Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 57

سورة الأعراف

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا سُقۡنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنۡزَلۡنَا بِہِ الۡمَآءَ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ کَذٰلِکَ نُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۵۷﴾

And it is He who sends the winds as good tidings before His mercy until, when they have carried heavy rainclouds, We drive them to a dead land and We send down rain therein and bring forth thereby [some] of all the fruits. Thus will We bring forth the dead; perhaps you may be reminded.

اور وہ ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ خوش کر دیتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم اس بادل کو کسی خشک سرزمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں پھر اس بادل سے پانی برساتے ہیں پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں یوں ہی ہم مردوں کو نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم سمجھو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Among Allah's Signs, He sends down the Rain and brings forth the Produce Allah tells; وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا ... And it is He Who sends the winds as heralds of glad tidings, After Allah stated that He created the heavens and earth and that He is the Owner and Possessor of the affairs Who makes things subservient (for mankind), He ordained that He be invoked in Du`a, for He is able to do all things. Allah also stated that He is the Sustainer and He resurrects the dead on the Day of Resurrection. Here, Allah said that He sends the wind that spreads the clouds that are laden with rain. Allah said in another Ayah, وَمِنْ ءَايَـتِهِ أَن يُرْسِلَ الرِّيَـحَ مُبَشِّرَتٍ And among His signs is this, that He sends the winds with glad tidings. (30:46) Allah's statement, ... بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ... going before His mercy, means, before the rain. Allah also said; وَهُوَ الَّذِى يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُواْ وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِىُّ الْحَمِيدُ And He it is Who sends down the rain after they have despaired, and spreads His mercy. And He is Al-Wali (the Guardian), Al-Hamid (the praiseworthy). (42:28) and, فَانظُرْ إِلَى ءَاثَـرِ رَحْمَةِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْىِ الاٌّرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَأ إِنَّ ذَلِكَ لَمُحْىِ الْمَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ Look then at the results of Allah's mercy, how He revives the earth after its death. Verily, that (is the one Who) shall indeed raise the dead, and He is able to do all things. (30:50) Allah said next, ... حَتَّى إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً ... Till when they have carried a heavy-laden cloud, when the wind carries clouds that are heavy with rain, and this is why these clouds are heavy, close to the earth, and their color is dark. Allah's statement, ... سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ ... We drive it to a land that is dead, that is, a dry land that does not have any vegetation. This Ayah is similar to another Ayah, وَءَايَةٌ لَّهُمُ الاٌّرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَـهَا And a sign for them is the dead land. We give it life. (36:33) This is why Allah said here, ... فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاء فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ كَذَلِكَ نُخْرِجُ الْموْتَى ... Then We produce every kind of fruit therewith. Similarly, We shall raise up the dead. meaning, just as We bring life to dead land, We shall raise up the dead on the Day of Resurrection, after they have disintegrated. Allah will send down rain from the sky and the rain will pour on the earth for forty days. The corpses will then be brought up in their graves, just as the seeds become grow in the ground (on receiving rain). Allah often mentions this similarity in the Qur'an when He gives the example of what will happen on the Day of Resurrection, and bringing life to dead land, ... لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ so that you may remember or take heed. Allah's statement,

تمام مظاہر قدرت اس کی شان کے مظہر ہیں اوپر بیان ہوا کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے ۔ سب پر قبضہ رکھنے والا ، حاکم ، تدبیر کرنے والا ، مطیع اور فرمانبردار رکھنے والا اللہ ہی ہے ۔ پھر دعائیں کرنے کا حکم دیا کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اب یہاں بیان ہو رہا ہے کہ رزاق بھی وہی ہے اور قیامت کے دن مردوں کو زندہ کر دینے والا بھی وہی ہے ۔ پس فرمایا کہ بارش سے پہلے بھینی بھینی خوش گوار ہوائیں وہی چلاتا ہے ( بشرا ) کی دوسری قرأت مبشرات بھی ہے ۔ رحمت سے مراد یہاں بارش ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ ۭ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيْدُ 28؀ ) 42- الشورى:28 ) وہ ہے جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد بارش اتارتا ہے اور اپنی رحمت کی ریل پیل کر دیتا ہے وہ والی ہے اور قابل تعریف ۔ ایک اور آیت میں ہے رحمت رب کے آثار دیکھو کہ کس طرح مردہ زمین کو وہ جلا دیتا ہے وہی مردہ انسانوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ بادل جو پانی کی وجہ سے بوجھل ہو رہے ہیں انہیں یہ ہوائیں اٹھالے چلتی ہیں یہ زمین سے بہت قریب ہوتے ہیں اور سیاہ ہوتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت زید بن عمرو بن نفیل رحمہ اللہ کے شعروں میں ہے میں اس کا مطیع ہوں جس کے اطاعت گذار میٹھے اور صاف پانی کے بھرے ہوئے بادل ہیں اور جس کے تابع فرمان بھاری بوجھل پہاڑوں والی زمین ہے ۔ پھر ہم ان بادلوں کو مردہ زمین کی طرف لے چلتے ہیں جس میں کوئی سبزہ نہیں خشک اور بنجر ہے جیسے آیت ( وایتہ لھم الارض ) میں بیان ہوا ہے پھر اس سے پانی برسا کر اسی غیر آباد زمین کو سر سبز بنا دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہم مردوں کو زندہ کر دیں گے حالانکہ وہ بوسیدہ ہڈیاں اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل گئے ہوں گے ۔ قیامت کے دن ان پر اللہ عزوجل بارش برسائے گا چالیس دن تک برابر برستی رہے گی جس سے جسم قبروں میں اگنے لگیں گے جیسے دانہ زمین پر اگتا ہے ۔ یہ بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے ۔ قیامت کی مثال بارش کی پیداوار سے دی جاتی ہے ۔ پھر فرمایا یہ تمہاری نصیحت کے لئے ہے ۔ اچھی زمین میں سے پیداوار عمدہ بھی نکلتی ہے اور جلدی بھی جیسے فرمان ہے آیت ( وانبتھا نباتا حسنا ) اور جو زمین خراب ہے جیسے سنگلاخ زمین شور زمین وغیرہ اس کی پیداوار بھی ویسی ہی ہوتی ہے ۔ یہی مثال مومن وکافر کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس علم و ہدایت کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے زمین پر بہت زیادہ بارش ہوئی زمین کے ایک صاف عمدہ ٹکڑے تھے ان پر بھی وہ پانی برسا لیکن نہ تو وہاں رکا نہ وہاں کچھ اگا ۔ یہی مثال اس کی ہے جس نے دین حق کی سمجھ پیدا کی اور میری بعثت سے اس نے فائدہ اٹھایا خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے سر ہی نہ اٹھایا اور اللہ کی وہ ہدایت ہی نہ لی جو میری معرفت بھیجی گئی ( مسلم و نسائی )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 اپنی الوہیت و ربوبیت کے اثبات میں اللہ تعالیٰ مزید دلائل بیان فرما کر پھر اس سے احیاء موتی کا اثبات فرما رہا ہے۔ بشرا بشیر کی جمع ہے، رحمۃ سے مراد یہاں مطر بارش ہے یعنی بارش سے پہلے وہ ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے جو بارش کی نوید ہوتی ہیں۔ 157۔ 2 بھاری بادل سے مراد پانی سے بھرے ہوئے بادل ہیں۔ 57۔ 3 ہر قسم کے پھل، جو رنگوں میں، ذائقوں میں، خوشبوؤں میں اور شکل و صورت میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ 57۔ 4 جس طرح ہم پانی کے ذریعے مردہ زمین روئیدگی پیدا کردیتے ہیں اور وہ انواع و اقسام کے غلہ اور پھل پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح قیامت والے دن تمام انسانوں کو، جو مٹی میں مل کر مٹی ہوچکے ہونگے ہم دوبارہ زندہ کریں گے اور پھر ان کا حساب لیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] خوف اور طمع سے پکارنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تمام امیدیں اللہ سے وابستہ رکھے اور اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو اور ڈرنا اس بات سے چاہیے کہ کسی غلطی یا تقصیر کی وجہ سے کہیں اللہ کی بارگاہ میں مردود ہی نہ جاؤں۔ دونوں پہلوؤں کو بہرحال ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ تاہم اللہ سے حسن ظن کا پہلو غالب رہنا چاہیے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی وفات سے تین دن پہلے فرمایا && تم میں سے ہر شخص کو مرتے وقت اللہ سے حسن ظن رکھنا ضروری ہے۔ && (مسلم۔ کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا باب الامر بحسن ظن باللہ تعالیٰ ) [٦١] مردہ زمین کی زندگی سے بعث بعد الموت پر استدلال :۔ اکثر دہریت پسندوں اور مشرکین مکہ کی دوسری زندگی کے انکار پر یہ دلیل ہوا کرتی کہ ہر چیز جو زمین میں چلی جاتی ہے مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتی ہے پھر دوبارہ ہم کس طرح اٹھا کھڑے کیے جائیں گے اس آیت میں ایسے لوگوں کی دلیل کا رد پیش کیا جا رہا ہے مثلاً یہ کہ ہر چیز جو زمین میں چلی جائے وہ مٹی نہیں ہوجاتی بلکہ مناسب موقع اور احوال سے اس میں زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک مثال تو غلے کا دانہ ہے جو زمین میں دبا دیا جاتا ہے اور جب اس کی مناسب آبیاری کی جاتی ہے اور موسم موافق ہوتا ہے تو اگ آتا ہے مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہوجاتا اور دوسری مثال یہ ہے کہ ایک زمین مدتوں سے بےکار اور بنجر پڑی ہے اس پر باران رحمت کا نزول ہوتا ہے تو جس جس درخت کے بیج اس میں کسی وقت گرے تھے اس مردہ زمین سے ان پھلوں کے بیجوں سے ان کے درخت اگ آتے ہیں وہ پڑے ہوئے بیج اس طویل مدت میں مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہوگئے اور اگر ہو بھی گئے تھے تو مناسب حالات ملنے پر اگ آئے۔ مردہ بیجوں میں زندگی پیدا ہوگئی اور مردہ زمین میں بھی بارش سے زندگی پیدا ہوگئی کہ اس سے مختلف قسم کے پھل اور طرح طرح کی نباتات پیدا ہونے لگیں اسی طرح انسانی جسم مٹی میں مل کر مٹی ہو بھی جائے تو بھی مناسب حالات ملنے پر اس میں زندگی کے آثار پیدا ہوجائیں گے اور انسان کی دوبارہ زندگی کے لیے مناسب وقت نفخہ ئصور ثانی ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ انسان کا جسم مٹی میں مل کر مٹی بن جاتا ہے صرف اس کی ریڑھ کی ہڈی کی دم جسے عجب الذنب کہتے ہیں باقی رہے گی اور یہی ہڈی بیج کا کام دے گی۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ جب صور میں دوسری بار پھونکا جائے گا تو لوگ زمین سے اس طرح اگ آئیں گے جیسے بارش سے نباتات اگ آتی ہے اور یہی اس آیت کا مطلب ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا : ” بُشْرًۢا “ یہ ” بَشِیْرٌ“ کی جمع ہے، یہ وزن مذکر و مؤنث دونوں کے لیے آتا ہے، یعنی ” مُبَشِّرَاتٌ“ خوش خبری دینے والیاں۔ ” رَحْمَتِہٖ “ سے مراد یہاں بارش ہے۔ دیکھیے سورة شوریٰ (٢٨) اور سورة روم (٤٦) ” ثِقَالًا “ یہ ” ثَقِیْلٌ“ کی جمع ہے، یعنی پانی کی کثرت سے بھاری۔ ” لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ “ مردہ شہر، یعنی جس زمین میں کوئی پودا نہیں اور نہ چرنے ہی کی کوئی چیز ہے۔ كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى۔۔ : بارش کے ساتھ مردہ زمین کی زندگی کو آخرت میں مردوں کو زندہ کرنے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے، یعنی جس ذات پاک نے مردہ زمین کو دم بھر میں زندہ کردیا وہ انسانوں کو بھی ان کے مرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرسکتی ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا جس سے لوگوں کے جسم اس طرح ( زمین سے) اگ پڑیں گے جس طرح سبزی اگتی ہے۔ “ [ مسلم، الفتن و أشراط الساعۃ، باب ما بین النفختین : ٢٩٥٥، عن أبی ہریرہ (رض) ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In previous verses, Allah Ta` ala has mentioned some of His major and particular blessings. By pointing out to the creation of the heavens and the earth, the day and night, and the sun, moon and stars and how they serve human beings, the lesson driven home is that there is no power other than the sacred Being of Allah Ta` ala to take care of our needs and comforts, then, it becomes necessary that we should pray to none but Him for everything we need and take this turning to Him as the key of our success. Mmmm48 Also mentioned in the first of the present verses are some other im¬portant blessings of this nature on which depends the existence and survival of human beings and the entire creation of the earth, for example, the rains and the trees, and farmlands and its produce. The dif¬ference is that the previous verses mentioned blessings relating to the upper domain while the present ones belong to the lower. (A1-Bahr Al-Muhit) Something special has been identified in the second verse where it is said that these great Divine blessings are, though common to all parts of the earth - as rains, when they come, fall on rivers and moun¬tains and on good and bad lands alike - but, what grows from the earth grows only from the land which has the quality to make it grow. Rocky and sandy lands do not derive benefit from these rains. The conclusion drawn from the first verse is that the sacred Being which enables dead land to live again should have no problems in making human beings who once lived, then died, come to life once again. The conclusion so drawn is very clear. Then, there is another conclusion drawn from the second verse. It tells us that the guidance coming from Allah Ta` ala, the revealed Books, the blessed prophets, and the teachings and training undertaken by their deputies, the ` Ulama& and Mashaikh are like the rains, common to every human be¬ing. But, the way every land does not derive benefit from the mercy of rains, very similarly, the benefit of this spiritual rain is derived by those who have the ability to absorb it. As for those whose hearts are like rocky and sandy land not having the ability to absorb it and make growth possible, they would keep sticking to their ways of error despite clear guidance and signs and scriptures. The conclusion thus drawn comes from the last sentence of the second verse which says: كَذَٰلِكَ نُصَرِّ‌فُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُ‌ونَ (Thus We alternate the verses for a people who pay gratitude). The sense is that the statement made was, though for everyone, yet, in the ultimate consequence, it proved beneficial only for those who had the capacity for it and real¬ized its worth and value. Thus, the two verses quoted here cover the subject of human origin and return. Now, we can go to a fuller