Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 58

سورة الأنفال

وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنۡ قَوۡمٍ خِیَانَۃً فَانۡۢبِذۡ اِلَیۡہِمۡ عَلٰی سَوَآءٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡخَآئِنِیۡنَ ﴿۵۸﴾٪  3

If you [have reason to] fear from a people betrayal, throw [their treaty] back to them, [putting you] on equal terms. Indeed, Allah does not like traitors.

اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہد نامہ توڑ دے اللہ تعالٰی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says to His Prophet, وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ ... If you fear from any people, with whom you have a treaty of peace, ... خِيَانَةً ... treachery, and betrayal of peace treaties and agreements that you have conducted with them, ... فَانبِذْ إِلَيْهِمْ ... then throw back (their covenant) to them, meaning their treaty of peace. ... عَلَى سَوَاء ... on equal terms, informing them that you are severing the treaty. This way, you will be on equal terms, in that, you and they will be aware that a state of war exists between you and that the bilateral peace treaty is null and void, ... إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الخَايِنِينَ Certainly Allah likes not the treacherous. This even includes treachery against the disbelievers. Imam Ahmad recorded that Salim bin `Amir said, "Mu`awiyah was leading an army in Roman lands, at a time the bilateral peace treaty was valid. He wanted to go closer to their forces so that when the treaty of peace ended, he could invade them. An old man riding on his animal said, `Allahu Akbar (Allah is the Great), Allahu Akbar! Be honest and stay away from betrayal.' The Messenger of Allah said, وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلَ يَحُلَّنَّ عُقْدَةً وَلاَ يَشُدَّهَا حَتَّى يَنْقَضِي أَمَدُهَا أَوْ يَنْبُذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاء Whoever has a treaty of peace with a people, then he should not untie any part of it or tie it harder until the treaty reaches its appointed term. Or, he should declare the treaty null and void so that they are both on equal terms. When Mu`awiyah was informed of the Prophet's statement, he retreated. They found that man to be Amr bin Anbasah, may Allah be pleased with him." This Hadith was also collected by Abu Dawud At-Tayalisi, Abu Dawud, At-Tirmidhi, An-Nasa'i and Ibn Hibban in his Sahih. At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih."

اللہ خائنوں کو پسند نہیں فرماتا ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی اگر کسی سے تمہارا عہد و پیمان ہو اور تمہیں خوف ہو کہ یہ بدعہدی اور وعدہ خلافی کریں گے تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ برابری کی حالت میں عہد نامہ توڑ دو اور انہیں اطلاع کردو تاکہ وہ بھی صلح کے خیال میں نہ رہیں ۔ کچھ دن پہلے ہی سے انہیں خبر دو ۔ اللہ خیانت کو ناپسند فرماتا ہے کافروں سے بھی تم خیانت نہ کرو ۔ مسند احمد میں ہے کہ امیر معاویہ نے لشکریوں کی روم کی سرحد کی طرف پیش قدمی شروع کی کہ مدت صلح ختم ہوتے ہی ان پر اچانک حملہ کر دیں تو ایک شیخ اپنی سواری پر سوار یہ کہتے ہوئے آئے کہ وعدہ وفائی کرو ، عذر درست نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا فرمان ہے کہ جب کسی قوم سے عہد و پیمان ہو جائیں تو نہ کوئی گرہ کھولو نہ باندھو جب تک کہ مدت صلح ختم نہ جوئے یا انہیں اطلاع دے کر عہد نامہ چاک نہ ہو جائے ۔ جب یہ بات حضرت معاویہ کو پہنچی تو آپ نے اسی وقت فوج کو واپسی کا حکم دے دیا ۔ یہ شیخ حضرت عمرو بن عنبسہ تھے ۔ حضرت سلمان فارسی نے ایک شہر کے قلعے کے پاس پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم مجھے بلاؤ میں تمہیں بلاؤں گا جیسے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو انہیں بلاتے دیکھا ہے ۔ پھر فرمایا میں بھی انہیں میں سے ایک شخص تھا پس مجھے اللہ عزوجل نے اسلام کی ہدایت کی اگر تم بھی مسلمان ہو جاؤ تو جو ہمارا حق ہے وہی تمہارا حق ہوگا اور جو ہم پر ہے تم پر بھی وہی ہوگا اور اگر تم اس نہیں مانتے تو ذلت کے ساتھ تمہیں جزیہ دینا ہوگا اسے بھی قبول نہ کرو تو ہم تمہیں ابھی سے مطلع کرتے ہیں جب کہ ہم تم برابری کی حالت میں ہیں اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں رکھتا ۔ تین دن تک انہیں اسی طرح دعوت دی آخر چوتھے روز صبح ہی حملہ کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فتح دی اور مدد فرمائی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 خیانت سے مراد ہے معاہد قوم سے نقص عہد کا خطرہ، اور (برابری کی حالت میں) کا مطلب ہے کہ انہیں با قاعدہ مطلع کیا جائے کہ آئندہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ تاکہ دونوں فریق اپنے اپنے طور پر اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہوں، کوئی ایک فریق لا علمی اور مغالطے میں نہ مارا جائے۔ 58۔ 2 یعنی یہ نقص عہد اگر مسلمانوں کی طرف سے بھی ہو تو یہ خیانت ہے جسے اللہ پسند نہیں فرماتا۔ حضرت معاویہ اور رومیوں کے درمیان معاہدہ تھا جب معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب آئی تو حضرت معاویہ نے روم کی سرزمین کے قریب اپنی فوجیں جمع کرنی شروع کردیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاہدے کی مدت ختم ہوتے ہی رومیوں پر حملہ کردیا جائے اور عمر بن عبسہ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے ایک حدیث رسول بیان فرمائی اور اسے معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دیا جس پر حضرت معاویہ نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] معاہدہ قوم کے ساتھ اسلام کی خارجہ پالیسی & مکر و فریب کی شدید مذمت :۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ کوئی بھی قوم جس سے تمہارا معاہدہ امن ہوچکا ہو، خواہ وہ تمہاری ریاست کے اندر ہو باہر ہو اور اس قوم سے تمہیں عہد شکنی یا دغا بازی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو تم اس کے خلاف کوئی خفیہ کارروائی یا سازش نہیں کرسکتے۔ ایسی صورت میں تمہیں علی الاعلان اس قوم پر واضح کردینا چاہیے کہ اب ہمارا تمہارا معاہدہ ختم ہے تاکہ وہ کسی طرح کے دھوکہ میں نہ رہیں اور تم پر عہد شکنی کا الزام نہ آئے۔ اس کی مثال یہ واقعہ ہے کہ سیدنا امیر معاویہ اور روم میں میعادی معاہدہ تھا، دشمن کی حرکات و سکنات دیکھ کر سیدنا امیر معاویہ نے بھی روم کی سرحد پر فوجیں جمع کرنا شروع کردیں اور اس انتظار میں رہے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی روم پر حملہ کر دینگے۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا عنبسہ (رض) آپ کے پاس پہنچے اور انہیں خبردار کیا کہ آپ کتاب و سنت کے احکام کے مطابق ایسا نہیں کرسکتے۔ الا یہ کہ آپ پہلے دشمن کو اپنے ارادہ سے مطلع کردیں چناچہ سیدنا معاویہ نے فوجیں پیچھے ہٹا لیں۔ دشمن کی بدعہدی کو اعلان جنگ سمجھا جائے :۔ البتہ اگر معاہدہ کی خلاف ورزی فریق ثانی کی طرف سے تو پھر ایسے اعلان کی ضرورت نہیں۔ فریق ثانی کی بد عہدی کو ہی اعلان جنگ سمجھا جائے گا۔ اس کی مثال یہ واقعہ ہے کہ صلح حدیبیہ کی رو سے مسلمانوں اور کفار مکہ میں میعادی معاہدہ امن ہوا۔ بنو بکر مشرکین مکہ کے حلیف تھے اور بنو خزاعہ مسلمانوں کے، قریش مکہ نے بنو بکر کی حمایت کرتے ہوئے اعلانیہ بنو خزاعہ کی خوب پٹائی کی بنوخزاعہ کے چند آدمی فریادی بن کر مدینہ پہنچے اور اس عہد شکنی کا اعتراف قریش کو بھی تھا۔ کیونکہ اس کے بعد ابو سفیان تجدید عہد کے لیے مدینہ پہنچا۔ لیکن اس کی اس درخواست کو آپ نے قبول نہیں کیا اور بالآخر قریش کی یہی عہد شکنی اور غداری مکہ پر چڑھائی اور اس کی فتح کا سبب بنی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً : یعنی عہد توڑنا خیانت ہے جو مسلمان کے لیے کسی صورت جائز نہیں، حتیٰ کہ اگر کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہو تو ان کے خلاف کوئی بھی کار روائی جائز نہیں، خواہ وہ لوگ تمہاری ریاست کے اندر ہوں یا باہر۔ اگر فی الواقع ان کی طرف سے عہد توڑنے یا دھوکا دینے کا خطرہ پیدا ہوجائے، جو آثار سے نظر آجاتا ہے تو پھر بھی آگاہ کیے بغیر ان کے خلاف خفیہ کارروائی یا کھلا حملہ کردینا جائز نہیں، بلکہ صاف اعلان کر کے واضح کر دو کہ ہمارا تمہارا معاہدہ ختم ہے، تاکہ تم پر عہد توڑنے یا دھوکا دینے کا الزام نہ آئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلفاء کی سیرت بھی یہی رہی کہ کفار کی طرف سے عہد شکنی کے خطرے کی صورت میں معاہدے کے خاتمے کا اعلان فرما دیتے اور پھر حملہ آور ہوتے۔ مگر جب کسی قوم نے بد عہدی کردی ہو تو اس پر بیخبر ی میں حملہ بھی جائز ہے، جیسا کہ کفار مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف بنو خزاعہ پر بنو بکر کے حملے میں شریک ہو کر صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر خبر دیے بغیر چڑھائی کردی اور انھیں خبر اس وقت ہوئی جب اسلامی فوجیں مکہ کے قریب آپہنچیں۔ مسلمان اپنے معاہدوں کی کس قدر پاس داری کرتے تھے، اس کی مثال وہ واقعہ ہے جو سلیم بن عامر بیان کرتے ہیں کہ معاویہ (رض) رومیوں کی سرزمین کی طرف کوچ کر رہے تھے، جبکہ آپ کے اور ان کے درمیان ایک معاہدہ تھا، آپ چاہتے تھے کہ ان کے قریب پہنچ جائیں اور جب معاہدے کی مدت ختم ہو تو ( اچانک) ان پر حملہ کردیں، تو انھوں نے دیکھا کہ ایک بزرگ سواری پر سوار ہیں اور کہہ رہے ہیں اللہ اکبر، اللہ اکبر، عہد پورا کرنا ہے، عہد توڑنا نہیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ” جس کا کسی قوم سے کوئی عہد ہو تو ہرگز نہ کوئی گرہ کھولے اور نہ اسے باندھے یہاں تک کہ اس کی مدت ختم ہوجائے، یا برابری کی بنیاد پر ان کا عہد ان کی طرف پھینک دے۔ “ یہ حدیث معاویہ (رض) کو پہنچی تو واپس آگئے۔ حدیث بیان کرنے والے یہ بزرگ عمرو بن عبسہ (رض) تھے۔[ أحمد : ٤؍١١١، ح : ١٧٠١٧۔ أبو داوٗد : ٢٧٥٩ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Option to Cancel a Peace Treaty In the fifth verse (58), the Holy Prophet has been told about an important article which forms part of the law of war and peace. Here, after placing due stress on the importance of complying with the terms of a treaty, an alternative has also been laid out to cov¬er a situation in which there may arise a danger of breach of trust from the other party to the treaty any time during its legal tenure. Given this situation, it remains no more necessary that Muslims should continue to abide by their allegiance to the treaty. But, also not permissible for Muslims is the taking of any initiative (pre-emptive ac¬tion of any kind) against the other party - before the treaty has been clearly terminated. In fact, the correct approach is to pick up a peace¬ful and convenient occasion and let them know that their ill intentions or treaty contraventions are no secrets to them, or their dealings ap¬pear to be dubious, for which reason, Muslims shall not consider them-selves bound by the treaty. Consequently, they too were free to take any action they wished to take. The words of the verse are: وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ ﴿٥٨﴾ And if you apprehend a breach from a people, then, throw (the treaty) towards them being right forward. Surely, Allah does not like those who breach trust - 58. The sense of the verse is that taking any military initiative against a people with whom a peace treaty has been signed is included under breach of trust and Allah Ta` ala does not like those who are guilty of Khiyanah, that is, those who commit breach of trust - even if this Khiy¬anah were to cause loss to hostile disbelievers, something also impermissible. However, should there be the danger of a breach of trust from the other party, it is possible to go ahead and openly proclaim before them that Muslims shall not remain bound by the treaty in fu¬ture. But, this proclamation has to be in a manner which makes Mus¬lims and the other party likewise, on the same footing. It means that nothing should be done to create a situation in which preparations are made to confront the other party in advance of this proclamation and warning while they are caught unawares and remain unable to make counter preparations for their defence. In short, the message given is: Make whatever preparations have to be made, but do it only after the proclamation and warning. This, then, is the justice of Islam - that the rights of its enemies who commit breach of trust are also guarded and that restrictions are placed on Muslims - not on their adversaries - that they should not make any aggressive preparations against them before having de¬clared that they have nothing to do with the treaty anymore. (Mazhari and others) Fulfillment of Trust Obligations: A Significant Episode Based on a narration of Salim ibn ` Amir, it has been reported by Abu Dawud, Tirmidhi, Al-Nasa&i and Imam Ahmad ibn Hanbal (رح) that Sayyidna Mu` awiyah (رض) had a no-war pact with a group of people for a specified period of time. It occurred to Sayyidna Mu` awiyah (رض) that he should move his army and equipment close to those people so that his forces could pounce on the enemy immediately on the expiry of the period of their peace pact. But, exactly at the time when the army of Sayyidna Mu` awiyah (رض) was getting ready to march ahead in the desired direction, it was noticed that an aged person riding on a horse was shouting a slogan very loudly. He was saying: اللہُ اکبر اللہ اکبر وفَآءً لا غدراً (Allahu Akbar, Allahu Akbar - Allah is Great, Allah is Great - we should fulfill the pledge, we should not contravene it). He was saying that with the famous cry of Allahu Akbar (which increased the relig¬ious gravity of the matter). The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: When a ceasefire agreement or a peace pact with a people comes into effect, it is necessary that no knot be opened or tied against their provisions. Sayyidna Mu` awiyah (رض) was informed about it. When he saw the herald of the saying, he recognized him. He was Sayyidna ` Amr ibn ` Anbasah (رض) ، a Sahabi. Sayyidna Mu` awiyah (رض) lost no time and or¬dered his army to march back so that he does not become one of those who had committed a breach of trust by initiating war action while be¬ing within the time frame of a no-war pact. (Ibn Kathir)

