Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 32

سورة الأنفال

وَ اِذۡ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنۡ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الۡحَقَّ مِنۡ عِنۡدِکَ فَاَمۡطِرۡ عَلَیۡنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائۡتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۳۲﴾

And [remember] when they said, "O Allah , if this should be the truth from You, then rain down upon us stones from the sky or bring us a painful punishment."

اور جب کہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کردے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And (remember) when they said: "O Allah! If this (the Qur'an) is indeed the truth (revealed) from You, then rain down stones on us from the sky or bring on us a painful torment." This is indicative of the pagans' enormous ignorance, denial, stubbornness and transgression. They should have said, "O Allah! If this is the truth from You, then guide us to it and help us follow it." H... owever, they brought Allah's judgment on themselves and asked for His punishment. Allah said in other Ayat, وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلاَ أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَأءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ And they ask you to hasten on the torment (for them), and had it not been for a term appointed, the torment would certainly have come to them. And surely, it will come upon them suddenly while they perceive not! (29:53) وَقَالُواْ رَبَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ They say: "Our Lord! Hasten to us Qittana (our record of good and bad deeds so that we may see it) before the Day of Reckoning!" (38:16) and, سَأَلَ سَأيِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِّلْكَـفِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ A questioner asked concerning a torment about to befall. Upon the disbelievers, which none can avert. From Allah, the Lord of the ways of ascent. (70:1-3) The ignorant ones in ancient times said similar things. The people of Shu`ayb said to him, فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفاً مِّنَ السَّمَأءِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّـدِقِينَ "So cause a piece of the heaven to fall on us, if you are of the truthful!" (26:187) while the pagans of Quraysh said, اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَـذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاء أَوِ ايْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ "O Allah! If this (the Qur'an) is indeed the truth (revealed) from You, then rain down stones on us from the sky or bring on us a painful torment." Shu`bah said from Abdul-Hamid that Anas bin Malik said that; it was Abu Jahl bin Hisham who uttered this statement, اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَـذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاء أَوِ ايْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ "O Allah! If this (the Qur'an) is indeed the truth (revealed) from You, then rain down stones on us from the sky or bring on us a painful torment." So Allah revealed this Ayah, وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ And Allah would not punish them while you are among them, nor will He punish them while they seek (Allah's) forgiveness. Al-Bukhari recorded it. The Presence of the Prophet, and the Idolators' asking For forgiveness, were the Shelters against receiving Allah's immediate Torment Allah said, وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] ابو جہل کا مطالبہ عذاب :۔ یہ بات ابو جہل نے کہی تھی اور ازراہ طنز کہی تھی اور مسلمانوں کو سنا کر کہی تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ مسلمان سچے ہیں تو جس قدر دکھ اور تکلیفیں ہم انہیں پہنچا رہے ہیں اس کی پاداش میں تو ہم پر اب تک آسمان سے عذاب نازل ہوجانا چاہیے تھا اور وہ عذاب چونکہ آج تک ہم پر...  نازل نہیں ہوا۔ لہذا مسلمانوں کا دین جھوٹا ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوسکتا۔ ابوجہل کی اس دعا کا ایک جواب تو پہلے اسی سورة میں گزر چکا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے کافروں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ && اس (غزوہ بدر) سے پہلے تم حق اور باطل میں فیصلہ کرنے کے لیے دعائیں کرتے تھے۔ سو اب غزوہ بدر کی صورت میں میرا فیصلہ تم کو معلوم ہوچکا اور اگر تم لوگ اب بھی باز آجاؤ تو تمہارا بھلا اسی میں ہے اور اگر اب بھی باز نہ آئے تو پھر میں تمہیں دوبارہ ایسی ہی سزا دوں گا اور دوسرا جواب اگلی آیت میں مذکور ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ : یہ آیت اس بات کی مثال ہے کہ انسان جب مخالفت اور شدید دشمنی پر اتر آئے تو وہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں یا کر رہا ہوں اس میں خود میرا کس قدر نقصان ہے۔ اب مکہ کے جاہل کافروں کو دیکھیے، اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنے کے بجائے کہ یا...  اللہ ! اگر یہ دین حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہمیں اس کے قبول کرنے کی توفیق دے، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی میں کہہ رہے ہیں کہ یا اللہ ! اگر یہ دین واقعی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر عذاب الیم لے آ۔ اپنے خیال میں انھوں نے یہ بڑی دانش مندی کی بات کی ہوگی، مگر یہ قیامت تک کے لیے ان کی بےعقلی اور جہالت کی دلیل اور ان کے لیے عار کا باعث بن گئی۔ قرآن میں ان کے بار بار عذاب لے آنے کے مطالبے کا کئی مقامات پر ذکر ہے۔ دیکھیے سورة عنکبوت (٥٣) ، سورة ص (١٦) اور معارج ( ١ تا ٣) صحیح بخاری میں انس (رض) سے روایت ہے کہ یہ مطالبہ ابوجہل نے کیا تھا۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ( و إذ قالوا اللہم إن کان ھذا۔۔ ) : ٤٦٤٨ ] چونکہ باقی سب نے اسے پسند کیا تھا، اس لیے اسے سب کی طرف منسوب کردیا گیا۔ التفسیر الوسیط میں سید طنطاوی (رض) نے ایک واقعہ لکھا ہے جس کی سند ذکر نہیں کی (واللہ اعلم) مگر واقعہ دلچسپ اور سبق آموز ہے، اگر سنداً ثابت نہ بھی ہو تو بھی بات درست ہے۔ معاویہ (رض) نے قوم سبا (اصحاب یمن) کے ایک آدمی سے کہا : ” تیری قوم کس قدر جاہل تھی کہ جنھوں نے ایک عورت کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ “ اس نے جواب میں کہا : ” میری قوم سے آپ کی قوم زیادہ جاہل تھی کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت حق کے جواب میں یہ تو کہا : (اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ) ” اے اللہ ! اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی اور دردناک عذاب لے آ) مگر یہ نہ کہا کہ یا اللہ ! اگر یہی حق ہے تو ہمیں اس کے لیے ہدایت عطا فرما۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ‌ عَلَيْنَا حِجَارَ‌ةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ O Allah, if this be indeed the truth [ revealed ] from You, then, rain down upon us stones from the heavens, or bring upon us a painful punishment - 32.

اَللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ۔ یعنی اے اللہ اگر یہی قرآن آپ کی طرف سے حق ہے تو ہم پر پتھر برسا دیجئے یا کوئی دوسرا سخت عذاب نازل کر دیجئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ كَانَ ہٰذَا ہُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝ ٣٢ «اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ...  حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ مطر المَطَر : الماء المنسکب، ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. أي : مَمْطُورٌ ، يقال : مَطَرَتْنَا السماءُ وأَمْطَرَتْنَا، وما مطرت منه بخیر، وقیل : إنّ «مطر» يقال في الخیر، و «أمطر» في العذاب، قال تعالی: وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء/ 173] ( م ط ر ) المطر کے معنی بارش کے ہیں اور جس دن بارش بر سی ہوا سے ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. کہتے ہیں واد مطیر باراں رسیدہ وادی کے معنی بارش بر سنا کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مطر اچھی اور خوشگوار بارش کے لئے بولتے ہیں اور امطر عذاب کی بارش کیلئے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء/ 173] اور ان پر ایک بارش بر سائی سو جو بارش ان ( لوگوں ) پر برسی جو ڈرائے گئے تھے بری تھی ۔ حجر الحَجَر : الجوهر الصلب المعروف، وجمعه : أحجار وحِجَارَة، وقوله تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ( ح ج ر ) الحجر سخت پتھر کو کہتے ہیں اس کی جمع احجار وحجارۃ آتی ہے اور آیت کریمہ : وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) اور جب نضر بن حارث نے کہا کہ اے اللہ جو کچھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں کہ تو اکیلا ہے اگر یہ واقعی درست ہے تو اس کے انکار پر ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا اور کوئی دردناک عذاب نازل کردے، چناچہ یہ نضر بن حارث بدر کے دن مارا گیا۔ شان نزول : (آیت) ” واذ قالوا اللہم “۔ (الخ) ابن جریر (... رح) نے سعید بن جبیر (رض) سے اس فرمان الہی کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں اتری ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ اءْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ) جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ سرداران قریش کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوگیا تھا کہ مکہ کے عام لوگوں کو محمد رسول اللہ (صلی اللہ ع... لیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے اثرات سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ اس کے لیے وہ مختلف قسم کی تدبیریں کرتے رہتے تھے ‘ جن کا ذکر قرآن میں بھی متعدد بار ہوا ہے۔ اس آیت میں ان کی ایسی ہی ایک تدبیر کا تذکرہ ہے۔ ان کے بڑے بڑے سردار عوام کے اجتماعات میں علی الاعلان اس طرح کی باتیں کرتے تھے کہ اگر یہ قرآن اللہ ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے اور ہم اس کا انکار کر رہے ہیں تو ہم پر اللہ کی طرف سے عذاب کیوں نہیں آجاتا ؟ بلکہ وہ اللہ کو مخاطب کر کے دعائیہ انداز میں بھی پکارتے تھے کہ اے اللہ ! اگر یہ قرآن تیرا ہی کلام ہے تو پھر اس کا انکار کرنے کے سبب ہمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا دے ‘ یا کسی بھی شکل میں ہم پر اپنا عذاب نازل فرما دے۔ اور اس کے بعد وہ اپنی اس تدبیر کی خوب تشہیر کرتے کہ دیکھا ہماری اس دعا کا کچھ بھی ردِّ عمل نہیں ہوا ‘ اگر یہ واقعی اللہ کا کلام ہوتا تو ہم پر اب تک عذاب آچکا ہوتا۔ چناچہ اس طرح وہ اپنے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے تھے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26. These words were uttered by way of challenge rather than a prayer to God. What they meant was that had the message of the Prophet (peace be on him) been true, and from God, its rejection would have entailed a heavy scourge, and stones would have fallen on them from heaven. Since nothing of the sort happened, it was evident that the message was neither true nor from God.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :26 یہ بات وہ دعا کے طور پر نہیں کہتے تھے بلکہ چیلنج کے انداز میں کہتے تھے ۔ یعنی ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر واقعی یہ حق ہوتا اور خدا کی طرف سے ہوتا تو اس کے جھٹلانے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم پر آسمان سے پتھر برستے اور عذاب الیم ہمارے اوپر ٹوٹ پڑتا ۔ مگر جب ایسا ن... ہیں ہوتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ نہ حق ہے نہ منجانب اللہ ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 صحیح بخاری میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ یہ دعا کرنے والا ابو جہل تھا چونکہ باقی سب بےا سے پسند کیا تھا اس لیے اسے سب کی طرف منسوب کردیا گیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ جدوجہد سے تنگ آکر کفار کی انتہا درجے کی جہالت، اکھڑ مزاجی اور اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی۔ مکہ کے سردار اس قدر ہٹ دھرمی اور جہالت پر اتر آئے کہ ایک دن ابو جہل کے ساتھ مل کر بیت اللہ میں جمع ہوئے۔ اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور اس کی ... توفیق مانگنے کے بجائے بیت اللہ کے غلاف کو پکڑ کر یہ دعا مانگتے ہیں۔ بار الٰہا ! اگر واقعی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچارسول ہے اور اس پر تو نے حق نازل کیا ہے تو پھر ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا۔ یا ہمیں اپنے عذاب میں مبتلا کر دے۔ دنیا کی تاریخ میں شاید یہ پہلا اور آخری واقعہ ہوگا کہ جس میں انسان اس حد تک بغاوت پر اتر آیا ہو کہ وہ اللہ کے گھر میں کھڑے ہو کر اس سے اس کی رحمت اور ہدایت طلب کرنے کے بجائے۔ اس کے غضب کو چیلنج کر رہا ہو۔ جس طرح مکہ والوں نے انتہا کی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی منہ مانگی مراد پوری کرتے ہوئے انھیں ایک لمحہ کی تاخیر دیے بغیر بیت اللہ کے صحن کے اندر ہی تہس نہس کردیا جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شفقت و مہربانی، حلم اور بردباری اس قدر بےکنار ہے کہ ان پر پتھر برسانے کی بجائے یہ کہہ کر مہلت دی کہ اللہ کے لیے عذاب نازل کرنا کوئی مشکل نہیں کہ وہ تم پر قوم لوط کی طرح پتھر برسائے یا قوم عاد کی طرح پٹخ پٹخ کر زمین پردے مارے کیونکہ تم واقعی اس لائق ہو کہ تمہیں فی الفور ختم کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا وجود معاشرے کے لیے ناسور اور دین حق کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تم پر اس لیے عذاب نازل نہیں کر رہا کہ اس کا محبوب اور اس کے توبہ و استغفار کرنے والے ساتھی تم میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ جس بستی میں اس کا رسول ہو اس بستی کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک رسول کو وہاں سے ہجرت کا حکم نہ ہوجائے۔ دوسری بات جو اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتی اور اس کے عذاب کو ٹالتی ہے۔ وہ اس کے مومن بندوں کا توبہ و استغفار کرنا ہے جس بستی میں توبہ و استغفار کرنے والے لوگ زیادہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اس بستی کو کبھی ہلاک نہیں کرتا اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم صبح و شام اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتے رہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ عَبْدًا اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ فَاغْفِرْہُ فَقَالَ رَبُّہُ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَےَاْخُذُبِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَا شَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْہُ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَ ےَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَاشَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا قَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا اٰخَرَ فَاغْفِرْہُ لِیْ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَےَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ فَلْےَفْعَلْ مَا شَآءَ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اپنے رب سے عرض کرتا ہے کہ میں گناہ کر بیٹھا ہوں تو اے رب معاف فرما۔ اس کا رب فرشتوں سے کہتا ہے ‘ کیا میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا ہے اور ان پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے ؟ لہٰذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر جب تک اللہ کی توفیق ہوتی ہے وہ گناہ سے باز رہتا ہے ‘ پھر اس سے گناہ ہوجاتا ہے اور پھر اپنے رب کو پکارتا ہے۔ میرے پروردگار مجھ سے گناہ ہوگیا ہے۔ میرے اللہ ! مجھے معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے استفسار کرتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ کوئی اس کا مالک ہے جو گناہوں کو معاف بھی کرتا ہے اور ان پر پکڑ بھی کرتا ہے ؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا ! اب وہ جو چاہے کرے۔ “ (یعنی سابقہ گناہ پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ ) “ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ قَال حینَ یَأْوِی إِلٰی فِرَاشِہٖ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الْعَظِیمَ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ ذُنُوبَہُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ وَإِنْ کَانَتْ عَدَدَ وَرَقِ الشَّجَرِ وَإِنْ کَانَتْ عَدَدَ رَمْلِ عَالِجٍ وَإِنْ کَانَتْ عَدَدَ أَیَّام الدُّنْیَا) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات ] ” حضرت ابو سعید (رض) نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں جو شخص اپنے بستر پر لیٹتے ہوئے تین مرتبہ یہ کلمات کہتا ہے ” أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الْعَظِیمَ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیَّ الْقَیُّومَ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ “ تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردیتا ہے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر بھی ہوں، اگرچہ درختوں کے پتوں کی تعداد کے برابر بھی ہوں، اگرچہ صحرا کی ریت کے ذروں کے برابر بھی ہوں، اگرچہ دنیا کے دنوں کی تعداد کے برابر بھی ہوں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت نہیں دینی چاہیے۔ ٢۔ استغفار کرنے سے اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹل جاتا ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذرا آگے ملاحظہ کیجیے۔ جب قرآن کے مقابلے سے یہ دشمن عاجز آجاتے ہیں اور ان کی سازش ناکام ہوجاتی ہے تو یہ اس کے مقابلے میں عجیب طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور ان کا جذبہ عناد اور ان کا غرور انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ یہ رویہ اختیار کریں اور کسی صورت میں بھی مان کر نہ دیں۔ اب یہ لوگ تمناؤں کی دنیا میں داخل ... ہوجاتے ہیں کہ اگر یہ حق ہے تو اے اللہ ہم پر پتھر برسا دے۔ یا اور کوئی دردناک عذاب ہم پر نازل کردے۔ لیکن وہ حق کے اتباع اور حق کی حمایت کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ یہ عجیب و غریب دعاء ہے ۔ اس سے اس کٹر بغض وعناد کا اندازہ ہوجاتا ہے جو ان لوگوں کے دلوں میں اسلام کے خلاف پایا جاتا تھا کہ وہ ہلاکت اور بربادی کو دعوت دیتے ہیں۔ لیکن اسلام کو ماننے اور اس کی حمایت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ حق ہو۔ فطرت سلیمہ کا رویہ تو یہ ہوتا ہے کہ جب اسے کسی معاملے میں خلجان ہو تو ایسا شخص دعا کرتا ہے کہ اے اللہ مجھے اس معاملے میں راہ راست دکھا۔ وہ کبھی بھی اس معاملے میں تلخی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن جب کبر و غرور اور بغض وعناد فطرت سلیمہ کو بگاڑ دیں پھر عالم یہ ہوتا ہے کہ غرور وعناد انسان کو برائی پر آمادہ کرتا ہے۔ لوگ مرنا پسند کرتے ہیں لیکن سچائی کو قبول کرنا پسند نہیں کرتے۔ حالانکہ ان کے سامنے حق و باطل واضح ہوکر رہ جاتا ہے۔ اور اس میں خود ان کو کوئی شک نہیں رہتا۔ اس کی واضح مثال مشرکین مکہ کا رویہ ہے۔ یہ آخر دم تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا مقابلہ کرتے رہے لیکن ان کے اس بغض وعناد کے باوجودع یہ دعوت فتح یاب ہوئی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

34: یہ ساتویں علت ہے۔ نضر بن حارث، ابوجہل اور دیگر صنادید قریش نے اللہ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ اگر یہ اسلام اور قرآن جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے سچا ہے اور تیری طرف سے ہے۔ تو ہمیں آسمان سے پتھر برسا کر یا کسی دوسرے المناک عذاب سے ہلاک کردے۔ چناچہ مشرکین خود اپنے منہ سے عذاب کا مطالب... ہ کر کے مکہ سے نکلے تھے۔ اس لیے اللہ نے بدر میں ان پر منہ مانگا عذاب نازل کر ان کو مغلوب اور تم کو غالب کیا۔ اس لیے اب انفال کی تقسیم اللہ ہی کے حکم کے مطابق کرو۔ “ وَ مَا کَانَ اللّٰهُ الخ ” یہ مشرکین پر عذاب نازل نہ کرنے کی وجہ ہے یعنی اللہ کی سنت مستمرہ یہ ہے کہ جب تک پیغمبر اور مومنین شہر میں موجود ہوں اس وقت تک ان پر عذاب نازل نہیں فرماتا۔ اس لیے فرمایا یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ آپ ان میں موجود ہوں اور ان پر عذاب آجائے۔ کیونکہ اگر آپ کے ان میں موجود ہوتے ہوئے ان پر عذاب آجاتا تو وہ ظالم یہ نہ سمجھتے کہ عذاب ان کے شرک کی وجہ سے آیا ہے۔ بلکہ آپ کی ذات کو اس کا سبب قرار دے کر کہتے کہ یہ عذاب تیری وجہ سے آیا ہے۔ جیسا کہ قوم موسیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کے بارے میں کہا تھا۔ “ اطَّيَّرْنَا بِکَ وَ بِمَنْ مَّعَکَ ، قال ابن عباس لم یعذب اھل قرية حتی يخرج النبي صلی اللہ علیه منھا والمومنون و یلحقوا بحیث امروا ” (قرطبی 7 ص 299) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

32 اور وہ اقعہ بھی قابل ذکر ہے جب ان منکروں نے یوں دعا مانگی تھی اے اللہ ! اگر یہ قرآن اور یہ دین آپ کی طرف سے واقعی ہے اور یہ قرآن حق ہے اور آپ ہی کا نازل کردہ ہے تو ہم پر اس کے نہ ماننے کی وجہ سے آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور درد ناک عذاب ہم پر لے آ۔ یعنی کوئی خارق عادت عذاب آجائے مثلاً پتھر برس...  جائیں یا آگ برس جائے یا اور کوئی ایسا عذاب جس سے پہلی امتیں تباہ ہوئی ہیں ہمارا بھی استیصال کردیا جائے بعض علاء کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تکذیب اور دین کی تکذیب میں ان کی شقادت یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوکر دعائیں مانگتے تھے کہ اگر یہ قرآن اور یہ دین تیرا ہی بھیجا ہوا ہے تو ہم پر عذاب نازل کردے۔ چنانچہ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ابو جہل جب مکہ سے نکلنے لگا تو یہی دعا کی کعبہ کے سامنے وہی پیش آئی۔ 12 بہرحال قرآن کریم نے ان کے جواب میں دو باتیں فرمائی جو آگے مذکور ہیں۔  Show more