explanation of these two verses. The first verse begins by saying: وَهُوَ الَّذِي يُرْ‌سِلُ الرِّ‌يَاحَ بُشْرً‌ا بَيْنَ يَدَيْ رَ‌حْمَتِهِ (And He is the One who sends the winds carrying good news before His blessings). Here, the word: رِیح (ar-riyah) is the plural form of rih which means the wind, and ` bushran& means good news or glad tidings, and ` rahmat& refers to the rain of mercy, that is, it is Allah Ta` ala Himself who sends the winds to announce the good news of the coming rain of mercy. The sense of the verse is that it is the customary ‘practice of Allah Ta` ala that He sends cool winds before the actual coming of rains which not only please people, but also, in a way, foretell that rains are coming much before they actually do. Therefore, these winds are a combination of two blessings. They themselves are beneficial for human beings and bracing for the creation in general. Then, they an¬nounce the rains before its coming. Human beings are a highly sensi¬tive model of creation. Rains may stop them from doing what they need to do. If they could naturally find out about the coming rains ahead of time, they would be able to manage things for themselves. In addition to that, one&s own person and belongings are not, at all times, defended against rains. By having early indications of rains, most would be able to take protective cover for themselves and their belong¬ings. Then, it was said: حَتَّىٰ إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا (until when they lift up the heavy clouds). The word: سَحَّاب (sahib) means the cloud and: ثِقَال (thiqal) is the plural of thaqil which means heavy, that is, when the winds lift up the heavy clouds. Heavy clouds refer to clouds laden with water. They would, as if, travel riding on the shoulders of the wind, and thus, this water weighing thousands of tons comfortably rides high on the wings of the wind. How wonderful is the Divine design which uses no machines nor lets human beings slave for it. It is as simple as it can be - when Allah Ta` ala wills, vapours from the waters start rising upwards, turn into clouds and what you have is a sky-filling plane carry¬ing a cargo of hundreds and thousands of gallons of water in its holds flying on the cushion of winds towards higher altitudes! After that, it was said: سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ : (We drive them to a dead land). The word: سُوق (sauq) means to drive, herd or urge on towards a desired destination, and ` balad& means a town or habitation, and ` mayyit& means dead. The verse, thus, means: ` When the winds lifted the heavy clouds up, We drove the clouds to a dead town.& Dead town refers to the habi¬tation rendered desolate because of an scarcity of water. That a town or habitation has been named here in place of a common open land is appropriate in view of the real purpose of sending the rain because it is designed to feed the thirsty land and enable it to produce what hu¬man beings need. The place to do so would be a habituated area, not an inhabituated forest primarily where the growth of vegetation is less likely to serve the initial purpose. Upto this point, the description in the quoted verses proves the fol¬lowing: (1) That rains come through clouds, as commonly observed. This tells us that verses in which raining from the sky has been men¬tioned, there too, the word: سَمَاء (sama& ) refers to clouds. Then, not im-probable is the likelihood that clouds originate directly from the skies - as opposed to monsoons originating from the waters - and bring rains. (2) That clouds go in a particular direction and over a particular land area is something related directly to Divine command. It is He who gives the command for rains to fall when He wills, where He wills and as much as He wills. The clouds implement the Divine command. It is something observed everywhere. There are occasions when a town or habitation would have heavy over-head clouds, and they would very much be in need of rains, but the clouds would not let them have even a drop of water. Instead, it would go to a town or habitation for which there is a quota of water as Divinely determined, and it would be only there that it would rain. No one has the ability or the daring to acquire water from these clouds at any other place, other than the town or habitation earmarked to have it. Weather scientists have determined rules about the movement of monsoons based on which they can tell the course of a monsoon rising from the waters of the sea and identify where and how much it would rain. There are meteorological bureaus set up for this purpose in many countries. But, experience shows that news released by these depart-ments frequently turn out to be contrary to fact. When what is con¬trary is the Divine command itself, their rules become ineffective. Winds and rain-laden clouds turn towards somewhere else, contrary to foretold news, and weather experts cannot do much about it. In addition to that, any other rules and regulations proposed by meteorologists, they too are not contrary to the proposition that the movement of clouds obeys the Divine command - because it is the cus¬tomary practice of Allah Ta` ala that, in all affairs of this world, the Divine command manifests itself from behind the curtains of physical causes. Human beings pick up these very causes and formulate some rule or regulation based on them. Otherwise, reality lies elsewhere. After that, it was said: فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَ‌جْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَ‌اتِ (We pour down water, then, with it We bring forth of all the fruits). And then, at the end of the verse, it was said: كَذَٰلِكَ نُخْرِ‌جُ الْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُ‌ونَ (This is how We bring forth all the dead [ on the day of Qiyamah ], so that you may observe advice). Thus, the sense of the verse is: ` The way We have given new life to the dead land and have brought out from it trees, flowers and fruits, similarly, on the day of Qiyamah, We shall have the dead rise once again after their having been dead. And these examples have been set forth so that you would have the opportunity to reflect and deliberate. According to a narration of Sayyidna Abu Hurairah (رض) the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: صُور (Sur : Horn) will be blown twice on the day of Qiyamah. On the first صُور Sur, the whole world will perish. Nothing will remain alive. On the second صُور Sur, a new world will come into being. The dead will become alive.& The Hadith also mentions ` an interval of forty years between the two blowings of the صُور Sur and rains would continue to fall throughout these forty years. During this peri¬od, the body parts of every dead human being and animal will become assembled into them giving everyone a complete skeleton. Then, at the time of the blowing of the second صُور Sur, رُوح Ruh (soul) will enter these corpses. They will rise alive.& A major portion of this narration can be seen in Al-Bukhari and Muslim. Some portions have been taken from Kitab al-Ba’ th of Ibn Abi Dawud.

