Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 1

سورة التوبة

بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ؕ﴿۱﴾

[This is a declaration of] disassociation, from Allah and His Messenger, to those with whom you had made a treaty among the polytheists.

اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نےعہد و پیمان کیا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Why there is no Basmalah in the Beginning of This Surah This honorable Surah was one of the last Surahs to be revealed to the Messenger of Allah. Al-Bukhari recorded that Al-Bara' said, "The last Ayah to be revealed was, يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِى الْكَلَـلَةِ (They ask you for a legal verdict. Say: "Allah directs (thus) about Al-Kalalah." (4:176), while the last Surah to be revealed was Bara'ah." The Basmalah was not mentioned in the beginning of this Surah because the Companions did not write it in the complete copy of the Qur'an (Mushaf) they collected, following the Commander of the faithful, Uthman bin Affan, may Allah be pleased with him. The first part of this honorable Surah was revealed to the Messenger of Allah when he returned from the battle of Tabuk, during the Hajj season, which the Prophet thought about attending. But he remembered that the idolators would still attend that Hajj, as was usual in past years, and that they perform Tawaf around the House while naked. He disliked to associate with them and sent Abu Bakr As-Siddiq, may Allah be pleased with him, to lead Hajj that year and show the people their rituals, commanding him to inform the idolators that they would not be allowed to participate in Hajj after that season. He commanded him to proclaim, بَرَاءةٌ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِه (Freedom from (all) obligations (is declared) from Allah and His Messenger...), to the people. When Abu Bakr had left, the Messenger sent Ali bin Abu Talib to be the one to deliver this news to the idolators on behalf of the Messenger, for he was the Messenger's cousin. We will mention this story later. Publicizing the Disavowal of the Idolators Allah said, بَرَاءةٌ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ ... Freedom from obligations from Allah and His Messenger, is a declaration of freedom from all obligations from Allah and His Messenger, ... إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ

یہ سورت سب سے آخر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتری ہے بخاری شریف میں ہے سب سے آخر ( آیت یسفتونک الخ ، ) اتری اور سب سے آخری سورت سورہ براۃ اتری ہے ۔ اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہو نے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ نے امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر کے اسے قرآن میں لکھا نہیں تھا ۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے آپ نے سورہ انفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورہ براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھیں؟ آپ نے جواب دیا کہ بسا اوقات حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ کوئی سورتیں اترتی تھیں ۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ یہ ذکر ہے ۔ سورۃ انفال مدینہ شریف میں سب سے پہلے نازل ہوئی اور سورہ براۃ سب سے آخر میں اتری تھی بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے ڈر لگا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور صلی اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتیں متصل لکھیں اور انکے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھیں اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا ۔ اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے ۔ حج کا زمانہ تھا مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آکر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے ۔ آپ نے ان میں خلا ملا ہونا ناپسند فرما کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ شریف روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کر دیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورۃ براۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کر دیں ۔ آپ کے پیچھے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آرہا ہے ۔ انشاء اللہ ۔ پس فرمان ہے کہ یہ بےتعلق ہے ۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق پہچان سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا ۔ جیسے فرمان ہے کہ ( فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ Ć۝ ) 9- التوبہ:4 ) ان کی مدت پوری ہو نے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں گو اس بارے میں اور اقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جن لوگوں سے عہد ہو چکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گذر جانے کی عہد بندی مقرر کر دی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم الحرام تک کے پچاس دن ۔ اس مدت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں ۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کرلیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آجائیں یہ واقعہ سنہ ٩ ھ کا ہے ۔ آپ نے حضرت ابو بکر کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور حضرت علی کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کر دیں ۔ آپ نے ان کے ڈیروں میں گھروں میں منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے ۔ قبیلہ خزاعہ قبیلہ مدلج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا ۔ تبوک سے آکر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال حضرت ابو بکر کو اور حضرت علی کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپناجو ہر دکھائیں گی بیس دن ذی الحجہ کے محرم پورا صفر پورا اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے ۔ زہری کہتے ہیں شوال محرم تک کی ڈھیل تھی لیکن یہ قول غریب ہے ۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہو سکتی ہے؟

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

وجہ تسمیہ : اس کے مفسرین نے متعدد نام ذکر کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور دو ہیں۔ ایک توبہ اس لئے کہ اس میں بعض مومنین کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے۔ دوسرا براءۃ اس میں مشرکوں سے برات کا اعلان عام ہے۔ یہ قرآن مجید کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم درج نہیں ہے۔ اس کی بھی متعدد وجوہات کتب تفسیر میں درج ہیں۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورة انفال اور سورة توبہ ان دونوں کے مضامین میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے یہ سورت گویا سورة انفال کا تتمہ یا بقیہ ہے۔ یہ سات بڑی سورتوں میں ساتویں بڑی سورت ہے جنہیں سبع طوال کہا جاتا ہے۔ 1۔ 1 فتح مکہ کے بعد 9 ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی اور دیگر صحابہ کو قرآن کریم کی یہ آیت اور یہ احکام دے کر بھیجا تاکہ وہ مکہ میں ان کا عام اعلان کردیں۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اعلان کردیا کہ کوئی شخص بیت اللہ کا عریاں طواف نہیں کرے گا، بلکہ آئندہ سال سے کسی مشرک کو بیت اللہ کے حج کی اجازت نہیں ہوگی (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] سورة توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ :۔ سورة ئتوبہ کا نام سورة ئبرات بھی ہے جو اس سورة کا ابتدائی لفظ ہے۔ یہ سورة برأت، سورة انفال کے بہت بعد یعنی ٩ ہجری میں نازل ہوئی لیکن چونکہ ان دونوں کے مضامین آپس میں بہت حد تک ملتے جلتے ہیں اور یہ سب مضامین کافروں، مشرکوں سے جنگ، معاہدات، صلح اور اسلام کی سربلندی سے متعلق ہدایات و احکام پر مشتمل ہیں لہذا ان کو یکجا کردیا گیا ہے اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی جاتی۔ جو کہ دو سورتوں کی الگ الگ ہونے کی علامت ہے۔ نہ ہی اس سورة کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل ہوئی۔ نہ ہی کبھی رسول اللہ نے پڑھی تھی اور وہی دستور آج تک مصاحف کی کتابت میں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ [٢] مشرکین سے اعلان براءت :۔ رمضان ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوگیا تو مسلمانوں پر سے وہ پابندیاں از خود اٹھ گئیں جو مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے بیت اللہ شریف میں داخلہ، عبادات، طواف اور حج وعمرہ پر لگا رکھی تھیں۔ ٨ ہجری میں تو مسلمان حج کر ہی نہ سکے۔ کیونکہ فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین اور طائف سے واپس مدینہ پہنچنے تک اتنا وقت نہ رہا تھا کہ مسلمان حج کے لیے مدینہ سے آتے۔ ٩ ہجری میں آپ نے مسلمانوں کو حج کے لیے بھیجا اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو اس قافلہ حج کا امیر مقرر کردیا۔ ابھی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشرکوں کے داخلہ پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی تھی۔ لہذا اس حج میں مشرکین بھی شریک تھے۔ مسلمانوں نے اپنے طریقہ پر حج ادا کیا اور مشرکین نے اپنے طریقہ پر۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی روانگی کے بعد اس سورة کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ جن کی بنا پر مشرکین سے صرف بیت اللہ شریف میں داخلہ پر ہی پابندی نہ لگائی گئی بلکہ ان سے مکمل برأت کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان کی اہمیت کے پیش نظر آپ نے یہ بہتر سمجھا یا مدینہ میں موجود صحابہ کرام (رض) نے آپ کو یہ مشورہ دیا کہ یہ اعلان آپ کے کسی قریبی رشتہ دار کی طرف سے ہونا چاہیے جو مشرکوں کی نگاہ میں آپ ہی کے قائم مقام سمجھا جاسکے چناچہ ان آیات کے نزول کے بعد آپ نے سیدنا علی کو بھی بھیج دیا کہ وہ حج کے اجتماع عظیم میں ان آیات کا اعلان کردیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے :۔ ١۔ کعبہ کا ننگے طواف کرنا :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اس حج میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے دسویں تاریخ کو دوسرے منادی کرنے والوں کے ساتھ مجھے بھی بھیجا تاکہ یہ منادی کریں کہ && اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ ہی کوئی ننگا ہو کر طواف کرے۔ && حمید بن عبدالرحمن (ایک راوی) کہتے ہیں کہ (ابو بکر صدیق کو روانہ کرنے کے بعد) آپ نے ان کے پیچھے سیدنا علی کو بھی روانہ کیا اور انہیں بھی حکم دیا کہ سورة برأت (کافروں کو) سنا دیں۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : سیدنا علی نے بھی ہمارے ساتھ منیٰ میں برأت کی منادی کی اور کہا کہ && اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور نہ کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے۔ && (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ اعلان برا ءت کی چار دفعات :۔ زید بن یثیَعْ کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا علی سے پوچھا کہ حج میں تمہیں کیا پیغام دے کر بھیجا گیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ چار باتیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ دوسرے جس کافر کے ساتھ نبی اکرم کا معاہدہ صلح ہے وہ مدت مقررہ تک بحال رہے گا۔ اور تیسرے جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہے یا تو وہ اسلام لے آئیں اور وہ جنت میں داخل ہوں گے یا پھر یہاں سے چلے جائیں اور چوتھے یہ کہ اس سال کے بعد مشرک اور مسلمان (حج میں) جمع نہ ہوں گے۔ && (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٣۔ سیدنا علی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے حج اکبر کے دن کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا && قربانی کا دن && (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) صاف دل سے معاہدہ کرنے والے مشرک قبائل کو رعایت :۔ چناچہ دس ذی الحجہ کو حج اکبر یعنی یوم نحر کے دن یہ اعلان پہلے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے منیٰ کے مقام پر کیا۔ پھر اس کے بعد سیدنا علی نے کیا اور اس کی اہم دفعات چار تھیں۔ (١) آئندہ کبھی کوئی شخص ننگا ہو کر طواف نہ کرسکے گا۔ ایسی فحاشی کعبہ کے اندر کسی صورت پر برداشت نہیں کی جاسکتی۔ جبکہ مشرک ننگا ہو کر طواف کرنے کو اپنے خیال کے مطابق بہتر سمجھتے اور کہتے کہ اس میں زیادہ انکساری پائی جاتی ہے۔ (٢) مشرکین کا کعبہ کا متولی ہونا تو درکنار، وہ اس سال کے بعد کعبہ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ جیسا کہ اسی سورة کی آیت نمبر ٢٨ میں اس کی وضاحت موجود ہے (٣) جن مشرکوں سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ صلح نہیں انہیں چار ماہ کی مدت دی جاتی ہے۔ اس مدت میں وہ خوب سمجھ لیں کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کو تیار ہیں یا یہ ملک چھوڑ کر نکل جانا چاہتے ہیں یا اسلام لانا چاہتے ہیں اور اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ بھی انشاء اللہ جنت میں داخل ہوں گے اس دفعہ میں وہ مشرک قبائل بھی شامل ہیں جو صلح کا معاہدہ تو کرلیتے تھے مگر صلح کی شرائط ہی ایسی طے کرتے تھے کہ ان کے لیے فتنہ اور نقض عہد کی گنجائش باقی رہے یعنی ایسے قبائل جن کی طرف سے مسلمانوں کو عہد شکنی یا فتنہ انگیزی کا خطرہ تھا ان کا ایسا عہد بھی اس اعلان کے ذریعہ ختم کردیا گیا۔ جیسا کہ سورة انفال کی آیت نمبر ٥٨ میں حکم دیا گیا ہے۔ (٤) اور جن مشرک قبائل نے صدق دل سے مسلمانوں سے معاہدہ امن کر رکھا ہے انہوں نے نہ کبھی بدعہدی کی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کو ان کی طرف سے کچھ خطرہ ہے۔ ایسے مشرک قبائل کو معاہدہ کے اختتام تک مہلت دی گئی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو دوسرے مشرک قبائل کے ساتھ ہوگا اور ایسے صاف نیت قبائل صرف تین تھے : بنو خزاعہ، بنو کنانہ اور بنو ضمرہ۔ جنہوں نے نہ خود عہد شکنی کی تھی اور نہ ہی علی الاعلان یا درپردہ مسلمانوں کے خلاف کسی دوسرے کی حمایت کی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد ٩ ھ میں نازل ہوئی۔ چونکہ سورة توبہ اور انفال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، اس لیے ان دونوں سورتوں کو ایک سورت کے حکم میں رکھا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ نہیں لکھی گئی اور یہ سبع طوال ( سات لمبی سورتوں) میں سے ساتویں سورت ہے، جن کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ أَخَذَ السَّبْعَ الْأَوَلَ مِنَ الْقُرْآنِ فَھُوَ حَبْرٌ ) ” جس نے قرآن مجید کی یہ پہلی سات سورتیں حاصل کرلیں وہ بہت بڑا عالم بن گیا۔ “ [ أحمد : ٦؍٨٢، ح : ٢٤٥٨٥، عن عائشۃ (رض) ] اس کے کئی نام ہیں جن میں سے ایک ” توبہ “ اور دوسرا ” براء ۃ “ ہے۔ ” توبہ “ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایمان کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے اور ” براء ۃ “ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے براءت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو ” سورة الفاضحہ “ یعنی ( منافقوں کو) رسوا کرنے والی سورت بھی کہتے ہیں۔ اس سورت کے شروع میں ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ نہیں لکھی جاتی، مفسرین نے اس کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ اس میں مشرکین سے قطع تعلق اور مسلمان نہ ہونے کی صورت میں ان کے قتل کا حکم ہے اور اہل کتاب کے مسلمان نہ ہونے یا جزیہ نہ دینے کی صورت میں ان سے مسلسل لڑتے رہنے کا حکم ہے وغیرہ، مگر سب سے معقول اور سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے شروع میں ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ نہیں لکھوائی، اس لیے صحابہ کرام (رض) نے نہیں لکھی۔ بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان تمام معاہدوں کی تنسیخ کا اعلان فرمایا ہے جو مسلمانوں نے مشرکوں سے کیے تھے۔ منسوخ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین ان عہد ناموں کو بار بار توڑ دیتے تھے اور ان کی شرائط کو پورا نہیں کرتے تھے، خصوصاً جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے بعد تبوک گئے تو کفار نے سمجھا کہ مسلمان رومیوں کی طاقت کے مقابلے میں فنا ہوجائیں گے، اس لیے انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے کیے ہوئے کسی عہد کا لحاظ رکھا نہ باہمی رشتہ داری کا، فرمایا : (لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً ) [ التوبۃ : ١٠ ] ” یہ لوگ کسی مومن کے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کا۔ “ اور فرمایا : (اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ ) [ التوبۃ : ١٣ ] ” کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں۔ “ مگر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم دیکھو کہ ان مشرکین کو اچانک حملہ کر کے برباد کرنے کے بجائے پہلے تمام عہد منسوخ کرنے کا اعلان دنیا کے سب سے بڑے مجمع میں کیا گیا۔ ٩ ھ میں ابوبکر صدیق (رض) کی زیر امارت حج کے دن دس ذوالحجہ یوم نحر کو میدان منیٰ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کی موجودگی میں اعلان ہوا اور کئی آدمی مقرر کیے گئے، جنھوں نے اس مجمع کے ہر مقام پر پہنچ کر بلند آواز کے ساتھ یہ اعلان کیا۔ اس سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خود حج پر نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس اعلان کے بعد ہی مکہ میں مشرکوں کا داخلہ بند ہوا اور ان کی بےحیائی کی رسمیں ختم ہوئیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین ( کے عہد) سے دست برداری ہے جن سے تم نے ( بلا تعیین مدت) عہد کر رکھا تھا ( یہ جماعت سوم کا حکم ہے ان جماعتون کی تفصیل معارف و مسائل میں آرہی ہی) اور جماعت چہارم یعنی جن سے کچھ بھی عہد نہ تھا ان کا بھی حکم اس سے بدرجہ اولی مفہوم ہوگیا کہ جب معاہدین سے رفع امان کردیا تو غیر معاہدین میں تو کوئی احتمال امن کا پہلے سے بھی نہیں ہے) سو ( ان دونوں جماعتوں کو اطلاع کردو کہ) تم لوگ اس سرزمین میں چار مہینے چل پھر لو ( اجازت ہے تاکہ اپنا موقع اور پناہ ڈھونڈھ لو) اور ( اس کے ساتھ) یہ ( بھی) جان رکھو کہ ( اس مہلت کی بدولت صرف مسلمانوں کی دست برد سے بچ سکتے ہو لیکن) تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے ( کہ اس کے قبضہ سے نکل سکو) اور یہ ( بھی جان رکھو) کہ بیشک اللہ تعالیٰ ( آخرت میں) کافروں کو رسوا کریں گے ( یعنی عذاب دیں گے تمہاری سیاحت اس سے نہیں بچا سکتی اور احتمال قتل دنیا میں الگ رہا۔ اس میں ترغیب ہے توبہ کی) اور ( پہلی دوسری جماعت کا حکم یہ ہے کہ) اللہ اور رسول کی طرف سے بڑے حج کی تاریخوں میں عام لوگوں کے سامنے اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول دونوں ( بدون مقرر کرنے کسی میعاد کے ابھی) دست بردار ہوتے ہیں ان مشرکین ( کو امن دینے) سے ( جنہوں نے خود نقض عہد کیا۔ مراد جماعت اول ہے مگر) پھر ( بھی ان سے کہا جاتا ہے کہ) اگر تم ( کفر سے) توبہ کرلو تو تمہارے لئے ( دونوں جہان میں) بہتر ہے ( دنیا میں تو اس لئے کہ تمھا ری عہد شکنی معاف ہوجائے گی اور قتل سے بچ جاؤ گے اور آخرت میں ظاہر ہے کہ نجات ہوگی) اور اگر تم نے ( اسلام سے) اعراض کیا تو یہ سمجھ رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ( کہ کہیں نکل کر بھاگ جاؤ اور ( آگے خدا کو عاجز نہ کرسکنے کی تفسیر ہے کہ) ان کافروں کو ایک دردناک سزا کی خبر سنا دیجئے ( جو آخرت میں واقع ہوگی یہ تو یقینی اور احتمال سزائے دینا کا الگ، مطلب یہ ہوا کہ اگر اعراض کرو گے تو سزا بھگتو گے) ہاں مگر وہ مشرکین ( اس رفع امان و دست برداری سے) مستثنی ہیں جن سے تم نے عہد لیا پھر انہوں نے ( عہد پورا کرنے میں) تمہارے ساتھ ذرا کمی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلہ ( تمھارے) کسی ( دشمن) کی مدد کی ( مراد اس سے جماعت دوم ہے) سو ان کے معاہدہ کو ان کی مدت ( مقررہ) تک پورا کردو ( اور بد عہدی نہ کرو کیونکہ) واقعی اللہ تعالیٰ (بد عہدی سے) احتیاط رکھنے والوں کو پسند کرتے ہیں (پس تم احتیاط رکھو گے تو تم بھی پسندیدہ حق ہوجاؤ گے۔ آگے جماعت اول کے حکم کا تتمہ ہے کہ جب ان کو کوئی مہلت نہیں تو گو ان سے ابھی قتال کی گنجائش ہو سکتی تھی لیکن ابھی محرم کے ختم تک اشہر حرم مانع قتال ہیں) سو ( ان کے گزرنے کا انتظار کرلو اور) جب اشہر حرم گزر جائیں تو ( اس وقت) ان مشرکین ( جماعت اول) کو جہاں پاؤ مارو پکڑو باندھو اور داؤ گھات کے موقعوں میں ان کی تاک میں بیٹھو ( یعنی لڑائی میں جو جو ہوتا ہے سب کی اجازت ہے) پھر اگر ( کفر سے) توبہ کرلیں اور ( اسلام کے کام کرنے لگیں یعنی مثلا نماز پڑھنے لگیں، زکوة دینے لگیں تو ان کا رستہ چھوڑ دو ( یعنی قتل و قید مت کرو کیونکہ) واقعی اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والے بڑی رحمت کرنے والے ہیں ( اس واسطے ایسے شخص کا کفر بخش دیا اور اس کی جان بچا لی اور یہی حکم بقیہ جماعت کا ہوگا ان کی میعادیں گزرنے کے بعد ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَرَاۗءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝ ١ ۭ برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس عهد العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً. قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] ( ع ھ د ) العھد ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

