Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 4

سورة الجن

وَّ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوۡلُ سَفِیۡہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًا ۙ﴿۴﴾

And that our foolish one has been saying about Allah an excessive transgression.

اور یہ کہ ہم میں کا ایک بیوقوف اللہ کے بارے میں خلاف حق باتیں کہا کرتا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And that the foolish among us used to utter against Allah that which was an enormity in falsehood. Mujahid, `Ikrimah, Qatadah and As-Suddi, all said, سَفِيهُنَا (the foolish among us), "They were referring to Iblis." ... شَطَطًا that which was an enormity in falsehood. As-Suddi reported from Abu Malik that he said, "This means a transgression." Ibn Zayd said, "A great injustice." The foolish (Safih) also carries the meaning of everyone in the category who claims that Allah has a spouse or a son. This is why Allah says here, وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا (And that the foolish among us used to utter) meaning, before his acceptance of Islam. عَلَى اللَّهِ شَطَطًا (against Allah that which was an enormity in falsehood.) meaning, falsehood and a lie. Thus, Allah says, وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن تَقُولَ الاْأِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 (ہمارے بےوقوف) سے بعض نے شیطان مراد لیا ہے اور بعض نے ان کے ساتھی جن اور بعض نے بطور جنس ؛ یعنی ہر وہ شخص جو یہ گمان باطل رکھتا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ شَطَطًا کے کئ معنی کئے گئے ہیں، ظلم، جھوٹ، باطل، کفر میں مبالغہ وغیرہ۔ مقصد، راہ اعتدال سے دوری اور حد سے تجاوز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ بات کہ اللہ کی اولاد ہے ان بیوقوفوں کی بات ہے جو راہ اعتدال سے دور، حد متجاوز اور کاذب و افترا پرداز ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] سَفِیْھُنَا میں سفیہ سے مراد ایک فرد بھی ہوسکتا ہے اور اس صورت میں وہ ابلیس ہے۔ جس نے جن و انسان کو گمراہ کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اور سفیہ سے مراد نادانوں کا گروہ بھی ہوسکتا ہے اور جھوٹی باتوں سے مراد تمام شرکیہ عقائد ہیں۔ بالخصوص یہ کہ اللہ کی بیوی بھی ہے اور اولاد بھی یا یہ کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں یا یہ کہ کائنات میں کئی دیوی، دیوتا اور اللہ کے پیارے ایسے ہیں جنہیں اللہ نے کائنات میں تصرف امور کے بعض اختیارات سونپ رکھے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وانہ کان یقول سفیھنا :” سفیھنا “ (ہمارا بیوقوف ) سے مراد ایک فرد بھی ہوسکتا ہے اور ایک گروہ بھی۔ فرد ہو تو ابلیس یا ان جنوں کا سردار مراد ہے۔ گروہ ہو تو مطلبب یہ ہے کہ ہم میں سے کئی بیوقوف اور احمق لوگ اللہ تعالیٰ پر ایسی زیادتی کی باتیں تھوپا کرتے تھے کہ اس کا کوئی شریک ہے یا اس کی اولاد اور بیوی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا عَلَى اللَّـهِ شَطَطًا ﴿٤﴾ وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن تَقُولَ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا ﴿٥﴾ ...and that the fools among us used to attribute to Allah extremely wrong things, and that we thought that the humans and the Jinn would never tell a lie about Allah, [ therefore, we had followed them in shirk under this impression ]. (72:5) The word shatat means &vile words, extravagant or exorbitant or enormous lies&. The word also means &to transgress or act wrongfully, unjustly or exceed the legitimate bounds&. The believers from amongst Jinn used to put forward their excuse for being involved in disbelief and idolatry thus: The foolish people from amongst their nation uttered vile slander against Allah, whilst they did not think it possible for a human being or a Jinn to impute a lie to Allah. They were thus far caught up in the foolish people&s vile words and committed kufr and shirk, but they had now heard the Qur&an and the reality had later opened up.