خلاصہ تفسیر اور وہ (اللہ) ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ (بارش کی امید دلا کر دل کو) خوش کردیتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم اس بادل کو کسی خشک زمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں، پھر اس بادل سے پانی برساتے ہیں، پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں، (جس سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور قدرت مطلقہ مردوں کو زندہ کرنے کی ثابت ہوتی ہے، اس لئے فرمایا) یوں ہی (قیامت کے روز) ہم مردوں کو (زمین سے) نکال کھڑا کریں گے (یہ سب اس لئے سنایا) تاکہ تم سمجھو (اور قرآن اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت اگرچہ سب کے لئے عام ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانے والے کم لوگ ہوتے ہیں اس کی مثال اسی بارش سے سمجھ لو کہ بارش تو ہر زمین پر برستی ہے، مگر کھیتی اور درخت ہر جگہ نہیں پیدا ہوتے صرف ان زمینوں میں پیدا ہوتے ہیں جن میں صلاحیت ہے، اسی لئے فرمایا کہ) جو زمین ستھری ہوتی ہے اس کی پیداوار تو خدا کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس کی پیداوار (اگر نکلی بھی تو) بہت کم نکلتی ہے اسی طرح ہم (ہمیشہ) دلائل کو طرح طرح سے بیان کرتے رہتے ہیں (مگر وہ سب) انہی لوگوں کیلئے (نافع ہوتے ہیں) جو ( ان کی) قدر کرتے ہیں۔ معارف و مسائل سابقہ آیات میں حق تعالیٰ نے اپنی خاص خاص اور بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے، جس میں آسمان زمین، رات دن، چاند سورج اور عام ستاروں کی پیدائش اور ان کا انسان کی ضرورت مہیا کرنے اور اس کی خدمت میں لگے رہنے کا تذکرہ کرکے اس پر تنبیہ فرمائی ہے کہ جب ہماری ساری ضروریات اور ساری راحتوں کا سامان کرنے والی ایک ذات پاک ہے، تو ہر حاجت و ضرورت میں ہمیں دعا و درخواست بھی اسی سے کرنا چاہئے، اور اسی کی طرف رجوع کرنے کو اپنے لئے کلید کامیابی سمجھنا چاہئے۔ مذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں بھی اسی قسم کی اہم اور بڑی نعمتوں کا ذکر ہے، جن پر انسان اور زمین کی کل مخلوقات کی حیات وبقاء کا مدار ہے، مثلاً بارش اور اس سے پیدا ہونے والے درخت اور کھیتیاں، ترکاریاں وغیرہ، فرق یہ ہے کہ پچھلی آیات میں نعمتوں کا ذکر تھا، جو عالم علوی سے متعلق ہیں، اور اس میں ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جو عالم سفلی سے متعلق ہیں (بحر محیط) اور دوسری آیت میں ایک خاص بات یہ بتلائی گئی ہے کہ ہماری یہ عظیم الشان نعمتیں اگرچہ زمین کے ہر حصہ پر عام ہیں، بارش جب برستی ہے تو دریا پر بھی برستی ہے پہاڑ پر بھی، بنجر اور خراب زمین اور عمدہ اور بہتر زمین سب پر یکساں برستی ہے، لیکن کھیتی، درخت، سبزی صرف اسی زمین میں پیدا ہوتی ہے جس میں اگانے کی صلاحیت ہے، پتھریلی اور ریتلی زمینیں اس بارش کے فیض سے مستفید نہیں ہوتیں۔ پہلی آیت سے یہ نتیجہ نکال کر بتلایا گیا کہ جو ذات پاک مردہ زمین میں نشوونما کی زندگی عطا فرما دیتی ہے، اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ جو انسان پہلے سے زندہ تھے پھر مرگئے، ان میں دوبارہ زندگی پیدا فرما دے، اسی نتیجہ کو اس آیت میں واضح طور پر بتلا دیا گیا، اور دوسری آیت سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت، آسمانی کتابیں اور انبیاء (علیہم السلام) پھر ان کے نائب، علماء و مشائخ کی تعلیم و تربیت بھی بارش کی طرح ہر انسان کے لئے عام ہے، مگر جس باران رحمت سے ہر زمین فائدہ نہیں اٹھاتی، اسی طرح اس روحانی بارش کا فائدہ بھی صرف وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جن میں یہ صلاحیت ہے، اور جن لوگوں کے قلوب پتھریلی یا ریتلی زمین کی طرح نشوونما کی قابلیت نہیں رکھتے وہ تمام واضح ہدایات اور آیات بینات کے باوجود اپنی گمراہی پر جمے رہتے ہیں۔ اس نتیجہ کی طرف دوسری آیت کے آخری جملہ سے اشارہ فرمایا (آیت) كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ ، یعنی ہم اسی طرح اپنے دلائل کو طرح طرح سے بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو قدر کرتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ اگرچہ فی الواقع یہ بیان تو سب ہی کے لئے تھا مگر نتیجہ کے طور پر مفید ہونا، انہی لوگوں کے لئے ثابت ہوا جن میں اس کی صلاحیت ہے، اور وہ اس کی قدر و منزلت پہچانتے ہیں، اس طرح مذکورہ دو آیتیں مبدا و معاد کے اہل مسائل پر مشتمل ہوگئیں، اب ان دونوں آیتوں کو تفصیل کے ساتھ سمجھنے کے لئے سنئے پہلی آیت میں ارشاد ہے (آیت) وَهُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ ، اس میں ریاح ریح کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ہوا، اور بشرا کے معنی بشارت اور خوش خبری، اور رحمت سے مراد باران رحمت ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو بھیجتا ہے باران رحمت سے پہلے ہوائیں خوش خبری دینے کے لئے۔ مطلب یہ ہے کہ عام عادة اللہ یہ ہے کہ بارش سے پہلے ایسی ٹھنڈی ہوائیں بھیجتے ہیں جن سے خود بھی انسان کو راحت و بشاشت ہوتی ہے، اور وہ گویا آنے والی بارش کی خبر بھی پہلے دیدیتی ہیں، اس لیے یہ ہوائیں دو نعمتوں کا مجموعہ ہے، خود بھی انسان اور عام مخلوقات کے لئے نافع و مفید ہیں، اور بارش کے آنے سے پہلے بارش کی وجہ سے بند ہوجاتی ہیں، جب بارش کی اطلاع کچھ پہلے مل جائے تو وہ اپنا انتظام کرلیتا ہے، اس کے علاوہ خود اس کا وجود اور اس کا سامان بارش کا متحمل نہیں، وہ بارش کے آثار دیکھ کر اپنے سامان اور اپنی جان کی حفاظت کا سامان کرلیتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا : حَتّٰى اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا کے معنی بادل اور ثقال ثقیل کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں بھاری، یعنی جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں بھاری بادلوں سے مراد پانی سے بھرے ہوئے بادل ہیں، جو ہوا کے کاندھوں پر سوار ہو کر اوپر جاتے ہیں، اور اس طرح یہ ہزاروں من کا وزنی پانی ہوا پر سوار ہو کر اوپر پہنچ جاتا ہے، اور حیرت انگیز یہ بات ہے کہ نہ اس میں کوئی مشین کام کرتی ہے نہ کوئی انسان اس میں محنت کرتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوجاتا ہے تو خود بخود دریا سے بخارات (مان سون) اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں، اور اوپر جاکر بادل بنتا ہے، اور یہ ہزاروں بلکہ لاکھوں گیلن پانی سے بھرا ہو جہاز خود بخود ہوا کے دوش پر سوار ہو کر آسمان کی طرف چڑھتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا : سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ ، سَوق کے معنی کسی جانور کو ہانکنے اور چلانے کے ہیں، اور بَلَد کے معنی شہر اور بستی کے ہیں، میّت کے معنی مردہ۔ معنی یہ ہیں کہ ” جب ہواؤں نے بھاری بادلوں کو اٹھا لیا تو ہم نے ان بادلوں کو ہانک دیا، ایک مرے ہوئے شہر کی طرف “۔ مرے ہوئے شہر سے مراد وہ بستی ہے جو پانی نہ ہونے کے سبب ویران ہو رہی ہے، اور اس جگہ بجائے عام زمین کے خصوصیت سے شہر اور بستی کا ذکر کرنا اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اصل مقصد برق و باراں اور ان سے زمین کی سیرانی کا انسان کی ضروریات مہیا کرنا ہے جس کا مسکن شہر ہے، ورنہ جنگل کی سرسبزی خود کوئی مقصد نہیں۔ یہاں تک آیت مذکورہ کے مضمون سے چند اہم چیزیں ثابت ہوئیں، اول یہ کہ بارش بادلوں سے برستی ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جن آیات میں آسمان سے بارش برسنا مذکور ہے، وہاں بھی لفظ سماء سے بادل مراد ہے، اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ کسی وقت دریائی مان سون کی بجائے براہ راست آسمان سے بادل پیدا ہوجائیں اور ان سے بارش ہوجائے۔ دوسرے یہ کہ بادلوں کا کسی خاص سمت اور خاص زمین کی طرف جانا یہ براہ راست حکم خداوندی سے متعلق ہے وہ جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں جس قدر چاہتے ہیں بارش برسانے کا حکم دیدیتے ہیں، بادل فرمان الٓہی کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس کا مشاہدہ ہر جگہ اس طرح ہوتا رہتا ہے کہ بسا اوقات کسی شہر یا بستی پر بادل چھایا رہتا ہے، اور وہاں بارش کی ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن وہ بادل یہاں ایک قطرہ پانی کا نہیں دیتا، بلکہ جس شہر یا بستی کا کوٹہ بحکم الٓہی مقرر ہوچکا ہے وہیں جاکر برستا ہے، کسی کی مجال نہیں کہ اس شہر کے علاوہ کسی اور جگہ اس بادل کا پانی حاصل کرلے۔ قدیم و جدید فلاسفہ نے مان سون اور ہواؤں کی حرکت کے لئے کچھ ضابطے اور اصول نکال رکھے ہیں، جن کے ذریعہ وہ بتلاتے ہیں کہ فلاں مان سون جو فلاں سمندر سے اٹھا ہے کس طرف جائے گا، کہاں جاکر برسے گا، کتنا پانی برسائے گا، عام ممالک میں موسمیات کے محکمے اسی قسم کی معلومات مہیا کرنے کے لئے قائم کئے جاتے ہیں، لیکن تجربہ شاہد ہے کہ محکمہ موسمیات کی دی ہوئی خبریں بکثرت غلط ہوجاتی ہیں، اور جب امر الٓہی ان کے خلاف ہوتا ہے تو ان کے سارے ضابطے قاعدے دھرے رہ جاتے ہیں، ہوائیں اور مان سون اپنا رخ ان کی دی ہوئی خبروں کے خلاف کسی دوسرے سمت کو پھیر لیتی ہیں، اور موسمیات کے محکمے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو ضابطے قاعدے ہواؤں کی حرکت کے لئے فلاسفہ نے تجویز کئے ہیں وہ بھی کچھ اس کے منافی نہیں ہیں کہ بادلوں کا حمل و نقل فرمان الٓہی کے تابع ہے، کیونکہ عادت اللہ تعالیٰ کی اس عالم کے تمام کاروبار میں یہی ہے کہ حکم خداوندی اسباب طبیعہ کے پردوں میں ظاہر ہوتا ہے، ان اسباب طبیعہ سے انسان کوئی ضابطہ قاعدہ بنا لیتا ہے، ورنہ حقیقت وہی ہے جو حافظ شیرازی رحمة اللہ علیہ نے بتلائی ہے کہ کار زلف تست مشک افشانی اماّ عاشقاں مصلحت راتہمتی برآ ہوئے چیں بستہ اند اس کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ یعنی ہم نے اس مردہ شہر میں پانی برسایا پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل پھول نکالے۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا کذلک نخرج، ” یعنی ہم اسی طرح نکالیں گے مردوں کو قیامت کے روز، شاید تم سمجھو “۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے مردہ زمین کو زندہ کیا اور اس میں سے درخت اور پھل پھول نکالے اسی طرح بروز قیامت مردوں کو دوبارہ زندہ کرکے نکال کھڑا کریں گے، اور یہ مثالیں ہم نے اس لئے بیان کی ہیں کہ تمہیں سوچنے اور غور کرنے کا موقع ملے۔ بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت میں صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا، پہلے صور پر تمام عالم فنا ہوجائے گا کوئی چیز زندہ باقی نہ رہے گی، اور دوسری صور پر پھر از سر نو نیا عالم پیدا ہوگا، اور سب مردے زندہ ہوجائیں گے، حدیث مذکور میں ہے کہ ان دونوں مرتبہ کے صور کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا، اور ان چالیس سال میں مسلسل بارش ہوتی رہے گی، اسی عرصہ میں ہر مردہ انسان اور جانور کے اجزاء بدن اس کے ساتھ جمع کرکے ہر ایک کا مکمل ڈھانچہ بن جائے گا، اور پھر دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے وقت ان لاشوں کے اندر روح آجائے گی، اور زندہ ہو کر کھڑے ہوجائیں گے، اس روایت کا اکثر حصہ بخاری و مسلم میں موجود ہے، بعض اجزاء ابن ابی داؤد کی کتاب البعث سے لئے گئے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُہٗ بِـاِذْنِ رَبِّہٖ۝ ٠ ۚ وَالَّذِيْ خَبُثَ لَا يَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ۝ ٥٨ ۧ نبت النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] ( ن ب ت ) النبت والنبات ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ خبث الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث . ( خ ب ث ) المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔ نكد النَكَدُ : كُلُّ شيءٍ خَرَجَ إلى طالبِهِ بتعسُّر، يقال : رَجُلٌ نَكَدٌ ونَكِدٌ ، ونَاقَةٌ نَكْدَاءُ : طَفِيفَةُ الدَّرِّ صَعْبَةُ الحَلْبِ. قال تعالی: وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58] ( ن ک د ) النکد ہر وہ چیز جو صعوبت سے حاصل ہو اسی سے سخت خوکر جو سائل کو مشکل کچھ دینے پر راضی ہو ۔ نکد ونکدا کہا جاتا ہے اور کم دودھ والی اونٹنی کو جو بمشکل دو ہی جاسکے ناقۃ نکداء کہتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58] اور جو خراب ہے اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧) وہ بارش سے قبل ہوا کو خوشی کا باعث بنا کر بھیجتا ہے جب وہ ہوائیں ایسے بادلوں کو جو پانی سے وزنی ہوں اٹھالیتی ہیں، پھر ہم ایسی جگہ پر جہاں سبزہ نہیں ہوتا، اسے برسادیتے ہیں اور اس بارش کے ذریعے اس جگہ مختلف قسموں کے پھل اگاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم چٹیل زمین میں سبزیاں اگاتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو قبروں سے نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم لوگ نصیحت حاصل کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (وَہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًام بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ ط) ۔ یعنی ابر رحمت سے پہلے ہواؤں کے ٹھنڈے جھونکے گویا بشارت دے رہے ہوتے ہیں کہ بارش آنے والی ہے۔ اس کیفیت کا صحیح ادراک کرنے کے لیے کسی ایسے خطے کا تصور کیجیے جہاں زمین مردہ اور بےآب وگیاہ پڑی ہے ‘ لوگ آسمان کی طرف نظریں لگائے بارش کے منتظر ہیں۔ اگر وقت پر بارش نہ ہوئی تو بیج اور محنت دونوں ضائع ہوجائیں گے۔ ایسے میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جب باران رحمت کی نوید سناتے ہیں تو وہاں کے باسیوں کے لیے اس سے بڑی بشارت اور کیا ہوگی۔ (حَتّٰیٓ اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً ) یہ بادل کس قدر بھاری ہوتے ہوں گے ‘ ان کا وزن انسانی حساب و شمار میں آنا ممکن نہیں۔ اللہ کی قدرت اور اس کی حکمت کے سبب لاکھوں ٹن پانی کو ہوائیں روئی کے گالوں کی طرح اڑائے پھرتی ہیں۔ (سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ ) تو ہم ہانک دیتے ہیں اس (بادل) کو ایک مردہ زمین کی طرف ہوائیں ہمارے حکم سے اس بادل کو کسی بےآب وگیاہ وادی کی طرف لے جاتی ہیں اور باران رحمت اس وادی میں ایک نئی زندگی کی نوید ثابت ہوتی ہے۔ (فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ط) بارش کے بعد وہ خشک اور مردہ زمین گھاس ‘ فصلوں اور پھلدار پودوں کی روئیدگی کی شکل میں اپنے خزانے اگل دیتی ہے ۔ (کَذٰلِکَ نُخْرِجُ الْموْتٰی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ) ۔ دراصل بادلوں اور ہواؤں کے مظاہر کی تفصیل بیان کر کے ایک عام ذہن کو تشبیہہ کے ذریعے سے بعث بعد الموت کی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے۔ یعنی مردہ زمین کو دیکھو ! اس کے اندر زندگی کے کچھ بھی آثار باقی نہیں رہے تھے ‘ حشرات الارض اور پرندے تک وہاں نظر نہیں آتے تھے ‘ اس زمین کے باسی بھی مایوس ہوچکے تھے ‘ لیکن اس مردہ زمین پر جب بارش ہوئی تو یکا یک اس میں زندگی پھر سے عود کر آئی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ع مگر اب زندگی ہی زندگی ہے موجزن ساقی ! کی مجسم تصویر بن گئی۔ بنجر زمین ہریالی کی سبز پوشاک پہن کر دلہن کی طرح سج گئی۔ حشرات الارض کا اژدہام ! پرندوں کی زمزمہ پردازیاں ! اس کے باسیوں کی رونقیں ! گویا بارش کے طفیل زندگی پوری چہل پہل کے ساتھ وہاں جلوہ گر ہوگئی۔ اس آسان تشبیہہ سے ایک عام ذہنی استعداد رکھنے والے انسان کو حیات بعد الموت کی کیفیت آسانی سے سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ زمین کے اندر پڑے ہوئے مردے بھی گویا بیجوں کی مانند ہیں۔ جب اللہ کا حکم آئے گا ‘ یہ بھی نباتات کی مانند پھوٹ کر باہر نکل آئیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

