Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 115

سورة التوبة

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوۡمًۢا بَعۡدَ اِذۡ ہَدٰىہُمۡ حَتّٰی یُبَیِّنَ لَہُمۡ مَّا یَتَّقُوۡنَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۱۵﴾

And Allah would not let a people stray after He has guided them until He makes clear to them what they should avoid. Indeed, Allah is Knowing of all things.

اور اللہ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت کرکے بعد میں گمراہ کردے جب تک کہ ان چیزوں کو صاف صاف نہ بتلا دے جن سے وہ بچیں بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز کو خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Recompense comes after Proof is established Allah says; وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُم مَّا يَتَّقُونَ إِنَّ اللّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ And Allah will never lead a people astray after He has guided them until He makes clear to them what they should avoid. Verily, Allah is the All-Knower of everything. Allah describes His Honorable Self and just judgment in that He does not lead a people astray but after the Message comes to them, so that the proof is established against them. For instance, Allah said, وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَـهُمْ And as for Thamud, We showed and made clear to them the path of truth ... (41:17) Mujahid commented on Allah's saying; وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ (And Allah will never lead a people astray after He has guided them), "Allah the Mighty and Sublime is clarifying to the believers about not seeking forgiveness for the idolators in particular, and in general, it is an exhortation to beware of disobeying Him, and encouragement to obey Him. So either do or suffer." Ibn Jarir commented, "Allah says that He would not direct you to misguidance, so that you invoke Him for forgiveness for your dead idolators, after He gave you guidance and directed you to believe in Him and in His Messenger! First, He will inform you of what you should avoid, so that you avoid it. Before He informs you that this action is not allowed, you would not have disobeyed Him and fallen into what He prohibited for you (if you indulge in this action). Therefore, in this case, He will not allow you to be misguided. Verily, guidance or misguidance occurs after commands and prohibitions are established. As for those who were neither commanded nor prohibited, they can neither be obedient nor disobedient in doing what they were neither ordered nor prohibited from doing." Allah said, إِنَّ اللّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ يُحْيِـي وَيُمِيتُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ

معصیت کا تسلسل گمراہی کا بیج ہے ۔ اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ وہ کریم و عادل اللہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد حجت پوری کئے بغیر گمراہ نہیں کرتا ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے بینائی کے باجود اندھے پن کو ترجیح دی ۔ اوپر کی آیت کی مناسبت کی وجہ سے مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرنے کے بارے میں خاص طور پر اور اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت کے چھوڑنے اور ہر طاعت کے بجا لانے میں عام طور پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے بیان فرما چکا ہے ۔ اب جو چاہے کرے ، جو چاہے چھوڑے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ مومنوں کو مشرک مردوں کے استغفار سے روکے بغیر ہی ان کے اس استغفار کی وجہ سے انہیں اپنے نزدیک گمراہ بنا دے ۔ حالانکہ اس سے پیشتر وہ انہیں ایمان کی راہ پر لاچکا ہے ۔ پس پہلے اپنی کتاب کے ذریعے انہیں اس سے روک رہا ہے ۔ اب جو مان گیا اور اللہ کی ممانعت کے کام سے رک گیا اس پر اس سے پہلے کئے ہوئے کام کی وجہ سے گمراہی لازم نہیں ہو جاتی ۔ اس لیے کہ طاعت و معصیت حکم و ممانعت کے بعد ہوتی ہے ۔ اس سے پہلے مطیع اور عاصی ظاہر نہیں ہوتا ۔ پہلے ہی ان چیزوں کو وہ ظاہر فرما دیتا ہے جس سے بچانا چاہتا ہے ۔ وہ پورا باخبر اور سب سے بڑھ کر علم والا ہے ۔ پھر مومنین کو مشرکین سے اور ان کے ذی اختیار بادشاہوں سے جہاد کی رغبت دلاتا ہے ۔ اور انہیں اپنی مدد پر بھروسہ کرنے کو فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کا ملک میں ہی ہوں ۔ تم میرے دشمنوں سے مرعوب مت ہونا ۔ کون ہے جو ان کا حمایتی بن سکے؟ اور کون ہے جو ان کی مدد پر میرے مقابلے میں آسکتا ہے ؟ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ اپنے اصحاب کے مجمع میں بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کیا جو میں سنتا ہوں تم بھی سن رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت ہمارے کان میں کوئی آواز نہیں آرہی ۔ آپ نے فرمایا میں آسمانوں کا چرچرانا سن رہا ہوں درحقیقت میں ان کا چرچرانا ٹھیک بھی ہے ۔ ان میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں اور قیام میں نہ ہو ۔ کعب احبار فرماتے ہیں ساری زمین میں سوئی کے ناکے برابر کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو جو یہاں کا علم اللہ کی طرف نہ پہنچاتا ہو ۔ آسمان کے فرشتوں کی گنتی زمین کے سنگریزوں سے بڑی ہے ۔ عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کے ٹخنے اور پنڈلی کے درمیان کا فاصلہ ایک سو سال کا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

115۔ 1 جب اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے حق میں مغفرت کی دعا کرنے سے روکا تو بعض صحابہ کو جنہوں نے ایسا کیا تھا یہ اندیشہ لا حق ہوا کہ ایسا کرکے انہوں نے گمراہی کا کام تو نہیں کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تک بچنے والے کاموں کی وضاحت نہیں فرما دیتا، اس وقت تک اس پر مؤاخذہ بھی نہیں فرماتا نہ اسے گمراہی قرار دیتا ہے البتہ جب ان کاموں سے، جن سے روکا جا چکا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کردیتا ہے۔ اس لئے جن لوگوں نے اس حکم سے قبل اپنے فوت شدہ مشرک رشتے داروں کے لئے مغفرت کی دعائیں کیں ہیں ان کا مؤاخذہ نہیں ہوگا کیونکہ انہیں مسئلے کا اس وقت علم ہی نہ تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٢] شرعی حکم نہ جاننے والا جاہل ہے گمراہ نہیں :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ لوگوں پر پوری طرح واضح کردیتا ہے کہ انہیں کن کن باتوں سے بچنا ضروری ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمام حجت بھی ہے اور ہدایت بھی۔ اب جو لوگ اللہ کی ہدایت کی راہ چھوڑ کر غلط راستہ پر چل پڑتے ہیں یعنی گمراہی کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو اللہ انہیں اسی راہ پر چلنے کی توفیق دیتا ہے کیونکہ جبراً کسی کو ہدایت کی راہ پر چلائے رکھنا اللہ کا دستور نہیں ہے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس بات کی ممانعت صراحتاً نازل نہ ہوئی ہو اس کا کرنے والا نہ گمراہ ہوتا ہے اور نہ گنہگار۔ گویا اس بات کا اشارہ کردیا کہ جو لوگ ممانعت سے پہلے مشرکوں کے لیے استغفار کرچکے ہیں ان پر مؤاخذہ نہیں لیکن حکم مل جانے کے بعد ایسا کرنا گمراہی ہے۔ اسی طرح اگر کسی حکم شرعی کا پتہ ہی نہ ہو تو اسے جاہل تو کہہ سکتے ہیں۔ گمراہ نہیں کہہ سکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَان اللّٰهُ لِيُضِلَّ قَوْمًۢا : اس میں ان مسلمانوں کو تسلی دی ہے جنھوں نے اوپر کی آیت کے نزول سے پہلے اپنے کافر رشتہ داروں کے لیے دعائے مغفرت کی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کے مسلمان ہونے کے بعد گمراہ ہونے کا حکم نہیں لگاتا جب تک اس کے لیے یہ واضح نہ کر دے کہ فلاں کام منع ہے اس سے بچ جاؤ، اگر پھر بھی وہ اس پر اصرار کرے تو گناہ گار بھی ہے اور شامت اعمال کے نتیجے میں اس کا رخ بھی گمراہی کی طرف پھیر دیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا جانتے ہوئے نافرمانی گمراہی کا سبب بن سکتی ہے، اگر ابھی کسی کام سے منع ہی نہیں کیا گیا تو اس کے ارتکاب پر اللہ تعالیٰ کبھی گرفت کرنے والا نہیں، کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ کوئی بھی کام کرنے والا اسے لاعلمی میں کر رہا ہے یا دیدہ و دانستہ، لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ نے پہلے جو استغفار مشرکین کے لیے کیا اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور اللہ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت کئے پیچھے گمراہ کردے جب تک کہ ان چیزوں کو صاف صاف نہ بتلادے جن سے وہ بچتے رہیں ( پس جب ہم کو (مسلمانوں کو) ہدایت کی اور اس کے قبل استغفار للمشرکین کی ممانعت نہ بتلائی تھی تو اس کے کرنے سے تم کو یہ سزا نہیں دی جائے گی کہ تم میں گمراہی کا مادہ پیدا کردیا جاوے) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں ( سو وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بدون ہمارے بتلائے ہوئے ایسے احکام کو کوئی نہیں جان سکتا، اس لئے ان افعال سے مضرت بھی نہیں پہنچنے دیتے اور) بلاشبہ اللہ ہی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین میں وہی جلاتا اور مارتا ہے ( یعنی ہر طرح کی حکومت اور قدرت اسی کے لئے خاص ہے اس لئے جو چاہے حکم دے سکتا ہے، اور جس ضرر سے چاہے بچا سکتا ہے) اور تمہارا اللہ کے سوا نہ کوئی یار ہے نہ مددگار ہے ( بلکہ وہی یار و مددگار ہے، اس لئے قبل نہی کو ضرر سے بچاتا ہے، اور اگر تم نے بعد نہی اطاعت نہ کی تو اور کوئی بچانے والا نہیں ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ اللہُ لِيُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ ہَدٰىھُمْ حَتّٰي يُبَيِّنَ لَھُمْ مَّا يَتَّقُوْنَ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝ ١١٥ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ ( ضل)إِضْلَالُ والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ. والضّرب الثاني : أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] ، وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين : أحدهما أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ. والثاني من إِضْلَالِ اللهِ : هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] . الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٥) اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت اور ایمان کے بعد گمراہی میں ڈال دے یا یہ کہ کسی قوم کے عمل کو باطل قرار دے دے جب تک کہ ناسخ ومنسوخ کو واضح طور پر نہ بتلا دے، بیشک اللہ تعالیٰ ناسخ ومنسوخ کو اچھی طرح جاننے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٥ (وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوْمًام بَعْدَ اِذْ ہَدٰٹہُمْ حَتّٰی یُبَیِّنَ لَہُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ ط) یہ گویا معافی کا اعلان ہے ان لوگوں کے لیے جو اس حکم کے نازل ہونے سے پہلے اپنے مشرک والدین یا رشتہ داروں کے لیے دعا کرتے رہے تھے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :114 یعنی اللہ پہلے یہ بتا دیتا ہے کہ لوگوں کو کن خیالات ، کن اعمال اور کن طریقوں سے بچنا چاہیے ، پھر جب وہ باز نہیں آتے اور غلط فکری و غلط کاری ہی پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی ہدایت و رہنمائی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور اسی غلط راہ پر انہیں دھکیل دیتا ہے جس پر وہ خود جانا چاہتے ہیں ۔ یہ ارشاد ایک قاعدہ کلیہ بیان کرتا ہے جس سے قرآن مجید کے وہ تمام مقامات اچھی طرح سمجھے جا سکتے ہیں جہاں ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فعل بتایا ہے ۔ خدا کا ہدایت دینا یہ ہے کہ وہ صحیح طریق ، فکر و عمل اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے لوگوں کے سامنے واضح طور پر پیش کر دیتا ہے ، پھر جو لوگ اس طریقے پر خود چلنے کے لیے آمادہ نہ ہوں انہیں اس کی توفیق بخشتا ہے ۔ اور خدا کا گمراہی میں ڈالنا یہ ہے کہ جو صحیح طریق فکر و عمل اس نے بتا دیا ہے اگر اس کے خلاف چلنے ہی پر کوئی اصرار کرے اور سیدھا نہ چلنا چاہے تو خدا اس کو زبردستی راست بیں اور راست رو نہیں بنایتا بلکہ جدھر وہ خود جانا چاہتا ہے اسی طرف اس کو جانے کی توفیق دے دیتا ہے ۔ اس خاص سلسلہ ٔ کلام میں یہ بات جس مناسبت سے بیان ہوئی ہے وہ پچھلی تقریر اور بعد کی تقریر پر غور کرنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے ۔ یہ ایک طرح کی تنبیہ ہے جو نہایت موزوں طریقہ سے پچھلے بیان کا خاتمہ بھی قرار پا سکتی ہے اور آگے جو بیان آرہا ہے اس کی تمہید بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

92: یعنی اب تک چونکہ واضح طور پر یہ حکم نہیں دیا گیا تھا کہ کسی مشرک کے لیے استغفار جائز نہیں، اس لیے جن لوگوں نے اس سے پہلے کسی مشرک کے لیے استغفار کیا، ان پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٥۔ ١١٦۔ جب اس سے پہلے کی آیت اتری اور لوگوں کو منع کیا گیا کہ مشرکوں کے لئے مغفرت نہ چاہو خواہ وہ تمہارا رشتہ کنبہ والے ہی کیوں نے ہوں تو جو لوگ مغفرت چاہتے تھے ان کے دل میں خوف ہوا کہ کبھی ہم پر عذاب نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور فرمایا کہ اللہ بےانصاف نہیں ہے جب کسی قوم کو ہدایت کرچکا تو اب گمراہ نہیں کریگا جب تک انہیں یہ نہ بتلاوے کہ کن کن باتوں سے بچنا چاہئے مجاہد کے قول کے موافق آیتوں کی تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ جن لوگوں نے ممانعت کے حکم کے نازل ہونے سے پہلے اپنے مشرک ماں باپ یا اور مشرک رشتہ داروں کے حق میں مغفرت کی دعا کی تھی ان کے انجان ہونے کے عذر کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قبول ١ ؎ فرمایا۔ اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جب ایک امر کی ممانعت شرعی تم کو معلوم نہیں تھی اور اسی لاعلمی کی حالت میں تم اس کو کر بیٹھے اور اب تمہارے دل میں اس کا پچھتاوا ہے کہ ایسا کام ہم نے کیوں کیا تو اس تمہارے دلی پچھتاوے کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے کیونکہ کوئی ظاہری باطنی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے اس لئے تم کو تسلی دی جاتی ہے ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٣٩٥ و تفسیر الدر المنشور ج ٣ ص ٢٨٦۔ کہ انجان آدمی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بےراہ نہیں قرار پاتا بلکہ بےراہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے کہ مناہی کے بعد اس کام کو کرے جس سے اس کو منع کیا گیا ہے جو لوگ اپنے مشرک ماں باپ یا مشرک رشتہ داروں کے حق میں مغفرت کی دعا کرتے تھے اگرچہ بعضے سلف کے قول کے موافق آیت کے باقی ٹکڑے کی تفسیر یہ ہے کہ اس ممانعت کے حکم سے پہلے ان میں سے بعضے لوگ جو فوت ہوگئے تھے اور ان کے زندہ رشتہ داروں کو اپنے ان مرے ہوئے رشتہ داروں کے عذاب میں گرفتار ہوجانے کا اندیشہ تھا ان کے حق میں یہ فرمایا ہے کہ آسمان و زمین کی بادشاہت اور ہر ایک کی زیست کے زمانہ کا اور مرنے کے بعد کا سب انتظام اور اللہ کے ہاتھ ہے انجانی سے جو کوئی کچھ کرے اس کا اور شرع الٰہی کی مناہی کو ٹال کر جو کوئی کچھ کرلے اس کا ان سب کا اللہ تعالیٰ خود انصاف سے فیصلہ کریگا اس میں اندیشہ کا کسی کو کچھ موقع نہیں لیکن قرآن شریف کے اوپر کے مضمون سے لگتی ہوئی تفسیر آیت کے اس ٹکڑے کی یہ ہے کہ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کی ہے جس کی بادشاہت میں ہر ایک کا مارنا اور جلانا بھی داخل ہے اب اس نے اپنے علم ازلی کے موافق جن لوگوں کو شرک کی حالت میں دنیا سے اٹھایا ہے ان کے حق میں کسی کی دعا مغفرت کچھ کار گر نہیں ہوسکتی کیونکہ اس نے اپنی بادشاہت میں یہ حکم دے رکھا ہے کہ کسی طرح مشرک کی مغفرت نہیں ہے آخر کو فرمایا کہ شرع الٰہی کے احکام کی پابندی ہر شخص کو ضرور ہے کیونکہ ان احکام کی نافرمانی کے وبال میں اگر اللہ تعالیٰ نے پکڑلیا تو سوا اللہ کے ذات کے ایسا کوئی حامی مددگار نہیں ہے کہ بغیر مرضی الٰہی کے اس گرنت سے کسی کو چھوڑا سکے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کی عمر ساٹھ برس کو پہنچ جاوے وہ اللہ تعالیٰ نے روبرذ شرع کی باتوں کی انجانی کا عذر نہیں پیش کرسکتا ١ ؎ اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں طرح طرح کے جدید احکام نازل ہوتے رہتے تھے اس لئے اس وقت انجانی کی صورت وہ تھی جو اس آیت میں ہے اب شریعت کے کامل ہوجانے کے بعد چھوٹی عمر میں کوئی شخص مرجاوے تو اس کو احکام شرع کی انجانی کے عذر کا موقع ملے تو ملے جس شخص احکام شرع سے انجان رہا تو یہ انجانی اس کی غفلت سے ہے اس کا انجانی کا عذر مقبول نہ ہوگا۔ ١ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٩٥٠ باب من بلغ سیتن سنتہ الخ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:115) ما کان اللہ لیضل۔ اللہ کا دستور نہیں۔ اللہ کا طریقہ نہیں کہ وہ گمراہ کر دے۔ ما یتقون۔ جن سے ان کو بچنا چاہیے۔ جن سے وہ بچیں۔ ما موصلہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1۔ اس میں ان مسلمانوں کو تسلی دی ہے جنہوں نے اوپر کی آیت کے نزول سے پہلے اپنے کافر کافر رشتہ داروں کے لئے دعائے مغفرت کی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کے گمراہ ہونے کا حکم نہیں لگاتا جب تک کہ عنہی عنہ کام کی وضاحت نہ کردے۔ اگر اس وضاحت قبل کوئی برے کام کا ارتکاب کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا آنحضرت اور مسلمانوں پر اس استغفار سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ۔2۔ اسی واسطے تمہیں منع کردیا۔ (موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح :- آیت نمبر 115 تا 116 اللہ تعالیٰ جو ہم سب کا خلاق ومالک ہے جس کے ہاتھ میں زندگی اور موت کا اختیار ہے اس کا طریقہ اور سنت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے وہ بےنیاز ہے اس کو دنیا میں کسی کی عبادت و بندگی کی ضرورت نہیں ہے انسان ہر قدم پر اس کی عنایتوں کا محتاج ہے اور وہ ہر آن اپنے بندوں پر متوجہ رہتا ہے اس کی سب سے بڑی عنایت یہ ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کر کے اس کو زندگی کے جنگل میں یوں ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کی ہدایت اور راہنمائی کا پورا پورا سامان کردیا تاکہ وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے راستہ اور روشنی حاصل کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے ابتدائے کائنات سے اپنے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ قائم فرمایا۔ تمام انبیاء کرام اور اس کے رسول (علیہ السلام) اللہ کے احکامات کے مطابق اللہ کے بندوں کی رہنمائی فرماتے رہے۔ آخر میں فخر کائنات خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی کتاب قرآن مجید لے کر تشریف لائے اور قیامت تک انسانوں کی رہنمائی فرما گئے۔ چونکہ آپ کے بعد کسی نبی اور رسول کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لئے اب یہ ذمہ داری امت محمدیہ کی ہے کہ وہ اس پیغام الہی کو لے کر دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جائے (اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ ہدایت پر لگاتی رہے۔ ) الحمد للہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت نے قرآن و سنت کی اس روشنی کو پھیلانے اور دنیا کی گمراہیوں کو دور کرنے میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا اور انشاء اللہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرما دیا ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اور اس کا سب سے بڑا کرم یہ ہے کہ وہ انسانوں کی ہدایت کا سامان کرتا رہتا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی گم راہی کے راستے پر چلتا ہے تو یہ اس کی غلطی ہے جس کی سزا اس کو ضرور ملے گی۔ اللہ اپنے بندوں پر نہ تو ظلم و زیادتی کرتا ہے اور نہ ان کو گمراہ کرتا ہے لیکن اگر وہ کسی فرد یا قوم کے اعمال کی گرفت کرنا چاہے تو پھر وہ فرد اور قوم نہ تو اس کی گرفت سے بچ سکتی ہے اور اگر وہی کسی کو بھٹکا دے تو ساری دنیا مل کر بھی اس کو راہ ہدایت پر نہیں لگا سکتی۔ فرمایا کہ زندگی اور موت اس کے ہاتھ میں ہے مراد یہ ہے کہ اس کائنات میں ہدایت و رہنمائی اور زندگی اور موت سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے وہ اللہ کسی کا محتاج نہیں ہے لیکن ساری کائنات قدم قدم پر اس کی مہربانیوں کی محتاج ہے۔ اس بات کو قرآن مجید میں کئی جگہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے وہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا۔ وہ کسی کے لئے گڑھے نہیں کھودتا۔ یہ انسان کی نادانی ہے کہ وہ خود اپنے اوپر ظلم و زیادتی کرتا ہے اور اپنے لئے خود ہی گڑھے کھود کر اس میں جا گرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پچھلی دو آیات کے مفہوم کا تتمہ اور ایک غلط فہمی کا ازالہ : اس سے پہلے دو آیات میں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع کیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں صحابہ کرام (رض) کے دلوں میں یہ خدشہ اور غلط فہمی پیدا ہوئی کہ جو صحابہ اپنے مشرک عزیز و اقرباء کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہے ہیں ان کا کیا ہوگا۔ اس شبہ کے ازالہ کے لیے یہ آیات نازل ہوئیں کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ان کی ہدایت پا جانے کے بعد گمراہ نہیں کرتا اور نہ ہی ہدایت واضح کرنے سے پہلے لوگوں کی گمراہی پر گرفت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے اور زمین و آسمان میں اسی کی حقیقی اور دائمی بادشاہی ہے۔ وہی موت وحیات پر اختیار رکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوسکتا۔ یہاں ولی اور نصیر کی صفات ذکر کر کے واضح کیا ہے کہ مشرکوں کے ساتھ قلبی تعلق یا کسی مفاد کی بنیاد پر ان سے روحانی رشتہ استوار نہ کرو۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد اور خیر خواہی نہ کرے تو زمین و آسمان میں کوئی بھی تمہاری نصرت و مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ یہ بات پہلے بھی واضح کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب ہدایت اور گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے تو اس کا یہ معنی نہیں ہو تاکہ اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً ہدایت دیتا یا گمراہ کرتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ہدایت اور گمراہی بھی اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جس طرح زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا ربِّ کریم سے ہدایت کی طلب اور گمراہی سے بچنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ہدایت اور گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرنے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے گمراہ رہنے دیتا ہے اور جو ہدایت کا طالب ہے اور اس کی جستجو کرتا ہے اسے وہ ہدایت کی توفیق دیتا ہے۔ جو ہدایت یافتہ ہو اسے اللہ تعالیٰ کبھی گمراہ نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اسے ہدایت پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ (اللَّہُمَّ اہْدِنِی فیمَنْ ہَدَیْتَ وَعَافِنِی فیمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِی فیمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ ) [ رواہ ابوداؤد : باب القنوت فی الوتر ] ” اے اللہ مجھے ان کے ساتھ ہدایت دے جن کو تو نے ہدایت دی، اور مجھے عافیت دے ان میں جن کو تو نے عافیت دی اور کارساز بن میرا ان میں جن کی تو نے کارسازی کی اور جو کچھ مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے ہدایت اور گمراہی کے راستے واضح کردیے ہیں۔ ٤۔ زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی حکومت ہے۔ ٥۔ موت وحیات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی موت وحیات کا مالک ہے : ١۔ اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (التوبۃ : ١١٦) ٢۔ اللہ ہی معبود برحق ہے وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ (الحج : ٦) ٣۔ اللہ ہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہی تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٥٦) ٤۔ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (الاعراف : ١٥٨) ٥۔ اللہ وہ ذات ہے جو زندہ کرتی اور مارتی ہے دن اور رات کا مختلف ہونا اسی کے حکم سے ہے (المومنون : ٨٠) ٦۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ تمہارا اور تمہارے آباء و اجداد کا رب ہے۔ (الدخان : ٨) ٧۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (الحدید : ٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما کان اللہ لیضل قومًا بعد اذھدھم حتی یبین لھم ما یتقون اور ہدایت یاب کردینے کے بعد اللہ کسی قوم کو اس وقت تک گمراہ نہیں قرار دیتا جب تک وہ چیزیں ان کو نہ بتا دے جن سے ان کو پرہیز رکھنا چاہئے۔ یعنی اسلام کی ہدایت دینے کے بعد اللہ کسی قوم کو گمراہ نہیں قرار دیتا اور نہ ان کا کسی فعل پر مؤاخذہ کرے گا تاوقتیکہ ان کے سامنے کھول کر وہ امور نہ بیان کر دے جن سے ان کو بچنا لازم ہے اور جن کو آئندہ اختیار کرنے کے بعد وہ گمراہ قرار پانے کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ بعض علماء نے کہا : رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے جو اپنے چچا کے متعلق فرمایا تھا کہ جب تک مجھے ممانعت نہ ہوجائے میں آپ کیلئے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا۔ اس آیت میں رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کیلئے قول مذکور کا عذر بیان فرما دیا (کہ یہ قول رسول اور وعدۂ استغفار ممانعت دعا سے پہلے تھا ‘ اسلئے ناقابل مؤاخذہ ہے) یہ بھی کہا گیا ہے کہ ممانعت سے پہلے جن لوگوں نے اپنے مشرک آباؤ اجداد کیلئے دعائے مغفرت کی تھی ان کو اس آیت میں معذور ‘ ناقابل مؤاخذہ قرار دینا مقصود ہے۔ مجاہد نے کہا : آیت میں مشرکوں کیلئے دعائے مغفرت کرنے والے مؤمنوں کا حکم تو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے لیکن حکم عام ہے (قبل از نزول حکم) ہر معصیت وطاعت کو شامل ہے (یعنی نزول حکم سے پہلے کا کوئی فعل قابل مؤاخذہ نہیں۔ یہ ضابطہ عمومی ہے ‘ مشرکوں کیلئے قبل از ممانعت دعائے مغفرت کرنے کی ہی اس میں خصوصیت نہیں ہے) ۔ ان اللہ بکل شیء علیم۔ بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔ یعنی کس نے ناواقفیت اور عدم علم کی وجہ سے ایسا کیا اور کس نے سرکشی اور تمرد کے جذبہ کے زیر اثر کیا ‘ کون گمراہ قرار دیئے جانے کا مستحق ہے اور کون اس کا مستحق نہیں ہے ‘ اللہ ان باتوں کو خوب جانتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد اللہ تعالیٰ گمراہ نہیں کرتا صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اس میں مسلمانوں کو تسلی دی ہے جنہوں نے ممانعت نازل ہونے سے پہلے مشرکین کے لیے استغفار کیا تھا۔ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مہربان ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ اہل ایمان کی مذمت اور مواخذہ فرمائے کہ تم نے مشرکین کے لیے استغفار کیوں کیا جبکہ یہ استغفار کرنا ممانعت نازل فرمانے سے پہلے تھا، جن لوگوں نے استغفار کیا ہے اللہ تعالیٰ ان کے اس عمل کو گمراہی قرار نہیں دے گا۔ ہاں جب بات واضح طور پر بیان کردی گئی تو اس کی خلاف ورزی باعث مذمت اور سبب مواخذہ ہوگی (اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے) وہ جانتا ہے کہ کس نے ممانعت نازل ہونے سے پہلے کوئی عمل کیا اور کس نے ممانعت نازل ہونے کے بعد خلاف ورزی کی۔ جن کاموں پر گرفت ہوسکتی ہے وہ کام وہی ہیں جن کی پہلے اللہ جل شانہٗ کی طرف سے واضح طور پر ممانعت کردی جاتی ہے۔ اس کو (حَتّٰی یُبَیّنَ لَھُمْ مَّا یَتَّقُوْنَ ) میں بیان فرمایا ہے۔ ممانعت کے بعد جب بندے خلاف ورزی کرتے ہیں تو مذمت اور مواخذہ کے مستحق ہوجاتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

110:“ وَ مَاکَانَ اللّٰه الخ ” اللہ تعالیٰ منکرین کے دلوں پر صرف اسی صورت میں مہر جباریت لگاتا اور ان کو عذاب میں صرف اسی وقت مبتلا کرتا ہے جبکہ ہدایت کی راہ خوب واضح کردے اور نیکی اور بدی کو کھول کر بیان کردے۔ اور منکرین جان بوجھ کر محض ضد وعناد کی وجہ سے انکار کریں۔ “ و ما کان اللہ لیوقع الضلالة فی قلوبهم بعد الھدي حتی یکون منھم الامر الذي به یستحق العذاب ” (کبیر ج 4 ص 755) “ اِنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْکُ السَّمٰوٰت الخ ” زمین و آسمان کا مالک اور ان میں مختار و متصرف صرف اللہ ہی ہے اور کوئی نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی کسی کا ناصر اور یار و مددگار ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

115 اور اللہ تعالیٰ کا دستور نہیں اور خدا تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد اور صحیح راستہ بتانے کے بعد گمراہ کردے اور اس قوم کو گمراہ قرار دے دے جب تک کہ ان پر وہ باتیں کھول واضح طور پر نہ بیان کردے جن باتوں سے ان کو بچنا اور پرہیز کرنا ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر شئے سے بخوبی واقف ہے یعنی ہدایت پانے کے بعد احکام کی اطلاع ضروری ہے ورنہ جائز ناجائز میں امتیاز کیسے کیا جاسکتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اسی واسطے تم کو منع کردیا۔