Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 84

سورة الأعراف

وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ؕ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿٪۸۴﴾  17

And We rained upon them a rain [of stones]. Then see how was the end of the criminals.

اور ہم نے ان پر خاص طرح کا مینہ برسایا پس دیکھو تو سہی ان مجرموں کا انجام کیسا ہوا؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا ... And We rained down on them a rain, is explained by His other statement, وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنْضُودٍ مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبّكَ وَمَا هِى مِنَ الظَّـلِمِينَ بِبَعِيدٍ And rained on them stones of baked clay, in a well-arranged manner one after another. Marked from your Lord; and they are not ever far from the wrongdoers. (11:82-83) Allah said here, ... فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ Then see what was the end of the criminals. This Ayah means: `See, O Muhammad, the end of those who dared to disobey Allah and reject His Messengers.' Imam Ahmad, Abu Dawud, At-Tirmidhi, Ibn Majah, all recorded a Hadith (from) Ibn Abbas who said that Allah's Messenger said; مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُول بِه Whoever is found doing the act of the people of Lut, then kill them; the doer and the one it is done to.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

84۔ 1 یہ خاص طرح کا مینہ کیا تھا ؟ پتھروں کا مینہ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، ہم نے ان پر تہ بہ تہ پتھروں کی بارش برسائی اس سے پہلے فرمایا ہم نے اس بستی کو الٹ کر نیچے اوپر کردیا۔ 84۔ 2 یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیکھئے تو سہی جو لوگ اعلانیہ اللہ کی معاصی کا ارتکاب اور پیغمبروں کی تکذیب کرتے ہیں، ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٩] قوم لوط کا انجام :۔ اس مقام پر صرف اتنا ہی مذکور ہے کہ اس قوم پر ہم نے بدفعلی اور پھر سرکشی کی پاداش میں بری طرح کی بارش برسائی۔ لیکن قرآن کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کی سب بستیوں کو اٹھا کر بلندی سے زمین پردے مارا گیا۔ سیدنا جبرئیل (علیہ السلام) آئے انہوں نے زمین کے اتنے حصہ کو زمین سے علیحدہ کر کے اپنے پروں پر اٹھایا پھر اوپر سے زمین پر پٹخ دیا پھر اوپر سے اللہ تعالیٰ نے پتھروں کی بارش برسائی اس طرح اس بدکار قوم کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ اب ایسا عذاب کیوں نہیں آتا ؟:۔ یہاں ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ایسے جرائم تو آج کل بھی ہو رہے ہیں پھر ان پر کیوں ایسا عذاب نہیں آتا تو اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔ ١۔ جب اللہ کا نبی کسی قوم کو اس کی بدفعلی یا جرائم سے منع کرے لیکن قوم باز آنے کی بجائے اکڑ جائے اور اللہ کے رسول اور اس کی آیات کی تکذیب کرے اس کا مذاق اڑانے اور انہیں دکھ پہنچانے لگے تو اس کا جرم اصل جرم سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے حالانکہ بنیادی جرم کی حیثیت بنیادی ہی رہتی ہے بخلاف ان لوگوں کے جو محض اس ایک جرم میں مبتلا ہوتے ہیں لہذا یہ اتنے شدید مجرم نہیں ہوتے کہ انہیں فوراً ہلاک کردیا جائے اور ان کے لیے معذرت کی گنجائش کو باقی نہ چھوڑا جائے۔ اللہ کا عذاب صرف اس صورت میں آتا ہے جب معاشرے کی اکثریت اس جرم میں مبتلا ہوجاتی ہے کسی جرم کو جرم نہ سمجھنے یا اسے جائز قرار دینے یا کچھ افراد کے اس میں مبتلا ہونے ہی پر عذاب نہیں آجایا کرتا اور جب کسی معاشرے کی اکثریت اس جرم میں مبتلا ہوجائے تو اسے اس کے منطقی نتائج سے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے اور انہی منطقی نتائج کا نام شریعت کی اصطلاح میں اللہ کی سنت جاریہ ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوا کرتی جیسے اس قوم کی نسل میں کمی یا انقطاع بھی عذاب کی قسم ہے۔ آج کل تہذیب مغرب کا علمبردار امریکہ ہے جہاں ہم جنسی کا قانون بھی پاس ہوچکا ہے اور وہاں گورے اور کالے کا مسئلہ بھی شدت اختیار کرچکا ہے گورے یعنی حکمران قوم امریکہ کی پرانی آبادی یعنی کالے لوگوں سے بڑی نفرت کرتے ہیں اور انہیں مساوی شہری حقوق بھی نہیں دیتے۔ اب گورے لوگوں کی عورتوں میں یہ رجحان چل نکلا ہے کہ وہ کالے لوگوں کو شادی کے لیے پسند کرتی ہیں جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ گورے لوگ لواطت کے عادی ہوچکے ہیں اور کالے اس قسم کی فحاشی سے بچے ہوئے ہیں۔ گوری عورتوں کے اس رجحان نے حکمران قوم کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ کھڑا کردیا ہے اور یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک عذاب ہے۔ ٢۔ عذاب کی طبعی توجیہات :۔ اللہ کا عذاب آج بھی مختلف زلزلوں، سیلابوں، طوفان باد و باراں اور خسف کی صورت میں آتا ہی رہتا ہے لیکن ہمارے ظاہر بین سائنس دان اور دانش وران قوم اس عذاب کی ایسی طبعی یا تاریخی توجیہات تلاش کر کے عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں کہ عوام کا ذہن اس حقیقت کی طرف منتقل ہی نہ ہونے پائے۔ جو قرآن ہمیں سمجھانا چاہتا ہے اور اس کے انداز بیان سے صاف طور پر واضح ہو رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَّطَرًا ۭ۔۔ : ” ْ مَّطَرًا “ یہ ” َاَمْطَرْنَا “ کی تاکید ہے اور تنوین اس کی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے، یعنی ایک زبردست بارش۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بستی الٹ دی، اس لیے قرآن میں اس بستی اور اس کے ارد گرد کی بستیوں کو ” َوَالْمُؤْتَفِكَةَ “ (نجم : ٥٣ ) یعنی الٹنے والی اور ” الْمُؤْتَفِكٰتِ “ ( توبہ : ٧٠) کہا گیا ہے، پھر ان پر کھنگر والے تہ در تہ پتھروں کی بارش برسائی۔ ( دیکھیے ہود : ٨٢) اور وہ علاقہ ایسا تباہ ہوا کہ اب تک آباد نہیں ہوسکا۔ ان پر عذاب کا باعث ان کے فعل بد اور اس پر اصرار کے ساتھ ساتھ پیغمبر کے ساتھ کفر اور استہزا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fifth verse (84), the punishment which came on these people has been described in a few words - that an unusual rain was sent upon them. The details of this punishment appear in Surah Had where it is said: فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُ‌نَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْ‌نَا عَلَيْهَا حِجَارَ‌ةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ ﴿٨٢﴾ مُّسَوَّمَةً عِندَ رَ‌بِّكَ ۖ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ ﴿٨٣﴾ (So, when Our command-came, We turned its highest into its lowest, and We rained on it stones of hard clay, one over an-other marked, with your Lord. And they are not far from the transgressors - 11:82-83). This tells us that the rain of stones came from above and from down below, angel Jibra&il (علیہ السلام) lifted up the whole crust of the earth and threw it back upside down. Then, the stones which rained down were one over the other, that is, the stone rained so ceaselessly that they kept collecting one on top the next. These stones were marked. Some commentators say that every such stone was marked with the name of the person who was destined to be destroyed with it. And in the verses of Surah Al-Hijr, also mentioned before the account of the punishment is: فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِ‌قِينَ ﴿٧٣﴾ that is, a Sound seized them at sunrise - 15:73). This indicates that first to come was some harsh Sound from the skies, then came other punishments. The outward arrangement of the words shows that it was after this Sound that the earth crust was turned upside down and then, stones were rained on them to put a stamp on their disgrace. And it is also possible that the rain of stones came first and the turning over of the earth crust came later. The rea¬son is that, given the style of the Qur&an, it is not necessary that some-thing mentioned earlier should have also occurred earlier. Out of the horrendous punishments sent on the people of Sayyidna Lut (علیہ السلام) ، the punishment of turning the floor of the earth upside down has a particular correspondence with their act of shame and im¬modesty because they were guilty of perversion. Towards the end of the verses of Surah Hud cited a little earlier, the Qur&an has warned the people of Arabia when it says: وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ ﴿٨٣﴾ that is, these upturned habitations were not far from the trans¬gressors. They pass by them while traveling to Syria but it is surpris¬ing that they would learn no lesson from them. And these sights are not restricted with the time the Holy Qur&an was being revealed. They are still there between Bayt al-Maqdis and Jordon river, particularly the area known as the Sea of Lut or the Dead Sea. It lies way deep below the sea level. On a particular section, there is water which is unusual. No sea life survives there. Hence, the name: Dead Sea. This is said to be the legendary Sodom. May Allah keep us safe from His Punishment and Wrath.

