Surat Nooh

Surah: 71

Verse: 12

سورة نوح

وَّ یُمۡدِدۡکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّ بَنِیۡنَ وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ جَنّٰتٍ وَّ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ اَنۡہٰرًا ﴿ؕ۱۲﴾

And give you increase in wealth and children and provide for you gardens and provide for you rivers.

اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لئے نہریں نکال دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And give you increase in wealth and children, and bestow on you gardens and bestow on you rivers. meaning, `if you repent to Allah, seek His forgiveness and obey Him, He will increase your provisions for you and provide you with water from the blessings of the sky. He will cause the blessings of the earth and crops to grow for you. He will increase your live stock animals for you and ... give you more wealth and children. This means that He will give you more wealth, more children and gardens with various types of fruits. He will cause rivers to flow among these gardens.' This is the position of the invitation with encouragement. Then He made it balanced for them by using intimidation. He said, مَّا لَكُمْ لاَ تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی ایمان و اطاعت سے تمہیں اخروی نعمتیں ملیں گی بلکہ دنیاوی مال ودولت اور بیٹوں کی کثرت سے بھی نوازے جاؤ گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّيَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْہٰرًا۝ ١٢ ۭ امد قال تعالی: تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَها وَبَيْنَهُ أَمَداً بَعِيداً [ آل عمران/ 30] . والأَمَد والأبد يتقاربان، لکن الأبد عبارة عن مدّة الزمان التي ليس لها حدّ محدود، ولا يتقید، لا يقال : أبد ک... ذا . والأَمَدُ : مدّة لها حدّ مجهول إذا أطلق، وقد ينحصر نحو أن يقال : أمد کذا، كما يقال : زمان کذا، والفرق بين الزمان والأمد أنّ الأمد يقال باعتبار الغاية، والزمان عامّ في المبدأ والغاية، ولذلک قال بعضهم : المدی والأمد يتقاربان . ( ا م د ) الامد ۔ ( موت ۔ غایت ) قرآن میں ہے :۔ { تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا } ( سورة آل عمران 30) تو آرزو کریگا کہ کاش اس میں اور اس پرائی میں انتہائی بعد ہوتا ۔ الامد والابد دونوں قریب المعنی ہیں لیکن ابد غیر متعین اور غیر محدود زمانہ کے معنی دیتا ہے لہذا ابد کذا ( اتنی مدت ) کا محاورہ صحیح نہیں ہے اور امد غیر معین مگر محدود زمانہ کے معنی دیتا ہے لہذا امد کذا ( اتنی مدت ) کہنا صحیح ہے جس طرح کہ زمان کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ زمان اور امد کے لفظ میں صرف اتنا فرق ہے کہ امد کا لفظ کسی مدت کی نہایت اور غایت کے لئے بولا جاتا ہے اور زمان کا لفظ کسی مدت کے مندا اور غایت کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی بناء پر بعض نے کہا ہے المدی والامد دونوں قریبامعنی ہیں ( یعنی کسی چیز کی موت کی غایت بیان کرنے کے لئے آتے ہیں ) ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 This theme has been expressed at several places in the Qur'an that the rebellious attitude against God causes man to lead a wretched life not only in the Hereafter but also in this world, Contrary to this, if a nation adopts the way of faith and piety and obedience to Divine Commands, instead of disobedience, it benefits it not only in the Hereafter but also in the world; it is favoured with ev... ery kind of blessing. In Surah Ta Ha it has been said: "And whoever turns away from My Admonition, will have a wretched life in the world, and We shall raise him up blind on the Day of Resurrection." (v. 124) . In Surah AI-Ma'idah it has been said: "Had the people of the Book observed the Torah and the Gospel and the other Books which had been sent down by their Lord, abundance of provisions would have been given to them from above and from beneath." (v. 66) . In Al-A`raf: "Had the people of the settlements believed and adopted the way of piety, We would have opened on them doors of blessings from the heavens and the earth." (v. 96) . In Surah Hud, the Prophet Hud addressed his people, saying: "And O my people, beg forgiveness of your Lord, then turn to Him in penitence, and He will open the gates of heavens for you and add more strength to your present strength." (v. 52) . Through the Holy Prophet himself in this very Surah Hud, the people of Makkah have been admonished to the effect: "And you should beg forgiveness of your Lord, then return to Him, and He will provide you with good provisions of life till an appointed term." (v. 3) . According to the Hadid, the Holy Prophet said to the Quraish: "There is a word which. if you accept, would enable you to rule over the Arab as well as the non-Arab world." (For explanation, see E.N. 96 of Al-Ma'idah, E.N.'s 3, 57 of Hud, E.N. 105 of Ta Ha; Introduction to Surah Suad) , Acting on this same instruction from the Qur'an, once during a famine Hadrat `Umar came out to invoke Allah for the rain and begged only forgiveness of Him. The people said: "O Commander of the Faithful. you have not prayed for the rain." He replied: "I have knocked at the doors of heaven wherefrom the rain is sent down", and then he recited these verses of Surah Nuh to them. (Ibn Jarir, Ibn Kathir) . Likewise, when in the assembly of Hadrat Hasan Basri, a person complained of drought, he said to him "Beg forgiveness of Allah." Another person complained of poverty, a third one said .that he was not being blessed with children, a fourth one said that his harvest had failed, and he continued to remind everyone to beg forgiveness of Allah. The people asked: "How is it that you have suggested to all the people one and the same cure for the different complaints? He in response recited these verses of Surah Nuh to them" (Al-Kashshaf) .  Show more

