Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 17

سورة الجن

لِّنَفۡتِنَہُمۡ فِیۡہِ ؕ وَ مَنۡ یُّعۡرِضۡ عَنۡ ذِکۡرِ رَبِّہٖ یَسۡلُکۡہُ عَذَابًا صَعَدًا ﴿ۙ۱۷﴾

So We might test them therein. And whoever turns away from the remembrance of his Lord He will put into arduous punishment.

تاکہ ہم اس میں انہیں آزما لیں اور جو شخص اپنے پروردگار کے ذکر سے منہ پھیر لے گا تو اللہ تعالٰی اسے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ... If they had believed in Allah, and went on the way, We would surely have bestowed on them water in abundance. That We might try them thereby. The commentators have differed over the explanation of this. There are two views concerning it. - The First View That if the deviant ones would stand firmly upon the path of Islam, being just upon it and remaining upon it, لاَأَسْقَيْنَاهُم مَّاء غَدَقًا (We would surely have bestowed on them water in abundance). meaning, a lot. The intent behind this is to say that they would be given an abundance of sustenance. With this, the meaning of Allah's statement, لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ (That We might try them thereby). is that, `We will test them.' As Malik reported from Zayd bin Aslam, he said, "That We might try them - means, so that We may test them to see who will remain upon the guidance from those who will turn back to sin." Mentioning Those Who held this View Al-`Awfi reported similar to this from Ibn `Abbas, and likewise said Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Sa`id bin Al-Musayyib, `Ata, As-Suddi, Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi, Qatadah and Ad-Dahhak. Muqatil said, "This Ayah was revealed about the disbelievers of the Quraysh when they were deprived of rain for seven years." - The Second View وَأَلَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ (If they had believed in Allah, and went on the way), meaning, of misguidance. لاَأَسْقَيْنَاهُم مَّاء غَدَقًا We would surely have bestowed on them water in abundance. meaning, `then We would have increased their sustenance to allow a gradual respite.' As Allah says, فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَىْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُواْ بِمَأ أُوتُواْ أَخَذْنَـهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُّبْلِسُونَ So, when they forgot that with which they had been reminded, We opened for them the gates of everything, until in the midst of their enjoyment in that which they were given, all of a sudden, We took them, and lo! They were plunged into destruction with deep regrets and sorrows. (6:44) Allah also says, أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِى الْخَيْرَتِ بَل لاَّ يَشْعُرُونَ Do they think that in wealth and children with which We expand them. We hasten unto them with good things. Nay, but they perceive not. (23:55,56) This is the view of Abu Mijlaz and it agrees with the opinion of Ibn Humayd. For verily, he (Ibn Humayd) said concerning Allah's statement, وَأَلَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ (If they had believed in Allah, and went on the way), "This means the path of misguidance." Ibn Jarir and Ibn Abi Hatim both recorded this. Al-Baghawi also mentioned it from Ar-Rabi` bin Anas, Zayd bin Aslam, Al-Kalbi and Ibn Kaysan. It seems that he (Al-Baghawi) took this position. And it is supported by Allah's saying, "That We might try them thereby." Concerning Allah's statement, ... وَمَن يُعْرِضْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا And whosoever turns away from the Reminder of his Lord, He will cause him to enter in a Sa`ad torment. meaning, a harsh, severe, agonizing and painful punishment. Ibn `Abbas, Mujahid, `Ikrimah, Qatadah and Ibn Zayd, all said, عَذَابًا صَعَدًا (in a Sa`ad torment). "This means harsh having no relaxation in it." It has also been reported from Ibn `Abbas that he said, "It is a mountain in Hell." It has been related from Sa`id bin Jubayr that he said, "It is a well in Hell."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 اس آیت کا نزول اس وقت ہوا جب کفار قریش پر قحط سالی مسلط کردی گئی تھی، الطَّرِیْقَۃٍ کے دوسرے معنی گمراہی کے راستے کے کئے گئے ہیں۔ 17۔ 2 نہایت سخت الم ناک عذاب (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] نعمتوں سے آزمائش کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آیا وہ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر اللہ کا شکر بجا لانے اور اس کی اطاعت میں مزید ترقی کرتے ہیں یا اللہ کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں یا ناشکری کرکے اصل سرمایہ بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ [١٥] یعنی اس کی زندگی میں اس کی پریشانیاں بڑھتی ہی جائیں گی کسی کل چین نصیب نہ ہوگا اور آخرت میں یہ حال ہوگا کہ ہر آن اس کے عذاب میں اضافہ ہی کیا جاتا رہے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(لنفتھم فیہ ومن یعرض …: یعنی پانی کی کثرت اور رزق کی فراوانی کا مقصد بھی ان کی آزمائش ہے کہ وہ خوش حالی میں اللہ کا شکر ادا کرتے اور اس کی توحید و اطاعت پر قائم رہتے ہیں یا بدمست ہو کر سرکشی پر اتر آتے ہیں۔ معلوم ہوا مصیبت کی طرح نعمت بھی اللہ یک طرف سے آزمائش ہے۔ سورة انبیاء (٣٥) ، اعراف (١٦٨) اور سورة قلم (١٧ تا ٢٠) میں بھی یہ مضمون بیان ہوا ہے۔” صعداً “” صعد یصعد “ (ع) کا مصدر ہے۔ لفظی معین چڑھائی ہے، مراد ایسا سخت عذاب ہے جو دم بدم بڑھتا ہی جائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِّنَفْتِنَہُمْ فِيْہِ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّہٖ يَسْلُكْہُ عَذَابًا صَعَدًا۝ ١٧ ۙ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔ سلك السُّلُوكُ : النّفاذ في الطّريق، يقال : سَلَكْتُ الطّريق، وسَلَكْتُ كذا في طریقه، قال تعالی: لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح/ 20] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] ، يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن/ 27] ، وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه/ 53] ، ومن الثاني قوله : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر/ 42] ، وقوله : كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر/ 12] ، كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء/ 200] ، فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون/ 27] ، يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن/ 17] . قال بعضهم : سَلَكْتُ فلانا طریقا، فجعل عذابا مفعولا ثانیا، وقیل : ( عذابا) هو مصدر لفعل محذوف، كأنه قيل : نعذّبه به عذابا، والطّعنة السُّلْكَةُ : تلقاء وجهك، والسُّلْكَةُ : الأنثی من ولد الحجل، والذّكر : السُّلَكُ. ( س ل ک ) السلوک ( ن ) اس کے اصل بمعنی راستہ پر چلنے کے ہیں ۔ جیسے سکت الطریق اور یہ فعل متعدی بن کر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی راستہ پر چلانا چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : لِتَسْلُكُوا مِنْها سُبُلًا فِجاجاً [ نوح/ 20] تاکہ اس کے بڑے بڑے کشادہ راستوں میں چلو پھرو ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ [ الجن/ 27] اور اس کے آگے مقرر کردیتا ہے ۔ وَسَلَكَ لَكُمْ فِيها سُبُلًا [ طه/ 53] اور اس میں تمہارے لئے رستے جاری کئے ۔ اور دوسری معنی متعدی کے متعلق فرمایا : ما سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ [ المدثر/ 42] کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے ۔ كَذلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ [ الحجر/ 12] اس طرح ہم اس ( تکذیب و ضلال ) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کردیتے ہیں ۔ كَذلِكَ سَلَكْناهُ [ الشعراء/ 200] اسی طرح ہم نے انکار کو داخل کردیا ۔ فَاسْلُكْ فِيها[ المؤمنون/ 27] کشتی میں بٹھالو ۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً [ الجن/ 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا ۔ بعض نے سلکت فلانا فی طریقہ کی بجائے سلکت فلانا طریقا کہا ہے اور عذابا کو یسل کہ کا دوسرا مفعول بنایا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ عذابا فعل محذوف کا مصدر ہے اور یہ اصل میں نعذبہ عذابا ہے اور نیزے کی بالکل سامنے کی اور سیدھی ضرف کو طعنۃ سلکۃ کہاجاتا ہے ۔ ( سلکیٰ سیدھا نیزہ ) اور سلکۃ ماده كبک کو کہتے ہیں اس کا مذکر سلک ہے ۔ صعد الصُّعُودُ : الذّهاب في المکان العالي، والصَّعُودُ والحَدُورُ لمکان الصُّعُودِ والانحدار، وهما بالذّات واحد، وإنّما يختلفان بحسب الاعتبار بمن يمرّ فيهما، فمتی کان المارّ صَاعِداً يقال لمکانه : صَعُودٌ ، وإذا کان منحدرا يقال لمکانه : حَدُور، والصَّعَدُ والصَّعِيدُ والصَّعُودُ في الأصل واحدٌ ، لكنِ الصَّعُودُ والصَّعَدُ يقال للعَقَبَةِ ، ويستعار لكلّ شاقٍّ. قال تعالی: وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن/ 17] ، أي : شاقّا، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ، أي : عقبة شاقّة، والصَّعِيدُ يقال لوجه الأرض، قال : فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء/ 43] ، وقال بعضهم : الصَّعِيدُ يقال للغبار الذي يَصْعَدُ من الصُّعُودِ «1» ، ولهذا لا بدّ للمتیمّم أن يعلق بيده غبار، وقوله : كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ [ الأنعام/ 125] ، أي : يَتَصَعَّدُ. وأما الْإِصْعَادُ فقد قيل : هو الإبعاد في الأرض، سواء کان ذلک في صُعُودٍ أو حدور . وأصله من الصُّعُودُ ، وهو الذّهاب إلى الأمكنة المرتفعة، کالخروج من البصرة إلى نجد، وإلى الحجاز، ثم استعمل في الإبعاد وإن لم يكن فيه اعتبار الصُّعُودِ ، کقولهم : تعال، فإنّه في الأصل دعاء إلى العلوّ صار أمرا بالمجیء، سواء کان إلى أعلی، أو إلى أسفل . قال تعالی: إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] ، وقیل : لم يقصد بقوله إِذْ تُصْعِدُونَ إلى الإبعاد في الأرض وإنّما أشار به إلى علوّهم فيما تحرّوه وأتوه، کقولک : أبعدت في كذا، وارتقیت فيه كلّ مرتقی، وكأنه قال : إذ بعدتم في استشعار الخوف، والاستمرار علی الهزيمة . واستعیر الصُّعُودُ لما يصل من العبد إلى الله، كما استعیر النّزول لما يصل من اللہ إلى العبد، فقال سبحانه : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] ، وقوله : يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن/ 17] ، أي : شاقّا، يقال : تَصَعَّدَنِي كذا، أي : شَقَّ علَيَّ. قال عُمَرُ : ما تَصَعَّدَنِي أمرٌ ما تَصَعَّدَنِي خِطبةُ النّكاحِ «2» . ( ص ع د ) الصعود کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور نیچے اترنے کے لحاظ سے حدودکہاجاتا ہے کہا جاتا ہے اصل میں صعد وصعید وصعود وصعد کا لفظ عقبہ یعنی کھا ٹی پر بولا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر دشوار اور گراں امر کو صعد کہہ دیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن/ 17] اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیریگا وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرلیگا سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ہم اسے صعود پر چڑہائیں گے ۔ اور صعید کا لفظ وجہ الارض یعنی زمین کے بالائی حصہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء/ 43] تو پاک مٹی لو اور بعض نے کہا ہے کہ صعید اس گرد غیار کو کہتے ہیں جو اوپر چڑھ جاتا ہے لہذا نماز کے تیمم کے لئے ضروری ہے کہ گرد و غبار سے ہاتھ آلودہ ہوجائیں اور آیت کریمہ : ۔ كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ [ الأنعام/ 125] گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے ۔ میں یصعد اصل میں یتصعد ہے جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ۔ الاصعاد ( افعال ) بقول بعض اس کے معنی زمین میں دور تک چلے جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ جانا بلندی کیطرف ہو یا پستی کی طرف گو اس کے اصل معنی بلندجگہوں کی طرف جانا کے ہیں ۔ مثلابصرہ سے بخد یا حجازی کی طرف جانا بعد ہ صرف دور نکل جانے پر اصعاد کا لفط بولا جانے لگا ہے جیسا کہ تعال کہ اس کے اصل معنی علو بلندی کی طرف بلانے کے ہیں اس کے بعد صرف آنے کے معنی میں بطور امر استعمال ہونے لگا ہے عام اس سے وہ آنا بالائی کی طرف ہو یا پستی کی طرف قرآن میں ہے : ۔ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] جب تم لوگ دور نکلے جارہے تھے اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں اصعاد سے دور نکل جانا مراد ہے ۔ بلکہ اشارہ ہے کہ انہوں نے بھاگنے میں علو اختیار کیا یعنی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جیسے محاورہ ہے : ۔ ابعدت فی کذا وار تقیت فیہ کل مرتقی یعنی میں نے اس میں انتہائی کوشش کی لہذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ تم نے دشمن کا خوف محسوس کرنے اور لگاتار ہزیمت کھانے میں انتہا کردی اور استعارہ کے طور پر صعود کا لفظ انسانی اعمال کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے جو خدا تک پہنچتے ہیں جیسا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسان تک پہنچتی ہے اسے نزول سے تعبیر کیا جاتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن/ 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کریگا ۔ میں صعدا کے معنی شاق یعنی سخت کے ہیں اور یہ تصعدفی کذا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کیس امر کے دشوار اور مشکل ہونے کے ہیں ۔ چناچہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ( 4 ) ما تصعد لی امر ماتصعدنی خطبۃ النکاح کے مجھے کوئی چیز خطبہ نکاح سے زیادہ دشوار محسوس نہیں ہوتی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو شخص اپنے پروردگار کی توحید اور اس کی کتاب سے اعراض کرے گا یعنی ولید بن مغیرہ مخزومی تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ کے پہاڑ پر چڑھنے کے عذاب میں مبتلا کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ لِّنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ } ” تاکہ ہم اس (فراوانی) میں ان کی آزمائش کریں۔ “ یعنی ہم لوگوں کو خوب سیراب کر کے اور انہیں مختلف النوع نعمتوں سے نواز کر ان کا امتحان لیتے ہیں۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی آزمائش کے انداز مختلف ہیں ‘ وہ کسی کو تونگری اور خوشحالی میں آزماتا ہے تو کسی کو فاقوں میں مبتلا کرکے اس کا امتحان لیتا ہے۔ { وَمَنْ یُّعْرِضْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہٖ } ” اور جو کوئی بھی اعراض کرے گا اپنے رب کے ذکر سے “ { یَسْلُکْہُ عَذَابًا صَعَدًا ۔ } ” تو وہ ڈال دے گا اس کو چڑھتے عذاب میں۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ انہیں ایسے عذاب میں ڈالے گا جس کی شدت ہر لمحہ بڑھتی ہی چلی جائے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15 The conversation of the jinn having come to an end, with this begins the speech of Allah. 16 This is the same thing as has been said above in Surah Nuh: 10-11. "Seek forgiveness of Allah. .. He will send abundant rains for you from heaven. " (For explanation, see E.N. 12 of Surah Nuh) . Abundance of water has been used for abundance of blessings metaphorically for human life and habitation depend on water. Without water there can be no human settlement, nor can man's basic needs be fulfilled, nor his industries work and prosper.

