Surat Nooh

Surah: 71

Verse: 11

سورة نوح

یُّرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا ﴿ۙ۱۱﴾

He will send [rain from] the sky upon you in [continuing] showers

وہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(I said: Ask forgiveness from your Lord, verily, He is Oft-Forgiving; He will send rain to you Midrar, meaning, continuous rain. Thus, it is recommended to recite this Surah in the prayer for rain due to this Ayah. This has been reported from the Commander of the faithful, `Umar bin Al-Khattab. He ascended the Minbar to perform the prayer for rain, and he did not do ... more than seeking Allah's forgiveness and reciting the Ayat that mention seeking Allah's forgiveness. Among these Ayat: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مِّدْرَارًا I said: Ask forgiveness from your Lord, verily, He is Oft-Forgiving; He will send rain to you Midrar, Then he (`Umar) said, "Verily, I have sought rain with the keys of the sky which cause the rain to descend." Ibn `Abbas and others have said, "It (Midrar) means some of it (rain) following others." Concerning Allah's statement, وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 بعض علماء اسی آیت کی وجہ سے نماز استسقاء میں سورة نوح کے پڑھنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ مروی ہے کہ حضرت عمر بھی ایک مرتبہ نماز استسقاء کے لئے منبر پر چڑھے تو صرف آیات استغفار (جن میں یہ آیت بھی تھی) پڑھ کر منبر سے اتر آئے۔ اور فرمایا کہ میں نے بارش کو، بارش کے ان راستوں سے طلب کیا ہے جو آسمانوں می... ں ہیں جن سے بارش زمین پر اترتی ہے (ابن کثیر)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(یرسل السمآء علیکم مداراً…: نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس سے بخشش مانگنے سے صرف تمہاری آخرت ہی درست نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی بیشمار نعمتیں عطا فرمائے گا، وہ تم پر موسلادھار بارشیں برسائے گا، قسم قسم کے مالوں کیساتھ اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد...  کرے گا اور تمہیں باغات اور نہریں عطا فرمائے گا۔ نوح (علیہ السلام) کے علاوہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء (علیہ السلام) نے بھی اپنی اپنی قوم کو ایمان و استغفار سے آخرت میں حاصل ہونے والی نعمتوں کے علاوہ ان سے حاصل ہونے والی دنیوی برکتیں بھی بتائیں۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة ہود (٣، ٥٢) ، مائدہ (٦٦) اور سورة اعراف (٩٦) ۔ ان آیا سے معلوم ہوا کہ بارش کی ضرورت ہو یا مال و اولاد کی یا کسی بھی نعمت کی ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے۔ اس مقام پر تفسیر طبری اور تفسیر ابن کثیر میں عمر بن خطاب (رض) عنہماکا واقعہ لکھا ہوا ہے کہ وہ استسقا کے لئے نکلے تو انہوں نے استغفار سے زیادہ کچھ نہیں کیا اور واپس آگئے۔ لوگوں نے پوچھا :” امیر المومنین ! ہم نے آپ کو بارش کی دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ “ تو فرمایا :” میں نے آسمان کو حرکت دینے والی ان چیزوں کے ذریعے سے بارش طلب کی ہے جن کے ذریعے سے بارش کا سوال کیا جاتا ہے۔ “ پھر یہ آیت اور سورة ہود کی آیت (٥٢):(ویزدکم قوۃ الی قوتکم) پڑھی۔ تفسیر طبری میں عمر بن خطاب (رض) کا یہ واقعہ شعبی سے روایت کیا گیا ہے، جن کی ملاقات عمر بن خطاب (رض) سے ثابت نہیں، اسلئے یہ واقعہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا اور امیر المومنین سے امیدبھی نہیں کہ وہ بارش کی دعا کے لئے نکلے ہں اور مسنون طریقہ پر نماز اور دعا کے بغیر صرف استغفار کر کے واپس آگئے ہوں۔ صحیح بخاری (١٠١٠) میں معر بن خطاب (رض) عنہماکا بارش کی دعا کرنا اور عباس (رض) سے دعا روانا موجود بھی ہے۔ ہاں، یہ بات درست ہے کہ دعائے استسقا میں بھی استغفار زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔ مگر ہر مقام پر استغفار اس طریقے سے کیا جائے گا جس طریقے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا۝ ١١ ۙ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی... : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ در قال تعالی: وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، يُرْسِلِ السَّماءَ عَلَيْكُمْ مِدْراراً [ نوح/ 11] ، وأصله من الدَّرِّ والدِّرَّة، أي : اللّبن، ويستعار ذلک للمطر استعارة۔ ( د ر ر ) المدرار ( صیغہ مبالغہ ) بہت برسنے والا قرآن میں ہے : ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ان پر آسمان سے لگاتار مینہ بر سایا ۔ يُرْسِلِ السَّماءَ عَلَيْكُمْ مِدْراراً [ نوح/ 11] وہ تم پر آسمان سے لگا تا ر مینہ برسائے گا اصل میں مدرار در اور درۃ سے ہے جس کے معنی دودھ کے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ بارش کے لئے استعمال ہونے لگا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١۔ ١٢) جب بھی تم بارش کے محتاج ہوگے وہ کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا، اللہ تعالیٰ نے چالیس سال سے بارش روک رکھی تھی اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے چالیس سال سے ان کے جانوروں اور عورتوں کی نسل کو ختم کر رکھا تھا اور تمہارے لیے باغ لگا دے گا اور تمہارے فائدے کے لیے نہریں...  جاری کردے گا۔ اللہ تعالیٰ نے چالیس سال سے ان کے باغوں اور نہروں کو خشک کر رکھا تھا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ ١{ یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا ۔ } ” وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔ “ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بن کر رہو گے تو وہ تمہاری دنیوی زندگی میں بھی تمہارے لیے آسانیاں پیدا کر دے گا اور تمہارے علاقے میں خوب بارشیں برسائے گا ‘ جس سے تمہارے رزق میں اضافہ ہوگا... ۔ ان الفاظ سے یوں لگتا ہے جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت کے بعد کسی دور میں اس قوم پر خشک سالی اور قحط کا عذاب آیا تھا۔ جیسے قوم فرعون پر قحط اور دوسرے عذاب بھیجے گئے تھے (الاعراف : رکوع ١٦) ۔ یا جیسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد مکہ میں بہت سخت قحط پڑا تھا (سورۃ الدخان : رکوع ١) ۔ ایسے چھوٹے چھوٹے عذاب دراصل ہر رسول کی بعثت کے بعد متعلقہ قوم کے لوگوں پر وقتاً فوقتاً اس لیے مسلط کیے جاتے تھے تاکہ وہ خواب غفلت سے جاگ جائیں اور اپنے رسول کی دعوت کو سنجیدگی سے سنیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(71:11) یرسل السماء علیکم مدرارا : یرسل مضارع مجزوم (بوجہ جواب امر) وصل کی وجہ سے مکسور ہے۔ ارسال (افعال) مصدر سے۔ وہ بھیجے گا۔ السماء ابر، بارش، آسمان، یہاں بمعنی ابر آیا ہے۔ یرسل کا مفعول ہے۔ مدرارا : درودرور۔ (باب ضرب و نصر) مصدر سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ بہت آنسو بہانے والی آنکھ۔ بہت بارش برسانے وا... لا بادل۔ مدرارا حال ہے السماء سے لہذا منصوب ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ تاکہ تم پر بہت برسنے والا بادل بھیجے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یرسل .................... مدرارا (١٧ : ١١) ویمدد ................ انھرا (١٧ : ٢١) ” وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا ، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا ، تمہارے لئے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کردے گا “۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے استغفار اور عظائے رزق جہاں کو باہم یکجا کردیا اور ... قرآن میں بیشمار مواقع پر ایمان ، ہدایت اور صلاح اور تقویٰ اور خوشحالی اور وافر رزق کو ایک دوسرے کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے۔ دوسری جگہ آتا ہے : ولو ان .................... یکسبون (٧ : ٦٩) ” اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم آسمان و زمین سے ان پر نعمتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کے بدلے پکڑا “۔ اور دوسری جگہ ہے : ولو ان ............................ ارجلھم (٦٦) (٥ : ٥٦۔ ٦٦) ” اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور ڈرتے تو ہم ان سے ان کی برائیاں دور کردیتے اور ان کو نعمت کے باغوں میں داخل کردیتے ، اگر وہ توریت ، انجیل اور جو ان کی طرف نازل کیا گیا ان کے رب کی طرف سے ، ان کو قائم کرتے ، تو وہ اپنے اوپر سے اور اپنے پاﺅں کے نیچے سے کھاتے “۔ اور دوسری جگہ ہے : الا تعبدوا .................... فضل فضلہ (٣) (١١ : ٢۔ ٣) ” یہ کہ عبادت نہ کرو مگر اللہ کی میں تم کو اس کی طرف سے ڈر اور خوشخبری سناتا ہوں اور یہ کہ گناہ بخشواﺅ اپنے رب سے اور اس کی طرف رجوع کرو ، وہ تم کو بہت اچھا فائدہ پہنچائے گا۔ ایک مقرر وقت تک اور دے دے گا ہر صاحب فضل کو اس کا فضل “۔ یہ اصول جس کا ذکر قرآن کریم متفرق مقامات پر کرتا ہے ایک صحیح اصول ہے او یہ اللہ اپنے وعدے پر قائم ہے اور ان سنن حیات پر قائم ہے جو اللہ نے اس کائنات میں جاری کیے ہیں اور انسانوں کی عملی تاریخ اس پر شاہد عادل ہے۔ یہ قاعدہ اقوام کے لئے ہے افراد کے لئے نہیں ہے۔ اس جہاں میں جب بھی کسی قوم نے شریعت پر اپنا نظام استوار کیا ہے اور عمل صالح اختیار کرکے خدا خوفی کا رویہ اپنایا ہے اور اللہ سے ڈر کر اپنی کوتاہیوں سے معافی طلب کی ہے ، اللہ نے اسے مادی ترقی بھی دی ہے۔ غرض جب بھی کسی قوم نے تقویٰ اختیار کرکے اللہ کی بندگی اختیار کی ہے اور شریعت کو نافذ کیا ہے ، اور لوگوں کے درمیان عدل کا نظام رائج کیا ہے تو اس کائنات کی قدرتی قوتوں نے اس کے ساتھ تعاون کیا ہے اور اللہ نے اسے زمین پر تمکین عطا کی ہے اور وہ دنیاوی ترقی کے اعتبار سے بھی عروج تک پہنچی ہے۔ بعض اوقات ہم اس کرہ ارض پر ایسی اقوام دیکھتے ہیں جو اللہ سے نہیں ڈرتیں اور جو اللہ کی شریعت کے مطابق عمل پیرا نہیں ہوتیں ، لیکن اس کے باوجود ان کو وافر رزق ملتا ہے۔ اور اس زمین کے اوپر ان کو اقتدار اعلیٰ بھی ملا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے۔ وتبلوکم ................ فتنة ” اور ہم تمہیں خیروشر کے ذریعہ سے آزماتے ہیں “۔ پھر یہ خوشحالی ایک سڑی ہوئی خوشحالی ہوتی ہے اور اسے اجتماعی بیماریاں ، اخلاقی کر اوٹ ، ظلم اور زیادتی ، انسانی شرافت کا فقدان جیسی خرابیاں لاحق ہوتی ہیں اور ان کا مزہ کر کرا ہوتا ہے۔ آج ہمارے سامنے دو بڑی حکومتیں ہیں جن کو اللہ نے رزق میں وہ وسعت دی ہے۔ زمین کے ایک بڑے حصے پر ان کا اقتدار ملا ہوا ہے۔ ایک سرمایہ دار ہے اور ایک اشتراکی ہے۔ (سید قطب ، آپ کو اللہ نے اطلاع دے دی ہوگی کہ یہ نابود ہوچکی ہے) جہاں تک پہلی کا تعلق ہے اس کی اخلاقی حالت حیوانوں سے بھی زیادہ گری ہوئی ہے۔ اور ان کی زندگی کی مجموعی حالت یہ ہے کہ یہ صرف ڈالر پر قائم ہے اور ڈالر کے سوا وہاں کوئی اخلاقی قدر نہیں ہے۔ اور دوسری حکومت میں انسان ایک غلام سے بھی گرا ہوا ہے اور اس کا جاسوسی نظام اس قدر خوفناک ہے کہ ہر شخص ایک دائمی خوف میں زندگی بسر کرتا ہے۔ کوئی شخص رات کو اس حال میں نہیں سوتا کہ اسے صبح گرفتاری کا ڈر نہ ہو۔ یہ دونوں ممالک انسانی معیاروں کے لحاظ سے گرے ہوئے ہیں۔ (صرف سٹالن نے ٣ کروڑ انسان تہ تیغ کیے۔ مترجم)  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) کہ وہ تم پر کثرت سے بارش بھیجے گا اور پے درپے تم پر مینہ برسائے گا۔ مدرار سیلان یعنی بہائو پانی۔