Surat ul Aala

The Most High

Surah: 87

Verses: 19

Ruku: 1

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف : سورة الاعلیٰ میں اس بنیادی حقیقت کو ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک اللہ ہے۔ اس نے انسان کو پیدا کرکے اس کو بہترین جسم عطا فرمایا۔ الل سب سے برتر و اعلیٰ ذا ہے لہٰذا اس کی حمد و ثنا اور اس کے بہترین نام کی تسبیح کرنا سب سے بڑی سعادت ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا کہ قرآن کریم ہمارا کلام ہے آپ اس کی فکر نہ کریں کہ آپ اس کو بھول جائیں گے ہم آپ کو اس طرح پڑھا دیں گے کہ آپ اس کو بھول نہ سکیں گے۔ آپ اس قرآن کے ذریعہ لوگوں کو نصیحت کرتے رہیے جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ آپ کی باتیں سن کر ضرور نصیحت کو قبول کرے گا۔ بدنصیب ہی اس سے محروم رہ سکتا ہے۔ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ دنیا کی زندگی جس کے پیچھے انسان ساری زندگی بھاگتا رہتا ہے وہ فنا ہوجانے والی ہے۔ باقی رہنے والی چیز تو آخرت کی زندگی ہے اس پر ہی ساری محنت کرنا چاہیے۔ سورۃ الاعلیٰ میں ان ہی باتوں کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنے برتر و اعلیٰ پروردگار کے نام کی تسبیح کیجئے۔ جس نے پیدا کیا اور ٹھیک طرح بنا کر اس میں کامل ہم آہنگی پیدا کی ہے۔ اسی نے تقدیر بنائی، اسی نے راہ دکھائی، اسی نے نباتات کو اگایا وہی اس کو سیاہی کوڑا کباڑ بنا دیتا ہے۔ فرمایا کہ آپ کو ہم یہ قرآن اسی طرح پڑھائیں گے کہ آپ اس کو بھول نہ سکیں گے۔ سوائے اس کے جو اللہ چاہے گا۔ اللہ وہ ہے جو ظاہری چیزوں کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ نظروں سے پوشیدہ ہیں ان کا بھی پوری طرح علم رکھتا ہے۔ فرمایا کہ ہم آپ کو آسان شریعت کی سہولت دیں گے۔ لہٰذا نصیحت کرتے رہیے اگر نصیحت کرنا فائدہ دیتا ہو یعنی آپ کا کام نصیحت کرنا ہے کوئی اس سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اور وہ اس نصیحت کو ضرور قبول کرے گا لیکن جو اس سے منہ پھیرے گا وہ انتہائی بدنصیب ہے جس کو شدید ترین آگ میں پھینکا جائے گا جس میں وہ نہ تو مرے گا اور نہ جئے گا۔ یقینا وہی شخص فلاح پائے گا جس نے پاکیزگی اختیار کی اپنے رب کا نام لیا اور پھر نماز پڑھی۔ فرمایا کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ تم لوگ دنیا کی زندگی کو زیادہ اہمیت دیتے ہو حالانکہ آخرت زیادہ بہتر ہے جو باقی رہنے والی ہے۔ اسی بات کو اس سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة الاعلیٰ کا تعارف یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کی انیس آیات ہیں جو ایک رکوع پر مشتمل ہیں۔ اس کا نام اس کی پہلی آیت میں موجود ہے اس صورت میں تین مضمون بیان کیے گئے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ سب سے اعلیٰ اور تعریف کے لائق ہے اس لیے کہ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے وجود کو متوازن بنایا اور پھر اس کی رہنمائی کا بندوبست کیا۔ وہی نباتات اگا کر پھر اسے کوڑا کرکٹ بنا دیتا ہے یہ کام صرف اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے اس لیے اسی کی تعریف اور عبادت کرنی چاہیے یہی اس کی توحید کا سب سے پہلا تقاضہ ہے اس لیے انسان کی انسانیت کا تقاضا ہے کہ وہ کسی اعلیٰ کو چھوڑ کر کسی ادنی کی عبادت نہ کرئے۔ ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے ابتدائی دور میں فکر مند تھے کہ وحی کا کوئی حصہ بھول نہ جائے آپ کی تشویش کو دور کرنے کے لیے ارشاد ہوا کہ ہم آپ کو اس طرح پڑھائیں گے کہ آپ بھول نہیں سکیں گے الَّا یہ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی بات، بھولانا چاہیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے نبوت کا کام بہت حد تک آسان کردیا ہے لہٰذا آپ لوگوں کو نصیحت کرتے رہیں۔ ٣۔ وہ شخص کامیاب ہوگا جس نے عقیدہ اور عمل میں پاکیزگی اختیار کرلی اور اپنے رب کو یاد کیا اور نماز پڑھی لیکن لوگوں کی حالت یہ ہے کہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں حالانکہ آخرت ہمیشہ ہمیش رہنے والی ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة الاعلیٰ ایک نظر میں امام احمد نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة ۔ سبح اسم ................ الاعلی (1:87) کو بہت پسند فرماتے تھے۔ اور امام مسلم کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدین کی نماز میں اور جمعہ کی نماز میں یہ سورت اور سورت ھل اتک حدیث الغانیة (1:88) پڑھتے تھے۔ کئی بار عید اور جمعہ ایک ہی دن آئے تو بھی آپ نے ان کو پڑھا۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق تھا کہ آپ اس سورت سے محبت رکھتے کیونکہ یہ سورت اس پوری کائنات کو ایک عبادت خانہ بناتی ہے جس کی تمام مخلوق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمرکاب ہے اور اللہ کی تسبیح اور ثنا میں مصروف ہے۔ سبح اسم ........................................ احوی (1:87 تا 5) ”(اے نبی ! ) اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا ، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی ، جس نے نباتات اگائیں پھر ان کو سیاہ کوڑا کرکٹ بنادیا “۔ سورت کا انداز نرم ہے اللہ کی تسبیح وثنا کی گونج دور تک سنائی دیتی ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بجا طور پر اس سورت کو پسند کیا ، اس سورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے خوشخبری کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تبلیغ اور یاددہانی کرانے کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ سنقرئ ................................ الذکری (6:87 تا 9) ” ہم تمہیں پڑھوا دیں گے ، پھر تم نہیں بھولوگے ، سوائے اس کے جو اللہ چاہے ، وہ ظاہر کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ پوشیدہ ہے اس کو بھی۔ اور ہم تمہیں آسان طریقے کی سہولت دیتے ہیں ، لہٰذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت نافع ہو “۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ذمہ داری لیتا ہے کہ وہ آپ کے قلب مبارک میں قرآن کو بٹھا دے گا اور اس طرح آپ حفظ کرنے کی مشقت سے بےفکر ہوجائیں گے۔ پھر اللہ وعدہ فرماتا ہے کہ ہم آسان طریقوں کی رہنمائی کریں گے۔ تمام معاملات میں ، اور خصوصاً دعوت اسلامی کے معاملات میں اور یہ ایک عظیم بات ہے۔ کیوں نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سورت سے محبت کرتے ؟ اس لئے کہ اس میں اسلامی تصور حیات کے تمام بنیادی قواعد ثبت کردیئے گئے ہیں۔ عقیدہ توحید اس میں مذکور ہے ، وحی الٰہی کی بات اس میں آگئی ہے ، آخرت کی جزا وسزا کا ذکر بھی آگیا ہے ، یہ سب باتیں اسلامی ایمانیات کے بنیادی اجراء ہیں۔ پھر ان عقائد اور نظریات کو انسانی تاریخ میں دور تک پھیلا دیا گیا ہے ، کہ یہی باتیں تمام نبیوں نے کی ہیں۔ ان ھذا ............................ موسیٰ (19:87) ” یہی بات پہلے آئے ہوئے صحیفوں میں بھی کہی گئی تھی ، ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں “۔ اس کے علاوہ سورت اسلامی نظریہ حیات کا جو مزاج متعین کرتی ہے ، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو طریقہ کار بتلاتی ہے اور امت مسلمہ کا جو رویہ دکھاتی ہے ، وہ سب ایسے ہیں کہ نرمی ، رواداری ان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ ان سب امور کے بیان کے ضمن میں پھر نہایت ہی مختلف ہدایات واشارات ہیں جن کی تشریح اپنی جگہ آئے گی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi