Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 13

سورة الأنفال

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ شَآقُّوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ۚ وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۱۳﴾

That is because they opposed Allah and His Messenger. And whoever opposes Allah and His Messenger - indeed, Allah is severe in penalty.

یہ اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور ۔ جو اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے سو بیشک اللہ تعالٰی سخت سزا دینے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَأقُّواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ ... This is because they defied and disobeyed Allah and His Messenger. joining the camp that defied Allah and His Messenger not including themselves in the camp of Allah's Law and faith in Him. Allah said, ... وَمَن يُشَاقِقِ اللّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ And whoever defies and disobeys Allah and His Messenger, then verily, Allah is severe in punishment. for He will crush whoever defies and disobeys Him. Nothing ever escapes Allah's grasp nor can anything ever stand against His anger. Blessed and exalted He is, there is no true deity or Lord except Him. ذَلِكُمْ فَذُوقُوهُ وَأَنَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابَ النَّارِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] کفار مکہ کا آپ کو تکلیفیں پہنچانا اور آپ کی بددعا :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس طرح کی ایذائیں پہنچائی جاتی تھیں ان کا ایک نمونہ درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ ایک دفعہ خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابو جہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے وہ آپس میں کہنے لگے کہ & تم میں سے کون جاتا ہے اور فلاں لوگوں نے جو اونٹنی کاٹی ہے اس کا بچہ دان لا کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سجدہ کرے تو اس کی پیٹھ پر رکھ دیتا ہے ؟ & یہ سن کر ان کا بدبخت ترین (عقبہ بن ابی معیط) اٹھا اور بچہ دان اٹھا لایا اور دیکھتا رہا، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ میں گئے تو بچہ دان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دونوں کندھوں کے درمیان میں پیٹھ پر رکھ دیا۔ میں خود یہ دیکھ رہا تھا، لیکن کچھ نہ کرسکتا تھا۔ کاش (اس دن) میرا کچھ زور ہوتا۔ کافر ہنستے اور ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ آپ سجدہ میں ہی پڑے رہے اور سر نہیں اٹھا سکتے تھے حتیٰ کہ (آپ کی بیٹی) فاطمہ آئیں اور بچہ دان کو پیٹھ سے اٹھا کر پرے پھینکا۔ تب آپ نے سر اٹھایا اور دعا کی : & یا اللہ قریش سے نمٹ لے۔ & آپ نے تین بار یہ الفاظ دہرائے جب آپ یہ بد دعا کر رہے تھے تو کافروں پر گراں گزرا۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپ نے نام لے لے کر بددعا کی کہ یا اللہ ! ابو جہل سے نمٹ لے اور عتبہ بن ربیعہ شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط سے سمجھ لے اور عمرو بن میمون نے ساتویں شخص (عمارہ بن ولید) کا نام بھی لیا جو ہمیں یاد نہ رہا۔ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ & اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جن لوگوں کا آپ نے نام لے کر بددعا کی تھی، میں نے دیکھا کہ ان سب کی لاشیں بدر کے کنویں میں پھینکی گئیں۔ & (بخاری، کتاب الوضوئ، باب، اذا القی علی ظھر المصلی القذرًا اوجیفۃ۔۔ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَاۗقُّوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ : یعنی کفار کو بدر کے دن جو ذلت آمیز شکست ہوئی اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اس طرح مخالفت کی کہ صاف مقابلے پر اتر آئے۔ ” شَاۗقُّوا “ یہ ” شِقٌّ“ سے مفاعلہ ہے کہ ایک طرف ایک ہو اور دوسری طرف دوسرا اس کے مقابلے میں ہو، یعنی مخالفت، مقابلے میں آنا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ شَاۗقُّوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۝ ٠ ۚ وَمَنْ يُّشَاقِقِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝ ١٣ شقاق والشِّقَاقُ : المخالفة، وکونک في شِقٍّ غير شِقِ صاحبک، أو مَن : شَقَّ العصا بينک وبینه . قال تعالی: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء/ 35] ، فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة/ 137] ، أي : مخالفة، لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود/ 89] ، وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة/ 176] ، مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال/ 13] ، أي : صار في شقّ غير شقّ أولیائه، نحو : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة/ 63] ، ونحوه : وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء/ 115] ، ويقال : المال بينهما شقّ الشّعرة، وشَقَّ الإبلمة ، أي : مقسوم کقسمتهما، وفلان شِقُّ نفسي، وشَقِيقُ نفسي، أي : كأنه شقّ منّي لمشابهة بعضنا بعضا، وشَقَائِقُ النّعمان : نبت معروف . وشَقِيقَةُ الرّمل : ما يُشَقَّقُ ، والشَّقْشَقَةُ : لهاة البعیر لما فيه من الشّقّ ، وبیده شُقُوقٌ ، وبحافر الدّابّة شِقَاقٌ ، وفرس أَشَقُّ : إذا مال إلى أحد شِقَّيْهِ ، والشُّقَّةُ في الأصل نصف ثوب وإن کان قد يسمّى الثّوب کما هو شُقَّةً. ( ش ق ق ) الشق الشقاق ( مفاعلہ ) کے معنی مخالفت کے ہیں گویا ہر فریق جانب مخالف کو اختیار کرلیتا ہے ۔ اور یا یہ شق العصابینک وبینہ کے محاورہ سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی باہم افتراق پیدا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَيْنِهِما[ النساء/ 35] اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے ۔ فَإِنَّما هُمْ فِي شِقاقٍ [ البقرة/ 137] تو وہ تمہارے مخالف ہیں ۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے ۔ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتابِ لَفِي شِقاقٍ بَعِيدٍ [ البقرة/ 176] وہ ضد میں ( آکر نیگی سے ) دور ہوگئے ) ہیں ۔ مَنْ يُشاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ الأنفال/ 13] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے ۔ یعنی اس کے اولیاء کی صف کو چھوڑ کر ان کے مخالفین کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : مَنْ يُحادِدِ اللَّهَ [ التوبة/ 63] یعنی جو شخص خدا اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے ۔ وَمَنْ يُشاقِقِ الرَّسُولَ [ النساء/ 115] اور جو شخص پیغمبر کی مخالفت کرے ۔ المال بیننا شق الشعرۃ اوشق الابلمۃ یعنی مال ہمارے درمیان برابر برابر ہے ۔ فلان شق نفسی اوشقیق نفسی یعنی وہ میرا بھائی ہے میرے ساتھ اسے گونہ مشابہت ہے ۔ شقائق النعمان گل لالہ یا اس کا پودا ۔ شقیقۃ الرمل ریت کا ٹکڑا ۔ الشقشقۃ اونٹ کا ریہ جو مستی کے وقت باہر نکالتا ہے اس میں چونکہ شگاف ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے شقثقۃ کہتے ہیں ۔ بیدہ شقوق اس کے ہاتھ میں شگاف پڑگئے ہیں شقاق سم کا شگاف فوس اشق راستہ سے ایک جانب مائل ہوکر چلنے والا گھوڑا ۔ الشقۃ اصل میں کپڑے کے نصف حصہ کو کہتے ہیں ۔ اور مطلق کپڑے کو بھی شقۃ کہا جاتا ہے ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] . اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣۔ ١٤) ان کافروں کا قتال اس لیے کیا جارہا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے دین کی مخالفت کی ہے اور جو ایسا کرتا ہے ہم اسے سخت سزا دیتے ہیں اور اس دنیا میں بھی سزا چکھو اور آخرت میں بھی جہنم کا عذاب ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ شَآقُّوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗج وَمَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ) اس کے بعد اب قریش سے براہ راست خطاب ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11. In recounting the events of the Battle of Badr, the Qur'an aims to explain the significance of the word al-anfal (spoils of war). In the opening verse of the surah the Muslims were told that they should not deem the spoils to be a reward for their toil. Rather, the spoils should constitute a special reward granted to the Muslims by God, to Whom the spoils rightfully belong. The events recounted here support this. The Muslims could reflect on the course of events and see for themselves to what extent the victory they had achieved was due to God's favour, and to what extent it was due to their own efforts.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :11 یہاں تک کہ جنگ بدر کے جن واقعات کو ایک ایک کرکے یاد دلایا گیا ہے اس سے مقصود دراصل لفظ ”انفال“کی معنویت واضح کرنا ہے ۔ ابتدا میں ارشاد ہوا تھا کہ اس مال غنیمت کو اپنی جانفشانی کا ثمرہ سمجھ کر اس کے مالک و مختار کہاں بنے جاتے ہو ، یہ تو دراصل عطیہ الہٰی ہے اور معطی خود ہی اپنے مال کا مختار ہے ۔ اب اس کے ثبوت میں یہ واقعات گنائے گئے ہیں کہ اس فتح میں خود ہی حساب لگا کر دیکھ لو کہ تمہاری اپنی جانفشانی اور جرأت وجسارت کا کتنا حصہ تھا اور اللہ کی عنایت کا کتنا حصہ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:13) ذلک۔ یعنی یہ کافروں کا قتل اور ان کو قیدی بنانا وغیرہ۔ بانہم۔ ای بسبب۔ شاقوا۔ انہوں نے مخالفت کی۔ شاقۃ اور شقاق سے ماضی جمع مذکر غائب ۔ شاق کے معنی ہیں ضد۔ مخالفت مقابلہ۔ اپنے دوست کی شق کو چھوڑ کر دوسری شق میں ہونا۔ شق طرف کو کہتے ہیں ۔ یعنی اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف کو چھوڑ کر مخالف طرف اختیار کرلی۔ ذلک مبتدا ہے اور بانہم شاقوا اللہ ورسولہ اس کی خبر ہے۔ من تشاقق۔ مضارع مجزوم مکسور بالوصل۔ واحد مذکر غائب۔ باب مفاعلہ۔ جو مخالفت کرتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

اس طرح قلبی اطمینان، ذہنی آسودگی، جسمانی نشاط اور ملائکہ کی کمک کی وجہ سے مجاہد قدم جما کر لڑے۔ اس دوران یہ وحی بھی نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں تمہارا رعب ڈال دیا ہے۔ گویا کہ وہ پوری طرح تم سے مرعوب ہوگئے ہیں۔ لہٰذا آگے بڑھ کر ان کی گردنیں کاٹو اور جوڑ جوڑ کو نشانہ بناؤ کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے باغی ہیں۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہوگا اس کو دنیا کی سزا کے ساتھ آخرت میں شدید عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ جس طرح بدر میں انھیں مارنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسی طرح جہنم کی آگ میں جھونکتے ہوئے ملائکہ انھیں کہیں گے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانیوں کا مزا ہمیشہ چکتے رہو۔ ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔۔ یہ فلاں شخص کی قتل گاہ ہے یہ فلاں شخص کی جگہ ہے آپ نے اپنا دست مبارک زمین پر رکھ کر بتایا۔ انس (رض) کہتے ہیں کافروں میں سے کوئی بھی دوسری جگہ نہیں گرا تھا جہاں جہاں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دست مبارک رکھا تھا۔ “ [ رواہ مسلم ] (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ وَقَفَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلٰی قَلِیبِ بَدْرٍ فَقَالَ ہَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ثُمَّ قَالَ إِنَّہُمْ الْآنَ یَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ فَذُکِرَ لِعَاءِشَۃَ (رض) فَقَالَتْ إِنَّمَا قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّہُمْ الْآنَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِی کُنْتُ أَقُولُ لَہُمْ ہُوَ الْحَقُّ ثُمَّ قَرَأَتْ إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی حَتّٰی قَرَأَتْ الْآیَۃَ ) [ رواہ البخاری ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کے کنویں کے قریب کھڑے ہو کر پوچھ رہے تھے جو تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا کیا اس کو تم نے سچا پایا ہے ؟ پھر فرمایا بلاشبہ یہ اس وقت سن رہے ہیں جو میں انہیں کہہ رہا ہوں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف یہ فرمایا تھا بیشک ان لوگوں کو اب معلوم ہوگیا جو میں انھیں کہتا تھا وہ سچ ہے پھر اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔ ” آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے “ یہاں تک کہ مکمل آیت کی تلاوت کی۔ “ مقصد یہ تھا کہ اصل اصول یہی ہے کہ مردے نہیں سنتے لیکن آج یہ میری بات سن رہے ہیں۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کُنَّا مَعَ عُمَرَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ أَخَذَ یُحَدِّثُنَا عَنْ أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیُرِینَا مَصَارِعَہُمْ بالْأَمْسِ قَالَ ہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ إِنْ شَاء اللّٰہُ غَدًا قَالَ عُمَرُ وَالَّذِی بَعَثَہُ بالْحَقِّ مَا أَخْطَءُوا تیکَ فَجُعِلُوا فِی بِءْرٍ فَأَتَاہُمْ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَنَادٰی یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ ہَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا فَإِنِّی وَجَدْتُّ مَا وَعَدَنِی اللّٰہُ حَقًّا فَقَالَ عُمَرُ تُکَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاح فیہَا فَقَالَ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنائز، باب أرواح المؤمنین ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں ہم حضرت عمر (رض) کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر میں تھے وہ ہمیں اہل بدر کے متعلق بتانے لگے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ جگہیں متعین فرمائیں ہمیں دکھانے کے لیے جہاں اگلے دن کافروں نے قتل ہونا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو فلاں کے قتل ہونے کی جگہ ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا کافر مقررہ جگہوں سے ذرا بھی نہیں ہٹے تھے انہیں کنویں میں پھینک دیا گیا۔ کنویں کے پاس نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور انہیں آواز دیتے ہوئے فرمایا اے فلاں بن فلاں، اے فلاں بن فلاں کیا تم سے تمہارے رب نے اور جو وعدہ کیا تھا تم نے اسے سچ پایا ہے۔ بلاشبہ میرے رب نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا میں نے اسے سچ پا یا ہے۔ حضرت عمر (رض) کہتے ہیں لاشوں کے ساتھ باتیں ہوئیں جبکہ ان میں روحیں نہیں تھیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں جو میں ان سے کہہ رہا ہوں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر میں فرشتوں کے ذریعے مدد کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت مختلف انداز سے نازل فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں : ١۔ نہیں ہے تمہارا کوئی اللہ کے سوا دوست اور نہ مددگار۔ (البقرۃ : ١٠٧) ٥۔ نہ ملے ان کو اللہ کے سوا کوئی دوست اور نہ مددگار۔ (الاحزاب : ١٧) ٢۔ نہیں ہے تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی مددگار جو تمہاری مدد کرسکے۔ (ھود : ١٣) ٣۔ نہیں ہے ان کے لیے زمین میں کوئی دوست اور نہ کوئی مدد گار۔ (التوبۃ : ٧٤) ٤۔ نہیں ہے تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور سفارشی پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔ (السجدۃ : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس تقریر کے آخر میں اور اس عظیم اور ہولناک حقیقت کے انکشاف کے آخر میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس معرکے کا پس منظر کیا تھا اور کن حقائق کی وجہ سے کسی کو نصرت ملی اور کسی کے حصے میں ہزیمت آئی۔ وہ عظیم پس منظر یہ تھا :۔ ” ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَاۗقُّوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۚ وَمَنْ يُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ : یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے “ یہ کوئی ایسا واقعہ نہ تھا کہ اچانک پیش آگیا اور نہ ہی یہ اتفاقی حادثہ تھا جو پیش آگیا اور چلا گیا۔ اللہ نے جماعت مسلمہ کی نصرت کی اور اسے اس کے دشمنوں پر مسلط کردیا اور اس کے دشمنوں کے دلوں کے اندر رعب بٹھا دیا۔ مسلح فرشتے ان کی امداد کے لیے پہنچ گئے۔ یہ اس لیے تھا کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنے لیے وہ محاذ چن لیا جو اللہ کا محاذ نہ تھا اور وہ اللہ اور رسول کی مخالف صفوں میں چلے گئے۔ انہوں نے خدا اور رسول سے محاذ آرائی شروع کردی اور وہ اسلامی نظام حیات کے قیام کے لیے رکاوٹ بن گئے تھے۔ ” وَمَنْ يُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ : اور جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے “ یعنی ایسے لوگوں پر وہ سخت عذاب نازل کرتا ہے۔ اللہ اس قدر طاقتور ہے کہ وہ ان پر عذاب نازل کرسکتا ہے اور وہ اس قدر ضعیف ہیں جو اس عذاب کو برداشت کرنے کی قدرت اپنے اندر نہیں رکھتے۔ یہ اللہ کی سنت جاریہ ہے ، اور اس کا اصول ہے۔ یہ کوئی اچانک یا کوئی حادثہ یا اتفاق نہیں ہے۔ یہ اللہ کی سنت جاریہ ہے کہ اس کرہ ارض پر جب بھی کوئی جماعت اس لیے اٹھے کہ وہ یہاں اللہ کے اقتدار اعلی کو قائم کرے گی اور یہاں صرف اسلامی نظام حیات قائم ہوگا اور اس جماعت کے خلاف اللہ کا کوئی دشمن اٹھ کھرا ہوا اور اس نے اس جماعت کے ساتھ محاذ آرائی شروع کردی اور ایسے لوگ قوت اور رعب و داب کے مالک بھی ہوتے تو اللہ کی مدد اس جماعت کے ساتھ ہوا کرتی ہے بشرطیکہ یہ جماعت ثابت قدمی سے اپنے مقصد کی طرف گامزن ہو اور رب تعالیٰ کی راہ میں مطمئن ہو۔ اس پر توکل کرنے والی ہو اور اپنی راہ پر اس کا سفر جاری ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کی سزا ملی ذلک کا مشار الیہ ضرب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کافروں کو مارنے کا یہ حکم اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔ پھر اس کو بطور قاعدہ کلیہ کے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا سزا کا مستحق ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ مخالفت کرنے والوں کو سخت عذاب دینے والا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14: مذکورہ امور کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی مشرکین کو مارنے اور ان کو قتل کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہوچکے تھے۔ “ ذٰلِکُمْ فَذُوْقُوْہُ ” اس سے پہلے “ قُوْلُوْا ” محذوف ہے اور “ اَنَّ لِلْکٰفِرِیْنَ ” سے پہلے “ وَاعْلَمُوْا ” مقدر ہے۔ یعنی ہم نے کہا تھا کہ اب یہ عذاب چکھو اور یہ بھی جان لو کہ آخت میں تم جیسے کافروں کے لیے دوزخ کا عذاب بھی تیار ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13 یہ اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو سخت سزا دینے والا ہے۔