناممکن ہے کہ سوئی کے بہت باریک اور چھوٹے ناکے سے اونٹ جیسا بڑا جانور گذر جائے اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے، تکبر کرے اور وہ جنت میں داخل ہوجائے۔۔۔۔ فرمایا گیا کہ ایسے لوگ نہ تو جنت میں داخل ہون گے اور نہ ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے۔ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کی آیتوں سے گردن پھیرنے والے اور اپنی خود عقلی کا رعب بھگارنے والے ان کی دعائیں اور ان کے اعمال دونوں آسمان دنیا کے دروازے پر روک دیئے جائیں گے اور ان کو بارگاہ الہٰی تک پہنچنے نہیں دیا جائے گا۔ ابو دائود، نسائی ، ابن ماجہ اور مسند احمد میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ۔ ایک صالح مومن بندے کی موت کا جب وقت آتا ہے تو حضرت عزرائیل (علیہ السلام) (علیہ السلام) کے ساتھ حسین و جمیل فرشتے اس کے پاس آتے ہیں جنت کا کفن اور خوشبوان کے ساتھ ہوتا ہے حضرت عزرائیل (علیہ السلام) کہتے ہیں کہ اے نفس مطمئنہ باہر نکل۔ تو اللہ سے خوش رہا اور اللہ تجھ سے خوش رہا چل اللہ کی جنت کی طرف۔ وہ روح خوشی خوشی باہر نکل آتی ہے۔ فرشتے نہایت عزت و احترام سے اس روح کو آسمان کی طرف لے کر پرواز کر جاتے ہیں۔ اس کے اعزاز میں ساتوں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ روح عرش الہٰی تک پہنچائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ جائو اس کی روح اور اس کے اعمال کو علیین میں پہنچا دو ۔ پھر وہ روح عزت و تکریم کے ساتھ واپس اس کی قبر میں پہنچا دی جاتی ہے۔ اس کو جنت کا لباس پہنایا جاتا ہے جنت کی ایک کھڑکی اس کی قبر میں کھول دی جاتی ہے اس کے نک اعمال حسین صورت میں اس کی رفاقت کرتے ہیں۔ اس کے بر خلاف جب کافر و مشرک اور سر کش مرنے لگتا ہے تو بہت ہی خوفناک شکل کے فرشتے آتے ہیں پھر ملک الموت اس کی روح بہت تکلیف سے کھینچ کھینچ کر باہر نکالتے ہیں۔ اس میں اتنی سخت بد بو ہوتی ہے کہ ایک مردار جانور میں بھی اتنی بد بو نہیں ہوتی پھر فرشتے اس کی روح لے کر آسمانوں کی طرف چلتے ہیں۔ سب سے پہلے دروازے کو کھولنے کے لئے کہا جاتا ہے تو اس کے لئے دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ حکم ہوتا ہے کہ اس کی روح اور اعمال کو ” سجین “ میں پہنچا دو ۔ پھر اس کی روح کو پٹک کر اس کے دفن ہونے کی جگہ پہنچا دیا جاتا ہے فرشتے اس سے سوالات کرتے ہ ہیں تو وہ حسرت و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہے گا کہ مجھے نہیں معلوم ۔ پھر اسکو جہنم کا لباس پہنا دیا جاتا ہے اس کے دفن ہونے کی جگہ جہنم کی کھڑکی کو کھول دیا جاتا ہے۔ قبر تنگ کردی جاتی ہے (اللہ ہم سب کو اس برے انجام سے محفوظ فرمائے آمین) اسی بات کو قرآن کریم میں مجرمین کی سزا قرار دیا گیا ہے یعنی جنت اور اس کی راحت سے محرومی آیت نمبر 41 میں ظالموں کی سزا کی طرف اشارہ ہے یعنی عذاب جہنم کی طرف۔ آیت نمبر 42 میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان اور اعمال صالحہ بجا لانے والے مومن مردوں اور مومن عورتوں کیلئے فرمایا کہ ایمان اور عمل صالح رکھنے والوں کو جنت کی ایسی راحتیں عطا کی جائیں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس آیت میں اور قرآن کریم کی دوسرے بہت سی آیات میں ایمان غیر مشروط ہے یعنی ایمان کبھی جزوی نہیں ہوتا ہمیشہ کلی ہوتا ہے۔ اس میں اللہ پر اور اس کی وحدانیت پر بھی ایمان شامل ہوتا ہے۔ رسول اور اس کی رسالت پر بھی۔ قرآن پر بھی، تمام رسولوں اور ان کی کتابوں پر بھی حیات بعد الموت پر بھی، حشر ونشر اور جنت و جہنم پر بھی۔ تقدیر پر بھی۔ ان تمام چیزوں پر کلی ایمان لانا ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ اللہ کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چند باتیں مان لیں اور ان پر عمل کرلیا اور چند باتیں تسلیم نہ کیں اور اپنی مرضی سے کچھ اعمال سر انجام دے لئے۔ اعمال صالحہ :۔ در حقیقت کوئی عمل صالح اس وقت تک عمل صالح نہیں ہے جب تک اس کے پیچھے قرآن کریم اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سند موجود نہ ہو۔ ہر وہ عمل ، عمل صالح ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نقش قدم پر چل کر کیا جائے۔ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جا نقش قدم نہ ہو تو پھر صحابہ کرام (رض) کی پیروی میں پورے جذبے اور خلوص سے عمل کیا جائے تو وہ عمل صالح کہلائے گا۔ عمل صالح کسی ایک عمل یا مخصوص اعمال کرلینے کا نام نہیں ہے بلکہ ہر عمل میں اللہ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی زندگی کو بنیاد بنا کر سر انجام دینا عمل صالح ہے۔ فریاما کہ ” ہم کسی کو اس کی ہمت و طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں دیتے “ قرآن کریم میں اس کو کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسان جہاں ہمت و طاقت سے پہاڑوں کو بھی رائی بنا دیتا ہے۔ بحروبر پر حکمرانی کرتا ہے وہیں اس میں بشری کمزوریاں بھی ہیں فرمایا کہ ہمیں انسان کی ان کمزوریوں کا پوری طرح اندازہ ہے اسی لئے جو بھی احکامات دیئے گئے ہیں ان میں بشری کمزوریوں کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ فرمایا کہ ” اہل جنت کے دل کی کدورتیں اور رنجشیں دور کردی جائیں گی “۔ مرادیہ ہے کہ نیک لوگوں کے دلوں میں کبھی کبھی اختلافات اور رنجشیں پیدا ہوجاتی ہیں لیکن جب وہ جنت میں داخل کئے جائیں گے تو ان کے دلوں سے کدورتوں، اختلافات اور رنجشوں کو دور کردیا جائے گا۔ صحیح بخاری شریف میں روایت ہے کہ مومنیں جب پل صراط سے گذر کر جنت کی طرف چلیں گے تو جنت میں داخلے سے پہلے انہیں ایک مقام پر روک لیا جائے گا تاکہ اگر کوئی ظلم و زیادتی یا حق تلفی کی گئی ہو یا کینہ و حسد وغیرہ کسی کے خلاف سر زد ہوا ہو تو وہ آپس میں اپنے دل صاف کرلیں۔ جنت میں پہنچ کر وہ اللہ کا احسان مانیں گے۔ اس کا شکرادا کریں گے اس کی حمدوثنا کریں گے۔ اس کے بعد اللہ کی طرف سے ایک ندا آئے گی کہ یہ جنت تمہیں عارضی اور وقتی طور پر نہیں دی گئی ہے۔ یہ جنت تمہارے نیک اعمال کے بدلے مین مستقل ٹھکانے کے طور پر دیدی گئی ہے اب تم ہمیشہ ہمیشہ اس جنت میں رہوگے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اور یہ محال ہے پس معلق بالمحال بھی ہمیشہ کے لیے منفی ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اب مسلسل (١١) گیارہ آیات میں اللہ کے باغیوں اور اس کے تابعداروں کا یکے بعد دیگرے کردار اور انجام بیان کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں ” تکذیب “ کا معنی حقیقت کو جھٹلانا یا اس کا انکار کرنا ہے۔ تکبر کا مفہوم یہ ہے کہ حقیقت جاننے کے باوجود اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ تکذیب اور تکبر کا رویہ اختیار کریں گے ان کے بارے میں دوٹوک اور قطعی طور پر فرما دیا گیا ہے کہ ان کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ اس فرمان میں قطعیت اور مزید تاکید پیدا کرنے کے لیے فرمایا کہ ان کا جنت میں داخلہ اتنا ہی ناممکن ہے جتنا اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا محال ہے۔ یہ اس لیے ہے تاکہ مجرم اپنے جرائم کی پوری طرح سزا پاتے رہیں مجرموں کے نیچے بھی جہنم کی دہکتی ہوئی آگ اور ان کے اوپر اور چاروں طرف بھی آگ ہی آگ ہوگی۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب اور ان کے ساتھ استکبار کا رویہ اختیار کرتے ہیں ایسے ظالموں کو ایسی ہی سزا دی جائے گی۔ ” حضرت برا ا بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے تو ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کو کرید رہے تھے آپ نے سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا۔۔ جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے اے خبیث نفس ! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کی طرف چل۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کو نکال کر تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح زمین سے لاش کی گندی بدبو نکلتی ہے وہ اسے کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں ان کا گذر فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ہوتا ہے وہ دریافت کرتے ہیں یہ خبیث روح کون سی ہے وہ کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے۔ اس کے برے نام لے کر اس کو بلاتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہوجائے “ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے سجین یعنی زمین کی تہہ میں ٹھکانا لکھو۔ پھر اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں “ [ رواہ أحمد ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب اور ان کے ساتھ تکبر کرنے والا جہنم میں داخل ہوگا۔ ٢۔ مکذبین اور متکبرین کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھلتے ہیں اور نہ ہی ان کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ ٣۔ مجرموں کے اوپر اور نیچے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی۔ تفسیر بالقرآن ظلم کرنے والوں کا انجام : ١۔ ظالموں کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الحشر : ١٧) ٢۔ ظالموں کے لیے صرف تباہی ہے۔ (نوح : ٢٨) ٣۔ ظالم قوم کو سمندر میں غرق کردیا گیا ہے۔ (القصص : ٤٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (الشوریٰ : ٤٠) ٥۔ ظلم کرنے والوں کی بستی کو الٹا کر پتھر مارے گئے۔ (العنکبوت : ٣١) ٦۔ ظالموں پر لعنت کی جائے گی۔ (غافر : ٥٢ )

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٤٠ تا ٤١۔ اب ذرا اپنے تصورات کو لے کر رکیے ۔ یہ ایک عجیب منظر ہے ۔ ایک اونٹ ہے اور اسے سوئی کے ناکے میں داخل کرانے کے لئے تیار کیا جارہا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ انتظار کرو کہ یہ ناکہ اس قدر کھل جائے کہ اس سے اونٹ پار ہوجائے تب ہی ان کفار کے لئے جنت کے دروازے کھل سکتے ہیں ۔ تب ہی ان کی توبہ قبول ہو سکتی ہے ۔ لیکن وقت تو گزر چکا ہے ۔ اب یہ جنت میں اس طرح داخل نہیں ہوسکتے جس طرح سوئی کے ناکے سے ایک اونٹ پار نہیں ہو سکتا ‘ لہذا یہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور اس میں یہ لوگ پے درپے جمع ہوں گے ۔ اسی میں یہ لوگ ایک دوسرے کو ملامت کرتے رہیں گے ۔ ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے رہیں گے ۔ ایک دوسرے کے لئے سزا کا مطالبہ کرتے رہیں گے لیکن سب کے سب اسی عذاب میں مبتلا رہیں گے ۔ آیت ” وَکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُجْرِمِیْنَ (40) ” یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں۔ “ آیت ” لَہُم مِّن جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَمِن فَوْقِہِمْ غَوَاش “۔ (٧ : ٤١) ” ان کے لئے تو جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا ہے ۔ “ یعنی ان کے لئے فرش بھی جہنم کی آگ کا ہوگا اور مہاد کا اطلاق اس پر بطور مذاق کیا گیا ہے ۔ بچھونا ایسا ہوگا جس میں نہ نرمی ہوگی اور نہ ہی وہ فروخت بخش ہوگا اور آگ ہی کا اڑھنا ہوگا ۔ یعنی ہر طرف سے آگ میں گھرے ہوں گے ۔ آیت ” وَکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُجْرِمِیْنَ (40) ” یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں۔ “ ظالم ہی مجرم ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو مشرک ہیں اور آیات الہی کی تکذیب کرتے ہیں ۔ قرآن کی تعبیر کی رو سے یہ اوصاف مترادف ہیں ۔ اب اس منظر کے بالمقابل دوسرا منظر دیکھئے ۔ :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مکذبین و متکبرین جنت میں نہ جاسکیں گے ان کا اوڑھنا، بچھونا آگ کا ہوگا پہلی آیت میں مکذبین یعنی آیات کے جھٹلانے والوں اور مستکبرین یعنی آیات الٰہیہ کے ماننے سے تکبر کرنے والوں کے مردود ہونے کی ایک حالت بتائی اور وہ یہ کہ ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔ حدیث شریف میں مومن اور کافر کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب حضرت ملک الموت (علیہ السلام) مومن کی روح کو قبض کرتے ہیں تو وہ ایسی آسانی سے نکل آتی ہے جیسے (پانی کا) بہتا ہوا قطرہ مشکیزہ سے باہر آجاتا ہے جب وہ اس روح کو لے لیتے ہیں تو ان کے پاس جو دوسرے فرشتے جنتی کفن اور جنتی خوشبو لیے ہوئے بیٹھے ہوتے ہیں پل بھر بھی ان کے ہاتھ میں اس کی روح کو نہیں چھوڑتے پھر وہ اسے جنتی کفن اور جنت کی خوشبو میں رکھ کر آسمان کی طرف لے کر چل دیتے ہیں جب اس روح کو لے کر آسمان کی طرف چڑھنے لگتے ہیں تو فرشتوں کی جس جماعت پر ان کا گزر ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ کون پاکیزہ روح ہے ؟ وہ اس کا اچھے سے اچھا نام لے کر جواب دیتے ہیں جس سے وہ دنیا میں بلایا جاتا تھا کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے۔ اسی طرح پہلے آسمان تک پہنچتے ہیں اور آسمان کا دروازہ کھلواتے ہیں۔ چناچہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ (اور وہ اس روح کو لے کر اوپر چلے جاتے ہیں) حتیٰ کہ ساتویں آسمان تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہر آسمان کے مقربین دوسرے آسمان تک رخصت کرتے ہیں۔ (جب ساتویں آسمان تک پہنچ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے کی کتاب علّییّن میں لکھ دو ۔ اور اسے زمین پر واپس لے جاؤ کیونکہ میں نے ان کو زمین ہی سے پیدا کیا اور اسی میں اس کو لوٹا دوں گا۔ اور اسی سے اس کو دو بارہ نکالوں گا۔ چنانچہ اس کی روح اس کے جسم میں واپس کردی جاتی ہے (اس کے بعد قبر میں جو اس کا اکرام ہوگا اس کا تذکرہ فرمایا) پھر کافر کی موت کا تذکرہ فرمایا اور فرمایا کہ بلاشبہ جب کافر بندہ دنیا سے جانے اور آخرت کا رخ کرنے کو ہوتا ہے تو سیاہ چہروں والے فرشتے آسمان سے اس کے پاس آتے ہیں جن کے ساتھ ٹاٹ ہوتے ہیں۔ اور اس کے پاس اتنی دور تک بیٹھ جاتے ہیں جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے۔ پھر ملک الموت تشریف لاتے ہیں حتیٰ کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ اے خبیث جان ! اللہ کی ناراضگی کی طرف چل۔ ملک الموت کا یہ فرمان سن کر روح اس کے جسم میں ادھر ادھر بھاگی پھرتی ہے۔ لہٰذا ملک الموت اس کی روح کو جسم سے زبردستی اس طرح نکالتے ہیں جیسے بھیگا ہوا اون کانٹے دار سیخ پر لپٹا ہوا ہو اور اس کو زور سے کھینچا جائے) پھر اس کی روح کو ملک الموت (اپنے ہاتھ میں) لے لیتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں لیتے ہی دوسرے فرشتے پلک جھپکنے کے برابر بھی ان کے پاس نہیں چھوڑتے۔ اور ان سے فوراً لیکر اس کو ٹاٹوں میں لپیٹ دیتے ہیں (جو ان کے پاس ہوتے ہیں) اور ٹاٹوں میں ایسی بد بو آتی ہے جیسے کبھی کسی بد ترین سڑی ہوئی مردہ نعش سے روئے زمین پر بد بو پھوٹی ہو، وہ فرشتے اسے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ اور فرشتوں کی جس جماعت پر بھی پہنچتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ کون خبیث روح ہے ؟ وہ اس کا برے سے برا وہ نام لے کر کہتے ہیں جس سے وہ دنیا میں بلایا جاتا تھا کہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے حتیٰ کہ وہ اسے لے کر قریب والے آسمان تک پہنچتے ہیں اور دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ (لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَاب السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ ) (ان کے لیے آسمانوں کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور نہ وہ کبھی جنت میں داخل ہوں گے جب تک اونٹ سوئی کے ناکہ میں نہ چلا جائے) ۔ اس حدیث سے (لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَاب السَّمَآءِ ) کا مطلب واضح ہوگیا کہ کفار کی ارواح کو آسمان کی طرف فرشتے لے جاتے ہیں تو ان کے لیے دروازے نہیں کھولے جاتے اور ان کو وہیں سے پھینک دیا جاتا ہے۔ (مفصل حدیث مشکوٰۃ المصابیح ص ١٤٢ و ١٤٣ پر مذکور ہے۔ ١٢ منہ) حضرت ابن عباس (رض) سے اس کی تفسیر میں یہ بھی منقول ہے کہ کافروں کے اعمال اوپر نہیں اٹھائے جاتے اور نہ ان کی دعا اوپر اٹھائی جاتی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ص ٢١٣ ج ١) یہ فرمایا (وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ ) (اور یہ لوگ جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل نہ ہوجائے) یہ تعلیق با لمحال کے طور پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ یہ لوگ جنت میں داخل ہوسکتے ہیں۔ حضرت علامہ بیضاوی لکھتے ہیں۔ ذالک مما لا یکون و کذا ما یتوقف علیہ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44: یہ تخویف اخروی ہے۔ آیات سے توحید و رسالت اور معاد اور اصول دین کے دلائل مراد ہیں۔ الدالۃ علی اصول الدین و احکام الشرع کالادلۃ الدالۃ علی وجود الصانع و وحدتہ والدالۃ علی النبوۃ والمعاد و نحو ذلک (روح ج 8 ص 118) ۔ یعنی کذبوا بدلائل التوحید فلم یصدقوا بہا ولم یتبعوا رسلنا (خازن ج 2 ص 188) ۔ 45 حدیث میں وارد ہے کہ جب مومن کی وفات ہوتی ہے فرشتے اس کی روح کو لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں اور اس کی خاطر آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح مؤمن کے اعمال صالحہ کے لیے بھی آسمانوں کے دروازے کھلے رہتے ہیں لیکن کفار و مشرکین کی ارواح اور ان کے اعمال کے لیے ایسا نہیں ہوتا اس آیت میں اسی کا بیان ہے۔ 46“ اَلْجَمَل ” جوان اونٹ “ سَمِّ الْخِیَاطِ ” سوئی کا ناکا یعنی وہ سوراخ جس میں تاگا ڈالا جاتا ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے جسے کسی کام کے ناممکن اور محال ہونے کو ظاہر کرنے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں مقصد یہ ہے کہ دلائل توحید و رسالت کو جھٹلانے والے جنت میں کبھی داخل نہیں ہوں گے۔ ان کا جنت میں داخل ہونا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گذرنا محال ہے۔ “ مِھَادٌ” بچھونا “ غَوَاش ” سائبان مطلب یہ ہے کہ جہنم کی آگ انہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہوگی اور آگ ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہوگی۔ الظلمین المشرکین الذین وضعوا العبادۃ فی غیر موضعھا (خازن ج 2 ص 189) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

40 یقیناً جن لوگوں نے ہمارے دلائل اور احکام کی تکذیب کی اور ہماری آیات کے ساتھ متکبرانہ برتائو کیا تو ان لوگوں کے لئے آسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور ان کی ارواح خبیثہ کو آسمان پر صعود نصیب نہ ہوگا اور یہ لوگ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ سوئی کے ناکے میں اونٹ داخل نہ ہوجائے۔ یعنی سوئی کا ناکہ اس قدر چھوٹا اور اونٹ اتنا جسیم جس طرح یہ ناممکن ہے کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوسکے اسی طرح ان مکذبین اور متکبرین کا جنت میں داخل ہونا ممکن نہیں۔ اور ہم گناہ گاروں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں یعنی برزخ میں روح پر آسمانوں کے دروازے بند اور سجین میں ٹھکانا اور محشر میں جنت میں داخلہ ممنوع اور دوزخ میں ٹھکانا مجرموں کو ایسی ہی سزا دی جاتی ہے۔