Surat ul Muzammil

Surah: 73

Verse: 17

سورة المزمل

فَکَیۡفَ تَتَّقُوۡنَ اِنۡ کَفَرۡتُمۡ یَوۡمًا یَّجۡعَلُ الۡوِلۡدَانَ شِیۡبَۨا ﴿٭ۖ۱۷﴾

Then how can you fear, if you disbelieve, a Day that will make the children white- haired?

تم اگر کافر رہے تو اس دن کیسے پناہ پاؤ گے جو دن بچوں کو بوڑھا کر دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then how can you protect yourselves from the punishment, if you disbelieved, on a Day that will make the children gray-headed? Ibn Jarir quoted in the recitation of Ibn Mas`ud: "How can you, O people, fear a Day that makes the children grey-headed, if you disbelieve in Allah and do not testify to Him" So the first interpretation would mean, - `how can you attain safety for yourselves from the Day of this great horror if you disbelieve' It could imply the meaning, - `how can you all attain piety if you disbelieve in the Day of Judgement and reject it.' Both of these meanings are good. However, the first interpretation is closer to the truth. And Allah knows best. The meaning of Allah's statement, ... يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا On a Day that will make the children gray-headed, is that this will happen due to the severity of its horrors, its earth- quakes and its disturbing confusion. This is when Allah will say to Adam, "Send a group to the Fire." Adam will say, "How many" Allah will then reply, "From every thousand, nine hundred and ninety-nine to the Fire, and one to Paradise." Then Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 قیامت والے دن کی ہولناکی بیان کی کہ واقع اس دن بچے بوڑھے ہوجائیں گے یا تمثیل کے طور پر کہا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَيْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبَۨا۝ ١٧ ۤ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو اے مکہ والو جب تم دنیا میں کافر ہو تو کفر و شرک سے کیسے بچو گے اور اللہ تعالیٰ پر قیامت کے دن کیسے ایمان لاؤ گے جبکہ وہ دن بچوں کو بوڑھا کردے گا جبکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سنیں گے جو کہ اللہ تعالیٰ حضرت آدم سے فرمائے گا اے آدم اپنی اولاد میں سے ایک بڑی جماعت دوزخ کی طرف بھیجو، حضرت آدم عرض کریں گے کتنی، اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے دوزخ میں اور ایک جنت میں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا } ” اب اگر تم کفر کرو گے تو تم کیسے بچ جائو گے اس دن ‘ جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا “ قیامت کا دن اللہ کے نافرمانوں کے لیے بہت سخت ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 That is, "In the first place, you should be afraid that if you do not accept the invitation of the Messenger sent by Us, you will have to meet the same evil end in this world, which the Pharaoh has already met in consequence of this very crime. But even if no torment is sent on you in the world, how will you save yourselves from the punishment of the Day of Resurrection?"

سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :17 یعنی اول تو تمہیں ڈرنا چاہیے کہ اگر ہمارے بھیجے ہوئے رسول کی بات تم نے نہ مانی تو وہ برا انجام تمہیں دنیا میں دیکھنا ہو گا جو فرعون اس سے پہلے اسی جرم کے نتیجے میں دیکھ چکا ہے ۔ لیکن اگر فرض کرو کہ دنیا میں تم پر کوئی عذ اب نہ بھی بھیجا گیا تو روز قیامت کے عذاب سے کیسے بچ نکلو گے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(73:17) فکیف تتقون : ف بمعنی پس، پھر۔ کیف حرف استفہام ہے۔ بمعنی کیسے۔ کس طرح ۔ کیونکر۔ تتقون مضارع جمع مذکر حاضر۔ اتقاء (افتعال) مصدر بمعنی ڈرنا۔ پرہیز کرنا بچنا۔ پھر تم کیسے بچ سکو گے (خطاب کفار مکہ سے ہے) ۔ ان کفرتم : ان شرطیہ کفرتم ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر کفر (باب نصر) مصدر۔ بمعنی انکار کرنا۔ یوما : ای عذاب یوم۔ اس صورت میں یوما کا تعلق تتقون سے ہے۔ یوما مضاف الیہ ہے اور لفظ عذاب مضاف۔ مضاف کو حذف کرکے کے بعد مضاف الیہ کو اس کی جگہ کردیا اور اسی کا اعراب دیدیا۔ (مظہری) ترجمہ ہوگا :۔ (اے کفار مکہ جب فرعون کو حضرت موسیٰ کی نافرمانی کی پاداش میں غرق کردیا گیا اور وہ واصل یہ جہنم ہوگیا) تو پھر تم اس روز کے عذاب سے کیسے بچ سکتے ہو۔ یجعل الولدان شیبا : یہ جملہ یوما کی صفت ہے اور یجعل کا فاعل بھی یوما ہی ہے۔ فائدہ : یجعل کی نسبت یوما کی طرف مجازی ہے۔ حقیقت میں اس روز بچوں کو بوڑھا بنانے والا تو خدا تعالیٰ ہی ہے لیکن روز قیامت کو بچوں کو بوڑھا بنانے والا قرار دینا بطور مبالغہ ہے۔ اصل کلام یوں ہے :۔ یوم یجعل اللہ فیہ الولدان شیبا۔ جس روز کہ اللہ بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔ (تفسیر مظہری) الوالدان : ولد کی جمع ، بچے ، بچیاں ، لڑکے ، لڑکیاں۔ شیبا۔ بوڑھے۔ (بوجہ مفعول منصوب ہے) اشیب کی جمع ہے جیسے ابیض کی جمع بیض ہے۔ یہ جملہ یوما کی صفت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی شدت اور درازی کی وجہ سے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون کا انجام بتلا کر اہل مکہ کو ان کا آخرت کا انجام بتلایا گیا ہے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا انکار کرنے والی اقوام کا دنیا میں بدترین انجام ہوا جن میں سر فہرست فرعون اور اس کے ساتھی ہیں۔ ان کا انجام بتلاتے ہوئے اہل مکہ کو ایک دفعہ پھر براہ راست خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور آپ کی دعوت کا انکار کروگے تو بتاؤ اس دن کی سختیوں سے کس طرح بچ سکو گے جو دن بچوں کو بوڑھا کردے گا ؟ اور آسمان پھٹ جائے گا۔ یاد رکھو کہ یہ سب کچھ ہو کر رہے گا کیونکہ یہ رب ذوالجلال کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہوگا۔ جس قرآن کے ذریعے تمہیں ڈرایا جاتا ہے اس میں تمہارے لیے نصیحت ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ قرآن کی نصیحت کو قبول کرے اور اپنے رب کی طرف جانے والے راستے پر گامزن ہوجائے، اسی میں اس کی دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی کا راستہ واضح فرما کر انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ ان میں سے جس کا چاہے انتخاب کرے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا اور یہ ہو کر رہے گا کیونکہ یہ ” اللہ “ کا وعدہ ہے۔ ٢۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے نصیحت ہے اب جس کا دل چاہے نصیحت حاصل کرے اور اپنے رب کی طرف جانے والے راستے پر گامزن ہوجائے۔ ٣۔ قیامت کے دن بچے بھی بوڑھے ہوجائیں گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فکیف .................... شیبا (73:17) ن السمائ ................ بہ (73:18) ” اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اس دن کیسے بچ جاﺅ گے جو بچوں کو بوڑھا کردے گا اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جارہا ہوگا ؟ “۔ یہ اس قدر ہولناک صورت حالات ہوگی کہ آسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگا ، اس سے عمل زمین پھٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئی ہوگی اور پھر جب اس دن جو بچے بھی ہوں گے وہ غم کے مارے بوڑھے ہوجائیں گے۔ یہ ہولناکی اب انسانی ذات کے اندر آجاتی ہے۔ زندہ انسانوں کی حالت کیا ہوگی ؟ یہ لڑکے بھی بوڑھے ہوجائیں گے اور لوگوں کے احساس کو اس طرف پھیرا جاتا ہے اور پھر بطور تاکید کہا جاتا ہے کہ ایسا ضرور ہوگا۔ کان ................ مفعولا (73:18) ” اللہ کا وعدہ پورا ہوکر ہی رہتا ہے “۔ یہ ایک واقعہ ہوگا ، کیونکہ یہ اللہ کی مشیت ہوگی اور اللہ کی مشیت کے مطابق واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہ ہولناکی جو زمین کے لرزہ ، قیام قیامت اور نفس انسانی کی خوفزدگی کی شکل میں سامنے آئی ، اس کے بعد اب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” فکیف تتقون “ تخویف اخروی، ہول قیامت کی شدت وفظاعت کا بیان ہے۔ اگر ہم تم میں سے کسی کو کسی مصلحت سے دنیا میں نہ پکریں تو قیامت کے عذاب سے تم کسی طرح نہیں بچ سکتے۔ یہ دن نہایت کٹھن اور ہولناک ہوگا۔ شدت ہول اور کثرت حزن و غم میں یہ دن ضرب المثل ہوگا۔ اس دن کی شدت سے آسمان بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور ایسا ضرور ہوگا۔ اللہ کے فیصلے میں تخلف نہیں۔ ” یجعل الولدان شیبا “ محاورہ ہے جو شدت سے کنایہ ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ یوم یشیب نواصی الاطفال (کبیر) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اگر بالفرض یہ معاندین بچے ہوں تو شدت ہول سے بوڑھے ہوجائیں کیونکہ حزن و غم کی کثرت اور خوف و ہراس کی شدت انسان کو بہت جلد بڑھاپے سے ہمکنار کردیتی ہے۔ تائید : ” یوم ترونہا تذھل کل مرضعۃ عما ارضعت “ (حج رکوع 1)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) پس اگر تم کفر پر قائم رہے تو اس دن کی مصیبت اور عذاب سے کیسے بچو گے جو دن اپنی شدت وہیبت اور امتداد کی وجہ سے بچوں کو بوڑھا بنادے گا۔