Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 110

سورة التوبة

لَا یَزَالُ بُنۡیَانُہُمُ الَّذِیۡ بَنَوۡا رِیۡبَۃً فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ اِلَّاۤ اَنۡ تَقَطَّعَ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۱۱۰﴾٪  2

Their building which they built will not cease to be a [cause of] skepticism in their hearts until their hearts are stopped. And Allah is Knowing and Wise.

ان کی یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں شک کی بنیاد پر ( کانٹا بن کر ) کھٹکتی رہے گی ہاں مگر ان کے دل ہی اگر پاش پاش ہوجائیں تو خیر اور اللہ تعالٰی بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لااَ يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْاْ رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ... The building which they built will never cease to be a cause of hypocrisy and doubt in their hearts. Because of this awful action that they committed, they inherited hypocrisy in their hearts, just as those who worshipped the calf were inclined to adoring it. Allah said next, ... إِلاَّ أَن تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ ... unless their hearts are cut to pieces. According to Ibn Abbas, Mujahid, Qatadah, Zayd bin Aslam, As-Suddi, Habib bin Abi Thabit, Ad-Dahhak, Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam and several other scholars of the Salaf. until they die, ... وَاللّهُ عَلِيمٌ ... And Allah is All-Knowing, of the actions of His creation, ... حَكِيمٌ All-Wise. in compensating them for their good or evil actions.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

110۔ 1 دل پاش پاش ہوجائیں، کا مطلب موت سے ہمکنار ہونا ہے۔ یعنی موت تک یہ عمارت ان کے دلوں میں مذید شک و نفاق پیدا کرنے کا ذریعہ بنی رہے گی، جس طرح کہ بچھڑے کے پجاریوں میں بچھڑے کی محبت رچ بس گئی تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٣] گو یہ عمارت گرائی جا چکی ہے مگر ان منافقوں کے دلوں میں نفاق کا روگ اس قدر جڑ پکڑ چکا ہے جو کبھی ختم ہی نہیں ہو سکے گا۔ الا یہ کہ ان کے دلوں کے اندر اتنے چھید ہوجائیں کہ جڑ پکڑنے کی گنجائش ہی نہ رہے۔ دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے مراد ان کا مرجانا ہے یعنی مرتے دم تک نفاق ان کے دلوں سے نکل نہیں سکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا يَزَالُ بُنْيَانُھُمُ الَّذِيْ بَنَوْا رِيْبَةً : ” رِيْبَةً “ بےچینی، جیسا کہ حسن بن علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلصِّدْقُ طُمَانِیْنَۃٌ وَالْکِذْبُ رِیْبَۃٌ ) [ أحمد : ١؍٢٠٠، ح : ١٧٢٨۔ ترمذی : ٢٥١٨، و صححہ الألبانی ] ” سچ اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ بےچینی کا باعث ہے۔ “ یعنی یہ مسجد ضرار گرائے جانے کے بعد اس کے بنانے والوں کے دلوں کو بےچین رکھے گی کہ ہمارا نفاق و کفر ظاہر ہوگیا، اب کوئی مسلمان ہمیں دل سے اپنا سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوگا، ان کی یہ حالت موت تک ایسے ہی رہے گی۔ (اِلَّآ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُھُمْ ) کا یہی معنی ہے، نہ ان کا دل نفاق سے پاک ہوگا نہ انھیں اطمینان نصیب ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Then, in the last verse (110), it was said that this building would al-ways keep increasing the doubt and hypocrisy in their hearts unless their hearts are shredded into pieces. The sense is that their doubt, hypocrisy, envy and chagrin would go on increasing right to the end of their life.