33: یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ ایک مردہ زمین میں جان ڈال دیتا ہے اسی طرح وہ مردہ انسانوں میں بھی جان ڈالنے پر قادر ہے، مردہ زمین کے زندہ ہونے کے واقعات تم روز مرہ دیکھتے ہو اور یہ بھی مانتے ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوتا ہے اس سے تمہیں سبق لینا چاہئے کہ انسانوں کو دوبارہ زندگی دینے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر سمجھنا کتنی بڑی بے وقوفی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(57 ۔ 58) ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت شریف میں اپنی قدرت کو بیان فرمایا کہ جس طرح ہم دنیا میں تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوائیں چلاتے ہیں اور پھر مینہ برساتے ہیں اور اس سے ہر قسم کا سبزہ نکالتے اسی طرح ہم قیامت کے دن مردوں کو قبروں سے نکالیں گے اس واسطے فرمایا شاید تم سوچو دھیان کرو مینہ کی مثال سے ایک یہ مطلب بھی نکل سکتا ہے کہ جاہل لوگوں میں آسمانی کتاب اور رسولوں کی معرفت علم وہدایت بھیجی جس کے سبب سے اچھے استعداد والے ہر ایک طرح کے کمال کو پہنچ گئے جسے عمدہ زمین میں اچھی پیدا وار ہوتی ہے اور بری استعداد والے لوگ مثل بری زمین کے ہیں کہ جو کچھ اس میں سے نکلے وہ ناقص ہوتا ہے مجاہد وغیرہ نے کہا کہ بری زمین جیسے کوڑا ڈالنے کی زمین صحیح بخاری اور مسلم ونسائی میں ابوموسی اشعری (رض) سے روایت ہے کہ پیغمبر صلعم نے فرمایا مثال اس علم وہدایت کی جو خدا نے مجھ کو دے کر بھیجا ہے مانند مینہ کے ہے پھر جو زمین اچھی تھی اس نے اس پانی کو لے کر بہت اچھا سبزہ اگایا اور جو زمین نشیب میں تھی اس نے اس پانی کو روک رکھا جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پانی لینے کا فائدہ پہنچایا کہ انہوں نے اس پانی کو خود بھی پیا اور لوگوں کو بھی پلایا اور ایک قطعہ زمین کا چٹیل تھا کہ جس نے نہ پانی کو روکا اور نہ کچھ سبز اگایا سو پہلی مثال اور دوسری مثال اس شخص کی ہے جس نے اس علم و ہدایت سے جو خدا نے مجھے دیکر بھیجا آپ بھی فائدہ اٹھایا اور لوگوں کو بھی نفع پہنچایا اور دوسری مثال اس شخص کی کہ جس نے میری لائی ہوئی ہدایت کو قبول نہ کیا اور نہ اس سے خود فائدہ اٹھایا اور نہ اور کو نفع دیا مانند اس زمین کے ہے کہ جس نے نہ خود پانی لے کر سبزہ اگایا اور نہ اس پانی کو روکا و جمع کیا تاکہ اور لوگ اس کو پیتے پلاتے یہ حدیث مختصر طور پر کئی جگہ گزر چکی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اس حدیث میں تین قسم کی زمین کا ذکر فرمایا اور مینہ کا ایک ہی پانی تینوں قسم کی زمین پر برستا ہے مگر اثر ہر ایک زمین کا الگ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اس آیت میں مثال شہر پاکیزہ اور ناپاک کی فرمائی ہے یہ واسطے مومن اور کافر کے بیان فرمائی ہے اور ایسا ہی مجاہد کا قول ہے بہر حال اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ آیتیں پھیر پھار کر کے واسطے اس قوم کے جو اس کا شکر کرتے ہیں بیان فرمائیں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گزر چکی ہے جس میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پہلے صور سے جب تمام دنیا اجڑ جاوے گی تو پھر دوسرے صور سے پہلے ایک مینہ برسیگا جس سے سب مردوں کے جسم تیار ہوجاویں گے اور پھر ان میں روحیں پھونک دی جاویگی اور حشر قائم ہوجاویگا۔ قرآن شریف میں جگہ جگہ مینہ کے پانی سے زمین کے پیداوار کے ساتھ حشر کا ذکر جو آیا ہے اس کے حاصل یہ ہے کہ گہرے ابر اور تیز ہوا کو دیکھ کر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ متغیر ہوجایا کرتا تھا اور آپ نہایت خوف زدہ ہو کر فرمایا کرتے تھے کہ پچھلی قومیں اسی گہرے ابر اور تیز ہوا کے عذاب سے ہلاک ہوگئی ہیں اس واسطے گہرے ابر اور تیز ہوا کو دیکھ کر میرے دل پر ایک طرح کا خوف چھا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اب بھی امت کے لوگوں کو گہرے ابر اور تیز ہوا کیوقت اس حالت کی پابندی مستحب ہے اگرچہ حکما کا قول تو یہ ہے کہ دنیا کے دریاؤں کے بخارات اوپر چڑہتے ہیں اور ہوا کی ٹھنڈک سے جو بخارات زیادہ کثیف ہوجاتے ہیں انکا نام بادل ہے اور جو کم کثیف ہونے کے سبب سے زمین پر آن پڑتے ہیں ان کا نام مینہ ہے لیکن شرع میں جو مینہ کا ذکر آیا ہے اس سے یہ قول ضعیف معلوم ہوتا ہے کیونکہ مثلا حضرت نوح کے طوفان کا قصہ جو سورة القمر میں آویگا اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ففتحنا ابواب السماء بماء منہمہ جس کا مطلب یہ ہے کہ طوفان کے وقت اس کثرت سے اللہ تعالیٰ کو مینہ برسانا منظور تھا کہ زمین پر کثرت سے پانی آنے کے لئے اس وقت آسمان کے دروازے کھول دئے گئے تھے تاکہ آسمان پر کے دریاؤں کا بےانتہا پانی زمین پر آجاوے۔ اب اس سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ مینہ کے برسنے میں دنیا کے دریاؤں کے انجرات کا کچھ دخل نہیں ہے بلکہ مینہ کا پانی آسمان سے آتا ہے معمولی مینہ کے وقت معمولی طور پر آسمان کے دریاؤں کا پانی ہوا کہ ذریعہ سے بارشوں میں آتا ہے اور طوفان کے وقت غیر معمولی طور پر زیادہ پانی زمین پر آنے کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئے گئے تھے مسند امام احمد صحیح مسلم ابوداؤد میں انس (رض) بن مالک کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مینہ کا پانی حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بدن پر برکت کے طور پر ملا اور فرمایا یہ پانی ابھی اللہ تعالیٰ کے پاس سے آیا ہے اس حدیث سے بھی حکما کے قول کا ضغیف ہونا پایا جاتا ہے کیونکہ زمین کے انجرات سے اگر مینہ کا پانی بن جاتا تو اللہ کے رسول اس کو اتنا متبرک کیوں گنتے اور یہ کیوں فرماتے کہ یہ پانی ابھی اللہ تعالیٰ کے پاس سے آیا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک (رض) کی معراج کی بڑی حدیث ہی جس میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سدرۃ المن تھے کے پاس جو دریا ہے اس میں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں نیل اور فرات بھی اس میں سے نکلے ہیں اس حدیث سے آسمان پر دریا کا ہونا ثابت ہوتا ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:57) بشرا۔ خوشخبری دینے والی بشر بروزن فعل بشیرۃ کی جمع ہے (ہوائیں آنے والی بارش کی خوشخبری دیتی ہیں) بین یدی۔ بین۔ درمیان ۔ بیچ۔ جب اس کی اضافت ایدی (ہاتھوں ) کی طرف ہو تو اس کے معنی سامنے اور قریب کے ہوتے ہیں۔ جیسے ثم لاتینھم من بین ایدیہم (7:17) پھر میں ضرور آؤں گا ان پر سامنے سے۔ یا اس کے معنی قبل (پہلے) کے ہوتے ہیں۔ مثلاً آیۃ ہذا۔ بین یدی رحمتہ۔ اس کی رحمت سے پہلے (یہاں رحمت سے مراد بارش ہے) اقلت۔ قلت اور کثرت اصل وضع کے لحاظ سے صفات عدد سے ہیں جس طرح کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں۔ بعدہ کثرت و قلت اور عظم و صغر میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے۔ مثلاً قم الیل الا قلیلا (73:2) رات کو قیام کرو مگر تھوڑی رات۔ اس میں قلیل کا استعمال تعداد کے لئے نہیں بلکہ وقت کی کمی کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ باب (افعال) سے اقلال کے معنی قلیل پانے یا ہلکا سمجھنے کے ہیں۔ کسی چیز کو ہلکا سمجھنا محض حکمی ہوتا ہے مثلاً اقللت ما اعطیتنی میں نے تمہارے دیئے کو حقیر سمجھا۔ اور کبھی اس شے کی قوت کے اعتبار سے ہوتا ہے جیسے آیۃ ہذا میں ہے۔ اذا اقلت سحابا ثقالا جب وہ بھاری بھاری پتھروں کو اٹھا لاتی ہے۔ یہاں اقلت کہہ کر اشارہ فرمایا ہے کہ وہ بادل جن کو اٹھا لاتی ہے اگرچہ فی نفسہ بھاری ہوتے ہیں لیکن ہوا کی قوت کے اعتبار سے نہایت ہلکے ہیں اقلت بمعنی حملت ہے۔ سقنہ۔ ساق یسوق سوق (باب نصر) سے ماضی جمع متکلم ہ ضمیر واحد مذکر غائب ہم اسے بانک لیجاتے ہیں۔ (ماضی بمعنی مضارع) ۔ لبلد میت۔ ویران بستی۔ خشک و بےگیاہ علاقہ۔ فانزلنا بہ۔ پھر ہم اس سے اتارتے ہیں۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ (1) یہ بلد میت کی طرف بھی راجع ہوسکتا ہے اور معنی ہوں گے ہم پانی کو ویران بستی پر اتارتے ہیں۔ (2) یا یہ سحاب کے لئے ہے کہ ہم ان بادلوں سے پانی اتارتے ہیں۔ (3) یا یہ سوق کے لئے ہے۔ کہ ہمارا ان کا ہانک کر لیجانا ویران بستی پر پانی برسانے کے لئے ہے۔ اکرجنا بہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب الماء کے لئے ہے۔ لعلکم تذکرون۔ تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ یعنی یہ مثال تمہیں اس لئے دی ہے کہ اس سے تم یہ نصیحت قبول کرلو کہ اسی طرح وہ تم کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دیگا اور قیامت وقوع ہوگی ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یہاں رحمت سے راد بارش ہے۔ ( شوکانی)4 جیسے پانی سے ہر طرح کے پھل نکالتے ہیں۔ (وحیدی)5 یعنی جس ذات پاک نے مردہ زمین کو دم بھر میں زندہ کردیا وہ انسانوں کو بھی ان کے مرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرسکتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ ( شوکانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی قیامت کے روز

