Surat ul Mutafifeen

Surah: 83

Verse: 29

سورة المطففين

اِنَّ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا کَانُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یَضۡحَکُوۡنَ ﴿۲۹﴾۫ ۖ

Indeed, those who committed crimes used to laugh at those who believed.

گنہگار لوگ ایمان والوں کی ہنسی اڑیا کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Wicked Behavior of the Criminals and Their mocking of the Believers Allah says; إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُواْ مِنَ الَّذِينَ امَنُوا يَضْحَكُونَ وَإِذَا مَرُّواْ بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ

یعنی دنیا میں تو ان کافروں کی خوب بن آئی تھی ایمان داروں کو مذاق میں اڑاتے رہے ، چلتے پھرتے آواز کستے رہے اور حقارت و تذلیل کرتے رہے اور اپنے والوں میں جا کر خوب باتیں بناتے تھے جو چاہتے تھے پاتے تھے لیکن شکر تو کہاں اور کفر پر آمادہ ہو کر مسلمانوں کی ایذار سانی کے درپے ہو جاتے تھے اور چونکہ مسلمان ان کی مانتے نہ تھے تو یہ انہیں گمراہ کہا کرتے تھے اللہ فرماتا ہے کچھ یہ لوگ محافظ بنا کر تو نہیں بھیجے گئے انہیں مومنوں کی کیا پڑی کیوں ہر وقت ان کے پیچھے پڑے ہیں اور ان کے اعمال افعال کی دیکھ بھال رکھتے ہیں اور طعنہ آمیز باتیں بناتے رہتے ہیں؟ جیسے اور جگہ ہے اخسؤا فیھا الخ یعنی اس جہنم میں پڑے جھلستے رہو مجھ سے بات نہ کرو میرے بعض خاص بندے کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم کر تو سب سے بڑا رحم و کرم کرنے والا ہے تو تم نے انہیں مذاق میں اڑایا اور اس قدر غافل ہوئے کہ میری یاد بھلا بیٹھے اور ان سے ہنسی مداق کرنے لگے دیکھو آج میں نے انہیں ان کے صبر کا یہ بدلا دیا ہے کہ وہ ہر طرح کامیاب ہیں یہاں بھی اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ آج قیامت کے دن ایماندار ان بدکاروں پر ہنس رہے ہیں اور تختوں پر بیٹھے اپنے اللہ کو دیکھ رہے ہیں جو اس کا صاف ثبوت ہے کہ یہ گمراہ نہ تھے گو تم انہیں گم کردہ راہ کہا کرتے تھے بلکہ یہ دراصل اولیاء اللہ تھے مقربین اللہ تھے اسی لیے آج اللہ کا دیدار ان کی نگاہوں کے سامنے ہے یہ اللہ کے مہمان ہیں اور اس کے بزرگی والے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں جیسا کچھ ان کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ دنیا میں کیا تھا اس کا پورا بدلہ انہیں آخرت میں مل گیا یا نہیں؟ ان کے مذاق کے بدلے آج ان کی ہنسی اڑائی گئی یہ ان کا مرتبہ گھٹاتے تھے اللہ نے ان کا مرتبہ بڑھایا غرض پورا پورا تمام و کمال بدلہ دے دیا ۔ الحمد اللہ سورہ مطففین کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 یعنی انہیں حقیر جانتے ہوئے ان کا مذاق اڑاتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ان الذین اجرموا…:” یضحکون “ ہنسا کرتے تھے “ کہ ان پر کیا پاگل پن سوار ہے کہ دنیا کی نقد لذتوں کو چھوڑ کر کل کی ان دیکھی خیالی لذتوں کے وعدوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔” کانوا “ اور ” یضحکون “ کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ یہ ان کا ہمیشہ کا مشغلہ تھا۔ یہ صرف مکہ کے مشرکین کی بات نہیں، آج کے ملحد اور بےدین بھی مسلمانوں کو رجعت پسند، دقیانسوی، تنگ نظر، تاریک خیال اور اس قسم کے طنزیہ خطابات دے کر خوش ہوتے اور اپنے دل کا بخار نکالتے رہتے ہیں۔ بہت شاعروں نے بھی جنت اور اہل جنت پر چوٹیں کی ہیں، ان سب کو ان آیات کے مضمون سے ڈرنا چاہیے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ (Indeed those who were guilty used to laugh at those who believed, 83:29). In these verses, Allah depicts fully the attitudes of the followers of falsehood [ non-believers ] towards the upholders of truth [ the believers ]. The non-believers used to laugh at the believers in the worldly life. In other words, they would mock at them and despise them. Whenever they would pass by the believers, they would wink at each other in contempt of them. When the non-believers returned home, they would take great pleasure in describing the mocking manner in which they treated the poor believers, saying that Muhammad has misled the simpletons. If we review the situation today, [ it is no better ]. People, whose minds are contaminated with contemporary secular education, are careless about the religion and the Hereafter. Belief in Allah and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is nominal. They treat the [ religious ] scholars and righteous people exactly in the same manner as the non-believers used to treat the Companions (رض) in the days of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ]. May Allah salvage the Muslims from this painful scourge. There is much solace in this verse for the righteous believers. Never bother about their laughter and mockery. How well a poet puts it: ہنسے جانے سے جب تک ہم ڈریں گے زمانہ ہم پہ ہنسا ہی رہے گا &So long as we fear people&s laughter [ at us ], the people will continue laughing at us& All amdulillah The Commentary on Surah At-Tatfif Ends here

(آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَضْحَكُوْنَ ، ان آیات میں حق تعالیٰ نے اہل حق کے ساتھ اہل باطل کے طرز عمل کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے کہ کفار اہل باطل مومین اہل حق پر استہزا ہنستے اور دل لگی کرتے ہیں اور جب اہل حق ان کے سامنے آتے ہیں تو یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو آنکھ کے اشارے کرتے ہیں جس سے مقصود بھی ان کی اشتہزا اور ایذا رسانی ہوتی ہے۔ پھر جب یہ کفار اہل باطل اپنے اپنے ٹھکانوں پر لوٹتے ہیں تو مومنین کے ساتھ جو تمسخر اور استہزا کیا ہے اس کا باہم تذکرہ مزے لے کر کرتے ہیں کہ ہم نے خوب ان لوگوں کو ذلیل کیا۔ اور جب کفار مومنین کو دیکھتے ہیں تو بظاہر ہمدردی کے لہجہ میں اور درحقیقت تمسخر کیلئے یہ کہتے ہیں کہ یہ بیچارے بڑے سادہ لوح بیوقوف ہیں ان کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمراہ کردیا ہے۔ آجکل کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت وہ لوگ جو کچھ نئی تعلیم کی نحوست سے دین وآخرت سے بےفکر ہوچکے ہوتے ہیں خدا اور رسول پر ایمان برائے نام رہ جاتا ہے وہ علما وصلحا کے ساتھ بعینہ اسی طرح کا معاملہ کرتے ہیں، حق تعالیٰ مسلمانوں کو اس عذاب الیم سے نجات عطا فرماویں۔ مومین صالحین کے لئے اس آیت میں تسلی کا کافی سامان ہے کہ ان کے ہنسنے کی پروانہ کریں، کسی نے خوب کہا ہے۔ ہنسے جانے سے جبتک ہم ڈریں گے زمانہ ہم پہ ہنستا ہی رہے گا تمت سورة التطفیف والحمد اللہ لیلة یوم الاثنین ٢١ شعبان ٩١٣١