آگے فرمایا کہ ان کی یہ تعمیر ہمیشہ ان کے شک اور نفاق کو بڑھاتی ہی رہے گی، جب تک کہ انکے قلوب قطع نہ ہوجائیں یعنی جب تک انکی زندگی ختم نہ ہوجائے ان کا شک و نفاق اور حسد و غیظ بڑہتا ہی رہے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يَزَالُ بُنْيَانُھُمُ الَّذِيْ بَنَوْا رِيْبَۃً فِيْ قُلُوْبِہِمْ اِلَّآ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُھُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝ ١١٠ ۧ زال ( لایزال) مَا زَالَ ولا يزال خصّا بالعبارة، وأجریا مجری کان في رفع الاسم ونصب الخبر، وأصله من الیاء، لقولهم : زَيَّلْتُ ، ومعناه معنی ما برحت، وعلی ذلك : وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود/ 118] ، وقوله : لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة/ 110] ، وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد/ 31] ، فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر/ 34] ، ولا يصحّ أن يقال : ما زال زيد إلّا منطلقا، كما يقال : ما کان زيد إلّا منطلقا، وذلک أنّ زَالَ يقتضي معنی النّفي، إذ هو ضدّ الثّبات، وما ولا : يقتضیان النّفي، والنّفيان إذا اجتمعا اقتضیا الإثبات، فصار قولهم : ما زَالَ يجري مجری (کان) في كونه إثباتا فکما لا يقال : کان زيد إلا منطلقا لا يقال : ما زال زيد إلا منطلقا . ( زی ل ) زالہ یزیلہ زیلا اور مازال اور لایزال ہمیشہ حرف نفی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور یہ کان فعل ناقص کی طرح اپنے اسم کی رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں اور اصل میں یہ اجوف یائی ہیں کیونکہ عربی زبان میں زیلت ( تفعیل ) یاء کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اور مازال کے معنی ہیں مابرح یعنی وہ ہمیشہ ایسا کرتا رہا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَزالُونَ مُخْتَلِفِينَ [هود/ 118] وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ۔ لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ [ التوبة/ 110] وہ عمارت ہمیشہ ( ان کے دلوں میں باعث اضطراب بنی ) رہیگی ۔ وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الرعد/ 31] کافر لوگ ہمیشہ ۔۔۔ رہیں گے ۔ فَما زِلْتُمْ فِي شَكٍّ [ غافر/ 34] تم برابر شبہ میں رہے ۔ اور محاورہ میں مازال زید الا منطلقا کہنا صحیح نہیں ہے جیسا کہ ماکان زید الا منطلقا کہاجاتا ہے کیونکہ زال میں ثبت گی ضد ہونے کی وجہ نفی کے معنی پائے جاتے ہیں اور ، ، ما ، ، و ، ، لا ، ، بھی حروف نفی سے ہیں اور نفی کی نفی اثبات ہوتا ہے لہذا مازال مثبت ہونے میں گان کیطرح ہے تو جس طرح کان زید الا منطلقا کی ترکیب صحیح نہیں ہے اس طرح مازال زید الا منطلقا بھی صحیح نہیں ہوگا ۔ بنی يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس/ 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة/ 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف/ 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات/ 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه . و ( ب ن ی ) بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا } ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے { وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ } ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ { وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا } ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ { لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ } ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ { كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ } ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں :{ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ } ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے ريب فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج/ 5] ، ( ر ی ب ) اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة/ 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٠) ان کی یہ عمارت گرنے کے بعد اس کی حسرت وندامت ان کے دلوں میں ہمیشہ کھٹکتی رہے گی ہاں ان کی دل ہی فنا ہوجائیں تو خیر ! اور اللہ تعالیٰ ان کی مسجد ضرار بنانے اور ان کی نیتوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور اس مسجد کو ختم کروانے اور اس کے جلادینے کا فیصلہ فرمانے میں بڑی حکمت والے ہیں۔ غزوہ تبوک سے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو آپ نے عامر بن قیس (رض) اور مولی مطعم بن عدی (رض) کو روانہ کیا، انہوں نے اس مسجد ضرار کو گرا کر اسے جلا دیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٠ (لاَ یَزَالُ بُنْیَانُہُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَۃً فِیْ قُلُوْبِہِمْ الآَّ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُہُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ ) ان منافقین کے دلوں کے اندر منافقت کی جڑیں اتنی گہری جا چکی ہیں کہ اس کے اثرات کا زائل ہونا اب ممکن نہیں رہا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ اگر کسی کے پورے جسم میں کینسر پھیل چکا ہو تو معمولی آپریشن کرنے سے وہ ٹھیک نہیں ہوسکتا ‘ کیونکہ کینسر کے اثرات تو جسم کے ایک ایک ریشے میں سرایت کرچکے ہیں۔ اب اگر سارے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے تب شاید اس کی جڑوں کو نکالنا ممکن ہو۔ لہٰذا ان منافقین کے دل ہمیشہ شکوک و شبہات کے اندھیروں میں ہی ڈوبے رہیں گے ‘ انہیں ایمان و یقین کی روشنی کبھی نصیب نہیں ہوگی ‘ اِلا یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں۔ اب اگلی دو آیات میں بہت اہم مضمون آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :105 یعنی ان لوگوں کو منافقانہ مکر و دغا کے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر کے اپنے دلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایمان کی صلاحیت سے محروم کر لیا ہے اور بے ایمانی کا روگ اس طرح ان کے دلوں کے ریشے ریشے میں پیوست ہو گیا ہے کہ جب تک ان کے دل باقی ہیں یہ روگ بھی ان میں موجود رہے گا ۔ خدا سے کفر کرنے لیے جو شخص علانیہ بت خانہ بنائے ، یا اس کے دین سے لڑنے کے لیے کھلم کھلا مورچے اور دمدمے تیار کرے ، اس کی ہدایت تو کسی نہ کسی وقت ممکن ہے ، کیونکہ اس کے اندر راستبازی ، اخلاص اور اخلاقی جرأت کا وہ جوہر تو بنیادی طور پر محفوظ رہتا ہے جو حق پرستی کےلیے بھی اسی طرح کام آسکتا ہے جس طرح باطل پرستی کے کام آتا ہے ۔ لیکن جو بزدل جھوٹا اور مکار انسان کفر کےلیے مسجد بنائے اور خدا کے دین سے لڑنے کے لیے خدا پرستی کا پرفریب لبادہ اوڑھے ، اس کی سیرت کو تو نفاق کی دیمک کھا چکی ہوتی ہے ۔ اس میں یہ طاقت ہی کہاں باقی رہ سکتی ہے کہ مخلصانہ ایمان کا بوجھ سہار سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

85: جو عمارت ان منافقین نے بنائی تھی، اس کے لیے آیت 107 میں تو یہ بتانا مقصود تھا کہ یہ عمارت انہوں نے مسجد کے نام پر بنائی تھی اور ان کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ مسجد ہے، اس لیے وہاں اس عمارت کے واسطے مسجد کا لفظ استعمال کیا گیا تھا، لیکن اس آیت میں اس کی حقیقت بتائی گئی ہے، اس لیے یہاں اللہ تعالیٰ نے اسے عمارت کہا ہے، مسجد نہیں کہا، کیونکہ حقیقت میں وہ مسجد تھی ہی نہیں۔ بنانے والے حقیقت میں کافر تھے۔ اور بنانے کا مقصد اسلام دشمنی تھی۔ اسی لیے اسے جلایا گیا۔ ورنہ اگر کوئی مسلمان مسجد بنائے تو اسے جلانا جائز نہیں ہے۔ اور اس آیت میں جو فرمایا گیا ہے کہ یہ عمارت ان منافقوں کے دل میں برابر شک پیدا کرتی رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمارت کے جلائے جانے سے ان منافقین پر بھی یہ بات کھل گئی کہ ان کی شرارت کا راز مسلمانوں پر ظاہر ہوگیا ہے۔ اب وہ اپنے مستقبل کے بارے میں مسلسل شک میں مبتلا رہیں گے کہ نجانے مسلمان اب ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں۔ ان کی بےیقینی کی یہ کفییت اسی وقت ختم ہوگی جب ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے یعنی ان کو موت آجائے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:110) لایزال۔ مضارع منفی۔ واحد مذکر غائب۔ زوال مصدر۔ فعل ناقص ہے۔ دوام اور تسلسل کا معنی دیتا ہے۔ ہمیشہ رہیگا۔ بنیانھم۔ ان کی عمارت۔ بنوا۔ انہوں نے بنائی۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ بناء مصدر۔ بنی مادہ۔ ریبۃ۔ ریب سے اسم ہے۔ راب یریب (باب ضرب) شبہ و گمان میں ڈالنا۔ کسی سے کوئی ناپسند چیز دیکھنا۔ ریبۃ شک و شبہ۔ تہمت۔ بےچینی۔ بےیقینی۔ ریب جمع۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کا معنی شک و نفاق کیا ہے۔ کلبی کے نزدیک حسرت و ندامت ہے السدی اور المبرد نے اس کا مطلب غم و غصہ لیا ہے ۔ یعنی یہ کیفیات ان کے منصوبہ کے ناکام ہوجانے اور جس عمارت پر انہوں نے اتنی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اس کے منہدم ہوجانے کی وجہ سے ہمیشہ ان کے دل کو بےچین اور مضطرب رکھیں گی۔ الا ان۔ بجز اس کے کہ۔ مگر یہ کہ۔ تقطع۔ پارپ پارہ ہوجائیں۔ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ تقطع (تفعل) سے مضارع۔ واحد مؤنث غائب۔ اصل میں تقتطع تھا۔ ایک تاء حذف ہوگئی۔ الا ان تقطع قلوبہم۔ ای تجعل قلوبھم قطعاً وتفرق اجزاء اما بالسیف واما بالموت والمعنی ان ھذہ الریبۃ باقیۃ فی قلوبہم الیٰ ان یموتوا علیہا۔ یہاں تک کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ اور ان کے اجزاء بکھر جائیں۔ خواہ تلوار سے یا موت سے۔ مطلب یہ کہ یہ بےچینی۔ بےیقینی۔ اضطراب و حسرت و ندامت کی کیفیت ان کے دلوں پر طاری رہیگی۔ حتی کہ وہ اسی حالت میں مرجائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی انہوں نے یہ عمارت بنا کر اللہ و رسول کی دشمنی کا کام کیا ہے جس کا یہ اثر ہوا کہ ان کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے جب تک موت انہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ کر دے، نفاق جم گیا۔ پس ” ریب “ سے مرد نفاق ہے۔ کذا فی الکبیر

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ الا ان تقطع قلوبھم۔ کا یہ مطلب نہیں کہ بعد فنا وموت کے راحت ہوجائے گی بلکہ یہ محاورات میں کنایہ ہے دوام حسرت سے۔ 3۔ اوپر متخلفین عن الجہاد کی مذمت تھی آگے مجاہدین کی فضیلت پھر ان میں سے خاص کاملین کی جن میں دوسرے اوصاف ایمانیہ بھی ہوں مناقبت مذکور ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

بیشک ان کے دلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے تو بھی ان کے دلوں سے کفر نکلنے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ یہ اسی حالت میں مریں گے۔ لہٰذا ان کو اپنی حکمت کے مطابق مہلت دیے جارہا ہے۔” شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ “ کے الفاظ استعمال فرما کر اس مسجد کے گرانے کا واضح اشارہ دیا گیا جس بناء پر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے گرانے اور جلانے کا حکم صادر فرمایا۔ مسائل ١۔ ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا چاہیے۔ ٢۔ ایمان اور نفاق کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ ٣۔ ایمان ایک عمارت کی طرح ہے جس کی بنیاد پختہ ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ٥۔ جس عمل کی بنیاد نفاق پر ہو خواہ کتنا ہی اچھا لگے وہ جہنم کا سبب ہوگا۔ ٦۔ اعتقادی منافق مرتے دم تک نفاق سے چھٹکارا نہیں پاتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ظالم اور فاسق کو ہدایت نہیں دیتا : ١۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (التوبۃ : ١٠٩) ٢۔ یہودیوں اور عیسائیوں سے دوستی کرنے والا انہی میں سے ہے اس کو اللہ ہدایت نہیں دیتا۔ ( المائدۃ : ٥١) ٣۔ اللہ منافقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (الصف : ٥) ٤۔ اللہ منافقوں کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المنافقون : ٦) ٥۔ جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ برے لوگ ہیں۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (الجمعۃ : ٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لا یزال بینانھم الذی بنوا ریبۃ فی قلوبھم وہ عمارت جو انہوں نے بنائی ‘ ہمیشہ ان کے دلوں میں (کانٹا بن کر) کھٹکتی رہے گی۔ ریبۃً سے مراد ہے : شک و نفاق ‘ یعنی یہ عمارت ان کے دلوں میں شک و نفاق کے ترقی کرنے کا سبب بنی رہے گی اور وہ برابر یہی خیال کرتے رہیں گے کہ ہم نے یہ بھلائی کا کام کیا ‘ جیسے حضرت موسیٰ کی قوم کے دلوں میں بچھڑے کی محبت رچ گئی تھی (اسی طرح اس مسجد ضرار کی محبت ان منافقوں کے دلوں میں جم گئی ہے) حضرت ابن عباس نے یہی تفسیر فرمائی ہے۔ کلبی نے ریبۃً کا ترجمہ کیا : حسرت و پشیمانی ‘ کیونکہ ان لوگوں کو اس مسجد کی تعمیر پر پشیمانی ہوگئی تھی۔ سدی نے ریبۃً کا معنی کیا : غیظاً ‘ یعنی اس عمارت کو ڈھا دینا ہمیشہ ان کے دلوں کے اندر غصہ اور غضب کو بھڑکاتا رہے گا۔ الا ان تقطع قلوبھم ہاں ان کے دل پارہ پارہ ہوجائیں (تو شک و نفاق ان کے دلوں سے ختم ہوجائے گا) یعنی نفاق برابر ہر وقت ان کے دلوں میں جما رہے گا ‘ مگر اس وقت ختم ہوگا کہ ان کے دل ہی پھٹ جائیں اور ایسا وقت آجائے کہ ان کے دلوں میں جاننے کی صلاحیت ہی نہ رہے۔ بعض علماء نے کہا : دلوں کے پارہ پارہ ہونے سے مراد ہے : منافقوں کا قتل ہونا ‘ یا قبر میں چلا جانا ‘ یا دوزخ میں پہنچ جانا۔ ضحاک اور قتادہ نے کہا : مرتے دم تک یہ شک میں پڑے رہیں گے ‘ مر جائیں گے تو شک دور ہوگا اور حقیقت کا یقین ہوگا۔ وا اللہ علیم حکیم۔ اور اللہ (ان کی نیتوں کو) جاننے والا ہے (اور مسجد ضرار کو گرا دینے کا جو حکم اس نے دیا ‘ اس کی مصلحت سے واقف ہے) ۔ اہل سیر نے بیان کیا ہے کہ بعثت کے گیا رھویں سال حج کے زمانہ میں رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) باہر نکلے ‘ یعنی مکہ سے برآمد ہوئے اور قبائل عرب پر اپنی نبوت پیش کی۔ ایک روز گھاٹی کے پاس تھے کہ قبیلۂ خزرج کی ایک جماعت سے ملاقات ہوگئی۔ حضور ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے پوچھا : آپ لوگ کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : خزرج کے لوگ ہیں۔ فرمایا : کیا (کچھ دیر) بیٹھ سکتے ہو ‘ میں تم سے کچھ بات کروں گا۔ خزرجیوں نے جواب دیا : بیشک۔ چناچہ حضور ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے ساتھ سب بیٹھ گئے۔ آپ نے ان کو اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی ‘ اسلام پیش کیا اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ اللہ کی قدرت کہ یہودی ان لوگوں کے ساتھ ان بستیوں میں رہتے تھے اور اہل کتاب تھے۔ اوس و خررج تعداد میں یہودیوں سے زائد تھے مگر سب بت پرست تھے۔ یہودیوں سے جب ان لوگوں کا کچھ جھگڑا ہوا تھا تو یہودی کہتے تھے : ایک نبی کی بعثت اب ہونے ہی والی ہے ‘ اس کی بعثت کا زمانہ قریب آپہنچا ہے۔ ہم اس کے ساتھ مل کر تم کو قتل کریں گے۔ جب رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے ان لوگوں سے بات کی تو وہ آپ کے اوصاف کو پہچان گئے (کیونکہ یہودیوں کی زبانی آنے والے پیغمبر کے اوصاف کا ان کو علم پہلے ہی سے تھا) اور آپس میں کہنے لگے : دیکھو ! یہودی ان کے پاس تم سے پہلے نہ پہنچنے پائیں۔ چناچہ سب نے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی دعوت کو قبول کرلیا اور قبیلۂ خزرج کے چھ آدمی مسلمان ہوگئے : اسعد بن زرارہ ‘ عوف بن حارث جن کی والدہ کا نام عفراء تھا ‘ رافع بن مالک ‘ قطبہ بن عامر بن جدیدہ ‘ عقبہ بن عامر بن نابی ‘ جابر بن عبد اللہ بن رباب۔ بعض روایات میں جابر کی جگہ عبادہ بن صامت کا نام آیا ہے۔ بعض نے سات آدمیوں کے مسلمان ہونے کی صراحت کی ہے ‘ گویا جابر اور عبادہ دونوں کو جمع کیا ہے۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : کیا تم میری پشت پناہی کرو گے کہ میں اپنے رب کا پیام پہنچا سکوں۔ ان لوگوں نے عرض کیا : (یا رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ! ) پچھلے سال ہی جنگ بعاث ہمارے آپس میں ہوچکی ہے ‘ اس روز ہم نے آپس میں خوب کشت و خون کیا تھا ۔ اگر ایسی حالت میں آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں گے تو ہماری پوری جماعت آپ کے ساتھ نہ ہو سکے گی۔ اب تو آپ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم لوگ اپنے قبائل میں لوٹ کر چلے جائیں ‘ ممکن ہے کہ اللہ ہماری باہم صلح کرا دے اور ہم ان لوگوں کو اسی چیز کی دعوت دیں جس چیز کی طرف آپ نے ہم کو بلایا ہے۔ امید ہے کہ اس وقت اللہ سب کو آپ کی حمایت کرنے پر متفق کر دے گا اور اگر سب آپ کے پیرو ہوگئے تو پھر کوئی آپ کے خلاف نہ جائے گا۔ آئندہ سال حج کے زمانہ میں ہم آپ سے پھر ملیں گے۔ اس گفتگو کے بعد یہ حضرات مدینہ کو لوٹ گئے اور مدینہ کو واپس ہونے کے بعد انصاریوں کے ہر گھر میں رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کا تذکرہ پھیل گیا ‘ کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میں آپ کا ذکر نہ ہوتا۔ پھر اگلے سال یعنی بعثت کے بارہویں برس بارہ یا گیارہ آدمیوں نے آ کر گھاٹی میں رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے ملاقات کی۔ یہ گھاٹی دوسری گھاٹی تھی۔ ان بارہ میں پانچ تو جابر کے علاوہ وہی تھے جن کا ذکر اوپر کردیا گیا ہے اور سات یہ تھے : عوف بن حارث کا بھائی معاذ بن حارث ‘ ذکوان ‘ عبادہ بن صامت ‘ یزید بن ثعلبہ ‘ عباس بن عبادہ بن فضلہ۔ یہ پانچوں خزرجی تھے اور دو شخص قبیلۂ اوس کے تھے : بنی الاشہل کا ابو الہثیم بن تیہان اور عویمر بن ساعدہ۔ سورة ممتحنہ میں) عورتوں کی بیعت کی جو تفصیل مذکور ہے ‘ اسی اقرار کے ساتھ ان سب نے بیعت کی یعنی یہ کہا کہ ہم شرک نہیں کریں گے ‘ چوری نہیں کریں گے الخ۔ جب سب مسلمان ہوگئے تو مدینہ کو لوٹ گئے۔ مدینہ پہنچ کر اسعد بن زرارہ ان تمام لوگوں کو مدینہ میں جمع کرنے لگے جو مسلمان ہوتے گئے۔ قبائل اوس و خزرج نے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو عرضداشت بھیجی کہ اب کوئی ایسا آدمی ہمارے پاس بھیج دیجئے جو ہم کو قرآن پڑھا دے۔ حضور ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے حضرت مصعب بن عمیر کو بھیج دیا۔ اس وقت تک مدینہ میں چالیس مسلمان تھے ‘ حضرت مصعب کی کوشش سے بہت لوگ مسلمان ہوگئے۔ سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر بھی مسلمان ہوگئے اور ان دونوں بزرگوں کے مسلمان ہونے سے بنی عبدالاشہل کے تمام آدمی کیا مرد کیا عورتیں ‘ سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ پھر بعثت کے تیرہویں سال تیسری گھاٹی کے موقع پر ایام تشریق میں مدینہ والے حاضر ہوئے اور ستر یا تہتر مردوں اور دو عورتوں نے بیعت کی۔ حاکم نے پچھتر آدمی ہونے کی صراحت کی ہے۔ ابن جریر نے بروایت محمد بن کعب قرظی ‘ نیز بغوی نے ذکر کیا ہے کہ عبد اللہ بن رواحہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ! آپ جو چاہیں اپنے رب کے اور اپنے لئے ہم سے شرطیں لے لیجئے (ہم سب کچھ ماننے کو تیار ہیں) حضور ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : میں اپنے رب کے متعلق تو یہ شرط پیش کرتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرنا ‘ کسی چیز کو اس کا شریک نہ قرار دینا (یعنی کسی چیز کی پوجا نہ کرنا) اور اپنے لئے یہ شرط پیش کرتا ہوں کہ جس چیز سے تم اپنی جانوں اور مالوں کی حفاظت کرو ‘ اس سے میری بھی حفاظت کرنا (یعنی اپنی جان و مال کی طرح میری حفاظت کرنا) انصار نے کہا : اگر ہم نے ایسا کرلیا تو ہم کو کیا ملے گا ؟ فرمایا : جنت۔ انصار نے کہا : یہ نفع کا سودا ہے ‘ اب ہم اس سودے کو نہ پھیریں گے نہ پھیرنے دیں گے (یا نہ پھیرنے کی خواہش کریں گے) اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (لَا یَزَالُ بُنْیَانُھُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَۃً فِیْ قُلُوْبِھِمْ ) کہ انہوں نے جو یہ عمارت بنائی ہمیشہ ان کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی کیونکہ جس غرض سے مسجد بنائی تھی پوری نہ ہوئی پھر وہ منہدم کردی گئی، اور جلا دی گئی اور بنانے والوں کی رسوائی بھی ہوئی۔ یہ ان کے دلوں کا کانٹا ہے جو ہمیشہ چبھتا رہے گا۔ (اِلَّآ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُھُمْ ) مگر یہ کہ ان کے دلوں میں ٹکڑے ہوجائیں یعنی وہ مرجائیں گے تو یہ دلوں کی کھٹک ختم ہوگی، نہ خود رہیں گے نہ کھٹک رہے گی۔ (البتہ آخرت میں جو عذاب ہوگا وہ اپنی جگہ مستقل ہے) (وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ) اور اللہ علم والا ہے اور حکمت والا ہے۔ فائدہ : جو مسجد تقویٰ کی بنیاد پر بنائی گئی اس سے کون سی مسجد مراد ہے ؟ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مسجد مراد ہے۔ لیکن بعض روایات میں ہے کہ اس سے مسجد نبوی مراد ہے۔ صحیح مسلم (ص ٤٤٧ ج ١) میں ہے کہ حضرت ابو سعید خدری (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ گھر میں تشریف رکھتے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ دونوں مسجدوں میں سے وہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی۔ آپ نے کچھ کنکریاں اپنی مٹھی میں لیں اور ان کو زمین پر مار دیا اور فرمایا کہ مسجد نبوی یہ میری مسجد ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰیسے مسجد نبوی مراد ہے۔ محققین نے فرمایا ہے اس میں کوئی تعارض کی بات نہیں دونوں مسجدیں (مسجد قباء اور مسجد نبوی) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بنائی ہوئی ہیں۔ اور دونوں کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ آپ کا یہ فرمانا کہ اس سے میری مسجد مراد ہے۔ اس میں اس کی نفی نہیں ہے کہ مسجد قباء کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ فائدہ : اگر کوئی شخص دور حاضر میں تفریق بین المسلمین یار یاو نمود کے لیے اور ضد کی وجہ سے کوئی مسجد بنا دے تو چونکہ اس کی نیت خیر نہیں اس لیے اس مسجد بنانے کا ثواب نہ ملے گا۔ بلکہ وہ اپنی بری نیت کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔ لیکن چونکہ یقینی طور پر دلوں کا حال بندوں کو معلوم نہیں اس لیے اس کو گرانا اور جلانا جائز نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق مسجد بنانے والے سے معاملہ فرمائے گا۔ اور اس مسجد کے آداب و احکام وہی ہوں گے جو دیگر مساجد کے ہیں۔ اگر کوئی شخص ریا و نمود اور ضد وعناد کے لیے مسجد بنائے تو بہتر ہے کہ اس میں نماز نہ پڑھی جائے تاکہ اسے رسوائی کی سزا مل جائے لیکن اگر کسی نے اس میں نماز پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی۔ فائدہ : شیطان بہت چالاک ہے۔ وہ اپنے لوگوں کو متعدد طریقوں سے استعمال کرتا ہے۔ دین اور اہل دین کے خلاف کسی کو کھڑا کرنا ہو تو دین سے متعلقہ چیزوں ہی کو سامنے لاتا ہے اور اسی کو ذریعہ بنا کر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور اسلام کے نقصان پہنچانے کی تدبیر کرتا ہے۔ منافقین نے جو کفر اور نفاق اور اسلام کے خلاف محاذ آرائی اور جنگی تیاری کے لیے مرکز بنایا اس کا نام انہوں نے مسجد تجویز کردیا اور سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس میں نماز پڑھنے کی درخواست کی تاکہ اس کے مسجد ہونے میں عامۃ المسلمین کو شبہ نہ رہے۔ اور جیسے خوشی کے ساتھ مسجد قباء میں نماز پڑھتے ہیں اسی طرح ان کی اس مسجد ضرار میں نماز پڑھتے رہیں۔ مقصد یہ تھا کہ اس تدبیر سے ہماری دشمنی پوشیدہ رہے گی اور ہماری نیتوں پر پردہ پڑا رہے گا اور اپنے مقصد بد میں چپکے چپکے آگے بڑھتے رہیں گے۔ یہود و نصاریٰ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ایسی تدبیریں کرتے رہتے ہیں اور بہت سے نام نہاد مسلمانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔ اس کی سب سے پہلی کڑی شیعیت کی بنیاد ہے۔ جب یہود کو اسلام کی ترقی بہت زیادہ کھلنے لگی تو انہوں نے پیش رفت کو روکنے کے لیے اور حضرات صحابہ کرام (رض) سے اور خاص کر حضرات شیخین حضرت ابوبکر و حضرت عمر (رض) سے کاٹنے کے لیے ایک شوشہ چھوڑا۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ (رض) کو ان کے والد ماجد کی میراث نہیں دی گئی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ اس میں حضرت سیدہ فاطمہ کی ہمدردی سامنے رکھی گئی اس لیے بہت سے سیدھے سادھے لوگ ان کے جال میں پھنس گئے اور حضرت صدیق اکبر (رض) کے مخالف ہوگئے کہ انہوں نے میراث نہیں دی۔ جیسے مسجد ضرار والوں نے اپنے مرکز فساد کو مسجد کے نام سے موسوم کیا جو اسلامی شعائر میں سے ہے اسی طرح یہود نے اس موقع پر حضرت سیدنا فاطمہ (رض) کی مظلومیت کو سامنے رکھ کر شیعیت کا آغاز کیا۔ ہر مسلمان کو آنحضرت سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل اولاد سے قلبی تعلق ہے اس لیے اہل بیت کی ہمدردی اور غم خواری کا دم بھرنا سیدھے سادھے مسلمانوں کو راہ حق سے ہٹانے کے لیے کار گر ہوگیا۔ اس کے بعد شیعیت کے علم برداروں نے یہ نکتہ نکالا کہ حضرت مرتضیٰ علی (رض) خلافت کے مستحق تھے انہیں خلافت نہیں دی گئی حضرت علی (رض) سے تمام مومنین کو محبت ہے اس لیے ان کی ذات کو سامنے رکھ کر یہودیوں نے اپنا کام اور آگے بڑھایا۔ پھر استاد یعنی یہودی خواہ الگ ہوگئے ہوں لیکن جن لوگوں کو گمراہ کردیا تھا ان کے اتنے زیادہ فرقے بنے کہ ان کا شمار بھی دشوار ہے۔ حتیٰ کہ ایک فرقہ حضرت علی کی الوہتو کا بھی قائل ہوگیا اور پھر طرح طرح کے فتنے اٹھے اور ہر جماعت کے قائد نے اپنے پیش نظر کوئی دینی بات ہی رکھی اور اپنے اوپر ایسا لیبل لگایا جس کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں (نام دین کا ہو اور کام کفر کا) دور حاضر میں ایسی بہت سی جماعتیں ہیں جن میں سے ایک جماعت نے اپنا نام اہل قرآن رکھا ہے۔ یہ لوگ اپنے خیال میں قرآن کو اکابر اہل علم سے زیادہ جانتے ہیں۔ حالانکہ عربی کے صیغے بھی نہیں بتاسکتے اور کسی آیت کی ترکیب نحوی سے بھی واقف نہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے سامنے خدمت قرآن کا لیبل لگا کر سامنے آئے ہیں جس کی وجہ سے احادیث شریفہ کی حجیت کے بھی منکر ہیں اور نمازوں کی فرضیت کے بھی اور ضروریات دین کو نہیں مانتے۔ ہیں کافر لیکن قرآن دانی کا دعویٰ کرتے ہیں اور سادہ مسلمانوں کو (جن کا علماء سے ربط نہیں ہے) قرآن کے نام پر اپنی گمراہی کے جال میں پھانس لیتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ آپ کی محبت ہر مومن کے دل میں ہے اس لیے حُبِّ نبی کا نام سن کر بہت سے لوگ ان کے ہمنوا ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں کی جھوٹی محبت کا یہ عالم ہے کہ قرآن کو بھی جھٹلا دیتے ہیں اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کو بھی نہیں مانتے۔ حب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عنوان ان لوگوں کا ظاہری لیبل ہے جس سے عامۃ الناس کو متاثر کرتے ہیں اور اپنے ایجاد کردہ عقائد اور اعمال پر جمنے کے لیے قرآن و حدیث کی تصریحات کو جھٹلا دیتے ہیں۔ اسی سلسلہ کی ایک یہ بات ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر نہیں تھے۔ حالانکہ قرآن کریم میں آپ کو بشر فرمایا ہے آپ نے خود فرمایا کہ میں بشر ہوں لیکن یہ لوگ آیات اور احادیث کو نہیں مانتے اور عجیب بات یہ ہے کہ محبت کے دعویدار بھی ہیں۔ یہ عجیب محبت ہے کہ جس سے محبت ہے اس کے ارشادات سے انحراف ہے اسی طرح کی بہت سی باتیں مستشرقین نے ریسرچ کے نام پر پھیلا رکھی ہیں اور ان کے لیے نام نہاد مسلمانوں کو استعمال کرتے ہیں نام تحقیق کا اور کام اسلامیات سے منحرف ہونے کا اور دوسروں کا منحرف کرنے کا۔ اعاذنا اللہ تعالیٰ من جمیع أھل الفتن۔ انگریزوں کو اپنے اقتدار میں یہ خوف لا حق ہوا کہ کہیں مسلمان جہاد کے لیے کھڑے نہ ہوجائیں اس لیے انہیں اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اسلام ہی کی راہ سے جہاد کو منسوخ کرائیں۔ جہاد اسلام کا بہت بڑا عمل ہے۔ اپنے وفا دار نام نہاد علماء سے منسوخ کراتے تو کون مانتا اس لیے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ایک شخص سے نبوت کا دعویٰ کرایا پھر اس سے جہاد منسوخ ہونے کا اعلان کرا دیا وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح مسلمان جہاد کو منسوخ مان لیں گے۔ انہیں یہ پتہ نہ تھا کہ مسلمان انگریزوں کے بنائے ہوئے نبی کو کافر قرار دیدیں گے۔ اور اس کی جھوٹی نبوت کو ماننے سے انکار کردیں گے۔ بہر حال انہوں نے اپنا یہ حربہ استعمال کیا یعنی ایک شخص سے نبوت کا اعلان کرا کے جہاد منسوخ کرانے کی سعی لا حاصل کی۔ بہت سے لوگ قبروں کے مجاور بنے ہوئے ہیں شرک اور بدعات میں مبتلا ہیں، عوام کو قبروں پر بلاتے ہیں، چڑھاوے چڑھواتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کے اس طریقہ کار کو غیر شرعی بتاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ اولیاء اللہ کو نہیں مانتے، ان لوگوں کے اولیاء اللہ کے ناموں کو جعل سازی اور کسب دنیا کا ذریعہ بنارکھا ہے اور اس طرح کے بہت سے نعرے ہیں جو دشمنان دین، دین کے نام پر لگاتے رہتے ہیں۔ اعاذنا اللہ منھم۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

106:“ لَا یَزَالُ بُنْیَانَھُمُ الخ ”۔ “ رَيْبَةً ” سے شک و نفاق مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے (روح، قرطبی) مسج ضرار بنا کر منافقین بہت خوش ہوئے لیکن جبحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے گرادینے کا حکم صادر فرمایا تو اس سے ان کا کفر ونفاق اور زیادہ ہوگیا اس طرح مسجد ضرار دینی فائدے کا باعث ہونے کے بجائے ان کے دلوں میں زیادتی نفاق کا سبب بنی اور اب ان کے دلوں کو نفاق کی بیماری سے کبھی نجات نہیں مل سکے گی الا یہ کہ ان کے دلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بےحس اور بےشعور کردیا جائے۔ “ لَا یَزَالُ ھدمه سبب شک و نفاق زائدا علی شکھم و نفاقھم لما غاظھم من ذلک و عظم علیھم ” (مدارک ج 2 ص 112) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

110 ان لوگوں کی عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں موجب شک و نفاق رہے گی اور ہمیشہ ان کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی یہاں تک کہ ان کے دل ہی پارا پارا ہوجائیں اور ان کے قلوب ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور فنا ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا بڑی حکمت والا ہے۔ یعنی اس عمارت سے جو ارمان وابستہ تھے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ ہوا راز فاش ہوگیا سو الگ اور اس کو منہدم کرادیا گیا اور جلا دی گئی اور آج تک وہ کوڑے کا ایک ڈھیر ہے اس لئے جب تک کہ مرنہ جائیں ان کے دل میں حسرت ہی رہے گی اور ہمیشہ یہ لوگ نفاق میں مبتلا رہیں گے… حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں۔ یعنی اس عمل بد کا اثر یہ ہوا کہ ہمیشہ ان کے دل میں نفاق رہے گا۔ 12