Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 65

سورة الأنفال

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ عَلَی الۡقِتَالِ ؕ اِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ عِشۡرُوۡنَ صٰبِرُوۡنَ یَغۡلِبُوۡا مِائَتَیۡنِ ۚ وَ اِنۡ یَّکُنۡ مِّنۡکُمۡ مِّائَۃٌ یَّغۡلِبُوۡۤا اَلۡفًا مِّنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۶۵﴾

O Prophet, urge the believers to battle. If there are among you twenty [who are] steadfast, they will overcome two hundred. And if there are among you one hundred [who are] steadfast, they will overcome a thousand of those who have disbelieved because they are a people who do not understand.

اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ اگر تم میں بیس بھی صبر کرنے والے ہونگے تو دو سو پر غالب رہیں گے ۔ اور اگر تم میں ایک سو ہونگے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے ، اس واسطے کہ وہ بے سمجھ لوگ ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُوْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ... O Prophet! Urge the believers to fight, encouraged and called them to fight. The Messenger of Allah used to encourage the Companions to fight when they faced the enemy. On the day of Badr when the idolators came with their forces and supplies, he said to his Companions, قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالاَْرْض Get ready and march forth towards a Paradise as wide as the heavens and earth. Umayr bin Al-Humam said, "As wide as the heavens and earth!" The Messenger said, نَعَم (Yes). Umayr said, "Excellent! Excellent!" The Messenger asked him, مَا يَحْمِلُكَ عَلَى قَوْلِكَ بَخٍ بَخ What makes you say, `Excellent! Excellent!' He said, "The hope that I might be one of its dwellers." The Prophet said, فَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِهَا You are one of its people. Umayr went ahead, broke the scabbard of his sword, took some dates and started eating from them. He then threw the dates from his hand, saying, "Verily, if I lived until I finished eating these dates, then it is indeed a long life." He went ahead, fought and was killed, may Allah be pleased with him. Allah said next, commanding the believers and conveying good news to them, ... إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِيَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّيَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ ... If there are twenty steadfast persons among you, they will overcome two hundred, and if there be a hundred steadfast persons, they will overcome a thousand of those who disbelieve. The Ayah says, one Muslim should endure ten disbelievers. Allah abrogated this part later on, but the good news remained. ... بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ because they (the disbelievers) are people who do not understand. Abdullah bin Al-Mubarak said that Jarir bin Hazim narrated to them that, Az-Zubayr bin Al-Khirrit narrated to him, from Ikrimah, from Ibn Abbas, "When this verse was revealed, إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِيَتَيْن (If there are twenty steadfast persons among you, they will overcome two hundred...) it became difficult for the Muslims, when Allah commanded that one Muslim is required to endure ten idolators. Soon after, this matter was made easy,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 تحریض کے معنی ہیں ترغیب میں مبالغہ کرنا یعنی خوب رغبت دلانا اور شوق پیدا کرنا۔ چناچہ اس کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ سے قبل صحابہ کو جہاد کی ترغیب دیتے اور اس کی فضیلت بیان فرماتے۔ جیسا کہ بدر کے موقع پر، جب مشرکین اپنی بھاری تعداد اور بھرپور وسائل کے ساتھ میدان میں آموجود ہوئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' ایسی جنت میں داخل ہونے کے لئے کھڑے ہوجاؤ، جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ' ایک صحابی عمیر بن حمام نے کہا ' اس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ؟ ' رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' ہاں ' اس پر بخ بخ کہا یعنی خوشی کا اظہار کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ میں جنت میں جانے والوں میں سے ہونگا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' تم اس میں جانے والوں میں سے ہوگے، چناچہ انہوں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کھجوریں نکال کر کھانے لگے، پھر جو بچیں ہاتھ سے پھینک دیں اور کہا ان کے کھانے تک میں زندہ رہا تو یہ طویل زندگی ہوگی، پھر آگے بڑھے اور داد شجاعت دینے لگے، حتٰی کہ عروس شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔ (رض) (صحیح مسلم) 65۔ 2 یہ مسلمانوں کے لئے بشارت ہے کہ تمہارے ثابت قدمی سے لڑنے والے بیس مجاہد دو سو اور ایک ہزار پر غالب رہیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٧] جہاد کی ترغیب :۔ اس حکم پر آپ نے مسلمانوں کو جہاد کے لیے جیسے ترغیب دی وہ درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا انس کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ایک صبح یا شام اللہ کے راستے میں نکلنا دنیا ومافیہا سے افضل ہے۔ && (بخاری، کتاب الجہاد، باب الغدوۃ والروحۃ، فی سبیل اللہ) مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا && اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ اس کی راہ میں جہاد کرنے والا کون ہے۔ ایسے ہے جیسے ہمیشہ کا روزہ دار اور شب زندہ دار۔ اللہ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ اگر اسے موت آگئی تو جنت میں داخل کرے گا یا پھر اسے اجر اور غنیمت کے ساتھ صحیح وسالم واپس لوٹائے گا۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب افضل الناس مومن مجاھد بنفسہ ومالہ) ٣۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے گھوڑا پالے اور اس کی وجہ اللہ پر ایمان اور اس کے وعدوں کی تصدیق ہو تو بلاشبہ اس گھوڑے کا کھانا پینا، لید، پیشاب قیامت کے دن اس مجاہد کے ترازو میں (بطور نیکی) رکھے جائیں گے۔ && (بخاری، کتاب الجہاد من احتبس فرسا) [٦٨] ایک مسلمان کا دس کافروں پر غالب آنے کی وجہ ؟:۔ یعنی لڑائی سے کفار کا مقصد قبائلی یا قومی عصبیت کے سوا کچھ نہیں۔ جبکہ مومنوں کا اپنی جان تک قربان کرنے کا مقصد اللہ کے کلمہ کی سربلندی اور بالادستی اور رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے ساتھ ہی وہ سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے جبکہ کافروں کو موت بہر صورت ناگوار ہوتی ہے اور وہ لڑائی میں اپنی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ مومن جان دینے اور شہادت کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ ایمانی قوت ہے جس کی بنا پر ایک مومن اپنے جیسے ہم طاقت دس کافروں کے مقابلہ سے بھی جی نہیں چراتا اور نہ ہی اسے ہمت ہارنا چاہیے، بلکہ انہیں اپنے سے دس گنا کافروں پر غالب آنا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ : ” تحریض “ کا معنی خوب رغبت دلا کر کسی کام پر ابھار دینا ہے۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں جہاد کا ذکر تقریباً سات پاروں کے برابر بنتا ہے۔ کتب احادیث میں کتاب الجہاد اس کے فضائل سے بھری ہوئی ہیں۔ یہاں بیس مسلمانوں کو کفار کے دو سو آدمیوں پر غالب آنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ مگر یہ حکم خبر کی صورت میں ہے، کیونکہ یہ بات معروف ہے کہ حکم بہت تاکید کے ساتھ دینا ہو تو وہ خبر کے الفاظ میں دیا جاتا ہے، مثلاً یہ کہنا ہو ” سب لوگ نماز کے لیے مسجد میں جائیں “ تو کہا جاتا ہے ” سب لوگ مسجد میں جائیں گے۔ “ یہاں بیس مسلمانوں کو کفار کے دو سو آدمیوں پر غالب آنے کا حکم دیا جا رہا ہے مگر خبر کے الفاظ میں کہ اگر تم میں سے بیس صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔ مراد یہ ہے کہ غالب آئیں۔ اس کی دلیل اگلی آیت ہے کہ اب اللہ نے تم سے تخفیف کردی ہے، سو اگر تم میں سے ایک سو صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔ مراد یہ ہے کہ دو سو پر غالب آئیں، ظاہر ہے کہ تخفیف امر (حکم) میں ہوتی ہے، خبر میں نہیں۔ ان آیات میں خوش خبری بھی ہے مگر ایمان اور صبر کی شرط کے ساتھ۔ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ : یعنی سمجھ سے کام نہیں لیتے، نہ ثواب یا شہادت کے حصول کی نیت ہوتی ہے، نہ عذاب سے بچنے کی، نہ ہی وہ کسی پائدار اور دائمی مقصد کے لیے لڑتے ہیں، اس لیے ان میں وہ جذبہ اور اخلاقی قوت موجود نہیں ہوتی جو انھیں میدان جنگ میں ڈٹے رہنے کا حوصلہ عطا کرے، لہٰذا یہ ان سرفروش مجاہدین کا کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں جن کی بڑی تمنا شہادت کی فضیلت حاصل کرنا ہے ؟ بیس کے دو سو پر غالب آنے کے بعد سو کے ہزار پر غالب آنے کے بیان میں یہ حکمت ہے کہ لشکر چھوٹا ہو یا بڑا، ہر ایک کو یہ حکم ہے اور ہر ایک سے نصرت کا وعدہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mentioned for Muslims in the fourth (65) and fifth (66) verse, there is a law of war which stipulates the limit to which it was obligatory (fard) for them to stand resolutely against their adversary - and any retreat from which was a sin. In previous verses and events, it has been mentioned in detail that the unseen help of Allah Ta` ala is with Muslims for their matter is different, not like that of the peoples of the world at large. They, even if small in numbers, can overcome a lot more of their challengers as stated in the Holy Qur&an: كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَ‌ةً بِإِذْنِ اللَّـهِ There are many smaller groups which overcome larger groups with the will of Allah - 2:249). Therefore, ten Muslims were declared to be equal to one hundred men in the first Jihad of Islam at the famous battle of Badr where the command given was: إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُ‌ونَ صَابِرُ‌ونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ If there are twenty among you, who are patient, they will over-come two hundred; and if there are one hundred among you, they will overcome one thousand of those who disbelieve - 8:65 The style of expression used here is that of a welcome news flash - that one hundred Muslims shall overcome one thousand disbelievers. But, the purpose is to order that it is not permissible for one hundred Muslims to run against one thousand disbelievers. The wisdom behind using the style of news is to make the hearts of Muslims become strong with this glad tidings telling them that Allah is promising their safety and victory. Had this order been announced in the imperative mood as a law, it would have naturally weighed heavy on tempera¬ments. The encounter at Badr was the very first battle Muslims had ever fought. At that time, they were in a terrible condition. The total num¬ber of Muslims itself was insignificant. Then, all of them had not gone to the war front. The hard fact was that only those who could get ready on the spot were the ones who became the &army& of this war. Therefore, in this Jihad, one hundred Muslims were commanded to confront one thousand disbelievers in a style which carried the prom¬ise of Divine help and support.

