Surat ul Inshiqaaq

Surah: 84

Verse: 16

سورة الانشقاق

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالشَّفَقِ ﴿ۙ۱۶﴾

So I swear by the twilight glow

مجھے شفق کی قسم !اور رات کی!

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Swearing by the Various Stages of Man's Journey Allah swears, فَلَ أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ But no! I swear by Ash-Shafaq; It has been reported from Ali, Ibn Abbas, Ubadah bin As-Samit, Abu Hurayrah, Shaddad bin Aws, Ibn Umar, Muhammad bin Ali bin Al-Husayn, Makhul, Bakr bin Abdullah Al-Muzani, Bukayr bin Al-Ashaj, Malik, Ibn Abi Dhi'b, and Abdul Aziz bin Abi Salamah Al-Majishun, they all said, "Ash-Shafaq is the redness (in the sky). Abdur-Razzaq recorded from Abu Hurayrah that he said, "Ash-Shafaq is the whiteness." So Ash-Shafaq is the redness of the horizon, either before sunset, as Mujahid said or after sunset, as is well known with the scholars of the Arabic Language. Al-Khalil bin Ahmad said, "Ash-Shafaq is the redness that appears from the setting of sun until the time of the last `Isha' (when it is completely dark). When that redness goes away, it is said, Ash-Shafaq has disappeared."' Al-Jawhari said, "Ash-Shafaq is the remaining light of the sun and its redness at the beginning of the night until it is close to actual nighttime (darkness)." Ikrimah made a similar statement when he said, "Ash-Shafaq is that what is between Al-Maghrib and Al-Isha'." In the Sahih of Muslim, it is recorded from Abdullah bin Amr that the Messenger of Allah said, وَقْتُ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَغِبِ الشَّفَق the time of Al-Maghrib is as long as Ash-Shafaqhas not disappeared." In all of this, there is a proof that Ash-Shafaq is as Al-Jawhari and Al-Khalil have said. وَاللَّيْلِ وَمَا وَسَقَ

پیشین گوئی شفق سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب آفتاب کے بعد آسمان کے مغربی کناروں پر ظاہر ہوتی ہے حضرت علی حضرت ابن عباس حضرت عبادہ بن صامت ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت شداد بن اوس ، حضرت عبداللہ بن عمر ، محمد بن علی بن حسین مکحول ، بکر بن عبداللہ مزنی ، بکیر بن الشیخ ، مالک بن ابی ذئب ، عبدالعزیز بن ابو سلمہ ، ماجشون یہی فرماتے ہیں کہ شفق اس سرخی کو کہتے ہیں حضرت ابو ہریرہ سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد سفیدی ہے ، پس شفق کناروں کی سرخی کو کہتے ہیں وہ طلوع سے پہلے ہو یا غروب کے بعد اور اہل سنت کے نزدیک مشہور یہی ہے ، خلیل کہتے ہیں عشاء کے وقت تک یہ شفق باقی رہتی ہے ، جوہری کہتے ہیں سورج کے غروب ہونے کے بعد جو سرخی اور روشنی باقی رہتی ہے اسے شفق کہتے ہیں ۔ یہ اول رات سے عشاء کے وقت تک رہتی ہے ۔ عکرمہ فرماتے ہیں مغرب سے لے کر عشاء تک ، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے مغرب کا وقت شفق غائب ہونے تک ہے ، مجاہد سے البتہ یہ مروی ہے کہ اس سے مراد سارا دن ہے ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ مراد سورج ہے ، غالباً اس مطلب کی وجہ اس کے بعد کا جملہ ہے تو گویا روشنی اور اندھیرے کی قسم کھائی ، امام ابن جریر فرماتے ہیں دن کے جانے اور رات کے آنے کی قسم ہے ۔ اوروں نے کہا ہے سفیدی اور سرخی کا نام شفق ہے اور قول ہے کہ یہ لفظ ان دونوں مختلف معنوں میں بولا جاتا ہے ۔ وسق کے معنی ہیں جمع کیا یعنی رات کے ستاروں اور رات کے جانوروں کی قسم ، اسی طرح رات کے اندھیرے میں تمام چیزوں کا اپنی اپنی جگہ چلے جانا ، اور چاند کی قسم جبکہ وہ پورا ہو جائے اور پوری روشنی والا بن جائے ، لترکبن الخ کی تفسیر بخاری میں مرفوع حدیث سے مروی ہے ۔ کہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف چڑھتے چلے جاؤ گے ، حضرت انس فرماتے ہیں جو سال آئے گا وہ اپنے پہلے سے زیادہ برا ہو گا ۔ میں نے اسی طرح تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے اس حدیث سے اور اوپر والی حدیث کے الفاظ بالکل یکساں ہیں ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث ہے ۔ ( اللہ اعلم ) اور یہ مطلب بھی اسی حدیث کا بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد ذات نبی ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کی تائید حضرت عمر ابن مسعود ابن عباس اور عام اہل مکہ اور اہل کوفہ کی قرأت سے بھی ہوتی ہے ۔ ان کی قرأت ہے لترکبن ۔ شعبی کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اے نبی تم ایک آسمان کے بعد دوسرے آسمان پر چڑھو گے ، مراد اس سے معراج ہے ، یعنی منزل بمنزل چڑھتے چلے جاؤ گے سدی کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ اپنے اپنے اعمال کے مطابق منزلیں طے کرو گے ۔ جیسے حدیث میں ہے ، کہ تم اپنے سے اگلے لوگوں کے طریقوں پر چڑھو گے بالکل برابر برابر یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا ہو تو تم بھی یہی کرو گے ، لوگوں نے کہا اگلوں سے مراد آپ کی کیا یہود و نصرانی ہیں؟ آپ نے فرمایا پھر اور کون؟ حضرت مکحول فرماتے ہیں ہر بیس سال کے بعد تم کسی نہ کسی ایسے کام کی ایجاد کرو گے جو اس سے پہلے نہ تھا ، عبداللہ فرماتے ہیں ، آسمان پھٹے گا پھر سرخ رنگ ہو جائے گا ۔ پھر بھی رنگ بدلتے چلے جائیں گے ، ابن مسعود فرماتے ہیں کبھی تو آسمان دھواں بن جائے گا پھر پھٹ جائے گا ۔ حضرت سعید بن جیبر فرماتے ہیں یعنی بہت سے لوگ جو دنیا میں پست و ذلیل تھے آخرت میں بلند و ذی عزت بن جائیں گے ، اور بہت سے لوگ دنیا میں مرتبے اور عزت والے تھے وہ آخرت میں ذلیل و نامراد ہو جائیں گے ۔ عکرمہ یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ پہلے دودھ پیتے تھے پھر غذا کھانے لگے ، پہلے جوان تھے پھر بڈھے ہوئے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں نرمی کے بعد سختی سختی کے بعد نرمی ، امیری کے بعد فقیری ، فقیری کے بعد امیری ، صحت کے بعد بیماری ، بیماری کے بعد تندروستی ، ایک مرفوع حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ابن آدم غفلت میں ہے وہ پروا نہیں کرتا کہ کس لیے پیدا کیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ جب کسی کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو فرشتے سے کہتا ہے اس کی روزی اس کی اجل ، اس کی زندگی ، اس کا بدیا نیک ہونا لکھ لے پھر وہ فارغ ہو کر چلا جاتا ہے ، اور دوسرا فرشتہ آتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک کہ اسے سمجھ آ جائے پھر وہ فرشتہ اٹھ جاتا ہے پھر دو فرشتے اس کا نامہ اعمال لکھنے والے آ جاتے ہیں ۔ موت کے وقت وہ بھی چلے جاتے ہیں اور ملک الموت آ جاتے ہیں اس کی روح قبض کرتے ہیں پھر قبر میں اس کی روح لوٹا دی جاتی ہے ، ملک الموت چلے جاتے ہیں قیامت کے دن نیکی بدی کے فرشتے آ جائیں گے اور اس کی گردن سے اس کا نامہ اعمال کھول لیں گے ، پھر اس کے ساتھ ہی رہیں گے ، ایک سائق ہے دوسرا شہید ہے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا آیت ( لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ 22؀ ) 50-ق:22 ) تو اس سے غافل تھا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت لترکبن الخ پڑھی یعنی ایک حال سے دوسرا حال پھر فرمایا لوگو تمھارے آگے بڑے بڑے ہم امور آ رہے ہیں جن کی برداشت تمھارے بس کی بات نہیں لہذا اللہ تعالیٰ بلند و برتر سے مدد چاہو ، یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے ، منکر حدیث ہے اور اس کی سند میں ضعیف راوی ہیں لیکن اس کا مطلب بالکل صحیح اور درست ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔ امام ابن جریر نے ان تمام اقوال کو بیان کر کے فرمایا ہے کہ صحیح مطلب یہ ہے کہ آپ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت سخت کاموں میں ایک کے بعد ایک سے گزرنے والے ہیں اور گو خطاب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہے لیکن مراد سب لوگ ہیں کہ وہ قیامت کی ایک کے بعد ایک ہولناکی دیکھیں گے ، پھر فرمایا کہ انہیں کیا ہو گیا یہ کیوں نہیں ایمان لاتے ؟ اور انہیں قرآن سن کر سجدے میں گر پڑنے سے کونسی چیز روکتی ہے ، بلکہ یہ کفار تو الٹا جھٹلاتے ہیں اور حق کی مخالفت کرتے ہیں اور سرکشی میں اور برائی میں پھنسے ہوئے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کی باتوں کو جنھیں یہ چھپا رہے ہیں بخوبی جانتا ہے ، تم اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خبر پہنچا دو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب تیار کر رکھے ہیں ، پھر فرمایا کہ ان عذابوں سے محفوط ہونے والے بہترین اجر کے مستحق ایماندار نیک کردار لوگ ہیں ، انہیں پورا پورا بغیر کسی کمی کے حساب اور اجر ملے گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( عَطَاۗءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ ١٠٨؁ ) 11-ھود:108 ) بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ بلا احسان لیکن یہ معنی ٹھیک نہیں ہر آن پر لحظہ اور ہر وقت اللہ تعالیٰ عز و جل کے اہل جنت پر احسان و انعام ہوں گے بلکہ صرف اس کے احسان اور اس کے فعل و کرم کی بنا پر انہیں جنت نصیب ہوئی نہ کہ ان کے اعمال کی وجہ سے پس اس مالک کا تو ہمیشہ اور مدام والا احسان اپنی مخلوق پر ہے ہی ، اس کی ذات پاک ہر طرح کی ہر وقت کی تعریفوں کے لائز ہمیشہ ہمیشہ ہے ، اسی لیے اہل جنت پر اللہ کی تسبیح اور اس کی حمد کا الہام اسی طرح کیا جائے جس طرح سانس بلا تکلیف اور بےتکلف بلکہ بے ارادہ چلتا رہتا ہے ، قرآن فرماتا ہے آیت ( واخر دعوٰ ھم ان الحمد اللّٰہ رب العالمین ) یعنی ان کا آخری قول یہی ہو گا کہ سب تعریف جہانوں کے پالنے والے اللہ کے لیے ہی ہے ، الحمد اللہ سورہ انشقاق کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ ہمیں توفیق خیر دے اور برائی سے بچائے ، آمین ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 شفق جو سورج غروب ہونے پر ظاہر ہوتی ہے اور عشا کا وقت شروع ہونے تک رہتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(فلا اقسم بالشفق : قسم سے پہلے ” لا “ کا مطلب منکرین کی بات کی نفی ہے۔ ” الشفق “ سورج غروب ہونے کے بعد آسمان کے کنارے کی سرخی جو عشاء تک رہتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَلَا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ وَاللَّيْلِ وَمَا وَسَقَ وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ (So, I swear by the twilight [ after sunset ], and by the night and what it envelops, and by the moon when it develops at the full...84:16-18) In these verses Allah takes oath by four phenomena and reinforces what was asserted in: إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ &you have to work hard constantly to reach your Lord& If we consider the four phenomena by which oath is taken, it bears evidence to the subject which is forthcoming in the complement of the oath, that is, the condition of man never remains the same at all times. He undergoes changes and unexpected phases all the time. The first phenomenon that brings about a change in his life is the twilight after the sunset, or the red glow that remains on the west side of the sky after the sunset in the evening. This is the beginning of the night. This is the harbinger of a massive change in human conditions, that is, the light is disappearing and a flood of darkness is setting in. The second phenomenon by which oath is taken is night itself which completes the change in his life. The third phenomenon by which oath is taken includes all things that night envelops or shrouds. The primitive sense of the word wasaqa means to &pile, gather, heap up the thing&. If it is taken in general sense, it embraces every member of the entire universe which the darkness of night covers, such as animals, vegetation, minerals and inorganic matter, mountains and oceans. By extension, the word would comprehend all things that normally disperse in the light of day and retreat to their own places at night. Human beings return to their homes, animals to their habitats and birds to their nests. Business goods and merchandise are or piled up in one place. This massive change is related to man himself. The fourth phenomenon by which oath is taken is in the following verse: وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ (and by the moon when it develops