Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 58

سورة الأعراف

وَ الۡبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخۡرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ۚ وَ الَّذِیۡ خَبُثَ لَا یَخۡرُجُ اِلَّا نَکِدًا ؕ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّشۡکُرُوۡنَ ﴿٪۵۸﴾  14

And the good land - its vegetation emerges by permission of its Lord; but that which is bad - nothing emerges except sparsely, with difficulty. Thus do We diversify the signs for a people who are grateful.

اور جو ستھری سرزمین ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے اس طرح ہم دلائل کو طرح طرح سے بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو شکر کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ... The vegetation of a good land comes forth (easily) by the permission of its Lord; meaning, the good land produces its vegetation rapidly and proficiently. Allah said in another Ayah (about Maryam, mother of `Isa, peace be upon him); وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا He made her grow in a good manner. (3:37) The Ayah continues, ... وَالَّذِي خَبُثَ لاَ يَخْرُجُ إِلاَّ نَكِدًا ... and that which is bad, brings forth nothing but with difficulty. Mujahid, and others such as As-Sibakh, etc, also said this. ... كَذَلِكَ نُصَرِّفُ الايَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ Thus do We explain variously the Ayat for a people who give thanks. Al-Bukhari recorded that Abu Musa said that the Messenger of Allah said, مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللهُ بِهِ مِنَ الْعِلْمِ وَالْهُدَى كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا فَكَانَتْ مِنْهَا نَقِيَّةٌ قَبِلَتِ الْمَاءَ فَأَنْبَتَتِ الْكَلََ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ The parable of the guidance and knowledge with which Allah has sent me is that of an abundant rain falling on a land, some of which was fertile soil that absorbed rain water and brought forth vegetation and grass in abundance. وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ فَنَفَعَ اللهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا And another portion of it was hard and held the rain water; and Allah benefited the people with it, they utilized it for drinking, making their animals drink from it, and for irrigation of the land for cultivation. وَأَصَابَ مِنْهَا طَايِفَةً أُخْرَى إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لاَأ تُمْسِكُ مَاءً وَلاَأ تُنْبِتُ كَلَأً And a portion of it was barren which could neither hold the water nor bring forth vegetation. فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللهِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِه The first is the example of the person who comprehends Allah's religion and gets benefit which Allah sent me with, by learning and teaching others. The last example is that of a person who does not care for it and does not accept the guidance Allah sent me with.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 علاوہ ازیں یہ تمثیل بھی ہوسکتی ہے۔ اَلْبَلَدُ الطَّیِّبُ سے مراد سریع الفہم اور اَلْبَلَدُ الطَّیِّبُ سے کند ذہن، وعظ و نصیحت قبول کرنے والا دل اور اس کے برعکس دل۔ قلب مومن یا قلب منافق یا پاکیزہ انسان اور ناپاک انسان مومن، پاکیزہ انسان اور وعظ و نصحت قبول کرنے والا دل بارش کو قبول کرنے والی زمین کی طرح، آیات الٰہی کو سن کر ایمان و عمل صالح میں مزید پختہ ہوتا ہے اور دوسرا دل اس کے برعکس زمین شور کی طرح ہے جو بارش کا پانی قبول ہی نہیں کرتی یا کرتی ہے تو برائے نام جس سے پیداوار بھی نکمی اور برائے نام ہوتی ہے۔ اسی کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ رسول اللہ نے بیان فرمایا کہ ' مجھے اللہ تعالیٰ نے علم ہدایت دے کر بھیجا ہے، اس کی مثال اس موسلا دھار بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی۔ اس کے جو حصے زرخیز تھے انہوں نے پانی کو اپنے اندر جذب کرکے چارہ اور گھاس خوب اگایا (یعنی بھرپور پیداوار دی) اور اس کے بعض حصے سخت تھے جنہوں نے پانی کو روک لیا (اندر جذب نہیں ہوا ' تاہم اس سے بھی لوگوں نے فائدہ اٹھایا، خود بھی پیا۔ کھیتوں کو بھی سیراب کیا اور کاشتکاری کی اور زمین کا کچھ حصہ بالکل چٹیل تھا، جس نے پانی روکا اور نہ کچھ کیا۔ پس یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ کی دین میں سمجھ حاصل کی اور اللہ نے مجھے جس چیز کے ساتھ بھیجا اس سے اس نے نفع اٹھایا، پس خود بھی علم حاصل کیا اور دوسروں کو بھی سکھلایا اور مثال اس شخص کی بھی ہے جس نے کچھ نہیں سیکھا اور نہ وہ ہدایت ہی قبول کی جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] معاشرے میں دو قسم کے لوگ :۔ سابقہ آیت میں مردہ زمین کے زندہ ہوجانے سے اخروی زندگی پر استدلال کیا گیا ہے اور اس آیت میں مختلف قسم کے لوگوں کے دلوں کی کیفیت کو زمین کے مختلف طبقات کے مانند قرار دے کر لوگوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے یعنی جس طرح زمین کے بعض قطعات عمدہ زرخیز اور شاداب ہوتے ہیں اور بعض ردی ہوتے ہیں جن میں مفید نباتات کی بجائے جھاڑ جھنکار ہی پیدا ہوتا ہے حالانکہ ان سب پر بارش ایک ہی جیسی برستی ہے۔ اسی طرح لوگوں کی کیفیت ہے اور وحی الٰہی کی باران رحمت سے سلیم الفطرت لوگ تو خوب پھلتے پھولتے ہیں لیکن جن کے دلوں میں خبث بھرا ہوتا ہے۔ اس باران رحمت کے بعد ان کے اندر سے وہی خبث باطن جھاڑ جھنکار کی صورت اختیار کر کے باہر نکل آتا ہے اور انہیں اعتراضات اور استہزاء کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ اس مثال کے بعد اللہ تعالیٰ نے چند معروف انبیاء کی دعوت کا ذکر کر کے بتلایا کہ ان کی مخاطب قوم اسی طرح دو حصوں میں بٹ گئی ایک سلیم الفطرت لوگ تھے جو وحی الٰہی کی باران رحمت سے خوب برگ و بار لائے دوسرے خبیث سرشت والے، جن کے اندر کا کھوٹ اسی باران رحمت سے جھاڑ جھنکار کی صورت میں باہر نکل آیا۔ آخر کار اس خبیث عنصر کو اسی طرح چھانٹ کر پھینک دیا گیا جس طرح ایک مالی اپنے باغ سے جھاڑ جھنکار کو کاٹ کر پرے پھینک دیتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهٗ ۔۔ : یہی مثال مومن اور کافر و منافق کے دل کی ہے، جیسا کہ تابعین سے مروی ہے۔ (شوکانی) ابو موسیٰ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے مجھے جو علم و ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال رحمت کی اس بارش کی ہے جو ایک زمین پر برسی، اس کے جو حصے زرخیز تھے انھوں نے پانی کو جذب کرلیا اور خوب گھاس اور چارا اگایا، بعض حصے سخت تھے، انھوں نے پانی کو روک لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ لوگوں کو نفع دیا، چناچہ انھوں نے خود پیا اور پلایا اور کھیتوں کو سیراب کیا اور اس کا ایک حصہ ایک اور ٹکڑے پر برسا جو محض چٹیل میدان تھے، انھوں نے نہ پانی روکا اور نہ کوئی سبزہ اگایا، یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین کو سمجھ کر اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچایا اور اس شخص کی جس نے نہ اس کے ساتھ سر ہی اٹھایا ( نہ خود سمجھا) اور نہ اللہ کی وہ ہدایت قبول کی جو دے کر مجھے بھیجا گیا ہے۔ “ [ بخاری، العلم، باب فضل من علم و علّم : ٧٩ ] لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ : اللہ تعالیٰ نے پچھلی آیت میں بارش کے ساتھ زمین کو زندہ کرنے کی مثال مردوں کو زندہ کرنے کے لیے بیان فرمائی، اس سے مقصود نصیحت حاصل کرنا ہے، اس لیے وہاں ” لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ “ فرمایا۔ اس آیت کا موضوع وحی الٰہی کا علم، اس پر عمل اور دعوت کا فائدہ اٹھانا ہے جس پر شکر لازم ٹھہرتا ہے، اس لیے یہاں ” لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ “ فرمایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Stated in the second verse (58) is: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُ‌جُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَ‌بِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُ‌جُ إِلَّا نَكِدًا (As for the good land, its vegetation comes out with the permis¬sion of its Lord. And that which is bad does not grow except what is bad). The word: نَكِد (nakid) refers to something useless and scanty both. The sense of the verse is that the mercy of rain, when it comes, is com¬mon to every town and land, but lands are of two kinds in terms of their yield and outcome. First, there is good land which helps growth. From it come flowers and fruits and many other benefits. Then, there is the hard, barren or saline land which lacks the ability to grow plants. First of all, not much grows on such a land, and if something does grow there, its quantity remains insignificant, and even this quantity is useless and bad. At the end of the verse, it was said: كَذَٰلِكَ نُخْرِ‌جُ الْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُ‌ونَ (Thus We alternate the verses for a people who pay gratitude). The hint given here is: Though the open blessing of Allah&s guid¬ance and His clear &Ayat is open and common to all human beings very much like the general mercy of rain, but every land does not derive benefit from the rain and, similarly, every human being does not de-rive benefit from Divine guidance. Rather, the benefit is derived by only those who are grateful for what they receive and recognize its real worth and value.

