Surat ul Inshiqaaq

Surah: 84

Verse: 5

سورة الانشقاق

وَ اَذِنَتۡ لِرَبِّہَا وَ حُقَّتۡ ؕ﴿۵﴾

And has responded to its Lord and was obligated [to do so] -

اور اپنے رب کے حکم پر کان لگائے گی اور اسی کے لائق وہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And listens to and obeys its Lord, and it must do so. The explanation of this is the same as what has preceded. The Recompense for Deeds is True Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

واذنت لربھا وحقت : تفصیل کیلئے دیکھیے اسی سورت کی آیت (٢) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ۝ ٥ يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْہِ۝ ٦ ۚ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ كدح الكَدْحُ : السّعي والعناء . قال تعالی: إِنَّكَ كادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحاً [ الانشقاق/ 6] وقد يستعمل استعمال الکدم في الأسنان، قال الخلیل : الكَدْحُ دون الکدم . ( ک د ح ) الکدح کے معنی کوشش کرنا اور مشقت اٹھانا کے ہیں قرآن پاک میں ہے ۔ إِنَّكَ كادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحاً [ الانشقاق/ 6] تو اپنے پروردگار کی طرف ( پہچنے میں ) خوب کوشش کرتا ہے ۔ اور کبھی کدح بمعنی کدم بھی آتا ہے جس کے معنی دانت کاٹنے کا نشان کے ہیں ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ ۔ } ” اور وہ بھی اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اسے یہی زیب دیتا ہے۔ “ جس طرح اطاعت وانقیاد کا مظاہرہ آسمان کرے گا ‘ اسی طرح زمین بھی حکم الٰہی بجا لائے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 Here, it has not been expressly told what will happen when such and such an event takes place, for the subsequent theme by itself explains this, as if to say: "O man, you are moving towards your Lord and are about to meet Him; you will be given your conduct book; and rewarded or punished according to your deeds."

سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :4 یہ صراحت نہیں کی گئی کہ جب یہ اور یہ واقعات ہوں گے تو کیا ہو گا ، کیونکہ بعد کا یہ مضمون اس کو آپ سے آپ ظاہر کر دیتا ہے کہ اسے انسان تو اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے اس کے سامنے حاضر ہونے والا ہے ، تیرا نامہ اعمال تجھے دیا جانے والا ہے ، اور جیسا تیرا نامہ اعمال ہو گا اس کے مطابق تجھے جزا یا سزا ملنے والی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(84:5) واذنت لربھا وحقت اور اپنے رب کا حکم کان لگا کر سنے گی اور اس کو بجا لائے گئ۔ نیز ملاحظہ ہو 84:2) متذکرۃ الصدر۔ فائدہ : جن علماء کے نزدیک اذا (84:13) شرطیہ ہے (اور اس کا جواب شرط محذوف سمجھا گیا ہے مندرجہ ذیل جواب محذوف نقل ہوا : (1) جواب شرط محذوف ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے اذا ۔۔ بعثتم جب ۔۔ تو تم قبروں سے دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جاؤ گے (2) جواب شرط آیت 84:6 ہے ای یایھا الانسان ۔۔ الخ۔ (3) جو اسب شرط قول ربانی : فاما من ۔۔ الخ ہے یہ قول المبرد اور الکسائی کا ہے۔ (4) جواب شرط فلملاقیۃ ہے۔ یہ قول اخفش کا ہے۔ (تفسیر حقانی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13” جب یہ باتیں ہوجائیں تو سمجھ لو کہ قیامت آگئی۔ “ …” اذا “ کا یہ جواب محذوف ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذنت ................ وحقت (5:84) ” اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کے لئے حق یہی ہے “۔ اذن کے معنی یہاں اطاعت رب کے ہیں اور اللہ کے احکام کی تعمیل کرنے کے ہیں۔ جس طرح یہ تعبیر آسمان کے لئے بھی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ زمین اعتراف کررہی ہوگی ، اللہ کا اس پر حق ہے کہ وہ اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔ انداز بیان میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ گویا زمین ، آسمان ، ذی روح مخلوق ہیں۔ یہ اللہ کا حکم سنتے ہیں اور بالا رادہ تعمیل کرتے ہیں ، فوراً لبیک کہتے ہیں اور اس طرح اطاعت کرتے ہیں جس طرح ایک شخص اطاعت کا اقرار واعتراف کرتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ اس پر ایسا کرنا حق ہے اس لئے وہ سر تسلیم خم کرتا ہو اور بغیر جبر کے یہ کام کرتا ہو اور اس میں کوئی حیل وحجت نہ کرتا ہو۔ اگرچہ قیام قیامت کے دن اس کائنات میں ایک عظیم انقلاب ہوگا اور یہ اسی کا ایک منظر ہے ، لیکن یہاں جو تصویر کھینچی گئی ہے وہ پروقار اور دھیمی ہے۔ اور اس پر توازن اور خشوع کے گہرے سائے ہیں۔ جو تاثرات پردہ احساس پر قائم رہتے ہیں وہ اطاعت ، تسلیم ورضا ، خضوع وخشوع اور بغیر حیل وحجت اور بغیر قیل وقال اطاعت کیشی کے ہیں۔ چناچہ ایسی ہی فضا میں باری تعالیٰ کی جانب سے ایک پکار آتی ہے۔ اس میں انسان کو انسانیت کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ دکھا کر کہ دیکھو یہ پوری کائنات اور یہ ارض وسما کس طرح سراطاعت خم کیے ہوئے ہیں ، اور اللہ کی اطاعت کو اپنے اوپر حق سمجھتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اور وہ اپنے رب کے حکم پر کان لگائے اور وہ اسی لائق ہے (تو اس وقت آدمی سزاوجزا کو دیکھے گا) ۔ مطلب یہ ہے کہ زمین کو کھینچ کر بڑھا دیا جائے اور زمین میں جو کچھ ہے وہ زمین اس کو باہر نکال دے یعنی مردے اور دفینے اور مختلف دھاتیں جو کانوں میں ہیں سب باہر نکال پھینکے اور زمین بالکل ایک صاف چٹیل میدان ہوجائے نہ کوئی پہاڑ نہ درخت اور نہ دریا کوئی آڑ باقی نہ رہے۔ غرض مخلوق کے کھڑے ہونے اور حساب وکتاب دینے کے لئے زمین کو بالکل ہموار کے پھیلا دیا جائے گا۔ اور زمین بھی اس حکم تکوینی کی تعمیل کے لئے کان لگائے ہوئے ہے جو حکم سنتے ہی حکم کو بجا لائے گا اور زمین کو یہی لائق وزیبا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حکم بجالائے۔ آگے جو فقرہ ہم نے خطوط وحدانی میں لکھا ہے وہ قائم مقام جزا کے ہے اگرچہ جزا میں بھی کئی قول ہیں بعض نے فملاقیہ اور بعض نے فامامن اوتی کو جزا قرار دیا ہے ہم نے راجح قول کو اختیار کرلیا ہے۔ اذاوقعت ھذہ الامور کان من الاھوال ماتقصرعن بیانہ۔ بہرحال ! زمین کو چمڑے اور ربڑ کی طرح کھینچ کر ہموار کردیاجائے گا آسمان و زمین اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں خصوصی اہمیت رکھتے ہوئے اس قدر مطیع ومنقاد ہیں کہ حکم پر کان لگائے ہوئے ہیں لیکن انسان باوجود کمزوری کے حق تعالیٰ کے احکام کی تعمیل سے غافل ہے آگے انسان کو خطاب ہے۔