at the full...84:18). The word ittisaq is also derived from wasaqa and it means &to gather&. The &gathering of moon& signifies that it gathered its light, and it became complete and full [ badr ] the moon of the 14th night. The phrase إِذَا اتَّسَقَ , idhat-tasaqa in relation to moon points to the phenomenon that it goes through various phases. First, it appears as a very fine semicircle. Then its light grows progressively night after night, until it becomes badr kamil [ full moon of the 14th night ]. Having taken oath by the vicissitudes of the four phenomena, the Surah asserts the subject: لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ (you shall certainly ascend from stage to stage....84:19) The word tabaq or tabqah refers to a &stage&. Its plural is tabaqat. The verb لَتَرْكَبُنَّ latarkabunna is derived from rukub which means &to mount or mount up&. The verse purports to say that mankind from the inception to the end of his life will continue to mount up stage by stage, or will pass through all the conditions, gradually and in stages referred to in the preceding verses, that is, periods of light and darkness and other phenomena. He never remains in one condition all the time. He gradually goes through the vicissitudes of life. Vicissitudes of Human Life, His Eternal Journey and His Final Destination In the first instance the male sperm is united with the female egg to form a new human organism. This is turned into a blood-clot which transforms into a lump of flesh, and the lump is formed into bones, and the bones are clothed in flesh. The limbs of the human body thus were completed. Then the soul was breathed into him, and he became a living human being. His first food in the womb of his mother was the unclean blood of the mother&s womb. Nine months later, Allah made his way easy to come into the world. Now instead of the unclean blood, he got the [ pure ] milk of his mother&s [ breast ]. When he saw the wide atmosphere and air of the world, he began to grow and develop. Within the first two years of his life, he started moving and walking about, and was able to talk. He weaned and began to eat more delicious and different types of food. As he grew a little older, he made play and amusement his daily preoccupation. When his intelligence developed [ sufficiently ], he was tied up in educational and training activities. When he grew into a youth, he abandoned all previous activities and replaced them with youth activities and ushered himself in a new era where marriage, children and house-keeping became his day-to-day preoccupation. Eventually, this era too neared its end. His physical and other prowess began to give up, and every day he fell prey to new ailments. Old age set in. The final stage of this life, that is, death, began to mount. All this happens in full view of everyone. No one dare deny this. But the ignoramus assumes that death or grave is his final stage, and there is nothing beyond. Allah, the Creator of the universe, the Omniscient, made it known, through the various Prophets [ through the ages ], to the heedless man that grave is not the final stage of his life, but it is merely a waiting-room to enter an enormously large and gigantic world that is yet to come, where the final examination will be conducted and the final stage of his life will be determined. In this world, he will celebrate the Divine remembrance and enjoy eternal comfort and pleasure or he will suffer eternal perdition and damnation [ depending on the final assessment ]. This is where the vicissitudes of his life will end. Thus the Qur&an says: إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الرُّجْعَىٰ &Surely, to your Lord is the return [ 96:8] & أَنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الْمُنتَهَىٰ &and that to your Lord is the end (of every one), [ 42] & إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا &you have to work hard constantly to reach your Lord [ 84:6] & The ignoramus and unmindful man is made aware of the fact that the vicissitudes of life are stages in the journey to his final destination. Man ought to realise that walking, moving about, sleeping, waking, and standing and sitting are conditions, in the process of which he is covering the stages of his journey. Eventually, he will reach his Lord and, accounting for his life-long deeds, he will find his final abode that will be a place of never-ending comfort, luxury and pleasure, or [ God forbid!] a place of never-ending retribution, torture and torment. A wise person should treat himself in this world as a traveller and prepare himself for the next world. His main goal in this life should be to cultivate for the next life as the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم said: کُن فِی الدُّنیا کَاَنَّکَ غرِیبٌ اَو عِابِرُ سَبِیلٍ |"Be in this world as though you are a stranger or a wayfarer.|" Under the phrase above طَبَقًا عَن طَبَقٍ tabaqan ` an tabaq &from stage to stage&, a similar narration is cited by Abu Nu&aim from Sayyidna Jabir Ibn ` Abdullah that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) stated that these verses remind the unmindful of his creation, the vicissitudes of his life and instructs him to reconsider his position and the consequences [ of his attitude in this life as there is still time ] and to prepare for next life. However, despite these clear guidelines, there are people who never desist from their heedlessness.

