Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 13

سورة الجن

وَّ اَنَّا لَمَّا سَمِعۡنَا الۡہُدٰۤی اٰمَنَّا بِہٖ ؕ فَمَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِرَبِّہٖ فَلَا یَخَافُ بَخۡسًا وَّ لَا رَہَقًا ﴿ۙ۱۳﴾

And when we heard the guidance, we believed in it. And whoever believes in his Lord will not fear deprivation or burden.

ہم تو ہدایت کی بات سنتے ہی اس پر ایمان لا چکے اور جو بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا اسے نہ کسی نقصان کا اندیشہ ہے نہ ظلم و ستم کا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدَى امَنَّا بِهِ ... And indeed when we heard the Guidance, we believed therein, They were proud of this, and it is something for them to be proud of, as well as a great honor for them and a good characteristic. Concerning their statement, ... فَمَن يُوْمِن بِرَبِّهِ فَلَ يَخَافُ بَخْسًا وَلاَ رَهَقًا and whosoever believes in his Lord shall have no fear, either of a decrease in the reward of his good deeds or an increase in the punishment for his sins. Ibn `Abbas, Qatadah and others said, "This means, he should not fear that the reward for his good deeds will be decreased or that he will be burdened with anything other than his sins." This is as Allah says, فَلَ يَخَافُ ظُلْماً وَلاَ هَضْماً Then he will have no fear of injustice, nor of any curtailment. (20:112)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی نہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان کی نیکیوں کے اجر وثواب میں کوئی کمی کردی جائے گی اور نہ اس بات کا خوف کہ ان کی برائیوں میں اضافہ ہوجائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] یعنی قرآن کو سن لینے کے بعد ہمارے لئے ممکن نہ رہا کہ ہم اپنے ساتھ غلط عقائد پر جمے رہیں۔ لہذا ہم نے اپنی قوم میں سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی ہے۔ [١١] یہ سب وہ اہم نکات ہیں جو جنوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سن کر اخذ کئے تھے۔ پھر ایمان لانے کے بعد اپنی قوم کے پاس جاکر انہیں بتائے تھے۔ انہی میں سے یہ نکتہ جزا و سزا کے قانون سے تعلق رکھتا ہے۔ حق تلفی سے مراد یہ ہے کہ جتنے اجر کا وہ مستحق ہو اسے اس سے کم دیا جائے اور زبردستی سے مراد یہ ہے کہ اسے نیکی کا کوئی اجر نہ دیا جائے۔ یا بلاقصور ہی کسی کو سزا دے ڈالی جائے۔ یا قصور تو کم ہو مگر سزا زیادہ دے ڈالی جائے۔ کسی ایمان لانے والے کے لیے اللہ کے ہاں ایسی کوئی صورت نہ ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَمَن يُؤْمِن بِرَ‌بِّهِ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَ‌هَقًا (...so if one believes in his Lord, he will have no fear of either any curtailment [ in his reward ] or any excess [ in his punishment ]...72:13). The ward bakhs, with ba& carrying fatha ] and kha& carrying sukun, means &to reduce the right& and the word rahaq means &disgrace&. In other words, anyone who believes in Allah need fear neither curtailment in the reward of his good deeds, nor disgrace by excess in his punishment in the Hereafter.

فَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِرَبِّهٖ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَّلَا رَهَقًا بخس بفتح الباء و سکون الخاء کے معنے حق سے کم دینے اور کم کرنے کے ہیں اور رہق کے معنے ذلت و رسوائی ظاہر ہونا۔ مراد یہ ہے کہ جو اللہ پر ایمان لاتا ہے نہ اس کی جزا میں کوئی کمی ہو سکتی ہے اور نہ آخرت میں اس کو کوئی ذلت و رسوائی پیش آسکتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّاَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْہُدٰٓى اٰمَنَّا بِہٖ۝ ٠ ۭ فَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِرَبِّہٖ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَّلَا رَہَقًا۝ ١٣ ۙ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ بخس البَخْسُ : نقص الشیء علی سبیل الظلم، قال تعالی: وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود/ 15] ، وقال تعالی: وَلا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف/ 85] ، والبَخْسُ والبَاخِسُ : الشیء الطفیف الناقص، وقوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] قيل : معناه : بَاخِس، أي : ناقص، وقیل : مَبْخُوس أي : منقوص، ويقال : تَبَاخَسُوا أي : تناقصوا وتغابنوا فبخس بعضهم بعضا . ( ب خ س ) البخس ( س ) کے معنی کوئی چیز ظلم سے کم کرنا کے ہیں قرآن میں ہے وَهُمْ فِيها لا يُبْخَسُونَ [هود/ 15] اور اس میں ان کی حتی تلفی نہیں کی جاتی ولا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ [ الأعراف/ 85] اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو ۔ البخس وا ابا خس ۔ حقیر اور آیت کریمہ : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] میں بعض نے کہا ہے کہ بخس کے معنی حقیر اور ناقص کے ہیں اور بعض نے منحوس یعنی منقوص کا ترجمہ کیا ہے ۔ محاورہ ہے تباخسوا ۔ انہوں نے ایک دوسرے کی حق تلفی کی ۔ رهق رَهِقَهُ الأمر : غشيه بقهر، يقال : رَهِقْتُهُ وأَرْهَقْتُهُ ، نحو ردفته وأردفته، وبعثته وابتعثته قال : وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس/ 27] ، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ، ومنه : أَرْهَقْتُ الصّلاة : إذا أخّرتها حتّى غشي وقت الأخری. ( ر ھ ق ) رھقہ ( س ) رھقا ۔ الامر ۔ کسی معاملہ نے اسے بزور و جبر دبا لیا ۔ اور رھقہ وارھقہ ( مجرد و مزید فیہ ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے ۔ ردفہ اردفہ وبعثہ وابعثہ ۔ قرآن میں ہے ۔ وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس/27] اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی ۔ سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ہم عنقریب اس کو عذاب سخت میں مبتلا کردیں گے ، اور اسی سے ارھقت الصلوٰۃ ہے جس کے معنی نماز کو آخر وقت تک موخر کرنے کے ہیں ۔ حتی ٰ کہ دوسری نماز کا وقت آجائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جب ہم نے رسول اکرم کی زبان اقدس سے قرآن کریم پر ایمان لے آئے سو جو شخص اپنے رب پر ایمان لے آئے گا تو اسے نہ اپنے تمام اعمال کے ضائع ہونے کا ڈر ہوگا اور نہ اپنے عمل کے نقصان کا خوف ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣{ وَّاَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْہُدٰٓی اٰمَنَّا بِہٖ ط } ” اور یہ کہ ہم نے جونہی اس ہدایت (الہدیٰ ) کو سنا ہم اس پر ایمان لے آئے۔ “ { فَمَنْ یُّؤْمِنْ مبِرَبِّہٖ فَلَا یَخَافُ بَخْسًا وَّلَا رَہَقًا ۔ } ” تو جو کوئی بھی ایمان لائے گا اپنے رب پر اسے نہ تو کسی نقصان کا خوف ہوگا اور نہ زیادتی کا۔ “ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے نیک اعمال کا پورا پورا اجر دے گا ‘ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی یا حق تلفی کا معاملہ نہیں ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 That is, "We were led by this very idea to the way of success. As we were not fearless of AIlah and we believed that we would not be able to avoid His punishment if we disobeyed Him, so when we heard the Divine Revelation that had been sent to show the right way, we could not have the courage and boldness to persist in the beliefs that our foolish people had spread among us, afar we had known the truth. "

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :13 حق تلفی سے مراد یہ ہے کہ اپنی نیکی پر وہ جتنے اجر کا مستحق ہو اس سے کم دیا جائے ۔ اور ظلم یہ ہے کہ اسے نیکی کا کوئی اجر نہ دیا جائے اور جو قصور اس سے سرزد ہوں ان کی زیادہ سزا دے ڈالی جائے ۔ یا بلا قصور ہی کسی کو عذاب دے دیا جائے ۔ کسی ایمان لانے والے کے لیے اللہ تعالی کے ہاں اس قسم کی کسی بے انصافی کا خوف نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

################

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:13) لما کلمہ ظرف۔ جب۔ الھدی : ای القران۔ فمن یؤمن بربہ : ف سببیہ۔ من شرطیہ۔ یؤمن مضارع مجزوم واحد مذکر غائب ایمان (افعال) مصدر سے جملہ شرطیہ ہے پس جو اپنے رب پر ایمان لاتا ہے ۔ فلا یخاف بخسا۔ ف جواب شرط کے لئے ہے بخسا، بخس (باب سمع) کے معنی کوئی چیز ظالما کم کرنا کے ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے وہم فیہا لا یبخسون (11:15) اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ البخس والیاخس حقیر اور ناقص چیز۔ آیت ہذا میں بخسا مصدر بمعنی اسم مفعول ہے تو نہ اس کو گھاٹے کا خوف ہے ۔ ولا رھقا : جملہ کا جملہ سابقہ پر ہے۔ اور نہ اس کو ظلم کا ڈر ہے۔ رھقا سرکشی، تکبر سرچڑھنا۔ ستم ۔ ظلم۔ زیادتی۔ زبردستی۔ یہاں مصدر بمعنی مفعول ہے نیز ملاحظہ ہو 72:6 ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 مراد قرآن ہے جو انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے سنا۔6 یعنی نہ یہ ڈر ہوگا کہ اس کی نیکیوں میں کمی کردی جائے گی اور یہ اندیشہ کہ اس کی برائیوں میں اضافہ کردیا جائے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ کمی یہ کہ اس کی کوئی نیکی لکھنے سے رہ جاوے، اور زیادتی یہ کہ کوئی گناہ زیادہ لکھ لیا جاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور اب وہ ہدایت کا پیغام سننے اور سمجھنے کے بعدیہ کہتے ہیں : وانا لما ................ امنا بہ (٢٧ : ٣١) ” اور یہ کہ ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اب جب کوئی بھی اپنے رب پر ایمان لے آئے “۔ اور ہدایت کا پیغام سننے والے ہر شخص کا فریضہ یہی ہے۔ یہ لوگ قرآن کو یہاں ہدایت کا نام دیتے ہیں ۔ کیونکہ قرآن کی اصل ماہیت ہدایت ہی ہے اور اس کا نتیجہ بھی ہدایت ہے .... اور ان کو اپنے رب پر پورا اعتماد بھی ہے۔ جس طرح ہر ایمان لانے والے کو اپنے آقا پر ہونا چاہئے۔ فمن یومن ........................ رھقا (٢٧ : ٣١) ” اب جو کوئی بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا ، اسے کسی حق تلفی یا ظلم (یعنی طاقت سے زیادہ کام دینے) کا خوف نہ ہوگا “۔ ایک مومن ایمان کے بعد اللہ پر پورا پورا بھروسہ کرنے لگتا ہے۔ اور اسے اللہ کے عدل پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اور یہی ہے ایمان کی حقیقت کہ اللہ عادل ہے۔ وہ کسی مومن کا حق نہیں مارتا۔ وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ نہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ ڈیوٹی دیتا ہے۔ اللہ مومن بندے کو اس کے استحقاق سے ذرہ بھر بھی محروم نہیں کرتا۔ اور اللہ اپنے بندے کو رھق سے بھی بچاتا ہے۔ رھق کے معنی ہیں طاقت سے زیادہ جہدومشقت میں ڈالنا۔ لہٰذا کوئی اور شخص بھی ایک مومن پر ظلم کرنے کی جرات نہ کرسکے گا کیونکہ مومن اللہ کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایک مومن بعض اوقات اس دنیا کی سہولیات سے محروم رہتا ہے لیکن یہ محرومیاں ” نحس “ کے مفہوم میں نہیں آتیں۔ بعض اوقات ایک مومن کو اذیتیں بھی دی جاتی ہیں اور یہ اس زمین کی بعض چھوٹی قوتوں کی طرف سے ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اذیتیں رھق کے مفہوم میں داخل نہیں ہیں کیونکہ اللہ کو معلوم ہے کہ کون کس قدر مشقت برداشت کرنے کا اہل ہے اور کون کس قدر سہولیات کا اہل ہے۔ اور اللہ بعض بندوں کو مشقتوں میں ڈال کر ان کو اپنے قریب کرتا ہے۔ اور یہ ان کے لئے مفید ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایک مومن نفسیاتی لحاظ سے حق تلفی اور قوت برداشت سے زیادہ مشقت اٹھانے سے محفوظ ہوتا ہے۔ اس لئے اسے۔ فلا یخاف ................ رھقا (٢٧ : ٣١) ” کسی حق تلفی سے بھی نہیں ڈرنا چاہئے اور یہ خیال بھی نہیں کرنا چاہئے کہ اس پر اس کی قوت برداشت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ یہ تصور انسان کے اندر اطمینان ، آرام اور سکون پیدا کردیتا ہے۔ انسان قلق ، چبھن اور بےچینی محسوس کرتا ۔ یہاں تک کہ وہ اگر مشقت میں ہو پھر بھی جزع فزع نہیں کرتا ، نہ ڈرتا ہے ، نہ اپنے اوپر دروازے بند کرتا ہے۔ وہ مشقت کو آزمائش سمجھتا ہے۔ صبر کرتا ہے اور اللہ سے فراخی کی امید رکھتا ہے۔ اور اس پر بھی اسے اجر ملتا ہے۔ لہٰذا امارت وغربت اور ضعف وقوت دونوں حالتوں میں وہ فائدے میں رہتا ہے۔ اور اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اور جنوں کے اس گروہ نے اس حقیقت کو بہت ہی اچھے انداز سے ذہن نشین کرایا اس کے بعد یہ لوگ اب ہدایت وضلالت کی حقیقت ذہن نشین کراتے ہیں اور ہدایت وضلالت پر جزاء وسزا کا ذکر کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَّ اَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدٰۤى اٰمَنَّا بِهٖ ١ؕ فَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِرَبِّهٖ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَّ لَا رَهَقًاۙ٠٠١٣﴾ (اور بیشک جب ہم نے ہدایت کو سن لیا تو ہم اس پر ایمان لے آئے) ۔ (الآیات) جو شخص اپنے رب پر ایمان لے آئے اسے کسی طرح کے کسی نقصان کا خوف نہیں ہوگا۔ ایمان کا بھی صلہ ملے گا اور اعمال کا بھی ثواب ملے گا اس میں کوئی کمی نہ ہوگی کسی کی کوئی نیکی شمار سے رہ جائے یا کسی نیکی کا ثواب نہ ملے ایسا نہ ہوگا۔ ﴿وَّ لَا رَهَقًاۙ﴾ جو فرمایا اس کے بارے میں بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مومن صالح کو کسی ذلت کا سامنا نہ ہوگا اور بعض حضرات نے یہ مطلب بتایا ہے کہ کسی مومن پر کوئی ظلم نہ ہوگا۔ یعنی ایسا نہ ہوگا کہ کوئی برا عمل نہ کیا ہو اور وہ اس کے اعمالنامہ میں لکھ دیا جائے (گو ایسا تو کافروں کے ساتھ بھی نہ ہوگا لیکن کافروں کے حق میں یہ چیز کوئی مفید نہ ہوگی) ۔ مومن بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بڑے انعام و اکرام کا معاملہ ہے جو بھی نیکیاں دنیا میں ہوں گی ان کو بڑھا چڑھا کر کئی گنا کر کے اجر وثواب دیا جائے گا۔ قال اللہ تعالیٰ فی سورة النساء ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ١ۚ وَ اِنْ تَكُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْهَا وَ يُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِيْمًا ٠٠٤٠﴾ (بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہ کرے گا اور اگر کوئی نیکی ہوگی تو اسے کئی گنا کر دے گا اور عمل کرنے والے کو اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرمائے گا) ۔ جنات نے یہ بھی کہا کہ ہم میں بعض مسلم ہیں یعنی اللہ کے فرمانبردار ہیں اور بعض قاسط ہیں سو جو شخص فرمانبردار ہوگیا اسلام قبول کرلیا ان لوگوں نے سوچ سمجھ کر بہت بڑی ہدایت کا ارادہ کرلیا (یعنی دنیا و آخرت میں اپنا بھلا کرلیا) اور جو لوگ قاسط یعنی ظالم ہیں راہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں اسلام سے باغی ہیں وہ لوگ دوزخ کا ایندھن ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” وانا لما سمعنا “ ہم نے جب قرآن سنا جو سراپا ہدایت ہے، تو ہم تو اس پر ایمان لے آئے ہیں اور جو بھی اپنے پروردگار کی توحید پر ایمان لے آئیگا وہ اپنے عملوں کا پورا ثواب پائیگا، نہ اس کی نیکیوں میں کمی کی جائیگی اور نہ اس کی برائیوں میں اضافہ کیا جائیگا۔ ” بخسا “ نیکیوں میں کمی اور ” رھقا “ سیئات میں اضافہ۔ ” وانا منا المسلمون “ ہم میں سے کچھ تو مسلمان ہیں جو اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے ہیں اور کچھ ظالم اور بےانصاف ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ ” فمن اسلم “ جس شخص نے اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردیا، صرف ایک اللہ کی عبادت کی اور اس کے ساتھ شرک نہ کیا تو اس نے سیدھی راہ تلاش کرلی۔ ” واما القاسطون “ یہ تخویف اخروی ہے لیکن ظالم اور مشرک جہنم کا یندھن ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) اور یہ کہ ہم نے جب ہدایت کی بات سن لی توہم نے اس کا یقین کرلیا اور اس کو فوراً مان لیا لہٰذا جو شخص اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے گا تو اس کو نہ کسی کمی کا اور نقصان کا خوف ہوگا اور نہ کسی زیادتی کا اور ظلم کا۔ کمی کا مطلب یہ کہ اس کی کوئی نیکی کم کردی جائے اور اس کی کوئی نیکی لکھی نہ جائے یا مال کا نقصان آبرو کا نقصان اور زیاتی یہ کہ کوئی گناہ جو نہ کیا ہو وہ لکھ دیا جائے یا ایمان لانے کی وج سے اس کو ثواب سے محروم کردیا جائے۔ ھدی کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے جب قرآن کے عجیب و غریب مضامین سنے تو ہم اس رسول پر جس پر یہ کلام معجز نظام نازل ہوا ہے اس پر ایمان لے آئے۔