معاہدہ صلح کو ختم کرنے کی صورت : پانچویں آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنگ و صلح کے قانون کی ایک اہم دفعہ بتلائی گئی ہے جس میں معاہدہ کی پابندی کی خاص اہمیت کے ساتھ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی وقت معاہدہ کے دوسرے فریق کی طرف سے خیانت یعنی عہد شکنی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ ہم معاہدہ کی پابندی کو بدستور قائم رکھیں لیکن یہ بھی جائز نہیں کہ معاہدہ کو صاف طور پر ختم کردینے سے پہلے ہم ان کے خلاف کوئی اقدام کریں بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ ان کو اطمینان و فرصت کی حالت میں اس سے آگاہ کردیا جائے کہ تمہاری بدنیتی یا خلاف ورزی ہم پر ظاہر ہوچکی ہے یا یہ کہ تمہارے معاملات مشتبہ نظر آتے ہیں اس لئے ہم آئندہ اس معاہدہ کے پابند نہیں رہیں گے تم کو بھی ہر طرح اختیار ہے کہ ہمارے خلاف جو کارروائی چاہو کرو۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں : (آیت) وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَيْهِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ ۔ یعنی اگر آپ کو کسی قوم معاہد سے خیانت اور عہد شکنی کا اندیشہ پیدا ہوجائے تو ان کا عہد ان کی طرف ایسی صورت سے واپس کردیں کہ آپ اور وہ برابر ہوجائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ مطلب یہ ہے کہ جس قوم کے ساتھ کوئی معاہدہ صلح ہوچکا ہے اس کے مقابلہ میں کوئی جنگی اقدام کرنا خیانت میں داخل ہے اور اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے اگرچہ یہ خیانت دشمن کافروں ہی کے حق میں کی جائے۔ وہ بھی جائز نہیں البتہ اگر دوسری طرف سے عہد شکنی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو ایسا کیا جاسکتا ہے کہ کھلے طور پر ان کو اعلان کے ساتھ آگاہ کردیں کہ ہم آئندہ معاہدہ کے پابند نہیں رہیں گے۔ مگر یہ اعلان ایسی طرح ہو کہ مسلمان اور دوسرا فریق اس میں برابر ہوں۔ یعنی ایسی صورت نہ کی جائے کہ اس اعلان و تنبیہ سے پہلے ان کے مقابلہ کی تیاری کرلی جائے اور وہ خالی الذہن ہونے کی بنا پر تیاری نہ کرسکیں بلکہ جو کچھ تیاری کرنا ہے وہ اس اعلان و تنبیہ کے بعد کریں۔ یہ ہے اسلام کا عدل و انصاف کہ خیانت کرنے والے دشمنوں کے بھی حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے اور مسلمانوں کو ان کے مقابلہ میں اس کا پابند کیا جاتا ہے کہ عہد کو واپس کرنے سے پیشتر کوئی تیاری بھی ان کے خلاف نہ کریں ( مظہری وغیرہ) ایفائے عہد کا ایک واقعہ عجیبہ : ابوداؤد، ترمذی، نسائی، امام احمد بن حنبل نے سلیم بن عامر کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت معاویہ کا ایک قوم کے ساتھ ایک میعاد کے لئے التواء جنگ کا معاہدہ تھا، حضرت معاویہ نے ارادہ فرمایا کہ اس معاہدہ کے ایام میں اپنا لشکر اور سامان جنگ اس قوم کے قریب پہنچا دیں تاکہ معاہدہ کی میعاد ختم ہوتے ہی وہ دشمن پر ٹوٹ پڑیں۔ مگر عین اس وقت جب حضرت معاویہ کا لشکر اس طرف روانہ ہو رہا تھا یہ دیکھا گیا کہ ایک معمر آدمی گھوڑے پر سوار بڑے زور سے یہ نعرہ لگا رہے ہیں اللہ اکبر اللہ اکبر وفآءً لا غدرا۔ یعنی نعرہ تکبیر کے ساتھ یہ کہا کہ ہم کو معاہدہ پورا کرنا چاہئے اس کی خلاف ورزی نہ کرنا چاہئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس قوم سے کوئی صلح یا ترک جنگ کا معاہدہ ہوجائے تو چاہئے کہ ان کے خلاف نہ کوئی گرہ کھولیں اور نہ باندھیں۔ حضرت معاویہ کو اس کی خبر کی گئی۔ دیکھا تو یہ کہنے والے بزرگ حضرت عمرو بن عنبسہ صحابی تھے۔ حضرت معاویہ نے فورا اپنی فوج کو واپسی کا حکم دے دیا تاکہ التواء جنگ کی میعاد میں لشکر کشی پر اقدام کرکے خیانت میں داخل نہ ہوجائیں ( ابن کثیر ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَۃً فَانْۢبِذْ اِلَيْہِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۝ ٥٨ ۧ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] ، ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ خون الخِيَانَة والنّفاق واحد، إلا أنّ الخیانة تقال اعتبارا بالعهد والأمانة، والنّفاق يقال اعتبارا بالدّين، ثم يتداخلان، فالخیانة : مخالفة الحقّ بنقض العهد في السّرّ. ونقیض الخیانة : الأمانة وعلی ذلک قوله : لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، ( خ و ن ) الخیانۃ خیانت اور نفاق دونوں ہم معنی ہیں مگر خیانت کا لفظ عہد اور امانت کا پاس نہ کرنے پر بولا جاتا ہے اور نفاق دین کے متعلق بولا جاتا ہے پھر ان میں تداخل ہوجاتا ہے پس خیانت کے معنی خفیہ طور پر عہد شکنی کرکے حق کی مخالفت کے آتے ہیں اس کا ضد امانت ہے ۔ اور محاورہ میں دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو ۔ نبذ النَّبْذُ : إلقاء الشیء وطرحه لقلّة الاعتداد به، ولذلک يقال : نَبَذْتُهُ نَبْذَ النَّعْل الخَلِق، قال تعالی: لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة/ 4] ، فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران/ 187] لقلّة اعتدادهم به، وقال : نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة/ 100] أي : طرحوه لقلّة اعتدادهم به، وقال : فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص/ 40] ، فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات/ 145] ، لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم/ 49] ، وقوله : فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] فمعناه : ألق إليهم السّلم، واستعمال النّبذ في ذلک کاستعمال الإلقاء کقوله : فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل/ 86] ، وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] تنبيها أن لا يؤكّد العقد معهم بل حقّهم أن يطرح ذلک إليهم طرحا مستحثّا به علی سبیل المجاملة، وأن يراعيهم حسب مراعاتهم له، ويعاهدهم علی قدر ما عاهدوه، وَانْتَبَذَ فلان : اعتزل اعتزال من لا يقلّ مبالاته بنفسه فيما بين الناس . قال تعالی: فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم/ 22] وقعد نَبْذَةً ونُبْذَةً. أي : ناحية معتزلة، وصبيّ مَنْبُوذٌ ونَبِيذٌ کقولک : ملقوط ولقیط، لکن يقال : منبوذ اعتبارا بمن طرحه، وملقوط ولقیط اعتبارا بمن تناوله، والنَّبِيذُ : التّمرُ والزّبيبُ الملقَى مع الماء في الإناء، ثمّ صار اسما للشّراب المخصوص . ( ن ب ذ) النبذ کے معنی کسی چیز کو در خود اعتنا نہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں اسی سے محاورہ مشہور ہے ۔ نبذ تہ نبذلنعل الخلق میں نے اسے پرانے جو تا کی طرح پھینک دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة/ 4] وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائیگا ۔ فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران/ 187] تو انہونے اسے پس پشت پھینک دیا ۔ یعنی انہوں نے اسے قابل التفات نہ سمجھا نیز فرمایا ۔ نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة/ 100] تو ان بیس ایک فریق نے اس کو بےقدر چیز کی طرح پھینک دیا فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص/ 40] تو ہم نے ان کو اور ان کے لشکر کو پکڑ لیا ۔ اور دریا میں ڈال دیا ۔ فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات/ 145] پھر ہم نے ان کو فراخ میدان میں ڈال دیا ۔ لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم/ 49] تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے ۔ تو ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو میں کے معنی یہ ہیں کہ معاہدہ صلح سے دستبر ہونے کے لئے لہذا یہاں معاہدہ صلح ست دستبر دار ہونے کے لئے مجازا نبذا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کے کلام کو مسترد کردیں گے اور ان سے نہیں کے کہ تم جھوٹے ہو اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے میں قول ( اور متکلم القاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت ۔ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل/ 86] فانبذا الخ میں متنبہ کیا ہے کہ اس صورت میں ان کے معاہدہ کو مزید مؤکد نہ کیا جائے بلکہ حسن معاملہ سے اسے فسخ کردیا جائے اور ان کے رویہ کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے یعنی جب تک وہ معاہدہ کو قائم رکھیں اسکا احترام کیا جائے فانتبذ فلان کے معنی اس شخص کی طرح یکسو ہوجانے کے ہیں جو اپنے آپ کو ناقابل اعتبار سمجھاتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم/ 22] اور وہ اس بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں ۔ اور قعد نبذ ۃ کے معنی یکسو ہوکر بیٹھ جانے کے ہیں اور راستہ میں پڑے ہوئے بچے کو صبی منبوذ ونبیذ کہتے ہیں جیسا کہ اسئ ملقوط یا لقیط کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس لحاظ سے کہ کسی نے اسے پھینک دیا ہے اسے منبوذ کہا جاتا ہے اور اٹھائے جانے کے لحاظ سے لقیط کہا جاتا ہے ۔ النبذ اصل میں انگور یا کجھور کو کہتے ہیں ۔ جو پانی میں ملائی گئی ہو ۔ پھر خاص قسم کی شراب پر بولا جاتا ہے ۔ سواء ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال : فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] ، ( س و ی ) المسا واۃ مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دشمن کی بد عہدی کی علانیہ منسوخی قول باری ہے (واما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ علیھم علی سواء ا اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو ) تا آخر آیت۔ اس کے معنی… واللہ اعلم… یہ ہیں کہ جب تمہیں ان کی بد عہدی، چال بازی، اور سلمانوں پر ان کے اچانک حملے کا خطرہ ہو، اور اگرچہ ظاہری طور پر نقض عہد نہ کریں لیکن خفیہ طور پر ان تیاریوں میں مصروف ہوں تو پھر تم ان کے معاہدے کو علانیہ ان کے سامنے پھینک دو یعنی تمہارے اور ان کے درمیان صلح کا جو معاہدہ ہو اس کی منسوخی کا کھلم کھلا اعلان کر دو تاکہ سب کو اس کا علم ہوجائے۔ قول باری (علی سوا) کے یہی معنی ہیں تاکہ وہ لوگ یہ نہسوچ سکیں کہ معاہدہ تم نے توڑا ہے اور جنگ کا آغاز کیا ہے۔ ایک قول ہے کہ (علی سواء) کے معنی علی عدل کے ہیں یعنی مساوی طور پر۔ یہ معنی ایک رجزیہ شعر سے ماخوذ ہیں۔ فاضرب وجوہ انعدر للاعداء حتی یجیبوک الی السواء دشمنوں کو آگے پیچھے چھوڑنے کی تمام صورتیں اختیار کرو حتیٰ کہ وہ بھی تمہیں اسی طرح جواب دینے پر مجبور ہوجائیں۔ اسی سے وسط کو سواء کہا جاتا ہے۔ حضرت حسان کا شعر ہے۔ یاویح انصار النبی و رھطہ بعد المغیب فی سواء الملحد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انصار اور آپ کے قبیلہ کے غم کو ذرا دیکھو جو اس ذات اقدس کے بعد انہیں لاحق ہوا ہے جسے لحد کے درمیان دفن کر کے نظروں سے پوشیدہ کردیا گیا یعنی وسط لحد میں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ پر صلح کے معاہدہ کے بعد لشکر کشی کی تھی۔ آپ نے اس کے لئے صلح کا معاہدہ ختم کرنے کا کھلم کھلا اعلان نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ الہ مکہ نے بنی خزاعہ کے قتل کے اقدام پر بنی کنانہ کی مدد کر کے نقض عہد کیا تھا اور اس معاہدے کو خود ختم کر دیات ھا۔ اسی بنا پر ابو سفیان تجدید معاہدہ کے لئے مدینہ آیا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس درخواست کی تھی لیکن آپ نے اس کی درخواست قبول نہیں کی تھی۔ چونکہ ابو سفیان اور اہل مکہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف قبیلہ بنی خزاعہ کے خلاف جنگ کچی آگ بھڑکا کر خود کی نقض عہد کیا تھا اس لئے اسے یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ ختم ہوگیا ہے۔ حضرت معاویہ (رض) کی پاسداری عہد آیت کے ان ہی معنوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت منقول ہے ہمیں محمد بن بکر نے یہ روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں حفص بن عمر الخمری نے، انہیں شعبہ نے ابوالفیض سے، انہوں نے سلیم سے (ابوالفیض کے سوا دوسرے راوی نے سلیم کی بجائے سلیم بن عامر، قبیلہ حمیر کے ایک شخص نے، کے الفاظ کہے ہیں) کہ حرت معاویہ (رض) اور رومیوں کے درمیان صلح کا معاہدہ تھا، حضرت معاویہ (رض) رومیوں کے علاقے کی طرف لشکر لے کر بڑھتے رہے تاکہ جب معاہدے کی مدت ختم وہ جائے تو ان پر حملہ کردیا جائے۔ اسی دوران ایک شخص گھوڑے یا ٹٹو پر سوار ہو کر اسلامی لشکر کی طرف آتا دکھائی دیا۔ وہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، عہد کی پاسداری کرو، نقض عہد نہ کرو۔ “ جب لوگوں نے دیکھا تو یہ حضرت عمرو بن عنبہ (رض) تھے۔ حضرت معاویہ (رض) نے انہیں بلوایا اور ان سے یہ بات کہنے کی وجہ دریافت کی، انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (من کان بینہ و بین قوم عہد فلایشد عقدۃ ولا یحلھا حتیٰ ینقضی امدھا اوینبذا الیھم علی سواء جس شخص نے کسی قوم سے معاہدہ کیا ہو تو وہ اس معاہدے کے حل و عقد کے سلسلے میں کوئی اقدام نہ کرے جب تک اس کی مدت ختم نہ ہوجائے یا اس کے خاتمے کا کھلم کھلا اعلان نہ کر دے) گویا حضرت عمرو بن عنبہ (رض) نے حضرت معاویہ کے اس اقدام کی مخالفت کی تھی کہ وہ معاہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے لشکر لے کر کیوں چل پڑے تھے، چناچہ یہ سن کر حضرت معاویہ (رض) لشکر کے ساتھ واپس ہوگئے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) اور اگر آپ کو بنی قریظہ سے بدعہدی کا اندیشہ ہو تو آپ ان کو بتا کر وہ عہد واپس کردیجیے بنو قریظہ وغیرہ جو عہد شکنی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ شان نزول : (آیت ) ” واما تخافن من قوم خیانۃ “۔ (الخآرضی اللہ تعالیٰ عنہ ابوالشیخ (رح) نے ابن شہاب (رض) سے روایت کیا ہے کہ جبریل امین رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ آپ نے ہتھیار اتار دیے اور میں تو قوم کی تلاش میں ہوں، چلیے آپ کے پروردگار نے بنوقریظہ کے بارے میں آپ کو اجازت دی ہے اور یہ حکم نازل کیا ہے یعنی اگر آپ کو کسی قسم سے بعدعہدی کا اندیشہ ہوالخ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ اِلَیْہِمْ عَلٰی سَوَآءٍ ط) پچھلی آیات میں انفرادی فعل کے طور پر معاہدے کی خلاف ورزی کا ذکر تھا۔ مثلاً کسی قبیلے کا کوئی فرد اس طرح کی کسی سازش میں ملوث پایا جائے تو ممکن ہے ایسی صورت میں اس کے قبیلے کے لوگ یا سردار اس سے برئ الذمہ ہوجائیں کہ یہ اس شخص کا ذاتی اور انفرادی فعل ہے اور اجتماعی طور پر ہمارا قبیلہ بدستور معاہدے کا پابند ہے۔ لیکن اس آیت میں قومی سطح پر اس مسئلے کا حل بتایا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ کو کسی قوم یا قبیلے کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں آپ ان کے معاہدے کو علی الاعلان منسوخ (abrogate) کردیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اخلاق کے جس معیار پر دیکھنا چاہتا ہے اس میں یہ ممکن نہیں کہ بظاہر معاہدہ بھی قائم رہے اور اندرونی طور پر ان کے خلاف اقدام کی منصوبہ بندی بھی ہوتی رہے ‘ بلکہ ایسی صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھلم کھلا یہ اعلان کردیں کہ آج سے میرے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ مولانا مودودی (رح) نے ١٩٤٨ ء میں جہاد کشمیر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اسی قرآنی حکم کی روشنی میں کیا تھا ‘ کہ ہندوستان کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات کے ہوتے ہوئے یہ اقدام قرآن اور شریعت کی رو سے غلط ہے اور اسلام کے نام پر بننے والی مملکت کی حکومت کو ایسی پالیسی زیب نہیں دیتی۔ پاکستان کو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی پالیسی کا کھلم کھلا اعلان کرنا چاہیے۔ میز کے اوپر باہمی تعاون کے معاہدے کرنا ‘ دوستی کے ہاتھ بڑھانا اور میز کے نیچے سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا دنیا داروں کا وطیرہ تو ہوسکتا ہے اہل ایمان کا طریقہ نہیں۔ مولانا مودودی (رح) کی یہ رائے اگرچہ اس آیت کے عین مطابق تھی مگر اس وقت ان کی اس رائے کے خلاف عوام میں خاصا اشتعال پیدا ہوگیا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43. According to the above verse, it is not lawful for Muslims to decide unilaterally that their treaty with an ally is annulled either because of their grievance that their ally did not fully observe the terms of the treaty in the past or on ground of the fear that he would treacherously breach it in the future. There is no justification for Muslims to make such a decision nor to behave as if no treaty bound the two parties. On the contrary, whenever the Muslims are forced into such a situation they are required to inform the other party, before embarking on any hostile action, that the treaty was terminated. This step is necessary in order that both parties are clear in their minds as to where things stand. Guided by this principle, the Prophet (peace be on him) laid down a basic rule of Islamic international law in the following words: 'Whoever is bound in treaty with a people may not dissolve it until either its term expires, or he flings it at them (i.e. publicly declares that it had been annulled).' (Abu Da'ud, 'Jihad', Babfi al-Iman yakunbaynaha al-'Aduw 'Ahad, vol. 2, p. 75; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 4, pp. 111 and 113 - Ed.) The Prophet (peace be on him) further elucidated this by sayling: 'Do not be treacherous even to him who is treacherous to you' (Abu Da'ud, Kitab al-Buyu', 'Bab fi al-Rajul Ya'khudh Hakkahu man tahe Yadih', vol. 2, p. 260 - Ed.) These directives were not given merely in order that preachers might preach them from the pulpit or embellish them in religious books. On the contrary, Muslims were required to foliow these directive in their everyday lives, and they did in fact do so. Once Mu'awiyah during his reign, concentrated his troops on the borders of the Roman Empire in order to carry out a sudden attack immediately after the expiry of the treaty. 'Amr b. 'Anbasah, a Companion, strongly opposed this manoeuvre. He supported his opposition by reference to a tradition from the Prophet (peace he on him) in which he condemned such an act of treachery. Ultimately Mu'awiyah had to yield and call off his troops. (See the comments on the verse by Qurtubi and Ibn Kathir. See also Ahmad b. Hanbal, Musnad , vol. 4, pp. 113 and 389 - Ed,) To annul a treaty unilaterally and to launch an armed attack without any warning was common practice in the time of ancient jahiliyah (Ignorance). That practice remains in vogue in the civilized jahiliyah of the present day as well. Recent instances in point are the Russian invasion of Germany and the Russian and British military action against Iran during the Second World War. Such actions are usually justified on the ground that a previous warning would have put the enemy on the alert and would have enabled him to put up even stiffer resistance. It is also justified by saying that a military initiative has the effect of pre-empting a similar military initiative by the enemy. If such pleading can absolve people of their moral obligations, then every offence is justifiable. In such a case even those who commit theft, robbery, illegitimate sexual intercourse, homicide, or forgery can proffer either one pretext or the other for so doing. It is also amazing that acts which are deemed unlawful for individuals are deemed perfectly lawful when they are committed by nations. It should also be pointed out that an unannounced attack. according to Islamic law, is lawful in one situation: when the ally has clearly violated the treaty and has blatantly indulged in hostile action. Only in such an eventuality it is not binding on Muslims to first declare the dissolution of the treaty. Not only that, in such a circumstance it is also lawful to launch an unannounced military action. In deriving this legal rule, Muslim jurists have drawn on the Prophet's own conduct in regard to the Quraysh who had breached the Hudaybiyah Treaty in dealing with Bana Khuza'ah. In this instance the Prophet (peace be on him) did not notify them that the treaty had been annulled. On the contrary, he invaded Makka without warning. (See Qurtubi's comments on the verse - Ed.) Nonetheless, while acting on this exceptional provision one should be cautious and take into account the totality of circumstances in which the Prophet (peace be on him) took this step. That alone will help one to properly follow the Prophet's example. For one should try to imitate the Prophet's example in its totality rather than just one or other aspect of it depending on one's whim. What we know from the Sirah and Hadith with regard to this is the following: First, that the Quraysh had so openly violated the treaty that its annulment had become absolutely clear. Even men of the Quraysh themselves acknowledged that the treaty was no longer in operation. It is because of this realization that the Qurayrsh had deputed Abu Sufyan