تیسری اور چوتھی آیت میں مسلمانوں کے لئے ایک جنگی قانون کا ذکر ہے کہ ان کو کس حد تک اپنے حریف کے مقابلہ پر جمنا فرض اور اس سے ہٹنا گناہ ہے۔ پچھلی آیات اور واقعات میں اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد غیبی مسلمانوں کے ساتھ ہوتی ہے اس لئے ان کا معاملہ عام اقوام دنیا کا سا معاملہ نہیں یہ تھوڑے بھی بہت سوں پر غالب آسکتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے (آیت) كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ (یعنی بہت سی قلیل التعداد جماعتیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے کثرت والے مقابل پر غالب آجاتی ہیں) اس لئے اسلام کے سب سے پہلے جہاد غزوہ بدر میں دس مسلمانوں کو سو آدمیوں کے برابر قرار دے کر یہ حکم دیا گیا کہ : اگر تم میں بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو دشمنوں پر غالب آجائیں گے اور اگر تم سو ہوگے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجاؤ گے۔ عنوان تعبیر اس میں ایک خبر کا رکھا گیا ہے کہ سو مسلمان ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے مگر مقصد یہ حکم دینا ہے کہ سو مسلمانوں کو ایک ہزار کفار کے مقابلہ سے بھاگنا جائز نہیں۔ عنوان خبر کا رکھنے میں مصلحت یہ ہے کہ مسلمانوں کے دل اس خوشخبری سے مضبوط ہوجائیں کہ اللہ کا وعدہ ہماری حفاظت اور غلبہ کا ہے۔ اگر حکم کو بصیغہ امر قانون کی صورت میں پیش کیا جاتا تو فطری طور پر وہ بھاری معلوم ہوتا۔ غزوة بدر پہلے پہل کی جنگ ایسی حالت میں تھی جب کہ مسلمانوں کی مجموعی تعداد ہی بہت کم تھی اور وہ بھی سب کے سب محاذ جنگ پر گئے نہ تھے بلکہ فوری طور پر جو لوگ تیار ہوسکے وہی اس جنگ کی فوج بنے اس لئے جہاد میں سو مسلمانوں کو ایک ہزار کافروں کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا اور ایسے انداز میں دیا کہ فتح و نصرت کا وعدہ ساتھ تھا۔ چوتھی آیت میں اس حکم کو آئندہ کے لئے منسوخ کرکے دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ اب اللہ تعالیٰ نے تخفیف کردی اور معلوم کرلیا کہ تم میں ہمت کی کمی ہے سو اگر تم میں کے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے۔ یہاں بھی مقصد یہ ہے کہ سو مسلمانوں کو دو سو کافروں کے مقابلہ سے گریز کرنا جائز نہیں۔ پہلی آیت میں ایک مسلمان کو دس کے مقابلہ سے گریز ممنوع قرار دیا تھا اس آیت میں ایک کو دو کے مقابلہ سے گریز ممنوع رہ گیا۔ اور یہی آخری حکم ہے جو ہمیشہ کے لئے جاری اور باقی ہے۔ یہاں بھی حکم کو حکم کے عنوان سے نہیں بلکہ خبر اور خوشخبری کے انداز سے بیان فرمایا گیا ہے جس میں اشارہ ہے کہ ایک مسلمان کو دو کافروں کے مقابلہ پر جمنے کا حکم معاذ اللہ کوئی بےانصافی یا تشدد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان میں اس کے ایمان کی وجہ سے وہ قوت رکھ دی ہے کہ ان میں کا ایک دو کے برابر رہتا ہے۔ مگر دونوں جگہ اس فتح و نصرت کی خوشخبری کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے کہ یہ مسلمان ثابت قدم رہنے والے ہوں اور ظاہر ہے یہ قتل و قتال کے میدان میں اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر ثابت قدم رہنا اسی کا کام ہوسکتا ہے جس کا ایمان کامل ہو۔ کیونکہ ایمان کامل انسان کو شوق شہادت کا جذبہ عطا کرتا ہے اور یہ جذبہ اس کی طاقت کو بہت کچھ بڑھا دیتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۝ ٠ ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۝ ٠ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۝ ٦٥ حرض الحَرَض : ما لا يعتدّ به ولا خير فيه، ولذلک يقال لما أشرف علی الهلاك : حَرِضَ ، قال عزّ وجلّ : حَتَّى تَكُونَ حَرَضاً [يوسف/ 85] ، ( ح ر ض ) الحرض اس چیز کو کہتے ہیں جو نکمی ہوجائے اس لئے جو چیز قریب بہ ہلاکت ہوجائے اس کے متعلق حرض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ حَتَّى تَكُونَ حَرَضاً [يوسف/ 85] یا تو قریب بہ ہلاکت ہوجاؤ گے ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] عشر العَشْرَةُ والعُشْرُ والعِشْرُونَ والعِشْرُ معروفةٌ. قال تعالی: تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة/ 196] ، عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال/ 65] ( ع ش ر ) العشرۃ دس العشرۃ دسواں حصہ العشرون بیسواں العشر ( مویشیوں کا دسویں دن پانی پر وار ہونا ) قرآن میں ہے : تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة/ 196] یہ پوری دس ہوئے عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال/ 65] بیس آدمی ثابت قدم۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے مئة المِائَة : الثالثةُ من أصول الأَعداد، وذلک أنّ أصول الأعداد أربعةٌ: آحادٌ ، وعَشَرَاتٌ ، ومِئَاتٌ ، وأُلُوفٌ. قال تعالی: فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال/ 66] ، وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 65] ومائة آخِرُها محذوفٌ ، يقال : أَمْأَيْتُ الدَّراهِمَ فَأَمَّأَتْ هي، أي : صارتْ ذاتَ مِائَةٍ. م ی ء ) المائۃ ( سو ) یہ اصول میں تیسری اکائی کا نام ہے کیونکہ اصول اعداد چار ہیں آحا د عشرت مئات اور الوف ۔۔۔ قرآن پاک میں ہے :۔ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال/ 66] پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے ۔ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 65] اور اگر سو ( ایسے ) ہوں گے تو ہزاروں پر غالب رہیں گے ۔ اور مائۃ کا آخر ی حرف یعنی لام کلمہ مخذوف ہے ۔ اما یت الدرھم فا ماتھی یعنی میں نے دراہم کو سو کیا تو وہ سو ہوگئے ۔ أَلْفُ (هزار) : العدد المخصوص، وسمّي بذلک لکون الأعداد فيه مؤتلفة، فإنّ الأعداد أربعة : آحاد وعشرات ومئات وألوف، فإذا بلغت الألف فقد ائتلفت، وما بعده يكون مکررا . قال بعضهم : الألف من ذلك، لأنه مبدأ النظام، وقیل : آلَفْتُ الدراهم، أي : بلغت بها الألف، نحو ماءیت، وآلفت «1» هي نحو أمأت . الالف ۔ ایک خاص عدد ( ہزار ) کا نام ہے اور اسے الف اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں اعدار کے تمام اقسام جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ اعداد کی چار قسمیں ہیں ۔ اکائی ، دہائی ، سینکڑہ ، ہزار تو الف میں یہ سب اعداد جمع ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو عدد بھی ہو مکرر آتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ الف حروف تہجی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ میرا نظام بنتا ہے ۔ الفت الدراھم میں نے درہموں کو ہزار کردیا جسطرح مائیت کے معنی ہیں میں نے انہیں سو کر دیا ۔ الفت وہ ہزار کو پہنچ گئے جیسے امات سو تک پہنچ گئے قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ( ف ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مقابلے کے لئے اسلامی لشکر کا تناسب قول باری ہے (وان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مائتین، اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے آدمی ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے) تاآخر آیت۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت سنائی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رح) سے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت کے ذریعے یہ حکم دیا تھا کہ ایک مسلمان دس کافروں کا مقابلہ کرے یہ بات مسلمانوں کے لئے مشکل ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ارشاد ہوا (فان یکن منکم مائۃ صابرۃ یغلبوا مائتین و ان یکن منکم الف یغلبوا الفین۔ اگر تم میں سے سو صابر آدمی ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے، اگر اس طرح کے ایک ہزار آدمی ہوں گے تو وہ دو ہزار پر غالب آئیں گے) ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے انہیں اسماعیل بن ابراہیم نے ابن ابی نجیح سے، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے۔ انہوں نے فرمایا : جو مسلمان دشمن کے تین آدمیوں کے… مقابلہ سے راہ فرار اختیار کرے گا وہ فرار ہونے والا قرار نہیں پائے گا لیکن جو دشمن کے دو آدمیوں کے مقابلہ سے بھاگے گا وہ فرار ہونے والا کہلائے گا۔ “ حضرت ابن عباس (رض) کا اشارہ اس حکم کی طرف تھا جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اسلام کی ابتداء میں ایک سملمان پر دس کافروں کا مقابلہ فرض تھا اس لئے کہ اس وقت مسلمانوں کی بصیرت درست تھی اور ان کا یقین کامل تھا لیکچن جب دوسری قومیں بھی اسلام میں داخل ہوگئیں تو مسلمانوں کے ساتھ ایسے لوگ بھی آ ملے جن کی دروں بینی اور یقین اس درجے کا نہیں تھا جو صدر اسلام کے اہل ایمان کا تھا اس لئے تمام مسلمانوں کا بوجھ ہلکا کردیا گیا اور سب کو ایک ہی درجے پر رکھا گیا اور پھر ایک مسلمان پر دشمن کے دو آدمیوں کا مقابلہ فرض کردیا گیا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥) عزوہ بدر کے دن مومنین کو ترغیب دیجیے اور لڑائی پر ابھارئیے کہ اگر بیس آدمی بھی لڑائی میں ثابت قدم رہے تو دو سو کفار پر غلبہ حاصل کریں گے کیوں کہ وہ حکم الہی اور توحید خداوندی کو نہیں سمجھتے۔ شان نزول : (آیت) ” ان یکن منکم عشرون صبرون “۔ (الخ) اسحاق بن راہویہ (رح) نے اپنی مسند میں ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ ایک آدمی دس سے قتال کرے تو ان پر یہ چیز ناخوشگوار گزری تو اللہ تعالیٰ نے یہ تخفیف فرما دی کہ ایک آدمی دو سے قتال کرے چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اگر بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ (یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ ط) ۔ ہجرت کے بعد ٩ سال تک قتال کے لیے ترغیب ‘ تشویق اور تحریص کے ذریعے ہی زور دیا گیا۔ یہ تحریص گاڑھی ہو کر تحریض بن گئی۔ اس دور میں مجاہدین کی فضیلت بیان کی گئی ‘ ان سے بلند درجات کا وعدہ کیا گیا (النساء : ٩٥) مگر قتال کو ہر ایک کے لیے فرض عین قرار نہیں دیا گیا۔ لیکن ٩ ہجری میں غزوۂ تبوک کے موقع پر جہاد کے لیے نکلنا تمام اہل ایمان پر فرض کردیا گیا۔ اس وقت تمام اہل ایمان کے لیے نفیر عام تھی اور کسی کو بلا عذر پیچھے رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ (اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا ماءَتَیْنِ ج) (وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ ) ۔ یہاں سمجھ نہ رکھنے سے مراد یہ ہے کہ انہیں اپنے موقف کی سچائی کا یقین نہیں ہے۔ ایک طرف وہ شخص ہے جسے اپنے نظریے اور موقف کی حقانیت پر پختہ یقین ہے ‘ اس کا ایمان ہے کہ وہ حق پر ہے اور حق کے لیے لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جو نظریاتی طور پر ڈانواں ڈول ہے ‘ کسی کا تنخواہ یافتہ ہے یا کسی کے حکم پر مجبور ہو کر لڑ رہا ہے۔ اب ان دونوں اشخاص کی کارکردگی میں زمین و آسمان کا فرق ہوگا۔ چناچہ کفار کو جنگ میں ثابت قدمی اور استقلال کی وہ کیفیت حاصل ہو ہی نہیں سکتی جو نظریے کی سچائی پر جان قربان کرنے کے جذبے سے پیدا ہوتی ہے۔ دونوں اطراف کے افراد کی نظریاتی کیفیت کے اسی فرق کی بنیاد پر کفار کے ایک سو افراد پر دس مسلمانوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ اس کے بعد والی آیت اگرچہ زمانی لحاظ سے کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی مگر مضمون کے تسلسل کے باعث یہاں شامل کردی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