سورة نُوْح حاشیہ نمبر :12 یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ خدا سے بغاوت کی روش صرف آخرت ہی میں نہیں ، دنیا میں بھی انسان کی زندگی کو تنگ کر دیتی ہے ، اور اس کے برعکس اگر کوئی قوم نافرمانی کے بجائے ایمان و تقوی اور احکام الہی کی اطاعت کا طریقہ اختیار کر لے تو یہ آخرت ہی میں ... نافع نہیں ہے بلکہ دنیا میں بھی اس پر نعمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے ۔ سورہ طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ۔ ( آیت 124 ) ۔ سورۃ مائدہ میں فرمایا گیا ہے اور اگر ان اہل کتاب نے توراۃ اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا ( آیت 66 ) سورہ اعراف میں فرمایا اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی کی روش اختیار کرتے ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔ ( آیت 96 ) ۔ سورہ ہود میں ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کر کے فرمایا اور اے میری قوم کے لوگو ، اپنے رب سے معافی چاہو ، پھر اس کی طرف پلٹو ، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا اور تمہاری موجدہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا ( آیت 52 ) ۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے بھی اسی سورہ میں اہل مکہ کو مخاطب کر کے یہ بات فرمائی گئی اور یہ کہ اپنے رب سے معافی چاہو ، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مقرر وقت تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا ۔ ( آیت 3 ) ۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں سے فرمایا کہ ایک کلمہ ہے جس کے تم قائل ہو جاؤ تو عرب و عجم کے فرمانروا ہو جاؤ گے ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، المائدہ ، حاشیہ 96 ۔ جلد دوم ، حواشی 3 ، 57 ۔ جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 105 ۔ جلد چہارم ۔ دیباچہ سورہ ص ) ۔ قرآن مجید کی اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک مرتبہ قحط کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بارش کی دعا کرنے کے لیے نکلے اور صرف استغفار پر اکتفا فرمایا ۔ لوگوں نے عرض کیا ، امیر المومنین آپ نے بارش کے لیے تو دعا کی ہی نہیں ۔ فرمایا ، میں نے آسمان کے ان دروازوں کو کھٹکھٹا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے ، اور پھر سورۃ نوح کی یہ آیات لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں ( ابن جریر و ابن کثیر ) ۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت حسن بصری کی مجلس میں ایک شخص نے خشک سالی کی شکایت کی ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ سے استغفار کرو ۔ دوسرے شخص نے تنگ دستی کی شکایت کی ، تیسرے نے کہا میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی ، چوتھے نے کہا میری زمین کی پیداوار کم ہو رہی ہے ۔ ہر ایک کو وہ یہی جواب دیتے چلے گئے کہ استغفار کرو ۔ لوگوں نے کہا یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ سب کو مختلف شکایتوں کا ایک ہی علاج بتا رہے ہیں؟ انہوں نے جواب میں سورہ نوح کی یہ آیات سنا دیں ( کشاف ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(71:12) ویمددکم ب اموال وبنین۔ اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ یمدد مضارع مجزوم (بوجہ جواب امر) واحد مذکر غائب ۔ امداد (افعال) مصدر وہ بڑھائے گا۔ وہ مدد کرے گا۔ بنین : ابن کی جمع بحالت جر۔ بیٹے۔ مطلب یہ کہ تمہارے مال و اولاد کو بہت کودیگا۔ ویجعل لکم جنت اور تمہیں باغات دے گا۔ یجعل مضارع مجزوم بوجہ ... جواب امر۔ واحد مذکر غائب جعل (باب فتح) مصدر۔ کر دے گا۔ بنا دے گا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 معلوم ہوا کہ استغفار سے صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی خوشحال اور مال و دولت اور اولاد میں برکت نصیب ہوتی ہے اسی بناء پر نماز استسقا میں اس سورة کا پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت عمر سے متعلق روایات میں ہے کہ آپ استقاء (بارش کی دعا) کیلئے منبر پر چڑھے تو صرف استغفار کیا اور استغفار سے متعلق آیات کی تل... اوت کی، جن میں ایک یہ آیت تھی۔ پھر منبر سے اتر کر فرمایا : لقد طلبت الغیث بمخارج السمآء التی یستزل بھا المطر میں نے آسمان کے ان سوراخوں کے ذریعہ بارش کی دعا کی ہے جن سے بارش اتاری جاتی ہے۔ (ابن کثیر) ربیع بن صبیح فرماتے ہیں کہ امام حسن بصری سے جب کوئی شخص تکلیف کی شکایت کرتا تو آپ فرماتے استغفار کرو اور فرماتے کہ یہ نسخہ حضرت نوح نے اپنی قوم کو بتایا ہے۔ (مختصراً ازروح المعانی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ ان نعمتوں کے ذکر سے شاید یہ فائدہ ہو کہ اکثر طبائع میں عاجل کی طلب زیادہ ہے۔ چناچہ در منثور میں قتادہ کا قول ہے کہ وہ لوگ دنیا کے زیادہ حریص تھے اس لئے یہ فرمایا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) اور تم کو اموال اور بیٹے دے کر تمہاری مدد کرے گا یعنی مالوں میں اور بیٹوں میں ترقی دے گا اور تمہارے لئے بہت سے باغ لگادے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کردے گا۔ یعنی دنیوی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