دوسری آیت میں ارشاد ہے : (آیت) وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖ ۚ وَالَّذِيْ خَبُثَ لَا يَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا، نَکِد کہتے ہیں اس چیز کو جو بےفائدہ بھی ہو اور پھر مقدار میں بھی قلیل ہو، معنی یہ ہیں کہ اگرچہ باران رحمت کا فیض ہر شہر ہر زمین پر یکساں ہوتا ہے، لیکن نتائج اور ثمرات کے اعتبار سے زمین کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک عمدہ اور اچھی زمین جس میں نشوونما کی صلاحیت ہے، اس میں تو ہر طرح کے پھول پھل نکلتے ہیں اور فوائد حاصل ہوتے ہیں، دوسری وہ سخت یا کھاری زمین جس میں روئیدگی کی صلاحیت نہیں، اس میں اول تو کچھ پیدا ہی نہیں ہوتا، پھر اگر کچھ ہوا بھی تو وہ بہت کم مقدار میں ہوتا ہے، اور جتنا پیدا ہوتا ہے وہ بھی بیکار اور خراب ہوتا ہے۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ ” یعنی ہم اپنے دلائل قدرت طرح طرح سے بیان کرتے ہیں، ان لوگوں کے لئے جو قدر کرنے والے ہیں “۔ اس میں اشارہ ہے کہ اگرچہ باران رحمت کے فیضان عام کی طرح ہدایت ربانی اور آیات بینات کا فیض بھی سب ہی انسانوں کے لئے عام ہے، مگر جس طرح ہر زمین بارش سے فائدہ نہیں اٹھاتی اسی طرح ہر انسان ہدایت ربانی سے نفع حاصل نہیں کرتا، بلکہ نفع صرف وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو شکر گزار اور قدر شناس ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِہٖ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۝ ٠ ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝ ٥٩ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) جو زمین بنجر نہیں ہوتی زرخیز ہوتی ہے اس میں اللہ کے حکم سے بغیر کسی مشکل کے خوب پیداوار ہوتی ہے اسی طرح خالص مومن احکام الہی خوش دلی کے ساتھ بجالاتا ہے اور جو جگہ خراب اور بنجر ہوتی ہے، وہاں پیداوار بہت مشکل سے اور کم ہوتی ہے اسی طرح منافق زبردستی اللہ تعالیٰ کے احکام کی کچھ بجا آوری کرتا ہے، ہم قرآن کریم میں مومنوں کے لیے منکروں اور ماننے والوں کی مثالیں بیان کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذْنِ رَبِّہٖج وَالَّذِیْ خَبُثَ لاَ یَخْرُجُ الاَّ نَکِدًا ط) ۔ سرائیکی زبان میں ایک لفظ نکھد استعمال ہوتا ہے ‘ یہ اس عربی لفظ نَکِد سے ملتا جلتا ہے۔ یعنی بالکل ردی اور گھٹیا چیز۔ (کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْکُرُوْنَ ) اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے سے اپنی نشانیاں گوناگوں پہلوؤں سے نمایاں کرتا ہے تاکہ لوگ ان کو سمجھیں ‘ ان کو پہچانیں اور ان کی قدر کریں۔ یہ تصریف آیات اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے بشرطیکہ اس کی قدر کرنے والے لوگ ہوں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

46. It is necessary to grasp the subtle point made here in order to appreciate the full purport of what is being said. The reference to rain and its advantages is intended to bring into focus God's power, and to affirm life after death. Moreover, it is also intended to draw attention in allegorical, albeit graphic, terms to the blessings of prophethood, and how it helps men to distinguish between good and evil, between pure and impure. The intimation of Divine Guidance through the Prophets is compared to the movement of winds, the appearance of rain-laden clouds, and the fall of life-sustaining raindrops. In the same way as rainfall causes dead earth to be revived and makes the hidden treasures of life burst forth from its womb, so the impact of the teachings of the Prophets also brings dead humanity back to life, causing the hidden goodness in men to burst forth. This allegory also hints at another important fact. In the same way that only fertile soil profits from rainfall, so only men of a righteous nature can profit from the blessings of prophethood. As for the wicked, they are like wasteland. Rainfall can cause such a land to bring forth only thorny bushes and cacti. Similarly, when the wicked come into contact with the teaching of the Prophets, the hidden evils of their nature come into full play. This allegory is followed by a well-sustained account with illustrations from history showing that whenever the Prophets preach their Message, men Split into two camps. The righteous receive the blessings of prophethood and flourish, bringing forth the fruit of their goodness. As for the wicked, once the criterion provided by the Prophets is applied their impurities are fully exposed. This enables human society to purge itself of impurities in the same way as the goldsmith purges precious metals of alloy.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :46 یہاں ایک لطیف مضمون ارشاد ہوا ہے جس پر متنبہ ہو جانا اصل مدعا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔ بارش اور اس کی برکتوں کے ذکر سے اس مقام پر خدا کی قدرت کا بیان اور حیات بعد الممات کا اثبات بھی مقصود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تمثیل کے پیرا یہ میں رسالت اور اس کی برکتوں کا اور اس کے ذریعہ سے خوب و زشت میں فرق اور خبیث و طیّب میں امتیاز نمایاں ہو جانے کا نقشہ دکھانا بھی پیش نظر ہے ۔ رسول کی آمد اور خدائی تعلیم و ہدایت کے نزول کو بارانی ہواؤں کے چلنے اور ابرِ رحمت کے چھا جانے اور امرت بھری بوندوں کے برسنے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ پھر بارش کے ذریدہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کےیکایک جی اُٹھنے اور اس کے بطن سے زندگی کے خزانے اُبل پڑنے کو اس حالت کے لیے بطور مثال پیش کیا گیا ہے جو نبی کی تعلیم و تربیت اور رہنمائی سے مردہ پڑی ہوئی انسانیت کے یکایک جاگ اُٹھنے اور اس کے سینے سے بھلائیوں کے خزانے اُبل پڑنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور پھر یہ بتا یا گیا ہے کہ جس طرح بارش کے نزول سے یہ ساری برکتیں صرف اسی زمین کو حاصل ہوتی ہیں جو حقیقت ذرخیز ہوتی ہے اور محض پانی نہ ملنے کی وجہ سےجس کی صلاحیتیں دبی رہتی ہیں ، اسی طرح رسالت کی ان برکتوں سے بھی صرف وہی انسان فائدہ اُٹھاتے ہیں جو حقیقت میں صالح ہوتے ہیں اور جن کی صلاحیتوں کو محض رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے نمایاں ہونے اور برسر کار آنے کا موقع نہیں ملتا ۔ رہے شرارت پسند اور خبیث انسان تو جس طرح شوریلی زمین بارانِ رحمت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتی بلکہ پانی پڑتے ہی اپنے پیٹ کے چھپے ہوئے زہر کو کانٹوں اور جھاڑیوں کی صورت میں اُگل دیتی ہے ، اسی طرح رسالت کے ظہور سے انہیں بھی کوئی نفع نہیں پہنچتا بلکہ اس کے برعکس ان کے اندر دبی ہوئی تمام خباثتیں اُبھر کر پوری طرف برسر کار آجاتی ہیں ۔ اسی تمثیل کو بعد کے کئی رکوعوں میں مسلسل تاریخی شواہد پیش کر کے واضح کیا گیا ہے کہ ہر زمانے میں نبی کی بعثت کے بعد انسانیت دو حِصّوں میں تقسیم ہوتی رہی ہے ۔ ایک طیّب حصہ جو فیضِ رسالت سے پھلا اور پھولا اور بہتر برگ و بار لایا ۔ دوسرا خبیث حصہ جس نے کسوٹی کے سامنے آتے ہی اپنی ساری کھوٹ نمایاں کر کے رکھ دی اور آخر کار اس کو ٹھیک اسی طرح چھانٹ کر پھینک دیا گیا جس طرح سنار چاندی سونے کے کھوٹ کو چھانٹ پھینکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