چوتھی آیت میں اس قوم پر نازل ہونے والے عذاب کو مختصر لفظوں میں صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ ان پر عجیب قسم کی بارش بھیجی گئی۔ اور سورة ہود میں اس عذاب کی مفصل کیفیت یہ بیان فرمائی ہے۔ ( آیت) فلما جاء امرنا تا ببعید، یعنی جب ہمارا عذاب آپہنچا تو کر ڈالی ہم نے وہ بستی اوپر تلے اور برسائے ان پر پتھر کنکر کے تہ بہ تہ، نشان کئے ہوئے تیرے رب کے پاس اور نہیں ہے وہ بستی ان ظالموں سے کچھ دور۔ اس سے معلوم ہوا کہ اوپر سے پتھروں کی بارش بھی ہوئی اور نیچے سے زمین کے پورے طبقہ کو جبرئیل امین نے اٹھا کر اوندھا پلٹ دیا۔ اور جن پتھروں کی بارش برسی وہ تہ بہ تہ تھے یعنی ایسی مسلسل بارش ہوئی کہ تہ بہ تہ جمع ہوگئے اور یہ پتھر نشان کئے ہوئے تھے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ہر ایک پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جس کی ہلاکت کے لئے پھینکا گیا تھا۔ اور سورة حجر کی آیات میں اس عذاب سے پہلے یہ بھی مذکور ہے (آیت) فاخذتھم الصیحة مشرقین، یعنی آپکڑا ان کو چنگھاڑ نے سورج نکلتے وقت۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے آسمان سے کوئی سخت آواز چنگھاڑ کی صورت میں آئی پھر اس کے بعد دوسرے عذاب آئے۔ ظاہر الفاظ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ چنگھاڑ کے بعد پہلے زمین کا تختہ الٹ دیا گیا پھر اس پر ان کی مزید تذلیل و تحقیر کے لئے پتھراؤ کیا گیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے پتھراؤ کیا گیا ہو بعد میں زمین کا تختہ الٹا دیا گیا ہو۔ کیونکہ قرآنی اسلوب بیان میں یہ ضروری نہیں کہ جس چیز کا ذکر پہلے ہوا ہو وہ وقوع کے اعتبار سے بھی پہلے ہو۔ قوم لوط (علیہ السلام) کے ہولناک عذابوں میں سے زمین کا تختہ الٹ دینے کی سزا ان کے فحش و بےحیائی عمل کے ساتھ خاص مناسبت بھی رکھتی ہے کہ انہوں نے قلب موضوع کا ارتکاب کیا ہے۔ سورة ہود کی آیات کے آخر میں قرآن کریم نے اہل عرب کی مزید تنبیہ کے لئے یہ بھی فرمایا کہ (آیت) وما ہی من الظلمین ببعید۔ یعنی یہ الٹی ہوئی بستیاں ان ظالموں سے کچھ دور نہیں۔ سفر شام کے راستہ پر ہر وقت ان کے سامنے آتی ہیں۔ مگر حیرت ہے کہ یہ اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ اور یہ منظر صرف نزول قرآن کے زمانہ میں نہیں آج بھی موجود ہے بیت المقدس اور نہر اردن کے درمیان آج بھی یہ قطعہ زمین بحر لوط یا بحر میت کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی زمین سطح سمندر سے بہت زیادہ گہرائی میں ہے اور اس کے ایک خاص حصہ پر ایک دریا کی صورت میں ایک عجیب قسم کا پانی موجود ہے جس میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی لئے اس کو بحر میت بولتے ہیں۔ یہی مقام سدوم کا بتلایا جاتا ہے۔ نعوذ باللّہ من عذابہ و غضبہ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاہُمْ شُعَيْبًا۝ ٠ ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۝ ٠ ۭ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَہُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ٨٥ ۚ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے بَيِّنَة والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . ( ب ی ن ) البَيِّنَة کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ وفی پورا الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء/ 35] ( و ف ی) الوافی ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء/ 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔ كيل الْكَيْلُ : كيل الطعام . يقال : كِلْتُ له الطعام :إذا تولّيت ذلک له، وكِلْتُهُ الطّعام : إذا أعطیته كَيْلًا، واكْتَلْتُ عليه : أخذت منه كيلا . قال اللہ تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین/ 1- 3] ( ک ی ل ) الکیل ( ض ) کے معنی غلہ نا پنے کے ہیں ) اور کلت لہ الطعا م ( صلہ لام ) کے منعی ہیں ۔ میں نے اس کے لئے غلہ ناپنے کی ذمہ داری سنھالی اور کلت الطعام ( بدوں لام ) کے منعی ہیں میں نے اسے غلہ ناپ کردیا اور اکتلت علیہ کے منعی ہیں ۔ میں نے اس سے ناپ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین/ 1- 3] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں ۔ بخس البَخْسُ : نقص الشیء علی سبیل الظلم، قال تعالی: وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود/ 15] ، وقال تعالی: وَلا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف/ 85] ، والبَخْسُ والبَاخِسُ : الشیء الطفیف الناقص، وقوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] قيل : معناه : بَاخِس، أي : ناقص، وقیل : مَبْخُوس أي : منقوص، ويقال : تَبَاخَسُوا أي : تناقصوا وتغابنوا فبخس بعضهم بعضا . ( ب خ س ) البخس ( س ) کے معنی کوئی چیز ظلم سے کم کرنا کے ہیں قرآن میں ہے وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود/ 15] اور اس میں ان کی حتی تلفی نہیں کی جاتی ولا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف/ 85] اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو ۔ البخس وا ابا خس ۔ حقیر اور آیت کریمہ : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] میں بعض نے کہا ہے کہ بخس کے معنی حقیر اور ناقص کے ہیں اور بعض نے منحوس یعنی منقوص کا ترجمہ کیا ہے ۔ محاورہ ہے تباخسوا ۔ انہوں نے ایک دوسرے کی حق تلفی کی ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٤) اور ہم نے ان کے مسافر ومقیم سب پر آسمان سے پتھر برسادیے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دیکھیے تو سہی کہ آخر کار انجام مشرکوں کا ہلاکت و بربادی ہوا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًاط فانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیْنَ ) یہ پتھروں کی بارش تھی اور ساتھ شدید زلزلہ بھی تھا جس سے ان کی بستیاں الٹ کر بحیرۂ مردار کے اندر دفن ہوگئیں۔ قوم لوط ( علیہ السلام) اہل مکہ سے زمانی اور مکانی لحاظ سے زیادہ دور نہیں تھی ‘ اس قوم کے قصے اہل عرب کی تاریخی روایات کے اندر موجود تھے۔ چناچہ اہل مکہ اس قوم کے حسرتناک انجام سے خوب واقف تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

67. The 'rainfall' in the verse does not refer to the descent of water from the sky. It refers rather to the volley of stones. The Qur'an itself mentions that their habitations were turned upside down and ruined. (See verse 85; also Hud 11:82-3; al-Hijr 15:74-E.) 68. In light of this verse and other references in the Qur'an, sodomy is established as one of the deadliest sins; and that it incurred God's scourge on those who indulged in it. We also know from the teachings of the Prophet (peace be on him) that the Islamic state should purge society of this crime and severely punish those guilty of it. There are several traditions from the Prophet (peace be on him) which mention that very severe punishments were inflicted on both partners of this act. According to one tradition, the Prophet (peace be on him) ordered