Surat ul Inshiqaaq

Surah: 84

Verse: 20

سورة الانشقاق

فَمَا لَہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾

So what is [the matter] with them [that] they do not believe,

انہیں کیا ہوگیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا قُرِيَ عَلَيْهِمُ الْقُرْانُ لاَإ يَسْجُدُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] یعنی کئی طرح کے تغیرات خود ان کی ذات پر وارد ہو رہے ہیں۔ اور کئی طرح کے تغیرات وہ کائنات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں پھر بھی انہیں اس بات کا یقین نہیں آتا کہ اللہ کے سامنے بالکل مجبور و بےبس ہیں۔ وہ کچھ ہوگا جو اللہ چاہے گا۔ ان کے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ انہیں بہرحال اللہ کے فیصلہ کے مطابق اللہ کے حضور پیش ہونا پڑے گا اور اس سے یقیناً محاسبہ کیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فما لھم لایومنوکن : یعنی جب ایک حلات پر قرار نہیں تو یہ لوگ دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ انہیں یہ ضد کیوں ہے کہ ہمیں مر کر اسی حالت میں رہنا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَا لَہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٢٠ ۙ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠۔ ٢٢) ان مکہ کے کافروں کو کیا ہوا کہ یہ ایمان نہیں لاتے یا یہ کہ عبد یا لیل ثقفی کی اولاد کو مخاطب کیا جارہا ہے اور یہ تین تھے۔ مسعود، حبیب، ربیعہ۔ ان میں حبیب مشرف بااسلام ہوگئے اور بعد میں ربیعہ ایمان لائے اور جس وقت حضرت محمد ان کے سامنے قرآن حکیم پڑھتے ہیں تو یہ توحید خداوندی کے لیے نہیں جھکتے بلکہ یہ تو الٹا جھٹلاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(84:20) فما لہم لا یؤمنون : ما استفہامیہ ہے پھر ان کو کیا ہوا کہ ایمان نہیں لاتے۔ علامہ پانی پتی (رح) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :۔ اس استفہام سے مقصود ہے انکار اور تعجب کا اظہار۔ وعدہ ابرار اور وعید فجار جو اوپر گزرا اس سے یہ کلام تعلق رکھتا ہے درمیان میں جملہ فلا اقسم بطور معترضہ ذکر کیا گیا ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ یہ بھی احتمال ہے کہ اس کلام کا ربط آیت لترکبن طبقا عن طبق سے ہو کیونکہ تبدیل احوال سے تبدیل کرنے والے کی ہستی کا پتہ چلتا ہے پھر کیا وجہ کہ اس کو نہیں مانتے۔ (تفسیر مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ہاں اس بات کے لئے ان کے پاس کوئی وجہ جواز نہیں ہے ، اس کائنات کے مناظر میں ، اور خود انسانوں کے نفوس میں اس قدر شواہد اور آثار ہیں کہ قلب انسانی جدھر بھی متوجہ ہو ، وہ اسے دعوت نظارہ دیتے ہیں جہاں بھی زندہ فکرہو ، یہ شواہد بڑھ چڑھ کر سامنے آتے ہیں۔ یہ آثار و شواہد اس قدر کثرت سے ہیں ، اس قدر قوی ہیں اور اس قدر گہرے ہیں کہ اگر کسی بشر کا دل ان کی طرف ذرا بھی ملتفت ہو ، متوجہ ہو تو وہ اسے گھیر لیتے ہیں۔ اگر وہ ان کی طرف کان دھرے ، متوجہ ہو اور ان کی بات سنے تو یہ شواہد ہر جگہ اس کے ساتھ سرگوشیاں کرتے ہیں اور بآواز بلند بھی بات کرتے ہیں۔ فمالھم .................... یسجدون (21:84) السجدة ” پھر ان کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جائے تو سجدہ نہیں کرتے “۔ قرآن ان کے ساتھ فطری زبان میں بات کرتا ہے ، اور انفس وآفاق میں جو دلائل فطرت اور اشارات ایمان پائے جاتے ہیں ان کے لئے ان کے دلوں کو کھولتا اور دلوں میں تقویٰ ، اطاعت اور خضوع وخشوع کے جذبات ابھارتا ہے اور یہی انسانی قلوب کے لئے سجدہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کائنات بہت ہی خوبصورت ہے ، اس کے اندر ہر طرف اشارات قدرت ہیں ، اس کے اندر ایسی تجلیات اور ایسے انوار اور ایسے مناظر موجود ہیں جو قلب انسانی کو خضوع وخشوع کے جذبات سے بھردیتے ہیں۔ پھر یہ قرآن بھی خوبصورت اور اشاراتی ہے اور اس کے اندر بھی ایسے اشارات ، ایسے مناظر اور شواہد ہیں جو قلب ، بشری کا تعارف اس کائنات اور رب کائنات سے کراتے ہیں۔ اور انسان کے دل و دماغ میں اس عظیم کائنات کے عظیم حقائق ڈال کر اسے اس کائنات کے بزرگ و برتر خالق کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ کیا ہی شان ہے۔ فمالھم .................... یسجدون (21:84) السجدة ” پھر ان کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جائے تو سجدہ نہیں کرتے “۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ ایک عجیب طرز عمل ہے۔ اور اس طرز عمل کے ذریعہ اب بات کا رخ اس عجیب مخلوق کی طرف مڑجاتا ہے ، یعنی کفار کی طرف اور بتایا جاتا رہے کہ کیا ہی برا انجام ان کے انتظار میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” فما لہم “ یہ زجر ہے ان کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے حالانکہ ان کے اعراض و انکار کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں اور جب ان کو قرآن پڑھ سنایا جاتا ہے تو عاجزی اور خشوع و خضوع نہیں کرتے اور اس کے احکام کے سامنے سر نہیں جھکاتے۔ ” بل الذین کفروا یکذبون “ ماقبل سے ترقی ہے وہ قرآن کو سن کر نہ صرف سجدہ نہیں کرتے، بلکہ وہ تو سرے سے اس کو مانتے ہی نہیں اور اس کو جھٹلاتے ہیں لیکن جو کچھ وہ جمع کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے اور اس کی ان کو پوری پوری سزا دے گا۔ ” ما یوعون “ جو کفر و عداوت وہ اپنے دلوں میں جمع کر رہے ہیں۔ بما یجمعون فی الصدور من الکفر والعداوۃ (مظہری) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) سو ان منکرین قیامت کو کیا ہوگیا کہ یہ لوگ نہیں لاتے۔