Surat ul Mutafifeen

Surah: 83

Verse: 9

سورة المطففين

کِتٰبٌ مَّرۡقُوۡمٌ ؕ﴿۹﴾

It is [their destination recorded in] a register inscribed.

۔ ( یہ تو ) لکھی ہوئی کتاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A Register inscribed. This is not an explanation of His statement, وَمَأ أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (And what will make you know what Sijjin is?) It is only an explanation of the destination that will be recorded for them, which is Sijjin. Meaning, it is inscribed, written, and completed. No one can add to it and no one can remove anything from it. This was said by Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi. Then Allah said, وَيْلٌ يَوْمَيِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

كِتَابٌ مَّرْ‌قُومٌ (A register inscribed!...83:9) The word marqum (translated above as &inscribed& ) signifies here makhtum meaning &sealed&. Imam Baghawi and Ibn Kathir say that this statement is not the interpretation of sijjin, but rather the explication of a phrase before that, namely: كِتَابَ الْفُجَّارِ‌ &Indeed the record of deeds of the sinners is in sijjin. [ 83:7] & It is a book inscribed and sealed. No one can add anything to it, nor can anyone remove anything from it, nor is any alteration possible in it. The place where it will be kept for safe-custody is called sijjin, and it is the place where the souls of the wicked unbelievers are gathered. كَلَّا سکتہ إِنَّهُمْ عَن رَّ‌بِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ (No! But that which they used to commit has covered their hearts with rust...83:14). The word rana is derived from rain and it means &rust& or &dust& or &filth&. In other words, the rust of committing many sins has covered up their hearts. Just as rust consumes the iron, and turns it into dust, in the same way, the rust of while he was on the upper horizon....53:7)

كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ، مرقوم کے معنے اس جگہ مختوم کے ہیں۔ یعنی مہر لگی ہوئی۔ امام بغوی اور ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ جملہ مقام سجین کی تفسیر نہیں، بلکہ اس سے پہلے جو کتب الفجار آیا ہے اس کا بیان ہے، معنے یہ ہیں کہ کفار و فجار کے اعمالنامے مہر لگا کر محفوظ کردئے جاویں گے کہ ان میں کسی کمی بیشی اور تغیر کا امکان نہ رہے گا اور انکے محفوظ کرنے کی جگہ سجین ہے یہیں کفار کی ارواح کو جمع کردیا جائے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ۝ ٩ ۭ رقم الرَّقْمُ : الخطّ الغلیظ، وقیل : هو تعجیم الکتاب . وقوله تعالی: كِتابٌ مَرْقُومٌ [ المطففین/ 9] ، حمل علی الوجهين، وفلان يَرْقُمُ في الماء يضرب مثلا للحذق في الأمور، وأصحاب الرَّقِيمِ قيل : اسم مکان، وقیل : نسبوا إلى حجر رُقِمَ فيه أسماؤهم، ورَقْمَتَا الحمار : للأثر الذي علی عضديه، وأرض مَرْقُومَةٌ: بها أثر نبات، تشبيها بما عليه أثر الکتاب، والرُّقْمِيَّاتُ : سهام منسوبة إلى موضع بالمدینة . ( ر ق م ) الرقم کے معنی گاڑھے خط کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ رقم کے معنی کتاب پر اعراب اور نقطے لگانے کے ہیں ۔ اور آیت ؛كِتابٌ مَرْقُومٌ [ المطففین/ 9] وہ ایک کتاب ہے ( وقتا فوقتا ) اس کی خانہ پری ہوتی رہتی ہے ۔ میں مرقوم کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی گاڑھے اور جلی خط میں لکھی ہوئی یا نقطے لگائی ہوئی ۔ اور جو شخص کسی کام کا ماہر اور حاذق ہو اس کے متعلق ضرب المثل کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ فلان یرقم فی الماء یعنی وہ ماہر ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف/ 9] کہ غار اور لوح والے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ رقیم ایک مقام کا نام ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اس پتھر کی طرف نسبت ہے جس میں ان کے نام کنندہ تھے اور گدھے کے دونوں بازؤوں پر جو نشان ہوتے ہیں انہیں رقمتا الحمار کہا جاتا ہے اور ارض مرقومۃ تھوڑی گھاس والی زمین کو کہتے ہیں گو یا وہ کتابت کے نشانات کی طرح ہے ۔ الرقمیات تیروں کو کہتے ہیں جو مدینہ کے ایک مقام کی طرف منسوب ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩{ کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ ۔ } ” لکھا ہوا دفتر۔ “ اس ” کتاب “ سے مراد ایک انسان کی جان اور روح کا وہ ملغوبہ ہے جس میں اس کے اعمال کے اثرات بھی ثبت ہوتے ہیں۔ کسی برے انسان کے مرنے پر متعلقہ فرشتہ وہ ملغوبہ لا کر سجین میں ” جمع “ کرا دیتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(83:9) کتب مرقوم۔ موصوف و صفت، سجین (بمعنی کتاب جامع، رجسٹر، دیوان) کی تشریح ہے۔ مرقوم : رقم (باب نصر) مصدر سے اسم مفعول کا صیغہ واحد مذکر، لکھا ہوا۔ جلی خط سے لکھا ہوا۔ (نیز ملاحظہ ہو 83:8 متذکرۃ بالا) یعنی سجین کیا ہے ایک تحریر کردہ شدہ دفتر ایک لکھی ہوئی کتاب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی ایک دفتر ہے جس میں تمام بدکاروں اور کافروں کے نام اور کام درج ہیں قادہ سعید بن جبیر مقاتل اور مجاہد غیرہ کہتے ہیں کہ سجین اس جگہ کا نام ہے جہاں کافروں اور بدکاروں کے نامہ اعمال رکھے جاتے ہیں اور وہ ساتویں زمین کے نیچے ایک چٹان ہے اس لئے شاہ صاحب فرماتے ہیں :” یعنی ان کے نام وہیں داخل ہوتے ہیں مر کر وہاں پہنچیں گے۔ “ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) وہ ایک دفت رہے صاف لکھا ہوا ، حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ان کے نام وہاں داخل ہوتے ہیں مرکر وہیں پہنچیں گے۔ خلاصہ : یہ کہ سجین ایک دفتر ہے جس میں ہر دوزخی کا نام درج ہے بندوں کے عمل لکھنے والے فرشتے جن کا ذکر سورة انفطار میں گزر چکا ہے وہ ان فجار کے مرنے کے بعد ان میں سے ہر شخص کے اعمال کی فردیں بنا کر اس دفتر میں داخل کردیتے ہیں ہر فرد پر کوئی ایسی خاص علامت لگا دیتے ہیں جس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کی یہ فرد ہے وہ دوزخی ہے۔ بعض احادیث سے معلوم ہے کہ یہی مقام ارواح کفار کا مستقر ہے قیامت تک یہ ارواح وہیں رہیں گی کفار کی ارواح کو نہ آسمان قبول کرتا ہے نہ طبقات ارضی پسند کرتے ہیں تو ساتویں زمین زمین کے نیچے ان کا مستقر رکھا گیا ہے اور بھی علمائے متقدمین کے کئی قول ہیں مگر ہم نے حضرت ابن عباس (رض) کا قول اختیار کرلیا جیسا کہ ہمارے بزرگوں نے عام طور سے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم حضرت حق جل مجدہ کی عادت اسی طرح جاری ہے کہ جب وہ جنت کا ذکر فرماتا ہے تو اس کی صفائی اور بلندی اور مقربین ملائکہ کی حضوری سے موصوف فرماتا ہے اسی طرح جب اشرار کا ذکر فرماتا ہے تو تسفل تاریکی اور تنگی اور حضور شیاطین سے موصوف فرماتا ہے پس سجین کو ایسا مقام سمجھنا چاہیے جو نہایت اسفل اور تاریک ہوا اور جہاں شیاطین کی حضوری ہو اور اشرار کے اعمال ناموں کی فردیں بنی ہوئی وہاں رکھی ہوں۔ رقم کے معنی لکھنے اور مہر لگانے کے ہیں یہاں دونوں باتیں ہوسکتی ہیں مرقوم مکتوب یا مختوم، ہم نے دونوں معنی ظاہر کردیئے ہیں۔ آگے جزا کا ذکر فرماتے ہیں۔