Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 51

سورة الأعراف

الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَہُمۡ لَہۡوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ۚ فَالۡیَوۡمَ نَنۡسٰہُمۡ کَمَا نَسُوۡا لِقَآءَ یَوۡمِہِمۡ ہٰذَا ۙ وَ مَا کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَجۡحَدُوۡنَ ﴿۵۱﴾

Who took their religion as distraction and amusement and whom the worldly life deluded." So today We will forget them just as they forgot the meeting of this Day of theirs and for having rejected Our verses.

جنہوں نے دنیا میں اپنے دین کو لہو و لعب بنا رکھا تھا اور جن کو دنیاوی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا سو ہم ( بھی ) آج کے روز ان کا نام بھول جائیں گے جیسا کہ وہ اس دن کو بھول گئے اور جیسا یہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ... "Who took their religion as amusement and play, and the life of the world deceived them." Allah describes the disbelievers by what they used to do in this life, taking the religion as amusement and play, and being deceived by this life and its adornment, rather than working for the Hereafter as Allah commanded, ... فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ كَمَا نَسُواْ لِقَاء يَوْمِهِمْ هَـذَا ... So this Day We shall forget them as they forgot their meeting of this Day, meaning, Allah will treat them as if He has forgotten them. Certainly, nothing escapes Allah's perfect watch and He never forgets anything. Allah said in another Ayah, فِى كِتَـبٍ لاَّ يَضِلُّ رَبِّى وَلاَ يَنسَى In a Record. My Lord neither errs nor forgets. (20:52) Allah said -- that He will forget them on that Day -- as just recompense for them, because, نَسُواْ اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ They have forgotten Allah, so He has forgotten them. (9:67) كَذَلِكَ أَتَتْكَ ايَـتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى Like this: Our Ayat came unto you, but you disregarded them, and so this Day, you will be neglected. (20:126) and, وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَأءَ يَوْمِكُمْ هَـذَا And it will be said: "This Day We will forget you as you forgot the meeting of this Day of yours." (45:34) Al-Awfi reported that Ibn Abbas commented on, فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ كَمَا نَسُواْ لِقَاء يَوْمِهِمْ هَـذَا (So this Day We shall forget them as they forgot their meeting of this Day), "Allah will forget the good about them, but not their evil." And Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "We shall forsake them as they have forsaken the meeting of this Day of theirs." Mujahid said, "We shall leave them in the Fire." As-Suddi said, "We shall leave them from any mercy, just as they left any action on behalf of the meeting on this Day of theirs." It is recorded in the Sahih that Allah will say to the servant on the Day of Resurrection: أَلَمْ أُزَوِّجْكَ أَلَمْ أُكْرِمْكَ أَلَمْ أُسَخِّرْ لَكَ الْخَيْلَ وَالاِْبِلَ وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ فَيَقُولُ بَلَى فَيَقُولُ أَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَقِيَّ فَيَقُولُ لاَ فَيَقُولُ اللهُ تَعَالَى فَالْيَوْمَ أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي "Have I not gotten you married? Have I not honored you? Have I not made horses and camels subservient for you and allowed you to become a leader and a master?" He will say, "Yes." Allah will say, "Did you think that you will meet Me?" He will say, "No." Allah the Exalted will say, `Then this Day, I will forget you as you have forgotten Me." ... وَمَا كَانُواْ بِأيَاتِنَا يَجْحَدُونَ and as they used to reject Our Ayat.