فلا اقسم بالشفق، اس آیت میں حق تعالیٰ نے چار چیزوں کی قسم کے ساتھ موکد کر کے انسان کو پھر اس چیز کی طرف متوجہ کیا ہے جس کا کچھ ذکر پہلے انک کادح الی ربک میں آ چکا ہے۔ یہ چاروں چیزیں جن کی قسم کھائی ہے اگر غور کرو تو اس مضمون کی شاہد ہیں جو جواب قسم میں آنیوالا ہے یعنی انسان کو ایک حال پر قرار نہیں اس کے حالات اور درجات ہر وقت بدلتے رہتے ہیں۔ پہلی چیز شفق ہے یعنی وہ سرخی جو آفتاب غروب ہونے کے بعد افق مغرب میں ہوتی ہے یہ رات کی ابتدا ہے جو انسانی احوال میں ایک بڑے انقلاب کا مقدمہ ہے کہ روشنی جا رہی ہے اور تاریکی کا سیلاب آ رہا ہے، اس کے بعد خود رات کی قسم ہے جو اس انقلاب کی تکمیل کرتی ہے، اس کے بعد ان تمام چیزوں کی قسم ہے جن کو رات کی تاریکی اپنے اندر جمع کرلیتی ہے۔ وسق کے اصل معنے جمع کرلینے کے ہیں، اس کے عام معنے مراد لئے جائیں تو اس میں تمام دنیا کی کائنات داخل ہیں جو رات کی تاریکی میں چھپ جاتی ہیں اس میں حیوانات، نباتات، جمادات، پہاڑ اور دریا سبھی شامل ہیں اور جمع کرلینے کی مناسبت سے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ چیزیں جو عادة دن کی روشنی میں منتشر پھیلی ہوئی رہتی ہیں۔ رات کے وقت وہ سب سمٹ کر اپنے پانے ٹھکانوں میں جمع ہوجاتی ہیں، انسان اپنے گھر میں، حیوانات اپنے اپنے گھروں اور گھونسلوں میں جمع ہوجاتے ہیں، کاروبار میں پھیلے ہوئے سامانوں کو سمیٹ کر یکجا کردیا جاتا ہے، یہ ایک عظیم انقلاب خود انسان اور اس کے متعلقات میں ہے۔ چوتھی چیز جس کی قسم کھائی گئی وہ القمر اذا اتسق ہے یہ بھی وسق سے مشتق ہے جس کے معنے جمع کرلینے کے ہیں قمر کے اتساق سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی روشنی کو جمع کرے اور یہ چودھویں رات میں ہوتا ہے جبکہ چاند بالکل مکمل ہوتا ہے۔ اذا اتسق کا لفظ چاند کے مختلف اطوار اور حالات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے ایک نہایت خفیف نحیف قوس کی شکل میں رہتا ہے پھر اس کی روشنی روز کچھ ترقی کرتی ہے یہاں تک کہ بدر کامل ہوجاتا ہے۔ مسلسل اور پیہم انقلابات احوال پر شہادت دینے والی چار چیزوں کی قسم کھا کر حق تعالیٰ نے فرمایا تترکبن طبقاً عن طبق جو چیزیں تہ برتہ ہوتی ہیں اس کی ایک تہ کو طبق یا طبقہ کہتے ہیں جمع طبقات آتی ہے لترکبن، رکوب بمعنے سوار ہونے سے مشتق ہے معنے یہ ہیں کہ اے بنی نوع انسان تم ہمیشہ ایک طبقہ سے دوسرے طبقہ پر سوار ہوتے اور چڑھتے چلے جاؤ گے۔ یعنی انسان اپنی تخلیق کے ابتدا سے انتہا تک کسی وقت ایک حال پر نہیں رہتا بلکہ اس کے وجود پر تدریجی انقلابات آتے رہتے ہیں۔ انسانی وجود میں بیشمار انقلابات اور دائمی سفر اور اس کی آخری منزل :۔ نطقہ سے منجمد خون بنا پھر اس سے ایک مضغہ گوشت بنا پھر اس میں ہڈیاں پیدا ہوئیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھا اور اعضاء کی تکمیل ہوئی پھر اس میں روح لا کر ڈالی گئی اور وہ ایک زندہ انسان بنا جس کی غذا بطن مادر کے اندر رحم کا گندہ خون تھا، نو مہینے کے بعد اللہ نے اس کے دنیا میں آنے کا راستہ آسان کردیا اور گندی غذا کی جگہ ماں کا دودھ ملنے لگا۔ دنیا کی وسیع فضا اور ہوا دیکھی بڑھنے اور پھیلنے پھولنے لگا، دو برس کے اندر چلنے پھرنے اور بولنے کی قوت بھی حرکت میں آئی، ماں کا دودھ چھوٹ کر اس سے زیادہ لذیذ اور طرح طرح کی غذائی ملیں، کھیل کود اور لہو و لعب اس کے دن رات کا مشغلہ بنا۔ کچھ ہوش اور شعور بڑھا تو تعلیم و تربیت کے شکنجے میں کسا گیا، جوان ہوا تو پچھلے سب کام متروک ہو کر جوانی کی خواہشات نے ان کی جگہ لے لی اور ایک نیا عالم شروع ہوا۔ نکاح شادی، اولاد اور خانہ داری کے مشغل دن رات کا مشغلہ بن گئے آخر یہ دور بھی ختم ہونے لگا، قویٰ میں اضمحلال اور ضعیف پیدا ہوا بیماریاں آئے دن رہنے لگیں، بڑھاپا آ گیا اور اس جہان کی آخری منزل یعنی قبر تک پہنچنے کے سامان ہونے لگے۔ یہ سب چیزیں تو سب کی آنکھوں کے سامنے ہوتی ہیں۔ کسی کو مجال انکار نہیں مگر حقیقت سے ناآشنا انسان سمجھتا ہے کہ یہ موت اور قبر اس کی آخری منزل ہے آگے کچھ نہیں، اللہ تعالیٰ جو خالق کائنات اور علیم وخبیر ہے اس نے آگے آنیوالے مراحل کو اپنے انبیاء کے ذریعہ غافل انسان تک پہنچایا کہ قبر تیری آخری منزل نہیں بلکہ یہ صرف ایک انتظار گاہ (ویٹنگ روم) ہے اور آگے ایک بڑا جہان آنے والا ہے اور اس میں ایک بڑے امتحان کے بعد انسان کی آخری منزل مقرر ہوجائے گی جو راحت و آرام کی ہوگی یا پھر دائمی عذاب و مصیبت کی اور اس آخری منزل پر ہی انسان اپنے حقیقی مستقر پر پہنچ کر انقلابات کے چکر سننے نکلے گا قرآن کریم نے ان الی ربک الرجعی اور الی ربک المنتھی میں یہی مضمون بیان فرما کر غفلت شعار انسان کو حقیت اور اس کی آخری منزل سے آگاہ اور اس پر متنبہ کیا کہ عمر دنیا کے تمام حالات اور انقلابات آخری منزل تک جانے کا سفر اور اس کے مراحل ہیں اور انسان چلتے پھرتے سوتے جاگتے کھڑے بیٹھے ہر حال میں اس سفر کی منزلیں طے کر رہا ہے اور بالاخر اپنے رب کے پاس پہنچتا ہے اور عمر بھر کے اعمال کا حساب دے کر آخری منزل میں قرار پاتا ہے جہاں یا راحت ہی راحت اور غیر منقطع آرام ہی آرام ہے یا پھر معاذ اللہ عذاب ہی عذاب اور غیر منقطع مصائب ہیں، تو عقلمند انسان کا کام یہ ہے کہ دنیا میں اپنے آپ کو ایک مسافر سمجھے اور اپنے وطن اصلی کے لئے سامان تیار کرنے اور بھیجنے کی فکر ہی کو دنیا کا سب سے بڑا مقصد بنائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کن فی الدنیا کانک غریب آؤ عابر سبیل، یعنی دنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئی مسافر چند روز کے لئے کہیں ٹھہر گیا ہو کسی رہگذر میں چلتے چلتے کچھ دیر آرام کے لئے رک گیا ہو۔ طبقا عن طبق کی تفسیر جو اوپر بیان کی گئی ہے ابو نعیم نے حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت سے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے یہ طویل حدیث اسجگہ قرطبی نے بحوالہ ابی نعیم اور ابن کثیر نے بحوالہ ابن ابی حاتم مفصل نقل کی ہے۔ ان آیات میں غافل انسان کو اس کی تخلیق اور عمر دنیا میں اس کو پیش آنے والے حالات و انقلابات سامنے کر کے یہ ہدایت دی کہ غافل اب بھی وقت سے کہ اپنے انجام پر غور اور آخرت کی کفر کر، مگر ان تمام روشن ہدایات کے باوجود بہت سے لوگ اپنی غفلت سے باز نہیں آتے اس لئے آخر میں ارشاد فرمایا فما لھم لایومنون یعنی ان غافل و جاہل انسانوں کو کیا ہوگیا کہ یہ سب کچھ سننے اور جاننے کے بعد بھی اللہ پر ایمان نہی لاتے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ۝ ١٦ ۙ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ قْسَمَ ( حلف) حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ شفق الشَّفَقُ : اختلاط ضوء النّهار بسواد اللّيل عند غروب الشمس . قال تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ، والْإِشْفَاقُ : عناية مختلطة بخوف، لأنّ الْمُشْفِقَ يحبّ المشفق عليه ويخاف ما يلحقه، قال تعالی: وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] ، فإذا عدّي ( بمن) فمعنی الخوف فيه أظهر، وإذا عدّي ب ( في) فمعنی العناية فيه أظهر . قال تعالی: إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] ، مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] ، مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] ، أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] . ( ش ف ق ) الشفق غروب آفتاب کے وقت دن کی روشنی کے رات کی تاریکی میں مل جانے کو شفق کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ہمیں شام کی سرخی کی قسم ۔ الاشفاق ۔ کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا کیونکہ مشفق ہمیشہ مشفق علیہ کو محبوب سمجھتا ہے اور اسے تکلیف پہنچنے سے ڈرتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] اور وہ قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں ۔ اور جب یہ فعل حرف من کے واسطہ سے متعدی تو اس میں خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے اور اگر بواسطہ فی کے متعدی ہو تو عنایت کے معنی نمایاں ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] اس سے قبل ہم اپنے گھر میں خدا سے ڈرتے رہتے تھے ۔ مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] وہ اس سے ڈرتے ہیں ۔ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] وہ اپنے اعمال ( کے وبال سے ) ڈر رہے ہوں گے ۔ أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ ۔۔۔ پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