ۙوَّاَنَّهٗ كَانَ يَقُوْلُ سَفِيْهُنَا عَلَي اللّٰهِ شَطَطًا ۝ ۙوَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَي اللّٰهِ كَذِبا۔ لفظ شطط کے معنے قول بعید از عقل اور ظلم وجور کے آتے ہیں مراد یہ ہے کہ ایمان لانے والے جنات نے اب تک شرک و کفر میں مبتلا رہنے کا عذر یہ بیان کیا کہ ہماری قول کے بیوقوف لوگ اللہ تعالیٰ کی شان میں بےسروپا باتیں کہا کرتے اور ہمیں یہ گمان نہ تھا کہ کوئی انسان یا جن اللہ کی طرف جھوٹی بات کی نسبت کرسکتا ہے اس لئے ان بیوقوفوں کی بات میں آ کر آج تک ہم کفر و شرک میں مبتلا تھے اب قرآن سنا تو حقیقت کھلی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّاَنَّہٗ كَانَ يَقُوْلُ سَفِيْہُنَا عَلَي اللہِ شَطَطًا۝ ٤ ۙ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ سفه السَّفَهُ : خفّة في البدن، ومنه قيل : زمام سَفِيهٌ: كثير الاضطراب، وثوب سَفِيهٌ: ردیء النّسج، واستعمل في خفّة النّفس لنقصان العقل، وفي الأمور الدّنيويّة، والأخرويّة، فقیل : سَفِهَ نَفْسَهُ [ البقرة/ 130] ، وأصله سَفِهَتْ نفسه، فصرف عنه الفعل نحو : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها [ القصص/ 58] ، قال في السَّفَهِ الدّنيويّ : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء/ 5] ، وقال في الأخرويّ : وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن/ 4] ، فهذا من السّفه في الدّين، وقال : أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة/ 13] ، فنبّه أنهم هم السّفهاء في تسمية المؤمنین سفهاء، وعلی ذلک قوله : سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة/ 142] . ( س ف ہ ) السفۃ اس کے اصل معنی جسمانی ہلکا پن کے ہیں اسی سے بہت زیادہ مضطرب رہنے والی مہار کو زمام سفیہ کہا جاتا ہے اور ثوب سفیہ کے معنی ردی کپڑے کے ہیں ۔ پھر اسی سے یہ لفظ نقصان عقل کے سبب خفت نفس کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے سفہ نفسہ جو اصل میں سفہ نفسہ ہے پھر اس سے فعل کے نسبت قطع کر کے بطور تمیز کے اسے منصوب کردیا ہے جیسے بطرت معشیتہ کہ یہ اصل میں بطرت معیشتہ ہے ۔ اور سفہ کا استعمال امور دنیوی اور اخروی دونوں کے متعلق ہوتا ہے چناچہ امور دنیوی میں سفاہت کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء/ 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال ۔۔۔۔۔۔ مت دو ۔ اور سفاہت اخروی کے متعلق فرمایا : ۔ وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن/ 4] اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتے ہیں ۔ یہاں سفاہت دینی مراد ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة/ 13] تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں : ۔ میں ان سفیہ کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ ان کا مؤمنین کو سفھآء کہنا بنا بر حماقت ہے اور خود ان کی نادانی کی دلیل ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة/ 142] احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ پر ( پہلے چلے آتے تھے ) اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ۔ شطط الشَّطَطُ : الإفراط في البعد . يقال : شَطَّتِ الدّارُ ، وأَشَطَّ ، يقال في المکان، وفي الحکم، وفي السّوم، قال : شطّ المزار بجدوی وانتهى الأمل«1» وعبّر بِالشَّطَطِ عن الجور . قال تعالی: لَقَدْ قُلْنا إِذاً شَطَطاً [ الكهف/ 14] ، أي : قولا بعیدا عن الحقّ. وشَطُّ النّهر حيث يبعد عن الماء من حافته . ( ش ط ط ) الشطط ۔ کے معنی حد سے بہت زیادہ تجاوز کرنے کے ہیں جیسے شطت الدار واشط ( گھر کا دور ہونا ) اور یہ کسی مقام یا حکم یا نرخ میں حد مقررہ سے تجاوز کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے : ( البسیط ) یعنی حذوی ( محبوبہ ) کی زیارت مشکل ہوگئی اور ہر قسم کی امیدیں منقطع ہوگئیں ۔ اور کبھی شطط بمعنی جور بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَقَدْ قُلْنا إِذاً شَطَطاً [ الكهف/ 14] تو ہم نے بعید از عقل بات کہی ۔ شط النھر ۔ دریا کا کنارا جہاں سے پانی دور ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم میں جو احمق ہوئے ہیں یعنی شیطان وہ اللہ کی شان میں جھوٹی باتیں بکتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤{ وَّاَنَّـہٗ کَانَ یَـقُوْلُ سَفِیْہُنَا عَلَی اللّٰہِ شَطَطًا ۔ } ” اور یقینا ہمارا بیوقوف (سردار) اللہ کے بارے میں خلافِ حقیقت باتیں کہتا رہا ہے۔ “ اپنے ” بیوقوف “ سے ان کا اشارہ اپنے سب سے بڑے جن عزازیل (ابلیس) کی طرف ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :5 اصل میں لفظ سفیھنا استعمال کیا گیا ہے جو ایک فرد کے لیے بھی بولا جا سکتا ہے اور ایک گروہ کے لیے بھی ۔ اگر اسے ایک نادان فرد کے معنی میں لیا جائے تو مراد ابلیس ہو گا ۔ اور اگر ایک گروہ کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جنوں میں بہت سے احمق اور بے عقل لوگ ایسی باتیں کہتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: اس سے مراد کفر، شرک اور بد عقیدگی کی باتیں ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:4) وانہ۔ اس کا عطف جملہ سابقہ وانہ تعالیٰ ۔۔ الخ پر ہے واؤ حرف عطف ۔ ان حرف مشبہ بفعل ہ ضمیر شان و اسم ان باقی جملہ اس کی خبر۔ ہ ضمیر کا مرجع سفیہنا ہے کان یقول : ماضی استمراری صیغہ واحد مذکر غائب۔ سفیہنا مضاف مضاف الیہ۔ صیغہ سے مراد نادان ہے یا بقول قتادہ مجاہد ۔ اس سے مراد ابلیس ہے اذ لیس فوقہ سفیہ کہ اس سے بڑھ کر کوئی نادان اور جاہل نہیں ہے۔ بیضاوی اور خازن نے بھی اس سے مراد ابلیس ہی لیا ہے۔ اور بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد سرکش جنات ہیں اور سفیہنا کا ترجمہ ہوگا :۔ ہم میں سے کا جاہل و نادان۔ شططا۔ یہ مصدر ہے (باب نصر و ضرب) اس کے اصل معنی افراط بعد کے ہیں۔ یعنی حد سے زیادہ دور ہونے کے ہیں اور چونکہ حد سے بڑھنا جور وستم ہے اس لئے اس معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اسی لئے اس بات کو جو حق سے دور ہو شططا کہتے ہیں ۔ اور جگہ قرآن پاک میں آیا ہے :۔ فاحکم بیننا بالحق ولا تشططا (38:22) تو آپ ہم میں انصاف سے فیصلہ کر دیجئے اور بےانصافی سے کام نہ لیجئے گا۔ آیت ہذا کا ترجمہ ہوگا :۔ اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف (ایسے بھی ہو گزرے) ہیں جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹی اور دور از حق باتیں بنایا کرتے تھے (یعنی یہ کہ اللہ کے بیوی بچے ہیں) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی یہ کہتا تھا کہ اللہ کی بیوی اور اولاد ہے۔ بیوقوف سے مراد سرکش شرک جن ہیں یا خاص طور پر ابلیس

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مراد اس سے کلمات شرک اتخاذ صاحبہ و ولد وغیرہ ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانہ کان ........................ کذبا (٢٧ : ٥) ” اور یہ کہ ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلاف حق باتیں کہتے رہتے ہیں “ اور یہ کہ ” ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے “۔ جن اس بات کو دہرا رہے کہ ہمارے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں خلاف حق تصورات رکھتے تھے اور اللہ کے لئے بیوی اور اولاد کا اعتقاد رکھتے تھے۔ اور قرآن کریم سننے کے بعد ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کے یہ عقائد درست نہ تھے اور جنوں میں سے جو لوگ اس بات کے قائل تھے وہ بڑے جاہل اور احمق تھے۔ اس قدر جاہل کہ وہ یہ تصور کرتے تھے کہ انسانوں اور جنوں میں سے کوئی شخص اللہ پر جھوٹ کیسے باندھ سکتا ہے ؟ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی جھوٹ نہیں باندھ سکتا تھا۔ اس لئے جب بعض احمقوں نے یہ عقیدہ اختیار کرلیا کہ اللہ کی بیوی اور اولاد ہے تو انہوں نے بھی اس بات کو مان لیا ، کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے اللہ پر کوئی افتراء کیسے باندھ سکتا ہے ۔ لیکن یہی شعور ان کے لئے موجب ایمان بن گیا کیونکہ ان کے دل میں یہ پاک خیات تھا۔ ادھر کسی نے اللہ پر جھوٹ باندھا نہیں ادھر اللہ نے اس کی گردن دبوچی نہیں۔ ان جنوں پر گمراہی کا یہ غبار ان کی جہالت کی وجہ سے آگیا تھا۔ جونہی ان کو حق ملا انہوں نے گمراہی کے غبار کو جھاڑ دیا۔ حقیقت کو پالیا۔ اصل حقیقت کو چکھ لیا اور وہ بول اٹھے : انا سمعنا ........................ ولدا (٢٧ : ١ تا ٣) ” ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے “۔ ” اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ وارفع ہے اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے “۔ اور یہ جھاڑ اور صفائی اس وجہ سے ان کو نصیب ہوئی کہ وہ حق تک پہنچ گئے اور یہ حقیقت اس قابل تھی جس پر کبرائے قریش کے اکثر بر خود غلط دماغ اس پر غور کرتے ، جو یہ گمان کرتے تھے کہ اللہ کی بیوی ہے اور بیٹیاں ہیں اور اس حقیقت سے ان کے دلوں میں خدا خوفی اور احتیاط پیدا ہوجاتی اور وہ اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے سامنے پیش کررہے تھے۔ اور کبرائے قریش کے جو احمقانہ عقائد تھے ، ان کی صداقت میں شک وشبہ پیدا ہوجاتا ، لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ اس قصے کو یہاں لانے کا مقصد بھی یہ تھا کہ کبرائے قریش کے عقائد کی تردید کی جائے۔ قرآن کریم اور کبرائے قریش کے درمیان جو نظریاتی جنگ برپا تھی ، یہ سورت اس کی ایک جھڑپ کا نمونہ تھی۔ اور یہ سورت دراصل ان بیماریوں کا ایک دیرپا علاج کررہی تھی جو زمانہ جاہلیت سے باقی رہ گئی تھیں۔ اور ابھی تک لوگوں کے دلوں پر چھارہی تھیں۔ لوگ سادہ لوح تھے اور وہ ان عقائد سے بری الذمہ تھے ، لیکن گمراہ اور برخود غلط قیادت کی طرف سے ان کو اسی راہ پر چلایا جارہا تھا اور زمانہ جاہلیت کے خرافات کو دین بنا کر ان کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” وانہ کان یقول “ سفیھنا سے مراد ابلیس ہے یا سرکش اور مشرک جن۔ ان جنوں نے ان مشرک اور سرکش جنوں کی شرارت کا بھی ذکر کردیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسی بات کہتے ہیں جو حق سے بعید اور حد سے گذری ہوئی ہے۔ مراد ہے خداوند تعالیٰ کے لیے بیوی اور اولاد تجویز کرنا (روح) ۔ حاصل یہ کہ جنوں میں سے جو خدا کے لیے بیوی یا بیٹا تجویز کرتا ہے وہ کم عقل اور نادان ہے۔ بھلا اللہ تعالیٰ جس کی عظمت و جلالت کی کوئی انتہاء نہیں وہ بیوی بیٹوں کا کب محتاج ہے ؟ شططا ای قولا ذا شطط وھو البعد ومجاوزۃ الحد (بیضاوی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) اور یہ کہ ہم میں کا بیوقوف اور احمق اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخانہ اور حد سے بڑھی ہوئی باتیں کہتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ہم میں جو بیوقوف تھے وہ ایسی باتیں کہتے تھے یا ابلیس کو کہا۔ خلاصہ یہ کہ جس طرح انسانوں میں سرکشی اور طغیان پایا جاتا ہے اسی طرح جنات میں بھی کچھ ایسے بیوقوف اور بدنہاد ہیں جو اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی اور بہتان طرازی کیا کرتے ہیں۔