that both partners be put to death. (See Ibn Majah, Kitab al-Hudud, 'Bab man 'amila 'Amal Qawm ut'- Ed.) In another tradition it has been added that the culprits should be put to death whether they are married or un-married. (Ibn Majah, Kitab al-Hudad - Ed.) In another tradition it has been said that both parties should be stoned (to death). (Ibn Majah, Kitab al-Hudad, 'Bab man 'amila 'Amal Qawm Lut ' - Ed.) However, since no case of sodomy was reported in the lifetime of the Prophet (peace be on him), the punishment did not acquire a very clear and definitive shape. Among the Companions, 'Ali is of the view that such sinners should be beheaded and instead of being buried should be cremated. Abu Bakr also held the same view. However, 'Urnar and 'Uthman suggest that the sinners be made to stand under the roof of a dilapidated building, which should then be pulled down upon them. Ibn 'Abbas holds the view that those guilty of such a sinful act should be thrown from the top of the tallest building of the habitation and then pelted with stones. (See al-Fiqh 'ala al-Madhahib al-Arba'ah, vol. 5, pp. 141-2 - Ed.) As for the jurists, Shafi pronounces the punishment of death on both partners to sodomy irrespective of their marital status, and of their role whether it be active or passive. According to Sha'bi, Zuhri, Malik and Ahmad b. Hanbal, they should be stoned to death. Sa'id b. al-Musayyib, 'Ata', Hasan Basri, Ibrahim Nakha'i, Sufyan Thawri and Awa'i believe that such sinners deserve the same punishment as laid down for unlawful sexual-intercourse: that unmarried ones should be lashed a hundred times and exiled, and that married ones should be stoned to death. Abu Hanifah, however, does not recommend any specific punishment. For him, the sinner should be awarded, depending on the circumstances of each case, some deterrent punishment. According to one of the reports, the same was the view of Shafi'i. (See Ibn Qudamah, al-Mughni, vol. 8, pp. 187-8 - Ed.) It should also be made clear that it is altogether unlawful for the husband to perpetrate this act on his wife. The Prophet (peace be on him), according to a tradition in Abu Da'ud, said: 'Cursed be he who commits this act with a woman.' (Abu Da'ud, Kitab al-Nikah, 'Bab fi Jami ' al Nikah' - Ed.) In other collections of Hadith such as Sunan of Ibn Majah and Musnad of Ahmad b. Hanbal. we find the following saying of the Prophet (peace be on him): 'God will not even look at him who commits this act of sodomy with his wife in her rectum.' (Ibn Majah, Kitab al-Nikah', 'Bab al-Nahy'an Ityan al-Nisa' fi Adbarihinn', Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 2, p. 344 - Ed.) Likewise the following saying of the Prophet (peace be on him) is mentioned in Tirmidhi: 'He who makes sexual intercourse with a menstruating woman, or indulges in sodomy with a woman. or calls on a soothsayer, believing him to be true, denies the faith sent down to Muhammad (peace be on him).' (Ibn Majah, Kitab al-Taharah, 'Bab al-Nahy 'an ityan al-Ha'id'- Ed.)

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :67 بارش سے مراد یہاں پانی کی بارش نہیں بلکہ پتھروں کی بارش ہے جیسا کہ دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ۔ نیز یہ بھی قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ ان کی بستیاں اُلٹ دی گئیں اور انہیں تلپٹ کر دیا گیا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :68 یہاں اور دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عمل قوم لوط ایک بدترین گناہ ہے جس پر ایک قوم اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہوئی ۔ اس کے بعد یہ بات ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی سے معلوم ہوئی کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس سے معاشرے کو پاک رکھنے کی کوشش کرنا حکومت اسلامی کے فرائض میں سے ہے اور یہ کہ اس جرم کے مرتکبین کو سخت سزا دی جانی چاہیے ۔ حدیث میں مختلف روایات جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ان میں سے کسی میں ہم کو یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اقتلو ا الفاعل و المفعول بِہٖ ( فاعل اور مفعول کو قتل کر دو ) ۔ کسی میں اس حکم پر اتنا اضافہ اور ہے کہ احصنا اولم یحصنا ( شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ ) ۔ اور کسی میں ہے فارجموا الاعلی و الاسفل ( اُوپر اور نیچے والا ، دونوں سنگسار کیے جائیں ) ۔ لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا کوئی مقدمہ پیش نہیں ہو اس لیے قطعی طور پر یہ بات متعین نہ ہو سکی کہ اس کی سزا کس طرح دی جائے ۔ صحابہ کرام میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ ہے کہ مجرم تلوار سے قتل کیا جائے اور دفن کرنے کے بجائے اس کی لاش جلائی جائے ۔ اسی رائے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اتفاق فرمایا ہے ۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان کی رائے یہ ہے کہ کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کر کے وہ عمارت اب پر ڈھا دی جائے ۔ ابن عباس کا فتویٰ یہ ہے کہ بستی کی سب سے اُونچی عمارت پر سے ان کو سر کے بل پھینک دیا جائے اور اوپر سے پتھر برسائے جائیں ۔ فقہاء میں سے امام شافعی کہتے ہیں کہ فاعل و مفعول واجب القتل ہیں خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ ۔ شعبی ، زُہری ، مالک اور احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ ان کی سزا رجم ہے ۔ سعید بن مُسَیَّب ، عطاء ، حسن بصری ، ابراہیم نخعی ، سفیان ثوری اور اوزاعی رحمہم اللہ کی رائے میں اس جرم پر وہی سزا دی جائے گی جو زنا کی سزا ہے ، یعنی غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کر دیا جائے گا ، اور شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا ۔ امام ابوحنیفہ کی رائے میں اس پر کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ یہ فعل تعزیر کا مستحق ہے ، جیسے حالات و ضروریات ہوں ان کے لحاظ سے کوئی عبرت ناک سزا اس پر دی جاسکتی ہے ۔ ایک قول امام شافعی سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے ۔ معلوم رہے کہ آدمی کے لیے یہ بات قطعی حرام ہے کہ وہ خود اپنی بیوی کے ساتھ عمل قوم لوط کرے ۔ ابوداؤد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے کہ ملعون من اتی المرٲتہ فی دبرھا ( اللہ اس مرد کی طرف ہرگز نظر رحمت سے نہ دیکھے گا جو عورت سے اس فعل کا ارتکاب کرے ) ۔ ترمذی میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ من اتی حائضا او امرٲة فی دبرھا او کاھنا فصدّقہ فقد کفر بما انزل علیٰ محمّد صلی اللہ علیہ وسلم جس نے حائضہ عورت سے مجامعت کی ، یا عورت کے ساتھ عمل قوم لوط کا ارتکاب کیا ، یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی پیشن گوئیوں کی تصدیق کی اس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:84) امطرنا۔ ہم نے برسایا۔ امطار۔ برسانا۔ (باب افعال) مطر (نصر) (آسمان کا) بارش برسانا۔ مطر بارش۔ ابو عبیدہ کا قول ہے کہ مطر کا استعمال باران رحمت میں ہوتا ہے اور امطر کا نزول عذاب میں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی ان پر وتھروں کا منیہ برسایا اور وہ تباہ وبر باد ہوگئے ان آیات سے معلوم ہوا کہ لو اطت بہت بڑی بےحیا یہ کا کام ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فعل کی مرتکب پر تین مرتبہ مکرو لعنت کی ہے ( روح) اور دیکھئے پغمبروں کی تکذیب اور معاصی پر جسارت کا نتیجہ برا نکلا۔ اس خلاف فطرت فعل کی سز بھی بہت سخت رکھی گئی ہے اکثر علما نے کا خیال ہے کہ اس فعل کے مرتکب کو کم از کم زانی کی سزادی جائے اور اپنی بیوی سے خلاف فطرت فعل کرنا حرام ہے اور اس پر علما کا اجماع ہے بہت سی احادیث میں اس کی ممانعت بھی وارد ہے۔ ( نیرز دیکھئے سورة بقرہ آیت 223)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

84 پھر ہم نے ان بستیوں پر ایک خاص قسم کا مینہ برسایا یعنی پتھروں کی ان پر بارش برسائی پس اے مخاطب دیکھو تو سہی گناہ گناروں کا انجام کیسا ہوا۔