Surat ut Takveer

Surah: 81

Verse: 16

سورة التكوير

الۡجَوَارِ الۡکُنَّسِ ﴿ۙ۱۶﴾

Those that run [their courses] and disappear -

پھر چلنے پھرنے والے چھپنے والے ستاروں کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ But nay! I swear by Al-Khunnas, Al-Jawar Al-Kunnas, and by the night when it `As`as, and by the day when it Tanaffas." Ibn Jarir recorded from Khalid bin Ar`arah that he heard Ali being asked about the Ayah; الْجَوَارِ الْكُنَّسِ , فَلَ أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ (Nay! I swear by Al-Khunnas, Al-Jawar Al-Kunnas.) and he said, "These are the stars that withdraw (disappear) during the day and sweep across the sky (appear) at night." Concerning Allah's statement, وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 یہ ستارے دن کے وقت اپنے منظر سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور نظر نہیں آتے اور یہ زحل، مستری، مریخ، زہرہ، عطارد ہیں، یہ خاص طور پر سورج کے رخ پر ہوتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ سارے ہی ستارے مراد ہیں، کیونکہ سب ہی اپنے غائب ہونے کی جگہ پر غائب ہوجاتے ہیں یا دن کو چھپے رہتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الْجَـــوَارِ الْكُنَّسِ۝ ١٦ ۙ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ كُنَّسِ الزَّجَّاجُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوارِ الْكُنَّسِ قَالَ : أَكثر أَهل التَّفْسِيرِ فِي الخُنَّسِ أَنها النُّجُومُ وخُنُوسُها أَنها تَغِيبُ وتَكْنِسُ تَغِيبُ أَيضاً كَمَا يَدْخُلُ الظَّبْيُ فِي کناسِهِ. قَالَ : والخُنَّسُ جَمْعُ خَانِسٍ. وَفَرَسٌ خَنُوسٌ: وَهُوَ الَّذِي يَعْدِلُ ، وَهُوَ مُسْتَقِيمٌ فِي حُضْرِه، ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ، وَكَذَلِكَ الأُنثی بِغَيْرِ هَاءٍ ، وَالْجَمْعُ خُنُسٌ وَالْمَصْدَرُ الخَنْسُ ، بِسُكُونِ النُّونِ. ابْنُ سِيدَهْ : فَرَسٌ خَنُوس يَسْتَقِيمُ فِي حُضْره ثُمَّ يَخْنِسُ كأَنه يَرْجِعُ الَقهْقَرى. والخَنَسُ فِي الأَنف : تأَخره إِلى الرأْس وَارْتِفَاعُهُ عَنِ الشَّفَةِ وَلَيْسَ بِطَوِيلٍ وَلَا مُشْرِف، وَقِيلَ : الخَنَسُ قَرِيبٌ مِنَ الفَطَسِ ، وَهُوَ لُصُوق القَصَبة بالوَجْنَةِ وضِخَمُ الأَرْنَبَةِ ، وَقِيلَ : انقباضُ قَصَبَة الأَنف وعِرَض الأَرنبة، وَقِيلَ : الخَنَسُ فِي الأَنف تأَخر الأَرنبة فِي الْوَجْهِ وقِصَرُ الأَنف، وَقِيلَ : هُوَ تأَخر الأَنف عَنِ الْوَجْهِ مَعَ ارْتِفَاعٍ قَلِيلٍ فِي الأَرنبة؛ وَالرَّجُلُ أَخْنَسُ والمرأَة خَنْساءُ ، وَالْجَمْعُ خُنْسٌ ، وَقِيلَ : هُوَ قِصَرُ الأَنف وَلُزُوقُهُ بِالْوَجْهِ ، وأَصله فِي الظِّبَاءِ وَالْبَقَرِ ، خَنِسَ خَنَساً وَهُوَ أَخْنَسُ ، وَقِيلَ : الأَخْنس الَّذِي قَصُرَتْ قَصَبته وارتدَّت أَرنبته إِلى قَصَبَتِهِ ، وَالْبَقَرُ كُلُّهَا خُنْسٌ ، وأَنف الْبَقَرِ أَخْنَسُ لَا يَكُونُ إِلا هَكَذَا، وَالْبَقَرَةُ خَنْساءُ ، والتُّرک خُنْسٌ؛ وَفِي الْحَدِيثِ : تُقَاتِلُونَ قَوْمًا خُنْسَ الآنُفِ وَالْمُرَادُ بِهِمُ التُّرْكُ لأَنه الْغَالِبُ عَلَى آنَافِهِمْ وَهُوَ شِبْهُ الفَطَسِ؛ وَمِنْهُ حَدِيثُ أَبي المِنْهال فِي صِفَةِ النَّارِ : وَعَقَارِبُ أَمثال الْبِغَالِ الخُنُسِ. وَفِي حَدِيثُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ : واللَّه لفُطْسٌ خُنْسٌ ، بزُبْدٍ جَمْسٍ ، يَغِيبُ فِيهَا الضَّرْسُ أَراد بالفُطْسِ نَوْعًا مِنَ التَّمْرِ تَمْرِ الْمَدِينَةِ وَشُبَّهَهُ فِي اكْتِنَازِهِ وَانْحِنَائِهِ بالأُنوف الخُنْسِ ( لسان العرب)

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: بعض ستارے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کبھی مشرق سے مغرب کی طرف چلتے نظر آتے ہیں، اور کبھی مغرب سے مشرق کی طرف۔ گویا وہ ایک سمت میں چلتے چلتے واپس پلٹ رہے ہیں، پھر چلتے چلتے نگاہوں سے غائب ہوجاتے ہیں، گویا کہیں دبک کر چھپ گئے ہیں۔ ان ستاروں کی یہ گردش اﷲ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا عجیب مظہر ہے۔ اس لئے ان کی قسم کھائی گئی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(81:16) الجوار الکنس یہ دونوں الخنس کی صفت ہیں الجوار جمع ہے جاریۃ کی یعنی جاری ہونے والی۔ یعنی سیدھا چلنے والی۔ الکنس : کانس کی جمع ہے۔ کناس (باب ضرب) مصدر سے اسم فاعل کا جمع مذکر کا صیغہ ہے۔ کناس ہرن کے رہنے کی جھاڑی کو بھی کہتے ہیں اور اس میں ہرن کے چھپنے کو بھی۔ یہاں چھپنے والے سیارے مراد ہیں۔ بعض کے نزدیک عام ستارے مراد ہیں جو رات کو نکلتے ہیں اور دن کو نمودار نہیں ہوتے ۔ ترجمہ ہر دو آیات کا یہ ہوگا :۔ پس میں قسم کھاتا ہوں خنس کی جو الجوار اور الکنس ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ان سے مراد جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے پانچ سیارے ہیں یعنی زحل، مشتری، مریخ، زہرہ اور عطارد (شوکانی) شاہ صاحب ( علیہ السلام) لکھتے ہیں : ان کی چال اس ڈھب سے ہے کہ کبھی مغرب سے مشرق کو چلیں یہ سیدھی ہوتی ( اور) کبھی ٹھٹک کر الٹے پھریں اور کبھی سورج کے پاس آکر غائب رہیں کتنے دنوں تک۔ (موضح) یہاں بھی ” فلا اقسم “ میں لا ‘ زائد ہے اس لئے مطلب یہ ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) اور پیچھے ہی چلتے رہتے ہیں اور کچھ دنوں کو چھپ جاتے ہیں۔