Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 23

سورة الجن

اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِسٰلٰتِہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ﴿ؕ۲۳﴾

But [I have for you] only notification from Allah , and His messages." And whoever disobeys Allah and His Messenger - then indeed, for him is the fire of Hell; they will abide therein forever.

البتہ ( میرا کام ) اللہ کی بات اور اس کے پیغامات ( لوگوں کو ) پہنچا دینا ہے ( اب ) جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نہ مانے گا اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِلاَّ بَلَغًا مِّنَ اللَّهِ وَرِسَالاَتِهِ ... (Mine is) but conveyance from Allah and His Messages, This is an exception related to the previous statement, لَن يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ (None can protect me from Allah's punishment), meaning, `nothing can save me from Him and rescue me except my conveyance of the Message that He has obligated me to carry out.' This is as Allah says, يَـأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَأ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ O Messenger! Proclaim which has been sent down to you from your Lord. And if you do not, then you have not conveyed His Message. Allah will protect you from mankind. (5:67) Then Allah says, ... وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا and whosoever disobeys Allah and His Messenger, then verily, for him is the fire of Hell, he shall dwell therein forever. meaning, `I will convey unto you all the Messages of Allah, so whoever disobeys after that, then his reward will be the fire of Hell wherein he will abide forever.' This means, they will not be able to avoid it nor escape from it. Then Allah says, حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرًا وَأَقَلُّ عَدَدًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] یاد رہے کہ ان آیات کے اصل مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ جو شرک سے کسی قیمت پر باز نہیں آتے تھے اور یہی ان کی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی تھی۔ ایسے مشرکوں کی سزا واقعی ابدی جہنم ہے۔ لیکن مسلمان جو کم از کم شرک سے پاک ہوں۔ ان سے اگر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا کوئی کام سرزد ہوجائے تو ان کی سزا ابدی جہنم نہیں ہے۔ بلکہ اللہ انہیں مناسب سزا دینے کے بعد جہنم سے نکال لے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو معاف ہی فرما دے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(الا بلغاً من اللہ و رسلتہ…: یہ ” لا املک لکم ضراً ولا رشدا “ ے استثنا ہے اور درمیان والی آیت پہلی آیت ہی کی مزید وضاحت ہے، یعنی میں تو صرف اللہ کے احکام پہنچانے کا اور اس کے پیغام کا اختیار رکھتا ہوں، میرا کام بس اتنا ہی ہے، پیغام پہنچ جانے کے بعد جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ نافرمانی سے مراد اس جگہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان نہ لانا ہے، کیونکہ پچھلی آیات میں یہی مضمون آرہا ہے۔ ابدی جہنمی صرف کفار ہیں، یہ مطلب نہیں کہ ہر گناہ اور نافرمانی کی سزا ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّا بَلٰـغًا مِّنَ اللہِ وَرِسٰلٰتِہٖ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْہَآ اَبَدًا۝ ٢٣ ۭ بَلَاغ : التبلیغ، نحو قوله عزّ وجلّ : هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ [إبراهيم/ 52] ، وقوله عزّ وجلّ : بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفاسِقُونَ [ الأحقاف/ 35] ، وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ [يس/ 17] ، فَإِنَّما عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسابُ [ الرعد/ 40] . والبَلَاغ : الکفاية، نحو قوله عزّ وجلّ : إِنَّ فِي هذا لَبَلاغاً لِقَوْمٍ عابِدِينَ [ الأنبیاء/ 106] ، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ [ المائدة/ 67] ، أي : إن لم تبلّغ هذا أو شيئا مما حمّلت تکن في حکم من لم يبلّغ شيئا من رسالته، وذلک أنّ حکم الأنبیاء وتکليفاتهم أشدّ ، ولیس حكمهم كحكم سائر الناس الذین يتجافی عنهم إذا خلطوا عملا صالحا وآخر سيئا، وأمّا قوله عزّ وجلّ : فَإِذا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] ، فللمشارفة، فإنها إذا انتهت إلى أقصی الأجل لا يصح للزوج مراجعتها وإمساکها . ويقال : بَلَّغْتُهُ الخبر وأَبْلَغْتُهُ مثله، وبلّغته أكثر، قال تعالی: أُبَلِّغُكُمْ رِسالاتِ رَبِّي [ الأعراف/ 62] ، وقال : يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [ المائدة/ 67] ، وقال عزّ وجلّ : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ ما أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ [هود/ 57] ، وقال تعالی: بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران/ 40] ، وفي موضع : وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا [ مریم/ 8] ، وذلک نحو : أدركني الجهد وأدركت البلاغ ۔ کے معنی تبلیغ یعنی پہنچا دینے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ [إبراهيم/ 52] یہ ( قرآن ) لوگوں کے نام ( خدا ) پیغام ہے ۔ بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفاسِقُونَ [ الأحقاف/ 35]( یہ قرآن ) پیغام ہے سود اب وہی ہلاک ہوں گے جو نافرمان تھے ۔ وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ [يس/ 17] اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے ۔ فَإِنَّما عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسابُ [ الرعد/ 40] تمہارا کام ہمارے احکام کا ) پہنچا دینا ہے اور ہمارا کام حساب لینا ہے ۔ اور بلاغ کے معنی کافی ہونا بھی آتے ہیں جیسے : إِنَّ فِي هذا لَبَلاغاً لِقَوْمٍ عابِدِينَ [ الأنبیاء/ 106] عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں ( خدا کے حکموں کی ) پوری پوری تبلیغ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ [ المائدة/ 67] اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم نے یہ یا کوئی دوسرا حکم جس کا تمہیں حکم جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے نہ پہنچا یا تو گویا تم نے وحی الٰہی سے ایک حکم کی بھی تبلیغ نہیں کی یہ اس لئے کہ جس طرح انبیاء کرام کے درجے بلند ہوتے ہیں اسی طرح ان پر احکام کی بھی سختیاں ہوتی ہیں اور وہ عام مومنوں کی طرح نہیں ہوتے جو اچھے اور برے ملے جلے عمل کرتے ہیں اور نہیں معاف کردیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : فَإِذا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] پھر جب وہ اپنی میعاد ( یعنی انقضائے عدت ) کو پہنچ جائیں تو ان کو ( زوجیت میں ) رہنے دو ۔ میں بلوغ اجل سے عدت طلاق کا ختم ہونے کے قریب پہنچ جا نامراد ہے ۔ کیونکہ عدت ختم ہونے کے بعد تو خاوند کے لئے مراجعت اور روکنا جائز ہی نہیں ہے ۔ بلغتہ الخبر وابلغتہ کے ایک ہی معنی ہیں مگر بلغت ( نفعیل ) زیادہ استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : أُبَلِّغُكُمْ رِسالاتِ رَبِّي [ الأعراف/ 62] تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں ۔ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [ المائدة/ 67] اے پیغمبر جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ ما أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ [هود/ 57] 1. اگر تم رو گردانی کردگے تو جو پیغام میرے ہاتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ می نے تمہیں پہنچا دیا ہے ۔ 2. اور قرآن پاک میں ایک مقام پر : بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران/ 40] 3. کہ میں تو بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ آیا ہے یعنی بلوغ کی نسبت کبر کی طرف کی گئی ہے ۔ اور دوسرے مقام پر ۔ وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا [ مریم/ 8] 4. اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں ۔ ہے یعنی بلوغ کی نسبت متکلم کی طرف ہے اور یہ ادرکنی الجھد وادرکت الجھد کے مثل دونوں طرح جائز ہے مگر بلغنی المکان یا ادرکنی کہنا غلط ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣{ اِلَّا بَلٰغًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِسٰلٰتِہٖ } ” بس (میرا فرض) اللہ کی طرف سے تبلیغ اور اس کے پیغامات کا پہنچا دینا ہے۔ “ یعنی اگر میں نے یہ فریضہ انجام دینے میں کوتاہی کی تو میری جواب دہی ہوگی۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے سورة الاعراف کی اس آیت میں اپناقانون واضح طور پر بیان فرما دیا ہے : { فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ } ” پس ہم لازماً پوچھ کر رہیں گے ان سے بھی جن کی طرف ہم نے رسولوں کو بھیجا اور لازماً پوچھ کر رہیں گے رسولوں سے بھی۔ “ { وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ } ” اور جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرے گا “ { فَاِنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ۔ } ” تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :22 یعنی میرا یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہے کہ خدا کی خدائی میں میرا کوئی دخل ہے ، یا لوگوں کی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا کوئی اختیار مجھے حاصل ہے ۔ میں تو صرف ایک رسول ہوں اور جو خدمت میرے سپرد کی گئی ہے وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اللہ تعالی کے پیغامات تمہیں پہنچا دوں ۔ باقی رہے خدائی کے اختیارات ، تو وہ سارے کے سارے اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں ۔ کسی دوسرے کو نفع یا نقصان پہنچانا تو درکنار ، مجھے تو خود اپنے نفع و نقصان کا اختیار بھی حاصل نہیں ۔ اللہ کی نافرمانی کروں تو اس کی پکڑ سے بچ کر کہیں پناہ نہیں لے سکتا ، اور اللہ کے دامن کے سوا کوئی ملجا و ماویٰ میرے لیے نہیں ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الشوریٰ ، حاشیہ7 ) ۔ سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :23 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر گناہ اور معصیت کی سزا ابدی جہنم ہے ، بلکہ جس سلسلہ کلام میں یہ بات فرمائی گئی ہے اس کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے توحید کی جو دعوت دی گئی ہے اس کو جو شخص نہ مانے اور شرک سے باز نہ آئے اس کے لیے ابدی جہنم کی سزا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

