Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 47

سورة الأعراف

وَ اِذَا صُرِفَتۡ اَبۡصَارُہُمۡ تِلۡقَآءَ اَصۡحٰبِ النَّارِ ۙ قَالُوۡا رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿٪۴۷﴾  12

And when their eyes are turned toward the companions of the Fire, they say, "Our Lord, do not place us with the wrongdoing people."

اور جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف پھریں گی تو کہیں گے اے ہمارے رب! ہم کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And when their eyes will be turned towards the dwellers of the Fire, they will say: "Our Lord! Place us not with the people who are wrongdoers." Ad-Dahhak reported that Ibn Abbas said, "When the people of Al-A`raf look at the people of the Fire and recognize them, they will supplicate, `O Lord! Do not place us with the people who are wrongdoers."'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] اہل اعراف کا اہل دوزخ سے مکالمہ :۔ یعنی اصحاب اعراف دوزخیوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کریں گے کیونکہ وہ خود بھی بیم ورجاء کی حالت میں ہوں گے دوزخ سے ڈر رہے ہوں گے اور جنت کی آس لگائے ہوئے ہوں گے لہذا ان کی آنکھوں کو اہل جہنم کی طرف پھیرا جائے گا تو پہلی بات جو ان کے منہ سے نکلے گی وہ یہ ہوگی کہ اے اللہ ! ہمیں ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کرنا۔ پھر جب نظر پڑ ہی گئی تو سب سے پہلی بات جو وہ اہل دوزخ سے پوچھیں گے یہ ہوگی کہ آج تمہارا وہ جتھا کہاں گیا جس کے متعلق شیخیاں بگھارا کرتے تھے۔ جیسا کہ جب سورة مدثر کی یہ آیت نازل ہوئی کہ && دوزخ پر انیس داروغے مقرر ہیں && تو کافر کہنے لگے کہ && ہم تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں ہم میں سے دس آدمی بھی ایک کا مقابلہ نہ کرسکیں گے ؟ پھر ان میں سے ایک پہلوان قسم کا آدمی کہنے لگا کہ ان میں سے سترہ کو تو میں سنبھال لوں گا باقی دو کے لیے تم سب بھی کافی نہ ہو گے && اور دوسری بات وہ اہل دوزخ سے یہ کہیں گے کہ دیکھ لو جنت میں وہی لوگ جا رہے ہیں جنہیں تم فقیر مسکین اور غلام کہہ کر حقیر سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ && ایسے لوگوں پر اللہ کی رحمت کیسے ہوسکتی ہے ؟ اور اگر ہونا ہوتی تو یہاں اس دنیا میں بھی اس رحمت کا کچھ حصہ انہیں مل جاتا۔ && انہیں سے یہ کہا جا رہا ہے کہ آج بلاخوف و خطر جنت میں داخل ہوجاؤ اس طرح اصحاب اعراف اہل دوزخ پر ان کی کذب بیانی، ان کے تکبر اور غلط تصورات کو واضح کردیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُهُمْ : ” صُرِفَت “ مجہول کا صیغہ ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اعراف والے جنتیوں کی طرف تو شوق اور رغبت سے دیکھیں گے اور انھیں سلام کریں گے، مگر جہنمیوں کی طرف خود نگاہ اٹھانا بھی پسند نہیں کریں گے، بلکہ ان کی نگاہیں ان کی طرف پھیری جائیں گی تاکہ انھیں عافیت کی قدر معلوم ہو۔ (المنار) مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ : یعنی جہاں وہ اب ہیں یا آئندہ ہوں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Stated next is the status of the people of A` raf that they have yet to enter Paradise, though they hope to. After that it is said: وَإِذَا صُرِ‌فَتْ أَبْصَارُ‌هُمْ تِلْقَاءَ أَصْحَابِ النَّارِ‌ قَالُوا رَ‌بَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٤٧﴾ (And when their eyes will be turned towards the people of the Fire, they will say, |"Our Lord, do not put us in the company of the unjust people - 47).

