Surat ul Inshiqaaq

The Splitting Open

Surah: 84

Verses: 25

Ruku: 1

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف : یہ سورة مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی جب کفار و مشرکین قیامت کو نہ صرف جھٹلا رہے تھے بلکہ اس سے شدید اختلاف کرتے ہوئے کھلم کھلا یہ بات کہہ رہے تھے کہ جب ہم مر کر خاک ہوجائیں گے اور ہماری ہڈیوں کا چورہ چورہ ہوجائے گا تو ہم دوبارہ کیسے پیدا ہوسکتے ہیں ؟ یہ بات ہماری عقلوں میں نہیں آتی ان کا گمان یہ تھا کہ مرکر دوبارہ زندہ ہونا، اللہ کے سامنے حاضری اور زندگی بھر کے اعمال کا حساب دینا کیسے ممکن ہے ؟ یہ بات ہماری عقلوں میں نہیں آتی ان کا گمان یہ تھا کہ مر کر دوبارہ زندہ ہونا، اللہ کے سامنے حاضری اور زندگی بھر کے اعمال کا حساب دینا کیسے ممکن ہے ؟ اللہ نے فرمایا کہ اس نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے وہ جب بھی اس کو مٹ جانے کا حکم دے گا یہ دنیا ختم ہو کر ایک نئی دنیا بن کر تیار ہوجائے گی۔ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے خالق کا حکم مانے۔ اسی بات کو ثابت کرنے کے لئے اللہ نے اس سورة میں جو کچھ فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔ جب آسمان پھٹ جائے گا اور وہ پنے پروردگار کے حکم کی تعمیل کرے گا اس کیلئے لازمی ہے کہ وہ اپنے رب کا حکم مانے اور جب زمین پھیلا کر ہموار کردی جائے گی اور زمین اپنے اندر کی ہر چیز کا اگل دے گی اور باہر پھینک دے گی۔ یہ اللہ کا حکم ہوگا جس کی وہ پوری طرح تعمیل کرے گی۔ فرمایا کہ ہر انسان بڑی تیزی کے ساتھ اس منزل کی طرف چلا جا رہا ہے جہاں اسے اپنے رب سے ملنا ہے۔ اس وقت جس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے اس کا حساب آسان اور ہلکا لیا جائے گا اور وہ اپنے لوگوں میں خوشی خوشی ملے گا اور جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا تو وہ موت کو پکارے گا یعنی فریاد کرے گا کہ اس سے بہتر تھا کہ میں پھر مرگیا ہوتا لیکن وہ بھڑکتی آگ میں داخل کردیا جائے گا۔ یہ وہ ہوگا جو اپنے گھر والوں میں مگن رہتا تھا اور اس نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ وہ کبھی لوٹ کر اپنے رب کے پاس نہ جائے گا۔ حالانکہ اس کا رب تو اس کے اعمال کو دیکھ رہا تھا۔ فرمایا کہ میں قسم کھاتا ہوں شفق (سورج ڈوبنے کے بعد کی سرخی) کی اور اس رات کی جو ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اس چاند کی قسم جب وہ ماہ کامل ( پورا چاند) بن جاتا ہے کہ تمہیں درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرے چلے جانا ہے۔ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ (اس سچائی پر) ایمان نہیں لاتے ؟ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ اللہ کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ وہ تو اس کو جھٹلاتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے نامہ اعمال میں جو کچھ جمع کر رہے ہیں اللہ اس سے اچھی طرح واقف ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو ایک درد ناک عذاب کی خوشی خبری سنا دیجئے۔ البتہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اور بھلے اعمال کیے ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر وثواب ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة الانشقاق کا تعارف الانشقاق کا لفظ اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے یہ سورت بھی مکہ میں نازل ہوئی اس کی پچیس آیات ہیں جنہیں ایک رکوع شمار کیا گیا ہے۔ اس میں قیامت کے ابتدائی مراحل کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ اس دن آسمان کو پھٹ جانے کا حکم ہوگا اور آسمان پھٹ جائے گا کیونکہ اس کے یہی لائق ہے کہ وہ اپنے رب کا حکم تسلیم کرے اسی طرح زمین کو حکم ہوگا کہ وہ چٹیل میدان بن جائے زمین چٹیل میدان بن جائے گی اس لیے کہ اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے۔ اس کے بعد محشر کا میدان لگے گا جس میں بہت سے لوگوں کو ان کے دائیں ہاتھ میں ان کے اعمال نامے دئیے جائیں گے جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا وہ خوش ہو کر اپنے عزیز و اقرباء کے پاس جائے گا اور سمجھ جائے گا کہ میرا حساب آسان ہوگا۔ ان کے مقابلے میں جن لوگوں کو ان کی پیٹھ کی طرف سے اعمال نامہ دیا گیا وہ اپنی موت کو پکارے گا لیکن اسے موت نہیں آئے گی، اسے جہنم میں پھینکا جائے گا کیونکہ یہ سمجھتا تھا کہ اسے دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اسے حساب و کتاب دینا پڑے گا اس کے بعد تین قسمیں اٹھا کر بتلایا ہے کہ ہر انسان ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بالآخر انسان پر وہ مرحلہ بھی آئے گا جب اسے حساب و کتاب کے لیے اپنے رب کے حضور پیش کیا جائے گا۔ جس کی تفسیر قرآن مجید نے بتلا دی ہے مگر قیامت کا انکار کرنے والوں کی حالت یہ ہے کہ وہ قرآن پر ایمان لانے اور اپنے رب کے حضور جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کے لیے عذاب کی خوشخبری کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ ان کے مقابلے میں وہ لوگ جو قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور اس دن کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں ان کے لیے ایسا اجر ہوگا جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة الانشقاق ایک نظر میں اس سورت کا آغاز بعض کائناتی انقلابات کے مظاہرومناظر سے ہوتا ہے۔ پہلے سورة تکویر ، پھر سورة انفطار میں اور ان سے قبل سورة النبا میں ان مشاہد کی تفصیلات دی گئی ہیں ، لیکن یہ ان مناظر کا ایک خاص انداز ہے۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ تمام واقعات دراصل اطاعت حکم ربی میں ہورہے ہیں۔ یہ زمین اور یہ آسمان دراصل رب تعالیٰ کے احکام کے مطیع ہیں اور نہایت خضوع وخشوع سے اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اور یہ اطاعت نہایت ہی خضوع اور فرمانبرداری کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور بڑی سہولت سے ہوتی ہے۔ اذا السمائ ................................ وحقت (1:84 تا 5) ” جب آسمان پھٹ جائے گا اور اپنے رب کے فرمان کی تعمیل کرے گا اور اس کے لئے حق یہی ہے (کہ اپنے رب کے حکم مانے) ۔ اور جب زمین پھیلا دی جائے گی اور جو کچھ اس کے اندر ہے اسے باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کے لئے حق یہی ہے (کہ اس کی تعمیل کرئے) “۔ خود سپردگی سے بھر پور یہ پیراگراف دراصل تمہید تھا انسان کے خطاب کے لئے تاکہ یہ کائناتی خضوع وخشوع اس کے دل میں اتار دیا جائے اور اس کو اللہ کے احکام یاد دلائے جائیں اور یہ بتایا جائے کہ اللہ کے ہاں تمہارا انجام کیا ہوگا۔ یہ خضوع اور اطاعت انسان کے دل میں اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ وہ دیکھتا ہے کہ آسمان و زمین اور یہ پوری کائنات اس عظیم منظر میں اللہ کی مطیع ہے۔ یایھا الانسان .................................... بہ بصیرا (6:84 تا 15) ” اے انسان ! تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے ، پھر جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا ، اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش خوش پلٹے گا۔ رہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا تو وہ موت کو پکارے گا اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جاپڑے گا۔ وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا۔ اس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے۔ پلٹنا کیسے نہ تھا ، اس کا رب اس کے کرتوت دیکھ رہا تھا “۔ تیسرے پیراگراف میں اس کائنات کے ان مناظر کی تصویر کشی کی گئی ہے جو انسان کے مشاہدے میں ہیں اور جو یہ بات بتلاتے ہیں کہ اس کائنات کے نظام میں نہایت گہری منصوبہ بندی ہے اور انسان ایسے حالات میں زندگی کے شب وروز گزار رہے ہیں جو ایک اسکیم کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ، اور زندگی کا یہ نشیب و فراز انہوں نے دیکھنا ہے اور جو مشکلات بھی پیش آئیں انہیں برداشت کرنا ہے۔ فلا اقسم ................................ طبق (16:84 تا 19) ” پس نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی ، اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے ، اور چاند کی جب کہ وہ ماہ کامل ہوجاتا ہے ، تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک مشکل حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے “۔ اب سورت کا آخری پیراگراف آتا ہے ، اس میں ان لوگوں کے حالات پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے جو دعوت اسلامی کو قبول نہیں کرتے۔ اور یہ ہے انسانیت کی حقیقت اور یہ ہے اس کا انجام جو آغاز سورت میں بتایا گیا۔ فمالھم ........................ یسجدون (21:84) السجدة ” پھر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جائے تو سجدہ نہیں کرتے “۔ اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے اندرون میں جو کچھ رکھتے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔ لہٰذا ان کا انجام متعین اور معلوم ہے۔ بل الذین ................................ غیر ممنون (22:84 تا 25) ” بلکہ یہ منکرین تو الٹا جھٹلاتے ہیں ، حالانکہ جو کچھ یہ (اپنے نامہ اعمال میں) جمع کررہے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ لہٰذا ان کو درد ناک عذاب کی بشارت دے دو ۔ البتہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ، ان کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے “۔ اس سورت کا انداز دھیما اور اس کے معانی جلیل القدر ہیں۔ اس کائنات کے انقلاب کے مناظر بھی دھیمے انداز میں پیش کیے گئے ہیں جبکہ اس سے قبل سورت تکویر میں ایسے ہی انقلابی مناظر کا انداز طوفانی تھا۔ غرض اس سورت کا لہجہ ایسا ہے جس طرح ایک رحیم وشفیق استاد نہایت آرام اور سہولت سے اپنے زیر تربیت افراد کو قدم بقدم پڑھاتا ہے اور نہایت نرم اور گہری تلقین کے ساتھ ، ذرا دیکھئے خطاب کس قدر ہمدردانہ ہے ، اے انسان ! انسان کی انسانیت کو ابھارا جاتا ہے۔ اس میں نصیحت بھی ہے اور ضمیر کی بیداری بھی۔ اس سورت میں اسی دھیمے انداز میں پیراگراف مرتب کیے گئے ہیں ، جو انسان کے دل و دماغ کو اس کائنات کی وسیع وادیوں ، انسانیت کے مختلف میدانوں میں یکے بعد دیگرے سیرکراتے چلے جاتے ہیں ، انسان ایک ایسے کائناتی منظر کی سیر کرتا ہے جس میں ہر چیز قانون قدرت کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہے۔ پھر انسانی قلب کی وادی میں اور پھر قیامت کے منظر جزاء وسزا کے میدان میں اور پھر وہاں سے واپس کائنات کے موجود اور حاضر مناظر ومشاہد میں ، اور پھر انسان کے عقل وخرد کی وادی میں پھر اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہ انسان کا یہ طرز عمل کس قدر عجیب ہے کہ ان مشاہد کو دیکھتے ہوئے بھی وہ ایمان نہیں لاتا۔ اور پھر یہ دھمکی کہ اگر اس طرح انکار کرتے رہے تو عذاب الیم سے دوچار ہوں گے اور اگر ایمان لے آئے تو تمہارے لئے غیر منقطع اجر ہوگا۔ یہ سب مناظر اور مشاہد ، یہ سب اشارات وتاثرات ، اور یہ ملکوتی سیر ایک نہایت ہی مختصر سورت میں سمودیئے گئے ہیں ، جس کا طول وعرض چند سطروں تک محدود ہے۔ یہ کام صرف قرآن کا خاصہ ہے۔ کسی دوسری کتاب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ اس قدر عظیم عانی اور مقاصد ہیں کہ ایک طویل کتاب میں بھی ان کو کماحقہ بیان نہیں کیا جاسکتا اور نہ ان کو اس قدر زور دار انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ قرآن ہے اور اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کے لئے آسان ترین طریقے سے ہدایت فراہم کی جائے۔ دلوں کو براہ راست خطاب کرے ، ایسی راہوں سے دلوں تک ہدایات پہنچائے جو قریب ترین ہوں۔ یہ ہے انداز اور رنگ علیم وخبیر کے اسلوب بیان کا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi