Surat ul Mutafifeen

Surah: 83

Verse: 32

سورة المطففين

وَ اِذَا رَاَوۡہُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ لَضَآلُّوۡنَ ﴿ۙ۳۲﴾

And when they saw them, they would say, "Indeed, those are truly lost."

اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے یقیناً یہ لوگ گمراہ ( بے راہ ) ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And when they saw them, they said: "Verily, these have indeed gone astray!" meaning, `because they are upon a religion other than their own religion.' Allah then says, وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] ان چار آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کی چار حرکتوں کا ذکر فرمایا۔ اور یہ سب مسلمانوں کا تمسخر اڑانے اور ان پر پھبتیاں کسنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ مسلمانوں کو گمراہ تو اس لحاظ سے کہتے تھے کہ مسلمان زہد و ریاضت میں اپنی جانیں کھپاتے اور دنیا کی لذتوں پر اخروی لذتوں کو ترجیح دیتے تھے۔ کافر یہ کہتے تھے کہ کیا یہ کھلی گمراہی نہیں کہ سب گھر بار اور عیش و آرام کو چھوڑ کر ایک شخص کے پیچھے لگ گئے ہیں اور اپنے آبائی دین کو ترک کر بیٹھے ہیں۔ محض اس خیال سے کہ آخرت میں انہیں جنت ملے گی۔ بھلا ان بیوقوفوں کو یہ کیسا فاسد خیال دامن گیر ہوا ہے کہ دنیا کی یقینی لذتوں کو چھوڑ کر آخرت کی تصوراتی لذتوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ یہی وہ باتیں تھیں جنہیں دہرادہرا کردہ خود بھی خوش ہوتے رہتے تھے اور مسلمانوں کی طرف اشارے بھی کرتے اور ان کا مذاق بھی اڑاتے رہتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا رَاَوْہُمْ قَالُوْٓا اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ لَضَاۗلُّوْنَ۝ ٣٢ ۙ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢{ وَاِذَا رَاَوْہُمْ قَالُوْٓا اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ لَضَآلُّوْنَ ۔ } ” اور جب وہ ان (اہل ایمان) کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ یقینا یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں۔ “ مخالفین کے ایسے تبصرے طنزیہ بھی ہوسکتے ہیں اور ان میں ہمدردی کا پہلو بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے آج کل بھی ہمیں ایسے فقرے اکثر سننے کو مل جاتے ہیں کہ دیکھیں ! یہ اچھا بھلا ذہین نوجوان تھا۔ بورڈ ٹاپ کیا ‘ یونیورسٹی میں گولڈ میڈل لیا ‘ ملازمت بھی بہت اچھی ملی ‘ لیکن پھر اچانک خدا جانے اسے کیا ہوا کہ اس کا رجحان مذہب کی طرف ہوگیا ‘ اس کے بعد تو اس کی ترجیحات ہی بدل گئی ہیں ‘ اب اسے نہ اپنا خیال ہے اور نہ ملازمت کی فکر ‘ بس رات دن اس کے سر پر تبلیغ کی دھن سوار ہے ۔ بےچارہ ‘ اچھا خاصا کیریئر تباہ کر کے بیٹھ گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 That is, they have lost their reason: they have deprived themselves of the gains and enjoyments of the world and have experienced dangers and undergone hardships only for the reason that Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) has deluded them with the Hereafter, Heaven and Hell. They are giving up whatever is present and here on the false hope that the promise of some Paradise has been held out to them after death, and they are enduring the hardships in the present life only for the reason that they have been threatened with some Hell in the next world.

سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :13 یعنی ان کی عقل ماری گئی ہے ، اپنے آپ کو دنیا کے فائدوں اور لذتوں سے صرف اس لیے محروم کر لیا ہے اور ہر طرح کے خطرات اور مصائب صرف اس لیے مول لے لیے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آخرت اور جنت اور دوزخ کے چکر میں ڈال دیا ہے ۔ جو کچھ حاضر ہے اسے اس موھوم امید پر چھوڑ رہے ہیں کہ موت کے بعد کسی جنت کے ملنے کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور جو تکلیفیں آج پہنچ رہی ہے انہیں اس خیال خام کی بنا پر انگیز کر رہے ہیں کہ دوسری دنیا میں کوئی جہنم ہو گی جس کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(83:32) واذا راوہم جملہ شرطیہ۔ رأوا ماضی جمع مذکر غائب رؤیۃ (باب فتح) مصدر۔ اس میں ضمیر فاعل کفار مکہ کے لئے ہے اور ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب (مسلمانوں کے لئے) یعنی جب وہ کافر مسلمانو کو دیکھتے (یہ جملہ شرطیہ ہے) قالوا ان ھؤلاء لضالون جملہ جواب شرط ہے۔ یعنی کفار مکہ کہتے ان ھؤلاء لضالون یہ مقولہ ہے قالوا کا۔ ان حرف مشبہ بالفعل ھؤلاء اسم اشارہ جمع، یہ ان کا اسم ہے لام تاکید کا ہے ضالون، ضلال (باب ضرب) مصدع سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر بمعنی بہکے ہوئے ۔ گمراہ۔ راہ بھولے ہوئے۔ ان کی خبر ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ (جب کافر لوگ مسلمانوں کو دیکھتے) تو کہتے در حقیقت یہی لوگ گمراہ ہیں۔ یہ کافروں کی مسلمانوں کے خلاف چوتھی قبیح حرکت تھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 کہ ان کی ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھیں حالانکہ انہیں اصل فکر اپنی اصلاح کی چاہیے تھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا .................................... لضالون (32:83) ” اور جب انہیں دیکھتے تھے تو کہتے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں “۔ اور یہ تو نہایت ہی تعجب خیز بات ہے کہ اب یہ لوگ ہدایت وضلالت کے موضوع پر بات کرنے لگے ہیں اور بزعم خود یہ اہل حق اور اہل ہدایت کو اہل ضلالت اور گمراہ کہتے ہیں ، اور نہایت وثوق اور تحقیر آمیز طریقے سے یہ تبصرہ کرتے ہیں۔ ان ھولاء لضالون (32:83) ” کہ یہ لوگ بہکے ہوئے ہیں “۔ فسق وفجور کا یہ مزاج ہے کہ وہ ایک حد پر نہیں رکتا ، وہ کسی بات سے نہیں شرماتا ، کسی فعل پر ناد نہیں ہوتا۔ ان فساق وفجار کی طرف سے اہل ایمان جیسے معیاری لوگوں پر یہ الزام لگانا کہ وہ بہکے ہوئے ہیں ، اس بات کا ظاہر کرتا ہے کہ فساق وفجار کسی حد پر جاکر نہیں رکتے اور بےحیا ہوتے ہیں۔ قرآن کریم اہل ایمان کی جانب سے نہ مناظرہ کرتا ہے اور نہ مجادلہ۔ نہ وہ اس افترا کی تردید کرتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی ناسقانہ گھٹیا بات ہے جس کی طرف سنجیدہ التفات کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن قرآن کریم ان لوگوں کے ساتھ ایک سنجیدہ مذاق ضرور کرتا ہے جو ایک ایسے معاملے میں ٹانگ اڑاتے ہیں جس کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ان کا ہدایت وضلالت سے کیا کام ہے۔ اور مسلمانوں کی نگرانی پر ان کو کس نے مامور کیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(32) اور جب یہ کافران مسلمانوں کو دیکھتے تو کہتے ہیں یہ لوگ یقینا گم کردہ راہ ہیں یعنی مسلمانوں کو گمراہ اور بےراہ کہتے تھے۔