47. What is nowadays called morale has been described as 'understanding' in the Qur'an. The Qur'anic expression is more scientific than the currently used word 'morale'. For the word in this context refers to the one who is fully cognizant of his objective, who is quiet clear in his mind that the cause for which he has staked his life is much more valuable than his own life, and hence if that cause is left unrealized, his life will lose all its worth and meaning. Such a conscious, comitted person actually becomes many times more powerful than he who fights without any consciousness of his cause, even though the two might be comparable in physical strength. Above all, he who has a clear understanding of reality of his own being, of God, of his relationship with God, of the reality of life and death, and of life after death, who is also well aware of the difference between truth and falsehood, and of the consequences of the victory of falsehood over truth, his strength surpasses by far the strength of others for whom, even though they 'understand', their consciousness is related to nationalism or patriotism or class conflict. It is for this reason that the Qur'an declares that a believer with understanding is ten times stronger than an unbeliever. For the believer understands the truth and a non-believer does not. It may be remembered, however, that the verse also mentions another important factor in addition to 'understanding' which makes a believer much stronger than an unbeliever, and that is 'patience'.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :47 آج کل کی اصطلاح میں چیز کو قوت معنوی یا قوت اخلاقی ( Morale ) کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اسی کو فقہ و فہم اور سمجھ بوجھ ( Understanding ) سے تعبیر کیا ہے ، اور یہ لفظ اس مفہوم کے لیے جدید اصطلاح سے زیادہ سائنٹیفک ہے ۔ جو شخص اپنے مقصد کا صحیح شعور رکھتا ہو اور ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر اس لیے لڑ رہا ہو کہ جس چیز کے لیے وہ جان کی بازی لگانے آیا ہے وہ اس کی انفرادی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے اور اس کے ضائع ہو جانے کے بعد جینا بے قیمت ہے ، وہ بے شعوری کے ساتھ لڑنے والے آدمی سے کئی گنی زیادہ طاقت رکھتا ہے اگر چہ جسمانی طاقت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو ۔ پھر جس شخص کو حقیقت کا شعور حاصل ہو ، جو اپنی ہستی اور خدا کی ہستی اور خدا کے ساتھ اپنے تعلق اور حیات دنیا کی حقیقت اور موت کی حقیقت اور حیات بعد موت کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہو اور جسے حق اور باطل کے فرق اور غلبہ باطل کے نتائج کا بھی صحیح ادراک ہو ، اس کی طاقت کو تو وہ لوگ بھی نہیں پہنچ سکتے جو قومیت یا وطنیت یا طبقاتی نزاع کا شعور لیے ہوئے میدان میں آئیں اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ ایک سمجھ بوجھ رکھنے والے مومن اور ایک کافر کے درمیان حقیقت کے شعور اور عدم شعور کی وجہ سے فطرةً ایک اور دس کی نسبت ہے ۔ لیکن یہ نسبت صرف سمجھ بوجھ سے قائم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ صبر کی صفت بھی ایک لازمی شرط ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

45: چونکہ صحیح سمجھ نہیں رکھتے، اس لئے ایمان نہیں لاتے اور چونکہ ایمان نہیں لاتے، اس لئے اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد سے محروم رہتے ہیں، اور اپنی دس گنی زیادہ تعداد کے باوجود مسلمانوں سے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ اس آیت نے ضمنی طور پر یہ حکم بھی دیا کہ اگر کافروں کی تعداد مسلمانوں سے دس گنی زیادہ ہو تب بھی مسلمانوں کے لئے مقابلے سے پیچھے ہٹنا جائز نہیں، لیکن اگلی آیت بعد میں نازل ہوئی جس نے اس حکم میں تخفیف کردی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٥۔ ٦٦۔ جمہور مفسرین کے نزدیک پہلا ٹکڑا آیت کا جس میں ایک مسلمان کو دس کافروں سے مقابلہ کرنے کا حکم تھا آیت کے اس ٹکڑے سے منسوخ ہے اور اب یہی حکم ہے کہ ایک مسلمان دو کافروں سے مقابلہ کرے صحیح بخاری اور مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایت میں جہاد سے بھاگنے والے کو کبیرہ گناہ کا گناہ گار جو آنحضرت نے فرمایا ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس قدر مقابلہ سے آدمی نہ بھاگے ضرور کبیرہ گناہ کا گنہگار ٹھہریگا اور اس قدر سے زیادہ دشمنوں سے مقابلہ آن پڑے تو لڑنے کی صورت میں اجر ہے بھاگنے کی صورت میں گناہ نہیں صحیح بخاری اور ابواؤد میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ایک سے دس کے مقابلہ کا حکم منسوخ فرمایا اس وقت سے مسلمانوں کی ہمت اسی قدر کم ہوگئی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی اس قول کی تائید خود آیت کے مضمون سے ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ یہ تخفیف کا حکم تمہارے ضعف ہمت کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے کسی شخص کو کسی کام پر آمادہ کیا جائے تو عربی زبان میں ایسے موقعہ پر تحریض بولتے ہیں اسی واسطے حرض کا مرادی ترجمہ شاہ صاحب نے ” شوق دلانا “ کیا ہے۔ اس تفسیر میں ایک جگہ گذر چکا ہے کہ ایک دفعہ ایک خبر دے کر پھر اس کے برخلاف دوسری خبر دینے سے جھوٹ لازم آتا ہے اس لئے ناسخ منسوخ خبر کی آیتوں میں نہیں ہوتا فقط امرونہی کی آیتوں میں ہوتا ہے اس بنا پر مفسرین نے یہاں صابرون کے معنے فلیصبروا کے کئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے حکم کے منسوخ ہونے سے پہلے ایک مسلمان کو دس مخالفوں کے مقابلہ میں ثابت قدم رہنا چاہئے تھا اور اب پہلے حکم کے منسوخ ہوجانے کے بعد ایک مسلمان کو دو مخالفوں کے مقابلہ میں ثابت قدم رہنا چاہئے امر کی جگہ خبر کو جو رکھا گیا ہے اس سے تاکید نکلتی ہے گویا یوں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کی خبر دیتا ہے کہ جس کام کا تمہیں حکم دیا گیا ہے وہ ضرور تم کرو گے مشرک لوگ عقبے کے عذاب وثواب کی خبر نہیں رکھتے اس لئے ان کو ناسمجھ فرمایا ہے مطلب یہ ہے کہ عقبے کے ثواب کے قائل لوگ دین کی لڑائی میں عقبے کے اجر کے لالچ سے ثابت قدم رہ سکتے ہیں مشرکوں میں یہ بات نہیں ہے واللہ مع الصابرین کا یہ مطلب ہے ‘ کہ دین اللہ کا ہے اس لئے اللہ کا دین پھیلانے کی نیت ہے جو شخص دین کی لڑائی میں ثابت قدم رہے گا ہر دم ایسے شخص کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ موجود ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوسعید خدری (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ضعف اسلام کے سبب سے جب مسلمانوں میں یہ طاقت نہ رہے کہ وہ ہاتھ پاؤں سے لڑ کر شریعت کی باتوں کو قائم کرسکیں تو ایسے وقت میں زبانی نصیحت کافی ہے سفیان ثوری اور بعضے علماء سلف نے ضعف اسلام کے وقت کے وعظ نصیحت کو جہاد کا قائم مقام ٹھہرا کر یہ شرط اس میں بھی معتبر ٹھہرائی کہ دو مخالف لوگوں کے مقابلہ میں ایک واعظ وعظ و نصیحت چھوڑدیگا تو گنہگار ہوگا اس سے زیادہ کے مقابلہ میں نہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:65) حرض۔ تحریض (باب تفعیل) سے امر۔ واحد مذکر حاضر۔ تو رغبت دلا۔ تو ابھار۔ تو تاکید کر۔ تو آمادہ کر۔ الحرص۔ اس چیز کو کہتے ہیں جو نکمی ہوجائے اور درخوار اعتناء نہ رہے۔ اس لئے جو چیز قریب بہ ہلاکت ہوجائے اس کے متعلق حرض کہا جاتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے حتی تکون حرضا (12:85) یا تو قریب بہ ہلاکت ہوجاؤ گے۔ التحریض (باب تفعیل سے) کے معنی ازالۂ حرض کے ہیں۔ یعنی کسی چیز سے بگاڑ اور خرابی دور کردینا۔ جیسے مرضتہ میں نے اس کے مرض کو دور کردیا۔ تحریض کے معنی کسی کو مزین کرکے اور اسے آسان صورت میں پیش کرکے اس پر برانگیختہ کرنے کے ہیں۔ حرض المؤمنین علی القتال۔ مومنوں کو جہاد پر برانگیختہ کر ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی ایک مسلمان دس کافروں پر بھاری ہونا چاہیے اور اپنے سے دس گنا تعداد کے مقابلہ میں پیٹھ دے کر بھاگنا جائز نہیں ہے۔ پہلے یہی حکم نازل ہوا تھا پھر وہ حکم نازل ہوا جس کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے اور پہلے حکم میں تخفیف کردی گئی۔ ابن کثیر)2 یعنی بےمقصد لڑتے ہیں اور ان میں کوئی جذبہ اور اخلاقی قوت نہیں ہوتی جو انہیں میدان جنگ میں ڈٹے رہنے پر مجبور کرے۔ لہذا یہ ان سرفروش مجاہدین کا کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں جن کی بڑی تمنا شہادت کی فضیلت حاصل کر ناہو، اسی لیے حضرت عمر (رض) نے ایران کے کافروں کو لکھا تھا کہ میں تم سے لڑنے کے لیے ایسے لوگوں کو بھیج رہا ہوں جنہیں اللہ کی راہ میں شہید ہونے میں اتناہی مزہ آتا ہے۔ جتنا تمہیں شراب پینے میں، ( کذافی الوحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٦٥ تا ٦٩ اسرار و معارف نیزاے نبی ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دیں اس کے فضائل کے ساتھ اس کی ضرورت اور فوائد بھی بیان فرمائیں کہ اسلام بنیادی طور پر امن کا علمبردار ہے اور نہ صرف دنیا بلکہ آخروی امن و سکون کا ضامن ہے مگر ایسے عناصر جو اس امن ہی کے لیے خطرہ پیدا کردیں اور نہ صرف معاشرے کے ظاہری امن کو تباہ کرنے کے درپے ہوں بلکہ اخروی اور دائمی امن و سکون بھی لوٹناچا ہیں تو ان سے قتال ہی دوسروں کے لیے امن کی ضمانت ہے اور اللہ کریم کے نزدیک یہ اتنا پسند دیدہ عمل ہے کہ مسلمان جب بھی اس غرض سے میدان میں نکلیں گے اپنے سے دس گنابڑے دشمن پر غالب آئیں گے یعنی مسلمان جم کر لڑنے والے دوصدکفار پہ بھاری ہونگے اور ایک صد مسلمان ایک ہزار کے جرار کا منہ پھیردیگا۔ اس لے کہ کفار تو عظمت الٰہی سے بیگانہ ہیں اور اللہ کی معرفت کا ہی شعور نہیں پھر اسکی مدد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کی اس سے کوئی غرض نہیں محض اللہ کے حکم کی تعمیل میں سربکف ہیں تو نہیں اللہ کی نصرت بھی تو حاصل ہوگی ۔ توکل کا مدار اس ارشاد سے تو یہ لازم ہوگیا کہ ایک مسلمان دس کفار کے مقابلہ میں ضرور لڑے مگر یہ قوت ہمیشہ تو نہ رہے گی ۔ کہ درجات معرفت پہ مدار توکل بھی ہوا کرتا ہے جس کسی کو جس درجہ کی معرفت اور قرب الٰہی کا جو مقام نصیب ہوگا اسی درجہ کی نسبت سے توکل بھی ہوا کرتا ہے جس کسی کو جس درجہ کی معرفت اور قرب الٰہی کا جو مقام نصیب ہوگا اسی درجہ کی نسبت سے توکل بھی کرسکے گا اور اسی حساب سے مدد بھی حاصل کرسکے گا چناچہ پھر بعد میں تو یہ فضانہ رہے گی نہ کوئی اس مقام کو پاسکے گا۔ لہٰذ اللہ نے بوجھ کم کردیا ۔ اس لیے ہمتیں بھی تو وہ نہ رہیں گی یقینا کمی آئے گی تو اب ایک مسلمان دو کافروں پہ ایک صددوصدپہ اور ایک ہزار دوہزار کفار پر غلبہ حاصل کرلے گا صرف ایک شرط پر کہ وہ ثابت قدم رہے یعنی صبرکا مظاہرہ کرے ۔ عام زندگی میں بھی کہ احکام الٰہی کی تعمیل کرنا اور نافرمانی سے رک جانا صبر ہے اور میدان کارزار میں بھی جنگ کی سختیاں جھیلنا اور ثابت قدم رہنا اعلیٰ درجہ کا صبر ہے اس لیے اب یہ ہمیشہ کا قانون دیا جاتا ہے کہ مسلمان دوچندد شمن پہ غالب ہوں گے اس لیے کہ انہیں اللہ کی ذاتی مدد حاصل ہوگی بلکہ صبر وصف ہی ایسا ہے جو اللہ کی معیت کو پالیتا ہے اور جسے اللہ کی معیت حاصل ہو ایک جہان مل کر بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دوسری بات بدر کے قیدیوں کے بارے جو رائے صحابہ (رض) نے دی وہ مناسب نہ تھی اس لیے کہپ بدر میں قیدہونے والوں میں اہل مکہ کے رؤساکی کثرت تھی سترقتل ہوئے دوسرے قید ہوگئے اگر یہ بھی قتل ہوجاتے تو یہ فتنہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا کہ مشرکین کے پاس قیادت ہی نہ رہتی اور یہ بہت عجیب بات ہے ۔ قیادت ہی اقوام کی تقدیر ہوا کرتی ہے کہ ہمیشہ قیادت ہی اقوام کی تقدیر ہوا کرتی ہے۔ میں لندن میں برطانوی پارلمنٹ ہاؤس کے پاس کھڑایہ سوچ رہا تھا کہ یہ چھوٹا ساجزیرہ ہے جو برطانیہ کہلاتا ہے ۔ چند لاکھ کی آبادی تھی جب انہوں نے روئے زمین پر اقوام کو غلام بنا کر حکومت کی اور یہ پارلیمنٹ ہاؤس ملکوں اور قوموں کی تقدیروں کے فیصلے کیا کرتا تھا مادی ترقی کے اعتبار سے بھی اور دولت کے اعتبار سے بھی یہ لوگ بہت آگے ہیں۔ افراد کی تعداد کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے مگر حکومت سمٹ کر پھر صرف جزیرے پر رہ گئی ہے آخر اس کی کوئی وجہ ؟ تو ایک دوست نے میری تشویش سن کر کہا یہ صرف قیادت کا فرق ہے لوگ وہی ہیں میں قیامت وہ نہیں اور اس کی بات بالکل درست تھی میں برطانوی قیادت کا کبھی مداح نہیں رہا کہ انہوں نے کبھی صحیح کھیل پیش نہیں کیا ہمیشہ عیاری اور ظلم ہی سے اپنی تاریخ لکھی ہے یہ الگ بحث ہے مگر انہوں نے اقوام عالم سے اپنا لوہا تو منوایا اب موجو دہ قیادت تو عیاری سے بھی وہ کچھ نہی کرسکتی ۔ یہی حال عرب اقوام کا ہے کہ ہمیشہ یہ دکھ رہتا تھا افسوس عرب ختم ہوگئے چندلاکھ یہودی ان کے سینہ پر ہونگ دل رہے ہیں اور عرب بےبس مگر جہاد افغانستان میں عرب مجاہدین کے کارناموں نے صحابہ کرام (رض) کی یاد تازہ کردی ہے اور بات پھر وہیں پہنچی کہ عرب نہیں بگڑے ان کی قیادت وہ نہ رہی یہی حال اپنے ملک کا ہے اور تمام طبقوں پہ نظر کرلیں کہ اہل قیادت کا فرق طبقوں کے حالات سے سامنے آجائے گا یہی بات یہاں ارشاد فرمائی کہ نبی کی شان یہ ہے کہ کفر کی سطوت تو ڑدے اور ایسے لوگ جن سے امید اصلاح نہ رہے اگر ہاتھ آجائیں تو انہیں قتل کردیا جائے کہ یہ چند افراد کا قتل سینکڑوں اور ہزاروں جانوں کے بچ جانے کا سبب بنے گا ورنہ تو ایسے لوگ پھر جنگ کی آگ بھڑکائیں گے۔ انسانی نگاہ اگر چہ فوری منافع تک ہی پہنچ سکتی ہے مگر اللہ کریم تو ایسی بات پسند فرماتے ہیں جو اخروی اور دائمی زندگی میں ان کی مخلوق کو نفع دے اس لیے کہ اللہ غالب بھی ہیں اور حکمت بھی نیز تم پر غنیمت حلال ہوچکی اور فدیہ لے کررہا کرنے سے جو مال ہاتھ آیایہ بھی غنیمت ہی ہے لہٰذا کوئی مواخذہ نہ ہو اور نہ تو مال لے کر کافر قیدی کو رہا کرنے پر تم لوگ بہت بڑے عذاب میں گرفتار ہوجاتے ۔ دراصل بدرپہلی باقاعدہ جنگ تھی اور اسی معرکے میں آئندہ جنگ اور مابعد جنگ کے اصول بھی مقررفرمائے گئے اور اسی میں پہلی بار غنیمت بھی حلال ہوئی جب مشرکین مکہ کے قیدیوں کے بارے آپ نے مسلمان کا رشتہ دار ہے وہ اسے قتل کرے دوسرے تمام صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ ان سب کو قتل کردیا جائے اور جو آدمی جس مسلمان کا رشتہ دار ہے وہ اسے قتل کرے دوسرے تمام صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ ان سے فدیہ لیا جائے اور چھوڑ دیا جائے کہ مسلمانوں کو مالی فائدہ پہنچے گا نیز ممکن ہے یہ بھی اسلام قبول کرلیں ۔ اگر دوبارہ شرارت کریں گے تو پھر مقابلہ کریں گے اللہ کی مدد تو ہمارے ساتھ ہے ۔ آپ نے دوسرا مشورہ قبول فرمایا اور جن کے پاس مال نہ تھا انہیں چند مسلمانوں کو پڑھا نے کا کام بطورفدیہ دیا اس پر یہ احکام نازل ہوئے کہ نبی کو زیب نہیں دیتا کہ فساد اور فتنہ کا بانی اور باعث شخص اس کے قابو آکر بچ جائے بلکہ اسے کچل دینا ہی مناسب ہے مگر چونکہ غنیمت حلال ہوچکی اور چھوڑ دینے میں وقتی فائدہ بھی تھا اس لیے مشورہ دینے والے کبھی بچ گئے ورنہ سخت گرفت میں آچکے ہوتے ۔ اب جو مال حاصل کرلیا ہے کھاؤپیوکہ غنیمت حلال بھی ہے اور طیب بھی اور اللہ سے ڈرتے رہو ہمیشہ اس کی رضا کے طلب گار رہو وہی بخشنے والا ہے اور بہت رحم کرنے والا بھی ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ ہرچند کہ یہاں لفظا صیغہ خبر کا ہے کہ اتنے آدمی اتنوں پر غالب آجائیں گے لیکن مقصود خبر نہیں بلکہ انشاء اور امر ہے یعنی قرار واجب ہے اور فرارحرام ہے اور بعنوان خبر تعبیر کرنے میں بطور کنایہ کے مبالغہ و تاکید ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جیسا غلبہ کی خبر یقینی ہونے پر ثبات واجب ہونا چاہیے اسی طرح واجب ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دشمن کی دو گنی تعداد ہو تب بھی راہ فرار اختیار کرنا جائز نہیں ان آیات میں اول تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرمایا کہ آپ مومنین کو جہاد کی ترغیب دیں۔ آپ جہاد کی ترغیب دیتے تھے اور اس کے منافع بتاتے تھے جس میں سب سے بڑی چیز اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے آپ کی ترغیب اور تحریض پر حضرات صحابہ (رض) خوب ثابت قدمی کے ساتھ لڑتے تھے اور جانیں دیتے تھے۔ اس کے بعد فرمایا کہ مسلمانوں میں سے اگر بیس آدمیوں کی تعداد ہوگی اور وہ ثابت قدمی کے ساتھ جم کر لڑیں گے تو اپنے مقابل کافروں کے دو سو افراد پر غالب آئیں گے اور اگر سو مسلمان ہوں گے تو وہ ایک ہزار کافروں پر غالب ہوں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی تھا اور اس وعدہ میں یہ حکم بھی مضمر ہے کہ مسلمان اپنے سے دس گنا تعداد کے مقابلہ میں راہ فرار اختیار نہ کریں اور جم کر لڑیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس گنا تعداد کے مقابلہ میں غلبہ پانے کا وعدہ ہوگیا تو اب راہ فرار اختیار کرنے کا کوئی موقع نہ رہا۔ صاحب روح المعانی ص ٣١ ج ١٠ میں لکھتے ہیں۔ شرط فی معنی الامر بمصابرۃ الواحد العشرۃ و الوعد بأنھم ان صبروا غلبوا بعون اللہ و تائید فالجملۃ خبریۃ لفظاً انشائیۃ معنیً ۔ (یہاں سے دس کافروں کے مقابلہ میں ایک مومن کے غلبہ کے معاملہ میں صبر کی شرط لگائی گئی ہے اور وعدہ اس طرح ہے کہ اگر یہ صبر کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اور تائید سے غالب آئیں گے پس جملہ لفظی طور پر خبر یہ ہے مگر معنیً انشائیہ ہے) ۔ یہ جو فرمایا (بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ ) اس میں یہ بتایا کہ کافر اس وجہ سے مغلوب ہوں گے کہ وہ سمجھ نہیں رکھتے، اللہ کو اور آخرت کے دن کو نہیں جانتے، وہ ثواب کے لیے اور اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے کے لیے اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نہیں لڑتے ان کا لڑنا حمیت جاہلیہ اور شیطان کے اتباع کی وجہ سے ہے بخلاف اہل ایمان کے کہ وہ اللہ کی رضا کے لیے اور اس کا بول بالا کرنے کے لیے لڑتے ہیں۔ لا محالہ وہ غالب ہوں گے اور کافر مغلوب ہوں گے۔ (کذا فسرہ صاحب الروح)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

65: یہ پانچواں قانون جہاد ہے برائے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ حاصل یہ ہے کہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اللہ کافی ہے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر اور کارساز ہے آپ ایمان والوں کو جہاد کی ترغیب دیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ اگر تم تعداد میں کم ہوگے تو بھی تمہیں دشمن پر فتح اور غلبہ عطا کروں گا۔ “ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤمِنِیْن ” یہ “ حَسْبُکَ ” میں کاف ضمیر پر معطوف ہے یا بقول امام زجاج یہ مفعول معہ ہے یا یہ مبتدا ہے اور اس کی خبر محذوف ہے۔ “ اي من اتبعک من المؤمنین کذالک اي حسبھم اللہ تعالیٰ ” حاصل یہ ہے کہ آپ کو اور ایمان والوں کو تمام مہمات میں اللہ کافی ہے (روح، بحر، کبیر، مدارک) ۔ لفظ اللہ پر اس کو معطوف ماننا غلط ہے۔ کیونکہ کفایت کرنے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ علامہ ابن القیم نے زاد المعاد جلد اول میں اس پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور اس کا عطف لفظ اللہ پر بالکل غلط ثابت کیا ہے۔ 66: عام مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت اس سے بعد کی آیت یعنی “ اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰه الخ ” سے منسوخ ہوچکی ہے۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ اگر “ حَرِّضِ الْمُؤمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَال ” کو منسوخ مانا جائے تو یہ غلط ہے کیونکہ اس میں ترغیب الی الجہاد ہے جو بالاتفاق منسوخ نہیں اور اگر “ اِنْ يَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْن الخ ” کو منسوخ مانا جائے تو یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ خبر ہے اور خبر میں نسخ نہیں ہوتا بلکہ احکام میں ہوتا ہے البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے بیس مسلمانوں پر دو سو کافروں سے جنگ کرنا فرض تھا اب اس آیت سے فرضیت منسوخ ہوگئی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں۔ “ شق ذٰلک علی المسلمین اذ فرض علیھم ان لا يفر واحد من عشرة فجاء التخفیف ” (روح ج 10 ص 32) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

65 اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مسلمانوں کو جہاد کا شوق دلائیے اور مسلمانوں کو جہاد کے لئے ابھاریئے اگر تم مسلمانوں میں سے بیس آدمی بھی صابر اور ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ دشمنوں کے دو سو افراد پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گے تو وہ دشمنوں کے ہزار افراد پر غالب ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ منکر لوگ ایسے ہیں جو دین کی کچھ سمجھ نہیں رکھتے۔ مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ دس گنی تعداد کے مقابلہ میں پس پانہ ہوں اگر بیس مسلمان ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر اور اگر سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ناسمجھ ہونے کی وجہ سے کفر پر اڑے ہوئے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کی تائید غیبی سے محروم ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی یقین نہیں رکھتے اللہ پر اور ثواب پر اور جس کو یقین ہے وہ موت پر دلیر ہے۔ 12