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اس قسم کے بندے سے پوچھے گا کیا میں نے تمہیں بیوی بچے نہیں دیئے تھے ؟ تمہیں عزت اور اکرام سے نہیں نوازا تھا اور کیا اونٹ اور گھوڑے تیرے تابع نہیں کردیئے تھے ؟ کیا تو سرداری کرتے ہوئے لوگوں سے چونگی وصول نہیں کرتا تھا ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ؟ یا اللہ یہ سب باتیں صحیح ہیں، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا، کیا تو میری ملاقات کا یقین رکھتا تھا ؟ وہ کہے گا نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا ' پس جس طرح تو مجھے بھولا رہا آج میں بھی تمہیں بھول جاتا ہوں (صحیح مسلم) قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین کو لہو و لعب بنانے والے وہی ہوتے ہیں جو دنیا کے فریب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دلوں سے چونکہ آخرت کی فکر اور اللہ کا خوف نکل جاتا ہے۔ اس لئے وہ دین میں بھی اپنی طرف سے جو چاہتے ہیں اضافہ کرلیتے ہیں احکام اور فرائض پر عمل کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] کھیل تماشا ہی کو اپنا دین سمجھنے والے :۔ جو انسان روز آخرت پر اور اللہ کے سامنے جواب دہی پر ایمان نہیں رکھتا اس کی زندگی ایمان رکھنے والوں سے یکسر مختلف ہوتی ہے اس کی زندگی کا منتہائے مقصود صرف یہ رہ جاتا ہے کہ دنیا میں جس قدر عیش و عشرت کرسکتا ہے کرلے، جس جائز یا ناجائز طریقے سے مال آتا ہے آئے۔ ان کی نظروں میں یہ دنیا بس ایک تفریح گاہ رہ جاتی ہے جس میں ہر شخص کو اپنی حیثیت کے مطابق عیش و عشرت اور سیر و تفریح کر کے اس دنیا سے رخصت ہونا چاہیے۔ قیامت کے دن ایسے لوگوں سے سلوک بھی ان کے نظریہ کے مطابق کیا جائے گا۔ انہوں نے روز آخرت کو اور اللہ کے سامنے جوابدہی کو بھلایا تو اللہ بھی انہیں ایسے ہی بھلا دے گا وہ آگ میں جل رہے ہوں تو جلتے رہیں بھوکے پیاسے ہیں تو بھوکے پیاسے ہی رہیں انہیں نہ کچھ کھانے کو ملے گا نہ پینے کو۔ تاکہ دنیا میں جو عیاشیاں کرچکے ہیں ان کا ردعمل بھی دیکھ لیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَالْيَوْمَ نَنْسٰىهُمْ ۔۔ : آیت کے شروع میں کافروں کی علامات بیان کی گئی ہیں جنھوں نے اپنے دین کو دل لگی اور کھیل بنا لیا اور انھیں دنیوی زندگی کی فراوانی اور خوشحالی نے آخرت کے بارے میں دھوکے میں رکھا اور انھوں نے آخرت کو بھلا دیا اور اسی نسیان کے نتیجے میں انھیں نظر انداز کردیا گیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے سے ملے گا اور فرمائے گا : ” اے فلاں ! کیا میں نے یہ نہیں کیا کہ تجھے عزت بخشی ؟ تجھے سردار بنایا ؟ تیری شادی کی ؟ تیرے لیے گھوڑے اور اونٹ تابع کردیے اور تجھے کھلا چھوڑ دیا کہ لوگوں کا سردار بنے اور ان کی آمدنی کا چوتھا حصہ ٹیکس لے ؟ “ وہ کہے گا : ” کیوں نہیں، اے میرے رب ! “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” تو تو نے یقین کیا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے ؟ “ وہ کہے گا : ” نہیں ! “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” پھر میں بھی تجھے بھلا رہا ہوں جیسے تو نے مجھے بھلا دیا۔ “ [ مسلم، الزہد والرقائق، باب الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر : ٢٩٢٨، عن أبی ہریرہ (رض) ] یہاں نسیان کا معنی چھوڑ دینا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو بھولتا ہی نہیں، فرمایا : ( لَا يَضِلُّ رَبِّيْ وَلَا يَنْسَى) [ طٰہٰ : ٥٢ ] ” میرا رب نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ انھیں جہنم میں ڈال کر ان کی کوئی خبر نہیں لیں گے۔ یہاں بھلانے کے بدلے کو بھلانا فرمایا ہے، یعنی خواہ کتنا ہی پکاریں ان پر رحم نہیں کیا جائے گا۔ كَمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ يَوْمِهِمْ ھٰذَا ۙ: معلوم ہوا کہ دین کو لہو و لعب بنانے والے اور آیات الٰہی کا انکار کرنے والے وہی ہوتے ہیں جو آخرت اور اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو بھول جاتے ہیں اور دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ جِئْنٰہُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰہُ عَلٰي عِلْمٍ ہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝ ٥٢ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو تفصیل : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] ( ف ص ل ) الفصل التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَہْوًا وَّلَعِبًا وَّغَرَّتْہُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَاج ) (فَالْیَوْمَ نَنْسٰہُمْ کَمَا نَسُوْا لِقَآءَ یَوْمِہِمْ ہٰذَالا ) نسیان کے ایک معنی تو ہیں بھول جانا ‘ جبکہ اس کے دوسرے معنی ہیں جان بوجھ کر نظر انداز کرنا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35. The trialogue between the People of Paradise, the People of the Fire. and the People of the Heights gives some indication of the tremendous range of human faculties in the Next World. These faculties would increase to such an extent that the People of Paradise, the People of the Fire and the People of the Heights will be able to see, hear and talk to one another. Other Qur'anic statements about the Hereafter enable us to realize that the laws operating in the Next World will be altogether different from those in the present. Notwithstanding this, men's personalities will not undergo any such change. Those who cannot perceive any thing beyond the present limited world and who are incapable of imagining scales bigger than the ones relating to the present world, make fun of the statements in the Qur'an and Hadith about life in the Hereafter. This only betrays their poverty of understanding and imagination. The fact, however, is that the possibilities for life are not as narrow and limited as their minds.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :35 اہل جنت اور اہل دوزخ اور اصحاب الاعراف کی اس گفتگو سے کسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم آخرت میں انسان کی قوتوں کا پیمانہ کس قدر وسیع ہو جائے گا ۔ وہاں آنکھوں کی بینائی اتنے بڑے پیمانہ پر ہوگی کہ جنت اور دوزخ اور اعراف کے لوگ جب چاہیں گے ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے ۔ وہاں آواز اور سماعت بھی اتنے بڑے پیمانہ پر ہوگی کہ ان مختلف دنیاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے بآسانی گفت و شینید کر سکیں گے ۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے بیانات جو عالم آخرت کے متعلق ہمیں قرآن میں ملتے ہیں ۔ اس بات کا تصور دلانے کے لیے کافی ہیں کہ وہاں زندگی کے قوانین ہماری موجودہ دنیا کے قوانین طبیعی سے بالکل مختلف ہوں گے ، اگر چہ ہماری شخصیتیں یہی رہیں گی جو یہاں ہیں ۔ جن لوگوں کے دماغ اس عالم طبیعی کے حدود میں اس قدر مقیّد ہیں کہ موجودہ زندگی اور اس کے مختصر پیمانوں سے وسیع تر کسی چیز کا تصور ان میں نہیں سما سکتا وہ قرآن اور حدیث ان بیانات کو بڑے اچنبھے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بسا اوقات ان کا مذاق اُڑا کر اپنی خفیف العقلی کا مزید ثبوت بھی دینے لگتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان بیچاروں کو دماغ جتنا تنگ ہے زندگی کے امکانات اُتنے تنگ نہیں ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:51) الذین ۔۔ یہ نیا جملہ ہے اور یہاں سے کلام اللہ کی طرف سے ہے۔ اصحاب النار کی التجا اور اہل جنت کا جواب علی الکافرین پر ختم ہوگیا۔ الذین بمعنی جن لوگوں ۔ ما کانوا یجحدون۔ ما بمعنی کما۔ کانوا یجحدون۔ ماضی استمراری۔ وہ انکار کیا کرتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی وہ اسی کو سب کچھ سمجھے بیٹھے تھے خدا اور آخرت سے غافل تھے۔2 یہاں نیسان بمعنی ترک ہے یعنی دوزخ میں ڈال کر ان کی کوئی خبر نہ لیں گے یا یہاں جزائے ئ نسیان کو نسیان سے تعبیر فرمایا ہے یعنی آخرت خواہ کتنا ہی پکاریں ان پر کبھی رحم نہیں کیا جائئے گا۔3 یعنی دین کی عظمت احساس ان کے دلوں سے نکل چکا ہے اور دنیاوی زندگی نے ان کو غرور میں مبتلا کر رکھا ہے اس بنا پر وہ آیات الیٰ کا شدت سے انکار کر رہے ہیں حدیث میں ہے حب الدنیا راو کل خطیئتہ کہ دنیا کی محبت ہر خطا کی جڑ ہے ( رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اوپر تفصیل جزاوسزا کی بیان کی گئی ہے آگے یہ فرماتے ہیں کہ اس واشگاف بیان کا اور نیز دیگر مضامین قرآنیہ کا مقتضایہ ہے کہ کفر و مخالفت سے باز آجائیں چناچہ اہل ایمان اس سعادت سے مشرف ہوتے بھی ہیں لیکن کفار و معاندین کی اس درجہ قساوت بڑھی ہے کہ قبل وقوع سزا کے نہ مانیں گے لیکن اس وقوت ماننا کام نہ آئے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کا جہنم میں جانا اور ان پر جنت کی نعمتوں کا حرام ہونا اس لیے ہوگا کہ یہ دین کو کھیل تماشا سمجھتے ہوئے دنیا کی عیش و عشرت میں غرق ہو کر آخرت کو بھول چکے تھے۔ کھیل تماشا وقتی طور پر دل بہلانے اور ایک حد تک صحت کے لیے مفید ہوتا ہے بشرطیکہ اس میں وقت اور دولت کا ضیاع اور بےحیائی کا عنصر شامل نہ ہو۔ اگر یہ چیزیں کسی کھیل اور گیم میں شامل ہوجائیں تو فائدہ کے بجائے صحت اور وقت کا نقصان ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ کھیل کود انسان پوری زندگی اختیار نہیں کرسکتا کیونکہ کھیلنے کودنے سے آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہی زندگی بھر کوئی شخص اسے اختیار کرسکتا ہے۔ یہاں کھیل تماشا کا ذکر کرکے یہ بتلانا مقصود ہے کہ سنجیدہ انسان کے سامنے ایسی چیزوں کی کوئی حیثیت اور حقیقت نہیں ہوتی۔ جہنم میں داخل ہونے والوں کا دین کے ساتھ یہی رویہ تھا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو وقت کا ضیاع سمجھا، دین کے احکام کو ناروا پابندی جانا، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو اپنے لیے غلامی تصور کرتے ہوئے اس سے روگردانی کی اور دنیا کی لذّات، جاہ و حشمت اور ترقی میں اس طرح غرق ہوئے کہ دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں دائمی تصور کرلیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب انھیں سمجھانے والا سمجھانے کی کوشش کرتا تو اس کے ساتھ استہزاء اور جھگڑا کیا کرتے تھے جس کے بدلہ میں آج جہنم میں ان کی آہ وزاریوں کو یکسر فراموش کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے بھولنے سے مراد کسی قسم کا نسیان نہیں بلکہ اس کے بھولنے سے مراد یکسر طور پر مسترد کردینا ہے۔ بظاہر ” ھم “ کا اشارہ اہل مکہ کی طرف ہے لیکن قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بنی نوع انسان کو رہتی دنیا تک مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ انسان کی رہنمائی کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اس لیے اس میں ہدایت کے متعلق تمام تفصیلات اور ہدایات بیان کردی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اپنے قطعی اور جامع علم کے مطابق نازل فرمایا ہے یہی وجہ ہے اس کی ہدایت کے مقابلہ میں کوئی ہدایت اور رہنمائی نہیں ہوسکتی جو کچھ اس میں دنیا اور آخرت کے حوالے سے حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ وہ من و عن آج تک پورے ہوئے ہیں اور ہمیشہ عقل، علم اور سچائی کے اصولوں پر پورے اترتے رہیں گے۔ جو فرد اور قوم اس کی رہنمائی میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارے گی۔ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سزاوار ہوگی۔ ہر قسم کی کامیابی پاکر آخرت میں سرخرو ہوگی۔ لیکن رحمت اور ہدایت انھی لوگوں کو حاصل ہوگی جو قرآن مجید پر کامل ایمان لائیں گے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید تمام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ ٢۔ دین کو کھیل اور تماشا سمجھنے والا آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہدایت کے متعلق ہر بات کھول کر بیان کردی ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ : ١) ٢۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٣۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٤۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح کتاب ہے۔ (ھود : ١) ٥۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥) ٦۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس طرح اس طویل منظر کی جھلکیاں سامنے آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں ۔ ابھی آخرت کی جھلکی ہے اور ساتھ ہی دنیا کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے ۔ ایک لمحہ ہم اس ان لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو آگ میں جل رہے ہیں ‘ جن کا خیال تھا کہ وہ اللہ کے حضور پیش نہ ہوں گے اور جنہوں نے آیات الہی کا انکار کردیا تھا حالانکہ ان کے پاس کتاب مفصل آچکی تھی جو بالکل واضح تھی اور اس کی تفصیلات اللہ کے علم پر مبنی تھیں ۔ انہوں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور اپنی پسند کے ادہام اور شکوک کو اختیار کرلیا ۔ دوسرے ہی لمحہ ہم دیکھے ہیں کہ یہ یہی لوگ دنیا میں اس کتاب کے انجام کا انتظار کر رہے ہیں اس میں جو ڈراوے درج ہیں ان کے ظہور کے منتظر ہیں ۔ انہیں اس انجام بد سے ڈرایا جاتا ہے مگر اس منظر میں وہ واقع ہوچکا ہے ۔ یہ عجیب مناظر ہیں جو اس کتاب کے صفحات میں پیش کئے گئے اور انہیں اس انداز میں یہی کتاب معجز بیان پیش کرسکتی تھی ۔ اس طرح یہ طویل منظر کشی یہاں ختم ہوجاتی ہے اور اس پر اللہ کی جانب سے یہ آخر تبصرہ آتا ہے ‘ جس میں لوگوں کو ان مناظر قیامت کی روشن یاد دہانی کرائی جاتی ہے اور لوگوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ اللہ کے رسولوں اور اللہ کی آیات کی تکذیب کا انجام کیا ہو گا ؟ کہا جاتا ہے کہ لوگ اس کتاب میں دیئے گئے انجام کے بارے میں انتظار کرتے ہیں تو یہ ہے اس کا انجام اور اس انجام کے دنتوبہ کی کوئی گنجائش نہ ہوگی ۔ مشکلات میں کوئی سفارش نہ چلے گی اور یہ بھی ممکن نہ ہوگا کہ آزمائش کے لئے دوبارہ چانس دیا جائے ۔ یوں یہ منظر ختم ہوتا ہے اور انسان اس منظر میں گم رہتا ہے ۔ جب یہ منظر ختم ہوتا ہے تو دیکھنے والا یہ محسوس کرتا ہے گویا وہ قیامت کے میدان سے لوٹ کر دنیا میں آگیا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پلک جھپکتے ہی ہم آخرت میں چلے گئے اور واپس آگئے ۔ یہ پورے مناظر زندگی کے سفرپر مشتمل ہیں ۔ زندگی کا طویل سفر ‘ حشر ونشر اور حساب و کتاب اور جزا و سزاء جبکہ اس سے قبل کے سبق میں انسانیت نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا جبکہ انسان کے جد امجد جنت میں تھے ان کی لغزش کی وجہ سے انسان جنت سے اترا تھا ۔ یوں قرآن کریم انسان کو اور اس کے تصورات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں ‘ زمان ومکان کے دفتر لپیٹ دیئے جاتے ہیں ‘ فاصلے مٹ جاتے ہیں اور انسان کو ملکوت السماوات کی سیرکرائی جاتی ہے اور یہ سیر چند لمحات میں کرا دی جاتی ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑے اور ڈرانے والوں کی باتوں کی طرف توجہ کرے اور سورة اعراف کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے کیا خوب کہا ۔ آیت ” کِتَابٌ أُنزِلَ إِلَیْْکَ فَلاَ یَکُن فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنذِرَ بِہِ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ (2) اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَیْْکُم مِّن رَّبِّکُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِہِ أَوْلِیَاء قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُونَ (3) ” یہ کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ‘ پس اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو ۔ اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعے سے ڈراؤ اور ایمان والے لوگوں کو نصیحت ہو ۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں نے اپنے دین کو (جو اللہ نے ان کے لیے بھیجا تھا) لہو و لعب کھیل تماشا بنا دیا تھا اس کو قبول نہیں کرتے تھے اور الٹا اس کا مذاق بناتے تھے۔ دنیاوی زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈالا اسی کے لیے عمل کرتے رہے اور سب کچھ اسی کو سمجھتے رہے آخرت کے لیے فکر مند نہ ہوئے اور جس دین کے ذریعے آخرت میں نجات ہوتی اسے قبول کرنے سے دور رہے۔ (فَالْیَوْمَ نَنْسٰھُمْ کَمَا نَسُوْا لِقَآءَ یَوْمِھِمْ ھٰذَا) (اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے) یعنی ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں گے جو ایسے لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جن کی طرف رحمت کے ساتھ بالکل توجہ نہ کی جائے اور جنہیں ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے چونکہ انہوں نے آج کے دن یعنی یوم قیامت کو بھلا دیا تھا اور ہماری آیات کا انکار کرتے تھے اس لیے ان پر بالکل رحم نہ کیا جائے گا اور ان کی کوئی درخواست قبول نہ کی جائے گی اور ان کو دوزخ ہی میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

57: جنہوں نے دین کو ایک کھیل سمجھ رکھا ہے جس چیز کو چاہا حلال کرلیا اور جس کو چاہا حرام کرلیا فحرموا واحلوا ما شاء وا (مدارک ج 2 ص 42) فحرموا ما شاء وا واستحلوا ماشاء وا (روح المعانی) یا اس سے وہ بےاصل اور لا یعنی امور مراد ہیں جن کو انہوں نے دین سمجھ رکھا تھا مثلاً بیت اللہ کے پاس تالیاں اور سیٹیاں بجانا۔ ھو ما زین لھم الشیطان من تحریم البحائر والسوائب والمکاء والتصدیۃ حول البیت وسائر الخصال الذمیمۃ التی کانوا یفعلونھا فی زمان الجاھلیۃ (خازن ج 2 ص 194) آج کل قوالی کے نام سے سارنگی ڈھولک اور دیگر مزامیر کا استمعال بھی لہو و لعب میں داخل ہے جسے آجکل کے دین و شریعت سے بےبہرہ اور روحانیت سے کورے صوفی عین عبادت سمجھتے ہیں۔ 58: نسیان چوکنہ باری تعالیٰ کے لیے محال ہے اس لیے یہاں مجازاً نسیان ترک اور تاخیر کے معنوں میں ہے اور کَمَا نَسُوْا میں کاف تعلیل کے لیے ہے (روح) یعنی چونکہ انہوں نے یوم آخرت کی تیاری کے لیے اعمال صالحہ ترک کردئیے تھے اس لیے آج ہم ان کو عذاب میں مبتلا چھوڑ دیں گے۔ ای نترکھم فی عذابھا کما ترکوا العمل للقاء یومھم ھذا وھذا قول الحسن و مجاھد والسدی والاکثرین (کبیر ج 4 ص 317، خازن ج 2 ص 194) 59 یہ “ مَا نَسُوْا ” پر معطوف ہے اور آیا سے دلائل توحید مراد ہیں۔ کانوا بدلائل وحدانیتا یذبون (خازن) یہ ان کو عذاب مہین میں چھوڑنے کی دوسری علت ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل کی تکذیب کیا کرتے تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

5 1 یہ منکر وہ ہیں جنہوں نے اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنارکھا تھا کھیل کود کا نام انہوں نے دین رکھ لیا تھا اور دنیوی زندگی نے ان کو دھوکے اور فریب میں ڈال رکھا تھا اللہ تعالیٰ اہل جنت کی تصدیق فرمائے گا کہ جس طرح ان منکروں نے اپنے اس دن کے ملنے اور آنے کو فراموش کر رکھا تھا اور قیامت کا نام سننا ان کو گوارہ نہ تھا اور جیسا کہ یہ ہماری آیات اور دلائل توحید کا انکار کرتے تھے اسی لئے ہم بھی ان سے آج ایسا برتائو کریں گے جیسے فراموش کردہ اور بھولے ہوئے لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے یعنی جس طرح ان منکروں نے اپنے اس دن کی ملاقات کو بھلارکھا تھا اور اس دن کا نام بھی سننا نہیں چاہتے تھے یہی برتائو تو ان کے ساتھ کیا جائے گا اور ہم بھی ان کا نام نہیں لیں گے اور بھولے ہوئے آدمی کا سا برتائو کریں گے۔