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :17 یعنی یہ دیکھیں کہ وہ نعمت پا کر بھی شکر گزار رہتے ہیں یا نہیں ، اور ہماری دی ہوئی نعمت کا صحیح استعمال کرتے ہیں یا غلط ۔ سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :18 ذکر سے منہ موڑنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آدمی اللہ کی بھیجی ہوئی نصیحت کو قبول نہ کرے ، اور یہ بھی کہ وہ اللہ کا ذکر سننا ہی گوارا نہ کرے ، اور یہ بھی کہ وہ اللہ کی عبادت سے رو گردانی کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: اب جِنّات کا واقعہ سنا کر اہل مکہ سے فرمایا جا رہا ہے کہ جس طرح یہ جِنّات حق طلبی کا ثبوت دے کر ایمان لے آئے، اسی طرح تمہیں بھی قرآنِ کریم پر ایمان لے آنا چاہئے، اور اگر تم نے ایسا کیا تو اﷲ تعالیٰ تمہیں بارشوں سے سیراب فرمائیں گے بارشوں کا ذِکر خاص طور پر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اُس وقت اہل مکہ قحط میں مبتلا تھے (بیان القرآن)۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:17) لنفتنھم فیہ : لام علت کا ہے۔ نفقن مضارع منصوب جمع متکلم، فتنۃ وفتون (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی امتحان لینا۔ آزمائش میں ڈالنا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب فیہ میں ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع فراوانی (ماء غدقا) ہے تاکہ ہم ان کی آزمائش کریں۔ ای نختبرہم ایشکرون ام یکفرون (ایسر التفاسیر، اضواء البیان، بیضاوی، مظہری) بعض کے نزدیک ہم کی ضمیر کا مرجع جنوں کے لئے ہے لیکن جمہور کے نزدیک اصح یہی ہے کہ یہ کفار مکہ کے لئے ہے جیسا کہ استقاموا (آیت نمبر 16) میں ہے۔ ومن یعرض عن ذکر ربہ واؤ عاطفہ ہے من شرطیہ یعرض مضارع مجزوم واحد مذکر۔ غائب اعراض (افعال) مصدر بمعنی روگردانی کرنا۔ اعراض کرنا۔ جملہ شرطیہ ہے۔ اور جس نے اپنے رب کی یاد سے منہ موڑا۔ جملہ شرطیہ ہے۔ یسئل کہ عذابا صعدا۔ یہ جملہ جواب شرط ہے۔ یسلک مضارع مجزوم واحد مذکر غائب ضمیر فاعل رب کی طرف راجع ہے۔ سلک و سلوک (باب ضرب) مصدر سلک فعل لازم ماضی۔ وہ چلا۔ متعدی اس نے چلایا۔ اس نے داخل کیا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جو من کی طرف راجع ہے۔ عذابا صعدا۔ موصوف و صفت صعد مصدر ہے مصدر کو موصوف کی صفت میں مبالغہ کے لئے لائے ہیں۔ صعدا سخت۔ شاق، کہ جو معذب کے اوپر چھا جائے۔ ترجمہ :۔ وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا۔ بعض کے نزدیک عذاب صعدا سے پہلے حرف جار فی محذوف ہے۔ اس صورت میں عبارت یسل کہ فی عذاب ہونی چاہیے لیکن بعض کے قول کے مطابق سلکت فلانا فی طریقہ کی بجائے سلک فلانا طریقا بھی کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے یسل کہ فی عذاب کی بجائے یسل کہ عذابا بھی درست ہے صعدا کا اعراب اپنے موصوف کے مطابق ٹھیک ہے۔ (ملاحظہ ہو المفردات)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی انجام کار وہ دوزخ کے درد ناک عذاب سے دوچار ہوگا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ اہل مکہ پر آپ کی بد دعا سے قحط ہوا تھا اور کئی سال تک رہا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ وَ مَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهٖ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًاۙ٠٠١٧ ﴾ (اور جو شخص اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرے اللہ تعالیٰ اسے سخت عذاب میں داخل کرے گا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) تاکہ ہم اس میں ان کا امتحان کریں اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد یعنی اسلام سے روگردانی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو سخت اور ناقابل برداشت عذاب میں داخل کرے گا۔ آیت میں اشارہ فرمایا مکہ والوں کے لئے یعنی اگر یہ مکہ والے راہ راست پر قائم ہوجاتے تو ہم ان کو کثرت باراں اور پانی کی کثرت سے سیراب کرتے اور ان کو قحط میں مبتلا نہ کرتے اور اس نعمت اور کرم سے ان کو آزمائش کرتے اور ان کو جانچتے۔ جیسا کہ ہمارا قاعدہ ہے کہ ہم انسانوں پر احسان فرما کر آزماتے ہیں جیسا کہ بلا بھیج کر آزماتے ہیں۔ ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ ، اور اگر کوئی شخص خواہ وہ مکہ والوں میں سے ہو یا کوئی اور ہو یعنی بنی نوح انسان میں سے کوئی شخص اپنے پروردگار کی یاد یعنی ایمان اور اطاعت وانقیاد سے روگردانی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا۔ ہوسکتا ہے کہ صعد سے مراد وہ جہنم کا پہاڑ ہو جس پر چڑھنا دشوار ہوگا اس کے چکنا اور املس ہونے کی وجہ سے مگر اہل دوزخ کو اس پر چڑھنے کا حکم دیا جائیگا اور جب چڑھ جائیں گے تو اوپر سے لڑھکا دیا جائیگا اور اسی عذاب میں مبتلا رکھاجائے گا۔ (العیاذ باللہ) ہم نے مشہور طریقے تفسیر کردی ہے اگرچہ آیت کی اور بھی کئی طرح تفسیر کی گئی ہے۔ مثلاً ان لواستقاموا میں مکہ والوں کی تخصیص نہ ہو بلکہ عام طور پر یوں ترجمہ کیا جائے کہ اگر یہ انسان اور جنات سیدھی راہ پر قائم ہوجاتے تو ہم ان سب کو اپنی نعمتوں سے سرفراز کرتے اور ان کو بطور امتحان ہر قسم کی نعمتوں سے نوازتے۔ پانی کا ذکر اس لئے فرمایا کہ انعامات الٰہی میں اس کو خاص درجہ حاصل ہے قرآن میں کئی جگہ اس کے شواہد مذکور ہیں ابھی سورة طلاق میں گزرا ہے ۔ ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا الایۃ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان لواستقاموا سے فقط جنات مراد ہوں اور یہ مطلب ہو کہ اگر جنات کا باپ یعنی ابوالجان جس کو ابلیس کہتے ہیں نافرمانی نہ کرتا اور آدم کو سجدہ کرلیتا اور تمام جنات سیدھی راہ پر قائم رہتے تو ہم ان کو اپنی نعمتوں سے خوب نوازتے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان لواستقاموا سے مراد جنات ہوں اور طریقہ سے مراد وہی کفروعناد کا طریقہ ہو اور یہ مطلب ہو کہ اگر جنات اپنے کفر پر قائم رہتے اور قرآن سن کر اسلام نہ قبول کرتے اور ان کی بعض جماعتیں مسلمان ہوجاتیں تو ہم ان پر استدراجاً اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دیتے اور ایک عام امتحان میں مبتلا کرتے اور پھر اچانک ان کو پکڑ لیتے۔ جیسا کہ فرمایا فلما نسوا ماذکر وابہ فتحنا علیھم ابواب کل شیئ۔ مگر ہم نے ان تمام اقوال میں سے راجح قول کو اختیار کرلیا ہے ۔ (واللہ اعلم) آگے اور مضامین میں مذکور ہیں جن کا تعلق وحی سے ہے۔