################

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:23) الا بلغا من اللہ ورسلتہ : بلغ مصدر (باب نصر) سے جس کے معنی پہنچا دینا۔ یا کافی ہونے کے ہیں۔ قرآن مجید میں بمعنی تبلیغ آیا ہے یا کافی کے معنی میں جیسے کہ :۔ ان فی ھذا لبلاغا لقوم عبدین (22:106) اس میں کفایت ہے عبادت کرنے والی جماعت کے لئے (لغات القرآن) ۔ آیت زیر غور کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں :۔ (1) الا استثنائیہ نہیں ہے بلکہ ان شرطیہ اور لا نافیہ سے مرکب ہے۔ معنی ہوں گے ان لا ابلغ بلاغا لن اجد من دونہ ملتحدا۔ اگر میں (خدا کے احکام و پیغام کی کما حقہ) تبلیغ نہیں کروں گا تو اس کے سوا مجھے کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔ (حقانی) ۔ اس میں الا بلغا من اللہ جملہ شرطیہ ہوگا۔ اور لن اجد من دونہ ملتحدا جواب شرط۔ (جزاء کو شرط سے قبل لایا گیا ہے) ۔ (2) حسن اور مقاتل نے اس طرح مطلب بیان کیا ہے کہ میں نہ خیر کا مالک ہوں نہ شرکا نہ ہدایت کا۔ ہاں تبلیغ احکام اور پیام رسانی کا فرض خدا کی طرف سے مجھ پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ الا استثنائیہ نہیں بلکہ لکن کے معنی میں ہے۔ (مظہری) (3) قولہ تعالیٰ : الا بلغا من اللہ ورسلتہ ای لا املک لکم ضرا ولا رشدا الا بلغا من اللہ ورسلتہ فانی ابلغکم عنہ ما امرنی بہ وارشدکم الی ما ارسلنی بہ من الھدی والخیر والفوز (السیر التفاسیر) ۔ نہ میرے ہاتھ میں تمہاری برائی ہے اور نہ راہ پر لانا (میرے ہاتھ میں) سوائے اللہ کی طرف سے احکام کی تبلیغ کے (اور کچھ نہیں ہے) پس میں جو وہ حکم دیتا ہے تم تک پہنچا دیتا ہوں اور ہدایت و بھلائی اور نجات کے متعلق (تمہارے لئے) جو احکام وہ مجھے دیتا ہے میں ان کی طرف تمہاری راہنمائی کرتا ہوں۔ ورسلتہ واؤ عاطفہ رسلتہ مضاف مضاف الیہ۔ اس کا عطف بلغا پر ہے اور اس کے پیغام (کا تم تک پہنچانا) ۔ ومن یعص اللہ ورسولہ واؤ عاطفہ۔ اس کا عطف جملہ محذوف پر ہے ۔ من شرطیہ یعص مضارع مجزوم واحد مذکر غائب۔ اصل میں یعصی تھا۔ شرط کی وجہ سے مجزوم ہے عصیان (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی نافرمانی کرنا۔ ورسولہ اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ فان لہ نار جھنم۔ جملہ جواب شرط ہے۔ پس اس کے لئے جہنم کی آگ ہے۔ خالدین فیہا ابدا۔ لفظ من کی رعایت سے یعص اور لہ کی مفرد ضمیریں لائی گئیں اور معنی کے لحاظ سے لفظ خلدین بصورت جمع ذکر کیا گیا ہے۔ خلدین خلود سے بحالت نصب اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر۔ ہمیشہ رہنے والے ، جملہ من یعص اللہ کی ضمیر فاعل سے حال ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) مگرہاں میرا کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچانا اور اس کے پیغامات کو اداکرنا ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کریں گے تو یقینا ان کے لئے جہنم کی آگ ہوگی جس آگ میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یعنی اس کے عقاب سے کوئی چیز نجات دلانے والی نہیں مگر ہاں یہی خدائی امور اور احکام الٰہی کی تبلیغ پناہ دے سکتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے قہر سے کوئی چیز نہیں چھڑا سکتی مگر ہاں چھڑا سکتی ہے تو یہی چیز چھڑا سکتی ہے کہ جو احکام اس نے میری طرف بھیجے ہیں میں اس کی مخلوق تک ان احکام کو پہنچا دوں پھر جو کوئی اس تبلیغ کے بعد بھی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور شرک کو چھوڑ کر توحید کو اختیار نہ کرے گا اور شرک سے دست بردار نہ ہوگا تو اس کے لئے دوزخ کی بھڑکتی اور شعلے مارتی ہوئی آگ موجود ہے جس میں وہ ابدالا آباد تک جلتا اور جھلستا رہے گا۔ خلاصہ : یہ ہے کہ میرا کام یا میرا اختیار تو صرف اس قد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام لائوں اور اس کے بندوں تک پہنچادوں اور اس فرض کے ادا کرنے سے میں اس کی حمایت اور پناہ حاصل کرسکوں اور کوئی نفع نقصان میرے اختیار میں نہیں ہے اتنا جانتا ہوں کہ احکام الٰہی کو ماننے سے جو شخص انکار کرے گا اور میری مخالفت اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے گا تو اس کو نقصان پہنچ جائیگا۔ مفسرین نے الا بلاغا من اللہ کو استثنا متصل قرار دیا ہے اور بعض نے استثنا منفصل کہا ہے اس لئے ہم نے دونوں کی رعایت رکھ کر تیسیر میں شرح کی ہے۔