معاہدہ مشرکین سے اعلان برأت قول باری ہے (براء ۃ من اللہ و رسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین اعلان برأت ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کئے تھے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ برأت قطع موالات اور امان کے خاتمہ نیز بچائو کے مرتفع ہوجانے کا نام ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں۔ نذہ براء ۃ من اللہ و رسولہ “ اسی بناء لفظ براۃ مرفوع ہے۔ ایک قول ہے کہ ’ براۃ ‘ مبتدا ہے اور اس کی خبر حرف الی میں موجود ظرفیت کا معنی ہے اس بناء پر یہ آیت اس معاہدہ کے خاتمہ کی مقتضی ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین کے درمیان طے پایا تھا نیز امان کے ارتفاع۔ حالت جنگ کی بحالی اور قتال کے اعلان کی بھی مقتضی ہے۔ یہ آیت اس قول باری کی طرح ہے (و اما تخافن من قوم خیانۃ فانبذالیھم علی سواء اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانہ اس کے آگے پھینک دوض اس طرح زیر بحث آیت میں برات کچا جو ذکر ہے وہ گویا اس معاہدے کو علانیہ ان کے آگے پھینک دینے اور معاہدہ ختم کردینے کے مترادف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ درج بالا آیت میں معاہدے کو علانیہ پھینک دینے کا حکم ان مشرکین کے ساتھ خاص تھا جو اپنے دلوں میں خیانت چھپائے ہوئے تھے اور معاہدے سے غداری اور بدعہدی کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس بنا پر زیر بحث آیت میں مذکورہ لفظ برأت کا تقاضا تو یہ تھا کہ مشرکین کو اعلان برأت کے ساتھ ہی معاہدہ کا خاتمہ وہ جاتا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے فواً بعد یہ فرمایا (فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر۔ پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو) تو اس کے ذریعے یہ بیان کردیا کہ معاہدے کے خاتمہ کی ابتدا چار ماہ بعد ہوگی اور جن مشرکین سے اس قسم کے معاہدے کئے گئے تھے وہ چار ماہ کی مدت کے اختتام تک باقی رہیں گے۔ حسن کا قول ہے کہ اس وقت جن مشرکین کے ساتھ چار ماہ سے زائد مدت تک کے معاہدے تھے ان کی مدت گھٹا کر چار ماہ کردی گئی اور جن کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی مدت چار ماہ سے کم تھی وہ بڑھا کر چار ماہ کردی گئی۔ ایک قول یہ ہے کہ ان چار مہینوں سے عہد یعنی اعلان کے مہینے مراد ہیں جن کی مشرکین کو مہلت دی گئی تھی۔ اس کی ابتدا بیس (٢٠) ذی قعدہ سے ہوئی تھی، اور ذی الحجہ، محرم اور صفر کے مہینے اس میں شامل کر کے دس ربیع الاول کو اس کا اختتام ہوا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ مکمل سورت مدنی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آخر کی دو آیتیں مکی ہیں، اس سورت میں دو ہزار چار سو سرسٹھ کلمات اور دس ہزار حروف ہیں۔ (١) یہ ان لوگوں سے اعلان برأت ہے جنہوں نے بدعہدی کی، برأت کے معنی نقص عہد کردینا ہے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

تمہیدی کلمات سورۃ التوبہ کئی خطبات پر مشتمل ہے اور ان میں سے ہر خطبہ الگ پس منظر میں نازل ہوا ہے۔ جب تک ان مختلف خطبات کے پس منظر اور زمانۂ نزول کا الگ الگ تعین درست انداز میں نہ ہوجائے ‘ متعلقہ آیات کی درست توضیح و تشریح کرنا ممکن نہیں۔ چناچہ جن لوگوں نے اس سورت کی تفسیر کرتے ہوئے پوری احتیاط سے تحقیق نہیں کی ‘ وہ خود بھی مغالطوں کا شکار ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے کا باعث بنے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ سورت قرآن حکیم کی مشکل ترین سورت ہے اور اس کی تفہیم کے لیے انتہائی محتاط تحقیق اور گہرے تدبر کی ضرورت ہے۔ سورۃ التوبہ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے دو پہلو : محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل ہر پیغمبر کو ایک خاص علاقے اور خاص قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ‘ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم (بنواسماعیل) کی طرف بھی رسول بن کر آئے اور قیامت تک کے لیے پوری دنیا کے تمام انسانوں کی طرف بھی۔ یہ فضیلت تمام انبیاء و رسل میں صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مخصوص ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث فرمایا گیا ‘ ایک بعثت خصوصی اور دوسری بعثت عمومی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ان دونوں پہلوؤں کے حوالے سے سورة التوبہ کی آیات میں بھی ایک بڑی خوبصورت تقسیم ملتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اس سورت کے بھی بنیادی طور پر دو حصے ہیں۔ ان میں سے ایک حصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ بعثت کے خصوصی پہلو سے متعلق ہے ‘ جبکہ دوسرے حصے کا تعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے عمومی پہلو سے ہے۔ چناچہ سورت کے ان دونوں حصوں کے موضوعات و مضامین کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ان دونوں پہلوؤں کے فلسفے کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت خصوصی : محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصی بعثت مشرکین عرب یا بنو اسماعیل کی طرف تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق بھی اسی قوم سے تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کے اندر رہ کر ‘ خود ان کی زبان میں ‘ اللہ کا پیغام ان تک پہنچا دیا اور ان پر آخری حد تک اتمام حجت بھی کردیا۔ اسی ضمن میں پھر مشرکین عرب پر اللہ کے اس قدیم قانون کا نفاذ بھی عمل میں آیا کہ جب کسی قوم کی طرف کوئی رسول بھیجا جائے اور وہ رسول اپنی دعوت کے سلسلے میں اس قوم پر اتمام حجت کر دے ‘ پھر اگر وہ قوم اپنے رسول کی دعوت کو رد کر دے تو اس پر عذاب استیصال مسلط کردیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مشرکین عرب پر عذاب استیصال کی نوعیت معروضی حالات کے پیش نظر پہلی قوموں کے مقابلے میں مختلف نظر آتی ہے۔ اس عذاب کی پہلی قسط غزوۂ بدر میں مشرکین مکہ کی ہزیمت و شکست کی صورت میں سامنے آئی جبکہ دوسری اور آخری قسط کا ذکر اس سورت کے آغاز میں کیا گیا ہے۔ بہر حال اپنی بعثت خصوصی کے حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جزیرہ نمائے عرب میں دین کو غالب کردیا ‘ اور وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ ہی میں اقامت دین کا عملی نقشہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت عمومی : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت عمومی پوری انسانیت کی طرف قیامت تک کے لیے ہے۔ اس سلسلے میں دعوت کا آغاز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ (٦ ہجری) کے بعد فرمایا۔ اس سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی مبلغ یا داعی عرب سے باہر نہیں بھیجا ‘ بلکہ تب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پوری توجہ جزیرہ نمائے عرب تک مرکوز رکھی اور اپنے تمام وسائل اسی خطہ میں دین کو غالب کرنے کے لیے صرف کیے۔ لیکن جونہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سلسلے میں ٹھوس کامیابی ملی ‘ یعنی قریش نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور فریق ثانی کے تسلیم کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلح کرلی ‘ (قرآن نے سورة الفتح کی پہلی آیت میں اس صلح کو فتح مبین “ قرار دیا ہے) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بعثت عمومی کے تحت دعوت کا آغاز کرتے ہوئے عرب سے باہر مختلف سلاطین و امراء کی طرف خطوط بھیجنے شروع کردیے۔ اس سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن فرمانرواؤں کو خطوط لکھے ‘ ان میں قیصر روم ‘ ایران کے بادشاہ کسریٰ ‘ مصر کے بادشاہ مقوقس اور حبشہ کے فرمانروا نجاشی (یہ عیسائی حکمران اس نجاشی کا جانشین تھا جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ‘ اور جن کی غائبانہ نماز جنازہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود پڑھائی تھی) کے نام شامل ہیں۔ [ نوٹ : ماضی قریب میں یہ چاروں خطوط اصل متن کے ساتھ اصل شکل میں دریافت ہوچکے ہیں۔ ] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انہی خطوط کے ردِّ عمل کے طور پر سلطنت روما کے ساتھ مسلمانوں کے ٹکراؤ کا آغاز ہوا ‘ جس کا نتیجہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ ہی میں جنگ موتہ اور غزوۂ تبوک کی صورت میں نکلا۔ بہر حال ان تمام حالات و واقعات کا تعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت عمومی سے ہے ‘ جس کی دعوت کا آغاز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی مبارک ہی میں ہوگیا تھا ‘ اور پھر خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح طور پر یہ فریضہ امت کے ہر فرد کی طرف منتقل فرما دیا۔ چناچہ اب تا قیام قیامت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھنے والا ہر مسلمان دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کے لیے محنت و کوشش کا مکلف ہے۔ موضوعات : مضامین و موضوعات کے حوالے سے یہ سورت دو حصوں پر مشتمل ہے ‘ جن کی تفصیل درج ذیل ہے : حصہ اول : یہ حصہ سورت کے پہلے پانچ رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس کا تعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت خصوصی کے تکمیلی مرحلے سے ہے۔ آیات کی ترتیب کے مطابق اگرچہ یہ پانچ رکوع بھی مزید تین حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ‘ مگر موضوع کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ حصہ ہمیں دو خطبات پر مشتمل نظر آتا ہے ‘ جن کا الگ الگ تعارف ذیل کی سطور میں دیا جا رہا ہے۔ پہلا خطبہ : پہلا خطبہ دوسرے اور تیسرے رکوع پر مشتمل ہے اور یہ فتح مکہ (٨ ہجری) سے پہلے نازل ہوا۔ ان آیات میں مسلمانوں کو فتح مکہ کے لیے نکلنے پر آمادہ کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ بہت نازک اور حساس تھا۔ مسلمان مہاجرین کی مشرکین مکہ کے ساتھ براہ راست قریبی رشتہ داریاں تھیں ‘ ان کے خاندان اور قبیلے مشترک تھے ‘ حتیٰ کہ بہت سے مسلمانوں کے اہل و عیال مکہ میں موجود تھے۔ کچھ غریب ‘ بےسہارا مسلمان ‘ جو مختلف وجوہات کی بنا پر ہجرت نہیں کرسکے تھے ‘ ابھی تک مکہ میں پھنسے ہوئے تھے۔ اب سوال یہ تھا کہ اگر جنگ ہوگی ‘ مکہ پر حملہ ہوگا تو ان سب کا کیا بنے گا ؟ کیا گندم کے ساتھ گھن بھی پس جائے گا ؟ دوسری طرف قریش مکہ کا بظاہر یہ اعزاز بھی نظر آتا تھا کہ وہ بیت اللہ کے متولی تھے اور حجاج کی خدمت کرتے تھے۔ اس حوالے سے کہیں سادہ دل مسلمان اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے تو کہیں منافقین ان سوالات کی آڑ لے کر لگائی بجھائی میں مصروف تھے۔ چناچہ ان آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ پس منظر مدنظر رہنا چاہیے۔ دوسرا خطبہ : دوسرا خطبہ پہلے ‘ چوتھے اور پانچویں رکوع پر مشتمل ہے اور یہ ذوالقعدہ ٩ ہجری کے بعد نازل ہوا۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس میں سے پہلی چھ آیات کو مقدم کر کے سورت کے آغاز میں لایا گیا ہے۔ یہ وہی آیات ہیں جن کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو قافلۂ حج کے پیچھے بھیجا تھا۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ ٩ ہجری میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود حج پر تشریف نہیں لے گئے تھے ‘ اس سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو بکرصدیق (رض) کو امیرحج بنا کر بھیجا تھا۔ حج کا یہ قافلہ ذوالقعدہ ٩ ہجری میں روانہ ہوا اور اس کے روانہ ہونے کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں۔ چناچہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو بھیجا کہ حج کے موقع پر علی الاعلان یہ احکامات سب کو سنا دیے جائیں۔ سن ٩ ہجری کے اس حج میں مشرکین مکہ بھی شامل تھے۔ چناچہ وہاں حج کے اجتماع میں حضرت علی (رض) نے یہ آیات پڑھ کر سنائیں ‘ جن کے تحت مشرکین کے ساتھ ہر قسم کے معاہدے سے اعلان براءت کردیا گیا اور یہ واضح کردیا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ مشرکین عرب کے لیے چار ماہ کی مہلت کا اعلان کیا گیا کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ایمان لانا چاہیں تو لے آئیں ‘ ورنہ ان کا قتل عام ہوگا۔ یہ آیات چونکہ قرآن کریم کی سخت ترین آیات ہیں ‘ اس لیے ضروری ہے کہ ان کے پس منظر کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ یہ احکامات دراصل اس عذاب استیصال کے قائم مقام ہیں جو قوم نوح ( علیہ السلام) ‘ قوم ہود ( علیہ السلام) ‘ قوم صالح ( علیہ السلام) ‘ قوم شعیب ‘ ( علیہ السلام) قوم لوط ( علیہ السلام) اور آل فرعون پر آیا تھا۔ ان تمام قوموں پر عذاب استیصال اللہ کے اس اٹل قانون کے تحت آیا تھا جس کا ذکر قبل ازیں بھی ہوچکا ہے۔ اس قانون کے تحت مشرکین مکہ اب عذاب استیصال کے مستحق ہوچکے تھے ‘ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہی کی زبان میں اللہ کے احکامات ان تک پہنچا کر ان پر حجت تمام کردی تھی۔ اس سلسلے میں اللہ کی مشیت کے مطابق ان کو جو مہلت دی گئی تھی وہ بھی ختم ہوچکی تھی۔ چناچہ ان پر عذاب استیصال کی پہلی قسط میدان بدر میں نازل کی گئی اور دوسری اور آخری قسط کے طور پر اب انہیں الٹی میٹم دے دیا گیا کہ تمہارے پاس سوچنے اور فیصلہ کرنے کے لیے صرف چار ماہ ہیں۔ اس مدت میں ایمان لانا چاہو تو لے آؤ ورنہ قتل کردیے جاؤ گے۔ اس حکم کے اندر ان کے لیے یہ آپشن خود بخود موجود تھا کہ وہ چاہیں تو جزیرہ نمائے عرب سے باہر بھی جاسکتے ہیں ‘ مگر اب اس خطہ کے اندر وہ بحیثیت مشرک کے نہیں رہ سکتے ‘ کیونکہ اب جزیرہ نمائے عرب کو شرک سے بالکل پاک کردینے اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت خصوصی کی تکمیلی شان کے ظہور کا وقت آن پہنچا تھا۔ ایک اشکال کی وضاحت : یہاں ایک اشکال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ آیات کی موجودہ ترتیب خطبات کی زمانی ترتیب کے بالکل برعکس ہے۔ جو خطبہ پہلے (٨ ہجری میں) نازل ہوا ہے وہ سورت میں دوسرے رکوع سے شروع ہو رہا ہے ‘ جبکہ بعد (٩ ہجری) میں نازل ہونے والی آیات کو مقدم کر کے ان سے سورت کا آغاز کیا گیا ہے۔ پھر یہ دوسرا خطبہ بھی آیات کی ترتیب کے باعث دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ اس کی ابتدائی چھ آیات پہلے رکوع میں آگئی ہیں ‘ جبکہ بقیہ آیات چوتھے اور پانچویں رکوع میں ہیں۔ دراصل ترتیب آیات میں اس پیچیدگی کی وجہ قرآن کا وہ خاص اسلوب ہے جس کے تحت کسی انتہائی اہم بات کو موضوع کی منطقی اور روایتی ترتیب میں سے نکال کر شہ سرخی (head line) کے طور پر پہلے بیان کردیا جاتا ہے۔ اس اسلوب کو سمجھنے کے لیے سورة الانفال کے آغاز کا انداز ذہن میں رکھیے۔ وہاں مال غنیمت کا مسئلہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا تھا ‘ جس پر تفصیلی بحث تو بعد میں ہونا مقصود تھی ‘ لیکن اس ضمن میں بنیادی اصول سورت کی پہلی آیت میں بیان کردیا گیا اور مسئلے کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر اس موضوع سے سورت کا آغاز فرمایا گیا۔ بالکل اسی انداز میں اس سورت کا آغاز بھی ایک انتہائی اہم مسئلے کے بیان سے کیا گیا ‘ البتہ اس مسئلے کی بقیہ تفصیل بعد میں چوتھے اور پانچویں رکوع میں بیان ہوئی۔ حصہ دوم : اس سورت کا دوسرا حصہ چھٹے رکوع سے لے کر آخر تک گیارہ رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس کا تعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت عمومی سے ہے۔ اس لیے کہ اس حصے کا مرکزی موضوع غزوۂ تبوک ہے اور غزوۂ تبوک تمہید تھی ‘ اس جدوجہد کی جس کا آغاز اقامت دین کے سلسلے میں جزیرہ نمائے عرب سے باہر بین الاقوامی سطح پر ہونے والا تھا۔ اِن گیارہ رکوعوں میں سے ابتدائی چار رکوع تو وہ ہیں جو غزوۂ تبوک کے لیے مسلمانوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے سے متعلق ہیں ‘ چند آیات وہ ہیں جو تبوک جاتے ہوئے دوران سفر نازل ہوئیں ‘ چند آیات تبوک میں قیام کے دوران اور چندتبوک سے واپسی پر راستے میں نازل ہوئیں ‘ جبکہ ان میں چند آیات ایسی بھی ہیں جو تبوک سے واپسی کے بعد نازل ہوئیں۔ آیت ١ (بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے تمام معاہدے ختم کرنے کا دو ٹوک الفاظ میں اعلان ہے جو مسلمانوں نے مشرکین کے ساتھ کر رکھے تھے۔ یہ اعلان چونکہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا تھا اور قطعی (categorical) انداز میں کیا گیا تھا ‘ اس لیے اس کے ساتھ کچھ شرائط یا استثنائی شقوں کا ذکر بھی کیا گیا جن کی تفصیل آئندہ آیات میں آئے گی۔ سورة التوبہ کے ضمن میں ایک اور بات لائق توجہ ہے کہ یہ قرآن کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم “ نہیں لکھی جاتی۔ اس کا سبب حضرت علی (رض) نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ سورت تو ننگی تلوار لے کر یعنی مشرکین کے لیے قتل عام کا اعلان لے کر نازل ہوئی ہے ‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کی صفات کے ساتھ اس کے مضامین کی مناسبت نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة نام : یہ سورہ دو ناموں سے مشہور ہے ۔ ایک التوبہ دوسرے البراءَۃ ۔ توبہ اس لحاظ سے کہ اس میں ایک جگہ بعض اہل ایمان کے قصوروں کی معافی کا ذکر ہے ۔ اور براءۃ اس لحاظ سے کہ اس کے آغاز میں مشرکین سے بریٔ الذمہ ہونے کا اعلان ہے ۔ بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ : اس سورہ کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں لکھی جاتی ۔ اس کے متعدد وجوہ مفسرین نے بیان کیے ہیں جن میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو امام رازی نے لکھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی اس لیے صحابہ کرام نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اسی کی پیروی کرتے رہے ۔ یہ اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جوں کا توں لینے اور جیسا دیا گیا تھا ویسا ہی اس کو محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیا گیا ہے ۔ زمانہ نزول اور اجزاءِ سوُرہ : ”یہ سورہ تین تقریروں پر مشتمل ہے: پہلی تقریر آغازِ سورہ سے پانچویں رکوع کے آخر تک چلتی ہے ۔ اس کا زمانہ نزول ذی القعدہ سن ۹ ھجری یا اس کے لگ بھگ ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحاج مقرر کر کے مکہ روانہ کر چکے تھے کہ یہ تقریر نازل ہوئی اور حضور نے فوراً سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے پیچھے بھیجا تا کہ حج کے موقع پر تمام عرب کے نمائندہ اجتماع میں اسے سنائیں اور اس کے مطابق جو طرزِ عمل تجویز کیا گیا تھا اس کا اعلان کر دیں ۔ دوسری تقریر رکوع ٦ کی ابتدا سے رکوع ۹ کے اختتام تک چلتی ہے اور یہ رجب ۹ ھجری یا اس سے کچھ پہلے نازل ہوئی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کی تیاری کر رہے تھے ۔ اس میں اہل ایمان کو جہاد پر اکسایا گیا ہے اور ان لوگوں کو سختی کے ساتھ ملامت کی گئی ہے جو نفاق یا ضعف ایمان یا سُستی و کاہلی کی وجہ سے راہِ خدا میں جان و مال کا زیاں برداشت کرنے سے جی چرا رہے تھے ۔ تیسری تقریر رکوع ۱۰ سے شروع ہو کر سورۃ کے ساتھ ختم ہوتی ہے اور یہ غزوہ تبوک سے واپسی پر نازل ہوئی ۔ اس میں متعدد ٹکڑے ایسے بھی ہیں جو انہی ایام میں مختلف مواقع پر اُترے اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ الہٰی سے ان سب کو یکجا کر کے ایک سلسہ تقریر میں منسلک کر دیا ۔ مگر چونکہ وہ ایک ہی مضمون اور ایک ہی سلسلہ واقعات سے متعلق ہیں اس لیے ربط تقریر میں کہیں خلل نہیں پایا جاتا ۔ اس میں منافقین کی حرکات پر تنبیہ ، غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں پر زجر و توبیخ ، اور ان صادق الایمان لوگوں پر ملامت کے ساتھ معانی کا اعلان ہے جو اپنے ایمان میں سچے تو تھے مگر جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینے سے باز رہے تھے ۔ نزول ترتیب کے لحاظ سے پہلی تقریر سب سے آخر میں آنی چاہیے تھی ، لیکن مضمون کی اہمیت کے لحاظ سے وہی سب سے مقدم تھی ، اس لیے مُصحَف کی ترتیب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پہلے رکھا اور بقیہ دونوں تقریروں کو مؤخر کر دیا ۔ تاریخی پس منظر : زمانہ نزول کی تعیین کے بعد ہمیں اس سورہ کے تاریخی پس منظر پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے ۔ جس سلسلہ واقعات سے اس کے مضامین کا تعلق ہے اس کی ابتدا صلح حدیبیہ سے ہوتی ہے ۔ حدیبیہ تک چھ سال کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہو چکا تھا کہ عرب کے تقریبًا ایک تہائی حصہ میں اسلام ایک منظم سوسائٹی کا دین ، ایک مکمل تہذیب و تمدّن ، اور ایک کامل با اختیار ریاست بن گیا تھا ۔ حدیبیہ کی صلح جب واقع ہوئی تو اس دین کو یہ موقع بھی حاصل ہوگیا کہ اپنے اثرات نسبۃ زیادہ امن و اطمینان کے ماحول میں ہر چہار طرف پھیلا سکے ۔ اس کے بعد واقعات کی رفتار نے دو بڑے راستے اختیار کیے جو آگے چل کر نہایت اہم نتائج پر منتہی ہوئے ۔ ان میں سے ایک کا تعلق عرب سے تھا اور دوسرے کا سلطنتِ روم سے ۔ عرب کی تسخیر : عرب میں حدیبیہ کے بعد دعوت و تبلیغ اور استحکام قوت کی جو تدبیریں اختیار کی گئیں ان کی بدولت دوسال کے اندر ہی اسلام کا دائرہ اثر اتنا پھیل گیا اور اس کی طاقت اتنی زبردست ہو گئی کہ پرانی جاہلیت اس کے مقابلہ میں بے بس ہو کر رہ گئی ۔ آخر کار جب قریش کے زیادہ پر جوش عناصر نے بازی ہرتی دیکھی تو انہیں یاراے ضبط نہ رہا اور انہوں نے حدیبیہ کے معاہدے کو توڑ ڈالا ۔ وہ اس بندش سے آزاد ہو کر اسلام سے ایک آخری فیصلہ کن مقابلہ کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس عہد شکنی کے بعد ان کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہ دیا اور اچانک مکہ پر حملہ کر کے رمضان سن ۸ ھجری میں اسے فتح کر لیا ۔ اس کے بعد قدیم جاہلی نظام نے آخری حرکت مذبوحی حُنَین کے میدان میں کہ جہاں ہوازن ، ثقیف ، نضر ، جشم اور بعض دوسرے جاہلیت پرست قبائل نے اپنی ساری طاقت لا کر جھونک دی تا کہ اس اصلاحی انقلاب کو روکیں جو فتح مکہ کے بعد تکمیل کے مرحلے پر پہنچ چکا تھا ۔ لیکن یہ حرکت بھی ناکام ہوئی اور حنین کی شکست کے ساتھ عرب کی قسمت کا قطعی فیصلہ ہو گیا کہ اسے اب دارالاسلام بن کر رہنا ہے ۔ اس واقعہ پر پورا ایک سال بھی نہ گزرنے پایا کہ عرب کا بیشتر حصہ اسلام کے دائرے میں داخل ہو گیا اور نظام جاہلیت کے صرف چند پراگندہ عناصر ملک کے مختلف گوشوں میں باقی رہ گئے ۔ اس نتیجہ کے حد کمال تک پہنچنے میں ان واقعات سے اور زیادہ مدد ملی جو شمال میں سلطنت روم کی سرحد پر اسی زمانہ میں پیش آرہے تھے ۔ وہاں جس جرأت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۳۰ ہزار کا زبردست لشکر لے کر گئے اور رومیوں نے آپ کے مقابلہ پر آنے سے پہلو تہی کر کے جو کمزوری دکھائی اس نے تمام عرب پر آپ کی اور آپ کے دین کی دھاک بٹھا دی اور اس کا ثمرہ اس صورت میں ظاہر ہو اکہ تبوک سے واپس آتے ہی حضور کے پاس عرب کے گوشے گوشے سے وفد پر وفد آنے شروع ہو گئے اور وہ اسلام و اطاعت کا اقرار کرنے لگے ۔ چنانچہ اسی کیفیت کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ وَرَ اَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا ۔ ”جب اللہ کی مدد آگئی ، اور فتح نصیب ہوئی اور تو نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں“ ۔ غزوہ تبوک : رومی سلطنت کے ساتھ کشمکش کی ابتدا فتح مکہ سے پہلے ہو چکی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے بعد اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے جو وفود عرب کے مختلف حصوں میں بھیجے تھے ان میں سے ایک شمال کی طرف سرحد شام سے متصل قبائل میں بھی گیا تھا ۔ یہ لوگ زیادہ تر عیسائی تھے اور رومی سلطنت کے زیر اثر تھے ۔ ان لوگوں نے ذات الطَّلح ( یا ذات اطلاح ) کے مقام پر اس وفد کے ۱۵ آدمیوں کو قتل کر دیا اور صرف رئیس وفد کعب بن عمیر غفاری بچ کر واپس آئے ۔ اسی زمانہ میں حضور نے بُصریٰ کے رئیس شُرحبیل بن عمرو کے نام بھی دعوت اسلام کا بیغام بھیجا تھا ، مگر اس نے آپ کے ایلچی حارث بن عمیر کو قتل کر دیا ۔ یہ رئیس بھی عیسائی تھا اور براہ راست قیصر روم کے احکام کا تابع تھا ۔ ان وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ سن ۸ ھجری میں تین ہزار مجاہدین کی ایک فوج سرحد شام کی طرف بھیجی تا کہ آئندہ کے لیے یہ علاقہ مسلمانوں کے لیے پر امن ہو جائے اور یہاں کے لوگ مسلمانوں کو بے زور سمجھ کر ان پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ کریں ۔ یہ فوج جب مَعَان کے قریب پہنچی تو معلوم ہوا کہ شُرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلہ پر آرہا ہے ، خود قیصر روم حمص کے مقام پر موجود ہے اور اس نے اپنے بھائی تھیوڈور کی قیادت میں ایک لاکھ کی مزید فوج روانہ کی ہے ۔ لیکن ان خوفناک اطلاعات کے باوجود ۳ ہزار سرفروشوں کا یہ مختصر دستہ آگے بڑھتا چلا گیا اور مُؤتَہ کے مقام پر شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جا ٹکرایا ۔ اس تہوّر کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجاہدینِ اسلام بالکل پس جاتے ، لیکن سارا عرب اور تمام شرق اوسط یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ایک اور ۳۳ کے اس مقابلہ میں بھی کفار مسلمانوں پر غالب نہ آسکے ۔ یہی چیز تھی جس نے شام اور اس سے متصل رہنے والے نیم آزاد عربی قبائل کو ، بلکہ عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبائل کو بھی ، جو کسری کے زیر اثر تھے ، اسلام کی طرف متوجہ کر دیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے ۔ بنی سُلَیم ( جن کے سردار عباس بن مرداس سُلمَی تھے ) اور اَشجع اور غَطَفان اور ذُبیان اور فزارَہ کےلوگ اسی زمانہ میں داخل اسلام ہوئے ۔ اور اسی زمانہ میں سلطنت روم کی عربی فوجوں کا ایک کمانڈر فروہ بن عمرو الجذامی مسلمان ہوا جس نے اپنے ایمان کا ایسا زبردست ثبوت دیاکہ گرد و پیش کے سارے علاقے اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے ۔ قیصر کو جب فروہ کے قبول اسلام کی اطلاع ملی تو اس نے انہیں گرفتار کرا کے اپنے دربار میں بلوایا اور ان سے کہا کہ دو چیزوں میں سے ایک کو منتخب کر لو ۔ یا ترک اسلام جس کا نتیجہ میں تم کو نہ صرف رہا کیا جائے گا بلکہ تمہیں اپنے عہدے پر بھی بحال کر دیا جائے گا ، یا اسلام جس کے نتیجہ میں تمہیں سزائے موت دی جائے گی ۔ انہوں نے ٹھنڈے دل سے اسلام کو چن لیا اور راہ حق میں جان دے دی ۔ یہی واقعات تھے جنہوں نے قیصر کو اس ”خطرے “ کی حقیقی اہمیت محسوس کرائی جو عرب سے اٹھ کر اس کی سلطنت کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ دوسرے ہی سال قیصر نے مسلمانوں کو غزوہ مُؤتہ کی سزا دینے کے لیے سرحد شام پر فوجی تیاریاں شروع کر دیں اور اس کے ماتحت غسّائی اور دوسرے عرب سردار فوجیں اکٹھی کرنے لگے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بے خبر نہ تھے ۔ آپ ہر وقت ہر اس چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی خبردار رہتے تھے جس کا اسلامی تحریک پر کچھ بھی موافق یا مخالف اثر پڑتا ہو ۔ آپ نے ان تیاریوں کے معنی فورا سمجھ لیے اور بغیر کسی تامل کے قیصر کی عظیم الشان طاقت سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس موقع پر ذرہ برابر بھی کمزوری دکھائی جاتی تو سارا بنا بنایا کام بگڑ جاتا ۔ ایک طرف عرب کی دم توڑتی ہوئی جاہلیت ، جس پر حُنَین میں آخری ضرب لگائی جا چکی تھی ، پھر جی اُٹھتی ۔ دوسری طرف مدینہ کے منافقین ، جو ابوعامر راہب کے واسطے سے غَسان کے عیسائی بادشاہ اور خود قیصر کے ساتھ اندرونی ساز باز رکھتے تھے ، اور جنہوں نے اپنی ریشہ دوانیوں پر دین داری کا پردہ ڈالنے کے لیے مدینہ سے متصل ہی مسجد ضرار تعمیر کر رکھی تھی ، بغل میں چھُرا گھونپ دیتے ۔ سامنے سے قیصر ، جس کا دبدبہ ایرانیوں کو شکست دینے کے بعد تمام دور و نزدیک کے علاقوں پر چھا گیا تھا ، حملہ آور ہوتا ۔ اور ان تین زبردست خطروں کی متحدہ یورش میں اسلام کی جیتی ہوئی بازی یکایک مات کھا جاتی ۔ اس لیے باوجود اس کے کہ ملک میں قحط سالی تھی ، گرمی کا موسم پورے شباب پر تھا ، فصلیں پکنے کے قریب تھیں ، سواریوں اور سروسامان کا انتظام سخت مشکل تھا ، سرمایہ کی بہت کمی تھی اور دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک کا مقابلہ در پیش تھا ، خدا کے نبی نے یہ دیکھ کر کہ یہ دعوت حق کے لیے زندگی و موت کے فیصلہ کی گھڑی ہے ، اسی حال میں تیاری جنگ کا اعلان عام کر دیا ۔ پہلے تمام غزوات میں تو حضور کا قاعدہ تھا کہ آخر وقت تک کسی کو نہ بتاتے تھے کہ کدھر جانا ہے اور کس سے مقابلہ دریپیش ہے ، بلکہ مدینے سے نکلنے کے بعد بھی منزل مقصود کی طرف سیدھا راستہ اختیار کرنے کے بجائے پھیر کی راہ سے تشریف لے جاتے تھے ۔ لیکن اس موقع پر آپ نے یہ پردہ بھی نہ رکھا اور صاف صاف بتا دیا کہ روم سے مقابلہ ہے اور شام کی طرف جانا ہے ۔ اس موقع کی نزاکت کو عرب میں سب ہی محسوس کر رہے تھے ۔ جاہلیت قدیمہ کے بچے کھچے عاشقوں کے لیے یہ ایک آخری شعاع امید تھی اور رُوم و اسلام کی اس ٹکر کے نتیجہ پر وہ بے چینی کے ساتھ نگاہیں لگائے ہوئے تھے ۔ کیونکہ وہ خود بھی جانتے تھے کہ اس کے بعد پھر کہیں سے امید کی جھلک نہیں دکھائی دینی ہے ۔ منافقین نے بھی اپنی آخری بازی اسی پر لگا دی تھی اور وہ اپنی مسجد ضرار بنا کر اس انتظار میں تھے کہ شام کی جنگ میں اسلام کی قسمت کا پانسہ پلٹے تو ادھر اندرون ملک میں وہ اپنے فتنہ کا علم بلند کریں ۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اس مہم کو ناکام کرنے کے لیے تمام ممکن تدبیریں بھی استعمال کر ڈالیں ۔ ادھر مومنین صادقین کو بھی پورا احساس تھا کہ جس تحریک کے لیے ۲۲ سال سے وہ سربکف رہے ہیں ، اس وقت اس کی قسمت ترازو میں ہے ، اس موقع پر جرأت دکھانے کے معنی یہ ہیں کہ اس تحریک کے لیے ساری دنیا پر چھا جانے کا دروازہ کھل جائے ، اور کمزوری دکھانے کے معنی یہ ہیں کہ عرب میں بھی اس کی بساط اُلٹ جائے ۔ چنانچہ اسی احساس کے ساتھ ان فدائیانِ حق نے انتہائی جوش و خروش سے جنگ کی تیاری کی ۔ سروسامان کی فراہمی میں ہر ایک نے اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی عمر بھر کی کمائی کا آدھا حصہ لا کر رکھ دیا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی ساری پونجی نذر کر دی ۔ غریب صحابیوں نے محنت مزدوری کر کر کے جو کچھ کمایا لا کر حاضر کر دیا ۔ عورتوں نے اپنے زیور اُتار اُتار کر دے دیے ۔ سرفروش والنٹیروں کے لشکر کے لشکر ہر طرف سے امنڈ امنڈ کر آنے شروع ہوئے اور انہوں نے تقاضا کیا کہ اسلحہ اور سواریوں کا انتظام ہو تو ہماری جانیں قربان ہونے کو حاضر ہیں ۔ جن کو سواریاں نہ مل سکیں وہ روتے تھے اور اپنے اخلاص کی بے تابیوں کا اظہار اس طرح کرتے تھے کہ رسول پاک کا دل بھر آتا تھا ۔ یہ موقع عملًا ایمان اور نفاق کے امتیاز کی کسوٹی بن گیا تھا ، حتیٰ کہ اس وقت پیچھے رہ جانے کے معنی یہ تھے کہ اسلام کے ساتھ آدمی کے تعلق کی صداقت ہی مشتبہ ہو جائے ۔ چنانچہ تبوک کی طرف جاتے ہوئے دوران سفر میں جو جو شخص پیچھے رہ جاتا تھا صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دیتے تھے اور جواب میں حضور برجستہ فرماتے تھے کہ دعوہ فان یک فیہ خیر فسیلحقہ اللہ بکم وان یک غیر ذٰلک فقد اراحکم اللہ منہ ۔ ” جانے دو ، اگر اس میں کچھ بھلائی ہے تو اللہ اسے پھر تمہارے ساتھ لا ملائے گا اور اگر کچھ دوسری حالت ہے تو شکر کرو کہ اللہ نے اس کی جھوٹی رفاقت سے تمہیں خلاصی بخشی“ ۔ رجب سن ۹ ھجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۳۰ ہزار مجاہدین کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے جن میں دس ہزار سوار تھے ۔ اونٹوں کی اتنی کمی تھی کہ ایک ایک اونٹ پر کئی کئی آدمی باری باری سوار ہوتے تھے ۔ اس پر گرمی کی شدت اور پانی کی قلت مستزاد ۔ مگر جس عزم صادق کا ثبوت اس نازک موقع پر مسلمانوں نے دیا اس کا ثمرہ تبوک پہنچ کر انہیں نقد مل گیا ۔ وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ قیصر اور اس کے تابعین نے مقابلہ پر آنے کے بجائے اپنی فوجیں سرحد سے ہٹا لی ہیں اور اب کوئی دشمن موجود نہیں ہے کہ اس سے جنگ کی جائے ۔ سیرت نگار بالعموم اس واقعہ کو اس انداز سے لکھ جاتے ہیں کہ گویا وہ خبر ہی سرے سے غلط نکلی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رومی افواج کے اجتماع کے متعلق ملی تھی ۔ حالانکہ دراصل واقعہ یہ تھا کہ قیصر نے اجتماعِ افواج شروع کیا تھا ، لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تیاریاں مکمل ہونے سے پہلے ہی مقابلہ پر پہنچ گئے تو اس نے سرحد سے فوجیں ہٹا لینے کے سوا کوئی چارہ نہ پایا ۔ غزوہ مُوتہ میں ۳ ہزار اور ایک لاکھ کے مقابلہ کی جو شان وہ دیکھ چکا تھا اس کے بعد اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں جہاں ۳۰ ہزار فوج آ رہی ہو وہاں وہ لاکھ دو لاکھ آدمی لے کر میدان میں آجاتا ۔ قیصر کے یوں طرح دے جانے سے جو اخلاقی فتح حاصل ہوئی اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرحلے پر کافی سمجھا اور بجائے اس کے تبوک سے آگے بڑھ کر سرحد شام میں داخل ہوتے ، آپ نے اس بات کوترجیح دی کہ اس فتح سے انتہائی ممکن سیاسی و حربی فوائد حاصل کرلیں ۔ چنانچہ آپ نے تبوک میں ۲۰ دن ٹھیر کر ان بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو جو سلطنت روم اور دارالاسلام کے درمیان واقع تھیں اور اب تک رومیوں کے زیر اثر رہی تھیں ، فوجی دباؤ سے سلطنت اسلامی کا باجگذار اور تابع امر بنالیا ۔ اس سلسلہ میں دُومَۃ الجَندَل کے عیسائی رئِس اُکَیدربن عبدالمالک کِندی ، اَیلہ کے عیسائی رئیس یوحنّا بن رُؤبہ ، اور اسی طرح مَقنا ، جَرباء اور اَذرُح کے نصرانی رؤسا نے بھی جزیہ ادا کر کے مدینہ کی تابعیت قبول کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حدود اقتدار براہِ راست رومی سلطنت کی سرحد تک پہنچ گئے اور جن عرب قبائل کو قیاصرہ روم اب تک عرب کے خلا ف استعمال کرتے رہے تھے ، اب ان کا بیشتر حصہ رومیوں کے مقابلہ پر مسلمانوں کا معاون بن گیا ۔ پھر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سلطنت روم کے ساتھ ایک طویل کشمکش میں اُلجھ جانے سے پہلے اسلام کو عرب پر اپنی گرفت مضبوط کر لینے کا پورا موقع مل گیا ۔ تبوک کی اس فتح بلا جنگ نے عرب میں ان لوگوں کی کمر توڑ دی جو اب تک جاہلیت قدیمہ کے بحال ہونے کی آس لگائے بیٹھے تھے ، خواہ وہ علانیہ مشرک ہوں یا اسلام کے پردہ میں منافق بنے ہوئے ہوں ۔ اس آخری مایوسی نے ان میں سے اکثر و بیشتر کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہنے دیا کہ اسلام کے دامن میں پناہ لیں اور اگر خود نعمت ایمانی سے بہرہ ور نہ بھی ہوں تو کم از کم ان کی آئندہ نسلیں بالکل اسلام میں جذب ہو جائیں ۔ اس کے بعد جو ایک برائے نام اقلیت شرک و جاہلیت میں ثابت قدم رہ گئی ، وہ اتنی بے بس ہوگئی تھی کہ اس اصلاحی انقلاب کی تکمیل میں کچھ بھی مانع نہ ہو سکتی تھی جس کے لیے اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا تھا ۔ مسائل و مباحث : اس پس منظر کو نگاہ میں رکھنے کے بعد ہم بآسانی ان بڑے بڑے مسائل کا احصاء کر سکتے ہیں جو اس وقت درپیش تھے اور جن سے سورہ توبہ میں تعرض کیا گیا ہے: ( ۱ ) اب چونکہ عرب کا نظم و نسق بالکلیہ اہل ایمان کے ہاتھ میں آگیا تھا اور تمام مزاحم طاقتیں بے بس ہو چکی تھیں ، اس لیے وہ پالیسی واضح طور پر سامنے آجانی چاہیے تھی جو عرب کو مکمل دارالاسلام بنانے کے لیے اختیار کرنی ضروری تھی ، چنانچہ وہ حسب ذیل صورت میں پیش کی گئی: الف ۔ عرب سےشرک کو قطعًا مٹا دیا جائے اور قدیم مشرکانہ نظام کا کلی استیصال کر ڈالا جائے تا کہ مرکز اسلام ہمیشہ کے لیے خالص اسلامی مرکز ہو جائے اور کوئی دوسرا عنصر اس کے اسلامی مزاج میں نہ تو خلل انداز ہو سکے اور نہ کسی خطرے کے موقع پر اندرونی فتنہ کا موجب بن سکے ۔ اسی غرض کے لیے مشرکین سے براءت اور ان کے ساتھ معاہدوں کے اختتام کا اعلان کیا گیا ۔ ب ۔ کعبہ کا انتظام اہل ایمان کے ہاتھ میں آجانے کے بعد یہ بالکل نامناسب تھا کہ جو گھر خالص خدا کی پرستش کے لیے وقف کیا گیا تھا اس میں بدستور شرک ہوتا رہے اور اس کی تَولِیَت بھی مشرکین کے قبضہ میں رہے ۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ کعبہ کی تولیت بھی اہل توحید کے قبضہ میں رہنی چاہیے اور بیت اللہ کے حدود میں شرک و جاہلیت کی تمام رسمیں بھی بزور بند کر دینی چاہییں ، بلکہ اب مشرکین اس گھر کے قریب پھٹکنے بھی نہ پائیں تا کہ اس بنائے ابراہیمی کے آلودہ شرک ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے ۔ ج ۔ عرب کی تمدنی زندگی میں رسوم جاہلیت کے جو آثار ابھی تک باقی تھے ان کا جدید اسلامی دور میں جاری رہنا کسی طرح درست نہ تھا اس لیے ان کے استیصال کی طرف توجہ دلائی گئی ۔ نسی کا قاعدہ ان رسوم میں سب سے زیادہ بدنما تھا اس لیے اس پر براہِ راست ضرب لگائی گئی اور اسی ضرب سے مسلمانوں کو بتا دیا گیا کہ بقیہ آثار جاہلیت کے ساتھ انہیں کیا کرنا چاہیے ۔ ( ۲ ) عرب میں اسلام کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد دوسرا اہم مرحلہ جو سامنے تھا وہ یہ تھا کہ عرب کے باہر دین حق کا دائرہ اثر پھیلا جائے ۔ اس معاملہ میں روم و ایران کی سیاسی قوت سب سے بڑی سد راہ تھی اور ناگزیر تھا کہ عرب کے کام سے فارغ ہوتے ہی اس سے تصادم ہو ۔ نیز آگے چل کر دوسرے غیر مسلم سیاسی و تمدّنی نظاموں سے بھی اسی طرح سابقہ پیش آنا تھا ۔ اس لیے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ عرب کے باہر جو لوگ دین حق کے پیرو نہیں ہیں ان کو خود مختارانہ فرماں روائی کو بزور شمشیر ختم کردو تا آنکہ وہ اسلامی اقتدار کے تابع ہو کر رہنا قبول کرلیں ۔ جہاں تک دین حق پر ایمان لانے کا تعلق ہے ان کو اختیار ہے کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں ، لیکن ان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں اور انسانی سوسائیٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلّط کرتے رہیں ۔ زیادہ سے زیادہ جس آزادی کے استعمال کا انہیں اختیار دیا جا سکتا ہے وہ بس اسی حد تک ہے کہ خود اگر گمراہ رہنا چاہتے ہیں تو رہیں ، بشرطیکہ جزیہ دے کر اسلامی اقتدار کے مطیع بنے رہیں ۔ ( ۳ ) تیسرا اہم مسئلہ منافقین کا تھا جن کا ساتھ اب تک وقتی مصالح کے لحاظ سے چشم پوشی و درگذر کا معاملہ کیا جا رہا تھا ۔ اب چونکہ بیرونی خطرات کا دباؤ کم ہو گیا تھا بلکہ گویا نہیں رہا تھا اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ کی جائے اور وہی سخت برتاؤ ان چھپے ہوئے منکرین حق کے ساتھ بھی ہو جو کھلے منکرین حق کے ساتھ ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہی پالیسی تھی جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں سُویلم کے گھر میں آگ لگوا دی جہاں منافقین کا ایک گروہ اس غرض سے جمع ہوتا تھا کہ مسلمانوں کو شرکت جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کرے ، اور اسی پالیسی کے تحت تبوک سے واپس تشریف لاتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد ضرار کو ڈھانے اور جلا دینے کا حکم دے دیا ۔ ( ٤ ) مومنین صادقین میں اب تک جو تھوڑا بہت ضعف عزم باقی تھا اس کا علاج بھی ضروری تھا ، کیونکہ اسلام عالمگیر جدوجہد کے مرحلے میں داخل ہونے والا تھا اور اس مرحلہ میں ، جبکہ اکیلے مسلم عرب کو پوری غیر مسلم دنیا سے ٹکرانا تھا ، ضعف ایمان سے بڑھ کر کوئی اندرونی خطرہ اسلامی جماعت کے لیے نہ ہو سکتا تھا ۔ اس لیے جن لوگوں نے تبوک کے موقع پر سستی اور کمزوری دکھائی تھی ان کو نہایت شدت کے ساتھ ملامت کی گئی ، پیچھے رہ جانے والوں کے اس فعل کو کہ وہ بلاعذرِ معقول پیچھے رہ گئے بجائے خود ایک منافقانہ طرزِ عمل ، اور ایمان میں ان کے ناراست ہونے کا ایک بین ثبوت قرار دیا گیا ، اور آئندہ کے لیے پوری صفائی کے ساتھ یہ بات واضح کر دی گئی کہ اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد اور کفر و اسلام کی کشمکش ہی وہ اصلی کسوٹی ہے جس پر مومن کا دعوائے ایمان پرکھا جائے گا ۔ جو اس آویزش میں اسلام کے لیے جان و مال اور وقت و محنت صرف کرنے سے جی چرائے گا اس کا ایمان معتبر ہی نہ گا اور اس پہلے کی کسر کسی دوسرے مذہبی عمل سے پوری نہ ہو سکے گی ۔ ان امور کر نظر میں رکھ کر سورہ توبہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے تمام مضامین بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :1 جیسا کہ ہم سورہ کے دیباچہ میں بیان کر چکے ہیں ، یہ خطبہ رکوع ۵ کے آخر تک سن ۹ ھجری میں اس وقت نازل ہوا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حج کے لیے روانہ کر چکے تھے ۔ ان کے پیچھے جب یہ نازل ہوا تو صحابہ کرام نے حضور سے عرض کیا کہ اسے ابوبکر کو بھیج دیا جائے تا کہ وہ حج میں اس کو سنا دیں ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اہم معاملہ کا اعلان میری طرف سے میرے ہی گھر کے کسی آدمی کو کرنا چاہیے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس خدمت پر مامور کیا ، اور ساتھ ہی ہدایت فرمادی کہ حاجیوں کے مجمع عام میں اسے سنانے کے بعد حسب ذیل چار باتوں کا اعلان بھی کر دیں: ( ۱ ) جنت میں کوئی ایسا شخص داخل نہ ہوگا جو دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دے ۔ ( ۲ ) اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے ۔ ( ۳ ) بیت اللہ کے گرد برہنہ طواف کرنا ممنوع ہے ۔ ( ٤ ) جن لوگوں کے ساتھ رسول اللہ کا معاہدہ باقی ہے ، یعنی جو نقض عہد کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں ، ان کے ساتھ مدتِ معاہدہ تک وفا کی جائے گی ۔ اس مقام پر یہ جان لینا ضروری بھی فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ فتح مکہ کے بعد دور اسلامی کا پہلا حج سن ۸ ھجری میں قدیم طریقے پر ہوا ۔ پھر سن ۹ ھجری میں یہ دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقے پر کیا اور مشرکین نے اپنے طریقے پر ۔ اس کے بعد تیسرا حج سن ۱۰ ھجری میں خالص اسلامی طریقہ پر ہوا اور یہی وہ مشہور حج ہے جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے دو سال حج کے لیے تشریف نہ لے گئے ۔ تیسرے سال جب بالکل شرک کا استیصال ہو گیا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج ادا فرمایا ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :2 سورہ انفال آیت ۵۸ میں گزر چکا ہے کہ جب تمہیں کسی قوم سے خیانت ( نقضِ عہد اور غدّاری ) کا اندیشہ ہو تو علی الاعلان ان کا معاہدہ اس کی طرف پھینک دو اور اسے خبردار کردو کہ اب ہمارا تم سے کوئی معاہدہ باقی نہیں ہے ۔ اس اعلان کے بغیر کسی معاہد قوم کے خلاف جنگی کارروائی شروع کر دینا خود خیانت کا مرتکب ہونا ہے ۔ اسی ضابطہ اخلاقی کے مطابق معاہدات کی منسوخی کا یہ اعلان عام ان تمام قبائل کے خلا ف کیا گیا جو عہد و پیمان کے باوجود ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے تھے ، اور موقع پاتے ہی پاس عہد کو بالائے طاق رکھ کر دشمنی پر اتر آتے تھے ۔ یہ کیفیت بنی کنانہ اور بنی ضَمرہ اور شاید ایک آدھ اور قبیلہ کے سوا باقی تمام ان قبائل کی تھی جو اس وقت تک شرک پر قائم تھے ۔ اس اعلان براءت سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود گویا عملًا خلاف قانون ( Outlaw ) ہوگیا اور ان کے لیے سارے ملک میں کوئی جائے پناہ نہ رہی ، کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیر حکم آچکا تھا ۔ یہ لوگ تو اپنی جگہ اس بات کے منتظر تھے کہ روم و فارس کی طرف سے اسلامی سلطنت کو جب کوئی خطرہ لاحق ہو ، یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاجائیں تو یکایک نقض عہد کر کے ملک میں خانہ جنگی برپا کر دیں ۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول نے ان کی ساعت منتظرہ آنے سے پہلے ہی بساط ان پر اُلٹ دی اور اعلان براءت کر کے ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہنے دیا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہو جائیں اور اسلامی طاقت سے ٹکرا کر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں ، یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں ، یا پھر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو اور اپنے علاقہ کو اس نظم و ضبط کی گرفت میں دے دیں جو ملک کے بیشتر حصہ کو پہلے ہی منضبط کر چکا تھا ۔ اس عظیم الشان تدبیر کی پوری حکمت اسی وقت سمجھ میں آسکتی ہے جبکہ ہم اس فتنہ ارتداد کو نظر میں رکھیں جو اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ملک کے مختلف گوشوں میں برپا ہوا اور جس نے اسلام کے نو تعمیر قصر کو یکلخت متزلزل کر دیا ۔ اگر کہیں سن ۹ ھجری کے اس اعلان براءت سے شرک کی منظم طاقت ختم نہ کر دی گئی ہوتی اور پورے ملک پر اسلام کی قوت ضابطہ کا استیلاء پہلے ہی مکمل نہ ہو چکا ہوتا ، تو ارتداد کی شکل میں جو فتنہ حضرت ابو بکر کی خلافت کے آغاز میں اُٹھا تھا اس سے کم از کم دس گنی زیادہ طاقت کے ساتھ بغاوت اور خانہ جنگی کا فتنہ اٹھتا اور شاید تاریخ اسلام کی شکل اپنی موجودہ صورت سے بالکل ہی مختلف ہوتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ توبہ تعارف یہ بھی مدنی سورت ہے، اور حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہے۔ اپنے مضامین کے اعتبار سے یہ پچھلی سورت یعنی سورۃ انفال کا تکملہ ہے۔ غالبا اسی لیے عام سورتوں کے برخلاف اس سورت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ نازل ہوئی، نہ لکھی گئی۔ اور اس کی تلاوت کا بھی قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص پیچھے سورۃ انفال سے تلاوت کرتا چلا آرہا ہو، اسے یہاں بسم اللہ نہیں پڑھنی چاہیے، البتہ اگر کوئی شخص اسی سورت سے تلاوت شروع کر رہا ہو تو اس کو بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔ اور بعض لوگوں نے اس سورت کے شروع میں بسم اللہ کے بجائے کچھ اور جملے پڑھنے کے لیے بنا رکھے ہیں، وہ بے بنیاد ہیں۔ اوپر جو طریقہ لکھا گیا ہے، وہی سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے۔ یہ سورت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی۔ عرب کے بہت سے قبائل اس انتظار میں تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفار قریش کی جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے ،۔ جب قریش نے حدیبیہ والا معاہدہ توڑ دیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا، اور کسی خاص خونریزی کے بغیر اسے فتح کرلیا۔ اس موقع پر کفار کی کمر ٹوٹ چکی تھی، ا لبتہ آخری تدبیر کے طور پر قبیلہ ہوازن نے ایک بڑا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے جمع کیا جس سے حنین کی وادی میں آخری بڑی جنگ ہوئی، اور شروع میں معمولی ہزیمت کے بعد مسلمانوں کو اس میں بھی فتح ہوئی۔ اس جنگ کے بعض واقعات بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اب عرب کے جو قبائل قریش کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے ڈرتے تھے، یا ان کی جنگوں کے آخری انجام کے منتظر تھے، ان کے دل سے اسلام کے خلا ہر رکاوٹ دور ہوگئی اور وہ جوق در جوق مدینہ منورہ آکر مسلمان ہوئے، اور اسی طرح جزیرہ عرب کے بیشتر علاقے پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزیرہ عرب کو اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی مرکز قرار دے دیا گیا۔ اصل منشا تو یہت ھا کہ پورے جزیرہ عرب میں کوئی بھی غیر مسلم مستقل باشندے کی حیثیت میں باقی نہ رہے، جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں۔ (موطا امام مالک، کتاب الجامع و مسند احمد ج : ٦ ص : ٥٧٢) لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار فرمایا گیا۔ سب سے پہلا ہدف یہ مقرر فرمایا گیا کہ جزیرہ عرب کو بت پرستوں سے خالی کرایا جائے۔ چنانچہ جو بچے کھچے بت پرست عرب میں رہ گئے تھے، اور جنہوں نے بیس سال سے زیادہ مدت تک مسلمانوں کو وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا تھا، ان کو اس سورت کے شروع میں مختلف مدتوں کی مہلت دی گئی جس میں اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو انہیں جزیرہ عرب چھوڑنے، ورنہ جنگ کا سامنا کرنے کے احکام دییے گئے ہیں، اور مسجد حرام کو بت پرستی کی ہر نشانی سے پاک کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس ہدف کے پورا ہونے کے بعد جزیرہ عرب کی مکمل صفائی کا دوسرا مرحلہ یہود و نصاری کو وہاں سے نکالنے کا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ میں یہ مرحلہ مکمل نہیں ہوسکا تھا، لیکن آپ نے اس کی وصیت فرما دی تھی، جیسا کہ آیت نمبر ٢٩ کے تحت اس کی وضاحت آنے والی ہے۔ اس سے پہلے روم کے بادشاہ نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر ان پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی فوج جمع کی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش قدمی کر کے اس کے مقابلے کے لیے تبوک تک تشریف لے گئے۔ اس سورت کا بہت بڑا حصہ اس مہم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ منافقین کی معاندانہ کارروائیاں مسلسل جاری تھی، اس سورت میں ان کی بدعنوانیوں کو بھی طشت ازبام کیا گیا ہے۔ اس سورت کو سورۃ توبہ بھی کہا جاتا ہے، اور سورۃ برائت بھی۔ برائت اس لیے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے برائت اور دستبرداری کا اعلان کیا گیا ہے، اور توبہ اس لیے کہ اس میں بعض ان صحابہ کرام کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے جنہوں نے تبوک کی مہم میں حصہ نہیں لیا تھا، اور بعد میں اپنی اس غلطی پر توبہ کی تھی۔ ان آیتوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے وہ پس منظر جاننا ضروری ہے جو اس سورت کے تعارف میں اوپر بیان کیا گیا ہے، جزیرۂ عرب کو اسلام کا مرکز بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ کچھ عرصے کی مہلت کے بعد کوئی بت پرست مستقل طور پر جزیرۂ عرب میں نہیں رہ سکتا، چنانچہ ان آیات میں ان بچے کھچے مشرکین سے دستبرداری کا اعلان کیا گیا ہے جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، اگرچہ یہ مشرکین وہ تھے جنہوں نے مسلمانوں کو ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اور ان پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے، لیکن جزیرۂ عرب سے نکلنے کے لئے مختلف مہلتیں دی گئی ہیں جن کی تفصیل ان آیتوں میں آئی ہے، ان مشرکین کی چار قسمیں تھیں : (الف) پہلی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کیا ہوا تھا، ایسے مشرکین کو چار مہینے کی مہلت دی گئی کہ ان چار مہینوں میں وہ اگر اسلام لانا چاہتے ہیں تو اسلام لے آئیں، اور اگر جزیرۂ عرب سے باہر کہیں جانا چاہیں تو اس کا انتظام کرلیں، اگر یہ دونوں کام نہ کرسکیں توان کے خلاف ابھی سے اعلان کردیا گیا ہے کہ ان کو جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ (ترمذی، کتاب الحج، حدیث نمبر : ٨٧١)۔ (ب) دوسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ توتھا لیکن اس کی کوئی مدت متعین نہیں تھی، ان کے بارے میں بھی اعلان کردیا گیا کہ اب وہ معاہدہ چار مہینے تک جاری رہے گا، اس دوران ان کو بھی وہی کام کرنے ہوں گے جن کا ذکر پہلی قسم کے بارے میں کیا گیا، سورۂ توبہ کی پہلی اور دوسری آیت ان دو قسموں سے متعلق ہے۔ (ج) تیسری قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدہ تو کیا تھا ؛ لیکن انہوں نے بد عہدی کی، اور وہ معاہدہ توڑدیا، جیسے کفار قریش کے ساتھ حدیبیہ میں معاہدہ ہوا تھا ؛ لیکن انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی، اور اسی کی بنا پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا تھا، ان لوگوں کو کوئی مزید مہلت تو نہیں دی گئی ؛ لیکن چونکہ دست برداری کا یہ اعلان حج کے موقع پر کیا گیا تھا جو خود حرمت والے مہینے میں ہوتا ہے، اور اس کے بعد محرم کا مہینہ بھی حرمت والا ہے، اور اس میں جنگ کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے ان کو محرم کے آخر تک مہلت مل گئی، انہی کے بارے میں آیت نمبر : ٥ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کے بعد اگر یہ، نہ ایمان لائیں اور نہ جزیرۂ عرب سے باہر جائیں توان کو قتل کردیا جائے گا۔ (د) چوتھی قسم ان مشرکین کی تھی جن کے ساتھ کسی خاص مدت تک کے لئے مسلمانوں نے جنگ بندی کا معاہدہ کر رکھا تھا، اور انہوں نے کوئی بد عہدی بھی نہیں کی تھی اسیے لوگوں کے بارے میں آیت نمبر : ٤ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کے معاہدے کی جتنی بھی مدت باقی ہے اس کو پورا کیا جائے، اور اس پوری مدت میں ان کے ساتھ کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے، مثلاً قبیلہ کنانہ کے دوچھوٹے قبیلے بنو ضمر اور بنو مدلج کے ساتھ آپ کا ایسا ہی معاہدہ تھا، اور ان کی طرف سے کوئی بد عہدی سامنے نہیں آئی تھی، ان کے معاہدہ کی مدت ختم ہونے میں اس وقت نو مہینے باقی تھے ؛ چنانچہ ان کو نو مہینے کی مہلت دی گئی۔ ان چاروں قسم کے اعلانات کو براءت یا دستبرداری کے اعلانات کہا جاتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

حضرت عبداللہ بن عباس (رح) کے قول کے موافق یہ سورت مدنی ہے براء بن عازب (رض) کی روایت سے بخاری کہتے ہیں یہ سب سے پھلی سورت ہے جو پوری اتری ہے سورة برات کے نام کے علاوہ اس کو سورة توبہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں مومنوں کی توبہ کا ذکر ہے اس سورت کے اور بھی نام ہیں جو بڑی تفسیر میں ہیں اس سورت کی ابتدا میں جو بسم اللہ نہیں ہے اس میں علماء کا اختلاف ہے مالک بن انس (رض) کہتے ہیں (رح) کہ یہ سورة توبہ سورة بقر کے برابر تھی جب اول سورت ساقط ہوگئی تو اس کے ساتھ بسم اللہ بھی ساقط ہوگئی اور بعضے یہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) غنی کی خلافت کے وقت میں جب قرآن شریف لکھے گئے تو صحابہ میں اختلاف ہوا بعضے سورة انفال اور سورة توبہ کو ایک سورت شمار کرنے لگے اور کوئی کہتا تھا کہ دو سورتیں علیحدہ علیحدہ ہیں اس لئے دونوں فریق کی رضامندی کے لئے سورة توبہ کی ابتدا میں بسم اللہ کی جگہ چھوڑ دی گئی اور جو لوگ ان دونوں سورتوں کو ایک سورت شمار کرتے ہیں ان کا بیان یہ ہے کہ سورة انفال اور سورة توبہ دونوں میں جہاد کا ذکر ہے اور دونوں مشرکین کی لڑائی کے باب میں نازل ہوئی ہیں اس واسطے گویا یہ ایک ہیں۔ کل آیتیں دونوں سورتوں کی ملاکر دو سو پانچ ہیں اور یہ دونوں سورتیں قرآن مجید کی لمبی سورتوں میں ساتویں سورت ہے مستدرک حاکم میں حضرت عثمان (رض) کی روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ دونوں ایک سورت ہیں یا دو اور آپ کی وفات ہوگئی اس لئے میں نے ان دونوں کے درمیان میں بسم اللہ نہیں لکھی ترمذی نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور اس کو حسن کہا ہے بخاری میں براء بن عازب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عثمان (رض) نے اس سورة میں بسم اللہ نہیں لکھی اور آنحضرت نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ سورة علیحدہ ہے یا انفال کا ٹکڑا ہے اس سورة کی ابتدا جب ہوئی جب غزوہ تبوک سے واپس آئے اور حج کا زمانہ تھا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر ملی کہ مشرکین اپنی عادت کے موافق ننگے بدن ہو کر طواف کریں گے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات پسند نہ آئی اور آپ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو امیر حج مقرر کر کے روانہ فرمایا کہ مشرکوں کو جاکر روکیں اور حج کے مناسک شرعی پر انہیں قائم کریں اور مشرکوں کو یہ بات بھی جتلادیں کہ آئندہ پھر وہ لوگ حج کرنے نہ پائیں گے اور لوگوں میں اس طرح سے پکار دیں براءۃ من اللہ ورسولہ الخ حضرت ابوبکر (رض) کے چلے جانے کے بعد آپ نے حضرت علی (رض) کو بھیجا کہ یہ حکم جاکر ان لوگوں کو پہنچا دو اور اسی بنا پر بعضے سلف کا قول ہے کہ جب عرب اور دوسرے کسی قوم کے درمیان میں عہد و پیمان ہوتا تھا اور پھر وہ اسے توڑنے کے لئے خط لکھتے تھے تو بسم اللہ نہیں لکھتے تھے یہ ان کی عادت تھی اس وسطے جب یہ سورت ان کے درمیان کے مقررہ عہد کے توڑنے کے لئے اتری اور حضرت نے علی (رض) کو مشرکین کے پاس اس سورت کو پڑھ کر سنانے کو کہا تو موافق اس عادت کے بسم اللہ نہیں لکھی کیونکہ بسم اللہ امان ہے اور سورت برات میں حکم قتال کا ہے :۔ ١۔ ٢۔ تفسیر ابن حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق تفسیر آیت کی یہ ہے کہ اللہ پاک نے ان لوگوں کے ساتھ چار مہینے کی مدت مقرر کردی تھی جن لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عہد کیا تھا مثلا جیسے قبیلہ خزاعہ ومدلج اور جن لوگوں سے کچھ عہد نہیں تھا ان کے واسطے پچاس رات کی حد بندی اور اللہ کے رسول کو یہ حکم دیا کہ جن کفار سے تمہارا قول وقرار نہیں ہے ان سے دسویں ذی الحجہ سے لے کر آخر محرم تک نہ لڑو جب محرم کا مہینہ ختم ہوجاوے تو ان سے لڑو پھر اگر وہ مسلمان ہوجاویں تو بہتر ہے ورنہ ان کو قتل کرو اور جن کفار سے عہد و پیمان ہوچکا تھا ان کے واسطے یہ حکم دیا کہ چار مہینے دسویں ذی الحجہ سے ربیع الآخر کی دسویں تاریخ تک نہ لڑو اور جب یہ مدت ختم ہوجاوے تو پھر ان سے جہاد کرو یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجائیں سورة بقر میں گذر چکا ہے کہ جمہور کے قول کے موافق حج ٦؁ ہجری میں فرض ہوا ہے لیکن فتح مکہ سے پہلے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سبب سے حج نہیں کیا کہ کعبہ اور صفامروہ میں بت رکھے ہوئے تھے ٨ ھ؁ میں مکہ کی فتح ہوئی اور حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٩؁ ہجری میں حضرت ابوبکر (رض) کو بھیجا اور ان کے پیچھے حضرت علی (رض) کو دس آیتیں سورة براءت کی دے کر روانہ فرمایا کہ مشرکوں کو جاکر یہ آیتیں سنادو اور یہ بھی جتا دو کہ ١٠؁ ہجری سے کوئی مشرک یا ننگا شخص طواف نہ کرنے پاویگا پھر اس سال آپ نے حج کیا جس کو حجتہ الوداع کہتے ہیں اسی حکم میں یہ بھی تھا کہ دسویں ذی الحجہ سے دسویں ربیع الآخر تک تمہیں مہلت دی گئی ہے پھر کوئی عذر تمہارا نہیں سنا جایگا اگر ایمان لائے تو خیر ورنہ آمادہ جنگ ہوجاؤ یہ حکم حضرت علی (رض) نے سب کو سنا دیا اور اعلان جنگ دے دیا یہی قول اکثر مفسرین کا ہے اور اس تقرر مدت سے غرض ہی تھی کہ یہ لوگ خوب اچھی طرح سے جان لیں کہ اس مدت کے بعد یا لڑنا ہے یا مسلمان ہونا ہے پھر اس بات کو سوچ سمجھ کر شاید وہ مسلمان ہوجائیں معتبر سند سے صحیح ابن حبان میں ابو سعید خدری (رض) کی حدیث ہے جس میں یہ ہے کہ جب حضرت ابوبکرصدیق (رض) سفر حج سے مدینہ کو واپس آئے تو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ کیا حضرت مجھ سے اس کام میں کچھ کوتاہی ہونے کا اندیشہ تھا جو اپنے اس کام کے لئے حضرت (رض) علی کو میرے پیچھے روانہ فرمایا۔ اس کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے روانہ کرنے کے بعد جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پہنچایا کہ اس صلح کے عہد کو توڑنے کے پیغام کو یا تو میں خود مکہ جاکر مشرکین کو پہنچادوں اور اگر میں خود نہ جاؤں تو کوئی میرا خاص رشتہ دار اس کام کر کرے اس لئے میں نے تمہارے پیچھے حضرت (رض) علی کو روانہ کیا اس میں اور کوئی بات اندیشہ کی نہیں ہے اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو اور پھر ان کے پیچھے حضرت (رض) علی کو اس سفر میں کیوں اور کس واسطے بھیجا۔ صلح حدیبیہ کے وقت مشرکین مکہ سے جس طرح صلح ہوئی تھی اس طرح اطراف مکہ میں جو قبیلے رہتے تھے ان سے بھی صلح ہوئی تھی اب فتح کے سبب سے مشرکین مکہ کی صلح حدیبیہ تو خود ٹوٹ گئی اور باقی قبیلوں کی صلح سورت برائۃ کی دس آیتیں سنا کر توڑ دی گئی دس آیتوں کی قید مسند امام احمد کی حضرت علی (رض) کی روایت میں ہے اس حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن جابر سیحمی کو اگرچہ بعضے علماء نے ضعیف کہا ہے لیکن باقی علماء نے محمد بن جابر کو ثقہ قرار دیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:1) براء ۃ۔ بیزاری۔ بیزار ہونا۔ خلاصہ۔ چھٹکارا پانا۔ بری ہونا۔ قطع تعلقی۔ مصدر ہے۔ البرئ۔ البرائ۔ التبری کے اصل معنی کسی مکروہ امر سے نجات حاصل کرنے کے ہیں۔ اس لئے کہا جاتا ہے برات من المرض۔ میں نے مرض سے نجات پائی اور برات من فلان میں فلاں سے بیزار ہوں۔ اور قرآن میں ہے : ان اللہ بریٔ من المشرکین ورسولہ (9:3) اللہ تعالیٰ مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی۔ اور انتم بریئون من اعمل وانا بریٔ مما تعملون (10:41) تم میرے عملوں سے بری الزمہ ہو اور میں تمہارے عملوں سے بری الذمہ ہوں۔ براء ۃ خبر ہے جس کا مبتدا ھذہ محذوف ہے۔ یعنی ھذہ براء ۃ۔ یہ (اعلان) برات (قطع تعلقی) ہے۔ من اللہ ورسولہ اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے الی الذین عاھدتم من المشرکین۔ مشرکوں میں سے ان لوگوں کی طرف جن سے تم نے (مسلمانوں نے) معاہدہ کر رکھا ہے (جیسا کہ کہتے ہیں ھذا کتب من فلان الی فلان یہ تحریر فلاں کی جانب سے فلاں کی طرف) ۔ اس کا پس منظر مختصراً یہ ہے کہ سنہ 9 ھ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو امیر الحج مقرر فرما کر مکہ روانہ کیا۔ ان کے جانے کے بعد آیات سورة برأۃ 1 تا 37 نازل ہوئیں۔ جن میں ساف صاف حکم دیا گیا تھا کہ اب کفر کے ساتھ سابقہ معاہدے منسوخ ہیں۔ رسالت مآب علیہ التحیۃ والسلام نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو پیچھے بھیجا کہ حج کے دن ان احکام خداوندی کا اعلان عام کردیں۔ چناچہ دسویں ذوالحجہ کو جمرۃ العقبہ کے پاس کھڑے ہوکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں۔ اس سورة کے ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں ہے۔ علماء نے اس کی متعدد وجوہات لکھی ہیں لیکن صحیح بات وہی ہے جو حضرت امام رازی (رح) نے فرمائی ہے :۔ کہ رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اس سورة کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی اس لئے صحابہ کرام (رض) نے بھی نہیں لکھی۔ اور بعد کے لوگ بھی اس کی پیروی کرتے چلے آئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی چونکہ رسوۃ توبہ اور سورت انفعال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے کو ایک سورت کا حکم میں رکھا گیا ہے اور ام دو نو کے درمیان بسم اللہ نہیں لکھتی گئی اوری سبع طوال میں ساتویں سورة ہے۔ اس کے متعد نام ہیں جن میں سے مشہور دو میں ایک التو نبہ اور دوسرابراۃ تو نہ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایما کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے اور برا ۃ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے برات کا اعلان کیا گیا ہے نیز اس کو سورة العذاب، سورة العذاب، سورة الفا ضحہ اور الحافرۃ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سورة کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الر حیم، نہیں لکھی جاتی، اس کے مفسرین (رح) نے متعدد دو جوہ بیان کئے ہیں مگر سب سے معقول اور سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے شروح میں بسم اللہ نہیں لکھوائی اس لئے صحابہ (رض) کرام نے نہیں لکھی، صحیح روایا میں ہے کہ جب یہ سورة نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو بھیجا جنہوں نے ن کہ معظمہ پہنچ کر حج کر موقعہ پر مشرکین کو کہ سورة سنائی اور اس کے ساتھ چاچیزوں کا اعلان کیا۔ (1) جنت میں کوئی غیر مومن داخل نہ ہوگا۔ (2) کوئی شخص ننگا ہو کر خانہ کعبہ کا طواف نہ کرے۔ (3) اس سال کے بعد کوئی مشرکین حج کے لیے نہ آئے اور (4) جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ موقت ہے اور انہوں نے اس کی خلاف ورزی نہیں کی ان کے ساتھ مدت معاہدہ تک وفا کی جائیگی اور جن سے معاہدہ نہیں ہوا یا جنہوں نے خلاف ورزی کی ہے انہیں چار ماہ کی مہلت ہے۔ ( ابن کثیر، کبیر)4 یعنی اب معاہدہ ختم ہو اور دوستی کے تعلقات کٹ گئے۔ ) ( وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة التوبۃ اسے سورة برات بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں کفار سے برائت کے احکام نازل ہوئے اور قبول تو بہ کی بشارت کے باعث توبہ کہلاتی ہے ۔ اس میں عجیب بات یہ ہے کہ اس کے شروعی میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھا جاتا ۔ دراصل کسی بھی سورة کی مختلف آیات جب نازل ہوتیں تو بذریعہ وحی ان کا مقام بھی بتادیا جاتا چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاتنان وحی کو انھیں وہاں درج کرنے ارشاد فرماتے اور جب کوئی نئی سورة نازل ہوتی تو اس سے پہلے بسم اللہ لکھنے کا ارشاد ہوتا ۔ یہ مدنی اور آخری سورتوں میں سے ہے مگر جب نازل ہوئی تو بسم اللہ لکھنے کا حکم نازل نہ ہوا نہ ہی کاتبان وحی کو کچھ فرمایا گیا اور یہ اسی طرح بغیر بسم اللہ کے لکھ دی گئی۔ جب حضرت عثمان (رض) کے عہد میں تدوین قرآن کا کام ہوا تو سوال پیدا ہوا کہ اسے کہاں رکھا جائے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہ الگ سورت نہ ہو پہلے نازل ہونے والی سورت کا حصہ ہو تو آپ (رض) نے فرمایا کہ اسے انفال کے ساتھ ہی رکھو ، احتیاط کا تقاضایہی ہے کہ نہ اس میں بسم اللہ لکھنے کا ارشاد ہوا نہ یہ اشارہ ملتا ہے کہ واقعی یہ انفال کا حصہ ہے اگر چہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انفال کے متصل بعد اسے درج کروادیا ہے ۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر کوئی مسلسل تلاوت کررہا ہو یا سورة انفال پڑھتا آرہا ہو تو بسم اللہ نہ پڑھے اور پڑھتا چلاجائے لیکن اگر کوئی اسی سورة سے شروع کرے یا اس کے درمیان سے شروع کرے تو وہ بسم اللہ سے ہی شروع کرے گا اور دوسرے جملے جو بعض نسخوں میں درج ہیں جیسے ، اعوذ باللہ من النارومن غضب الجبار وغیرہ تو ان کا کوئی ثبوت نہیں حضرت علی (رض) کی روایت ہے کہ چونکہ کفار سے معاہدے ختم کرنے کا حکم تھا اس لئے بسم اللہ نہ لکھی گئی تو یہ ایک نکتہ اور لطیفہ ہے کہ تکوینی طور پر ایسے اسباب پیدا کردیئے گئے بظاہر یہ وجہ ارشاد نہیں فرمائی گئی ۔ آیا ت ١ تا ٦ اسرار و معارف سورۃ توبہ کے نزول سے پہلے مشرکین مکہ اور دیگر عرب قبائل سے معاہدات صلح تھے مگر ہر مرتبہ کفار نے ہی عہد شکنی کی جب تک موقع یا طاقت نہ پاتے معاہدے کا احترام کرتے مگر جیسے ہی طاقت پاتے تو عہد شکنی کے مرتکب ہوتے ٦؁ھجری میں حدیلبیہ ہوئی جو دس سال کے لیے تھی جس کے شرائط وواقعات معروف ہیں ٧ ھجری؁ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سمیت عمرہ ادا فرمایا مگر اس کے چندماہ بعد اہل مکہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور بنوخزاعہ کے خلاف بنوبکر کو قتل و غارت میں مددی بنوخذاعہ مسلمانوں کے حلیف تھے۔ اور یہ کھلم کھلا معاہدے کی خلاف ورزی تھی چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاد کی تیاری کا حکم دی اگر چہ اہل مکہ نے ابوسفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا کیونکہ کفار بدرواحد اور خندق میں مسلمانوں کے ساتھ تایئدغیبی کا مشاہدہ کرچکے تھے مگر ابوسفیان کی ساری کوشش کے باوجود تجدید معاہدہ نہ ہوسکی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ١٠ رمضان المبارک ٨ ھجری؁ کو مدینہ منورہ سے کوچ فرمایا اور مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔ قبل ازیں یہود مدینہ نے غزوئہ احزاب میں معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی ۔ اسی سال یعنی ٨ ھجری؁ میں غزوئہ حنین ہوا پھر رجب ٩ ھجری؁ میں غزوئہ بتوک پیش آیا اور بالآ خرذی الحجہ ٩؁ ھجری میں تمام قبائل عرب سے معاہدے ختم کردینے کا حکم نازل ہوا کہ دراصل جزیرہ تمائے عرب کو اسلامی ریاست اور اسلام کا قلعہ بنانا مقصود تھا اگر چہ کفار کی مسلسل بدعہدی بھی ایک وجہ تھی مگر اسلام کا مزاج حاکمانہ ہے اس لیے کہ یہ اللہ کا حکم ہے ، لہٰذ امحکوم ہو کر رہنا اس کے مزاج کے خلاف ہے۔ اسلامی ریاست سرزمین عرب کو اس کی اساسی ریاست قرار دیا گیا اور تمام کفار سے صلح کے معاہدے ختم کرکے انھیں اختیار دیا گیا کہ وہ اسلام قبول کرکے اسلامی ریاست کے قیام میں شریک ہوں یا پھر مکہ مکرمہ سے چلے جائیں اور کہیں اور جاکر آباد ہوں ورنہ ان کے ساتھ جنگ کی جائے گی اور اس میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی گئی بلکہ مہلت دی گئی اور سب سے پہلے حج کے عظیم اجتماع میں حضرت ابو بکرصدیق اور حضرت علی (رض) عنھما کو روانہ فرمایا گیا کہ اعلان عام ہوجائے اور تمام عرب قبائل میں بات پہنچ جائے پھر یمن میں بھی حضرت علی (رض) کو بھیجا گیا کہ اعلان کردیں ایسانہ ہو کہ کسی تک خبر نہ پہنچے لہٰذا اسلامی ریاست کے قیام اور اسلامی حکومت کے لیے بھرپور کوشش آج بھی دین کا اہم فریضہ ہے محض گوشتہ نشینی اور ملکی سیاسیات سے کنارہ کشی جائز نہیں ۔ حج اکبر حج اکبر سے مراد مفسرین کرام کے نزدیک ہر سال کا حج ہے کیونکہ عمرہ کو حج اصغر کہا گیا ہے اس لتے حج کو حج اکبر کہہ دیا گیا اور اس سے حج کے پانچوں دن مراد ہیں یہ جو مشہور ہے کہ جمعہ کے روز یوم عرفہ ہو تو حج اکبر ہوتا ہے اس کی کوئی اصل نہیں یہ ضرور ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع ادا فرمایا تو عرفہ کے روز جمعہ تھا یہ ایک سعادت ضرور ہے مگر جس روز معاہدات کے ختم کا اعلان ہوا وہ ٩ ھجری؁ کا یوم عرفہ تھا جو جمعہ کا دن تھا مگر اسے یوم حج اکبر فرمایا گیا۔ ایام حج میں عمرہ کرنا جائز نہیں ہاں ! مسئلہ احکام القرآن میں مذکور ہے کہ ان پانچ دنوں کرنا درست نہ ہوگا ۔ اب آیئے اعلان برأت کی طرف تو ارشاد ہو ا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ان مشرکوں سے معاہدات تھے دست برداری کا اعلان کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے جب معاہدات بھی منسوخ کئے جا رہے ہیں تو جن سے کوئی معاہدہ ہی نہیں وہ بدرجہ اولیٰ یہ اعلان سن لیں کہ اول تو مشرکین مکہ جنہوں نے خود عہد کو توڑا اور یہی عمل فتح مکہ کا باعث ہوا وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں مگر اسلام ان سے بھی حسن سلوک کرتے ہوئے انھیں چار ماہ کی مہلت بخشا ہے کہ یہ حرمت والے مہینے تھے ۔ اللہ کریم نے فرمایا ان کا احترام بھی باقی رکھا جائے اور کفار کو فیصلہ کرنے کی مہلت بھی دی جائے نیز اگر وہ اسلامی ریاست سے کہیں جانا چاہیں تو انھیں فرصت دی جائے اور یہ بتادیا جائے کہ تم چار ماہ اگرچہ آرام سے چل پھر سکتے ہو مگر امن کی راہ ایک ہی ہے کہ اللہ کی اطاعت کرلو ورنہ اپنی ساری ریشہ دوانیوں سمیت تباہ ہوجاؤگے اور قدرت باری تعالیٰ کو عاجزنہ کرسکو گے ۔ نیز یہ تباہی صرف دنیا ہی کی نہ ہوگی بلکہ دنیوی ہلاکت کے بعد آخرت میں بھی تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا ۔ ایفائے عہد دوسرے وہ کفار جن سے معاہدہ تھا اور انھوں نے عہد شکنی نہیں کی نہ مسلمانوں کے مقابلہ صاحب تقویٰ لوگوں کو محبوبرکھتے ہیں یعنی کافر سے بھی ایفائے عہد میں تقویٰ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور محض بہانے تلاش کرکے معاہدہ ختم نہ کیا جائے یہ مسلمان کی دیانت کے خلاف ہے جو رب کریم کو ہرگز پسند نہیں ۔ اس آیہ مبارکہ کی رو سے بنی کنانہ کے دوقبیلوں بنی ضمرہ اور بنی مدبع کو مہلت مل گئی جن کے معاہدوں کی میعاد ابھی نوماہ باقی تھی نیز بروقت مطلع کردیا گیا کہ اس کے بعد میعاد بڑھائی نہ جائے گی ۔ تیسرے اور چوتھے وہ لوگ تھے جن کے ساتھ معاہدہ کی مدت مقررنہ تھی یاسرے سے کوئی معاہدہ ہی نہ تھا تو ان کے لیے بھی پہلی دوآیات کا حکم ہی نافذہوا کہ انھیں بھی چار ماہ کی مہلت مل گئی ۔ پھر ارشاد ہو ا کہ جب اشہرحرم گزرجائیں تو کفار ومشرکین میں سے جو لوگ نہ تو کفر سے توبہ کرکے ایمان قبول کریں اور نہ ہی مکہ سے باہر جائیں تو ان سے قتال کیا جائے پوری قوت کے ساتھ بغیر کسی رعایت کے کہ قتال میں نرمی دراصل بزدلی ہوتی ہے لہٰذ انھیں جہاں پاؤ قتل کردیا قید کردو ۔ ان کے راستے روک دو اور ہر جگہ ان پر تاک لگا کر بیٹھو یعنی پوری قوت سے ان سے ٹکراؤلیکن یہ بات یاد رہے کہ مومن کو کسی انسان سے دشمنی نہیں ہے ان کے کافر انہ عقائد اور اعمال سے ہے اگر وہ تو بہ کریں ایمان قبول کرلیں جس کی دلیل یہ ہے کہ نماز ادا کریں اور زکوۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو کہ بلاشک اللہ کریم بہت بڑی رحمت والا اور بخشنے والا ہے ۔ یہ بات روزوشن کی طرح واضح ہوگئی کہ ظلم کو مٹانے کے لیے ظالموں کی شوکت کو توڑا جائے گا ، اور اس میں کوئی رعایت نہ ہوگی ہاں ظلم سے باز آجائیں تو البتہ معاملہ دوسرا ہوگا ۔ اور ظلم سے بازآنا تو بہ کرنا ہے جس میں اعمال کی اصلاح بدرجہ اولیٰ ہے کہ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اگر ایسانہ کریں تو محض دعوائے ایمان کی وجہ سے جنگ بندنہ ہوگی بلکہ فرائض کا منکر اسی سلوک کا مستحق ہوگا۔ توبہ سے مرادا اعمال کی اصلاح ہے جب کچھ لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کیا تو سید نا ابوبکر صدیق (رض) نے اسی آیہ کریمہ سے استدلال فرما کر ان پر فوج کشی کی تھی جسے تمام صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین نے قبول کیا تھا اور اگر مشرکین میں سے بھی کوئی آپ سے پناہ طلب کرلے کہ وہ اسلام کی حقانیت کے دلائل سے آگاہی حاصل کرے تو اسے نہ صرف پناہ دی جائے بلکہ جب فارغ ہو تو اسے اس کی امن کی جگہ بحفاظت پہنچادیاجائے تا کہ وہ قبول اسلام کے لتے آزادانہ رائے قائم کرسکے ۔ یہ حکم کفار کی اسلام سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہے کہ انھیں جاننے کا موقع دیاجائے گا اور یہ صرف اس صورت میں ہوگا وہ دین کو سمجھنے کے لیے آنا چاہے ۔ اگر غرض کوئی اور ہو مثلا تجارت وغیرہ تو مسلمانوں کی صوابدیدپہ ہوگا کہ اجازت دیں یا نہ دیں ۔ کفار کے لئے اسلامی ریاست میں آنے کی صورت نیز جو غیر مسلم اجازت لے کر آتے ، اس کے حالات سے بھی باخبر رہنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے اور جب میعا د پوری ہو یا کام ختم ہو تو اسے بحفاظت واپس پہنچا دیا جائے اور زائدازضرورت دارالاسلام میں ٹھہرنے کی اجازت نہ دی جائے نہ یہ کہ موجود ہ ریا ستوں کی طرح مشیرہی غیر ملکی کفار کو رکھا جائے اور مسلمانوں پر حکومت کفار کے مشورہ اور امداد سے کی جائے یہ بہت بڑاگنا ہے ۔ ان سات آیات میں کفار کی مختلف اقسام بلحاظ کردار اور تعلقات کے بیان فرما کر سب کے ساتھ سلوک کرنے کے اصول مقرر فرمادیئے اور یہ بات وضاحت سے ارشاد فرمادی کہ اسلامی ریاست کا قیام اور کفار کی ریشہ دوانیوں سے اس کی حفاظت ہی احیائے اسلام کا راستہ ہے اس میں ان لوگوں کے لیے بھی درس عبرت ہے کہ جو بےدین اور بدکار لوگوں کو مسلمانوں پہ مسلط کرنے میں اپنی رائے یا کوشش یا مال سے معاون بنتے ہیں کہ یہ بہت بڑاظلم ہے بلکہ ضروری ہے کہ ہر مسلمانوں پہ مسلط کرنے میں اپنی رائے یا کوشش یا مال سے معاون بنتے ہیں کہ یہ بہت بڑاظلم ہے بلکہ ضروری ہے کہ ہر مسلمان پوری محنت کے ساتھ ریاست اسلامی کے قیام اور بقا کی کوششوں میں حصہ دار بنے جس کا ایک ہی راستہ ہے کہ نہ صرف قیادت بلکہ کفا اور بدکاروں کا ہر طرح کا عمل دخل ختم کردیا جائے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف : ٭اس سورة کے دو نام آتے ہیں۔ (1) سورة توبہ۔ (2) سورة برأت۔ ٭ توبہ کے معنی پلٹنے اور لوٹنے کے ہیں۔ جب کوئی اللہ کا بندہ گناہوں سے نادم ہو کر سچے دل سے اللہ کی طرف یعنی نیکیوں کی طرف پلٹتا ہے اس کو توبہ کہتے ہیں۔ چونکہ اس سورة میں چند صحابہ کرام (رض) کی توبہ قبول کی گئی ہے اس لئے اس کا نام سورة توبہ رکھا گیا ہے۔ ٭ سورة براء ت… براءت کے معنی چھٹکارا پانا۔ بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا ہے۔ چونکہ کفار و مشرکین مسلسل اپنی عہد شکنیوں کے مجرم تھے اس لئے مسلمانوں نے جو معاہدے کیے جاتے ان کو ختم کرکے کفار و مشرکین کو حرمین سے نکالنے اور کفارو مشرکین کی بد عہدیوں سے نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس لئے اس کا سورة براءت بھی فرمایا گیا ہے۔ ٭ قرآن کریم کی تمام سورتوں کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے اس لئے کی جاتی ہے کہ پڑھنے والے کو حصول برکت کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوجائے کہ ایک سورة ختم ہو کر دوسری سورة شروع ہوگئی ہے۔ اس لئے اس بات کو ذہن میں رکھیے کہ بسم اللہ کسی سورة کا جزو نہیں ہے۔ سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی گئی ہے اس کی وجہ کیا ہے ؟ ٭اس سلسلے میں بہت سے حضرات نے بہت سی باتیں کہی ہیں حضرت عثمان غنی (رض) جو کہ جامع القرآن ہیں جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی کہ سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ (رض) نے اس کے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب بھی کوئی سورة یا آیات نازل ہوتیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی لکھنے والے کو بلا کر اسی وقت لکھوا دیتے۔ سورة انفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ منورہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی جب کہ سورة توبہ آخری زمانے میں نازل ہوئی۔ ان دونوں سورتوں کے مضامین جو جہاد و قتال سے متعلق ہیں اس قدر ملتے جلتے اور ایک جیسے ہیں کہ میں سمجھا کہ سورة توبہ سورة انفال کا جزو ہے۔ چونکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی کوئی خاص وضاحت سامنے نہیں آئی یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا قرآن کریم کی ہر سورة کی ابتداء بسم اللہ سے کی جاتی ہے صرف سورة کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور ان مہاجرین و انصار پر توجہ فرمائی ہے یعنی توبہ قبول کرلی جنہوں نے ایسی تنگی و پریشانی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا جب کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک فریق کے دل پھرجائیں پھر وہ ان پر متوجہ ہوا۔ بیشک اللہ ان پر مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ سے رخصت ہوگئے۔ اسلئے میں نے دونوں سورتوں کو پاس پاس رکھ دیا اور بیچ میں بسم اللہ کو نہیں لکھا۔ ٭اب سورة توبہ کی جب بھی تلاوت کی جائے گی تو عام دستور کے مطابق اس کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھی جائے گی نہ پڑھی جائے گی، البتہ اگر کسی نے اس سورة کے درمیان سے تلاوت شروع کی تو اس میں اعوذ باللہ کے ساتھ بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ٭ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ ، مکہ مکرمہ اور قبائل کے کفارو مشرکین سے آپس میں جنگ نہ کرنے کے معاہدے کیے ہوئے تھے مگر ان کی طرف سے مسلسل عہد شکنیوں اور بدعہدیوں کی وجہ سے فتح مکہ کے بعد حرمین کی سرزمین کو کفار و مشرکین کے وجود سے پاک کرنے کے احکامات دئیے تاکہ وہ تمام معاہدات جو پہلے سے کئے گئے تھے اب ختم کرکے حرمین کی سرزمین میں قیامت تک کفارو مشرکین کا داخلہ ممنوع کردیا جائے۔ فرمایا گیا ہے کہ چار مہینے یا کسی جاری معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد اگر کفارو مشرکین اس سرزمین کو نہ چھوڑیں تو پھر ان سے قتال کیا جائے گا تاکہ کفر و شرک کے فتنے سے یہ سرزمین ہمیشہ کے لئے پاک ہوجائے گی۔ اور ان تین لوگوں پر بھی توجہ فرمائی جن کا معاملہ پیچھے رکھا گیا تھا۔ یہاں تک زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر ایسا بوجھ بن گئی تھی کہ ان کی جانوں پر بن آئی تھی۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اگر کوئی ٹھکانا ہے تو صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ ان تینوں حضرات حضرت کعب ابن مالک، مرارہ ابن ربیع اور حضرت ہلال ابن امیہ کی توبہ کو قبول کرلیا۔ آیات : 1 تا 6 لغات القرآن۔ براء ۃ۔ (براء ) ۔ چھٹکارا پانا۔ جان چھڑانا۔ عھدتم۔ تم نے معاہدہ کیا تھا۔ سیحوا۔ چلو پھرو۔ اربعۃ اشھر۔ چار مہینے ۔ غیر معجز اللہ۔ اللہ کو بےبس نہیں کرسکتے۔ مخزی۔ رسوا کرنے والا۔ اذان۔ اعلان ہے۔ الحج الاکبر۔ بڑا حج ( جس حج میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرکت فرمائی) ۔ تبتم۔ تم نے توبہ کرلی۔ تولیتم۔ تم پلٹ گئے۔ لم ینقصوا۔ کمی نہ کی۔ لم یظاھروا۔ مدد نہ کی۔ اتموا۔ تم پورا کرو۔ انسلخ۔ نکل گیا۔ اقتلوا۔ جہاد کرو۔ وجدتھموھم۔ تم نے ان کو پایا۔ خذوا۔ پکڑو۔ احصروا۔ گھیرو۔ اقعدوا۔ بیٹھو۔ کل مرصد۔ ہر گھات کی جگہ۔ تابوا۔ انہوں نے توبہ کرلی۔ اقاموا۔ انہوں نے قائم کیا۔ اتوا۔ انہوں نے دیا۔ خلوا۔ چھوڑ دو ۔ سبیل۔ راستہ۔ ان احد۔ کوئی ایک۔ استجارک۔ آپ سے پناہ مانگے۔ اجرہ۔ اس کو پناہ دے سے۔ حتی یسمع۔ یہاں تک کہ وہ سن لے۔ ابلغہ۔ اس کو پہنچا دے۔ مامنہ، اس کی حفاظت کی جگہ۔ تشریح : سورۃ توبہ اور سورة براءت اس کے دو نام ہیں۔ اس سورت مین تین مخلص مسلمانوں کی توبہ قبول کرنے کا ذکر ہے اس لئے اس کو سورة توبہ کہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کفارو مشرکین سے ہاتھ اٹھا لینے اور بری الذمہ ہونے کے اعلان کی وجہ سے اس کو سورة براءت کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی ہر سورت کے شروع میں ” بسم اللہ الرحم الرحیم “ لکھی ہوئی ہوتی ہے جو صرف اس بات کو علامت ہے کہ ایک سورت ختم ہونے کے بعد دوسری سورت شروع ہو رہی ہے۔ بسم اللہ قرآن کریم کی ایک آیت تو ہے جو سورة نمل میں آئی ہے لیکن ہر سورت کا جزو نہیں ہے۔ عام طریقے کے مطابق اس کے شروع میں ” بسم اللہ “ کیوں نہیں لکھی گئی یہ ایک سوال ہے ؟ جس کا صحابہ کرام (رض) اور علماء کرام نے جواب تحریر فرمایا ہے۔ (1) حضرت عثمان غنی (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے یہ یاد نہیں ہے کہ سورة انفال اور سورة براءت دو سورتیں ہیں ایک سورت ہے ۔ مضمون کے لحاظ سے ایک سورت لگتی ہیں ممکن ہے دو سورتیں ہوں اس سلسلہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی واضح ہدایت مجھے یاد نہیں ہے۔ (2) بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں جنگی اصول اور عام رواج کے مطابق جب کوئی ایسا ” نقض معاہدہ “ (معاہدہ توڑنا) کی مراسلت ہوتی تھی تو اس میں اللہ کا نام نہیں لکھتے تھے چونکہ اس سورت مین کفار و مشرکین سے براءت، بےزاری اور دست برداری کا اعلان کیا گیا ہے ممکن ہے اس وجہ سے بسم اللہ نہ لکھی گوئی ہو۔ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے۔ بہرحال امن کے نزدیک یہ دو سورتیں کی جاتی ہیں اسی لئے سورة انفال کے بعد جب سورة توبہ شروع ہوتی ہے تو کچھ جگہ خالی ہوتی ہے جس میں بسم اللہ نہیں ہوتی۔ مسئلہ کی رو سے اب جب بھی سورة براءت شروع کی جائے گی تو اس کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھی جائے گی اور نہ پڑھی جائے گی لیکن اگر کسی شخص نے سورة ٔ براءت کو کچھ حصہ پڑھ لیا اور رک گیا تو دوبارہ تلاوت کرتے وقت اعوذ باللہ کے ساتھ بسم اللہ پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ سورة ٔ برأت کے پہلے رکوع (آیت نمبر 1 تا نمبر 6) میں کفارو مشرکین سے دست برداری کے اعلان اور اس عمل کرنے کا جو بھی حکم دیا گیا ہے اس کی تفصیل یہ ہے۔ (1) 6 ہجری میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا اور چودہ سو صحابہ کرام (رض) بیت اللہ کی زیارت کے لئے آپ کے ہمراہ ہوگئے۔ بیت اللہ جو اللہ کا گھر ہے اس میں موافق، مخالف، دوست اور دشمن کسی کو زیارت بیت اللہ سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں تھا۔ جب کفار مکہ کو یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ڈیڑھ ہزار صحابہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ کرنے کے لئے حدیبیہ کے مقام تک پہنچ چکے ہیں تو وہ گھبرا اٹھے وجہ یہ تھی کہ اگر نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ ادا کرکے واپس جاتے ہیں تو قریش کی ہوا اکھڑ جائے گی اور اگر منع کرتے ہیں تو ساری دنیا میں یہ رسوائی ہوگی کہ اللہ کی عبادت سے اللہ کے بندوں کو روک دیا گیا پہلے تو کفار مکہ نے کچھ ایسی سازشیں کیں جن سے دنیا پر ظاہر کردیا جائے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ صحابہ (رض) عبادت کے لئے نہیں بلکہ جنگ کرنے کے لئے آئے ہیں مگر ان کی ہر سازش اور چال کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر ہی الٹ دیا۔ بالآخر وہ اس بات پر راضی ہوگئے کہ ہم مسلمانوں کو عبادت سے تو نہیں روکتے لیکن اس سال ایک معاہدہ کرلیتے ہیں تاکہ آئندہ سال مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت اور سہولت دیدی جائے۔ چناچہ ایک معاہدہ دس سال کے لئے طے پا گیا جس کو تاریخ میں ” صلح حدیبیہ “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کفار مکہ نے اندرونی اور بیرونی دبائو کی وجہ سے معاہدہ تو کرلیا۔ لیکن اس کا مقصد صرف وقت کو ٹالنا تھا۔ چناچہ کفار مکہ اور ان کے حلیفوں نے ایسی سازشیں ، حملے اور خفیہ کاروائیاں شروع کردیں جن سے اس معاہدہ کی دھجیاں بکھر کر رکھ دی گئیں۔ چونکہ اس معاہدہ کی خلاف ورزی کفار مکہ کی طرف سے کی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس ہزار صحابہ (رض) کے ساتھ بغیر کسی خون خرابے کے 8 ہجری میں مکہ کو فتح کرلیا۔ مکہ فتح ہونے کا مطلب یہ تھا کہ پورے جزیرۃ العرب پر آپ کا اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کا قبضہ ہوچکا ہے۔ لیکن کفارو مشرکین چوت کھائے ہوئے سانپ کی طرح اپنی انتقامی کاروائیوں میں مشغول رہتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد پورے جزیرۃ العرب پر آپ کا مکمل کنٹرول ہوچکا تھا۔ لیکن اندرونی اور بیرونی خطرے بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفار و مشرکین سے دست برداری کا اعلان کردیا۔ ان آیات میں فرمایا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلان عام کیا جاتا ہے کہ مشرکین سے جو معاہدہ کیا گیا تھا اب اس سے دست برداری کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اب کی حفاظت حکومت اسلامیہ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ چار مہینے کی مدت دی جاتی ہے جس میں یہ اپنے مستقبل کے لئے کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں (1) چار مہینے کے اندر اندر جو شخص کسی بھی جگہ جا کر اپنا ٹھکانا بنا سکتا ہو وہ بنا لے (2) یا وہ کفر و شرک سے توبہ کر کے اسلام قبول کرنا چاہے تو کرلے (3) لیکن اگر چار مہینے کی یہ مدت گزر گئی تو پھر ان کے صفایا کرنے میں کسی بھی کوشش کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ جہاں یہ پائے جائیں گے ان کو گھیر کر تاک تاک کر قتل کیا جائے گا۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے نبی کریم و نے فرمایا کہ اے ابوبکر حج کے عظیم اجتماع میں جا کر اس بات کا اعلان کردو۔ پھر حضرت علی (رض) سے فرمایا کہ اے علی تم بھی جا کر ان آیتوں کو پرھ کر سب کو سنا دو اور اس کا اعلان عام کردو۔ چنانچہ 9 ہجری کے حج کے موقع پر اس کا اعلان کیا گیا۔ 10 ہجری میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج فرمایا تو اس موقع پر صرف اہل ایمان اس حج میں شریک تھے کفارو مشرکین کو نکال دیا گیا تھا۔ یہی وہ حج ہے جس کو حجتہ الوداع کہا جاتا ہے یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دنیاوی زندگی کا آخری حج تھا اس حج کو حج اکبر فرمایا گیا ہے اور واقعتا اگر کوئی حج اکبر تھا تو وہ ہی تھا جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صرف اہل ایمان شریک تھے اس کے بعد کسی حج کو حج اکبر نہیں کہا جاسکتا مگر یہ کہ حج اکبر حج اصگر کے مقابلے میں بولا جائے کیونکہ اہل عرب عمرے کو حج اصگر کہتے ہیں اسیبنیاد پر امام ابوبکر حصاص (رح) نے احکام القرآن میں فرمایا کہ ایام حج کو حج اکبر کا دن کہنے سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ ایمام حج کے لئے مخصوص ہیں اور ان میں عمرہ نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ جو حج جمعہ کے دن پڑجائے وہ حج اکبر ہوتا ہے یہ بات صحیح نہیں۔ یہ اپنی جگہ ایک فضیلت ضرور ہے کہ یوم عرفہ جمعہ کے روز ہوجائے لیکن اس بیاہد پر اسے حج اکبر کہنا عوامی اصطلاح ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ شریعت کی رو سے اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان آیتوں میں پہلا حکم تو یہ تھا۔ (2) دوسرا حکم یہ فرمایا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس معاہدہ سے براءت کا اظہار فرمایا ہے اس میں یہ شرط ہے کہ اگر کسی قوم سے کوئی معاہدہ موجود ہے تو اس کا خیال رکھا جائے اور اپنی طرف سے معاہدہ کو نہ توڑا جائے۔ (3) یا اگر کسی قوم سے کوئی ایسا معاہدہ ہے جسکی مدت مقرر ہے تو اس مدت کو اور اس معاہدہ کو پورا کیا جائے۔ (4) چوتھی بات یہ فرمائی گئی کہ اگر کوئی مشرک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پناہ کی درخواست کرے تو آپ اس کو۔ صرف اس وقت تک پناہ دے سکتے ہیں، اس کی حفاظت کرسکتے ہیں جب تک وہ اللہ کا کلام نہ سن لے۔ اگر وہ اللہ کا کلام سن کر ایمان لے آئے اور اسلامی احکامات نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرلے تو فرمایا کہ اب اس کا راستہ چھوڑ دو ۔ لیکن اگر وہ اپنی کفر کی روش پر قائم رہتا ہے تو اس کو اس کی حفاظت کی جگہ پہنچا دیا جائے۔ (5) پانچویں بات یہ فرمائی گئی کہ جب اشھر الحرم گزر جائیں یعنی رجب ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ ان چار مہینوں کے گزر نے کے بعد پھر تم جہاں بھی مشرکین کو پائو۔ گھیرو اور ہر گھات میں بیٹھ کر ان کو قتل کردو اور ان کے ساتھ کسی طرح کی نرمی کا معاملہ اختیار نہ کرو۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس سورت میں چند غزوات اور چند واقعات کا ذکر ہے اعلان نقض عہد بقبائل عرب۔ فتح مکہ غزوہ حنین، اخراج کفار از حرم، غزوہ تبوک اور ان ہی آیتوں کے ضمن میں تبعا واقعہ ہجرت۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

