Why there is no Basmalah in the Beginning of This Surah
This honorable Surah was one of the last Surahs to be revealed to the Messenger of Allah.
Al-Bukhari recorded that Al-Bara' said,
"The last Ayah to be revealed was,
يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِى الْكَلَـلَةِ
(They ask you for a legal verdict. Say: "Allah directs (thus) about Al-Kalalah." (4:176), while the last Surah to be revealed was Bara'ah."
The Basmalah was not mentioned in the beginning of this Surah because the Companions did not write it in the complete copy of the Qur'an (Mushaf) they collected, following the Commander of the faithful, Uthman bin Affan, may Allah be pleased with him.
The first part of this honorable Surah was revealed to the Messenger of Allah when he returned from the battle of Tabuk, during the Hajj season, which the Prophet thought about attending. But he remembered that the idolators would still attend that Hajj, as was usual in past years, and that they perform Tawaf around the House while naked. He disliked to associate with them and sent Abu Bakr As-Siddiq, may Allah be pleased with him, to lead Hajj that year and show the people their rituals, commanding him to inform the idolators that they would not be allowed to participate in Hajj after that season. He commanded him to proclaim,
بَرَاءةٌ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِه
(Freedom from (all) obligations (is declared) from Allah and His Messenger...), to the people.
When Abu Bakr had left, the Messenger sent Ali bin Abu Talib to be the one to deliver this news to the idolators on behalf of the Messenger, for he was the Messenger's cousin. We will mention this story later.
Publicizing the Disavowal of the Idolators
Allah said,
بَرَاءةٌ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ
...
Freedom from obligations from Allah and His Messenger,
is a declaration of freedom from all obligations from Allah and His Messenger,
...
إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ
یہ سورت سب سے آخر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتری ہے بخاری شریف میں ہے سب سے آخر ( آیت یسفتونک الخ ، ) اتری اور سب سے آخری سورت سورہ براۃ اتری ہے ۔ اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہو نے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ نے امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر کے اسے قرآن میں لکھا نہیں تھا ۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے آپ نے سورہ انفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورہ براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھیں؟ آپ نے جواب دیا کہ بسا اوقات حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ کوئی سورتیں اترتی تھیں ۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ یہ ذکر ہے ۔ سورۃ انفال مدینہ شریف میں سب سے پہلے نازل ہوئی اور سورہ براۃ سب سے آخر میں اتری تھی بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے ڈر لگا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور صلی اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتیں متصل لکھیں اور انکے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھیں اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا ۔ اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے ۔ حج کا زمانہ تھا مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آکر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے ۔ آپ نے ان میں خلا ملا ہونا ناپسند فرما کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ شریف روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کر دیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورۃ براۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کر دیں ۔ آپ کے پیچھے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آرہا ہے ۔ انشاء اللہ ۔ پس فرمان ہے کہ یہ بےتعلق ہے ۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق پہچان سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا ۔ جیسے فرمان ہے کہ ( فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ Ć ) 9- التوبہ:4 ) ان کی مدت پوری ہو نے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں گو اس بارے میں اور اقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جن لوگوں سے عہد ہو چکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گذر جانے کی عہد بندی مقرر کر دی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم الحرام تک کے پچاس دن ۔ اس مدت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں ۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کرلیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آجائیں یہ واقعہ سنہ ٩ ھ کا ہے ۔ آپ نے حضرت ابو بکر کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور حضرت علی کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کر دیں ۔ آپ نے ان کے ڈیروں میں گھروں میں منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے ۔ قبیلہ خزاعہ قبیلہ مدلج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا ۔ تبوک سے آکر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال حضرت ابو بکر کو اور حضرت علی کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپناجو ہر دکھائیں گی بیس دن ذی الحجہ کے محرم پورا صفر پورا اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے ۔ زہری کہتے ہیں شوال محرم تک کی ڈھیل تھی لیکن یہ قول غریب ہے ۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہو سکتی ہے؟