34: اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف ہے کہ جس طرح اچھی زمین کی پیداوار بھی خوب ہوتی ہے اسی طرح جن لوگوں کے دل میں طلب کی پاکیزگی ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، اور جس طرح ایک خراب زمین پر بارش پڑنے کے باوجود اس سے کوئی فائدہ مند پیداوار حاصل نہیں ہوتی، اسی طرح جن لوگوں کے دل ضد اور عناد سے خراب ہوچکے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کے کلام سے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:58) خبت۔ وہ خبیث ہوا۔ وہ خراب ہوا۔ الذی اسم موصول البلد کے لئے ہے یعنی وہ بستی جو خبیث اور خراب ہے۔ نکدا۔ اسم صفت منصوب۔ بےفائدہ ۔ قلیل النفع۔ گھٹیا۔ شعر ہے ؎ باراں کہ در لطافت طبعش کلام نیست در باغ لالہ روید و در شورہ بوم وخس نصرف۔ ہم مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔ ہم پھیر پھیر کر بیان کر رتے ہیں۔ تصریف۔ مصدر۔ مضارع جمع متکلم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اور یہی مومن اور منافق ( یا کافر) کے دل میں کی مثال ہے جیسا کہ تابعین سے مروی ہے کہ ( شوکانی) حضرت ابو موسیٰ ٰ سے روایت ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے جو علم و ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال اس باران رحمت کی ہے جو ایک زمین پر بر سی اس کے جو حصے زرخیز تھے انہوں نے پانی کو جذب کرلیا اور خوب گھاس اور چارہ اگایا بعض حصے سخت تھے انہوں نے پانی کو روک رکھا جو لوگوں نے پیا اور اس سے اپنے کھیتوں کو بھی سراب کیا اور بعض حصے چٹیل میدان تھے انہوں نے نہ پانی کو روکا اور نہ کوئی سبزہ اگایا یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے دن کو سمجھ کر اس دو سروں کو فائدہ پہنچا یا اور اس شخص کی بھی جو نہ خود سمجھا اور نہ اس نے دوسروں کو فائدہ پہنچا۔ ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ خلاصہ ان آیات کا یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے یہ کمالات ذاتی وصفاتی ثابت ہوئے تو عبادت اور طلب حاجت میں ان کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور ان کی قدرت کو پیش نظر رکھ کر بعث کا انکار مت کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بارش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے نباتات کا ظہور اور نمود ہوتا ہے بارش تو ہر کسی کے لیے یکساں ہوتی ہے مگر اس کے اثرات اور نتائج مختلف ہوتے ہیں زمین چٹیل اور بنجر ہوگی تو اس سے کسی چیز کا اخراج نہیں ہوگا۔ اگر زمین زرخیز اور ہموار ہوگی تو نہ صرف وہ زمین ٹھنڈی ہوگی بلکہ اس سے مختلف قسم کی فصلیں اور پودہ جات پیدا ہوں گے۔ زمین شوریلی ہوگی تو اس سے مزید کلر شور ابھر کر سامنے آئے گا۔ اس پر کھڑے ہوئے پانی میں تعفن کے سوا کچھ پیدا نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ارشادات کو مختلف انداز میں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ شکر ادا کریں۔ بظاہر یہ بارش اور زمین کی مثال ہے لیکن حقیقت میں اس کا تعلق دین کے ساتھ ہے کیونکہ سورة البقرہ کی آیت ١٧ اور ١٨ میں دین اور بارش کو مترادف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ جس طرح بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح عقیدہ توحید اپنانے اور دین اسلام کو اختیار کرنے سے مسلمان کی روحانی زندگی میں بہار ہوتی ہے۔ اس کے ذوق وشوق میں اضافہ اور نیکی کے عمل میں ترقی ہوتی ہے۔ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ (رض) عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا اسْتَسْقَی قَال اللَّہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہَاءِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ ) [ رواہ ابو داؤدد : باب رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الاِسْتِسْقَاءِ ] ” حضرت عمرو بن شعیب (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بارش کے لیے دعا کرتے تو فرماتے اللّٰہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہِیمَتَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ ” اے اللہ اپنے بندوں اور جانوروں کو بارش کے ذریعے پانی پلا اور اپنی رحمت کو پھیلاتے ہوئے مردہ زمین کو زندہ کردے “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٥٨۔ اچھے دل کو قرآن وسنت میں زرخیز مٹی اور صالح زمین سے مشابہت دی جاتی ہے ‘ اور برے دلوں کو بیکار مٹی اور بنجر زمین سے۔ اس لئے اچھی زمین میں اچھی فصل پیدا ہوتی ہے اور وہ پھل پھول لاتی ہے اور اسی طرح اچھے دل میں صالح خیالات اور اچھے تصورات پیدا ہوتے ہیں ۔ اور وہ ایک پاکیزہ شعور و تصورات کا مسکن ہوتا ہے ۔ اس کے اندر انسانی رجحانات میلانات اور ادارے اور عزائم جاگزیں ہوتے ہیں جو بعد میں عملی شکل اختیار کرتے ہیں بعینہ اس طرح جس طرح زمین سے ہر قسم کی پیداوار حاصل ہوتی ہے اور مختلف رنگوں اور مختلف ذائقوں کے پھل نمودار ہوتے ہیں۔ آیت ” وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ وَالَّذِیْ خَبُثَ لاَ یَخْرُجُ إِلاَّ نَکِداً “۔ (٧ : ٥٨) ” جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ “ اچھی زمین وہ ہوتی ہے جو نرم اور آسان ہوتی ہے اور جو بری ہوتی ہے وہ اذیت دہ ‘ سخت مشقت خیز اور تنگ ہوتی ہے ۔ ایک اچھے دل پر ہدایت ‘ نصیحت اور یاد دہائی کی بارش نازل ہوتی ہے ‘ جس طرح اچھی زمین پر بادلوں سے بارش برستی ہے ۔ اگر دل پاکیزہ ہو ‘ ایک اچھی اور زرخیز زمین کی طرح تو وہ کھل جاتا ہے ۔ وہ ہدایت اور نصیحت کو قبول کرتا ہے اور مزید پاکیزہ ہو کر کامیاب ہوجاتا ہے ۔ اگر دل فاسد ہو ‘ جس طرح خبیث اور بنجر زمین ہوتی ہے تو اس دل کے دریچے بند ہوجاتے ہیں ‘ وہ سخت ہوجاتا ہے اور شروفساد کی راہ لیتا ہے ۔ یقین کے بجائے اس دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں جس طرح بنجز زمین میں جھاڑیاں پیدا ہوتی ہیں۔ آیت ” کَذَلِکَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَشْکُرُونَ (58) ” اس طرح ہم اپنی نشانیوں کو بار بار پیش کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے شکر گزار ہونے والے ہیں۔ “ شکر کا پودار پاکیزہ دل ہی میں اگ سکتا ہے ‘ اور اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ دل پر نصیحت کا اثر ہوگیا ہے اور وہ قبولیت کی راہ لے رہا ہے ۔ ایسے دل رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی آیات اور دلائل بار بار ور مختلف انداز میں بیان کرتا ہے ۔ کیونکہ صرف ایسے ہی لوگ ان بیانات سے نفع اٹھاتے ہیں اور اپنے شب وروز کو درست کرتے ہیں ۔ شکر الہی ‘ اس سورة کا خاص مضمون ہے ۔ اس سورة میں انذار وتذکیر کے ساتھ ساتھ اس کا خصوصا ذکر ہوا ہے اس سے پہلے بھی ہم اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں اور آئندہ بھی اسی سورة کی دوسری خصوصیات یعنی انذار وتذکیر کے ساتھ ساتھ اس کا ذکر کریں گے ۔ درس نمبر ٧٧ ایک نظر میں : اس سبق میں ہم قافلہ ایمان کے ہمرکاب ہیں ۔ یہ ہیں اس کے لیڈر اور یہ ہیں اس کے جھنڈے اور یہ ہیں ان کے نشانات رہ ۔ یہ قافلہ اس کرہ ارض کی تاریخ کے طویل میدانوں میں رواں دواں ہے ۔ اور پوری انسانیت کے ساتھ ہمکلام ہے۔ اس طویل سفر میں انسانیت جب بھی بےراہ روی اختیار کرتی ہے ‘ یہ قافلہ اہل حق اس کی راہ روکتا ہے اور اسے صراط مستقیم پر ڈال دیتا ہے ۔ انسانیت راہ مستقیم سے اس وقت ہٹ جاتی ہے کہ جب اس پر شیطانی خواہشات کا غلبہ ہوجائے ۔ شیطان ہر وقت اس تاک میں لگا رہتا ہے کہ انسانیت کو بدراہ کرکے اپنے جذبہ انتقام کو ٹھنڈا کرتا رہے اور انسانیت کے منہ میں شہوات نفسانیہ کی لگام ڈال کر اسے جہنم رسید کر دے ۔ جب شیطان یہ اسکیم شروع کرتا ہے پیغمبروں کا قافلہ ایمان نمودار ہوجاتا ہے پیغمبر اور ان کے پیروکار انسانیت کے سامنے روشنی کے مینار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور انسانیت کے لئے جنت کی باد نسیم کے جھونکے کھل جاتے ہیں ۔ یہ پروقار قافلہ جہنم کی گرم لو سے انہیں ڈرانے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے ۔ اور شیطان رجیم کے وسوسوں سے اسے نجات دیتا ہے کیونکہ وہ انسانوں کا ازلی دشمن ہے ۔ یہ نہایت ہی خوبصورت منظر ہے ۔ ایک طویل شاہراہ حیات پر حق و باطل کی گھمسان کی جنگ جاری ہے حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ نہایت ہی پیچیدہ انداز می گزر رہی ہے ‘ اس لئے کہ انسان تو تاریخ بناتا ہے جو بذات خود ایک پیچیدہ مخلوق ہے ۔ یہ دو عناصر سے بنا ہے ایک تو وہ خاکی مادہ ہے جس سے اس کا خمیر تیار ہوا اور دوسرا عنصر وہ روح ہے جو اس جسد خاکی کے اندر پھونکی گئی اور اس نفخ روح کی وجہ سے انسان انسان کہلایا ۔ اس طرح دو متضاد عناصر کا یہ اتحاد ازواج اللہ کے دست قدرت کے ذریعے تکمیل کو پہنچا ۔ اس لئے حضرت انسان تاریخ میں بڑی پیچیدگی سے آگے بڑھتا ہے ۔ اس کی ذات اور اس کے اعمال ونظریات بھی پیچیدہ ہیں۔ انسان اپنی اس مخصوص طبیعت اور مزاج کے ساتھ اس وسیع کائنات اور اس کے آفاق کے تعلق کا ایک خاص زاویہ رکھتا ہے جس کی تفصیلات ہم نے قصہ آدم وابلیس میں دے دی ہیں ۔ یہ ایک طرح حقیقت الہیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اللہ کی تقدیر ‘ اس کی مشیت ‘ اللہ کی قدرت اس کی طاقت اور اس کے رحم وکرم کا موضوع بنتا ہے ۔ وہ عالم بالا اور ملائکہ کے ساتھ بھی مربوط ہے ۔ پھر وہ ابلیس اور شیطان اعظم کے ساتھ بھی معاملہ کرتا ہے وہ اس قابل مشاہدہ کائنات اور اس کے قوانین فطرت کے ساتھ بھی ملحق ہے ۔ وہ اس کرہ ارض کی تمام چیزوں کے ساتھ بھی طرز عمل اختیار کرتا ہے اور دوسرے ہم جنس انسانوں کے ساتھ بھی اس کے روابط قائم ہوتے ہیں اور یوں وہ اپنی اس طبیعت کے ساتھ پورے عالم مشہود کے ساتھ مربوط ہوجاتا ہے ۔ اس کائنات کی ہم آہنگ قوتوں کے ساتھ بھی اس کا واسطہ ہے اور اسکی مخالف اور متضاد قوتوں کے ساتھ بھی اس کا معاملہ ہے ۔ غرض تاریخ کے اس باہم متلاطم اور پیچیدہ سمندر میں انسانی تاریخ دنیا کا سفر طے کرتی ہے ۔ کبھی اس کی ذات قوی نظر آتی ہے اور کبھی گم کردہ راہ کبھی وہ متقی اور ہدایت یافتہ ہوتا ہے اور کبھی ضعیف ہوتا ہے کبھی وہ عالم غیب سے جڑ جاتا ہے ۔ اور کبھی عالم مشاہدہ میں ہی گم رہتا ہے ۔ کبھی وہ عالم مادیات میں سرگرم رہتا ہے اور کبھی عالم روح اور دل کی دنیا میں پھرتا ہے لیکن آخر کار وہ اللہ کی تقدیر کے سامنے بےبس نظر آتا ہے ۔ یہ سب رنگ اس کی تاریخ میں نظر آتے ہیں ۔ لہذا انسانی تاریخ کی تشریح صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ اس کے یہ متضاد عناصر ترکیبی پیش نظر رہیں۔ آج کل بعض لوگ انسانی تاریخ کی تشریح محض اقتصادی زاویہ سے کرتے ہیں ۔ بعض اس کی تاریخ محض سیاسی زاویہ سے لکھتے ہیں ‘ بعض لوگ اس کی تاریخ بیالوجی اور جسمانی ساخت کے اعتبار سے لکھتے ہیں ۔ بعض لوگ محض روح اور بعض دوسرے محض نفس اور بعض دوسرے محض عقل کے اعتبار سے تاریخ لکھتے ہیں ۔ جو لوگ انسان کا مطالعہ نہایت ہی سطحی ہوتا ہے حالانکہ انسان کا ہمہ گیر مطالعہ ضروری ہے ۔ اسی طرح اس کی تاریخ کی تشریح بھی ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہونا چاہئے ۔ انسانیت کی تاریخ کی اسلامی تشریح ہی وہ ہمہ جہت تشریح ہے جس کا مؤرخ انسانیت کے وسیع سمندر میں گہرائی تک غوطے لگاتا ہے اور ہر حقیقت نکال لاتا ہے ۔ اسلامی مؤرخ اس ہمہ گیر اور گہرے مطالعے کے بعد اس کے واقعات پر نظر ڈالتا ہے ۔ (دیکھئے اسلامی تصور حیات کے بنیادی عناصر کی فصل حقیقت انسان) ۔ یہاں ہم اب ایک عظیم تاریخی سمندر کے سامنے کھڑے ہیں ۔ اس سے قبل ہم تخلیق انسانیت کے مناظر دیکھ چکے ہیں ۔ اس منظر میں تمام جہانوں کا اکٹھ تھا ۔ وہ تمام مخلوقات جمع تھی جس کے ساتھ انسان کا واسطہ پڑنامقرر تھا ۔ تمام آفاق اور تمام مخلوق وعناصر ظاہر تھے یا خفیہ ‘ سب کے ساتھ حاضر مجلس تھے ۔ اس محفل میں پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ اس نئی مخلوق کی صلاحیت کیا ہے اور اس کی اساسی خصوصیات کیا ہیں ۔ عالم بالا کی یہ مجلس اس کے اعزاز میں منعقد ہوئی ہے اور اس میں اسے آخری اعزاز ملا یعنی ملائکہ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسے سجدہ کریں ۔ اس وقت اللہ نے اعلان کیا کہ یہ ہے جدید مخلوق ۔ پھر ہم نے اس منظر کی ایک دوسری جھلک بھی دیکھی جس میں اس کی کمزوری سامنے آئی اور وہ دشمن کے ہتھے چڑھ گیا ۔ پھر کیا ہوا ؟ وہ جو ہونا تھا کہ اسے زمین پر اتار دیا گیا اور آزاد چھوڑ دیا گیا کہ وہ اس کرہ ارض کے تمام عناصر کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت متعین کرے ۔ ہم نے دیکھا کہ حضرت انسان اس کرہ ارض پر بطور مومن اتر رہا ہے ۔ وہ اپنی کوتاہی اور لغزش پر اللہ سے مغفرت طلب کر رہا ہے اس سے عہد لیا جاتا ہے کہ وہ فرائض خلافت فی الارض پورے کرے گا اور اللہ کی جانب سے جو احکام آئیں گے ان کی پیروی کرے گا ۔ شیطان یا نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہوگا اور اس سلسلے میں اسے جنت سے نکلنے کا جو تجربہ ہوا اسے زاد راہ بنائے گا ۔ اب صدیاں گزر گئی ہیں اور تاریخ کے ناپیدا کنار سمندر کی متلاطم امواج کے تھپیڑوں نے اسے اچھا خاصا تجربہ کار بنا دیا ہے ۔ اس پوری کائنات اس کے ماحول اور اس میں باہم برسرپیکار متضاد عوامل میں رہتے ہوئے اسے ایک عرصہ گزر گیا ہے ۔ وہ اپنے ضمیر اور اپنے میلانات کے ساتھ بھی کشمکش میں رہا ہے ۔ چناچہ اس سبق میں حضرت انسان کی طویل تاریخ کی بعض جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں کہ وہ کس طرح اس کرہ ارض کے متضاد میلانات کی کشاکش میں زندگی بسر کرتا رہا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھول جاتا ہے ۔ بارہا وہ اپنا سبق بھول گیا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس سے بارہا کمزوریاں سرزد ہوتی رہیں اور ہوئیں ۔ شیطان اس پر غالب آجاتا ہے اور بارہا ایسا ہوتا ہے ۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ بار بار اس کی راہنمائی کی جائے اور اسے مصیبتوں سے نجات دلائی جائے ۔ جب وہ اس کرہ ارض پر اتارا تو وہ توبہ کرچکا تھا ‘ ہدایت یافتہ تھا اور عقیدہ توحید پر قائم تھا لیکن اگلے ہی منظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پھر گمراہ ہوگیا ہے ‘ مشرک بن گیا ہے اور اللہ پر افتراء باندھ رہا ہے ۔ لیکن تاریخی امواج کے اس تلاطم میں اس کے لئے ایک نشان راہ اور ارادہ رسالت کا انتظام کردیا گیا ہے ۔ اسے بار بار اپنے رب کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے اور یہ اللہ کا عظیم رحم وکرم ہے کہ اس نے اسے بےسہارا نہیں چھوڑا ۔ اس سورة میں ہم قافلہ ایمان کے طویل سفر کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔ اس قافلے کی ہدایت کے لئے انبیاء ورسل نے ہدایت کے جھنڈے بلند کر رکھے ہیں ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ‘ حضرت ہود (علیہ السلام) ‘ حضرت صالح (علیہ السلام) ‘ حضرت لوط (علیہ السلام) ‘ حضرت شعیب (علیہ السلام) ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ‘ اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسان کی ہدایت کے لئے تشریف لائے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ حضرات اللہ کی ہدایات کے مطابق ہاتھ پکڑ پکڑ کر انسان کو اس راہ سے روکتے ہیں جس راہ پر چلا کر شیطان انہیں وارد جہنم کرنا چاہتا ہے ۔ شیطان کے ساتھ اس کے مددگار بھی اس کام میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ یہ وہ مستکبرین ہیں جو ہر زمانے میں اپنے آپ کو حق سے بالا سمجھتے رہے ہیں۔ پھر ہم ہدایت وضلالت کے درمیان جو مسلسل کشمکش برپا ہے ‘ اس کی جھلکیاں بھی ان مناظر میں دیکھتے ہیں۔ ایک طرف حق ہے اور دوسری جانب باطل ‘ حق کے لیڈر انبیاء رسل ہیں اور باطل کے لیڈر شیاطین جن وانس ہیں ۔ اس سفر کے آخری مرحلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جھٹلانے والے کس طرح مار کھاتے ہیں ‘ ان کے لاشے ہر طرف بکھرے نظر آتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اہل ایمان کامیاب اور پر مسرت ہیں۔ یادہانی اور تذکیر کا یہ ایک طویل سلسلہ ہے جو اس سبق میں نظر آتا ہے ۔ قرآن میں قصص کا بیان لازما تاریخی ترتیب کے مطابق نہیں ہوتا ‘ لیکن اس سورة میں قصص کی تاریخی ترتیب کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے ‘ اس لئے کہ اس سورة میں انسانیت کے طویل سفر کو بھی پیش نظر رکھنا مطلوب ہے ۔ یہ بھی مطلوب ہے کہ نظر آئے کہ کس طرح اس طویل انسانی سفر میں انبیاء ورسل بار بار انسان کو ہدایت فراہم کرتے ہیں ۔ جب بھی وہ راہ راست سے بھٹک جاتا ہے یہ لوگ اس کا ہاتھ پکڑتے ہیں ۔ جب بھی شیطان نے انسانیت کی قیادت سنبھالی ہے اور اسے جہنم کی طرف لے چلنے کا حکم دیا ہے انبیاء ورسل نے اسے روکنے کی سعی کی ہے ۔ اس سبق میں جو نشانانت راہ دکھائے گئے ہیں ان کا خلاصہ ہم یوں پیش کرتے ہیں : یہ کہ انسانیت کا آغاز ایک مومن ہدایت یافتہ اور عقیدہ توحید پر ایمان رکھنے والے انسان کے ساتھ ہوا ۔ بعد کے ادوار میں انسان بھٹک کر مشرکانہ عقائد کا حامل بن گیا ۔ انسان کے بھٹکنے کا سبب وہ عوامل اور رجحانات ومیلانات بنے جو اسن کی ذات کے اندر اللہ نے ودیعت کئے تھے یا وہ عناصر اور اسباب اس کی گمراہی کا سبب بنے جو اس جہان میں پنہاں تھے ۔ جب بھی انسان گمراہی میں مبتلا ہوا ایک رسول دنیا کی اسٹیج پر نمودار ہوا اور وہ وہی دعوت اس کے سامنے پیش کرنے لگا جس کا یہ گمراہ انسان اپنی گمراہی سے قبل ماننے والا اور اس کا حامل تھا ۔ رسول کی دعوت آنے کے بعد لوگ ہمیشہ دو گرہوں میں بٹ گئے ۔ ایک گروہ نے ہلاکت کی راہ لی اور دوسرا گروہ از سرنو زندہ ہوگیا ۔ زندہ وہ لوگ ہوئے جو راہ ہدایت کی طرف لوٹ آئے اور انہوں نے جان لیا کہ ان کا الہ الہ واحدہ ہے اور وہ پوری طرح اس الہ وحد کے سامنے سرتسلیم خم کرنے لگے ۔ انہوں نے اس رسول کی پکار کو سنا جو انہیں کہہ رہا تھا ” اے میری قوم صرف اللہ کی بندگی کرو ‘ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی اور حاکم نہیں ہے ۔ “ پس یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر اللہ کا پورا دین قائم ہے اور انسان کی طویل تاریخ میں تمام رسولوں نے صرف اسی عقیدے کی طرف دعوت دی ہے ۔ جو رسول بھی آیا اس نے قوم کے سامنے یہی کلمہ پیش کیا ۔ ایسے حالات میں جب اس کی قوم کو شیطان نے گمراہی کے جال میں پھنسا لیا تھا ۔ وہ اصل عقیدے کو بھول گئے تھے اور گمراہ ہوچکے تھے ۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ بیشمار شریک ٹھہرائے ہوئے تھے ۔ مختلف جاہلیتوں کے اندر یہ شریک مختلف نوعیت کے تھے ۔ ان بت پرستیوں کی اساس پر انسانی تاریخ میں حق و باطل کے درمیان معرکہ آرائی قائم رہی ہے اور اسی معرکہ آرائی کی اساس پر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ جھٹلانے والوں کو پکڑا اور ایمان لانے والوں کو نجات دی ہے ۔ قرآن کریم نے ان دعوتوں کو ایک ہی جیسے الفاظ میں منضبط کیا ہے حالانکہ انبیاء مختلف زبانوں میں دعوت دیتے چلے آئے تھے ۔ انہوں نے مختلف ادوار اور مختلف زبانوں میں جو دعوت دی ‘ قرآن نے اس کی تعبیر ان الفاظ میں کی ہے ۔ ” اے قوم صرف اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارا اللہ کے سوا کوئی حاکم نہیں ہے ۔ “ اس سے اس حقیقت کا اظہار مقصود تھا کہ پوری انسانی تاریخ میں دعوت اسلامی ایک ہی رہی ہے بلکہ اسے ایک جیسے الفاظ ہی میں پیش کیا گیا ہے ۔ یہ عبارت اور یہ الفاظ اس عقیدے کو پوری طرح اور جامع ومانع انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ جس طرح سیاق کلام سے بھی اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ایک کے بعد ایک رسول اسٹیج پر آتا ہے اور وہی الفاظ دہراتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے اسلامی نظریہ حیات کے بیان کے لئے کیا منہاج اسٹیج پر آتا ہے اور وہی الفاظ دہراتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے اسلامی نظریہ حیات کے بیان کے لئے کیا منہاج اختیار کیا ہے ؟ اس بات سے یہ حقیقت خود بخود سامنے آجاتی ہے کہ جدید دور میں ادیان کا تقابلی مطالعہ کرنے والے مفکرین اور قرآن کے منہاج کے درمیان بہت بڑا فرق ہے ۔ قرآنی منہاج یہ ہے کہ رسول جو عقائد لے کر آئے ان کے اندر کوئی ترقی یا تغیر وتبدیلی نہیں ہونی ہے نہ ان عقائد کے اندر غور وفکر کے کوئی ابتدائی یا انتہائی مدارج رہے ہیں ۔ جو لوگ ادیان کے بنیادی عقائد کی ارتقائی اور تدریجی ارتقائی سوچ بیان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اسلامی نظریات کو بھی رتقانی شکل میں پڑھتے ہیں اور ایسی بات کرتے ہیں جو اللہ نے قرآن کے اندر نہیں کی ہے ۔ جس طرح قرآن کریم واضح طور پر اظہار کرتا ہے کہ انبیاء نے ہمیشہ ایک ہی دعوت دی ہے ۔ قرآن اس دعوت کو ایک ہی عبارت میں بیان کرتا ہے یعنی ” اے قوم صرف اللہ کی بندگی کرو ‘ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی اور حاکم نہیں ہے ۔ “ آیت ” ِ اعْبُدُواْ اللَّہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَـہٍ غَیْْرُہُ “۔ (٧ : ٥٩) اور یہ الہ جس کی طرف تمام رسول دعوت دیتے رہے ‘ وہ رب العالمین ہے اور لوگوں سے ایک عظیم دن حساب و کتاب لے گا ۔ رسولوں میں سے کوئی ایک رسول بھی ایسا نہیں گزرا جس نے لوگوں کو اپنے قبیلے کی طرف دعوت دی ہو ‘ یا کسی قوم یا کسی نسل کے رب کی طرف لوگوں کو بلایا ہو ۔ نہ رسولوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا گزرا ہے جس نے دو الہوں کی طرف دعوت دی ہو یا متعدد الہوں کا پرچار کیا ۔ رسولوں میں سے کسی رسول نے بھی سورج ‘ چاند ‘ ستاروں ‘ ارواح یا بتوں کی پوجا اور غلامی کی طرف نہیں بلایا ۔ اسی طرح اللہ کی جانب سے کوئی ایسا نظام وضع نہیں ہوا جس میں آخرت کا تصور نہ ہو جس طرح بعض وہ لوگ کہتے ہیں جو اپنے آپ کو ماہرین ادیان کہتے ہیں اور جو دنیا کی مختلف جاہلیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ جن نتائج تک پہنچے ہیں وہی اس دنیا کے معروف ادیان تھے اور اس کے علاوہ کوئی اور دین ان ادوار میں نہ تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر پے درپے رسول آتے رہے اور انہوں نے صرف اور صرف عقیدہ توحید اور خالص توحید کا عقیدہ پیش کیا ۔ انہوں نے یہ نظریہ دیا کہ صر اللہ رب العالمین ہے ‘ اور وہ لازما قیامت کے دن سب سے حساب لے گا ۔ لیکن ہر رسالت کے خاتمے کے بعد جاہلیت دوبارہ دنیا پر چھا گئی اور اس کے چھانے کے اسباب کچھ تو انسانوں کے اندر تھے اور کچھ وہ عوامل ودواعی تھے جو انسان کو فراہم کردہ ماحول میں نہایت ہی پیچیدہ شکل میں موجود تھے ۔ یہ انحرافات مختلف تصورات و عقائد کی صورت میں سامنے آئے اور آج کل کے ماہرین ادیان درحقیقت اصل دین کو چھوڑ کر ان ہی منحرف ادیان کا مطالعہ کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انکے اخذ کردہ خطوط پر دنیا میں دین اور مذہب نے بتدریج ارتقائی سفر کے ذریعے موجودہ شکل اختیار کی ہے ۔ بہرحال اللہ کا فرمان زیادہ قابل تقلید ہے ‘ خصوصا ان لوگوں کے لئے جو دین کے موضوع پر لکھتے ہیں جو اسلام کے حق میں کہتے ہیں اور اس کی جانب سے دفاع کرتے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو سرے سے قرآن پر ایمان ہی نہیں لاتے تو ہم ان سے مخاطب ہی نہیں ہیں ‘ اللہ بہرحال سچائی بیان کرتا ہے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ تمام رسول جب بھی وہ آئے تو انہوں نے سب سے پہلے اپنی قوم کو دعوت دی ہے ۔ انہوں نے قوم میں دعوت اسلامی کا کام اس وقت شروع کیا ہے جب قوم صراط مستقیم اور اس عقیدے سے منحرف ہوگئی جس پر سابقہ رسول نے انہیں چھوڑا تھا ۔ چناچہ پہلے انسان اہل توحید تھے اور وہ رب العالمین کو تسلیم کرتے تھے ۔ ان کا عقیدہ وہی تھا جو آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کا تھا ۔ اس کے بعد مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اور ان اسباب کی وجہ سے جن کا تذکرہ ہم نے کیا وہ اس عقیدے سے منحرف ہوگئے ۔ اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) تشریف لائے ۔ انہوں نے لوگوں کو دوبارہ رب العالمین کے عقیدہ توحید پر قائم ہونے کی دعوت دی ۔ ان کی دعوت کے اختتام پر ایک عظیم طوفان آیا اہل ایمان نے نجات پائی اہل تکذیب کو طوفان میں غرق کردیا گیا ۔ اس کرہ ارض پر اہل توحید نے قبضہ کیا اور اسے آباد کردیا ۔ دنیا کی اس تعمیر نو کی تعلیم ان کو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے واسطے سے دی تھی ۔ جب مزید وقت گزرا تو یہ لوگ پھر گمراہ ہوگئے اور اس کے بعد حضرت ہود (علیہ السلام) تشریف لائے اور انکی دعوت کے اختتام پر انہیں ایک سخت ہوائی طوفان نے آلیا یوں یہ قصہ اسی طرح آگے بڑھتا رہا اور تاریخ کا سفر جاری رہا ۔ ان رسولوں میں سے ہر رسول اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا ۔ اس نے یوں خطاب کیا ” اے برادران قوم ‘ صرف اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے ۔ “ اور ہر رسول نے اپنی قوم سے کہا آیت ” انا لکم ناصح امین “۔ میں تمہارے لئے ناصح امین ہوں ۔ “ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کو اپنی عظیم ذمہ داریوں کا کس قدر شدید احساس تھا وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کی قوم کے لوگ جس صورت حالات میں پھنسے ہوئے ہیں دنیا اور آخرت میں اس کا انجام کس قدر برا ہونے والا ہے ۔ رسولوں کے دلوں میں شدید خواہش تھی کہ ان کی قوم ہدایت پائے اس لئے کہ وہ قوم میں سے تھے اور قوم ان سے تھی مگر اس وقت قوم کے سرداروں نے ان کی راہ روکی اور حکم حق کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اللہ رب العالمین کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے انکار کردیا ۔ ان سرداروں نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ نظام زندگی صرف اللہ کا جاری ہو اور اس نظام میں صرف اللہ کی بندگی ہو ۔ یہی وہ اساس ہے جس کے اوپر تمام رسالتوں کا مدار رہا اور اسی کے اوپر اللہ کے ہاں سے تمام ادیان استوار ہوئے ۔ لیکن رسولوں نے تمام طاغوتی طاقتوں اور تمام سرداروں کے منہ پر کلمہ حق نہایت ہی وضاحت اور صاف گوئی کے ساتھ بلند کیا اور ہر بار انکی قوم دو نظریاتی دھڑوں میں تقسیم ہوئی ۔ لوگوں کے درمیان قومیت اور رشتہ داری کے روابط کٹ گئے اور ان کی جگہ ایک نظریہ کی اساس پر اخوت استوار ہوگئی ۔ جو لوگ ایک قوم کے افراد تھے وہ دو امتوں کی شکل اختیار کرگئے اور یوں نظر آنے لگے کہ ان کے درمیان نہ تو کوئی قرابت ہے اور نہ ہی متحدہ قومیت کا کوئی تعلق ہے ۔ اس کشمکش کے بعد فتح آتی ہے اور اس کے ذریعے دونوں امتوں کے درمیان فیصلہ ہوجاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ امت ہدایت اور امت ضلالت کے درمیان جدائی کردیتا ہے ۔ اب جھٹلانے والے مستکبرین اور سردار پکڑے جاتے ہیں اور مطیع فرمان اور سرتسلیم خم کرنے والے نجات پاتے ہیں ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی قوم نظریاتی اعتبار سے بٹی نہ ہو اور اللہ کی جانب سے فتح آگئی ہو ۔ ہمیشہ یہی ہوا کہ کوئی قوم نظریاتی اعتبار سے بٹ جاتی ہے ۔ اور پھر دونوں میں سے اہل حق فتح پاتے ہیں اہل اللہ ‘ اللہ کی بندگی اور غلامی میں خالص ہوجاتے ہیں ۔ وہ طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں صف آرا ہوجاتے ہیں اور خود اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں ۔ یہ وہ مشاہدہ ہے جو دعوت انبیاء کی تاریخ کے مطالعے کے دوران واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ ان تمام رسالتوں میں ایک بات پر فوکس کیا گیا ہے ۔ یہ کہ تمام لوگ رب واحد کی بندگی اور غلامی اختیار کریں اس لئے کہ صرف رب العالمین ہی بندگی کا مستحق ہے ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم بندگی اور اقتدار اعلی کا حق دوسری تمام مخلوق سے لے کر رب العالمین کو دے دیں ۔ انسانی زندگی کا کوئی پہلو بھی اس کے عقیدے کے بغیر اصلاح پذیر نہیں ہوسکتا ۔ تمام رسالتوں کے اس مشترکہ اصول کے بیان کے بعد قرآن کریم نے ان رسالتوں کی دعوت کی تفصیلات نہیں دی ہیں اس لئے کہ تمام رسولوں کے ادیان کی تفصیلات اسی مرکزی اصول پر مبنی تھیں ۔ کوئی بات اس عقیدے سے خارج نہ تھی ۔ یہ اصول چونکہ نہایت ہی اہم اور اساسی تھا اس لئے قرآن کریم نے اس پاس قدر زور دیا ہے کہ اسے علیحدہ بیان کیا ہے ۔ جس طرح ہم نے سورة انعام پر تبصرے میں کہا کہ تمام مکی قرآن کا اصل مبحث ہی یہی ہے لیکن مدنی حصے میں بھی جہاں جہاں موقع آیا ہے اس کی مناسبت سے اس موضوع پر بات ہوئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام ایک ٹھوس حقیقت ہے ایک نظام ہے اور اس حقیقت کو پیش کرنے کے لئے ایک منہاج اور طریقہ کار ہے ۔ اور منہاج اسلام دین اسلام سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے ۔ اس لئے ہمیں یہ معلوم کرنا چاہئے کہ وہ عظیم حقیقت کیا ہے جسے یہ دین لے کر دنیا میں آیا ہے ؟ اسی طرح ہمیں دین اسلام کو سمجھنے کے لئے اور اس کے قیام کے لئے وہی منہاج اپنانا چاہئے جس میں اس حقیقت کو پیش کیا گیا ہے ۔ اور اس منہاج کا خلاصہ یہ ہے کہ عقیدہ توحید کو مکرر مؤکد اور منفرد انداز میں پیش کرنا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورة میں اس منہاج کو بار بار مؤکد سے مؤکد الفاظ میں اور نہایت ہی واضح اور سادہ اسلوب میں بیان کیا گیا ہے اور یہ منہاج اس سورة کے تمام قصص میں واضح ہے ۔ اس سورة میں جو قصص بیان ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کا مزاج کیا ہوتا ہے اور کفر کا مزاج کیا ہوتا ہے اور نفس انسانی پر دونوں کے اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں بتکرار بتایا جاتا ہے کہ جو قلوب ایمان کے لئے مستعد ہوتے ہیں وہ کس قسم کے ہوتے ہیں اور جو دل کفر اور انکار پر آمادہ ہوتے ہیں وہ کس قسم کے ہوتے ہیں ؟ جن لوگوں نے رسولوں کی دعوت کو قبول کیا ان کے دلوں میں کبر و غرور نہ تھا اور وہ رسولوں کی دعوت کو قبول کرنے اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کرتے تھے ۔ ان کو یہ بات انوکھی نہ لگتی تھی کہ اللہ ان میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیج دے جو ان تک اس کا پیغام پہنچائے اور انہیں انجام بد سے خبردار کرے ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے کسی بھی رسول کو ماننے سے انکار کیا ‘ وہ ہمیشہ اس قسم کے لوگ رہے ہیں جنہوں نے گناہ کی راہ اس لئے اختیار کی کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے تھے اور صاحب مرتبہ لوگ تھے ۔ انہوں نے اللہ کے اقتدار اعلی کے قیام کے بجائے خود اپنا اقتدار لوگوں پر مسلط کردیا تھا اور کسی صورت میں بھی اس غاصبانہ اقتدار سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہ تھے ۔ نہ اس کے لئے تیار تھے کہ وہ خود اپنے ایک عام آدمی کی سمع و اطاعت کریں ۔ یہی لوگ تھے جن کے لئے قرآن کریم ” ملاء “ کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔ یہ حکام بڑے لوگ صاحب قوت اقتدار لوگ تھے اور یہیں سے اس دین کا اصل راز معلوم ہوتا ہے ۔ یہ راز اللہ کا اقتدار اعلی اور اللہ کی حاکمیت کے قیام کا مسئلہ ہے ۔ یہ بڑے لوگ رسول کے ان الفاظ کے نتائج کو اچھی طرح سمجھتے تھے ” اے بردران قوم ! صرف اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا اور کوئی حاکم نہیں ہے ۔ “ اور ” میں تو رب العالمین کا فرستادہ ہوں “۔ وہ سمجھتے تھے کہ اقتدار اور حاکمیت اللہ کی ہوجائے اور اللہ کا رسول یہ شخص ہو تو ظاہر ہے کہ ان کی تمام بڑائی ختم اور ان کے تمام اختیارات از خود اس شخص کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں جو رب العالمین کا نمائندہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس دعوت کے لئے سد راہ بن گئے تھے اور نتیجۃ ان لوگوں میں شامل ہوگئے تھے جو ہلاک ہونے والے تھے ۔ یہ لوگ اس اقتدار اعلی کے شیدانی ہوگئے تھے کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی انہی کی راہ پر چلتی تھیں اور انہی کی طرح جہنم کی راہ پر پڑگئی تھیں جس کا انجام ہلاکت کے سوا کچھ نہ تھا ۔ غرض جھٹلانے والوں کی مقتل گاہوں کے جو نقشے ان قصص میں کھینچے گئے ہیں وہ اللہ رب العالمین کی اس سنت کے مطابق ہیں جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ یہ لوگ اللہ کی آیات کو یکسر بھلا دیتے تھے اور اللہ کی راہ سے انحراف کرلیتے تھے ۔ اللہ کی جانب سے رسولوں کے ذریعے ڈراوا آتا تھا اور وہ اللہ کی بندگی کے اقرار کو اپنے لئے ہتک سمجھتے تھے ۔ وہ اپنی خوشحالی پر فخر کرتے اور مطالبہ کرتے کہ جلدی عذاب لاؤ ۔ اس کے برعکس وہ رسول اور اہل ایمان کو دھمکیاں دیتے اور ایذا پہنچاتے ‘ جس کے مقابلے میں اہل ایمان ثابت قدم رہتے اور اپنے نظریات پر جم جاتے ۔ اس کے بعد پھر عذاب الہی آجاتا ۔ یہ ہے تاریخ انسانیت ۔ سب سے آخری بات یہ ہے کہ باطل کی سرکش قوت کا مزاج ہی یہی ہے کہ وہ سچائی کے وجود ہی کو برداش کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ سچائی اگر باطل کے مقابلے میں گوشہ نشین ہو کر حق و باطل کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دے تو بھی باطل اسے برداشت نہ کرے گا ۔ بلکہ باطل اس کا پیچھا کرے گا اور اسے آخری حدوں تک بھگانے کی سعی کرے گا ۔ اسے شکست دینے کی کوشش کرے گا ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا : ” تم میں سے اگر ایک گروہ اس دعوت پر ایمان لایا ہے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اور ایک گروہ ایمان نہیں لایا تو تم صبر کرو کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے ‘ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ “ لیکن انہوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی اس پیشکش کو قبول نہیں کیا اور وہ اس بات کو برداشت نہ کرسکے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے سچائی موجود ہو اور وہ پھلے پھولے نہ کوئی باطل یہ برداشت کرسکتا ہے کہ کوئی ایسی جماعت میدان میں موجود رہے جو صرف اللہ کی بندگی کرتی ہو اور تمام طاغوتی طاقتوں کے اقتدار اعلی کی منکر ہو ۔ “ شیعب (علیہ السلام) کی قوم سے ان لوگوں نے جو مستکبرین تھے ‘ انہوں نے یہ کہا ” اے شعیب ہمیں تو تم کو اور ان لوگوں کو جو تم پر ایمان لے آئے ہیں اپنے اس گاؤں سے نکالنا پڑے گا ۔ یا تمہیں ہمارے نظام وملت میں واپس آنا ہوگا ۔ “ لیکن حضرت شعیب (علیہ السلام) بھی ان کی اس تجویز کو صاف صاف رد کردیتے ہیں ۔ ’ انہوں نے کہا ‘ تب بھی کہ ہم ایسا نہ چاہ رہے ہوں ۔ اگر ہم تمہارے نظام اور ملت میں واپس لوٹ آئیں گے تو ہم تو اللہ پر افتراء پردازی کر رہے ہوں گے جبکہ اس سے اللہ نے ہمیں نجات دے دی ہے ۔ “ یہ مکالمہ بتاتا ہے کہ اہل دعوت پر طاغوتی طاقتوں کے ساتھ یہ معرکہ آرائی فرض ہے اور انہیں اس کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ۔ کوئی اٹکل اور کوئی حکمت حاملین دعوت اسلامی کو اس معرکے سے بچا نہیں سکتی اس لئے کہ طاغوتی طاقتیں تب آرام کریں گی جب وہ دعوت اسلامی کو اپنے نظریات سے منحرف کرلیں گی یہ قوتیں تب دم لیں گی جب تک داعیان حق واپس ان کی گمراہ ملت کی طرف لوٹ نہ آئیں گے حالانکہ اللہ نے انکے دل سے یہ منحرف ملی نظریات نکال کر ان کے دل میں صرف اللہ کے اقتدار اعلی کے نظریات بٹھا دیئے ہیں ۔ لہذا ان دونوں قوتوں کے درمیان معرکہ آرائی لابدی ہے اور اس سے نہیں بچا جاسکتا ۔ جب معرکہ لابدی ہے تو پھر اس کی مشکلات کو برداشت کرنا بھی لابدی ہے ۔ اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک فتح نصیب نہیں ہوجاتی اور جب تک وہ کشتیاں جلا کر شعیب (علیہ السلام) کا یہ نغمہ نہیں الاپتے ۔ ” ہم نے اللہ پر بھروسہ کرلیا ہے ۔ اے اللہ اب تو ہی ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ فرما کیونکہ تو بہترین فیصلے کرنے والا ہے ۔ “ (علی اللہ توکلنا “۔ (٧ : ٨٩) اب اللہ کی سنت چلتی ہے اور پوری انسانی تاریخ میں یہ چلتی رہی ہے ۔ ان قصص پر یہ تبصرہ کافی ہے ۔ اب آیات قرآن تفصیلات کے ساتھ ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذْنِ رَبِّہٖ وَ الَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَکِدًا) (اور اچھی زمین کا سبزہ نکلتا ہے اس کے رب کے حکم سے اور جو خراب زمین ہے اس میں سے نہیں نکلتا مگر ناقص) نَکِدْ اس چیز کو کہتے ہیں جو بےفائدہ بھی ہو اور مقدار میں بھی کم ہو۔ بارش تو جگہ جگہ ہوتی ہے اچھی زمین پر بھی برستی ہے اور بنجر شور زمین پر بھی اس کا فیضان ہوتا ہے لیکن اچھی زمین بارش کی وجہ سے باغ و بہار بن جاتی ہے اور خراب زمین میں جو کوئی چیز پیدا ہوجاتی ہے بےفائدہ ہوتی ہے اور تھوڑی بھی ہوتی ہے (بےفائدہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ غذا کے کام نہیں آتی) بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس میں مومن اور کافر کی مثال بیان فرمائی ہے۔ مومن کا دل طیب ہے پاکیزہ ہے اس کے سامنے جو اللہ کی ہدایتیں آتی ہیں اور جو قرآن کی آیات سنتا ہے وہ اس کے دل پر اثر کر جاتی ہے اور ان سے منتفع ہوتا ہے اور اس کے دل میں خوبیوں اور خوشیوں کی لہریں دوڑ جاتی ہیں۔ اور کافر کے پاس جب ہدایت پہنچتی ہے اور قرآن کی آیات سنتا ہے تو قبول نہیں کرتا اس کا دل خبیث ہے۔ ہدایت سے منتفع نہیں ہوتا ذرا بہت ہدایت کا خیال آتا ہے تو اس کو آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ (کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْکُرُوْنَ ) (یعنی ہم طرح طرح سے آیات بیان کرتے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے دلائل ہیں جو شکر گزار ہیں اور قدر شناس ہیں) بیان تو سب کے لیے ہوتا ہے لیکن نفع وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جنہیں اپنے خالق کی نعمتوں کی قدر دانی ہے۔ ان کے قلوب پاکیزہ ہیں خیر کو قبول کرتے ہیں۔ اور ظاہری و باطنی نعمتوں کے لیے شکر گزار ہوتے ہیں۔ قال صاحب الروح ج ٨ ص ١٤٨ لِقَوْمٍ یَّشْکُرُوْنَ نعم اللہ تعالیٰ و منھا تصریف الاٰیات و شکر ذالک بالتفکر فیھا و الاعتباربھا، وخص الشاکرین لانھم المنتفعون بذٰلک، و قال الطیبی ذکر لقوم یشکرون بعد لعلکمْ تذکرون من باب الترقی لان من تذکر الآء اللہ تعالیٰ عرف حق النعمۃ فشکر۔ ١ ھ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

69:“ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ ” اچھی زمین “ اَلَّذِيْ خَبُثَ ” ناقص اور شور زمین “ نَکَدًا ” بیکار، یہ مؤمن و کافر کی صلاحیتوں اور ان کے اعمال کی تمثیل ہے۔ بلد طیب یعنی اچھی زمین مومن کے دل سے عبارت ہے جس میں آیات الٰہی سے زندگی پیدا ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ اعمال صالحہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور “ اَلَّذِيْ خَبُثَ ” یعنی ناقص زمین کافر معاند کا دل ہے جس پر آیات الٰہی کی بارش کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور اس کے جوارح سے کفر و شرک اور طغیان و عصیان ہی سے ظاہر ہوتا ہے۔ قال ابن عباس (رض) ھذا مثل ضربہ اللہ تعالیٰ للمؤمن یقول ھو طیب و عملہ طیب کما ان البلد الطیب ثمرہ طیب ثم ضرب مثل الکافر کالبلدۃ السبخۃ المالحۃ التی خرجت منھا البرکۃ فالکافر حیث و عملہ خبیث (خازن ج 2 ص 201) ۔ یہاں تک تینوں دعوے مذکور ہوئے اب اس کے بعد گذشتہ انبیاء (علیہم السلام) کے چھ قصے مذکورہ ہوں گے جو ان تینوں دعو وں سے متعلق ہوں گے۔ پہلے تین قصے تیسرے دعوے سے، چوتھا قصہ دوسرے سے، پانچواں قصہ دوسرے سے اور تیسرے سے اور چھٹا قصہ پہلے دعوے سے متعلق ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

58 اور جو زمین اچھی اور عمدہ ہے اور اس میں استعداد ہے تو اس کا سبزہ اور اس کی پیداوار اپنے پروردگار کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو زمین خراب ہتی ہے تو اس میں سے سوائے ناقص اور نکمی چیز کے اور کچھ نہیں نکلتا اور اس کی پیداوار ناقص ہی ہوتی ہے ہم اسی طرح مختلف پہلوئوں سے اپنے دلائل بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو شکرگزار ہیں یعنی ایک جاہل قوم میں اپنا پیغمبر بھیجا جو روحانی بارش سے لوگوں کو سیراب کرتا ہے جن کی استعداد ستھری ہوتی ہے وہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں اور جن کی استعداد خراب ہوتی ہے ان کو بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچتا ہی ہے اگرچہ وہ ناقص ساہی ہوتا ہے۔