تعارف سورة التوبۃ یہ مدنی سورة ١٦ رکوع ١٢٩ آیات اور ٤٠٧٨ کلمات پر محیط ہے۔ اس مبارک سورة کے دو نام ہیں التوبہ اور برأت۔ التوبۃ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس سورة کی آیت ١١٨ میں غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے مخلص صحابہ کی توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے۔ اس سورت کو سورة البرأۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ہی اس لفظ سے ہوا ہے کہ جس میں مشرکین مکہ اور ان کے گرد وپیش لوگوں سے کیے گئے معاہدات سے برأت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سورة کا نزول ٩ ہجری کے قریب ہوا ہے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر صدیق کو حجاج کا امیر بنا کر روانہ کرچکے تھے ان کے رخصت کرنے کے فوراً بعد اس سورة کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تب اللہ کے پیغمبر نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی کو مکہ روانہ فرمایا کہ وہ آپ کی طرف سے حج کے موقع پر مشرکین کے ساتھ معاہدہ سے برأت کا اعلان کریں چناچہ حضرت علی (رض) نے حجاج میں سرعام یہ اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ میں داخل نہیں ہوسکتا گویا کہ اس اعلان کا مدعا یہ تھا کہ اب وہ دور گزر چکا ہے جب مشرکین بیت اللہ کی تولیت کا دعوٰی کرتے تھے اور مسلمانوں کو اس کے داخلہ سے روکتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں مسلمانوں کی طرف سے بیت اللہ کی تولیت اور اسلام کے مکمل غلبہ کا اعلان تھا۔ چنانچہ اعلان ہوتا ہے کہ آج کے بعد اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان کرتے ہیں کہ ان کا مشرکین کے ساتھ کیے گئے عہد سے کوئی واسطہ نہیں تاہم اس اعلان میں یہ گنجائش رکھی گئی کہ جن مشرکین کے ساتھ کیے گئے عہد کی مدت باقی ہے اس کی پاسداری کی جائے گی جس کا مفہوم یہ ہے کہ آئندہ سر زمین حجاز میں مشرکوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہوگا جس کے بنیادی طور پر دو اسباب تھے۔ ایک مشرکین کا بار بار مسلمانوں سے عہد شکنی کرنا اور دوسرا مرکز اسلام کو ہمیشہ کے لیے اغیار سے پاک کرنا تھا جس طرح آج بھی نظر یاتی حکومت اپنے دارالحکومت میں اغیار کو رہنے کا حق نہیں دیتی البتہ ایسے لوگ سچی توبہ کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ اپنی مسلمانی ثابت کریں تو وہ مسلمانوں کے بھائی تصور ہوں گے اور اسلامی مملکت میں جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آیت ١٦ سے لے کر آیت ٢٤ میں واضح فرمایا مساجد کی تولیت اور نگرانی کا صرف ان لوگوں کو حق پہنچتا ہے جو عقیدہ توحید رکھنے کے ساتھ ارکان اسلام کی پابندی کرنے والے ہوں اگر وہ عقیدہ توحید اور ارکان اسلام سے لاپرواہی کرتے ہیں تو بیت اللہ اور حجاج کرام کی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ ہی ایسے لوگوں کے ساتھ دلی محبت اور رشتہ ناطہ قائم کرنے کی اجازت ہے، پھر مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے انھیں غزوۂ بدر اور حنین کا واقعہ یاد کروایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے خصوصی مدد کے ساتھ مسلمانوں کی تائید فرمائی تھی، پھر یہود و نصاریٰ کے علماء اور عوام کے دینی اور اخلاقی کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی غالب اکثریت حرام خور اور دین اسلام کے راستے میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ اس کے بعد غزوۂ تبوک کا پس منظر اور اس کے حالات کا ذکر کیا جس کا منظر یہ تھا ایک طرف مسلمانوں کی فصلیں تیار تھیں اور دوسری طرف موسم کی شدت اور تبوک کا دور دراز کا سفر سامنے تھا۔ ان حالات میں منافقوں نے ایک ایک کرکے اس غزوہ سے فرار کا راستہ اختیار کیا جن میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے مختلف بہانے بنا کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت طلب کی آپ منافقین کی بد نیتی اور لشکر اسلام کو ان کی شرارتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اجازت دیتے رہے۔ منافقین کے سوا مدینہ میں مسلم خواتین اور معذور صحابہ باقی تھے جو چند صحابہ کسی عذر کے بغیر محض سستی کی بنا پر پیچھے رہ گئے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک سے واپسی پر ان لوگوں کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کا اعلان کیا جس پر صحابہ کرام (رض) نے اتنی سختی کے ساتھ عمل کیا جس کی مثال دنیا کی کسی منظم جماعت میں بھی نہیں پائی جاتی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ جنگ سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ کے لیے مدینہ کی سرزمین اس طرح تنگ ہوگئی کہ ان کے لیے ان کے وجود بھی بوجھ بن گئے۔ بالآخر ان کی توبہ قبول ہوئی التوبہ کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جانوں کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے اس لیے مومن اللہ کے راستے میں لڑنے مرنے سے جی نہیں چراتے ان کے ساتھ جنت کا وعدہ سچا اور پکا ہے جس کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی پایا جاتا ہے ان لوگوں کی صفات یہ ہیں یہ سچی توبہ کرنے والے عبادت گزار، ذکر و فکر میں مشغول، روزے کے اہتمام کرنے والے اپنے رب کی بار گاہ میں رکوع، سجود کرنے کے ساتھ امر بالمعروف نہی عن المنکر کے ساتھ اپنی حیا اور حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اس سورة کی ابتدا میں مشرکین سے براءت کا اعلان ہوا ہے لہٰذا اس کے آخر میں دو ٹوک انداز میں حکم دیا ہے اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اور آپ پر ایمان لانے والوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی مشرک کی بخشش کے لیے دعا کریں۔ جہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) کا معاملہ ہے انھوں نے اپنے باپ کے ساتھ ان کی بخشش کے لیے دعا کا وعدہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ (رض) کی توبہ قبول کرنے کا اعلان فرماتے ہوئے مسلمانوں کو تلقین فرمائی کہ ذاتی تعلقات اور دنیاوی مفاد کی خاطر کسی کا ساتھ دینے کی بجائے ہمیشہ سچائی کی بنیاد پر لوگوں کا ساتھ دیا کرو۔ سورة کا اختتام سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ پر کیا گیا کہ آپ اپنے ساتھیوں کے لیے نہایت مشفق و مہربان ان کی غلطیوں سے درگزر فرمانے والے اور ساتھیوں کی تکلیف کو ان سے بڑھ کر اپنی تکلیف محسوس کرنے والے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم جدوجہد، بےمثال کاوش اور شفقت و مہربانی کے باوجود اگر لوگ آپ سے اعراض کرتے ہیں تو آپ کو ان کی مخالفت اور بےاعتنائی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ ایسی صورتحال پر آپ کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے کہ آپ کو رب عرش عظیم پر اعتماد کرنا چاہیے اس کے سوا کوئی معبود حق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے ہر داعی کو یہ فرمان ہے کہ وہ توحید اور دین کی دعوت دیتے ہوئے مشکلات اور پریشانیوں کی پروا کیے بغیر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة التوبہ ایک نظر میں یہ مدنی سورت ہے اور اگر یہ نہ کہا جائے کہ قرآن کے آخری سورت ہے تو اس کا تعلق نزول قرآن کے بالکل آخری دور سے بہرحال ہے۔ کیونکہ راجح روایات میں ہے کہ سورت النصر آخری سورت ہے۔ چناچہ اس میں امت مسلمہ اور کرہ ارض پر رہنے والی دوسری اقوام کے درمیان تعلقات سے متعلق جو احکام وقوانین ہیں ، وہ آخری اور فائنل قوانین ہیں۔ اس سورت میں خود مسلم معاشرے کے اندر پائے جانے والے مختلف طقبات کی قدر و قیمت کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ ہر ایک کے حالات و کوائف بیان کیے ہیں۔ یہاں طبقات سے مراد وہ طبقات نہیں ہیں جن کے لیے آج کل یہ لفظ استعمال ہوتا ہے بلکہ ان سے مراد وہ گروہ ہیں جو اسلامی تصورات کے مطابق مختلف گروہ قرار پائے ہیں ، مثلا انصار ، مہاجرین ، اہل بدر ، اصحاب بیعت رضوان ، وہ لوگ جنہوں نے قبل فتح مکہ مال و دولت اسلام کی راہ میں خرچ کیے ، وہ جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اپنا مال خرچ کیا ، وہ جو جہاد میں جانے کے بجائے گھر بیٹھ گئے اور پھر وہ جو منافق رہے ، غرض اس سورت میں اسلامی معاشرے کے شب و روز اور ان میں مذکور تمام طبقات اور گروہوں کے حالات بڑی تفصیل اور تجدید کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ اس پہلو سے اس سورت کی اہمیت بہت زیادہ ہے کہ اس میں تحریک اسلامی کے مختلف مراحل ، اقدامات بیان ہوئے ہیں۔ خصوصا جب اس کے فائنل احکامات کا مقابلہ ان احکامات سے کیا جائے جو اس سے متصلا پہلی سورت میں تھے اور جو وقتی تھے۔ یہ تقابلی مطالعہ بتائے گا کہ یہ انداز تفسیر کس قدر مضبوط اور فیصلہ کن ہے۔ اور اگر یہ انداز مطالعہ اختیار نہ کیا جائے تو احکام و ضوابط کی شکل ہی بدل جاتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص ان آیات کو لے جو ایک خاص مرحلے کے ساتھ مخصوص تھیں اور ان کو آخری اور فائنل احکام قرار دے اور ان آیات میں تاویل شروع کردے جن آخری اور فائنل ہدایات دی گئی تھیں تاکہ یہ فائنل ہدایات ان آیات کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائیں جو وقتی تھیں۔ خصوصاً جہاد اسلامی اور مسلم معاشرے اور دوسرے معاشروں کے درمیان بین الاقوامی تعلقات کے موضوع سے متعلق۔ امید ہے کہ ہم ان میں سے بعض موضوعات کی وضاحت تشریح آیات کے ضمن میں اور سورت توبہ کے اس مقدمے میں کرسکیں گے۔ یہ سورت کب نازل ہوئی ؟ اس سورت کے موضوعات کے مطالعے ، ان کے بارے میں روایات و احادیث کے مطالعے اسباب نزول کی روایات کے ملاحظے اور ان تاریخی حالات و واقعات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت پوری کی پوری نویں صدی ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ لیکن یہ دفعۃ نازل نہیں ہوئی ہے۔ ہم جزم کے ساتھ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس سورت کے مختلف حصے کس کس وقت نازل ہوئے ، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سورت تین مرحلوں میں نازل ہوئی ہے۔ پہلا حصہ نویں سال ہجری میں غزوہ تبوک سے قبل ماہ رجب میں نازل ہوا۔ دوسرا حصہ اس جنگ کے لیے تیاریوں کے دور میں اور جنگ کے دوران نازل ہوا اور تیسرا حصہ اس وقت نازل ہوا جب مسلمان اس غزوہ سے واپس ہوگئے۔ البتہ سورت کا ابتدائی حصہ یعنی آیت 1 تا 28 آخر میں سن نو ہجری کے آخری ایام میں نازل ہوئے یعنی حج سے قبل ذوالقعدہ یا ذوالحجہ میں۔ اجمالاً اسی قدر بات کہی جاسکتی ہے جس پر دل مطمئن ہوتا ہے۔ ۔۔۔۔ اس سورت کے پہلے حصے میں یعنی آیت تا 1 تا 28 جزیرۃ العرب میں بسنے والے مشرکین اور مسلمانوں کے تعلقات کی فائنل ضابطہ بندی کی گئی ہے۔ اس ضابطہ بندی کے حقیقی اور عملی اسباب ، اس کی تاریخی وجوہات اور نظریاتی اساسوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ قرآن میں اشاراتی اسلوب اور موثر انداز بیان ، فیصلہ کن اور واضح طرز تعبیر کے ساتھ پیش کیا گیا۔ مناسب ہوگا کہ اس کے چند نمونے برائے غور آپ کے سامنے پیش کیے جائیں۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (١) فَسِيحُوا فِي الأرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ (٢) وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الأكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ فَإِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (٣)إِلا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (٤) فَإِذَا انْسَلَخَ الأشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (٥) وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لا يَعْلَمُونَ (٦) كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (٧) كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلا وَلا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ (٨) اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (٩) لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلا وَلا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ (١٠) فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (١١) وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ (١٢) أَلا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (١٣) قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ (١٤) وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (١٥) أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلا رَسُولِهِ وَلا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (١٦) مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ (١٧)إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (١٨) أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (١٩) الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (٢٠) يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ (٢١) خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ (٢٢) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الإيمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (٢٣) قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (٢٤) لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الأرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (٢٥) ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (٢٦) ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (٢٧) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (٢٨) ترجمہ : جن لوگوں کے ساتھ تم نے صلح و امن کا معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان کو صاف صاف جواب ہے۔ پس اے مشرکو ملک میں چار مہینے چل پھر لو ، کوئی روک ٹوک نہیں اور جان لو کہ تم اللہ کو کبھی عاجز نہ کرسکوگے اور اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔ اور حج اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے منادی کی جاتی کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری الذمہ ہے۔ اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اور اگر روگردانی کرتے رہے تو جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور اے پیغمبر کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دے۔ ہاں مشرکین میں سے جن لوگوں کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ کسی قسم کی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی وہ مستثنی ہیں۔ تو ان کے ساتھ جو معاہدہ ہے اس کی مدت تک پورا کرو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔ پھر جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور انہیں گرفتار کرو اور ان کا محاصرہ کرو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کرلیں ، نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو کیونکہ وہ اللہ غفور و رحیم ہے اور اے پیغمبر مشرکین میں سے کوئی پناہ مانگے تو پناہ دے دو تاکہ وہ اچھی طرح کلام الہی سن لے پھر اسے اس کے امن کی جگہ پہنچا دو یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ علم نہیں رکھتے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان مشرکین کا عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک عہد ہو ؟ ہاں جن لوگوں کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے قریب عہد کیا تھا اور انہوں نے اسے نہیں توڑا تو جب تک وہ تمہارے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں ، تم بھی ان کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے مگر ان کے سوا دوسرے مشرین کے ساتھ عہد کیسے ہوسکتا ہے۔ جن کا حال یہ ہے کہ اگر تم پر غلبہ پائیں تو تمہارے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس کریں اور نہ عہد و پیمان کا یہ لوگ اپنی زبانوں سے تمہیں راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کے دل ان باتوں سے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ ان لوگوں نے اللہ کی آیتیں تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالیں۔ پھر اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکنے لگے۔ افسوس ان پر بہت ہی برے کام تھے جو یہ کرتے رہے۔ یہ کسی مومن کے بارے میں نہ قرابت کا پاس کرتے ہیں نہ عہد و پیمان کا اور یہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔ بہرحال اگر یہ توبہ کرلیں ، نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور جو لوگ سمجھ دار ہیں ان کے لیے ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں اور اگر یہ لوگ عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر طعن کریں تو ان کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو۔ ان کی قسمیں ، قسمیں نہیں اور تمہیں ان سے جنگ اس لیے کرنی چاہئے کہ یہ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں۔ مسلمانو کیا تم ان سے نہ لڑو گے جنہوں نے عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالیں اور اللہ کے رسول کو اس کے وطن سے نکال دینے کا قصد کیا اور تم سے لڑائی ہیں پہل بھی انہوں نے کی۔ کیا تم ان سے ڈرتے ہو۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ مسلمانو ان لوگوں سے بلا تامل لڑو۔ اللہ تمہارے ہی ہاتھوں انہیں عذاب دے گا اور ان کو رسوا کرے گا اور ان پر تمہیں غلبہ دے گا اور مومنوں کو اور ان کے دلوں کو ٹھنڈا کرے گا اور ان کے دلوں میں کافروں کی طرف سے جو غصہ بھرا ہوا ہے اس کی خلش کو بھی دور کرے گا اور جس کی چاہے توبہ قبول فرمائے گا اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ مسلمانو کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ سستے چھوٹ جاؤگے حالانکہ ابھی اللہ نے ان لوگوں کو جانا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا اور اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا جگری دوست نہ بنایا۔ اور یاد رکھو جو کچھ بھی تم لوگ کرتے ہو ، اللہ کو اس کی سب خبر ہے۔ مشرکین کو یہ حق نہیں کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں اور مشرکانہ اقوال و افعال سے اپنے اوپر کفر کی گواہی بھی دیتے جائیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سارے عمل اکارت گئے اور یہ دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا تو ان لوگوں کا کام ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں۔ نماز قائم کرتے ہوں ، زکوۃ دیتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں سو ایسے لوگوں سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ہدایت پانے والے ہوں گے۔ لوگو کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے والے اور مسجد حرام کو آباد رکھنے کو اس شخص کے عمل کے برابر سمجھ لیا ہے۔ جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ اللہ کے نزدیک تو یہ لوگ ایک دوسرے کے برابر نہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک درجے میں بڑے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی لوگ کامیاب ہیں۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنود کی بشارت دیتا ہے۔ نیز ایسے باغوں کی جن میں ان کی دائمی آسائش ملے گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ بیشک اللہ کے پاس نیک کرداروں کے لیے بڑا اجر ہے۔ اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلے میں کفر کو عزیز رکھیں تو ان کو اپنا رفیق نہ بناؤ اور تم میں سے جو انہیں رفیق بنائیں گے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں اے پیغمبر مسلمانوں سے کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑجانے کا تمہیں اندیشہ ہے اور وہ مکانات جو تمہیں پسند ہیں اگر یہ ساری چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ پیاری ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ کا مقررہ قانون ہے کہ وہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ مسلمانو ! اللہ نے بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کی ہے اور خاص کر جنگ حنین کے وہ جب کہ تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے مگر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل فرمایا اور مدد کو فرشتوں کے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے اور اس طرح ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا تھا ، سخت سزا دی اور کافروں کی یہی جزا ہے۔ پھر تم دیکھ چکے ہو کہ سزا کے بعد اللہ جسے چاہتا ہے توبہ کی توفیق بھی دیتا ہے اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، یہ حقیقت ہے کہ مشرک ناپاک ہیں۔ لہذا اس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس بھی نہ آنے پائیں۔ اگر ان کے ساتھ لین دین بند ہوجانے سے تمہیں مفلسی کا اندیشہ ہے تو اللہ پر بھروسہ رکھو وہ چاہے گا تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ درج بالا جن آیات کا ہم نے اقتباس پیش کیا۔ ان میں اور اس سبق کی تمام دوسری آیات میں اس بات پر نہایت ہی تاکید اور شدت سے زور دیا گیا ہے کہ مشرکین عرب کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھاؤ اور مسلمانوں کو اس بات پر برانگیختہ کیا گیا ہے کہ مشرکین کے ساتھ بائیکاٹ کرو اور پورے جزیرۃ العرب میں ان کے خلاف جنگی کاروائی شروع کردو۔ اس شدید تاکید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جماعت مسلمہ یا ان میں سے بعض افراد کے رویوں میں یہ خوف تھا کہ پورے جزیرۃ العرب میں مشرکین کے خلاف بیک وقت اس قسم کی کاروائی شروع کرنا مناسب امر نہیں ہے یا ان کو فیصلہ کن انداز میں اس قسم کی کاروائی خوفناک نظر آتی تھی اور وہ اس بارے میں یکسو نہ تھے۔ اور اس کی بعض وجوہات بھی تھیں جن کے بارے میں ہم عنقریب اس تبصرے اور پھر تشریح آیات کے وقت کلام کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ اس سورت کے دوسرے حصے میں ، اسلامی معاشرے اور اہل کتاب کے درمیان تعلقات کی حد بندی کی گئی اور اس میں جو احکامات دیے گئے ہیں ، وہ فائنل ہیں اور ان فیصلوں کے نظریاتی ، تاریخی اور عملی اسباب بھی بیان کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے اسلام نے ان تعلقات کی ایسی ضابطہ بندی کی ہے۔ اس حصے میں اسلام اور اسلام کی مستقل حقیقت کو بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب نے نظریاتی اور عملی ہر لحاظ سے اپنے صحیح دین سے انحراف کرلیا ہے۔ اس لیے اب وہ عملاً اس دین پر قائم نہیں رہے جو اللہ نے ان کی طرف بھیجا تھا اور جس کی وجہ سے وہ اہل کتاب قرار پائے تھے مثلاً درج ذیل آیات پر غور فرمائیں : قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (٢٩): جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے۔ اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے ، اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں مانتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (٣٠) اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (٣١): یہود کہتے کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹآ ہے۔ یہ بےحقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ خدا کی مار ان پر یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (٣٢) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (٣٣) : یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے۔ خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے۔ خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الأحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (٣٤) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ (٣٥) : اے ایمان لانے والو ! ان اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کا مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ دردناک عذاب کی خوشخبری دو ، ان کو جو سونے اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اس سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔ اس حصے میں جو اسلوب گفتگو اپنایا گیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات لوگوں کے اس خلجان کو دور کرنے کے لیے نازل ہوئیں ، جو وہ اہل کتاب کے خلاف کسی سخت ایکشن کے سلسلے میں اپنے اندر پاتے تھے ، یا یہ تردد اور خوف ان میں سے بڑی اکثریت کے دلوں میں پایا جاتا تھا کہ وہ اہل کتاب کے حوالے سے پہلی آیت کے مطابق تعلق کا آغآز کس طرح کریں ، لیکن درحقیقت ان آیات میں روئے سخن رومیوں کی طرف تھا جن کے ساتھ شام اور عرب کے عیسائیوں کے حلیفانہ تعقلات تھے۔ رومیوں کے حوالے سے یہ تردد اور خوف بجا بھی تھا ، اس لیے کہ جزیرۃ العرب کے باشندوں کے ہاں رومیوں کی تاریخی شہرت تھی۔ اگرچہ آیت کے الفاظ تمام اہل کتاب کے لیے عام ہیں اور آیت میں مذکور ہونے والے اوصاف سب ان پر منطبق تھے جیسا کہ آیت کی تشریح کے وقت ہم بتائیں گے۔ اس سورت کے تیسرے حصے میں ان کاہل اور سست لوگوں کا ذکر ہے جن کو جب جہاد کے لیے دعوت دی جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو بوجھل بنا کر زمین پر گرا دیتے ہیں اور نفیر عام سے سستی برتتے ہیں۔ یہ سستی کرنے والے سب کے سب منافق نہ تھے جیسا کہ بعد میں واضح ہوگا بلکہ یہ مہم چونکہ پر مشقت تھی اور بعض لوگ مشکلات راہ کی وجہ سے سست پڑگئے تھے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلا قَلِيلٌ (٣٨) إِلا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (٣٩) إِلا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (٤٠) انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (٤١) : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم اسے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے ؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا ؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیا کی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔ تم نہ اٹھوگے تو خدا تمہیں دردناک عذاب دے گا۔ اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا اور تم خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی ، تو کچھ پروا نہیں اللہ اس کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا۔ جب وہ صرف دو میں دوسرا تھا ، جب وہ دونوں غار میں تھے ، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ " غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے " اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے۔ اللہ زبردست دانا و بینا ہے۔ نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ (اگر تم جانو) یہاں بار بار تاکید ، تہدید اور ملامت کے الفاظ لائے جاتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جہاں تک رسول اللہ کی امداد کا تعلق ہے تو کسی انسان کی شرکت کے بغیر بھی اللہ نے ان کی مدد کی ہے۔ ذرا وہ وقت یاد کرو کہ جب مکہ سے کافروں نے انہیں نکالا تھا۔ کوئی فوج ان کے ساتھ نہ تھی لیکن وہ کامیاب رہے۔ پھر یہ تاکید کہ تم بوجھل ہو یا ہلکے بہرحال اس مہم میں نکلو ، یہ سب امور بتاتے ہیں کہ یہ مہم بہت سخت تھی ، لوگوں کے اندر سستی اور تردد بلکہ خوف طاری تھا۔ اس لیے یہاں سخت ترین الفاظ میں تاکید کی گئی ہے کہ لازماً اس مہم میں نکلو۔ اس کے بعد اس سورت کا چوتھا حصہ آتا ہے اور وہ قدے طویل ہے۔ اس سورت کے نصف حصے پر مشتمل ہے۔ اس میں منافقین اور اسلامی معاشرے کے خلاف ان کی ریشہ دوانیوں کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ غزوہ تبوک ، اس سے پہلے اور اس کے بعد کے ادوار میں ان کی نفسیاتی حالت اور ان کی عملی بوکھلاہٹ کو لیا گیا ہے۔ ان کی نیات ، ان کے حیلوں بہانوں اور ان کے عذرات لنگ کا مضحکہ اڑایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح وہ اس جہاد سے پیچھے رہے۔ کس طرح اسلامی صفوں میں کمزوری ، افتراق اور بےچینی پھیلاتے رہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مخلص مومنین کو ایذائیں دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مخلص مومنین کو ان کی ریشہ دوانیوں سے متنبہ کیا جاتا ہے۔ چناچہ ان کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں تجویز کیا جاتا ہے کہ مخلصین کو ان سے دور رہنا چاہیے۔ یہ حصہ سورت کا بنیادی حصہ ہے۔ اور بنیادی وجود ہے۔ اس حصے معلوم ہوتا ہے کہ نفاق جو فتح مکہ کے بعد قریبا قریباً ختم ہوگیا تھا کس طرح دوبارہ پھیل گیا تھا اور اگلے پیرا گراف میں آپ دیکھیں گے کہ اس نفاق کے پھیلنے کے اسباب کیا تھے۔ یہاں ہم اس پورے حصے کو تو نقل نہیں کرسکتے البتہ بطور نمونہ چند فقرات ملاحظہ ہوں۔ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لاتَّبَعُوكَ وَلَكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (٤٢) : اے نبی اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہوجاتے مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا۔ اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لأعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ (٤٦) لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ مَا زَادُوكُمْ إِلا خَبَالا وَلأوْضَعُوا خِلالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (٤٧) لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الأمُورَ حَتَّى جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ (٤٨): اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا۔ اس لیے ان کو سست کردیا گیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر سوائے خرابی کے کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے اور تمہپارے گروہ کا یہ حال ہے کہ ابھی اس میں بہت سے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں۔ اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ان لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کی تدبیروں کا الٹ پھیر کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آگیا اور اللہ کا کام ہوکر رہا۔ وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (٦١): ان میں سے کچھ لوگ اپنی باتوں سے نبی کو دیکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہا " وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے ، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہل ایمان پر اعتماد کرتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں میں سے جو تم میں ایماندار ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے " وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلا تَفْتِنِّي أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ (٤٩)إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَهُمْ فَرِحُونَ (٥٠): ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ " مجھے رخصت دیجئے اور مجھ کو فتنہ میں نہ ڈالیے " سن رکھو ! فتنے میں ہی تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے۔ تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انہیں رنج ہوتا ہے۔ اور تم پر کوئی وصیت آتی ہے تو یہ منہ پھیر کر خوش خوش پلٹتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اچھا ہوا ہے ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کرلیا تھا۔ وَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَمَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ (٥٦) لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلا لَوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ (٥٧): وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہیں میں سے ہیں۔ حالانکہ وہ ہر گز تم میں سے نہیں ہیں۔ اصل وہ تو ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوفزدہ ہیں۔ اگر وہ کوئی جائے پناہ لیں یا کوئی کھول یا گھس بیٹھنے کی جگہ تو بھاگ کر اس میں جا چھپیں۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ (٥٨) وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ (٥٩): اے نبی ان میں بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراض کرتے ہیں۔ اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہوجائیں۔ اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ اللہ اور رسول نے جو کچھ بھی انہیں دیا تھا ، اس پر وہ راضی رہتے اور کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ اور وہ اپنے فضل سے اور بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی ہم پر عنایت فرمائے گا۔ ہم اللہ ہی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں۔ وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (٦١): ان میں سے کچھ لوگ اپنی باتوں سے نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہو " وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے ، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہل ایمان پر اعتماد کرتا ہے اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے "۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ (٦٢) أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ (٦٣): یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں ، حالانکہ اگر یہ مومن ہیں تو اللہ و رسول اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ ان کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو اللہ اور رسول کا مقابلہ کرتا ہے۔ اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔ يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ (٦٤) وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (٦٥) لا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ (٦٦): یہ منافق ڈر رہے ہیں کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی ایسی سورت نازل نہ ہوجائے جو ان کے دلوں کے بھید کھول کر رکھ دے۔ اے نبی ان سے کہو " اور مذاق اڑاؤ، اللہ اس چیز کو کھول دینے والا ہے جس کے کھل جانے سے تم ڈرتے ہو " اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے ، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ ان سے کہو " تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اس کے آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی۔ اب عذرات نہ تراشو ، تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے ، اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کرد بھی دیا تو دوسرے گروہ کو ہم ضرور سزا دیں گے ، کیونکہ وہ مجرم ہیں۔ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (٦٧) وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا هِيَ حَسْبُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ (٦٨): منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۔ یقیناً یہ منافق ہی فاسق ہیں۔ ان منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لیے اللہ نے آتش دوزخ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ وہی ان کے لیے موزوں ہے۔ ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (٧٣) يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ فِي الأرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ (٧٤): اے نبی کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ، آخر کار ان کا ٹکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے۔ یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی ، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے۔ یہ ان کا سارا غصہ اس بات پر ہے ، تاکہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کردیا ہے۔ اب اگر یہ اپنی روش سے باز آجائیں تو انہی کے لیے بہتر ہے اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت دردناک سزا دے گا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور زمین میں کوئی نہیں جو ان کا حمایتی اور مددگار ہو۔ وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ (٧٥) فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ (٧٦) فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (٧٧): ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولتمند کردیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انہیں اس کی پروا تک نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بدعہدی کی وجہ سے جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے ، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا ، جو اس کے حضور انکی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (٧٩) اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (٨٠): جو لوگ برضا ورغبت دینے والے اہل ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں چھانٹتے ہیں اور ان لوگوں کا مذاق اڑانے والوں کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے نبی تم ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو ، اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کردینے کی درخواست کروگے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسق لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا ہے۔ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ (٨١) فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (٨٢) فَإِنْ رَجَعَكَ اللَّهُ إِلَى طَائِفَةٍ مِنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ (٨٣) وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ (٨٤) وَلا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ (٨٥): جن لوگوں کو پیچے رہنے کی اجازت دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر پر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ " اس سخت گرمی میں نہ نکلو " ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے۔ کاش انہیں اس کا شعور ہوتا۔ اب چاہئے کہ یہ لوگ ہنسنا کم کریں اور روئیں زیادہ۔ اس لیے کہ جو بدی یہ کما رہے ہیں اس کی جزا ایسی ہی ہے۔ اگر اللہ ان کے درمیان تمہیں واپس لے جائے اور آئندہ ان میں سے کوئی گروہ جہاد کے لیے نکلنے کی تم سے اجازت مانگے تو صاف کہہ دینا کہ " اب تم میرے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے اور نہ میری معیت میں کسی دشمن سے لڑسکتے ہو ، تم نے پہلے بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا تو اب گھر میں بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نماز جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے۔ ان کی مالداری اور ان کی کثرت اولاد تم کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ اللہ نے تو ارادہ کرلیا ہے کہ اس مال اور اولاد کے ذریعے سے ان کو اسی دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔ یہ طویل تنقید جس میں بیشمار انکشافات کیے گئے اس بات کی مظہر ہے کہ اس وقت منافقین کی طرف سے اسلامی جماعت کی ایذا رسانی کے لیے رات دن کوششیں ہوتی رہتی تھیں۔ یہ منافق مختلف قسم کی سازشوں ، فتنہ انگیزیوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے نصب العین سے ہٹآنے کی سعی کرتے رہتے تھے۔ نیز اس تنقیدی تقریر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اسلامی صفوں میں ہم آہنگی اور مکمل اتحاد کی کمی تھی اور جماعت مسلمہ کی عضویاتی تکمیل ابھی تک ادھوری تھی۔ اس کی طرف اس فقرے کے ذریعے اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ و فیکم سمعون لہم " اور تم میں ان کی بات پر کان دھرنے والے موجود ہیں " نیز ایسے لوگوں کے لیے دعا کرنے کی سخت ممانعت اور ان کا نماز جنازہ نہ پڑھنے کی تاکید سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ایسے لوگوں کے لیے ہمدردی کے جذبات اسلامی صفوں میں موجود تھے۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوگئی تھی کہ فتح مکہ کے بعد لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے تھے اور ان کے دلوں میں ابھی تک ایمان اچھی طرح جاگزیں نہ ہوا تھا۔ نہ وہ ابھی تک پوری طرح اسلامی رنگ میں رنگے گئے تھے۔ اس کی تفصیلات ہم اس سورت میں ان آیات کے ضمن میں دیں گے جن میں اسلامی جماعت کے اجزائے ترکیبی پر بحث کی گئی ہے جن سے اس وقت جماعت کی تالیف ہوئی تھی۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سورة توبہ مدینہ میں نازل ہوئی اس میں ایک سو انتیس آیات اور سولہ رکوع ہیں سُوْرَۃُ التَّوْبَۃِ اس کا دوسرا نام سورة برأت بھی ہے اس میں کافروں سے برأت کا اعلان ہے اس لیے اس کو سورة برأت کہا جاتا ہے اور غزوہ تبوک کے موقعہ پر جو صحابی پیچھے رہ گئے تھے ان کی توبہ کا بھی اس میں ذکر ہے اس لیے دوسرا نام بھی معروف ہوگیا۔ یہ سورت مصحف عثمانی کی ترتیب میں سورة الانفال اور سورة یونس کے درمیان ہے۔ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہ لکھنے کی وجہ : دیگر تمام سورتوں کے شروع میں بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھی ہے لیکن سورة برأت کے شروع میں نہیں ہے۔ جامع القرآن حضرت عثمان بن عفان (رض) سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے سوال کیا کہ یہ کیا بات ہے آپ نے سورة انفال کو جو مثانی میں ہے (یعنی جس کی آیات سو سے کم ہیں) سورة برأت سے پہلے رکھ دیا حالانکہ برأت ان سورتوں میں سے ہے جن کی آیات سو سے زیادہ ہیں اور آپ نے ان دونوں کو ملا بھی دیا اور مزید یہ کہا کہ ان کے درمیان بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہیں لکھی۔ اور ان دونوں کو ملا کر سبع طوال (یعنی لمبی سات سورتوں) میں شامل کردیا۔ ایسا کرنے کا کیا باعث ہے ؟ حضرت عثمان نے جواب دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ طریقہ تھا کہ جب کوئی آیت نازل ہوئی تھی تو آپ کا تبوں میں سے کسی کو بلا کر فرماتے تھے کہ اس آیت کو اس سورت میں شامل کر دو جس میں فلاں فلاں مضمون ہے اور سورة انفال اس سورتوں میں سے ہے جو مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے بعد شروع میں نازل ہوئیں اور سورة برأت ان سورتوں میں سے ہے جو آخر میں نازل ہوئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اور آپ نے یہ بیان نہیں فرمایا کہ سورة برأت سورة انفال کا حصہ ہے اور چونکہ دونوں کا مضمون ایک دوسرے کے مضمون سے ملتا جلتا تھا اس لیے میں نے دونوں کو ملا دیا اور ان کے درمیان بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہیں لکھی (کیونکہ نہ اس بات کا علم تھا کہ دونوں سورتیں مستقل ہیں اور نہ اس بات کی توضیح تھی کہ دونوں ایک ہی ہیں) اور میں نے ان کو ملا کر سبع طوال (یعنی سات لمبی سورتوں) میں شامل کردیا۔ (مطلب یہ ہے کہ سورة فاتحہ کے بعد چھ سورتیں تعداد آیات کے اعتبار سے خوب لمبی لمبی ہیں اور ان دونوں کا مجموعہ مل کر سات لمبی سورتیں ہوگئیں جن کو سبع طوال کہا جاتا ہے۔ (رواہ الترمذی فی ابواب التفسیر اوائل سورة التوبۃ) حضرت عثمان (رض) کے بیان سے معلوم ہوگیا کہ سورة انفال اور سورة برأت کو اس لیے ملایا گیا ہے کہ دونوں کا مضمون آپس میں ملتا جلتا ہے اور درمیان میں (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) اس لیے نہیں لکھی کہ واضح طور پر ان کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ارشاد فرمودہ کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے دونوں کا علیحدہ علیحدہ سورت ہونا معلوم ہوتا۔ قرآن مجید کی ترتیب یوں ہے کہ سورة فاتحہ کے بعد اول سبع طوال یعنی سورة بقرہ اور سورة آل عمران اور سورة نساء اور سورة مائدہ اور سورة انعام اور سورة اعراف اور سورة انفال اور سورة توبہ کا مجموعہ ہے (ان کو سات لمبی سورتیں کہا جاتا ہے) ان کے بعد وہ سورتیں ہیں جنہیں مئین کہا جاتا ہے اور یہ وہ سورتیں ہیں جن کی آیات سو سے کچھ زیادہ ہیں۔ پھر وہ سورتیں ہیں جنہیں مثانی کہا جاتا ہے۔ یہ سورتیں سورة یونس سے شروع ہوتی ہیں اور سورة حجرات سے لے کر ختم قرآن شریف تک جو سورتیں ہیں انہیں مفصل کہا جاتا ہے۔ پھر ان میں بھی تفصیل ہے سورة حجرات سے سورة بروج تک طوال مفصل اور سورة الطارق سے سورة بینہ تک اوساط مفصل اور سورة زلزال سے لے کر سورة والناس تک قصار مفصل ہیں۔ ١ ؂ سورۃ توبہ کی ابتدا میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہ پڑھی جائے اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جب کوئی تلاوت کرنے والا سورة انفال پڑھے اور اسے ختم کر کے متصلاً ہی سورة برأت شروع کرے تو بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھے۔ کیونکہ سورة برأت کا مستقل سورة ہونا یقینی نہیں ہے۔ اگر سورة برأت ہی سے تلاوت کی ابتداء کرنا ہو تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے یا نہ پڑھے اس میں دو قول ہیں راجح قول یہی ہے کہ اس صورت میں بسم اللہ نہ پڑھے۔ امام شاطبی (رح) نے اپنے قصیدہ میں اسی کو اختیار کیا ہے۔ و قال ؂ وَ مَھْمَا تَصِلْھا أو بَدَأتَ بَرَأۃً لِتَنْزِیْلِھَا بالسَّیْفِ لَسْتَ مُبَسْمِلَا اور جب برأت کی تلاوت کو انفال کے ساتھ ملاتے یا سورة برأت ہی سے تلاوت شروع کرے تو بسم اللہ نہ پڑھ کیونکہ یہ سورة تو تلوار کے ساتھ نازل ہوئی ہے) ۔ محقق ابن الجزری (رح) النشر میں لکھتے ہیں۔ لا خلاف فی حذف البسملۃ بین الانفال و برأۃ عن کل من بسمل بین السورتین و کذا فی الابتداء ببرأۃ علی الصحیح عند أھل الاداء۔ (اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ انفال اور برأت کے درمیان بسم اللہ نہیں ہے اور اسی طرح قرأ کے نزدیک سورة برأۃ سے تلاوت کی ابتداء کی صورت میں بھی بسم اللہ نہیں ہے) ۔ اس کے بعد برأت سے تلاوت شروع کرنے کی صورت میں بعض قرأ سے بسم اللہ پڑھنے کا جواز نقل کیا ہے لیکن اس کو تسلیم نہیں کیا اور آخر میں لکھا ہے و الصحیح عند الائمہ اولی بالاتباع ونعوذ باللہ من شر الابتداء۔ (جو صحیح ہے وہی ائمہ کے نزدیک اتباع کے لائق ہے اور ابتداء کی شرارت سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں) حضرت امام شاطبی (رض) نے جو یہ فرمایا لِتَنْزِیْلِھَابِالسَّیْفِ لَسْتَ مُبَسْمِلَا یہ حضرت علی سے منقول ہے، علامہ ابن القاصح سراج القاری شرح شاطبیہ میں لکھتے ہیں : قال ابن عباس سالت علیاً (رض) لما لم تکتب فی برأۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فقال لأن بسم اللہ أمان و برأۃ لیس فیھا امان نزلت بالسیف۔ ا ھ (حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں میں نے حضرت علی (رض) سے سوال کیا کہ سورة برأت کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہیں لکھی گئی تو انہوں نے فرمایا اس لیے کہ بسم اللہ تو امن کا پیغام ہے اور سورة برأت میں امان نہیں ہے وہ تو تلوار کے ساتھ نازل ہوئی ہے) ۔ ١ ؂ علامہ سیوطی نے الاتقان ص ٦٥ میں قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب اس طرح لکھی ہے کہ پہلے سبع طوال یعنی سات لمبی سورتیں ہیں جو سورة انفال اور سورة توبہ کو ملا کر (گویا دونوں کو ایک قرار دے کر) سورة توبہ پر ختم ہو رہی ہیں (ان دونوں کو علیحدہ علیحدہ سورت مانا جائے تو سبع طوال میں نہیں آتی ہیں) سبع طوال کے بعد وہ سورتیں ہیں جنہیں مئتین کہا جاتا ہے (یہ ماءۃ کی جمع ہے) یہ وہ سورتیں ہیں جن کی آیات سو کے قریب یا سو سے زیادہ ہیں پھر ان کے بعد وہ سورتیں جنہیں مفصل کہا جاتا ہے۔ مفصل کی ابتداء کہاں سے ہے اس میں متعدد اقوال ہیں۔ ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ سورة حجرات سے شروع ہو کر آخر قرآن تک جو سورتیں ہیں ان سب کا مجموعہ مفصل ہے یہی قول ہم نے اوپر تفسیر میں لکھ دیا ہے۔ مثانی کی انتہاء تو مفصل کی ابتداء سے معلوم ہوگئی۔ لیکن مثانی کی ابتداء کہاں سے ہے۔ اس کے بارے میں اکابر کے اقوال میں کوئی تصریح نہیں دیکھی۔ سورتوں کی مراجعت کرنے سے معلوم ہوا کہ مثانی کی ابتداء بظاہر سورة قصص سے ہونی چاہئے کیونکہ اس سے پہلی سورة میں ترانوے آیات اور اس میں اٹھاسی آیات ہیں (گو اس سے پہلے سورة حج میں اٹھہتر اور سورة نور میں چونسٹھ آیات گزر چکی ہیں) سورة قصص کے بعد عموماً وہ سورتیں ہیں جن کی آیات مئین والی سورتوں کی آیات سے کم ہی ہیں۔ البتہ درمیان میں سورة شعراء میں دو سو ستائیس اور سورة صافات میں ایک سو بیالیس آیات ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترتیب میں آیات کی تعداد کی بجائے طول اور قصر کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ آیات کی تعداد کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ یعنی یہ بات نہیں دیکھی گئی کہ ہر اگلی سورت پچھلی سورت کی آیات کے اعتبار سے چھوٹی ہو۔ پھر یہ طول اور قصر بھی تقریبی ہے۔ اس بات کو پیش نظر رکھا جائے تو ان حضرات کی بات صحیح معلوم ہوتی ہے جنہوں نے فرمایا ہے کہ سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے۔ یہ جو ہم نے عرض کیا کہ ترتیب سورت میں آیات کی تعداد کی بجائے طول اور قصر کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ بعض مرتبہ چھوٹی سورت میں آیات زیادہ ہوتی ہیں۔ (کمافی الصافات) اور بڑی سورت میں آیات کی تعداد کم ہوتی ہے (کمافی سورة الاحزاب فانھا اطول من الصافات وعددآیا تھا اقل منھا) ۔ اب ایک شق اور رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ سورة برأۃ کے درمیان سے کسی جگہ سے تلاوت کی ابتداء کرے تو جس طرح دوسری سورتوں کے درمیان سے تلاوت کی صورت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا پڑھنا نہ پڑھنا دونوں درست ہیں اسی طرح سورة برأۃ کے درمیان سے ابتداء کرنے کی صورت میں بسم اللہ پڑھنے نہ پڑھنے کا اختیار ہے یا نہیں ؟ محقق ابن الجزری ” النشر “ میں فرماتے ہیں کہ میں نے اس کے بارے میں متقدمین کی کوئی نص نہیں دیکھی اور علی الاطلاق بہت سے اہل اداء نے سورتوں کے درمیان سے تلاوت شروع کرنے کی صورت میں جو دونوں باتوں کا اختیار دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورة برأت کے درمیان سے شروع کرنے کی صورت میں بھی دونوں صورتیں جائز ہیں۔ پھر لکھا ہے کہ ابو الحسن سخاوی نے اپنی کتاب جمال القراء میں سورة برأت کے درمیان سے تلاوت کی ابتداء کرنے کی صورت میں بسم اللہ پڑھنے کا جواز لکھا ہے اور ابو اسحاق جعبری کا رجحان نہ پڑھنے کی طرف ہے۔ پھر آخر میں محقق ابن الجزری نے دونوں باتوں کی تائید کی ہے اور کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ گویا وہ بھی تخییر کے قائل ہیں۔ یعنی پڑھنا نہ پڑھنا دونوں کی گنجائش دی ہے۔ فائدہ : یہ جو بعض مصاحف میں سورة برأت کی ابتدا میں حاشیہ پر اعوذ باللہ من النار و من غضب الجبار و من شر الکفار لکھا ہوا ہے اور بہت سے حفاظ اس کے پڑھنے کو مستحب یا سنت سمجھتے ہیں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ (کماذ کرہ فی الفتاوی الرشیدیۃ) اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول مشرکین سے بری ہیں آیات بالا کی تفسیر سمجھنے کے لیے یہ ذہن نشین کرلیا جائے کہ جس وقت سورة برأت نازل ہوئی ہے اس وقت کفار کی چار قسمیں تھیں۔ پہلی قسم کے تو وہ لوگ تھے جن سے مقام حدیبیہ میں ٦ ھ میں معاہدہ ہوا تھا جبکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ اس موقعہ پر مشرکین نے آپ کو مکہ معظمہ میں داخل نہ ہونے دیا اور بڑی ردوکد کے بعد دس سال کے لیے صلح کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اس صلح میں یہ تھا کہ ایک فریق دوسرے فریق پر حملہ نہیں کرے گا اور نہ کوئی فریق کسی فریق کے حلیف پر حملہ آور ہوگا۔ پھر یہ واقعہ پیش آیا کہ قبیلہ بنی بکر نے (جو قریش کا حلیف تھا) رات کے وقت قبیلہ بنی خزاعہ پر حملہ کردیا اور قریش مکہ نے بنی بکر کو ہتھیار دیئے اور اپنے جوان ان کی امداد کے لیے بھیجے۔ اس طرح سے قریش نے عہد شکنی کی کیونکہ بنی خزاعہ پر حملہ کرنے والوں کے مددگار بن گئے جو مسلمانوں کے حلیف تھے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قریش کی عہد شکنی کی خبر ملی تو آپ نے جنگ کی تیاری کی اور ٨ ھ میں اپنے صحابہ کو لے کر مکہ معظمہ پہنچے اور مکہ معظمہ فتح ہوگیا۔ کافروں کا دوسرا فریق وہ تھا جن سے صلح کا معاہدہ ایک خاص میعاد کے لیے کیا گیا تھا وہ لوگ اپنے معاہدہ پر قائم تھے۔ نقض عہد نہیں کیا تھا جیسے قبیلہ بنی ضمرہ اور قبیلہ بنی مدلج (یہ دونوں قبیلے بنی کنانہ میں سے تھے) ان سے جتنی مدت کے لیے صلح ہوئی تھی سورة برأت کے نزول کے وقت اس کے اختتام میں چند ماہ باقی تھے۔ مشرکین کا تیسرا فریق وہ تھا جن سے کسی مدت کے تعین کے بغیر معاہدہ ہوا تھا اور چوتھا فریق وہ تھا جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا۔ پہلا فریق : یعنی قریش مکہ جنہوں نے معاہدہ حدیبیہ کو توڑ دیا تھا وہ تو کسی رعایت اور مہلت کے مستحق نہ تھے ان کو بلا مہلت ہی جزیرہ عرب سے نکال دینا یا قتل کردینا درست تھا لیکن پھر بھی اشہر الحرام کا زمانہ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ رعایت کی گئی کہ اشہر الحرام میں ان سے تعرض نہ کیا جائے اور اشہر الحرام گزر جانے کے بعد ان کے قتل کا حکم دیا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اگر یہ کفر سے توبہ کرلیں اور اسلام کے کام کرنے لگیں (جس میں نمازیں پڑھنا اور زکوٰتیں ادا کرنا سب سے زیادہ اہم ہے) تو نہ انہیں قتل کریں نہ قید کریں کیونکہ وہ اب اپنے ہوگئے۔ دوسرا فریق : وہ تھا جن سے کسی خاص میعاد کے لیے صلح کا معاہدہ کیا گیا تھا وہ اس پر قائم رہے نقض عہد نہ کیا تو ان کے بارے میں یہ حکم دیا (فَاَتِمُّوْٓا اِلَیْھِمْ عَھْدَھُمْ ) کہ ان کے معاہدہ کو اس کی مدت تک پورا کرو کیونکہ عہد کی خلاف ورزی اہل ایمان کا طریقہ نہیں ہے۔ جب مقابل فریق اپنا عہد پورا کر رہا ہے تو اہل ایمان تو بطور اولیٰ عہد پورا کرنے کا اہتمام کریں۔ یہ حکم قبیلہ بنی ضمرہ اور بنی مدلج کے متعلق تھا۔ اگر اہل ایمان نقض عہد کریں گے تو تقویٰ کے خلاف ہوگا۔ مومن کا کام ہے کہ تقویٰ اختیار کرے اسی لیے آخر میں فرمایا : (اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ) (بلاشبہ اللہ تقویٰ والوں کو پسند فرماتا ہے) ۔ تیسرا فریق : (جن سے کسی مدت کے تعین کے بغیر معاہدہ ہوا تھا) اور چوتھا فریق (جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا) ان کے بارے میں سورة برأت کے شروع سے لے کر (وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ) تک تین آیات میں اعلان فرمایا اور ان کو چار مہینے کی مدت دی گئی اور کافروں سے فرمایا کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ سر زمین عرب میں چار مہینے چلو پھرو اور چار ماہ کے بعد بھی یہ نہ سمجھنا کہ جزیرۃ العرب سے چلے گئے تو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے آزاد ہوجاؤ گے تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے وہ کافروں کو ضرور ذلیل کرے گا۔ الفاظ کا رخ تو ان لوگوں کی طرف ہے جن سے کوئی عہد تھا اور اس کی میعاد مقرر نہ تھی لیکن اس میں وہ لوگ بھی داخل ہوگئے جن سے کچھ بھی معاہدہ نہ تھا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

1: سورة توبہ۔ ربط : سورة انفال میں مشرکین سے جہاد کرنے کا اجمالاً حکم دیا گیا اور قوانین جہاد کی تعلیم دی گئی۔ نیز حکم صادر کیا گیا کہ اگر جہاد میں مسلمانوں کی فتح ہوجائے تو جو مال غنیمت ہاتھ آئے اس کی تقسیم اللہ کے حکم کے مطابق کریں۔ اور اس میں نزاع واختلاف نہ کریں۔ مال غنیمت کے مصارف کی بھی تفصیل کی گئی۔ سورة توبہ میں اعلان جہاد کا اعادہ کیا گیا۔ اور تفصیل سے بتایا کہ کن کن لوگوں سے جہاد کرنا ہے۔ یعنی جو لوگ ڑی اللہ کی نذریں دیتے اور غیر اللہ کے لیے تحری میں کرتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام، بزرگانِ دین کو متصرف و کارساز سمجھتے ہیں۔ اور اللہ کی تحریمات کو باقی نہیں رکھتے۔ ان کے ساتھ اعلانِ جنگ کردو۔ سورة انفال میں بھی اگرچہ قتال کا حکم بالاجمال موجود ہے مگر وہاں مقصود قوانین جنگ اور مصارفِ غنیمت کا بیان ہے۔ اور سورة توبہ میں مقصود اعلانِ جنگ کا حکم ہے۔ اس لیے اس مضنو یعنی قتال دی سبیل اللہ کو اس میں تفصیل سے ذکر کیا گیا۔ یہ تو سورة توبہ کا ماقبل سے معنوی ربط ہے۔ اسمی ربط یہ ہے کہ مشرکین سے اعلان جنگ کردو اور فتح کے بعد حاصل ہونے والے انفال کو اللہ کے حکم کے مطابق تقسیم کرو لیکن “ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوْا الصَّلٰوةَ ”(رکوع 2) اگر وہ شرک سے توبہ کرلیں۔ اسلام لے آئیں اور اسلام کے احکام پر عمل کرنے لگیں تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ پھر ان سے جہاد مت کرو۔ خلاصہ :۔ سورة توبہ کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ ابتداء سے لے کر رکوع نمبر 5 کے آخر تک “ لَا يَھْدِ 5ْ الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ” تک ہے اور دوسرا حصہ رکوع 6 کی ابتداء “ يَا اَيُّھَا الَّذيْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا الخ ” سے لے کر “ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ ” (رکوع 15) تک ہے۔ اور “ يَا اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوْا الَّذيْنَ يَلُوْنَکُمْ ” سے آخر سورت تک مضامین سورت کا اعادہ ہے۔ پہلے حصے میں بد عہدی کرنیوالے مشرکین سے اعلان براءت، مشرکین کے ساتھ اعلان جنگ، مشرکین سے جنگ کرنے کے بارے میں شبہات کا جواب جو ان کے ساتھ قتال کرنے کے موانع تھے اور مشرکین سے قتال کرنے کے اسباب ووجوہ مذکور ہیں۔ اور دوسرے حصے میں منافقین پر زجریں، اور مومنین کے لیے ترغیب الی القتال ہے۔ دوسرے حصے کے آخر میں “ مَا کَانَ للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا الخ ” سے فرمایا مشرکین سے جہاد جاری رکھو۔ اور تمہارے جو متعلقین حالت کفر میں مرچکے ہیں یا جن کے دلوں پر مہر جباریت لگ چکی ہے ان کے لیے دعائے مغفرت بھی کرو اگرچہ وہ نہایت قریبی رشتہ دار ہوں۔ پہلا حصہ : پہلے حصے کی ابتداء میں “ بَرَآءَ ةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ الخ ” میں بد عہدی کرنے والے مشرکین سے اعلانِ براءت ہے۔ یعنی جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ تھا مگر انہوں نے معاہدہ توڑ دیا تم بھی معاہدے سے اعلان براءت کردو اور سارے ملک میں اس اعلان کی چار ماہ تک خوب اشاعت کرو اور پھر حج کے موقع پر بھی اس اعلان کو دہراؤ۔ “ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰھَدْتُّمْ الخ ” سے ان مشرکین کو مستثنی کردیا گیا جنہوں نے اپنا عہد نہیں توڑا اور تمہارے خلاف دشمن کی مدد نہیں کی ان سے اپنا عہد قائم رکھو اور میعاد معاہدہ کے اختتام تک ان سے تعرض مت کرو۔ جب اشہر حرم گذر جائیں تو عہد توڑنے والے مشرکین جہاں کہیں بھی مل جائیں انہیں قتل کر ڈالو۔ “ وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ ” سے پناہ مانگنے والے مشرکین کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ “ کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَھْدٌ الخ ”(رکوع 2) یہ مانع اول کا جواب ہے۔ مانع یہ تھا کہ ان مشرکین سے تو معاہدہ کیا گیا ہے ان سے جہاد کیونکر جائز ہے۔ جواب دیا گیا کہ جب انہوں نے عہد توڑ دیا تو اب مانع باقی نہ رہا۔ اب ان سے جہاد کرو۔ “ مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا الخ ”(رکوع 3) یہ مانع دوم کا جواب ہے۔ مانع دوم یہ تھا کہ مشرکین تو بڑے نیک کام کر رہے ہیں۔ بیت اللہ کی تعمیر میں حصہ لے رہے ہیں اور حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں فرمایا کفر وشرک کی حالت میں اعمال صالحہ کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ اعمال رائیگاں ہیں۔ اعمال کی قبولیت کا مدار ایمان پر ہے اور وہ ایمان سے خالی ہیں۔ اس کے بعد “ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا الخ ” میں مہاجرین اور مجاہدین کے لیے بشارت اخروی ہے۔ “ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا الخ ”(رکوع 3) یہ تیسرے مانع کا جواب ہے یعنی مشرکین سے تو قریبی رشتہ داریاں ہیں ان سے جنگ کرنے سے قطع رحمی ہوگی۔ فرمایا اگر اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلے میں تمہیں رشتہ داریاں اور مالی منافع زیادہ عزیز ہیں تو پھر تم بھی اللہ کے عذاب کا انتظار کرو۔ اس کے بعد “ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰهُ الخ ” (رکوع 4) بشارت دنیوی ہے۔ “ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً الخ ” یہ چوتھے مانع کا جواب ہے۔ یعنی اگر مشرکین سے جہاد کی صورت میں کاروبار تباہ ہونے اور مالی پریشانیوں کا اندیشہ ہو تو اس کی پرواہ نہ کرو۔ اللہ تمہیں فراخی سے دولت عطا فرمائے گا۔ “ قَاتِلُوْا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ الخ ” یہاں سورة انفال کے دعوے کو تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کن لوگوں کے ساتھ قتال کرنا ہے اور ان لوگوں سے قتال کے اسباب وو جوہ کیا ہیں۔ یعنی جو لوگ اللہ کی توحید اور پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان نہیں لاتے اور غیر اللہ کو متصرف و کارساز سمجھ کر ان کے لیے تحری میں کرتے اور نذریں دیتے ہیں اور اللہ کی تحریمات کو باقی نہیں رکھتے ان سے جہاد کرو وہ خواہ مشرکین عرب ہوں یا یہود اور نصاریٰ “ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِر ” یہ قتال کی پہلی وجہ ہے۔ یعنی اللہ پر، اللہ کے سول پر اور قیامت پر ان کا ایمان نہیں۔ دوسری وجہ “ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٗهُ وَرَسُوْلُهٗ ” وہ محرمات الٰہیہ مثلاً غیر اللہ کی نذر ونیاز کو حرام نہیں سمجھتے۔ تیسری وجہ “ وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصَارٰي الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰه ”(رکوع 5) ۔ یہود حضرت عزیر کو اور عیسائی حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور نائب متصرف سمجھتے ہیں۔ چوتھی وجہ “ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا الخ ” انہوں نے اپنے مولویوں، پیروں، گدی نشینوں اور حضرت مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا کارساز بنا رکھا ہے۔ پانچویں وجہ قتال “ يَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ والرُّھْبَانِ الخ ” یہود و نصاریٰ کے بہت سے علماء اور پیر و فقیر لوگوں کو اللہ کی راہ (راہ توحید) سے روکنے اور ناجائز ہتھکنڈوں سے لوگوں کا مال بٹورتے ہیں۔ چھٹی وجہ قتال “ اِنَّ عِدَّ ةَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا الخ ” اللہ تعالیٰ نے روز اول سے مہینوں کی تعداد بارہ مقرر کی اور ان میں سے چار مہینوں کو قابل احترام ٹھہرایا مگر ان مشرکین نے ان میں اپنی طرف سے رد و بدل کردیا وہ عزت والے مہینوں میں جنگ و قتال کر کے ان کی جگہ دوسرے مہینوں کو عزت والے قرار دے کر ان میں جنگ نہ کرتے۔ جن مشرکین نے اشہر حرم کا احترام باقی نہیں رکھا ان سے بھی قتال کرو۔ دوسرا حصہ :“ يَا اَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ الخ ” (رکوع 6) بیان دعویٰ کے بعد مومنوں کے لیے ترغیب الی القتال، منافقین اور ان مومنوں کے لیے جو جہاد میں شریک نہیں ہوئے زجر وتوبیخ کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں سے “ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ” تک ترغیب الی القتال ہے۔ دوسرے حصے میں صحابہ کرام کی تین اور منافقین کی چار جماعتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ صحابہ کی تین جماعتیں (1) وہ مہاجرین وانصار جو جان و دل سے جنگ تبوک میں شریک ہوئے اور جہاد کیا۔ آیات ذیل میں ان کے فضائل اور ان کے لیے بشارتیں مذکور ہیں۔ “ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤِمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ” تا “ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ” (رکوع 9) ، “ لٰکِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَه ” تا “ ذٰلِکَ الْفَوْزُالْعَظِیْمُ ” (رکوع 11) ، “ وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يُّؤمِنُ بِاللّٰهِ ” (رکوع 12) تا “ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ” (رکوع 13) ، “ اِنَّ اللّٰه اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ ” تا “ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ” (رکوع 14) ، “ لَقَدْ تَابَ اللّٰهُ عَلَی النَّبِيِّ وَالْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنصَارِ ” تا “ اِنَّهٗ بِھِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ” (2) وہ پانچ صحابہ کرام جو مخلص مؤمن تھے مگر جہاد میں شریک نہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے کو ستونوں سے باندھ لیا اور گڑ گڑا کر توبہ کی۔ اللہ نے ان کو توبہ قبول فرما لی۔ “ وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِھِمْ ” تا “ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ” (رکوع 13) میں ان کا ذکر ہے۔ (3) ۔ وہ تین صحابہ جو قدیم الایمان اور نہایت مخلص تھے اور سستی کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہوئے اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واپسی پر کوئی عذر نہیں تراشا۔ بلکہ اپنا قصور صاف صاف بیان کردیا ان کو بطور تادیب پچاس دن کی ڈھیل دی اور اس کے بعد ان کی توبہ قبول فرمائی۔ ان کا ذکر ان دو آیتوں میں ہے۔ “ وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبَھُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ” (رکوع 13) اور “ وَ عَلَی الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا ” تا “ اِنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ” (رکوع 14) منافقین کی حسب ذیل چار جماعتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ (1) ۔ وہ منافقین جو جہاد میں شریک نہ ہوئے اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جہاد سے واپسی پر جھوٹے بہانے تراشنا شروع کیے۔ حسب ذیل مقامات میں ان کے احوال وقبائح مذکور ہیں۔ “ لَوْ کَانَ عَرَضاً قَرِیْباً ” (رکوع 6) تا “ اِنَّ اللّٰهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ ” (رکوع 8) ۔ “ فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِھِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ ”(رکوع 11) تا “ فَھُمْ لَایَفْقَھُوْنَ ” (رکوع 11) ، “ وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ ” (رکوع 13) تا “ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ” رکوع 12 ۔ (2) ۔ وہ منافقین جو جہاد میں شریک نہ ہوئے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے مسجد ضرار تعمیر کی۔ ان کا ذکر “ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَاراً ” (رکوع 13) تا “ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ” (رکوع 13) میں ہے۔ (3) ۔ وہ منافقین جو ازراہِ نفاق جہاد میں شریک ہوئے مگر راستہ میں مسلمانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کرتے رہے۔ ان کا ذکر “ وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ ” تا “ کَانُوْا مُجْرِمِیْن ” (رکوع 8) میں ہے۔ (4) ۔ وہ منافقین جنہوں نےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنگ تبوک سے واپسی پر آپ کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو ان کی ناپاک سازش کی اطلاع دے دی۔ ان کا ذکر “ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْا ” تا “ مِنْ وَّ لِيٍّ وَّ لَا نَصِیْرٌ ” (رکوع 10) میں کیا گیا ہے۔ اس حصے میں ثعلبہ منافق کا واقعہ بھی مذکور ہے جس نےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا عہد کیا تھا مگر عہد پر قائم نہ رہا۔ اس کا واقعہ “ وَ مِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَ اللّٰهَ الخ ” رکوع 10 میں مذکور ہے۔ سورت کے آخری رکوع میں سورت کے تمام مضامین کا بالاجمال اعادہ کیا گیا ہے۔ “ يَا اَيُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوْا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ الخ ” میں حکم قتال کا اعادہ ہے۔ “ لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ الخ ” میں ترغیب اتباع رسول کا اعادہ ہے اور “ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ” میں مسئلہ توحید کا بیان ہے جس کی خاطر جہاد کا حکم دیا گیا۔ 2: حصہ اول : سورة براءت کا پہلا حصہ جو ابتداء سے لے کر رکوع 5 کے آخر یعنی “ وَ اللّٰهُ لَایَھْدِيْ الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ” تک ہے۔ اس میں تین امور مذکور ہیں۔ (1) اعلان براءت از مشرکین۔ (2) جہاد کے چار موانع کا جواب اور (3) مشرکین سے جہاد کرنے کے وجوہ۔ سورة براءت سے پہلے بسم اللہ نہیں لکھی گئی اس کی مختلف وجوہ ذکر کی گئی ہیں، اقرب الی الصواب یہ ہے کہ اس سورت سے پہلے بسم اللہ نازل ہی نہیں ہوئی تھی کیونکہ بسم اللہ امان ہے اور سورة توبہ قتال کا حکم لے کر نازل ہوئی جیسا کہ حضرت علی، محمد بن حنفیہ اور سفیان بن عیینہ سے منقول ہے۔ “ عن علی کرم اللہ تعالیٰ وجھه من ان البسملة امان و براءة نزلت بالسیف و مثله عن محمد بن الحنفیة وسفیان بن عیینة و مرجع ذلک الی انھا لم تنزل فی ھذه السورة کا خوا تھا لما ذکر ” (روح ج 10 ص 41) ۔ مسلمانوں کا مشرکین سے معاہدہ تھا مگر مشرکین اپنے عہد پر قائم نہ رہے اور انہوں نے عہد توڑ ڈالا البتہ بنی ضمرہ اور بنی کنانہ اپنے عہد پر قائم رہے۔ قریش اور ان کے حلیف قبیلہ بنی بکر نے مسلمانوں کے حلیف بنی خزاعہ پر ظالمانہ حملہ کر کے ان کو نقصان پہنچایا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ عہد شکن مشرکین سے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیں اور ان کو چار ماہ کی مہت دیدیں تاکہ اس دوران میں وہ یا تو وطن سے نکل جائیں یا اسلام قبول کرلیں یا پھر جنگ کیلئے تیار ہوجائیں۔ یہ حکم شوال سن 9 ھجری میں نازل ہوا تھا۔ اور چار مہینوں سے شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم مراد ہیں۔ اعلان براءت کے بارے میں فرمایا کہ سارے ملک میں براءت کا عام اعلان کردو اور براءت نامے لکھ کر ملک میں پھیلا دو تاکہ سب کو براءت کا علم ہوجائے۔ “ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِيْ الْکٰفِرِیْنَ ”، “ اَنَّکُمْ ” کی ضمیر منصوب پر معطوف ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

سورة توبہ مدنی ہے اور یہ ایک سو انتیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں۔ 1 حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ سورة براۃ ہے حضرت نے بیان نہیں فرمایا کہ یہ جدا سورت ہے یا اور سورت میں کی آیتیں ہیں سورة کا نشان تھا بسم اللہ نازل نہیں ہوئی اس واسطے اس پر بسم اللہ نہیں اور کسی سورت میں داخل بھی نہیں۔ 12 ۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جانب ان مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کررکھا تھا بری الذمہ ہونا ہے۔