شفق کسے کہتے ہیں قول باری ہے (فلا اقسم بالشفق۔ پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں شفق کی) مجاہد کا قول ہے کہ شفق نہار یعنی دن کے وقت کو کہتے ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ارشاد باری ہے (واللیل وما وسق اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے) حضرت عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے کہ شفق بیاض یعنی سفیدی کو کہتے ہیں۔ ابوجعفر محمد نے کہا ہے کہ شفق اس سیاہی کو کہتے ہیں جو سفیدی کے غائب ہوجانے کے بعد ظاہر ہوتی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ شفق کے اصل معنی رقت یعنی پتلا پن کے ہیں۔ اسی سے پتلے کپڑے کو ” ثوب شفق “ کہا جاتا ہے۔ اسی سے شفقت کا لفظ نکلا ہے جس کے معنی رقت قلب کے ہیں۔ جب شفق کے اصل معنی یہ ہیں تو اس سے سرخی کی بجائے سفیدی مراد لینا اولیٰ ہوگا۔ کیونکہ اس حالت میں روشنی کے اجزاء باریک ہوتے ہیں جبکہ سرخی کے دوران اس کے اجزاء زیادہ کثیف ہوتے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦۔ ١٩) میں قسم کھا کر کہتا ہوں شفق کی اور رات اور ان چیزوں کی جن کو رات سمیٹ کر جمع کرلیتی ہے اور چاند کی جب تیرہویں چودہویں اور پندرہویں رات کا ہوجائے کہ تم لوگوں کو ایک حالت کے بعد دوسری حالت کو بہر صورت پہنچنا ہے۔ یعنی پیدا ہونے کے بعد موت اور پھر جنت میں داخل ہونا ہے یا دوزخ میں، یا مطلب یہ ہے کہ شب معراج میں ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر آپ کو چڑھنا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ ٢٥۔ اکثر علماء کے قول کے موافق شفق وہ سرخی ہے جو غروب آفتاب سے عشاء کے وقت تک آسمان پر رہتی ہے وسق کے معنی چند چیزوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ رات ایسی چیز ہے جس میں سب چیزیں ایک جگہ ہوجاتی ہیں دن بھر چل پھر کے آدمی رات کو ایک جگہ ٹھکانے سے آن کر سو جاتا ہے جانور بسیرا لیتے ہیں۔ الساق کے معنی برابر ہونے کے ہیں۔ چودھویں رات کا چاند خوب بھرپور اور برابر ہوتا ہے کوئی کونا اس کا دبا ہوا نہیں ہوتا اس لئے چاند کے حق میں یہ لفظ فرمایا ان قسموں کے بعد فرمایا اے لوگو تم کو کھنڈ پر کھنڈ چڑھنا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تم ہمیشہ نہیں زندہ رہو گے بلکہ موت اور موت کے بعد کی سختیاں تم کو جھیلنی ہیں معتبر سند سے مسند امام احمد اور طبرانی میں انس سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگرچہ انسان کے لئے موت سخت چیز ہے لیکن موت کے بعد جو چیزیں اس کو پیش آنے والی ہیں وہ موت سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ موت کی سختی سے آدمی کی جان نکل جاتی ہے عذاب قبر کی سختی سے حشر و قیامت کی سختی میں یہ بھی نہیں ہے کہ آدمی مر کر اس سختی سے چھوٹ جائے۔ پھر فرمایا کہ ان لوگوں کو جب یہ سختیاں جھلینی ہیں اور یہ سختیاں بغیر اطاعت خدا اور خدا کے رسول کے کسی طرح آسان نہیں ہوسکتیں تو پھر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو یہ لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت نہیں کرتے اور جب ان کے رو برو اللہ کا کلام پڑھا جائے تو اس کو دل سے نہیں سنتے اور کلام الٰہی کی تعظیم میں سر نہیں جھکاتے۔ پھر فرمایا بعض تو ان میں اللہ کی فرمانبردار کے ایسے منکر ہیں کہ اللہ کا کلام ماننے کے بجائے الٹا اس کو جھٹلاتے ہیں پھر فرمایا ایسے لوگوں کے دلوں میں جو نافرمانی سمائی ہوئی ہے اللہ اس سے غافل نہیں ہے اس کو سب معلوم ہے اس کے خمیازہ میں وقت مقررہ پر ایسے لوگوں کو سخت عذاب بھگتنا پڑے گا جس طرح کوئی کسی کو بڑی خوش خبری سنتا ہے ہے بجائے کسی دوسری خوش خبری کے خدا کی طرف سے ان کو اس عذاب کی خوش خبری سنا دی جائے ہاں اس فہمایش کے بعد ان میں سے جو لوگ اللہ کی فرمانبرداری قبول کرکے نیک کام کریں گے ان کا بدلہ کہیں مارا نہ جائے گا۔ اجر غیر ممنون کے معنی مفسرین نے اس بدلہ کے کہے ہیں جس میں کسی طرح کی کمی نہ ہو ان آیتوں میں سجدہ کا جو ذکر ہے بعض مفسروں نے تو اس کے معنی وہی اللہ کے کلام کی تعظیم کے لئے ہیں اور بعضوں نے اس کے معنی سجدہ تلاوت کے لئے ہیں سجدہ تلاوت کے سنت یا واجب ہونے میں علماء کا اختلاف ہے حنفی مذہب کی فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ سورة حج کے دوسرے سجدہ کے سوا سجدہ کی جو آیت پڑھی جائے تلاوت کرنے والے اور سننے والے دونوں پر سجدہ کرنا واجب ہے۔ سننے والے میں خواہ وہ شخص جو قرآن شریف کے سننے کے ارادہ سے وہاں موجود ہو خواہ وہ شخص جو بغیر ارادہ کے وہاں آگیا ہو اور آئمہ فقہ و حدیث اس کے مخالف ہیں اور تلاوت کے سجدہ کو سنت کہتے ہیں اس سبب سے کہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عمر اور حضرت عبد اللہ بن عمر کی جو روایتیں ہیں ان سے تلاوت کے سجدہ کو سنت کہتے ہیں اس سبب سے کہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عمر اور عبد اللہ بن عمر کی جو روایتیں ہیں ان سے تلاوت کے سجدہ کی زیادہ تاکید ثابت نہیں ہوتی۔ حضرت عمر (رض) کی حدیث کا حاصل تو یہ ١ ؎ ہے کہ ایک جمعہ کو سورة نحل پڑھ کر حضرت عمر (رض) نے سجدہ کیا اور پھر دوسرے جمعہ کو سورة نحل پڑھی اور سجدہ نہیں کیا اور فرمایا کہ جس کسی نے سجدہ کیا تو ٹھیک ہے اور جس کسی نے سجدہ نہیں کیا تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے اور حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) کی حدیث کا حاصل ٢ ؎ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے تلاوت کا سجدہ فرض نہیں کیا ہے حنفی مذہب کے علماء نے حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) کی حدیث کا یہ جواب دیا ہے کہ اس حدیث میں فرض کی نفی کی گئی ہے اور فرض کی نفی سے واجب کی نفی لازم نہیں آتی اور مذہب کے علماء نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ فرض کے علاوہ اصطلاحی طور پر حنفی مذہب میں واجب جو نکالا گیا ہے یہ واجب صحابہ کے زمانہ میں نہیں تھا پھر کسی صحابی کے قول سے اس واجب کا مطلب نکالنا کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا حضرت عمر (رض) کی حدیث کا کوئی جواب کسی حنفی مذہب کی فقہ کی کتاب میں نظر سے نہیں گزرا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر اور شعبی کا قول یہ ہے کہ تلاوت کا سجدہ بغیر وضو بھی جائز ہے۔ ٣ ؎ ١ ؎ صحیح بخاری باب من رای ان اللہ عز و جل لم یوجب السجود ص ١٤٧ ج ١ ٢ ؎ صحیح بخاری باب من رای ان اللہ عز و جل لم یوجب السجود الخ ١٤٧ ج ١۔ ٣ ؎ صحیح بخاری باب سجود المسلمین مع المشرکین الخ ص ١٤٦ ج ١۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(84:16) فلا اقس بالشفق : ف عاطفہ ہے لا زائدہ ہے اقسم مضارع واحد متکلم اقسام (افعال) مصدر سے میں قسم کھاتا ہوں نیز ملاحظہ ہو 69:38 ۔ الشفق مقسم بہ (جس کی قسم کھائی جائے) الشفق آسمان کی سرخی جو غروب آفتاب کے بعد ہوتی ہے یا وہ سفیدی جو اس سرخی کے بعد نمودار ہوتی ہے۔ امام راغب (رح) فرماتے ہیں :۔ سور کے غروب کے وقت دن کی روشنی کا رات کی سیاہی سے ملنا شفق ہے ۔ میں شفق کی قسم کھاتا ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کوئی آخرت کا اقرار کرے یا انکار کرے اسے ہر صورت رب ذوالجلال کے حضور پیش ہونا ہے ہر انسان ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلے میں داخل ہو کر بالآخر اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوگا۔ خالقِ کائنات نے اس مقام پر تین قسمیں اٹھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے مغرب کی سرخی کی قسم، رات کی اور اس چیز کی جو وہ سمیٹ لیتی ہے اور چاند کی قسم ! جب وہ ماہ کامل بن جاتا ہے۔ اے لوگو ! تم ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوئے جارہے ہو، اور تمہارا رب تمہیں ہر حال میں دیکھ رہا ہے اس کے باوجود تم ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جب ان کے سامنے قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو سجدہ کرنے کی بجائے اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں، ان کے انکار اور تکذیب کرنے کی وجہ سے انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے تین قسمیں اٹھا کر یہ بات سمجھائی ہے کہ جس طرح دن کی روشنی پر رات کی تاریکی چھا جاتی ہے اور رات کا اندھیرا ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور رات کے اندھیرے پر ماہ کامل کی روشنی غالب آجاتی ہے اسی طرح ہی دنیا کی زندگی کے بعد موت کا اندھیرا ہے اور موت کے اندھیرے کے بعد قیامت کا دن طلوع ہوگا۔ یہی انسان کی زندگی کا حال ہے کہ ہر انسان کی ابتدا ایک نطفے سے ہوتی ہے پھر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے وہ ایک بچے کی شکل میں جنم لیتا ہے۔ اس طرح اس کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اس کے بعد اس کا بچپن پھر جوانی، پھر بڑھاپا، پھر اس کو موت آجاتی ہے۔ ان مراحل میں کوئی ایک مرحلہ ایسا نہیں جس کا کوئی شخص انکار کرتاہو یعنی انسان کا عدم سے وجود میں آنا پچپن سے جوانی، جوانی کا بڑھاپے میں تبدیل ہونا ہے اور اس کے بعد موت اور موت کے بعد قیامت میں زندہ ہونا اور اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے، یقینی امر ہے لیکن جب منکرین کے سامنے قیامت کا ذکر ہوتا ہے تو اس پر ایمان لانے کی بجائے اس کی تکذیب کرتے ہیں حالانکہ انہیں قرآن مجید کے فرمان کے سامنے جھک جانا چاہیے لیکن پھر بھی قیامت کا انکار کرتے ہیں۔ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح یہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے چھپا لیں گے ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ظاہر اور باطن کو جانتا ہے نہ صرف اسے جانتا ہے بلکہ اسے دیکھ بھی رہا ہوتا ہے۔ جو لوگ حقائق کو جھٹلاتے ہیں انہیں اذّیت ناک عذاب کی خوشخبری دینی چاہیے۔ اس اذّیت ناک عذاب سے صرف وہی لوگ بچ پائیں گے جو اپنے رب کے حکم کے مطابق ایمان لائے اور اس کے بتلائے ہوئے صالح اعمال کرتے رہے ان کے لیے ایسا اجر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ مسائل ١۔ انسان چاہے یا نہ چاہے وہ ہر صورت ایک حالت سے دوسری حالت میں داخل ہوتا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید پر ایمان نہ لانے والے لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں۔ ٣۔ لوگ جو کچھ اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ ٤۔ قرآن مجید اور قیامت کا انکار کرنے والوں کے لیے اذّیت ناک عذاب کی خوشخبری ہے۔ ٥۔ حقیقی ایمان رکھنے والے اور صالح اعمال کرنے والوں کے لیے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : (الحجرات : ١٦) (الحدید : ٤) (المجادلہ : ٧) (التغابن : ٤) (الانعام : ٥٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ چند مناظر ہیں ، قرآن کریم ان کی قسم کھا کر قلب انسانی کو ان کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ان پر غور کرو ، اس طرح انسانی دل و دماغ کو اشارات اور تاثرات سے بھر دیا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کے یہ لمحات ایک خاص نوعیت رکھتے ہیں ، ان میں ایک طرف خشوع اور دھیما پن ہے اور دوسری طرف پر جلال ہیبت ہے۔ جس طرح سورت کا آغاز پر جلال دھیمے مناظر سے تھا ، یہ لمحات اور مناظر بھی ایسے ہی ہیں۔ شفق کا وقت وہ ہوتا ہے جس میں ہر چیز سہم جاتی ہے ، غروب کے بعد نفس انسانی پر بھی ایک گہری خاموشی اور خوف کے سائے پڑجاتے ہیں۔ انسانی سوچ ان کو الوداع کہتی ہے اور الوداع میں ہمیشہ خاموشی اور دکھ کے سائے ہوتے ہیں اور پھر رات کے خوفناک لمحات آتے ہیں ، جن میں اندھیروں کی وحشت ہوتی ہے۔ اور آخر کار رات کی تاریکیوں میں ہر چیز لپٹ کر خاموش ہوجاتی ہے ، اور ایک مہیب سکون کی فضا ہوتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ جل شانہ نے ان آیات میں شفق کی اور رات کی اور ان چیزوں کی قسم کھائی جو آرام کرنے کے لیے رات کو اپنے اپنے ٹھکانے پر آجاتی ہیں اور چاند کی قسم کھائی جبکہ وہ پورا ہوجائے یعنی بدر بن کر آشکارا ہوجائے، قسم کھا کر فرمایا تم ضرور ضرور ایک حالت کے بعد دوسری حالت پر پہنچو گے یعنی احوال کے اعتبار سے مختلف طبقات سے گزرو گے ایک حال گزشتہ حال سے شدت میں بڑھ کر ہوگا پہلا حال موت کا اور دوسرا حال برزخ کا اور تیسرا حال قیامت کا ہوگا پھر ان حالات میں بھی تکثر و تعدد ہوگا۔ اس کے بعد فرمایا ﴿ فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَۙ٠٠٢٠ ﴾ (پھر کیا بات ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے) جب دنیا کے احوال سے گزر رہے ہیں اور انہیں مرنا بھی ہے اور مرنے کے بعد کے احوال سے بھی گزرنا ہے تو کیا مانع ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” فلا اقسم “ یہ قیامت میں احوال مختلفہ پر شواہد ہیں۔ شفق وہ سرخی جو غروب آفتاب کے بعد نمودار ہوتی ہے اس پر بھی کئی حالات آتے ہیں۔ رات اور رات جن چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے رات پر بھی کتنے ہی حالات وارد ہوتے ہیں۔ اور چاند جب کامل ہوجائے اس پر کئی حالات آتے ہیں جس طرح غروب آفتاب کے بعد شفق اس کے بعد رات اور اس کے مختلف حصے، پھر طلوع اسی طرح چاند پہلے دن سے لے کر تام اور بدر ہونے تک مختلف حالات سے گذرتا ہے۔ یہ شواہد ہیں کہ قیامت کے دن تم بھی مختلف احوال سے گذرو گے۔ ایک درجہ سے دوسرے درجہ پر اور ایک حال سے دوسرے حال میں پہنچو گے۔ یہ عذاب اور ثواب دونوں کے مختلف درجات و احوال کی طرف اشارہ ہے۔ والمعنی لترکبن احوالا بعد احوالھی طبقات فی الشدۃ بعضہا ارفع من بعض وھی الموت وما بعدہ من القیامۃ واھوالہا الخ (روح ج 30 ص 28) ۔ الشعبی، لترکبن یا محمد سماء، و درجۃ بعد درجۃ، و رتبۃ بعد رتبۃ فی القربۃ من اللہ تعالیٰ (قرطبی ج 19 ص 276) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) سو میں قسم کھا کر کہتا ہوں شفق کی یعنی شام کی سرخی کی۔