Surat ul Muzammil

Surah: 73

Verse: 19

سورة المزمل

اِنَّ ہٰذِہٖ تَذۡکِرَۃٌ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا ﴿٪۱۹﴾  13

Indeed, this is a reminder, so whoever wills may take to his Lord a way.

بیشک یہ نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ اختیار کرے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

This is a Surah that Men of Sound Understanding receive Admonition from Allah says, إِنَّ هَذِهِ ... Verily, this meaning, this Surah. ... تَذْكِرَةٌ ... an admonition, meaning, men of understanding receive admonition from it. Thus, Allah says, ... فَمَن شَاء اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلً therefore whosoever wills, let him take a path to...  His Lord. meaning, from those whom Allah wills that they be guided. This is similar to the stipulation that Allah mentions in another Surah, وَمَا تَشَأءُونَ إِلاَّ أَن يَشَأءَ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيماً حَكِيماً But you cannot will, unless Allah wills. Verily Allah is Ever All-Knowing, Al-Wise. (76:30) Abrogation of the Obligation to offer the Night Prayer and a Mention of its Valid Excuses Then Allah says,   Show more

پیغام نصیحت و عبرت اور قیام الیل فرماتا ہے کہ یہ سورت عقل مندوں کے لئے سراسر نصیحت وعبرت ہے جو بھی طالب ہدایت ہو وہ مرضی مولا سے ہدایت کا راستہ پا لے گا اور اپنے رب کی طرف پہنچ جانے کا ذریعہ حاصل کر لے گا ، جیسے دوسری سورت میں فرمایا آیت ( وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ۭ اِ... نَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا 30 ؀ڰ ) 76- الإنسان:30 ) تمہاری چاہت کام نہیں آتی وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہے ۔ صحیح علم والا اور پوری حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ، پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا اور آپ کے اصحاب کی ایک جماعت کا کبھی دو تہائی رات تک قیام میں مشغول رہنا کبھی آدھی رات اسی میں گذرنا کبھی تہائی رات تک تہجد پڑھنا اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے گو تمہارا مقصد ٹھیک اس وقت کو پورا کرنا نہیں ہوتا اور ہے بھی وہ مشکل کام ، کیونکہ رات دن کا صحیح اندازہ اللہ ہی کو ہے کبھی دونوں برابر ہوتے ہیں کبھی رات چھوٹی دن بڑا ، کبھی دن چھوٹا رات بڑی ، اللہ جانتا ہے کہ اس کو بننے کی طاقت تم میں نہیں تو اب رات کی نماز اتنی ہی پڑھو جتنی تم با آسانی پڑھ سکو کوئی وقت مقرر نہیں کہ فرضاً اتنا وقت تو لگانا ہی ہوگا یہاں صلوۃ کی تعبیر قرأت سے کی ہے جیسے سورہ سبحن مین کی ہے آیت ( وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ١١٠؁ ) 17- الإسراء:110 ) نہ تو بہت بلند کر نہ بالکل پست کر ، امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کے اصحاب نے اس آیت سے استدلال کر کے یہ مسئلہ لیا ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ ہی کا پڑھنا متعین نہیں اسے پڑھے خواہ اور کہیں سے پڑھ لے گو ایک ہی آیت پڑھے کافی ہے اور پھر اس مسئلہ کی مضبوطی اس حدیث سے کی ہے جس میں ہے کہ بہت جلدی جلدی نماز ادا کرنے والے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا پھر پڑھ جو آسان ہو تیرے ساتھ قرآن سے ( بخاری و مسلم ) یہ مذہب جمہور کے خلاف ہے اور جمہور نے انہیں یہ جواب دیا ہے کہ بخاری و مسلم کی حضرت عبادہ بن صامت والی حدیث میں آ چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز نہیں ہے مگر یہ کہ تو سورہ فاتحہ پڑھے اور صحیح مسلم شریف میں بہ روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ بالکل ادھوری محض ناکارہ ناقص اور ناتمام ہے ، صحیح ابن خزیمہ میں بھی ان ہی کی روایت سے ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے ( پس ٹھیک قول جمہور کا ہی ہے کہ ہر نماز کی ہر ایک رکعت میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا لازمی اور متعین ہے ) پھر فرماتا ہے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ اس امت میں عذر والے لوگ بھی ہیں جو قیام الیل کے ترک پر معذور ہیں ، مثلاً بیمار کہ جنہیں اس کی طاقت نہیں مسافر جو روزی کی تلاش میں ادھر ادھر جا رہے ہیں ، مجاہد جو اہم تر شغل میں مشغول ہیں ، یہ آیت بلکہ یہ پوری سورت مکی ہے مکہ شریف میں نازل ہوئی اس وقت جہاد فرض نہیں تھا بلکہ مسلمان نہایت پست حالت میں تھے پھر غیب کی یہ خبر دینا اور اسی طرح ظہور میں بھی آنا کہ مسلمانوں جہاد میں پوری طرح مشغول ہوئے یہ نبوت کی اعلیٰ اور بہترین دلیل ہے ۔ تو ان معذورات کے باعث تمہیں رخصت دی جاتی ہے کہ جتنا قیام تم سے با آسانی کیا جا سکے کر لیا کرو ، حضرت ابو رجاء محمد نے حسن رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ اے ابو سعید اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو پورے قرآن کا حافظ ہے لیکن تہجد نہیں پڑھتا صرف فرض نماز پڑھتا ہے؟ آپ نے فرمایا اس نے قرآن کو تکیہ بنا لیا اس پر اللہ کی لعنت ہو ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک غلام کے لئے فرمایا کہ وہ ہمارے علم کو جاننے والا ہے اور فرمایا تم وہ سکھائے گئے ہو جسے نہ تم جانتے تھے نہ تمہارے باپ دادا ، میں نے کہا ۔ ابو سعید اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو قرآن آسانی سے تم پڑھ سکو پڑھو ، فرمایا ہاں ٹھیک تو ہے پانچ آیتیں ہی پڑھ لو ، پس بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حافظ قرآن کا رات کی نماز میں کچھ نہ کچھ قیام کرنا امام حسن بصری کے نزدیک حق و واجب تھا ، ایک حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا جو صبح تک سویا رہتا ہے فرمایا یہ وہ شخص ہے جس کے کان میں شیطان پیشاب کر جاتا ہے اس کا تو ایک تو یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو عشاء کے فرض بھی نہ پڑھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو رات کو نفلی قیام نہ کرے ، سنن کی حدیث میں ہے اے قرآن والو وتر پڑھا کرو ، دوسری روایت میں ہے جو وتر نہیں پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ، حسن بصری کے قول سے بھی زیادہ غریب قول ابو بکر بن عبدالعزیز حنبلی کا ہے جو کہتے ہیں کہ رمضان کے مہینے کا قیام فرض ہے واللہ اعلم ( یہ یاد رہے کہ صحیح مسلک یہی ہے کہ تہجد کی نماز نہ تو رمضان میں واجب ہے نہ غیر رمضان میں ۔ رمضان کی بابت بھی حدیث شریف میں صاف آچکا ہے وقیام لیلہ تطوعا یعنی اللہ نے اس کے قیام کو نفلی قرار دیا ہے وغیرہ واللہ اعلم ۔ مترجم ) طبرانی کی حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں بہت مرفوعاً مروی ہے کہ گو سو ہی آیتیں ہوں ، لیکن یہ حدیث بہت غریب ہے صرف معجم طبرانی میں ہی میں نے اسے دیکھا ہے ۔ پھر ارشاد ہے کہ فرض نمازوں کی حفاظت کرو اور فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کیا کرو ، یہ آیت ان حضرات کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں فرضیت زکوٰۃ کا حکم مکہ شریف میں ہی نازل ہو چکا تھا ہاں کتنی نکالی جائی؟ نصاب کیا ہے؟ وغیرہ یہ سب مدینہ میں بیان ہوا واللہ اعلم ۔ حضرت ابن عباس عکرمہ مجاہد حسن قتادہ وغیرہ سلف کا فرمان ہے کہ اس آیت نے اس سے پہلے کے حکم رات کے قیام کو منسوخ کر دیا ان دونوں حکموں کے درمیان کس قدر مدت تھی؟ اس میں جو اختلاف ہے اس کا بیان اوپر گذر چکا ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا پانچ نمازیں دن رات میں فرض ہیں اس نے پوچھا اس کے سوا بھی کوئی نماز مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا باقی سب نوافل ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو یعنی راہ اللہ صدقہ خیرات کرتے رہو جس پر اللہ تعالیٰ تمہیں بہت بہتر اور اعلیٰ اور پورا بدلہ دے گا ، جیسے اور جگہ ہے ایسا کون ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دے اور اللہ اسے بہت کچھ بڑھائے چڑھائے ۔ تم جو بھی نیکیاں کر کے بھیجو گے وہ تمہارے لئے اس چیز سے جسے تم اپنے پیچھے چھوڑ کر جاؤ گے بہت ہی بہتر اور اجر و ثواب میں بہت ہی زیادہ ہے ، ابو یعلی موصلی کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے ایک مرتبہ پوچھا تم میں سے ایسا کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو؟ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے تو ایک بھی ایسا نہیں آپ نے فرمایا اور سوچ لو انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہی بات ہے فرمایا سنو تمہارا مال وہ ہے جسے تم راہ اللہ دے کر اپنے لئے آگے بھیج دو اور جو چھوڑ جاؤ گے وہ تمہارا مال نہیں وہ نہیں وہ تمہارا وارثوں کا مال ہے ، یہ حدیث بخاری شریف اور نسائی میں بھی مروی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ ذکر اللہ بکثرت کیا کرو اور اپنے تمام کاموں میں استغفار کیا کرو جو استغفار کرے وہ مغفرت حاصل کر لیتا ہے کیونکہ اللہ مغفرت کرنے والا اور مہربانیوں والا ہے ۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورہ مزمل کی تفسیر ختم ہوئی ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] لہذا تمہارے لیے بہترین طرز عمل یہی ہے کہ اس قرآن کی نصیحت پر عمل کرو۔ اور اللہ کی نافرمانی کے بجائے فرمانبرداری کا رویہ اپنا کر اس دن کے عذاب سے بچ جاؤ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ ہٰذِہٖ تَذْكِرَۃٌ۝ ٠ ۚ فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّہٖ سَبِيْلًا۝ ١٩ ۧ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَل... َيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ تَّذْكِرَةُ والتَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . ( ذک ر ) تَّذْكِرَةُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ سورت نصیحت و عبرت ہے سو جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کی طرف راستہ اختیار کرے یا یہ کہ توحید کا قائل ہوجائے جو اسے اس کے پروردگار تک پہنچا دے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩{ اِنَّ ہٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌج } ” یقینا یہ ایک یاددہانی ہے۔ “ { فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًا ۔ } ” تو جو کوئی بھی چاہے وہ اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرلے۔ “ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن مجید کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے۔ آمین !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩۔ ٢٠۔ آدمی رات یا اس سے کچھ کم و زیادہ تک تہجد کی نماز کے پڑھنے کا جو حکم اول سورة میں تھا وہ انہی آیتوں سے منسوخ ہوگیا اور اس کے آگے پنجگانہ فرض نماز کا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس تھوڑی دیر تہجد کی نماز میں قرآن شریف پڑھنے کا حکم فرض کے طور پر جو نکلتا تھا وہ بھی منسوخ ہوگیا بعض علماء نے صحیح ١ ... ؎ بخاری کی حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) کی اس حدیث سے تہجد کی نماز کے فرض ہونے کی تائید نکالی ہے جس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رو برو ایک شخص کا ذکر آیا کہ وہ صبح تک سوتا رہتا ہے اور نماز کیو نہیں اٹھتا۔ لیکن یہ تائید صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ صحیح ابن ٢ ؎ حبان کی روایت میں یہ صراحت موجود ہے کہ وہ فرض کے لئے نہ اٹھنے کا تھا تہجد کا ذکر نہیں تھا اس واسطے امام بخاری نے اس ذکر کی حدیث کو روایت کیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان دونوں حدیثوں کی مناسبت ہے اس آیت سے بظاہر جو آیت یا سورة آسان معلوم ہو نماز میں اس کے پڑھنے کی اجازت نکلتی ہے اس لئے مذہب حنفی میں یہ مسئلہ قرار پایا ہے کہ نماز میں سورة فاتحہ کا پڑھنا ضروری نہیں ہے اس کا جواب جمہور علماء نے یہ دیا ہے کہ صحیحین ٣ ؎ میں حضرت عبادہ بن صامت کی حدیث اور صحیح ٤ ؎ مسلم اور صحیح ابن خزیمہ کی حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے جب یہ معلوم ہوگیا کہ بغیرسورۃ فاتحہ کے پڑھنے کے نماز نہیں ہوتی تو ان صحیح حدیثوں کے مخالف اور کوئی تفسیر اس آیت کی جائز نہیں ہے صحیح بخاری و نسائی وغیرہ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز صحابہ (رض) سے پوچھا کہ تم کو اپنا مال پیارا ہے یا اپنے وارثوں کا مال پیارا ہے صحابہ (رض) نے عرض کیا ہم کو اپنا مال پیارا ہے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا مال وہی ہے جو تم نے اللہ کے نام پر خرچ کیا وہی عقبیٰ میں تمہارے کام آئے گا اور جو کچھ دنیا میں چھوڑ جاؤگے وہ تمہارے وارثوں کا مال ہے اس سے تمہاری ذات کو کچھ نفع نہیں ہے یہ حدیث گویا آیت و ماتقدموالانفسکم من خیر تجدوہ عند اللہ کی تفسیر ہے کیونکہ اس آیت کا مطلب بھی یہی ہے کہ دنیا میں رہ جانے والی چیز سے وہی چیز بہتر ہے جس کا عوض عقبیٰ میں انسان کو خدا کی درگاہ سے ملے۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب اذا نام ولم یصل بال الشیطن فی اذنہ ص ١٥٣ ج ١۔ ) (٢ ؎ الترغیب والترہیب الترھیب من نوم الانسان الی الصباح الخ ص ٥٧٢ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب وجوب القراءۃ للامام والماموم الخ ص ١٠٤ ج ١۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب وجوب قراءۃ الفاتحتہ فی کل رکعۃ الخ ص ١٦٩ ج ١۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(73:19) ان ھذہ تذکرۃ : ان حرف مشبہ بالفعل ھذہ اس کا اسم۔ تذکرۃ اس کی خبر۔ ھذہ : ای ایات القران، الایات الناطقۃ بالوعید (مدارک التنزیل عذاب کے متعلق آیات۔ ایات الموعدۃ۔ (بیضاوی) وعدہ عذاب کے متعلق آیات۔ تذکرۃ۔ نصیحت ، یاد دہانی۔ بروزن تفعلۃ باب تفعیل کا مصدر ہے ۔ بیشک یہ قرآنی آیات۔ یا یہ قرآن ایک ... نصیحت ہے۔ فمن شاء اتخذ الی ربہ سبیلا۔ پھر جو چاہے اپنے رب کی طرف آنے کا راستہ اختیار کرے۔ سبیلا بوجہ مفعول منصوب ہے  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی کفر و شرک کو چھوڑ کر توحید کی راہ پر آجائے یہ راہ اسے ٹھیک ٹھیک خدا تک پہنچا دے گی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی اس تک پہنچنے کے لئے دین کا رستہ قبول کرے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان ھذا .................... سبیلا ” یہ ایک نصیحت ہے ، اب جس کا جی چاہے ، اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرلے “۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی طرف جانے کا راستہ بہت ہی آسان ہے۔ ان راستوں کے مقابلے میں جو مشکوک ہیں ، جو ہولناک اور خوفناک ہیں کیونکہ وہ راہ مستقیم ہے۔ یہاں ایک طرف تو اسلام کے ہٹ دھرم ... مکذبین کے دلوں کے اندر خوف اور زلزلہ پیدا کیا گیا ، دوسری جانب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک اور ضعیف اور قلیل اہل ایمان کی ڈھارس بندھائی گئی ہے کہ اطمینان رکھو اور یقین کرو ، تمہارا رب تمہارے ساتھ ہے ، وہ تمہارے اعدا سے خود نمٹ لے گا۔ بس ان کے لئے ایک قلیل مہلت مقرر ہے ، یہ ایک معلوم وقت ہے ۔ اس کے بعد حق و باطل کا فیصلہ ہوگا ، جب اس فیصلے کا وقت آجائے گا چاہے اس دنیا میں ہو یا آختر میں اور اللہ پھر اپنے دشمنوں سے انتقام لے گا ۔ ان کو فرعون کی طرح غرق کردے گا یا قیامت میں بیڑیاں پہنا کر عذاب جہنم تپائے گا اور سخت عذاب ہوگا۔ یادرکھو کہ اللہ اپنے دوستوں کو بےیارومددگار نہیں چھوڑتا اور اگر دشمنوں کو مہلت دیتا ہے تو وہ بھی ایک وقت تک دیتا ہے۔ اب سورت کا دوسرا حصہ آتا ہے اور یہ پورا حصہ ایک طویل آیت کی صورت میں ہے۔ روایات کے مطابق سورت کے پہلے حصے کے پورے ایک سال بعد نازل ہوا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اِنَّ هٰذِهٖ تَذْكِرَةٌ١ۚ﴾ (بلاشبہ یہ نصیحت ہے) ﴿ فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا (رح) ٠٠١٩﴾ (سو جو چاہے اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرلے) یعنی جس راستہ پر چلنے سے وہ راضی ہوتا ہے اور جس کے اختیار کرنے پر اس سے آخرت کی نعمتوں کا وعدہ ہے اس راستہ کو اختیار کرلے وہ دین اسلام ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” ان ھذہ تذکرۃ “ یہ تمام مذکورہ بالا بیان عبرت و نصیحت ہے جو شخص چاہے اس سے نصیحت حاصل کر کے اللہ کی بارگاہ میں باریابی اور تقرب کی راہ اختیار کرلے یعنی ایمان لے آئے اور نیک کام کرے جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) بلا شبہ یہ تمام مضمون ایک نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے پروردگار تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرلے۔ یعنی یہ مضامین نصیحت کے بیان کیے گئے ہیں اور یہ مضامین سب نصیحت ہیں جو شخص اپنا نفع چاہے وہ ان نصائح پر عمل کرکے اپنے پروردگار سے مل جائے اس کا راستہ کھلا ہوا ہے کسی کے لئے روک نہیں ہے جو اس تک پہنچنا چا... ہتا ہے وہ ان نصائح پر عمل کرے اور پہنچ جائے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں رات جاگنے کا حکم ایک برس رہ کر موقوف ہوا اگلی آیت اتری۔ خلاصہ : یہ کہ شروع سورت میں جو شب بیداری اور رات کے جاگنے کا حکم ہوا تھا وہ تقریباً ایک سال کے بعد منسوخ ہوا۔  Show more