آگے اہل اعراف کا یہ حال بتلایا ہے کہ وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہیں اس کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) وَاِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُهُمْ تِلْقَاۗءَ اَصْحٰبِ النَّارِ ۙ قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ ، یعنی جب اہل اعراف کی نظر اہل جہنم پر پڑے گی، اور ان کے عذاب و مصیبت کا مشاہدہ کریں گے تو اللہ سے پناہ مانگیں گے کہ ہمیں ان ظالموں کے ساتھ نہ کیجئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا يَّعْرِفُوْنَہُمْ بِسِيْمٰىہُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ۝ ٤٨ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُور أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ أَعْرافِ وقوله : وَعَلَى الْأَعْرافِ رِجالٌ [ الأعراف/ 46] ، فإنه سور بين الجنّة والنار، اور آیت کریمہ : وَعَلَى الْأَعْرافِ رِجالٌ [ الأعراف/ 46] اور اعراف پر کچھ آدمی ہوں گے ۔ میں الاعراف سے وہ دیوار مراد ہے جو جنت اور دوزخ کے درمیاں حائل ہے ۔ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) اور جب اصحاب اعراف کی دوزخیوں پر نظر پڑے گی تو کہیں گے پروردگار ہمیں ان مشرکوں کے ساتھ عذاب میں نہ شامل کیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (وَاِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُہُمْ تِلْقَآءَ اَصْحٰبِ النَّارِلا قالُوْا رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) ۔ جنت کے نظارے کے بعد ان کو جہنم کا منظر بھی دکھایا جائے گا ‘ کہ اب ذرا جہنمیوں کی کیفیت کا بھی مشاہدہ کرلو۔ یہ لوگ ابھی تک بین الخوف و الرجاء کی کیفیت میں ہوں گے۔ انہیں جنت میں داخلے کی امید بھی ہوگی اور جہنم میں جھونکے جانے کا خوف بھی۔ اس لیے جب وہ اہل جنت کی طرف دیکھیں گے تو انہیں سلام کریں گے اور ساتھ ہی ان کے دلوں میں امنگیں اور تمنائیں جاگ جائیں گی کہ اللہ ہمیں بھی ان کے ساتھ شامل کر دے۔ لیکن دوسری طرف جب اہل جہنم پر نظر پڑے گی تو فریاد کریں گے کہ پروردگار ! ہم پر رحم فرمائیو اور ہمیں ان ظالم لوگوں کا ساتھی نہ بنائیو !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:47) صرفت۔ ماضی مجہول واحد مؤنث غائب وہ پھیری گئی۔ (ماضی بمعنی مضارع وہ پھیری جائیں گی) یعنی جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف پھیری جائیں گی۔ یا پھیریں گے۔ تلقائ۔ طرف۔ لقاء سے۔ جس کے معنی ملاقات کرنے کے ہیں۔ اسم ہے۔ ملاقات کرنے اور آمنے سامنے ہونے کہ جگہ کو تلقاء کہتے ہیں اور اسی اعتبار سے طرف اور جہت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ان کی نگاہیں پھیری جائیں گی مجہوم کا صیغہ ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اعراف والے جنتیوں کی طرف تو شوق اور رغبت سے دیکھیں گے اور انہیں سلام کریں کے مگر جمہور کی طرف خود نگاہ اٹھانا پسند بھی نہ کریں گے ان پر اتفاقا ان کی نگاہ پڑجائے گی (المنار)8 جہاں وہ اب ہیں یا آیندہ ہوں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اصحاب اعراف کا جنتیوں کو سلام اور جہنمیوں کو شرم دلانا۔ اعراف کا معنیٰ بلندی ہے جو جنت اور جہنم کے درمیان لامتنا ہی طول و عرض اور بلند وبالا قسم کی دیوار ہوگی اور اس میں ایک دروازہ بھی ہوگا جس کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر سورة الحدید آیت ١٣ میں کیا گیا ہے اس پر تشریف فرما لوگوں کو اصحاب الاعراف کے نام سے پکارا جائے گا یہ کون حضرات ہوں گے ان کے بارے میں قرآن و حدیث میں دو اور دو چار کے الفاظ میں وضاحت نہیں ملتی۔ البتہ مفسرین نے متقدمین کے اقوال سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ان سے مراد وہ اصحاب ہوں گے جنھوں نے والدین کی اجازت کے بغیر قتال فی سبیل اللہ میں حصہ لیا ہوگا۔ یہ بالآخر جنت میں داخل ہوں گے۔ ایسے حضرات کو الاعراف پر براجمان کیا جائے گا تاکہ انھیں ان کی کمزوریوں کا کچھ نہ کچھ احساس دلایا جائے۔ یہ اہل جنت کو ان کے نام اور اعزازات سے پہچان کر ان کی خدمت میں سلام عرض کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کریں گے گو ہمیں اب تک تمہاری رفاقت کا اعزاز اور جنت میں داخلہ نصیب نہیں ہوا لیکن ہمیں اپنے رب کے فضل و کرم سے پوری امید ہے کہ وہ ہمیں اپنی جنت میں داخلہ عطا فرمائے گا اس گفتگو کے بعد ان کے چہروں کو جہنم کی طرف پھیر دیا جائے گا وہ جہنم کی بلاؤں اور سزاؤں اور ان میں مبتلا جہنمیوں کو دیکھ کر اپنے رب سے عاجزانہ درخواست کریں گے۔ بار الٰہا ! ہمیں جہنم کی ہولناکیوں اور ظالموں کی معیت سے محفوظ فرما کر جنت میں داخلہ نصیب فرما۔ پھر وہ جہنمیوں کے نام اور ان کے چہروں سے پہچانتے ہوئے انھیں شرم دلائیں گے کہ افرادی قوت، اسباب و وسائل کی کثرت اور تمہارا انکار و استکبار تمہیں جہنم میں داخل ہونے سے نہ بچا سکے اور جن لوگوں کو تم دنیا میں حقیر سمجھ کر ان کے ایمان اور صالح کردار پر طعنہ زنی کرتے تھے کہ یہ لوگ کسی صورت میں ہم سے بہتر نہیں ہوسکتے۔ اگر یہ واقعی اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں تو انھیں ہمارے مقابلہ میں دنیا کی نعمتیں کیوں حاصل نہیں ہو سکیں۔ اے جہنم والو ! یہ بھی دنیا میں کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ آخرت میں بھی اللہ کے فضل و کرم سے محروم رہیں گے۔ اب دیکھو کہ یہ خوش نصیب کس طرح اپنے رب کی نعمتوں سے سرفراز کیے جا رہے ہیں۔ اصحاب الاعراف کی جہنمیوں کے ساتھ اس گفتگو کے بعد انھیں جنت میں داخلہ کی اجازت دیتے ہوئے اطمینان دلایا جائے گا کہ اب تمہیں کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ اعراف پر بیٹھے ہوئے جہنم کی ہولناکیوں کو دیکھتے ہوئے خوفزدہ تھے اس لیے جنت میں داخلہ عنایت کرکے انھیں حزن و ملال اور خوف و خطر سے مامون رہنے کی تسلی دی گئی ہے۔ کیونکہ جنت آسائش و آرام اور سکون و اطمینان کا گہوارا ہے۔ جب یہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو جہنمی آہ و زاریاں کرکے ان سے فریاد کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ماکولات اور مشروبات تمہیں عنایت کیے ہیں ان میں سے پانی اور کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ہمیں بھی عنایت کیجیے۔ ان کے جواب میں جنتی فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کا اکل و شرب کافروں پہ حرام کر رکھا ہے اس لیے ہم تم کو پانی کا ایک گھونٹ اور کھانے کے لیے ایک ذرّہ بھی نہیں دے سکتے۔ ١۔ اَھآؤُلآءِ کا اشارہ لایا گیا ہے جو قریب کے لیے استعمال ہوتا ہے ممکن ہے کہ جہنمیوں کی حسرتوں اور ذلتوں میں اضافہ کرنے کے لیے جنت اور دوزخ کے درمیان واقع اس دیوار کا دروازہ ایک دفعہ کھول دیا جائے جس سے یہ جنتیوں کو قریب سے دیکھ سکیں۔ ٢۔ اصحاب الاعراف اونچی دیوار پر بیٹھے جنتیوں کو بھی دیکھ رہے ہوں گے شاید ان کے لیے قریب کا اشارہ کیا گیا ہے۔ ٣۔ رجال سے مراد مفسرین نے جنت اور جہنم کے سردار لیے ہیں۔ مسائل ١۔ اصحاب اعراف جنتی اور جہنمیوں کو ان کے نام سے آواز دیں گے۔ ٢۔ اصحاب اعراف بالآخر جنت میں داخل کردیے جائیں گے۔ ٣۔ جہنمیوں کو ان کا تکبر اور مال و اسباب کچھ فائدہ نہیں دے گا۔ ٤۔ جنت میں کسی قسم کا خوف و خطر اور حزن و ملال نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جنتی بےخوف ہوں گے : ١۔ تم جنت میں داخل ہو جاؤتمہارے اوپر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (الاعراف : ٤٩) ٢۔ جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے لیے مطیع کرلیا اس پر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (البقرۃ : ١١٢) ٣۔ اے میرے بندو ! تمہارے اوپر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (الزخرف : ٦٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53 لیکن جب ان کی نگاہ دوزخیوں پر پڑے گی تو وہ ان سے اللہ کی پناہ مانگیں گے۔ “ اَلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ” یعنی مشرک لوگ یعنی “ اَلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ بِالشِّرْکِ ” (خازن ج 2 ص 193) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

47 اور جب ان اعراف والوں کی نگاہیں اہل جہنم کی طرف پھریں گی تو کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو ان ظالموں کے ساتھ شامل نہ کیجئو یعنی بلندی کی وجہ سے پہلے جنتیوں کو دیکھ کر سلامتی کی دعا کریں گے ان سے نگاہیں ہٹاکر جب اہل جہنم کو دیکھیں گے اور ان کے چہروں سے یہ جان لیں گے کہ یہ جہنمی ہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ ان ظالموں کی شمولیت سے ہم کو بچائیو اور ان کے ساتھ شامل نہ کیجئو۔