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن رابط کلام : یہ اللہ کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ وہ پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل بارش کے نزول سے پہلے ہی مسرور ہوجائیں اور اپنا سازو سامان سنبھال لیں۔ پھر وہ بارش سے مردہ زمین، مرجھائی فصلوں اور مضمل طبیعتوں کو شاداں اور فرحان کردیتا ہے۔ بارش کا ذکر فرما کر انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ دعا کے بعد اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے لہٰذا دعا توبہ اور عاجزی کے ساتھ مانگا کرو۔ جو شخص توحید کے منافی عقیدہ رکھتا اور اللہ کے سوا غیروں سے مانگتا ہے وہ زمین میں فساد کا موجب بنتا ہے اب پھر توحید کے آفاقی دلائل کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ صرف ایک ہی ذات کبریا ہے جو کائنات کا نظام سنبھالے ہوئے ہے اسی کے حکم سے ہواؤں اور فضاؤں میں تبدیلی آتی ہے یہ اسی کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل ٹھنڈی ہوا سے مسرور ہوجائیں اور بارش آنے سے قبل اپنا سازوسامان سنبھال لیں۔ گھٹا ٹوپ ہوائیں نہ معلوم بادلوں کو کہاں سے کہاں اٹھائے ہوئے ہزاروں میل دور لے جاتی ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوتا ہے وہیں بارش کا نزول ہوتا ہے اس طرح اجڑی ہوئی بستیاں تروتازہ ویران کھیتیاں شاداب اور نہ صرف مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے بلکہ فضا مہلک جراثیم سے پاک اور درختوں کا پتہ پتہ گردوغبار سے صاف ہوجاتا ہے ہر سو سہانا موسم جس سے روحانی اور جسمانی طور پر تسکین پہنچتی ہے اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ میوہ جات سے اپنے بندوں کو لطف اندوز ہونے کا موقعہ فراہم کرتا ہے بارش کی مثال سے استدلال پیش کرتے ہوئے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا عقیدہ سمجھایا گیا ہے کہ لوگو ! غور کرو کہ اگر مردہ زمین کو زندہ کیا جاسکتا ہے اور اس میں مدتوں پڑے ہوئے بیج باغ و بہار کا منظر پیش کرسکتے ہیں تو کیا انسان کو پیدا کرنا خالق کل کے لیے مشکل ہے ؟ ہرگز نہیں اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ تمہیں پیدا فرمائے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ اَرْبَعُوْنَ قَالُوْ یَا اَبَا ھُرَیْرۃَ اَرْبَعُوْنَ یَوْمًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ شَھْرًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَبَیْتُ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْ نَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ )[ متفق علیہ ] وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمِ قَالَ کُلُّ اِبْنِ اٰدَمَ یَاکُلُہٗ التُّرَاب الاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْہُ خُلِقَ وَفِیْہِ یُرَکَّبُ [ متفق علیہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے کہا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ہیں ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں ؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ روز قیامت اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کو مٹی کھاجائے گی۔ لیکن دمچی کو نہیں کھائے گی انسان اسی سے پیدا کیا جائے گا اور جوڑا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بارش سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے۔ ٢۔ ہوائیں بادلوں کو لاتی ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بارش سے انگوریاں پیدا فرماتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ فرمائے گا۔ ٥۔ انسانوں کی نصیحت کے لیے اللہ تعالیٰ نے سب کچھ پیدا فرمایا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٥٧۔ یہاں اس کائنات میں شان ربوبیت کے آثار کو قلم بند کیا گیا ہے ‘ مثلا کائنات میں فعالیت ‘ اس پر کنٹرول اس کا مدبرانہ نظام اور اس کی قوتوں کی تحدید وتقدیر ۔ یہ سب امور اللہ کی عظیم کارفرمائیوں کے مظہر ہیں اور ایسے امور ہیں جو بتاتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی رب نہیں ہو سکتا ۔ وہی خالق اور رازق ہے ‘ مسبب الاسباب ہے اور یہ اسباب اس نے اپنی مخلوق کے لئے تیار کئے ہیں ۔ ہوا ہر وقت چلتی رہتی ہے ‘ ہر وقت وہ اس کائنات میں بادلوں کو اٹھاتی اور دوڑاتی ہے ۔ ہر وقت بادلوں سے بارش برستی رہتی ہے ۔ لیکن یہ سب امور اللہ کے فضل وکرم کے مظہر ہیں جیسا کہ یہ حقیقت ہے ۔ یہ بات ہمارے مشاہدے سے وراء ہے ۔ اور نئی ہے جسے سیاق کلام میں سمو دیا گیا ہے اور نہایت ہی موثر ‘ متحرک اور مشخص انداز میں اسے یہاں پیش کیا جارہا ہے ‘ یوں کہ گویا منظر آنکھوں کے سامنے ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو چلاتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت لئے ہوئے ہوتی ہیں ۔ لوگوں کے لئے سامان مسرت فراہم کرتی ہیں ۔ یہ ہوائیں ان نوامیس فطرت کے مطابق چلتی ہیں جو اللہ نے اس کائنات پر حاوی کردیئے ہیں ۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے عقل کی کسی بڑی مقدار کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کائنات اپنے آپ کو وجود میں خود نہیں لائی اور نہ اس نے اپنے لئے یہ نوامیس فطرت خود وضع کئے ہیں ‘ جب کہ اسلام کے معقول تصور حیات میں ہے کہ اس کائنات میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں وہ ان قوانین تکوینی کے مطابق ہوتے ہیں جو اللہ نے اس کائنات کے لئے وضع کئے ہیں اور مقدر کردیئے ہیں ۔ تمام حادثات کا ظہور ان قوانین کے مطابق ہوتا ہے ‘ تمام انفرادی حوادث کا ظہور بھی اسی ناموس کے مطابق ہوتا ہے ‘ لہذا ہواؤں کا کسی معین وقت اور معین خطے میں چلنا بھی اسی قاعدے کلیہ اور اللہ کی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے ۔ چناچہ یہ ہوائیں بھی سنت الہیہ اور ناموس الہی کے مطابق چلتی ہیں لیکن ایک خاص مقدار کے مطابق ان ہواؤں کو مردہ علاقے اور صحراؤں کی طرف چلایا جاتا ہے اور یہ سب کچھ امر الی کے مطابق ہوتا ہے ۔ کسی جگہ جو بارش برستی ہے وہ مقررہ مقدار کے مطابق برستی ہے ۔ اس سے جو روئیدگی اور پیداوار حاصل ہوتی ہے ‘ وہ بھی تقدیر الہی کے مطابق بطور خاص ہوتی ہے اور یہ تمام عمل اس کائنات کے نظام کے مطابق ہوتا ہے ۔ غرض اسلامی تصور حیات کے مطابق یہاں کوئی واقعہ آزادنہ یا بطور اتفاق وقوع پذیر نہیں ہوتا ۔ تخلیق سے لے کر ظہور واقعات تک ہر حرکت ‘ ہر تغیر اور ہر تبدیلی بروقت مقررہ تقدیر اور سنت کے مطابق ہوتی ہے ۔ اسی طرح یہاں اسلامی نقطہ نظر سے یہ تصور بھی غلط ہے کہ یہ کائنات مجبور محض ہے اور اللہ نے اسے پیدا کرکے اپنے طور پر اسے چھوڑ دیا ہے ۔ اس نے اس کی حرکت کے قوانین وضع کردیئے ہیں ‘ اب وہ اس کی حرکت کے قوانین میں جکڑی ہوئی ہے اور اس حرکت کے پیچھے کوئی ارادہ اب نہیں ہے ۔ اسلامی تصور یہ ہے کہ تخلیق اللہ کی مشیت اور ارادے سے ہوتی ہے ۔ اس کے بعد مخلوقات میں اللہ کی سنت جاری کا نفاذ ہوتا ہے ۔ لیکن اس کائنات کی ہر حرکت تقدیر الہی کے مطابق ہوتی ہے ۔ اور ہر دفعہ کی حرکت میں سنت الہیہ جاری وساری نظر آتی ہے اور ہر حرکت کی مقدار مقرر ہے ۔ یہ سب کچھ اس مشیت الہیہ کے مطابق ہوتا ہے جس کو نوامیس الہیہ پر بھی بالا دستی حاصل ہوتی ہے ۔ یہ ایک زندہ اور روشن دل و دماغ کا حامل تصور ہے اور اس کے مطابق ۔۔۔۔ ۔۔ یہ کائنات مجبور محض اور مردہ نہیں ہیں ۔ یہ کائنات سوتی نہیں ‘ جاگتی ہے اور خود سر نہیں بلکہ اس کا قیم اور نگران ہر وقت اس کی طرف متوجہ ہے۔ یہاں جو کچھ واقعہ ہوتا ہے اور ارادہ مدبرہ کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ ہر حرکت ناموس کے مطابق ہوتی ہے ‘ اور ہر حرکت سے قبل مومن جاگ اٹھتا ہے وہ اللہ کی تقدیر اور سنت کو دیکھتا ہے کہ وہ اپنے کام کر رہی ہے ۔ چناچہ قلب مومن اللہ کی حمد میں رطب اللسان ہوتا ہے ‘ اللہ کو یاد کرتا ہے ۔ وہ مردہ آلات کی طرح غافل ہو کر حرکت نہیں کرتا اندھا اور بہرا ہو کر ۔ یہ تصور حیات مومن کے دل میں حیاء اور دماغ میں جوش ادراک پیدا کرتا ہے ۔ وہ تمام حرکات وواقعات میں دست قدرت کی کارفرمائیاں دیکھتا ہے اور ہر حرکت ‘ ہر حادثے میں رات اور دن اللہ کی تسبیح وتہلیل کرتا ہے ۔ اب اس مقام پر قرآن کریم اس رواں دوں زندگی کا ربط حیات اخروی کے ساتھ جو ڑدیتا ہے ۔ یہاں کی تخلیق اور آخرت میں دوبارہ اٹھانا ‘ ایک ہی عمل نظر آتا ہے ۔ اللہ کی مشیت کے مطابق یہ اسی طرح ممکن ہے جس طرح اس جہاں میں یہ زندگی رواں دواں ہوئی ۔ آیت ” کَذَلِکَ نُخْرِجُ الْموْتَی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (57) ” دیکھو ‘ اسی طرح ہم مردوں کو حالت موت سے نکالتے ہیں ‘ شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو۔ “ اس کرہ ارض پر زندگی کے رنگ ڈھنگ مختلف ہیں لیکن زندگی کی اس بوقلمونی کے باوجود اس کائنات پر وجود حیات کا معجزہ ایک ہی جیسا ہے ۔ اس تبصرے میں اسی طرف اشارہ پایا جاتا ہے جس طرح یہاں مردے سے زندہ اجسام نکلتے ہیں اسی طرح آخرت میں مردوں کو زندہ کردیا جائے گا ‘ جس اللہ نے اس کرہ ارض پر زندگی کے یہ مختلف رنگ ڈھنگ پیدا کئے وہ اس بات پر قادر ہے کہ آخرت میں انسان کو دوبارہ زندہ کر دے ۔ جو قوت اور جو قدرت یہاں مردے سے زندہ کو وجود میں لا سکتی ہے ‘ وہ ذات آخرت میں مردے کو دوبارہ زندگی کیوں نہیں بخش سکتی ۔ آیت ” لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (57) ” شاید کے اس مشاہدے سے تم سبق لو۔ “ یہ ایک پیش پا افتادہ اور عظیم حقیقت ہے ‘ لیکن لوگ دیکھتے ہوئے بھی اسے دیکھنا نہیں چاہتے اور لایعنی ادہام وخرامات کو حقیقت بتانے کے درپے ہیں ۔ اس کائنات کی وسعتوں کے اس سفر اور اسرار کائنات کے اس غور وفکر کو قرآن کریم ایک مثال پر ختم کرتا ہے ۔ یہ تمثیل ایک صالح اور پاک اور غیر صالح اور ناپاک دل کے بارے میں ہے ۔ اور یہ تمثیل بھی اس کائنات کے مشاہدے اور اس مطالعاتی سفر سے اخذ کی گئی ہے تایہ یہ تمثیل اس مطالعاتی سفر سے ہم آہنگ نظر آئے اور انسانی طبیعت اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بارش اور اس کے ذریعہ پیداوار اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت یعنی بارش اور اس کے فوائد کا تذکرہ فرمایا ہے اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہواؤں کو بھیجتا ہے جو اس کی رحمت یعنی بارش سے پہلے خوشخبری دینے والی ہوتی ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ ہوائیں بھاری بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں۔ جن میں پانی بھرا ہوا ہوتا ہے جو زمین بےآب وگیاہ ہوتی ہے اور سبزی کے اعتبار سے مردہ ہوچکی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو ایسی زمین کی طرف بھیج دیتا ہے وہاں بارش برستی ہے جس سے پانی جمع ہوجاتا ہے سبزہ نکل آتا ہے، کھیتوں اور باغوں میں جان پڑجاتی ہے جس سے پھل میوے غلے پیدا ہوتے ہیں پھر ان سے انسان اور جانور غذا پاتے ہیں اور منتفع ہوتے ہیں۔ بارش بنجر زمین پر بھی ہوتی ہے اور پہاڑوں پر بھی برستی ہے لیکن ایسی زمین کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ فرمایا جس میں پانی برسنے کے بعد کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں، اور سبزیوں تر کاریوں کی پیداوار ہوتی ہے کیونکہ یہ انسان اور اس کے پالتو جانوروں کی معاش کا سبب ہے اور مومن، کافر سب ہی اس سے منتفع ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ شانہٗ نے سب کو اپنا انعام یاد دلایا۔ زمین سے پھلوں کے نکالنے کا انعام ذکر فرمانے کے بعد (کَذٰلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰی) فرمایا، کہ ہم اسی طرح مردوں کو نکالیں گے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے مردہ زمین کو زندہ کیا اور اس سے درخت اور پھل پھول نکالے اسی طرح قیامت کے دن مردوں کو زندہ کر کے زمین سے نکالیں گے۔ سورۂ حٰمٓ سجدہ میں فرمایا (وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآءَ اھْتَزَّتْ وَرَبَتْ اِِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاھَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰی اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) (اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اے مخاطب ! تو زمین کو دیکھتا ہے کہ وہ دبی ہوئی ہے پھر جب ہم اتارتے ہیں اس پر پانی تو وہ لہلہانے لگتی ہے اور بڑھنے لگتی ہے بلاشبہ جس نے اس کو زندہ فرمایا وہ مردوں کو زندہ کر دے گا بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے) قیامت کے دن جب پہلا صور پھونکا جائے گا اور لوگ بےہوش ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ بارش بھیج دے گا وہ شبنم کی طرح ہوگی اس سے لوگوں کے جسم آگ جائیں گے پھر دو بارہ پھونکا جائے گا تو وہ سب کھڑے ہوئے دیکھتے ہوں گے۔ (مشکوٰۃ شریف ص ٤٨١ از مسلم) آیت کے ختم پر (لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ) فرمایا جس میں نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کی طرف متوجہ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ ہوائیں بھیجتا ہے جو بارش آنے کی خوش خبری دیتی ہیں پھر یہ ہوائیں پانی سے بھرے ہوئے بھاری بادلوں کو مردہ زمین کی طرف لے جاتی ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہاں بارش برستی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت نہ ہو تو پانی سے بھرے ہوئے بادل گزرتے ہوئے چلے جاتے ہیں اور ضرورت کی جگہ ایک قطرہ بھی نہ برسے جب پانی برس جاتا ہے تو وہاں زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ سبزیاں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں۔ پھل اور میوے پیدا ہوجاتے ہیں انسان پر لازم ہے کہ اس سب کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرے اور اس ذات پاک کی طرف متوجہ ہو جس کے حکم سے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی منکرین بعث کو بھی سمجھنے کی دعوت دی کہ وہ زمین سے مردوں کے نکلنے کو مستبعد سمجھتے ہیں وہ نظروں کے سامنے دیکھ لیں کہ زمین بارہا مردہ ہوتی رہتی ہے اور زندہ ہوتی رہتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

67: یہ “ اَلَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ ” پر معطوف ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات مختصہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ بارانِ رحمت سے پہلے ہوا بھیجتا ہے جو پر آب بادلوں کو بنجر زمین کی طرف اٹھا لے جاتے ہیں۔ بارش سے مردہ زمین میں اللہ تعالیٰ جان ڈال دیتا ہے اور وہ ہر قسم کے پھل اور میوے پیدا کرتی ہے۔ 68: یہ جملہ معترضہ ہے۔ یعنی جس طرح ہم بنجر زمین کو بارش سے زندہ کر کے قابل روئیدگی بنا دیتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو قبروں سے زندہ کر کے نکال لیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

57 اور وہ اللہ تعالیٰ وہی ہے جو بارش اور بارانِ رحمت کے آگے آگے خوشخبری اور بشارت کے لئے ہوائیں بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم اس بادل کو کسی مردہ شہر اور بلدہ جس کی زمین خشک ہو اور زمین مری پڑی ہو ایسی زمین کی طرف ہانگ لے جاتے ہیں پھر اس بادل سے پانی برساتے اور اتارتے ہیں پھر ہم اس پانی سے ہر قسم زمین سے نکالتے اور اگاتے ہیں جس طرح ہم مری ہوئی زمین سے پھل نکالتے ہیں اسی طرح ہم قیامت میں مردوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے پر غور کرو اور نصیحت پکڑو یعنی بارش کے لئے بادلوں کو اکھیڑنے اور چلانے کے لئے ہوائیں بھیجتا ہے اور جب وہ ہوائیں بادلوں کو سمیٹ لاتی ہیں تو پھر جہاں ضرورت ہوتی ہے اور جہاں کی زمین خشک اور مردہ پڑی ہوتی ہے بادلوں کو وہاں پہنچا کر برسا دیتے ہیں اور ہر قسم کا سامان ضرورت وہاں پیدا کرتے ہیں اسی طرح مرے ہوئے انسان بھی قیامت کے دن پیدا ہوجائیں گے