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَضْحَكُوْنَ۝ ٢٩ ۡ ۖ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ ضحك الضَّحِكُ : انبساطُ الوجه وتكشّر الأسنان من سرور النّفس، ولظهور الأسنان عنده سمّيت مقدّمات الأسنان الضَّوَاحِكِ. قال تعالیٰ “ وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود/ 71] ، وضَحِكُهَا کان للتّعجّب بدلالة قوله : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 73] ، ويدلّ علی ذلك أيضا قوله : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود/ 72] ، وقول من قال : حاضت، فلیس ذلک تفسیرا لقوله : فَضَحِكَتْ كما تصوّره بعض المفسّرين «1» ، فقال : ضَحِكَتْ بمعنی حاضت، وإنّما ذکر ذلک تنصیصا لحالها، وأنّ اللہ تعالیٰ جعل ذلک أمارة لما بشّرت به، فحاضت في الوقت ليعلم أنّ حملها ليس بمنکر، إذ کانت المرأة ما دامت تحیض فإنها تحبل، ( ض ح ک ) الضحک ( س) کے معنی چہرہ کے انبساط اور خوشی سے دانتوں کا ظاہر ہوجانا کے ہیں اور ہنستے وقت چونکہ سامنے کے دانت ظاہر ہوجاتے ہیں اس لئے ان کو ضواحک کہاجاتا ہے اور بطور استعارہ ضحک بمعنی تمسخر بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ ضحکت منہ کے معنی ہیں میں نے اس کا مذاق اڑایا اور جس شخص کا لوگ مذاق اڑائیں اسے ضحکۃ اور جو دوسروں کا مذاق اڑائے اسے ضحکۃ ( بفتح الحاء ) کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود/ 71] اور حضرت ابراہیم کی بیوی ( جوپ اس ) کھڑیتی ہنس پڑی ۔ میں ان کی بیوی ہنسنا تعجب کی بنا پر تھا جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 73] کیا خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو سے معلوم ہوتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود/ 72] اسے ہے میرے بچو ہوگا ؟ میں تو بڑھیا ہوں ۔۔۔۔ بڑی عجیب بات ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور جن لوگوں نے یہاں ضحکت کے معنی حاضت کئے ہیں انہوں نے ضحکت کی تفسیر نہیں کی ہے ۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے سمجھا سے بلکہ اس سے حضرت ابراہیم کی بیوی کی حالت کا بیان کرنا مقصود ہے کہ جب ان کو خوشخبری دی گئی تو بطور علامت کے انہیں اسی وقت حیض آگیا ۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کا حاملہ ہونا بھی کچھ بعید نہیں ہے ۔ کیونکہ عورت کو جب تک حیض آتا ہے وہ حاملہ ہوسکتی ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٩۔ ٣٦) اور جو مشرک تھے یعنی ابو جہل وغیرہ وہی ایمان والوں یعنی حضرت علی پر ہنسا کرتے تھے اور جب ایمانداروں کا حضور کے پاس آنے کے لیے ان پر سے گزر ہوتا تھا تو آپس میں آنکھوں سے اشارے کرتے تھے اور جب یہ کافر اپنے گھروں کو جاتے تھے تو اپنے شرک پر خوشی اور مسلمانوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور صحابہ کرام کو دیکھ کر یہ کافر کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ گمراہ ہیں۔ حالانکہ یہ کافر مسلمانوں پر اور ان کے اعمال پر نگراں نہیں بھیجے گئے، سو آج قیامت کے دن ایمان والے کافروں پر ہنستے ہوں گے، مسہریوں پر بیٹھے کافروں کا حال دیکھ رہے ہوں گے، واقعی کافروں کو آخرت میں ان کے دنیا میں کیے گئے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩{ اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا کَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَکُوْنَ ۔ } ” یقینا جو مجرم تھے وہ اہل ِ ایمان پر ہنسا کرتے تھے۔ “ وہ اہل ایمان کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ دیکھو ان بیوقوفوں کو جنہوں نے آخرت کے موہوم وعدوں پر اپنی زندگی کی خوشیاں اور آسائشیں قربان کردی ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٩۔ ٣٦۔ اوپر جنتوں اور دوزخیوں کا ذکر تھا اسی ذکر کو پورا کرنے کے لئے اس مدنی سورة میں کچھ مکہ کے نافرمان صاحب نخوت مشرک لوگوں کا ذکر فرمایا۔ حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ ابوجہل ‘ ولید بن مغیرہ اور اس قسم کے مالدار لوگ بلالو عمار جیسے غریب مسلمانوں کو طرح طرح کی مسخرا پن کی باتوں میں اڑاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں تو اس قصہ کا یہ فیصلہ کیا کہ یہ رشک مالدار لوگ ان غریب مسلمانوں کے قول و فعل کی نگرانی و نگہبانی کے لئے نہیں پیدا کئے گئے ہیں جو یہ ہر وقت ان غریب مسلمانوں کے درپے رہتے ہیں ان کو اپنے کام سے کام دوسروں سے ان کو کیا غرض اور عقبیٰ کا دونوں فریق کا یہ حال سنایا کہ وہاں کا معاملہ برعکس ہوگا کہ یہ غریب مسلمان تختوں پر شاہانہ ٹھاٹ سے بیٹھے ہوئے جنت کے باغوں کی سیر کر رہے ہوں گے۔ اس سیر میں جنت کے بلند مکانوں کی سیر گاہوں سے جب ان غریب مسلمانوں کی نظر دوزخ میں ان مشرک لوگوں پر جا پڑے گی اور دیکھیں گے کہ دنیا میں ان پر ہنسنے والے لوگ آج عجیب ذلت اور خواری میں ہیں تو ان غریب مسلمانوں کو بھی ان مشرکوں پر ہنسی آئے گی اور آپس میں یہ تذکرہ کریں گے کہ ان مشرکوں نے دنیا میں جیسا کیا ویسا ہی پھل پا لیا یا نہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کئے کا پورا ثمرہ پا لیا۔ ثواب بدلہ کو کہتے ہیں ثوب اسی سے بنایا گیا ہے معنی وہی ہیں جو اپور بیان ہوئے۔ یہ مشرک مال دار دوزخ میں جانے کے بعد ان غریب مسلمانوں کے حق میں جو کچھ کہیں گے وہ سورة ص میں گزر چکا ہے کہ پہلے پہل وہ کہیں گے مالنا لانری رجالاکنا نعدھم من الاشرار اتخذناھم سخریا ام زاغت عنھم الابصار۔ حاصل مطلب دونوں آیتوں کا یہ ہوا کہ وہ مشرک مال دار غریب مسلمانوں کو اپنے ساتھ نہ دیکھیں گے تو ان کو بڑا تعجب ہوگا پھر ان کو اپنے اوپر ہنستے ہوئے جنت میں ہر طرح کی راحت میں دیکھ کر جان لیں گے کہ جن کا یہ بہکا ہوا سمجھ کر ان سے مسخرا پن کرتے تھے وہ بہکے ہوئے نہ تھے بلکہ یہ خود بہکے ہوئے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(83:29) ان الذین اجرموا کانوا من الذین امنوا یضحکون : ان حرف مشبہ بالفعل۔ الذین اجرموا (موصول وصلہ مل کر) اسم ان : کانوا فعل ناقص ضمیر متصل اس کا اسم ۔ یضحکون اس کی خبر۔ من الذین امنوا متعلق خبر۔ اجرموا : ماضی جمع مذکر غائب : اجرام (افعال) مصدر۔ انہوں نے جرم کیا۔ (یہاں ضمیر فاعل کا مرجع ابوجہل۔ ولید بن مغیرہ۔ عاص بن وائل، اور ان کے ساتھی دوسرے مشرکین مکہ ہیں۔ الذین امنوا سے مراد ہیں حضرت عمار (رض) حضرت جناب (رض) حضرت صہیب وحضرت بلال اور ان کے دوسرے ساتھی نادار مسلمان (رض) اجمعین ۔ یضحکون : مضارع جمع مذکر غائب ضحک (باب سمع) مصدر سے ۔ وہ ہنستے تھے۔ یعنی یہ مجرم لوگ مومنوں کا مذاق اڑانے کے لئے ان سے ہنستے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 کو ان پر کیا پاگل پن سوار ہے کہ محسوس اور موجود لذتوں کو چھوڑ کر ان دیکھی موہوم لذتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ “3 کہ یہی وہ سر پھرے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مطلوب ہے اس لئے انہوں نے اپنے آپ کو دنیا کی ہر لذت سے محروم رکھا ہے۔ ‘

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمی کی جہنم میں جانے کی ایک وجہ اور ان کی حالت زار پر جنتی کا خوش ہونا۔ جہنمی کے جرائم میں یہ جرم بھی شامل ہوگا کہ دنیا میں انہیں اللہ کے عذاب اور قیامت سے ڈرایا جاتا تو وہ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ایمانداروں کو مذاق کیا کرتے تھے۔ جب نیک لوگوں کے پاس سے گزرتے تو اپنی آنکھوں اور ہاتھوں سے ان کی طرف اشارے کرتے تھے۔ انبیاء اور ان کے ساتھی اپنی کمزوری یا شرافت کی وجہ سے ان کے بیہودہ اشاروں کا جواب نہ دیتے تو مذاق اڑانے والے مزید تکبر کا شکار ہوجاتے اور اپنے دوست و احباب اور اہل خانہ کے پاس جا کر اس بات پر اتراتے کہ ہم نے آج ایمان کے دعویداروں کو بہت زچ کیا ہے۔ گمراہ لوگ اپنے دوست و احباب میں بیٹھ کر کہتے کہ یہ لوگ باپ داداکا دین اور اپنی قومی روایات کو چھوڑ کر گمراہ ہوگئے ہیں۔ مجرم یہ دعویٰ اور باتیں اس انداز میں اور تکرار کے ساتھ کرتے جیسا کہ یہ مومنوں پر نگران مقرر کیے گئے تھے۔ ان کی یا وہ گوئی اور بےہودہ حرکات کا نتیجہ ہوگا کہ قیامت کے دن جنتی کفارکو مذاق کریں گے اور جنت کے تختوں پر بیٹھ کر ان کی سزاؤں کا منظر دیکھیں گے اور آپس میں کہیں گے کہ آج کفار کو ان کے برے اعمال کی پوری پوری سزا مل رہی ہے۔ ان آیات میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ گناہگار اور جرائم پیشہ لوگ خود گمراہ ہونے کے باوجود نیک لوگوں کو گمراہ اور حقیر سمجھتے ہیں۔ ” منکرین حق جب آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں، کہتے ہیں کیا یہ شخص ہے جو تمہارے خداؤں کا تذکرہ کرتا ہے ؟ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ الرحمان کے ذکر کے منکر ہیں۔ “ (الانبیاء : ٣٦) ” جب کافر لوگ نصیحت سنتے ہیں تو تمہیں ڈراؤنی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ گویا تمہارے قدم اکھاڑ دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔ “ (القلم : ٥١) (وَ کَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْنِنَا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بالشّٰکِرِیْنَ ) (الانعام : ٥٣) ” اور اسی طرح ہم نے ان کے بعض کو بعض کے ساتھ آزمائش میں مبتلا کیا تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہم میں سے احسان کیا ہے ؟ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو پوری طرح نہیں جانتا ؟ “ مسائل ١۔ جہنم میں جانے والے لوگ انبیائے کرام اور ایمانداروں کو استہزاء کا نشانہ بناتے تھے۔ ٢۔ جہنم میں جانے والے لوگ نیک لوگوں کو گمراہ خیال کرتے تھے۔ ٣۔ تکبر کرنے والے لوگ جہنمی ہوتے ہیں۔ ٤۔ جنتی حضرات جنت میں بیٹھ کر جہنم میں جلنے والوں کو مذاق کریں گے۔ ٥۔ جہنمی کو جہنم میں ان کے اعمال کی پوری پوری سزادی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن برے لوگوں کا انبیاء ( علیہ السلام) اور نیک لوگوں کو استہزا کرنا : ١۔ جب حضرت نوح کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گذرتے تھے تو ان سے مذاق کرتے تھے۔ (ہود : ٣٨) ٢۔ یہ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ (التوبہ : ٧٩) ٣۔ جب وہ ہماری نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت : ١٤) ٤۔ جب بھی ان کے پاس رسول آیا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (الحجر : ١١) ٥۔ ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کے ساتھ استہزاء کرتے تھے۔ (الزخرف : ٧) ٦۔ لوگوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جب کبھی رسول آیا تو انہوں نے ان کے ساتھ استہزاء کیا۔ (یٰس : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اہل ایمان کے ساتھ مجرموں کے استہزا کے مناظر ، ان کی جانب سے دست درازیوں اور زیادتیوں کے جو شاید قرآن نے یہاں قلم بند کیے ہیں خصوصاً ان کا یہ تبصرہ کہ مسلمان گمراہ لوگ ہیں ، یہ سب مناظر مکہ کی سوسائٹی کے عملی مناظر ہیں ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقامت دین کی ہر کسی تحریک کے کارکن انہی حالات اور نہی ریمارکس سے دو چار ہوتے ہیں۔ ہر دور اور ہر نسل میں یہی صورت حالات ہوا کرتی ہے۔ آج ہم اپنے دور کے حالات کو جب دیکھتے ہیں تو یہ نظر آتا کہ شاید یہ آیات ابھی ہمارے حسب حال اتری ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فساق وفجار کا مزاج ایک جیسا ہوتا ہے اور اہل حق کے مقابلے میں ان کا موقف بھی ہمیشہ ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ اس میں زمان ومکان کے فرق سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان الذین ........................ یضحکون (29:83) ” مجرم لوگ دنیا میں ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے “۔ یہ ایسے ہی تھے ، اس ” تھے “ نے صدیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب یہ آخرت کی بات ہورہی ہے۔ یہ اپنی آنکھوں سے اہل جنت کی نعمتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ یہاں آخرت میں ان کو ذرا یاد دلایا جارہا ہے کہ تم تو یہ رویہ رکھتے تھے۔ یاد ہے نا۔ یہ اہل ایمان سے بطور مذاق ہنستے تھے کہ یہ ہیں مومن۔ یہ ہیں ” صالح “۔ یہ ہیں ” صالحین “۔ یہ کیوں ہنستے تھے۔ یا تو اس لئے کہ یہ لوگ غریب اور فقیر تھے اور بات انقلاب کی کرتے تھے اور پہنے ہوئے ہوتے تھے چیتھڑے۔ یا اس لئے کہ ہر طرف سے ان پر مار پڑتی ہے۔ جیلوں میں ہیں ، اپنا دفاع بھی نہیں کرکستے۔ یا اس لئے کہ یہ لوگ ان کی حماقتوں میں شریک نہ ہوتے تھے۔ ان لوگوں کے ہاں یہ سب باتیں مضحکہ خیز تھیں۔ چناچہ وہ اہل ایمان پر طنز وتشنیع کے تیر برساتے تھے۔ ان کو اذیت دیتے تھے۔ ان پر تشدد کرتے تھے اور نہایت ہی رذالت اور گھٹیا انداز میں ان سے مذاق کرتے تھے۔ اس بات کا اہل ایمان پر برا اثر ہوتا تھا۔ اور ان کی تکلیف ہوتی تھی لیکن وہ صبر کرتے تھے۔ بلند اخلاقی اختیار کرتے تھے اور نہایت شائستگی سے بات کو ٹال دیتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نیک بندوں کا ایمان اور خوشی کا انجام بیان فرمانے کے بعد مجرمین کا تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ جو لوگ اہل ایمان کے مخالف ہیں ان سے بغض اور دشمنی رکھتے ہیں دنیا میں ان کا یہ طریقہ تھا کہ جب کہیں اہل ایمان بیٹھے ہوتے اور یہ لوگ وہاں سے گزرتے تو اہل ایمان کا مذاق بنانے کے لیے آپس میں آنکھوں سے اشارے کرتے تھے کہ دیکھو کہ یہ جا رہے ہیں پھٹیچر، جنت کے دعوے دار، تن پر کپڑا نہیں، پاؤں میں جوتا نہیں، بنتے ہیں بڑے اللہ کے پیارے وغیرہ وغیرہ۔ حضرت خباب، حضرت بلال اور دیگر فقراء مومنین (رض) پر ایسی پھبتیاں کستے تھے اور جب یہ مجرمین اپنے گھروں کو جاتے تھے تو خوش ہوتے ہوئے جاتے تھے کہ دیکھو ہم نے بڑا کمال کیا، فقیروں کا مذاق بنایا۔ مومنین کے سامنے اشاروں سے ان کا مذاق کیا کرتے تھے اور اہل ایمان کو دیکھتے تھے تو یوں کہتے تھے کہ یقینی طور پر یہ گمراہ ہیں۔ ﴿ وَ مَاۤ اُرْسِلُوْا عَلَيْهِمْ حٰفِظِيْنَؕ٠٠٣٣﴾ (حالانکہ یہ ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے) ۔ یعنی ان کو اہل ایمان کا نگران نہیں بنایا گیا۔ قیامت کے دن ان کے بارے میں ان سے نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ گمراہ تھے یا ہدایت پر تھے، ان مجرموں کو خود اپنے بارے میں غور کرنا چاہیے کہ ہم ہدایت پر ہیں یا گمراہ ہیں آخرت میں معاملہ الٹ جائے گا کافر عذاب میں اور مصیبت میں ہوں گے اور اہل ایمان مسہریوں پر بیٹھے دیکھتے ہوں گے دنیا میں اہل کفر اہل ایمان کا مذاق بناتے تھے اس روز اہل ایمان کافروں پر ہنسیں گے۔ اسی کو فرمایا ﴿ فَالْيَوْمَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُوْنَۙ٠٠٣٤﴾ نیز اہل ایمان کی فضیلت اور شرف اور مرتبہ کی بلندی ظاہر کرتے ہوئے فرمایا۔ ﴿ عَلَى الْاَرَآىِٕكِ ١ۙ يَنْظُرُوْنَؕ٠٠٣٥﴾ (یہ اہل ایمان مسہریوں پر دیکھتے ہوں) کافروں کی بدحالی ان کے سامنے ہوگی۔ ﴿ هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ (رح) ٠٠٣٦﴾ (کافروں کو کفر کا اور اعمال بد کا جو بدلہ ملے گا وہ ان کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہوگا) ان میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے دنیا میں اہل ایمان کا مذاق بنایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” ان الذین “ یہ مشرکین کے لیے زجر ہے۔ مشرکین قریش، فقراء مومنین پر بطور استہزاء ہنستے تھے اور جب کبھی مسلمان ان کے پاس سے گذرتے تو مستکبرین قریش استحقار و تمسخر کے طور پر آنکھوں اور ابروؤں سے ان کی طرف اشارے کرتے تھے اور جب اپنے گھروں کو واپس آتے تو بہت خوش ہوتے کہ آج ان فقراء سے استہزاء و تمسخر کا خوب مزہ آیا۔ ” واذا راوھم “ جب مشرکین مسلمانوں کو دیکھتے تو یہ کہتے یہ لوگ گمراہ ہیں، حالانکہ ان کو مسلمانوں پر نگران مقرر نہیں کیا گیا تھا اور نہ ان کو ان کی گمراہی اور ہدایت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا کہ وہ ان کی ہدایت و ضلالت کا فیصلہ کرتے پھریں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(29) بیشک جو لوگ مجرم یعنی کافر ہیں وہ دنیا میں ایمان والوں پر ہنسا کرتے تھے۔ یعنی ان کی تحقیر اور تذلیل کیا کرتے تھے۔