to Madina to negotiate for its renewal (Al-Tabari. Ta'rikh, vol. 3, p. 46 -Ed.) This fact clearly indicates that the Quraysh were in no doubt that the treaty stood dissolved. It is immaterial whether the party which annulled the treaty verbally declared so or not for it had been violated so blatantly that no room for doubt was left. Second, after the annulment of the treaty the Prophet (peace be on him) did not say anything, either in clear or ambiguous terms, which could justify the impression that he still regarded the Quraysh to be his allies or that the treaty relations with them were still intact. All relevant reports, on the contrary, suggest that when Abu Sufyan pleaded for the renewal of the treaty, the Prophet (peace be on him) did not accede to that request, (Ibn Hisham. vol. 2, p. 395 - Ed.) Third, the Prophet (peace he on him) himself initiated military action against the Quraysh and he did so openly. There was no element of duplicity or fraud in the Prophet's behaviour; there was no trace of pretence to be at peace while secretly engaging in belligerent activities. This is the full picture of the Prophet's attitude on the occasion. Hence the directive of flinging the treaty in the face of the other party as embodied in the above verse (i.e. informing the other party that the treaty had been terminated) may only be disregarded in very special circumstances such as those existing then. And should it be disregarded then this should be done in the straightforward and graceful manner adopted by the Prophet (peace be on him). Moreover, if some dispute arises with a people with whom the Muslims have a treaty and the dispute remains unresolved even after direct negotiations or international mediation; or if the other party appears bent upon forcing a military solution to the problem, it would be lawful for Muslims to resort to force. However, according to the above verse, force may be used by Muslims after making a clear proclamation of the annulment of the treaty, and that the action taken should be overt. To carry out military action by stealth is an immoral act and can nowhere be found among the teachings of Islam.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :43 اس آیت کے رو سے ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اگر کسی شخص یا گروہ یا ملک سے ہمارا معاہدہ ہو اور ہمیں اس کے طرزِ عمل سے یہ شکایت لاحق ہو جائے کہ وہ عہد کی پابندی میں کوتاہی برت رہا ہے ، یا یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ موقع پاتے ہی ہمارے ساتھ غداری کر بیٹھے گا ، تو ہم اپنی جگہ خود فیصلہ کرلیں کہ ہمارے اور اس کے درمیان معاہدہ نہیں رہا اور یکایک اس کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا شروع کردیں جو معاہدہ نہ ہونے کہ صورت ہی میں کیا جاسکتا ہو ۔ اس کے برعکس ہمیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو ہم کوئی مخالفانہ کاروائی کرنے سے پہلے فریق ثانی کو صاف صاف بتا دیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب معاہدہ باقی نہیں رہا ، تا کہ فسخ معاہدہ کا جیسا علم ہم کو حاصل ہے ویسا ہی اس کو بھی ہو جائے اور وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ معاہدہ اب بھی باقی ہے ۔ اسی فرمان الہٰی کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی بین الاقوامی پالیسی کا یہ مستقل اصول قرار دیا تھا کہ من کان بینہ وبین قوم عھد فلا یحلن عقدہ حتی ینقضی امدھا او ینبذ الیھم عل سواء ۔ ”جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو اسے چاہیے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے عہد کا بند نہ کھولے ۔ یا نہیں تو ان کا عہد برابری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرف پھینک دے “ ۔ پھر اسی قاعدے کو آپ نے اور زیادہ پھیلا کر تمام معاملات میں عام اصول یہ قائم کیا تھا کہ لا تخن من خانک”جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سےخیانت نہ کر“ ۔ اور یہ اصول صرف وعظوں میں بیان کرنے اور کتابوں کی زینت بننے کے لیے نہ تھا بلکہ عملی زندگی میں بھی اس کی پابندی کی جاتی تھی ۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب امیر معاویہ نے اپنے عہد بادشاہی میں سرحد روم پر فوجوں کا اجتماع اس غرض سے کرنا شروع کیا کہ معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی یکایک رومی علاقہ پر حملہ کر دیا جائے تو ان کی اس کاروائی پر عمرو بن عَنبَسَہ صحابی رضی اللہ عنہ نے سخت احتجاج کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حدیث سنا کر کہا کہ معاہدہ کی مدت کے اندر یہ معاندانہ طرز عمل اختیار کرنا غداری ہے ۔ آخر کار امیر معاویہ کو اس اصول کے آگے سر جھکا دینا پڑا اور سرحد پر اجتماع فوج روک دیا گیا ۔ یک طرفہ فسخ معاہدہ اور اعلان جنگ کے بغیر حملہ کر دینے کا طریقہ قدیم جاہلیت میں بھی تھا اور زمانہ حال کی مہذب جاہلیت میں بھی اس کا رواج موجود ہے ۔ چنانچہ اس کی تازہ ترین مثالین جنگ عظیم نمبر ۲ میں روس پر جرمنی کے حملے اور ایران کے خلاف روس و برطانیہ کی فوجی کاروائی میں دیکھی گئی ہیں ۔ عموماً اس کاروائی کے لیے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ حملہ سے پہلے مطلع کر دینے سے دوسرا فریق ہوشیار ہو جاتا اور سخت مقابلہ کرتا ، یا اگر ہم مداخلت نہ کرتے تو ہمارا دشمن فائدہ اٹھا لیتا لیکن اس قسم کے بہانے اگر اخلاقی ذمہ داریوں کو ساقط کر دینے کے لیے کافی ہوں تو پھر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی بہانے نہ کیا جا سکتا ہو ۔ ہر چور ، ہر ڈاکو ، ہر زانی ، ہر قاتل ، ہر جعلساز اپنے جرائم کے لیے ایسی ہی کوئی مصلحت بیان کر سکتا ہے ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ یہ لوگ بین الاقوامی سوسائٹی میں قوموں کے لیے ان بہت سے افعال کو جائز سمجھتے ہیں جو خود ان کی نگاہ میں حرام ہیں جب کہ ان کا ارتکاب قومی سو سائٹی میں افراد کی جانب سے ہو ۔ اس موقع پر جان لینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی قانون صرف ایک صورت میں بلا اطلاع حملہ کرنے کو جائز رکھتا ہے ، اور وہ صورت یہ ہے کہ فریق ثانی علی الاعلان معاہدہ کو توڑ چکا ہو اور اس نے صریح طور پر ہمارے خلاف معاندانہ کاروائی کی ہو ۔ ایسی صورت میں یہ ضروری نہیں رہتا کہ ہم اسے آیت مذکورہ بالا کے مطابق فسخ معاہدہ کا نوٹس دیں ، بلکہ ہمیں اس کے خلاف بلا اطلاع جنگی کاروائی کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے ۔ فقہائے اسلام نے یہ استثنائی حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل سے نکالا ہے کہ قریش نے جب بنی خُزاعہ کے معاملہ میں صلح حُدَیبیہ کو اعلانیہ توڑ دیا تو آپ نے پھر انہیں فسخ معاہدہ کا نوٹس دینے کی کوئی ضرورت نہ سمجھی ، بلکہ بلا اطلاع مکہ پر چڑھائی کر دی ۔ لیکن اگر کسی موقع پر ہم اس قاعدہ استثناء سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو لازم ہے کہ وہ تمام حالات ہمارے پیش نظر رہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کاروائی کی تھی ، تا کہ پیروی ہو تو آپ کے پورے طرز عمل کہ ہو نہ کہ اس کے کسی ایک مفید مطلب جزء کی ۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ: اولاً ، قریش کی خلاف ورزی عہد ایسی صریح تھی کہ اس کے نقض عہد ہونے میں کسی کلام کا موقع نہ تھا ۔ خود قریش کے لوگ بھی اس کے معترف تھے کہ واقعی معاہدہ ٹوٹ گیا ہے ۔ انہوں نے خود ابو سفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا تھا جس کے صاف معنی یہی تھے کہ ان کے نزدیک بھی عہد باقی نہیں رہا تھا ۔ تا ہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ناقضِ عہد قوم کو خود بھی اپنے نقض عہد کا اعتراف ہو ۔ البتہ یہ یقیناً ضروری ہے کہ نقضِ عہد بالکل صریح اور غیر مشتبہ ہو ۔ ثانیاً ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے عہد ٹوٹ جانے کے بعد پھر اپنی طرف سے صراحتہ یا اشارةً و کنایہ یتہ ایسی کوئی بات نہیں کی کہ جس سے یہ ایماء نکلتا ہو کہ اس بدعہدی کے باوجود آپ ابھی تک ان کو ایک معاہد قوم سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کے معاہدانہ روابط اب بھی قائم ہیں ۔ تمام روایات بالاتفاق یہ بتاتی ہیں کہ جب ابوسفیان نے مدینہ آکر تجدید معاہدہ کی درخواست پیش کی تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا ۔ ثالثاً ، قریش کے خلاف جنگی کاروائی آپ نے خود کی اور کھلم کھلا کی ۔ کسی ایسی فریب کاری کا شائبہ تک آپ کے طرز عمل نہیں پایا جاتا کہ آپ نے بظاہر صلح اور بباطن جنگ کا کوئی طریقہ استعمال فرمایا ہو ۔ یہ اس معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے ، لہٰذا آیت مذکورہ بالا کے حکم عام سے ہٹ کر اگر کوئی کاروائی کی جا سکتی ہے تو ایسے ہی مخصوص حالات میں کی جاسکتی ہے اور اسی سیدھے سیدھے شریفانہ طریقہ سے کی جا سکتی ہے جو حضور نے اختیار فرمایا تھا ۔ مزید براں اگر کسی معاہد قوم سے کسی معاملہ میں ہماری نزاع ہو جائے اور ہم دیکھیں کہ گفت وشنید یا بین الاقوامی ثالثی کے ذریعہ سے وہ نزاع طے نہیں ہوتی ، یا یہ کہ فریق ثانی اس کو بزور طے کرنے پر تلا ہوا ہے ، تو ہمارے لیے یہ بالکل جائز ہے کہ ہم اس کو طے کرنے میں طاقت استعمال کریں لیکن آیت مذکورہ بالا ہم پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ ہمارا یہ استعمال طاقت صاف صاف اعلان کے بعد ہونا چاہیے اور کھلم کھلا ہونا چاہیے ۔ چوری چھپے ایسی جنگی کاروائیاں کرنا جن کا علانیہ اقرار کرنے کے لیے ہم تیار نہ ہوں ، ایک بد اخلاقی ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو نہیں دی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

40: یہ اس صورت کا حکم بیان ہورہا ہے جب ان لوگوں کی طرف سے کھلی بد عہدی تونہ ہوئی ہو، لیکن اندیشہ ہو کہ کسی وقت وہ بد عہدی کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچادیں گے۔ ایسے موقع کیلئے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ واضح طور پر معاہدے کے ختم کرنے کا اعلان کردیں، اور انہیں بتا دیں کہ اب ہم میں سے کوئی معاہدے کا پابند نہیں ہے، اور ہر فریق دوسرے کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے آزاد ہے۔ اسی بات کو معاہدہ انکی طرف پھینکنے سے تعبیر کیا گیا ہے جو عربی محاورے میں اسی معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ تاکید یہ کی گئی ہے کہ صرف دُشمن کی بدعہدی کے اندیشے کی بناپر مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ اعلان کے بغیر معاہدے کی خلاف ورزی کریں، کیونکہ یہ بات اﷲ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:58) تخافن۔ خوف سے مضارع واحد مذکر حاضر۔ بانون ثقیلہ ۔ تو ڈرے۔ تجھ کو ڈر ہو۔ فانبذ الیہم۔ ای اطرح الیہم العھد تو تو اس عہد کو (جو تو نے انکے ساتھ کیا ہے) ان کی طرف پھینک مار۔ یعنی منسوخ کردو۔ علی سوائ۔ واضح طور پر ۔ یعنی ان کو اس منسوخی کا علم ہوجائے اور وہ نتائج کی ذمہ داری کا احساس کرنے لگیں (یعنی دونوں فریقوں کو مساوی طور پر معلوم ہوجائے کہ اب عہد منسوخ ہوچکا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 مطلب یہ ہے کہ ان پر حملہ کرنا چاہو تو انہیں پہلے سے مطلع کردو کہ اب تمہارے اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے کیونکہ ہمیں اند یشہ ہے کہ تم معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والے ہو لیکن اگر معاہدہ ختم کئے بغیر ان پر چڑھ دوڑ وگے تو یہ دغا معاہدہ کی خلاف ورزی ہوگی اور اللہ تعالیٰ دغا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ( وحیدی) چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلفا کی یہی سیرت رہی کہ نقص عہد کی خطرہ کی صورت میں معاہدہ کے خاتمے کا اعلان فرمادیتے اور پھر حملہ آور ہوتے۔ ( ازابن کثیر، قر طبی) مگر جب کسی قوم نے بد عہد ی کردی ہو تو اس پر بیخبر ی میں حملہ کرنا بھی جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کے ساتھ کیا ( کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی اس طرح اس عہد کے باقی نہ رہنے کی اطلاع کردیجیے۔ فائدہ۔ بدون ایسی اطلاع کے لڑناخیانت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

دوسرا حکم ان لوگوں کے بارے میں ہے جس سے نقص عہد کی علامات کا ظہور ہوچکا ہو اور یہ توقع پیدا ہوگئی ہو کہ وہ جلدہی نقص عہد کا ارتکاب کریں گے۔ اور یہ علامات واضح ہوں تو ایسے لوگوں کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو ، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام معاہدہ اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس پر عمل کرے ، جب فریق دوم عمل کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو وہ اس عہد کو منسوخ کرنے کا اعلان اس کے سامنے رکھ دیتا ہے اور علانیہ اس کو ختم ردیتا ہے۔ خیانت اور غداری کا اسلام قائل نہیں ہے۔ دھوکے اور چالبازی کا بھی اسلام روادار نہیں ہے۔ اسلام فریق دوئم کو علانیہ ببانگ دہل کہتا ہے کہ اس نے اس عہد کو منسوخ کردیا ہے لہذا اب کوئی فریق بھی اس عہد کے مشمولات کا پابند نہیں ہے۔ اس طرح اسلام انسانیت شرف اور ثابت قدمی کا مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے اور امن و اطمینان کا وسیع دائرہ عطا کرتا ہے۔ اسلام یہ گوارا نہیں کرتا کہ وہ شب خون اور وعدہ خلافی کرکے ایسے لوگوں پر حملہ کردے جو عہد و میثاق کی بنا پر مطمئن بیٹے ہوں اور ان وک یہ نوٹس نہ ہو کہ حملہ آور فریق نے عہد ختم کردیا ہے۔ اسی طرح اسلام ایسے لوگوں کو خوفزدہ کرنا بھی نہیں چاہتا۔ جنہوں نے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی ہوں اور جن سے اسلام کو صرف خیانت کا خطرہ درپیش ہو ، ہاں عہد کے ختم کردیے جانے کے بعد جنگ کے دوران چالیں چلی جاسکتی ہیں کہ جنگ کے دوران جنگی چالیں جائز ہیں کیونکہ دشمن کو نوٹس مل گیا ہے۔ اس نے احتیاطی تدابیر اختیار کرلی ہیں۔ اب اگر اس کے خلاف کوئی جنگی چال چلی جاتی ہے تو وہ معذور نہیں ہے بلکہ غافل ہے اور غافلوں کے خلاف اگر کوئی جنگی چال چلی جاتی ہے تو وہ غداری نہیں ہے۔ اسلام انسانیت کی سطح کو بلند کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسانیت آلودگیوں سے پاک ہو۔ لہذا غلبے کے لیے غداری کو اسلام جائز نہیں سمجھتا۔ جبکہ وہ اعلی مقاصد کے لیے جدوجہد کر رہا ہو ، کیونکہ اعلی مقاصد کے لیے شریفانہ اسلوب اختیار کرنا ضروری ہے۔ اسلام خیانت کے سخت خلاف ہے اور وہ ان لوگوں کو بہت ہی حقیر سمجھتا ہے جو نقص عہد کے مرتکب ہوئے ہیں لہذا اسلام اپنے پیروکاروں کو عہد میں خیانت کی اجازت نہیں دیتا۔ اگرچہ جن اہداف و غآیات کے لیے یہ حرکت کی جارہی ہو ، وہ بہت ہی بلند ہوں۔ نفس انسانی کے حصے بخرے نہیں کیے جاسکتے۔ ایک بار انسان حقیر اور خسیس طریقے کرنا شروع کردے وہ کبھی بھی اعلی اور شریفانہ طرز عمل اختیار نہیں کرسکتا۔ وہ شخص مسلمان نہیں ہے جو اچھے مقاصد کے لی ہر قسم کے ذرائع استعمال کرنے کو جائز سمجھتا ہو۔ لہذا یہ اصول اسلامی سوچ اور اسلامی شعور کے لیے بالکل اجنبی ہے کیونکہ اسلامی ذہنیت میں مقاصد اور وسائل کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ، کیونکہ ایک مسلمان اگر پاک و صاف جگہ پر پہنچنا چاہتا ہے تو وہ گندے کیچڑ سے ہو کر نہ گزرے گا کیونکہ ان کے گندے پاؤں صاف جگہ کو بھی گندا کردیں گے۔ اگر کوئی اسے جائز سمجھتا ہے تو وہ خائن ہے اور اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ ان اللہ لایحب الخائنین ہمیں یہاں ذرا یہ غور کرنا چاہیے کہ جن حالات میں یہ احکام نازل ہو رہے تھے۔ ان حالات میں انسانیت کا مقام کیا تھا۔ ان میں انسانیت کے سامنے اس قدر بلند نصب العین نہ تھا۔ اس دور میں باہم لڑنے والے جنگل کے قانون پر عمل پیرا ہوتے تھے۔ اس وقت ڈنڈے کا قانون چل رہا تھا اور ڈنڈے اور لوٹ پر کوئی قید و بند نہ تھا اور اس وقت سے لے کر اٹھارہویں صدی تک دنیا میں یہی جنگل کا قانون مروج رہا ہے اور یورپ تو خصوصاً اس قدر اندھیرے میں تھا کہ اسے اس وقت تک قانون بین الاقوام کا علم ہی نہ تھا۔ یہ روشنی اس نے اس وقت حاصل کی تھی جب اس کا واسطہ اسلامی ممالک سے بڑا اور آج تک بین الاقوامی معاملات میں یورپ اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جس تک اسلامی نظام ایک جست میں پہنچا۔ حالانکہ یورپ نے کم از کم بین الاقوامی قانون کا نام سن لیا تھا۔ جو لوگ آج یورپ کی صنعتی ترقی سے مروعب ہیں ان کو اس موضوع پر غور کرنا چاہیے اور اسلام کے بین الاقوامی قانون اور دور جدید کے قانون نظاموں کا تقابلی مطالعہ کرنا چاہیے۔ تاکہ وہ حقیقی صورت حال سے آگاہ ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کو غدر اور خیانت کی اجازت نہیں : اہل ایمان کو کبھی نقض عہد کی ضرورت پیش آجاتی ہے اور یہ جب ہوتا ہے جب دشمن سے خطرہ ہو کہ وہ اپنا عہد توڑنے والا ہے اگر ہم نے اپنے عہد کی پاسداری کی اور انہوں نے اپنا عہد توڑ دیا اور اچانک غفلت میں انہوں نے حملہ کردیا تو ہمیں تکلیف پہنچے گی۔ ایسے موقعہ پر طریق کار یہ ہے کہ خود ان پر غفلت میں حملہ نہ کریں۔ ہاں ایسا کریں کہ پہلے اعلان کردیں اور ان کو بتادیں کہ ہمارا تمہارا جو معاہدہ تھا ہم اسے ختم کر رہے ہیں۔ اسی کو فرمایا۔ (وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَآءٍ ) اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو جو عہد آپ نے ان سے کیا ہے وہ ان کی طرف پھینک دیجیے تاکہ آپ اور وہ اس بات کے جاننے میں برابر ہوجائیں کہ اب معاہدہ باقی نہیں رہا۔ اگر معاہدہ کیا اور ان کا معاہدہ واپس نہ کیا اور معاہدہ ختم کرنے کی اطلاع کے بغیر ان پر حملہ کردیا تو یہ غدر ہوگا اور خیانت ہوگی جس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ اسی کو فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَآءِنِیْنَ ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا) ہوسکتا تھا کہ بعض مسلمانوں کے ذہن میں یہ بات آجاتی کہ چونکہ دشمن، دشمن ہے، کچھ بھروسہ نہیں کہ اپنا عہد توڑ دے۔ اس لیے ہم اپنی حفاظت کے لیے پہلے حملہ کردیں تو ہماری حفاظت ہوجائے گی۔ اس خیال کو دفع کرنے کے لیے یہ نصیحت فرمائی کہ گو کافر تمہارے دشمن ہیں لیکن جب معاہدہ ہوگیا تو اب تمہارے لیے معاہدہ کی خلاف ورزی جائز نہیں اگر ان سے عہد کی خلاف ورزی کا ڈر ہے تو تم پہلے انہیں بتادو کہ ہمارا عہد ختم ہے اس کے بعد تمہیں حملہ کرنا جائز ہوگا۔ سبحان اللہ عہد کی پاسداری کا شریعت اسلامیہ میں کتنا اہتمام ہے۔ اسی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس میں چار چیزیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا اور ان چار میں سے جس میں ایک خصلت ہوگی تو اس میں نفاق کا ایک حصہ مانا جائے گا۔ جب تک اسے چھوڑ نہ دے۔ (١) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (٢) اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (٣) اور جب معاہدہ کرے تو دھوکہ دے۔ (٤) اور جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے۔ (رواہ البخاری ص ٤٥١ ج ١) ہر مسلمان کو معاہدہ کی پاسداری لازم ہے حکومت سے معاہدہ ہو یا کسی جماعت سے یا کسی فرد سے اس کی خلاف ورزی حرام ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تین شخصوں پر میں دعویٰ کرنے والا ہوں ایک وہ شخص جس نے میرا نام لے کر عہد کیا پھر اس نے غدر کیا۔ اور ایک وہ شخص جس نے کسی آزاد کو بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا گیا اور ایک وہ آدمی جس نے کسی مزدور کو کام پر لگایا اس سے کام پورا لے لیا اور اس کی مزدوری نہ دی۔ (رواہ البخاری ص ٣٠٢ ج ١) نیز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من قتل معاھدا لم یرح رائحۃ الجنۃ۔ جس نے کسی عہد والے کو قتل کردیا جنت کی خوشبو (بھی) نہ سونگھے گا۔ (صحیح بخاری ص ٤٤٨ ج ١) فائدہ : اگر دوسرا فریق معاہدہ کی خلاف ورزی کر دے تو پتہ چل جائے کہ انہوں نے خیانت کی ہے۔ مثلاً وہ مسلمانوں پر حملہ کردیں یا اور کوئی ایسی خلاف ورزی کردیں جس سے معاہدہ ٹوٹ جاتا ہو تو پھر اپنی طرف سے عہد توڑنے کی اطلاع کرنے کی ضرورت نہیں اور جب اپنی طرف سے عہد توڑنا ہو اور ان کو اس کی اطلاع دینی ہو تو ان کے ہر ہر فرد کو اطلاع دینا ضروری نہیں جب ان کے صاحب اقتدار کو نقض عہد کی اطلاع دے دی اور اتنی مدت گزر گئی کہ وہ اس وقت میں اپنے اطراف مملکت میں خبر پہنچا سکتا تھا تو یہ کافی ہے۔ (ذکر صاحب الھدایۃ باب الموادعۃ و من یجوز امانہ)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

59: لیکن اگر کسی قوم نے ابھی تک صریح عہد شکنی نہیں کی لیکن آثار و قرائن سے آپ کو اندازہ ہوجائے کہ وہ عہد توڑنے والے ہیں تو آپ کو اجازت ہے کہ اگر مناسب سمجھیں تو ان کا عہد واپس کردیں اور معاہدہ سے دست برداری کی ان کو اطلاع دے کر مناسب کاروائی کریں تاکہ معاہدہ کے بارے میں دونوں فریق علم وآگاہی میں برابر ہوجائیں اور کوئی فریق اندھیرے میں نہ رہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

58 یہ تو ذکر تھا ان کا جو نقض عہد کرنے کے خوگر ہیں اور اگر آپ کو کسی قوم معاہد کی جانب سے نقض عہد کا اندیشہ ہو تو آپ ان کے عہد کو ان پر واپس کردیجئے درآنحالیکہ آپ اور وہ عہد سے سبکدوش عہد توڑنے والے تو سزا کے مستحق ہی ہیں لیکن جس معاہد قوم کی طرف سے تم کو خیانت اور نقض عہد کا اندیشہ ہو تو ان پر حملہ کرنے سے پیشتر ان کو اطلاع دے دو تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں نے معاہدہ ختم کردیا تم اور وہ دونوں اس اطلاع میں برابر ہوجائیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اگر ایک قوم نے کافروں سے صلح کی ہو پھر ان کی طرف سے دغا ہوچکے اب ان کو بیخبر ماردیئے اور جو دغا نہیں ہوئی لیکن اندیشہ ہے تو خبردار کر کر جواب دیئے برابر کے برابر یعنی جو سرانجام کا صلح سے پہلے کرسکتے ہو اب بھی کرسکتے ہو لڑائی کا اس میں کچھ بدقولی نہیں۔ 12 خلاصہ یہ کہ عہد میں خیانت کرنا حرام ہے اگر تم عہد توڑنے کو مناسب سمجھو تو جس قوم سے معاہدہ ہے اس کو پہلے اطلاع دیدو تاکہ دشمن کو بھی دفاع کا موقعہ ملے اور اپنا سرانجام کرسکے۔