Surat ul Inshiqaaq

Surah: 84

Verse: 1

سورة الانشقاق

اِذَا السَّمَآءُ انۡشَقَّتۡ ۙ﴿۱﴾

When the sky has split [open]

جب آسمان پھٹ جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Splitting the Heavens asunder and stretching the Earth forth on the Day of Resurrection Allah says, إِذَا السَّمَاء انشَقَّتْ When the heaven is split asunder, This refers to the Day of Judgement.

زمین مردے اگل دے گی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا وہ اپنے رب کے حکم پر کاربند ہونے کے لیے اپنے کان لگائے ہوئے ہو گا پھٹنے کا حکم پاتے ہی پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیگا اسے بھی چاہیے کہ امر اللہ بجا لائے اس لیے کہ یہ اس اللہ کا حکم ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا جس سے بڑا اور کوئی نہیں جو سب پر غالب ہے اس پر غالب کوئی نہیں ، ہر چیز اس کے سامنے پست و لاچار ہے بےبس و مجبور ہے اور زمین پھیلا دی جائیگی بچھا دی جائیگی اور کشادہ کر دی جائیگی ۔ حدیث میں ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو چمڑے کی طرح کھینچ لے گا یہاں تک کہ ہر انسان کو صرف دو قدم ٹکانے کی جگہ ملے گی سب سے پہلے مجھے بلایا جائیگا حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی دائیں جانب ہوں گے اللہ کی قسم اس سے پہلے اس نے کبھی اسے نہیں دیکھا تو میں کہوں گا اللہ جبرائیل نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ تیرے بھیجے ہوئے میرے پاس آتے ہیں اللہ فرمائے گا سچ کہا تو میں کہوں گا اللہ پھر مجھے شفاعت کی اجازت ہو چنانچہ مقام محمود میں کھڑا ہو کر میں شفاعت کروں گا اور کہوں گا کہ اللہ تیرے ان بندوں نے زمین کے گوشتے گوشتے پر تیری عبادت کی ہے ( ابن جریر ) پھر فرماتا ہے کہ زمین اپنے اندر کے کل مردے اگل دے گی اور خالی ہو جایئگی یہ بھی رب کے فرمان کی منتظر ہو گی اور اسے بھی یہی لائق ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے انسان تو کوشش کرتا رہیگا اور اپنے رب کی طرف آگے بڑھتا رہیگا اعمال کرتا رہیگا یہاں تک کہ ایک دن اس سے مل جائیگا اور اس کے سامنے کھڑا ہو گا اور اپنے اعمال اور اپنی سعی و کوشش کو اپنے سامنے دیکھ لے گا ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جی لے جب تک چاہے بالآخر موت آنے والی ہے جس سے چاہ و دل بستگی پیدا کر لے ایک دن اس سے جدائی ہونی ہے جو چاہے عمل کر لے ایک دن اس کی ملاقات ہونے والی ہے ، ملاقیہ کی ضمیر کا مرجع بعض نے لفظ رب کو بھی بتایا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ اللہ سے تیری ملاقات ہونے والی ہے وہ تجھے تیرے کل اعمال کا بدلہ دے گا اور تیری تمام کوشش و سعی کا پھل تجھے عطا فرمائے گا دونوں ہی باتیں آپس میں ایک دوسری کو لازم و ملزوم ہیں قتادہ فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم تو کوشش کرنے والا ہے لیکن اپنی کوشش میں کمزور ہے جس سے یہ ہو سکے کہ اپنی تمام تر سعی و کوشش نیکیوں کی کرے تو وہ کر لے دراصل نیکی کی قدرت اور برائیوں سے بچنے کی طاقت بجز امداد الٰہی حصال نہیں ہو سکتی ۔ پھر فرمایا جس کے داہنے ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ مل جائیگا اس کا حساب سختی کے بغیر نہایت آسانی سے ہو گا اس کے چھوٹے اعمال معاف بھی ہو جائیں گے اور جس سے اس کے تمام اعمال کا حساب لیا جائیگا وہ ہلاکت سے نہ بچے گا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس سے حساب کا مناقشہ ہو گا وہ تباہ ہو گا تو حضرت عائشہ نے فرمایا قرآن میں تو ہے کہ نیک لوگوں کا بھی حساب ہو گا آیت ( فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا Ď۝ۙ ) 84- الانشقاق:8 ) آپ نے فرمایا دراصل یہ وہ حساب نہیں یہ تو صرف پیشی ہے جس سے حساب میں پوچھ گچھ ہو گی وہ برباد ہو گا ( مسند احمد ) دوسری روایت میں ہے کہ یہ بیان فرماتے ہوئے آپ نے اپنی انگلی اپنے ہاتھ پر رکھ کر جس طرح کوئی چیز کریدتے ہیں اس طرح اسے ہلا جلا کر بتایا مطلب یہ ہے کہ جس سے باز پرس اور کرید ہو گی وہ عذاب سے بچ نہیں سکتا خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ جس سے باقاعدہ حساب ہو گا وہ تو بےعذاب پائے نہیں رہ سکتا اور حساب یسیر سے مراد صرف پیشی ہے حالانکہ اللہ خوب دیکھتا رہا ہے حضرت صدیقہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نماز میں یہ دعا مانگ رہے تھے دعا ( اللھم حاسبنی حسابا یسیرا ) جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ آسان حساب کیا ہے؟ فرمایا صرف نامہ اعمال پر نظر ڈال لی جائیگی اور کہہ دیا جائیگا کہ جاؤ ہم نے درگذر کیا لیکن اے عائشہ جس سے اللہ حساب لینے پر آئے گا وہ ہلاک ہو گا ( مسند احمد ) غرض جس کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال آئیگا وہ اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہی چھٹی پا جائے گا اور اپنے والوں کی طرف خوش خوش جنت میں واپس آئیگا ، طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں تم لوگ اعمال کر رہے ہو اور حقیقت کا علم کسی کو نہیں عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ تم اپنے اعمال کو پہچان لو گے بعض وہ لوگ ہوں گے جو ہنسی خوشی اپنوں سے آ ملیں گے اور بعض ایسے ہوں کہ رنجیدہ افسردہ اور ناخوش واپس آئیں گے اور جسے پیٹھ پیچھے سے بائیں ہاتھ میں ہاتھ موڑ کر نامہ اعمال دیا جائیگا وہ نقصان اور گھاٹے کی پکار پکارے گا ہلاکت اور موت کو بلائے گا اور جہنم میں جائیگا دنیا میں خوب ہشاش بشاش تھا بےفکری سے مزے کر رہا تھا آخرت کا خوف عاقبت کا اندیشہ مطلق نہ تھا اب اس کو غم و رنج ، یاس محرومی و رنجیدگی اور افسردگی نے ہر طرف سے گھیر لیا یہ سمجھ رہا تھا کہ موت کے بعد زندگی نہیں ۔ اسے یقین نہ تھا کہ لوٹ کر اللہ کے پاس بھی جانا ہے پھر فرماتا ہے کہ ہاں ہاں اسے اللہ ضرور دوبارہ زندہ کر دے گا جیسے کہ پہلی مرتبہ اس نے اسے پیدا کیا پھر اس کے نیک و بد اعمال کی جزا و سزا دے گا بندوں کے اعمال و احوال کی اسے اطلاع ہے اور وہ انہیں دیکھ رہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یعنی جب قیامت برپا ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(اذا السمآء انشقت : دوسری جگہ فرمایا :(وفتحت السمآء فکانت ابواباً ) (النبا : ١٩)” اور آسمان کھولا جائے گا تو وہ دروازے دروازے ہوجائے گا۔ “ اور فرمایا :(یوم تشقق السمآء بالغمام و نزل الملٓئکۃ تنزیلاً ) (الفرقان ٢٥)” جس دن آسمان بادلوں کے ساتھ پھٹے گا اور فرشتے گروہ درگروہ در گروہ اتارے جائیں گے۔ “ یہ نفخہ ثانیہ کے ساتھ ہوگا، آگے زمین سے مردوں کے نکلنے کے ذکر سے بھی یہی معلمو ہو رہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The present Surah depicts the conditions that will prevail on the Day of Judgment, such as reckoning and accountability, reward of good and torment of evil. The heedless man is asked to look into himself and his environs, which will lead him to believe in Allah and the Qur&an. [ The powerful opening of the Surah sketches some of the scenes of universal upheaval ]. First, it speaks about the sky that will split apart. Then it goes on to speak about the earth that will be stretched and will throw up whatever it contains - whether natural treasures, or buried treasures, or dead human bodies, and then it will become empty. A new earth will be prepared for Hashr (Gathering of the Day of Requital). It will have neither caves nor mountains, neither buildings nor trees. It will be flat and smooth. It will be stretched so that there is ample room for the former as well as the latter generations to gather on the plain. This description has been given in other Surahs with different styles, but in the present verses, there is an addition. About what Allah will demonstrate about the heaven and earth on the Day of Judgment, the following comment is made: وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (and will listen to (the command of) its Lord, and it ought to,...84:5) The verbَأَذِنَتْ adhinat means &it will listen&. Here listening includes obedience. The verb huqqat may be interpreted as &It had an obligation to listen and obey Allah&s command&. Two Categories of Divine Commands The obedience of the heaven and the earth, referred to here, may have two meanings, because the Divine commands are of two kinds: [ 1] the Divinely legislated [ taqdirii ] injunctions; and [ 2] the cosmic and destined [ takwini taqdiri ] commands. In the former case, the command appears as a law the violation of which is punishable. However, men are not practically coerced in the sense that they become practically unable to violate it. Instead, they have their free will to choose whether to abide by the law or to violate it. Such laws are imposed upon those who are endowed with intellect like humans and Jinn. This divides them into believers and non-believers, obedient and disobedient. In the former case, the commands are implemented by force. No one can deviate from them in the least. The entire universe, including humans and Jinn, follow them by force. The cosmic commands [ which Allah has decreed ] are applied forcefully and all the creatures, whether believers or unbelievers, pious or impious, have no choice or will but to do according to that command. ذرَّہ ذرَّہ دہر کا پابستہ تقدیر ہے زندگی کے خواب کی جَامی یہی تعبیر ہے &Every particle in this world is bound by the Divine Decree. Jami, this is the interpretation of the dream of life.& It is possible that Allah will, on that day, endow the sky and the earth with special sense and perception like humans and Jinn. When they receive a command from Allah, they, of their own volition choose to act upon it. Alternatively, the command may refer to the second kind, that is, the cosmic command that no one can violate. But the words, وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ |"and will listen to [ the command on its Lord, and it ought to,|" are closer to the first meaning of command, while the second one is possible, if these words are taken in their figurative sense.

خلاصہ تفسیر جب (نفخہ ثانیہ کے وقت) آسمان پھٹ جاوے گا (تاکہ اس میں سے غمام یعنی بادل کی شکل کی ایک چیز کا نزول ہو جس میں فرشتے ہوں گے جس کا ذکر پارہ وقال الذین لایرجون آیت و یوم تشفق السماء والخ میں ہے) اور اپنے رب کا حکم سن لیگا (اور مان لیگا، یہاں حکم سے مراد حکم تکوینی انشاق کا ہے اور ماننے سے مراد اس کا وقوع ہے) اور وہ (آسمان بوجہ محکوم قدرت ہونے کے) اسی لائق ہے (کہ جس امر کی مشیت اس کے متعلق ہو اس کا وقوع ضرور ہوجاوے) اور جب زمین کھینچ کر بڑھا دی جاوے گی (جس طرح چمڑا یا ربڑ کھینچا جاتا ہے، پس اس وقت کی مقدار سے اس وقت مقدار زیادہ ہوجاوے گی تاکہ سب اولین و آخرین اس میں سماجا ویں جیسا در منشور میں بسند جید حاکم کی روایت سے مرفوعاً وارد ہے تمد الارض یوم القیمتہ مدالادیم لخ پس آسمان کا یہ انشقاق اور زمین کا امتداد دونوں حساب محشر کے مقدمات میں سے ہیں) اور (وہ زمین) اپنے اندر کی چیزوں کو (یعنی مردوں کو) باہر اگل دیگی اور (سب مردوں سے) خالی ہوجاوے گی اور وہ زمین) اپنے رب کا حکم سن لیگی اور وہ اسی لائق ہے (اس کی تفسیر بھی مثل سابق ہے بس اس وقت انسان اپنے اعمال کو دیکھے گا جیسا آگ ارشاد ہے کہ) اے انسان تو اپنے رب کے پاس پہنچنے تک (یعنی مرنے کے وقت تک) کام میں کوششیں کر رہا ہے (یعنی کوئی نیک کام میں لگا ہوا ہے کوئی برے کام میں) پھر) (قیامت میں) اس (کام کی جزائ) سے جا ملے گا تو (اس روز) جس شخص کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں ملے گا سو اس سے آسان حساب لیا جاوے گا اور وہ ( اس سے فارغ ہو کر) اپنے متعلقین کے پاس خوش خوش آئیگا ( آسان حساب کے مراتب مختلف ہیں، ایک یہ کہ اس پر بالکل عذاب مرتب نہ ہو۔ بعض کے لئے تو یہ ہوگا اور حدیث میں اسی کی تفسیر یہ آئی ہے کہ جس حساب میں مناقشہ (خوردہ گیری) نہ ہو صرف پیشیش ہوجاوے اور یہ ان کے لئے ہوگا جو بلا کسی عذاب کے نجات پائیں گے۔ دوسرا یہ کہ اس پر عذاء دائمی نہ ہو اور یہ عام مومنین کے لئے ہوگا۔ اور مطلق عذاب اس کے منافی نہیں) اور جس شخص کا نامہ اعمال (اسکے بائیں ہاتھ میں) اس کی پیٹھ کے پیچھے سے ملے گا (مراد اس سے کفار ہیں اور پشت کی طرف سے ملنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ اس کی مشکیں کسی ہوئی ہوں گی تو بایاں ہاتھ میں پشت کی طرف ہوگا دوسری صورت مجاہد کا قول ہے کہ اس کا بایاں ہاتھ پشت کی طرف نکال دیا جاوے گا کذا فی الدالمنشور) سو وہ موت کو پکاریگا (جیسا مصیبت میں عادت ہے موت کی تمنا کرنے کی) اور جہنم میں داخل ہوگا، یہ شخص (دنیا میں) اپنے متعلقین (اہل و عیال وحشم وخدم) میں خوش خوش رہا کرتا تھا (یہاں تک کہ فرط خوشی میں آخرت کی تکذیب کرنے لگا تھا جیسا کہ آگے ارشاد ہے کہ) اس نے خیال کر رکھا تھا کہ اس کو (خدا کی طرف) لوٹنا نہیں ہے (آگے رو ہے اس گمان کا کہ لوٹنا) کیوں نہ ہوتا (آگے لوٹنے کے بعد جزا کا اثبات ہے کہ) اسکا رب اس کو خوب دیکھتا تھا ( اور اس کے اعمال پر جزا دینے کے ساتھ مشیت متعلق کرچکا تھا اس لئے جزا کا وقوع اس کا رب اس کو خوب دیکھتا تھا (اور اس کے اعمال پر جزا دینے کے ساتھ مشیت متعلق کرچکا تھا اس لئے جزا کا وقوع ضروری تھا) سو (اس بنا پر) میں قسم کھا کر کہتا ہوں شفیق کی اور رات کی اور ان چیزوں کی جن کو رات سمیٹ (کر جمع کر) لیتی ہے (مراد وہ سب جاندار ہیں جو رات کو آرام کرنے کے لئے اپنے اپنے ٹھکانے میں آجاتے ہیں) اور چاند کی جب وہ پورا ہوجاوے (یعنی بدربنجاوے، ان سب چیزوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں) کہ تم لوگوں کو ضرور ایک حالت کے بعد دوسری حالت پر پہنچنا ہے (یہ تفصیل ہے یا یھا الانسان تا ملاقیہ کی، پس وماں جنس کو خطاب تھا یہاں دوسری حالت پر پہنچنا ہے (یہ تفصیل ہے یایھا الانسان تا ملاقیہ کی پس وہاں جنس کو خطاب تھا یہاں جمیع افراد کو خطاب ہے وہاں بقائے عمل کا ذکر مجملاً فرمایا، یہاں اس چیز کی تفصیل ہے جس سے روز محشر ملے گا یا اس کے سامنے آویگی اور وہ حالتیں ایک موت ہے اس کے بعد احوال برزخ اس کے بعد احوال قیامت پھر خود ان میں بھی تعدد و کثرت ہے اور ان قسموں کا مناسب مقام ہونا اس طرح ہے کہ رات کے احوال کا مختلف ہونا کہ اول شفق نمودار ہوتی ہے پھر زیادہ رات آتی ہے تو سب سو جاتے ہیں اور پھر ایک رات کا دوسری رات سے نور قمر کی زیارت و نقصان میں مختلف ہونا، یہ سب مشابہ ہے اختلاف احوال بعد الموت کے، و نیز موت سے عالم آخرت شروع ہوتا ہے جیسے شفیق سے رات شروع ہوتی ہے پھر عالم برزخ میں رہنا مشابہ لوگوں کے سو رہنے کے ہے اور چاند کا پورا ہونا بعد محاق کے مشابہ ہے حیوہ قیامت کے بعد فناء عالم کے) سو (باوجود ان مقتضیات خوف و ایمان کے اجتماع کے) ان لوگوں کو کیا ہوا کہ ایمان نہیں لاتے اور (خود تو ایمان اور حق کی کیا طلب کرتے ان کی عناد کی یہ حالت ہے کہ) جب ان کے روبرو قرآن پڑھا جاتا ہے تو (اس وقت بھی خدا کی طرف) نہیں جھکتے بلکہ (بجائے جھکنے کے) یہ کافر (اور الٹی) تکذیب کرتے ہیں اور اللہ کو سب خبر ہے جو کچھ یہ لوگ (اعمال بد کا ذخیرہ) جمع کر رہے ہیں سو (ان اعمال کفر یہ کے سبب) آپ ان کو ایک دد ناک عذاب کی خبر دیدجیئے لیکن جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ان کے لئے (آخرت میں) ایسا اجر ہے جو کبھی موقوف ہونے والا نہیں (عمل صالح کی قید شرط کے طور پر نہیں سبب کے طریق پر ہے۔ ) معارف و مسائل اس سورت میں قیامت کے احوال اور حساب کتاب اور نیک و بد کی جزاء و سزا کا پھر غافل انسان کو خد اس کی ذات اور گرد و پیش کے حالات میں غور کرنے اور ان سے ایمان باللہ والقران تک پہنچنے کی ہدایت ہے۔ اس میں پہلے آسمان کے پھٹنے کا ذکر ہے پھر زمین کا جو کچھ اس کے پیٹ میں ہے خواہ وہ خزائن دفائن ہوں یا انسان کے مردہ اجسام وہ سب اگل کر نکالدے گی اور محشر کے لئے ایک نئی زمین تیار ہوگی جس میں نہ کوئی غار، پہاڑ ہوگا نہ تعمیر اور درخت ایک صاف سطح مستوی ہوگی اس کو کھینچ کر بڑھا دیا جائے گا تاکہ تمام اولین و آخرین اس پر جمع ہو سکیں یہ بیان دوسری سورتوں میں مختلف عنوان سے آیا ہے، یہاں ایک نئی زیادتی یہ ہے کہ آسمان اور زمین دونوں پر جو تصرف حق تعالیٰ کی طرف سے روز قیامت ہوگا اس کے متعلق فرمایا و اذنت لرنھا وحقت اذن کے معنی ہیں سن لیا اور مراد سننے سے سن کر اطاعت کرنا ہے اور حقت بصیغہ مجہول کے معنی یہ ہیں کہ حق لھا الانقیاد یعنی حق واجب تھا کہ وہ اللہ کے اس حکم کی اطاعت کرے۔ احکام الہیہ کی دو قسمیں :۔ یہاں آسمان و زمین کی اطاعت اور تعمیل حکم کے دو معنے ہو سکتے ہیں کیونکہ احکام الہیہ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تشریعی احکام جن میں ایک قانون بتلایا جاتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کی سزا بتلا دی جاتی ہے مگر کرنیوالے کو اس کی کسی جانب پر مجبور محض نہیں کیا جاتا بلکہ اس کو ایک درجہ کا اختیار دیا جاتا ہے وہ اپنے اختیار سے اس قانون کی پابندی کرے یا خلاف ورزی اور ایسے احکام عموماً ان مخلوقات پر عائد ہوتے ہیں جو ذوی العقول کہلاتے ہیں جیسے انسان اور جن، یہیں سے ان میں مومن و کافر اور مطیع و نافرمان کی دو قسمیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ دوسری قسم احکام کی تکوینی اور تقدیری احکام ہیں ان کی تنقید جبری ہوتی ہے کسی کی مجال نہیں کہ سر موان کے خلاف کرسکے ان احکام کی تعمیل کل مخلوقات جبراً کرتی ہے ان میں انسان اور جن بھی داخل ہیں، تکوینی احکام میں ان کے لئے جو کچھ مقدر کردیا گیا ہے مومن ہو یا کافر، متقی ہو یا فاسق، سب کے سب اسی تقدیر قانون کے تابع چلنے پر مجبور ہیں۔ ذرہ ذرہ دہر کا پابستہ تقدیر ہے زندگی کے خواب کی جامی یہی تعبیر ہے اس جگہ یہ ہوسکتا ہے کہ آسمان و زمین کو حق تعالیٰ خاص شعو رو ادراک عطا فرما دیں جو مکلفین میں ہوتا ہے اور جب ان کو کوئی حکم حق تعالیٰ کی طرف سے ملا انہوں نے با اختیار خود اس کی تعمیل اور اطاعت کی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس حکم سے مراد حکم تکوینی لیا جائے جس میں کسی کے ارادہ و اختیار کو دخل ہی نہیں ہوتا اذنت لرزبھا وحقت کے الفاظ پہلے معنے کے لئے زیادہ اقرب ہیں، دوسرے معنے بھی بطور مجاز کی بن سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ۝ ١ ۙ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ شق الشَّقُّ : الخرم الواقع في الشیء . يقال : شَقَقْتُهُ بنصفین . قال تعالی: ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس/ 26] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ، وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة/ 16] ، إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق/ 1] ، وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر/ 1] ، وقیل : انْشِقَاقُهُ في زمن النّبيّ عليه الصلاة والسلام، وقیل : هو انْشِقَاقٌ يعرض فيه حين تقرب القیامة وقیل معناه : وضح الأمروالشِّقَّةُ : القطعة الْمُنْشَقَّةُ کالنّصف، ومنه قيل : طار فلان من الغضب شِقَاقًا، وطارت منهم شِقَّةٌ ، کقولک : قطع غضبا والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل/ 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة/ 42] ، ( ش ق ق ) الشق الشق ۔ شگاف کو کہتے ہیں ۔ شققتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس/ 26] پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ( ان سے ) پھٹ جائے گی ۔ وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة/ 16] اور آسمان پھٹ جائے گا ۔ إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق/ 1] جب آسمان پھٹ جائیگا ۔ اور آیت کریمہ : وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر/ 1] اور چاند شق ہوگیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ انشقاق قمر آنحضرت کے زمانہ میں ہوچکا ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ یہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا اور بعض نے انشق القمر کے معنی وضح الاسر کئے ہیں یعنی معاملہ واضح ہوگیا ۔ الشقۃ پھاڑا ہوا ٹکڑا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ طار فلان من الغضب شقاقا فلاں غصہ سے پھٹ گیا ۔ جیسا کہ قطع غضبا کا محاورہ ہے ۔ طارت منھم شقۃ ۔ ان کا ایک حصہ اڑ گیا ۔ یعنی غضب ناک ہوئے ۔ الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ و دو سے بدن یا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل/ 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة/ 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) جب آسمان غمام و ملائکہ کے نزول کے لیے پھٹ جائے گا اور اپنے رب کا حکم سن لے گا اور وہ آسمان اسی لائق ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ اِذَا السَّمَآئُ انْشَقَّتْ ۔ } ” جب آسمان پھٹ جائے گا۔ “ نوٹ کیجیے ! ان تمام سورتوں کا بنیادی موضوع ” تذکیر آخرت “ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: پچھلی سورتوں کی طرح اس سورت میں بھی قیامت کے حالات بیان فرمائے گئے ہیں۔ عربی میں پھٹ پڑنے کو ’’انشقاق‘‘ کہتے ہیں، اسی لئے اس سورت کا نام انشقاق ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ١٥۔ یہ دوسرے وقت کا آسمان کا پھٹنا ہے کیونکہ اس کے ساتھ زمین سے مردوں کے اٹھنے کا ذکر ہے اور نئی زمین کے پھیلانے کا یہ مطلب ہے کہ اس میں عمارت ‘ پہاڑ ‘ ٹیلہ کوئی چیز نہ ہوگی اس سرے سے اس سرے تک فقط چورس زمین ہے خوب پھیلی ہوئی ہوگی۔ زمین میں جو کچھ ہے اس کے باہر آجانے کا مطلب اگر ان خزانوں کے زمین سے باہر آجانے کا لیا جائے جو قیامت کے قریب زلزلہ کے سبب سے نکل آئیں گے۔ جس کا ذکر صحیح ١ ؎ مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں ہے تو پھر آسمان کا یہ پھٹنا اول صور کے وقت کا ہوسکتا ہے۔ کدح کے معنی کسی کام میں لگنے اور اس کام کے کرنے میں کوشش کرنے کے ہیں۔ قیامت کا ذکر کے بعد انسان کے عمل کا ذکر فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ زیست بھر دنیا میں نیک و بد جو کچھ ہر شخص کرے گا جس وقت قیامت قائم ہوگی تو اس کا وہ سب عمل اس کے سامنے آجائے گا۔ قیامت کے دن نیک و بدعمل کے سامنے آنے کا مطلب یہ ہے کہ اس دن ہر شخص کو اس کے ہر طرح کے عمل کی جزا و سزا مل جائے گی۔ ورنہ نیک و بدعمل تو ہر شخص کو قبر میں رکھتے ہی اس کے سامنے آجاتا ہے چناچہ جس براء بن عازب کی حدیث کا ذکر اوپر گزرا اس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد نیک شخص کے پاس اس کی قبر میں ایک آدمی اچھی صورت کا اچھا لباس پہنے ہوئے آتا ہے اور مردہ سے کہتا ہے میں تیرا نیک عمل ہوں۔ اسی طرح بد آدمی کے مردہ کی قبر میں بد شکل برے لباس کا ایک شخص اس مردہ کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے میں تیرا بد عمل ہوں اس کے بعد نیک آدمی قیامت کے جلدی آنے اور اپنے نیک عمل کی جزا پانے کی تمنا کرتا رہتا ہے اور بد آدمی قیامت کے نہ آنے اور اپنے بد عمل کی سزا سے بچ جانے کی آرزو میں لگا رہتا ہے۔ آسان حساب کی بابت مسند امام احمد ٣ ؎ مستدرک حاکم ‘ تفسیر عبد بن حمید تفسیر ابن جریر وغیرہ میں حضرت عائشہ (رض) سے ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں ‘ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب یہ دعا مانگتے ہوئے دیکھا اللھم حاسنی حساباً یسیرا تو میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ حضرت آسانی حساب ہوجانے کی صورت قیامت کے دن کیا ہوگی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آسانی سے حساب ہوجانے کی صورت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کے نامہ اعمال پر فقط نظر ڈالے گا اور در گزر فرما کر حساب میں زیادہ کرید نہ فرمائے گا کیونکہ جس شخص کے حساب میں کرید نکالی جائے گی وہ ضرور عذاب کا مستحق ٹھہرے گا صحیحین ١ ؎ وغیرہ میں حضرت عائشہ (رض) سے ایک اور روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس آسانی سے حساب کا اس آیت میں ذکر ہے وہ فقط یہی ہے کہ نامہ اعمال پر سرسری طور سے ایک نظر ڈالی جائے گی ورنہ کرید سے اصلی حساب جس شخص کا ہوگا وہ ضرور عذاب کا مستحق ٹھہر جائے گا۔ بیہقی مستدرک ٢ ؎ حاکم مسند بزار طبرانی وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہوں گی قیامت کے دن اس کا حساب آسانی سے ہوگا ایک بدمزاج رشتہ داروں سے سلوک اور صلہ رحمی کا کرنا دوسرے جو برائی سے اپنے سے پیش آئے اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا۔ تیسرے اگر کوئی ظلم زیادتی کرے تو اس کو معاف کردینا۔ اللہ تعالیٰ کی جن بندوں پر نظر عنایت ہوگی تو بندوں کے حساب میں آسانی کی صورت یہ بھی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرمائے گا۔ صحیحین ٣ ؎ کی حضرت عبد اللہ بن عمر کی حدیث اس پر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بعض اللہ کے بندے اپنے نامہ اعمال میں جب قیامت کے دن اپنے گناہ لکھے ہوئے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے رو برو ان گناہوں کا اقرار کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جس طرح دنیا میں تمہارے گناہوں کو میں نے پوشیدہ رکھا تھا اور تم کو رسوا نہیں کیا تھا آج بھی میں تم کو رسوا نہیں کرتا اور تمہارے گناہوں کو بخش دیتا ہوں ایک صورت آسانی حساب کی یہ بھی ہوگی کہ تھوڑی سی نیکی کا حساب اللہ تعالیٰ بہت سا عنایت فرمائے گا جس سے بدی کا پلڑا ہلکا ہوجائے گا اور نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو کر حساب میں کچھ دقت باقی نہ رہے گی حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) کی ترمذی ٤ ؎ اور ابن ماجہ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس میں کلمہ توحید کے ثواب کے پلڑا کے بھاری ہوجانے کا ذکر ہے ایک آسانی حساب کی صورت یہ ہوگی کہ نامہ اعمال میں جو گناہ لکھے ہوئے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نیکیوں کے ساتھ بدل دے گا جس کا ذکر صحیح ١ ؎ مسلم کی حضرت ابوذر کی حدیث میں اوپر گزرچکا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ شرک ظاہری اور شرک باطنی سے جس کو ریا کاری کہتے ہیں انسان کو بچنا چاہئے پھر اگر آدمی گناہ گار بھی بغیر توبہ کے مرگیا ہے تو اللہ کی ذات سے اللہ کی رحمت اور آسانی حساب کی توقع ہے۔ صحیح ٢ ؎ مسلم میں حضرت ابوذر کی روایت سے بہت بڑی حدیث قدسی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ قیامت کے دن جو شخص اس طرح حساب کے لئے میرے رو برو کھڑا ہوگا کہ اس کے نامہ اعمال میں کسی طرح کا شرک نہ ہوگا تو اگر ایسے شخص کے گناہ اس قدر بھی ہوں گے کہ ان گناہوں سے ساری زمین بھر جائے جب بھی مجھ کو ان گناہوں کے بخش دینے میں کچھ دریغ نہیں ہے یہ ان لوگوں کا ذکر تھا جن کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اب دوسری آیت میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن کا اعمال نامہ پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یہ وہ لوگ ہیں کہ قیامت کے دن کے حساب و کتاب کے منکر یا اس سے بےفکر تھے ان کے حساب میں طرح طرح کی کرید نکالی جائے گی انجام ان کا دوزخ ہوگا کیونکہ ان کے سب کام اللہ کی نظر میں تھے۔ (١ ؎ صحیح مسلم فصلنی حسر الفرات عن جبل منذھب ص ٣٩٠ ج ٢) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٨٨ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری۔ باب من نوتش الحساب عذب ص ٩٦٩ ج ٢) (٢ ؎ الترغیب والترھیب۔ الترغیب فی صلۃ الرحم وان قطعت الخ ص ٥٦١ جلد ٣) (٣ ؎ صحیح بخاری باب ستر المومن علیٰ نفسہ ص ٨٩٦ ج ٢) (٤ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فیمن یموت وھو یشھد ان لا الہ الا اللہ ص ١٠٣ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب فضل الذکر والدعاء والتقدب الی اللہ تعالیٰ ص ٤٤٣ ج ٢) (٢ ؎ صحیح مسلم باب تحریم الظلم ص ٣١٩ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(84:1) اذا السماء انشقت : اذا بمعنی جب، اس وقت، ناگہاں ظرف زمان ہے زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے اکثر و بیشتر شرطیہ ہوتا ہے۔ آیت ہذا میں بعض کے نزدیک اذا شرطیہ ہے جواب شرط محذوف ہے جس کے مضمون پر آئندہ آیات دلالت کر رہی ہیں۔ یعنی جب ایسا ایسا ہوگا تو انسان اپنی کوشش کو پالے گا۔ اور اس کے دائیں ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ خوش خوش لوٹے گا۔ اور اگر پیٹھ کے پیچھے سے اس کو اعمال نامہ دیا گیا تو ہلاکت کو پکارے گا۔ (مظہری) مولانا عبد الحق اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں :۔ اذا : اذا کرکے یہ تو بیان فرما دیا کہ جب ایسا ہوگا اور جب ایسا ہوگا۔ مگر یہ نہیں فرمایا کہ جب یہ ہوگا تو کیا ہوگا ؟ یعنی اذا شرطیہ کی جزاء یا شرط کا جواب نہیں فرمایا۔ کہ اس کو اہل زبان کے مذاق پر چھوڑ دیا کہ وہ خود سمجھ لیں گے۔ کہ اس وقت ضرور انسان کا یہ خیال غلط ثابت ہوجائے گا ۔ کہ اس کو مر کر کسی دار جزاو سزا کی طرف جانا نہیں ہے۔ اور اسی لئے بعد میں اس مقصود کی تشریح کردی جس کو بعض نے جواب شرط سمجھ لیا۔ (تفسیر حقانی) بعض نے کہا ہے کہ :۔ لیست بشرطیۃ بل ہی منصوبۃ باذکر المحذوف : وہی مبتداء وخبرھا اذا الثانیۃ والواو زائدۃ (ایضا) ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ شرطیہ نہیں ہے بلکہ اذکر محذوف سے منصوب ہے اور مبتداء ہے جس کی خبر دوسرا اذا ہے واؤ زائدہ ہے۔ انشقت فعل محذوف کی تفسیر ہے جس کا السماء فاعل ہے کلام یوں ہوگا :۔ اذانشقت السماء انشقت (جب آسمان پھٹ جائے گا) ۔ انشقت ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ انشقاق (انفعال) مصدر سے۔ جس کا معنی ہے شق ہوجانا۔ پھٹ جانا۔ وہ (آسمان ) پھٹ جائے گا۔ (عربی میں السماء مؤنث مستعمل ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ کی ہیبت سے یا فرشتوں کے اترنے کے لے پھٹ جائے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : یوم تشقق السمآء بالغمام و نزل المئکتہ تنزیلاً جس روز بادل کے ساتھ آسمان پھٹے گا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اتارے جائیں گے۔ “ (فرقان 25)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة انشقاق۔ آیات ١ تا ٢٥۔ اسرار ومعارف۔ جب آسمان پھٹ جائے گا اور اپنے پروردگار کا حکم سن کر اطاعت کرے گایہی اسے زیب دیتا ہے اور زمین کھینچ کر پھیلادی جائے گی اور جو کچھ اسکے اندر دفن ہے انسان ، حیوان ، یامع دنیات ہر شے نکال حاضر کرے گی اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اسے یہی سزا وار ہے۔ احکام کی قسمیں۔ احکام دو طرح سے ہیں اول تکوینی جو حکما نافذ کیے جاتے ہیں جن کا ہرـذرہ پابند ہے حتی کہ جن اور انسان بھی زمین وآسمان اور سب کچھ جو ان میں ہے جیسے انسان کی پیدائش شکل و صورت ، قد کاٹھ ، عقل وخرد وغیرہ ذالک اور دوسرے تشریعی احکام جن میں قانون بتاکرعمل کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے اور اس کی جزا وسزا کا بتادیاجاتا ہے یہ مکلف مخلوق کے لیے ہے۔ سو اے انسان ! تجھے زندگی کے مشکل ترحالات سے گزر کر بالآخر اپنے پروردگار کے حضور پیش ہونا ہے اور جو کچھ کرچکا ہوگاوہ سب اس کے سامنے ہوگا۔ زندگی کی مشکلات اس کا خاصہ ہے۔ راہ حیات مشکلات سے عبارت ہے ولادت سے لے کر موت تک نہ صرف نیک آدمی کو مشکلات پیش آتی ہیں بلکہ بدکار اس سے زیادہ تکالیف اٹھاتا ہے اور نہ صرف غریب مشکل میں ہوتا ہے امیر کی مشکلات اس سے بڑی ہوتی ہیں رعیت کے مقابل حکمرانوں کو اور زیادہ تکالیف درپیش ہوتی ہیں تو تقاضائے عقل یہی ہے کہ اگر مشکلات ہی اٹھانا مقدر ہے تو پھر نیکی کے لیے کیوں نہ اٹھائی جائیں جبکہ گناہ نیکی سے مشکل ہے اور پھر انجام کا رذلت بھی۔ لہذا اس روز جسکو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں عطا کیا گیا اس کا حساب بہت آسان ہوگا حساب سے مراد کہ اللہ رب العزت جواب طلبی نہ فرمائیں گے کہ ایسا کیوں کیا تو وہ خوش خوش اپنے گھروالوں کے پاس لوٹے گا کہ نیکوں کا نیک خاندان بھی ان کے ساتھ جمع ہوگا اور جس کو اعمال نامے پیٹھ پیچھے سے دیا گیا کہ بائیں ہاتھ والوں کا ہاتھ پیچھے لاکر پیٹھ سے گھسیٹر کر آگے نکال دیاجائے گا اور اعمال نامہ تھمادیاجائے گا وہ تو اپنے لیے موت کی تمنا کر رہے ہوں گے مگر موت کہاں ، انہیں تو دوزخ کی بھڑکتی آگ میں ڈالاجائے گا کہ یہ دنیا میں اپنے عیال میں عیش کرتا تھا اور اسے خیال ہورہا تھا کہ شاید یہ میدان حشر میں نہ جائے گا قسم ہے شفق کی کہ جب سرخی بکھیرتی ہے پھر قسم ہے اس کے بعد چھاجانے والی تاریک رات کی جو ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور پھر پورے چاند کی جب روشنی پھیلادیتا ہے اسی طرح تمہارا نظام بھی ہے کہ تم درجہ بدرجہ اپنے انجام کی طرف رواں دواں ہو۔ ولادت سے موت تک یہ سارا نظام شمسی اس پہ شاہد ہے اور خود تمہاری زندگی اس کی گواہ ، تو پھر یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے کہ نقلی اور عقلی دونوں طرح کے دلائل موجود ہیں اگر ذراغور وفکر کریں تو انہیں اندازہ ہوجائے اور جب قرآن پڑھاجاتا ہے توسربسجود کیوں نہیں ہوتے کیوں خلوص دل سے اطاعت نہیں کرتے (حنفیہ کے نزدیک یہاں سجدہ ہے) بلکہ کفار الٹا انکار کرتے ۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے کہ اعمال بد کی وجہ سے عناد سے دلوں کو بھر رکھا ہے لہذا انہیں اس کے نتیجے میں ہونے والے دردناک عذاب سے آگاہ فرمادیجئے اور مومنوں کو جو یقین کی دولت سے آراستہ کرتے ہیں بتادیجئے کہ ان کے لیے نہ ختم ہونے والے انعامات ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ تخلت۔ خالی ہوگئی۔ اذنت۔ سن لیا۔ حقت۔ اس لائق ہے۔ کا دح۔ مشقت اٹھانے والا۔ وراء ظھرہ۔ اس کی پیٹھ کے پیچھے سے۔ ثبور۔ موت۔ لن یحور۔ ہرگز واپس نہ ہوگا۔ شفق۔ سرخی۔ وسق۔ سمٹ کر آگئی۔ اتسق۔ وہ مکمل ہوگیا۔ ترکبن۔ تم ضرور چڑھو گے۔ قری۔ تلاوت کیا گیا۔ یوعون۔ وہ محفوط کئے ہوتے ہیں۔ تشریح : قرآن کریم میں ارشاد ہے ” وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے وہ سب کچھ پیدا کیا جو زمین میں ہے۔ “ دوسری جگہ فرمایا ” اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو ان کو شمار نہیں کرسکتے “ یہ دونوں آیتیں ہر انسان کو غور وفکر کی دعوت دے رہی ہیں کہ اگر انسان اپنے اردگرد دیکھے تو اپنے وجود سے لے کر باہر تک دنیا تک قدم قدم پر ایسی بیشمار نعمتیں ہیں جن سے وہ ہر آن ہر طرح کے فائدے حاصل کر رہا ہے۔ زمین، آسمان، چاند، سورج ، ستارے، فضائیں، ہوائیں، چرند، پرند، جمادات، نباتات، پہاڑ، دریا اور سمندر وغیرہ سب اس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں ان تمام نعمتوں کا تقاضا یہ تھا کہ آدمی ہر وقت اس کا شکر ادا کرتا، اسی کی عبادت و بندگی اور نیاز مندی میں زندگی کا ہر لمحہ گزارتا۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر اس کو مال و دولت، گھر بار، اولاد اور عیش و آرام کے زیادہ اسباب مل جاتے ہیں تو وہ ان پر اترانے اور غرور وتکبر کرنے لگتا ہے۔ اپنے مالک حقیقی کو بھول کر دوسروں کی عبادت و بندگی اور کفرو شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اللہ، اس کے رسول، قیامت اور آخرت کی ابدی زندگی کا انکار تک کر بیٹھتا ہے۔ اس کی زندگی نافرمانیوں کا پیکر بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے برخلاف اللہ نے کائنات میں جتنی بھی چیزیں پیدا کی ہیں وہ ہر وقت اس کے سامنے سر جھکائے اس کے حکم کی منتظر رہتی ہیں۔ قیامت کے دن زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی چیزوں کو جو بھی حکم دیا جائے گا وہ اسی وقت اس کی تعمیل کریں گی۔ آسمان پھٹ جائے گا اور زمین کو کھینچ کر صاف، چٹیل اور ہموار میدان بنا دیا جائے گا جس کی وسعت میں ابتدائے کائنات سے قیامت تک جتنے انسان گزرے ہیں وہ سب اس پر جمع ہوجائیں گے۔ زمین اپنے اندر سے ہر چیز کو نکال کر باہر پھینک دے گی اور بالکل خالی ہوجائے گی۔ وہ زمین اس قدر ہم وار ہوجائے گی کہ کوئی پہاڑ، ٹیلہ، سمندر، دریا اور درخت ایک دوسرے کے دیکھنے میں رکاوٹ نہ بنیں گے کیونکہ اس سرزمین پر ان میں سے کوئی چیز بھی موجود نہ ہوگی۔ یہی وہ میدان حشر ہوگا جس میں ہر شخص کو اپنی زندگی کے ہر لمحے کا حساب دینا ہوگا۔ پھر جز ایا سزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تمام انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے اے لوگو ! تم زندگی بھر، دن رات، صبح شام، اچھی یا بری، کسی نہ کسی بھاگ دوڑ، جدوجہد ، محنت اور مشقت میں لگ کر زندگی کے ہر میدان میں دوڑتے رہتے ہو۔ کبھی تم نے اس بات پر بھی غوروفکر سے کام لیا ہے کہ جس محنت لگن اور اپنے خون پسینے سے سینچ کر جس باغ کو بنا رہے ہو تو تمہاری آنکھ بند ہوتے ہی اس پر دوسروں کا قبضہ ہوجائے گا۔ موت کے ایک ہی جھٹکے میں ان تمام چیزوں سے رشتہ ٹوٹ جائے گا۔ تم زندگی کے کتنے مرحلوں سے گزر کر ایک منزل تک پہنچتے ہو۔ شکم مادر، بچپن، نوجوانی، جوانی ، ادھیڑ عمری اور پھر بڑھاپا اور ایک دن تم ان منزلوں سے گزرنے کے بعد موت کی آغوش میں جا کر سو جاتے ہو۔ کیا تم نے اس سے آگے کی منزلوں پر بھی غور کیا ہے کہ قبر یعنی عالم برزخ اور میدان حشر میں پہنچنے کے بعد تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا ؟ حالانکہ اس دنیا کی زندگی کے بعد کی زندگی پر غور کرنا چاہتے تھا کیونکہ دنیا کی زندگی تو پچاس سو سال تک محدود ہے لیکن آکرت کی زندگی تو ہمیشہ کے لئے ہے اور وہاں کی ہر راحت اور تکلیف دائمی ہے۔ فرمایا کہ جب آدمی میدان حشر میں پہنچے گا تو اس نے زندگی بھر جو کام کئے ہوں گے ان کا مکمل ریکارڈ یعنی نامہ اعمال اس کے حوالے کردیا جائے گا۔ یہ اعمال نامے جن لوگوں کے داہنے ہاتھ میں دئیے جائیں گے وہ تو خوشی خوشی اپنے گھر والوں کے پاس پہنچیں گے۔ ہر ایک کو اپنے اعمال نامے دے کر کہیں گے کہ دیکھویہ ہے میرا اعمال نامہ ذرا اس کو پڑھو تو سہی غرضیکہ ایسا آدمی خوشی سے پھولا نہ سمائے گا۔ اور اس کو جنت کی ابدی راحتوں سے ہم کنار کردیا جائے گا۔ اور وہ لوگ جن کے بائیں ہاتھ میں پیچھے سے اعمال نامے دئیے جائیں گے وہ اپنے اعمال نامے پڑھ کر اور اپنے بدترین انجام کو دیکھ کر رونا اور چلان شروع کردیں گے اور نہایت حسرت و افسوس سے کہہ اٹھیں گے کہ اس سے تو موت ہی اچھی تھی کاش کہ ہمیں ایک مربتہ اور موت ہی آجائے لیکن ان کو موت نہ آئے گی بلکہ وہ اپنے برے انجام سے دور چار ہونے کے لئے جہنم میں جھونک دئیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے گھروالوں میں بےفکر اور راحت و آرام کے اسباب میں مگن رہتے تھے جنہیں آکرت تک یاد نہ تھی بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں اسی دنیا میں رہنا ہے اور لوٹ کر اللہ کے سامنے نہیں جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایا ہے ( جس کا خلاصہ یہ ہے کہ) کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ سورج غروب ہونے کے بعد آسمان پر جو سرخی اور شفق ہوتی ہے وہ کچھ دیر کیسی بہار اور رونق دکھاکر غائب ہوجاتی ہے اور اس پر رات کا اندھیراچھا جاتا ہے۔ پھر رات آتی ہے تو رات کا اندھیرا ہر چیز کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ سارے دن کا تھکا ماندہ انسان اپنے گھرلوٹتا ہے، پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف اور دوسرے جانور اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ کر آرام کرتے ہیں لیکن وہ رات بھی اسی حالت پر نہیں رہتی بلکہ ایک صبح نمودار ہو کر سارے اندھیروں کو سمیٹ کر رکھ دیتی ہے۔ رات کے اندھیرے میں چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہے۔ اس کی ٹھنڈی کرنوں سے سکون ملتا ہے۔ وہ مکمل چاند ہر روز گھٹتے گھٹتے کھجور کی سوکھی شاخ کی طرف باریک ہو کر غائب ہوجاتا ہے اور پھر اپنے وقت پر نکل آتا ہے۔ فرمایا کہ اس کائنات اور اس کی رونقیں جو ہمیں نظر آرہی ہیں ایک دن ختم ہو کر رہ جائیں گی اور پھر ایک نئی زمین اور نیا آسمان پیدا ہوگا۔ فرمایا کہ انسان کو کیا ہوگیا ایسی کھلی سچائیوں کو دیکھ کر بھی وہ اللہ پر یمان نہیں لاتا۔ جب اس کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ ہر مومن اللہ کے سامنے سجدہ کر رہا ہے تو اس کی جبین نیاز اللہ کے سامنے نہیں جھکتی اور ہر سچائی کو جھٹلانا اس کا مزاج بن جاتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ کو ان کے تمام حالات کا اچھی طرح علم ہے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ کون نیکیوں کو اپنا رہا ہے اور کون اس کا انکار کر رہا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان لوگوں کو جو سچائیوں کا نکار کرنے والے ہیں جہنم کی خوش خبری سنا دیجئے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے ایمان و یقین کے راستے کو اختیار کرکے عمل صالح اختیار کئے ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ نے ان کے لئے ایسا عظیم اجر تیار کر رکھا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا اور ایسے لوگ ہمیشہ کی راحتوں میں رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : سورت ” اَلْمُطَفِّفِیْنَ “ کا اختتام اس بات پر ہوا کہ جو لوگ قیامت پر ایمان لانے اور حق بات قبول کرنے کی وجہ سے ایمانداروں کو مذاق کرتے ہیں وہ کافر ہیں۔ قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال کی پوری پوری سزا دی جائے گی۔ کفار جس قیامت کا انکار کرتے ہیں اس کی ابتدا اس طرح ہوگی۔ جونہی اسرافیل صورپھونکے گا تو آسمان پھٹ جائے گا اور اسے اس کے رب کا یہی حکم ہوگا جس پر عمل پیرا ہونا آسمان پر رب تعالیٰ کا حق ہے۔ زمین مسلسل زلزلوں کی وجہ سے ہر چیز باہر پھینک دے گی اور اس کا پیٹ خالی ہوجائے گا اور اسے بالکل برابر کردیا جائے گا، اسے بھی اس کے رب کا یہی حکم ہوگا اور ایسا کرنا اس پر اس کے رب کا حق ہے کیونکہ زمین و آسمانوں کو صرف اسی نے ہی پیدا کیا ہے مخلوق ہونے کا تقاضا ہے کہ دونوں اپنے رب کے حکم کی تعمیل کریں۔ یہاں رب ذوالجلال نے اپنے لیے ” اللہ “ کا لفظ استعمال کرنے کی بجائے دونوں مرتبہ رب کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ رب کا معنٰی خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ زمین و آسمانوں کو یہ معلوم ہے کہ ہمیں پیدا کرنے والا صرف ” اللہ “ ہے جو ہمارا خالق اور مالک ہے اس لیے ہمیں ہر حال میں اس کا حکم ماننا چاہے اس کا حکم ماننا ہم پر فرض ہے کیونکہ ہمارے پیدا کرنے والے کا ہم پر حق ہے۔ یہ الفاظ لا کر ہر انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ اے انسان ! تجھے بھی اپنے رب کا حکم ماننا چاہیے کیونکہ وہی تیرا خالق، رازق اور حقیقی مالک ہے تجھے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ تو اپنے رب کے حضور پہنچنے کے لیے کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں تو اس سے ضرور ملاقات کرے گا۔ اس کوشش میں انسان کی شعوری اور غیر شعوری ہر قسم کی کوشش شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے اور قیامت پر یقین کرنے والے لوگ شعوری طور پر کوشش کرتے ہیں کہ ہم اپنے رب کے احکام کی تعمیل کریں کیونکہ ہم نے اس کے حضور پیش ہونا ہے اس لیے وہ اس کیلئے کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوں تو ان کا اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے اور ان کا رب ان پر راضی ہوجائے ان کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں جو زندگی بھر دنیا کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور انہیں اپنے رب کی ملاقات کی کوئی فکر نہیں ہوتی حالانکہ غیر شعوری طور پر وہ بھی اسی راہ کے راہی ہیں اور بالآخر وہ بھی اپنے رب کے حضور پیش ہونے والے ہیں۔ قیامت کے دن زمین ان کیلئے اپنے پیٹ سے ہر چیز باہر نکال دے گی اور جو کچھ اس کے سینے میں راز ہیں وہ اگل دے گی، اسے دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” جب زمین پوری شدت کے ساتھ ہلادی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے بوجھ نکال کر باہر پھینک دے گی اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوگیا ہے ؟ اس دن زمین اپنے حالات بیان کرے گی کیونکہ آپ کے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ “ (الزلزال : ٥) مسائل ١۔ آسمان پھٹ جائے گا اور زمین ہموار ہوجائے گی کیونکہ ایسا کرنا ان کے لیے لازم ہے۔ ٢۔ زمین سب کچھ نکال باہر کرے گی کیونکہ اسے اس کے رب کی طرف سے یہی حکم ہوگا۔ ٣۔ ہر انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے آگے بڑھا جارہا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن زمین و آسمانوں کا ایک منظر : ١۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوگی۔ (الکھف : ٤٧) ٢۔ اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے۔ (المزل : ١٤) ٣۔ زمین و آسمانوں پر قیامت بھاری ہوگی۔ (الاعراف : ١٨٧) ٤۔ زمین کو ہلا کر تہہ وبالا کردیا جائے گا۔ (واقعہ : ٣، ٤) ٥۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دیا جانا۔ (الزلزال : ١) ٦۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعہ : ١) ٧۔ لوگو ! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

گزشتہ سورت میں ہم نے آسمان کے پھٹنے کی تشریح کی ہے۔ یہاں جو بات اضافی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کام اللہ کی اطاعت میں ہوگا۔ اور یہ کہ وہ اس بات کا ذمہ دار اور مستحق ہے کہ ایسا کرے اور اللہ کے اس حق کو ادا کرے کیونکہ اللہ کا حق ہے کہ اس کے احکام کی اطاعت کی جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ سورة الانشقاق کی پندرہ آیات کا ترجمہ ہے۔ ان آیات میں اولاً آسمان و زمین کا حال بیان فرمایا ہے پھر انسان کے اعمال والی محنت اور حاصل محنت یعنی آخرت کے دن کی کامیابی اور ناکامیابی کو بتایا ہے اور ارشاد فرمایا کہ جب آسمان پھٹ جائے گا اور اپنے رب کے حکم کو سن لے گا اور مان لے گا اور حکم ماننا اس کے لیے ضروری ہی ہے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے نافرمانی اور سرتابی کی مجال نہیں ہے اور جبکہ زمین کو پھیلا دیا جائے گا یعنی اس وقت جو اس کا انبساط اور پھیلاؤ ہے اس سے زیادہ پھیلا دی جائے گی اور اس کے پیٹ میں جو کچھ ہے اس کو نکال کر باہر ڈال دے گی اور خالی ہوجائے گی، جو اموات اس میں دفن ہیں اور ان کے علاوہ جو دفینے ہیں اس سے باہر آجائیں گے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوگا جیسے آسمان کو حکم کے مطابق انکار کرنے کی کوئی مجال نہیں ہے اسی طرح زمین کو بھی نافرمانی کی کوئی گنجائش نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو اس کا حکم ہوگا اسے ماننا ہی لازم ہوگا، دونوں جگہ ﴿ وَ اَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَ حُقَّتْۙ٠٠٢﴾ جو فرمایا ہے اس کا یہی مطلب ہے، حکم کے مطابق آسمان کو پھٹنا ہی پڑے گا زمین کو مزید بڑھایا جائے گا اور اسے بڑھنا ہی پڑے گا اور اسے خالی ہونے اور مردوں اور دفینوں کو باہر ڈالنے کا حکم ہوگا تو اسے حکم ماننا لازم ہی ہوگا دونوں جگہ جو لفظ ” اذا “ آیا ہے اس کی جزا محذوف ہے اور وہ یہ ہے کہ راٰی الانسان عملہ مطلب یہ ہے کہ جس دن آسمان پھٹ پڑے گا اور زمین پھیلا دی جائے گی اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں اسے باہر ڈال دے گی اس دن انسان اپنے اعمال کو دیکھ لے گا۔ سورة ابراہیم کی آیت ﴿ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ ﴾ سے معلوم ہو رہا ہے کہ آسمان زمین بدل دیئے جائیں گے بدلے بھی جائیں گے اور وہ صورت حال بھی ہوجائے جس کا یہاں سورة الانشقاق میں تذکرہ فرمایا ہے اس میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” اذا السماء “ تخویف اخروی۔ آخرت کے ابتدائی احوال کا بیان۔ جب آسمان پھٹ جائیں گے آسمانوں کا پھٹنا اللہ کے امر سے ہوگا۔ جب اللہ کا امر ہوگا آسمان اس کے امر کی اطاعت کریں گے اور ان کے لائق ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو سنیں اور اس کی تعمیل کریں یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے نفاذ سے کنایہ ہے۔ آسمانوں میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں جو ان کے توڑنے پھوڑنے پر قدرت خداوندی کی تاثیر سے مانع ہو۔ والمعنی انہ لم یوجد فی جرم السماء ما یمنع من تاثیر قدرۃ اللہ تعالیٰ فی شقھا وتفریق اجزائہا الخ “ (کبیر ج 8 ص 509) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) جب آسمان پھٹ جائے۔