Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 124

سورة التوبة

وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ اَیُّکُمۡ زَادَتۡہُ ہٰذِہٖۤ اِیۡمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَزَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ﴿۱۲۴﴾

And whenever a surah is revealed, there are among the hypocrites those who say, "Which of you has this increased faith?" As for those who believed, it has increased them in faith, while they are rejoicing.

اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا سو جو لوگ ایمان والے ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Faith of the Believers increases, while Hypocrites increase in Doubts and Suspicion Allah said, وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ ... And whenever there comes down a Surah, then among the hypocrites are, ... فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـذِهِ إِيمَانًا ... some of them say: "Which of you has had his faith increased by it!" They say to each other, who among you had his faith increased by this Surah (from the Qur'an). Allah the Exalted said, ... فَأَمَّا الَّذِينَ امَنُواْ فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ As for those who believe, it has increased their faith, and they rejoice. This Ayah is one of the mightiest evidences that faith increases and decreases, as is the belief of most of the Salaf and later generations of scholars and Imams. Many scholars said that there is a consensus on this ruling. We explained this subject in detail in the beginning of the explanation of Sahih Al-Bukhari, may Allah grant him His mercy. Allah said next,

فرمان الہٰی میں شک و شبہ کفر کا مرض ہے قرآن کی کوئی سورت اتری اور منافقوں نے آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ بتاؤ اس سورت نے کس کا ایمان زیادہ کر دیا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمانداروں کے ایمان تو اللہ کی آیتیں بڑھا دیتی ہیں ۔ یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس پر کہ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ۔ اکثر ائمہ اور علماء کا یہی مذہب ہے ، سلف کا بھی اور خلف کا بھی ۔ بلکہ بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ ہم اس مسئلے کو خوب تفصیل سے شرح بخاری کے شروع میں بیان کر آئے ہیں ۔ ہاں جن کے دل پہلے ہی سے شک و شبہ کی بیماری میں ہیں ان کی خرابی اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ قرآن مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے لیکن کافر تو اس سے اور بھی اپنا نقصان کر لیا کرتے ہیں ۔ یہ ایمانداروں کے لئے ہدایت و شفا ہے بے ایمانوں کے تو کانوں میں بوجھ ہے ۔ ان کی آنکھوں پر اندھاپا ہے وہ تو بہت ہی فاصلے سے پکارے جا رہے ہیں ۔ یہ بھی کتنی بڑی بدبختی ہے کہ دلوں کی ہدایت کی چیز بھی ان کی ضلالت و ہلاکت کا باعث بنتی ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے عمدہ غذا بھی بد مزاج کو موافق نہیں آتی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

124۔ 1 اس سورت میں منافقین کے کردار کی نقاب کشائی کی گئی ہے، یہ آیات اس کا بقیہ اور تتمہ ہیں۔ اس میں بتلایا جا رہا ہے جب ان کی غیر موجودگی میں کوئی سورت یا اس کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے اور ان کے علم میں بات آتی تو وہ ٹھٹھہ اور مذاق کے طور پر آپس میں ایک دوسرے سے کہتے کہ اس سے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے۔ 124۔ 2 اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو بھی سورت اترتی ہے اس سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے ایمان کے اضافے پر خوش ہوتے ہیں۔ یہ آیت بھی اس بات پر دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے جس طرح کہ محدثین کا مسلک ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٣] یعنی منافق اپنے منافق ساتھیوں سے یا ضعیف الاعتقاد مسلمانوں سے طنزیہ یہ سوال کر کے اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہیں جس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس سورت میں تو کوئی ایسی چیز موجود ہی نہیں جو ایمان اور یقین میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ : ”’ يَسْتَبْشِرُوْنَ “ حروف کی زیادتی معنی کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے، ایسی زبردست خوشی جس کے آثار بشرے پر بھی ظاہر ہوں۔” سُوْرَةٌ“ سے مراد پوری سورت بھی ہوسکتی ہے اور آیات کا کوئی ٹکڑا بھی۔ کسی بھی سورت کے نزول پر اسے قبول کرنے میں اہل ایمان اور اہل نفاق کا واضح فرق ہوتا ہے، بیج کی عمدگی زمین کی قابلیت کے بغیر فائدہ مند نہیں ہوتی، چناچہ منافقین ایک دوسرے سے بطور استہزا و مذاق یا بعض کمزور ایمان والے مسلمانوں کو شک میں ڈالنے کے لیے پوچھتے ہیں کہ ان آیات کے ساتھ تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے ؟ فرمایا کہ اہل ایمان کے ایمان میں تو ان سے اضافہ اور زیادتی ہوتی ہے، دل کے علم اور یقین میں بھی، زبانی تصدیق میں بھی اور عمل میں بھی اور ان تینوں کا نام ایمان ہے۔ ” وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ “ اور وہ بہت ہی خوش ہوتے ہیں، جس کے آثار ان کے چہرے پر بھی نمایاں ہوتے ہیں اور وہ لوگ جن کے دلوں میں کفر اور نفاق کا مرض ہے وہ پہلی سورتوں اور آیات ہی کے منکر تھے، جب اس سے بھی انکار کیا تو کفر کا ایک اور ردّہ ان کے دلوں پر چڑھ گیا اور ان کی کفر پر موت کا باعث بن گیا۔ یہ آیت اور قرآن مجید کی کئی اور آیات واضح الفاظ میں ایمان کے زیادہ ہونے کی صراحت فرما رہی ہیں۔ امام بخاری (رض) نے اپنی صحیح میں کتاب الایمان کے شروع میں آٹھ آیات اور پھر بہت سی احادیث ذکر فرمائی ہیں جو صاف ایمان کی کمی اور زیادتی پر دلالت کرتی ہیں اور صرف عمل کے لحاظ ہی سے نہیں، بلکہ نفس تصدیق اور یقین میں بھی کمی اور زیادتی پر دلالت کرتی ہیں۔ تعجب ہے ان شیوخ الحدیث والتفسیر پر جو ساری عمر صحیح بخاری اور قرآن مجید پڑھاتے ہیں مگر ایمان کے زیادہ یا کم ہونے کی آیات و احادیث آتی ہیں تو یا تو انھیں مذہب کے خلاف کہہ کر رد کردیتے ہیں، یا ایسی تاویل کرتے ہیں جو آیات و احادیث کے منشا کے صریح خلاف اور تاویل کے بجائے تحریف کہلانے کے زیادہ لائق ہے۔ اس وقت تو ان کے سامنے شاید کوئی نہ بول سکے مگر وہ پاک پروردگار جو آیات کے ساتھ مومنوں کے دلوں میں ایمان و یقین بڑھاتا ہے، اس کے سامنے کیا تاویل کریں گے ؟ اور وہ حضرات اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے جو کہتے ہیں کہ میرا اور ابوبکر صدیق (رض) کا اور میرا اور جبریل (علیہ السلام) کا ایمان ایک جیسا ہے، کیونکہ ایمان سب کا برابر ہے، اس میں نہ کمی ہوتی ہے نہ زیادتی۔ وہ خود ہی سوچیں کہ کیا انھیں اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کا وہ یقین حاصل ہے جو ابوبکر صدیق (رض) اور جبریل (علیہ السلام) کو حاصل تھا ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہٖٓ اِيْمَانًا۝ ٠ ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۝ ١٢٤ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سُّورَةُ المنزلة الرفیعة، وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها [ النور/ 1] ، السورۃ کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اصلی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور/ 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں۔ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ «أمَّا» و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف/ 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ } ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٤) اور جب کوئی نئی سورت اتاری جاتی ہے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو پڑھ کر سناتے ہیں تو بعض منافقین بعض غریب مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ کہو اس نئی سورت یا آیت نے کس کے خوف، ایمان، امید ویقین میں اضافہ کیا ہے جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے تھے کہ جو ایمان دار ہیں اس سورت نے انکے تو ایمان ویقین کو خوف وامید میں ترقی دی اور وہ قرآن کریم کی اس سورت کے نزول سے خوش ہورہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٤ (وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہٖٓ اِیْمَانًا ج) اس سے پہلے سورة الانفال (آیت ٢) میں اہل ایمان کا ذکر اس حوالے سے ہوچکا ہے کہ جب ان کو اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ منافقین اس پر طنز اور استہزاء کرتے تھے اور جب بھی کوئی تازہ وحی نازل ہوتی تو اس کا تمسخر اڑاتے ہوئے ایک دوسرے سے پوچھتے کہ ہاں بھئی اس سورت کو سن کر کس کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے ؟ (فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ ) اللہ کا کلام سن کر حقیقی مؤمنین کے ایمان میں یقیناً اضافہ بھی ہوتا ہے اور وہ ہر وحی کے نازل ہونے پر خوشیاں بھی مناتے ہیں کہ اللہ نے اپنے کلام سے مزید انہیں نوازا ہے اور ان کے ایمان کو جلا بخشی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

102: یہ کہہ کر منافقین در اصل اس بات کا مذاق اڑاتے تھے جو سورۃ انفال (2:8) میں فرمائی گئی ہے کہ جب مومنوں کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢٤۔ ١٢٥۔ ان آیتوں میں بھی منافقوں کی فضیحت بیان کی گئی ہے کہ جب کوئی سورت اترتی تھی تو مومنوں سے دل لگی کرتے تھے کہ کہو سورت اترنے سے کس کس کا ایمان بڑھا۔ اصل میں وہ چاہتے تھے کہ یہ لوگ بھی ہماری طرح دین اسلام سے پھرجائیں مگر جو لوگ سچے مومن تھے وہ اپنے وہ عیب سن کر جو اس سورة میں بیان کئے جاتے تھے ان کے چھپانے کی کوشش کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومن تو نہال نہال ہوجاتے ہیں اور انکا ایمان بھی پکا ہوجاتا ہے ہاں جن کے دلوں میں شرک اور نفاق کی بیماری ہے ان کی خباثت اور بڑہتی جاتی ہے اسی واسطے آدمی کو چاہیے جب کوئی اس کا عیب ظاہر کرے تو برا نہ مانے بلکہ اس کو چھوڑنے کی کوشش کرے کیونکہ نیک بخت وہی ہے جو عیب کی باتوں کو چھوڑ دے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق قرآن شریف کی نئی سورت یا نئی آیت سے ایمان کے بڑہنے ١ ؎ کا یہ مطلب ہے کہ مثلا جب ہجرت سے پہلے فقط نماز ہی فرض تھی تو ہر ایمان دار کے دل میں نماز کے رکن اسلام ہونے کا یقین تھا اور زبان سے بھی ہر ایماندار شخص کو نماز کے رکن اسلام ہونے کا اقرار تھا پھر ہجرت کے بعد جب مثلا رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو اس کو بھی رکن اسلام جاننے اور اقرار کرنے میں ان کی پہلے کی حالت میں گویا ایک ترقی ہوگئی بلکہ پہلے مثلا ایک چیز کا یقین اور اقرار تھا تو اب دو چیزوں کا ہوگیا۔ جو علماء ایمان کے گھٹنے بڑہنے کے قائل نہیں ہیں ان کا اعتراض اس موقعہ پر یہ ہے کہ دلی یقین میں تسلیم کی جاوے گی تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ دلی یقین پورا نہیں ہے بلکہ اس میں ایک شک کی حالت ہے پھر اس طرح کے شک کی حالت والے شخص کو ایماندار کیونکر کہا جاسکتا ہے جو علماء ایمان کے گھٹنے بڑہنے کے قائل ہیں وہ اعتراض کا یہ جواب دیتے ہیں کہ بغیر تفصیل کے مجمل طور پر اس بات کا یقین جس شخص کے دل میں ہے کہ اللہ کے رسول پر جو احکام نازل ہوئے وہ بلاشک وشبہ احکام الٰہی ہیں اس قدر اجمالی یقین اس شخص کے ایمان دار ہونے کے لئے کافی ہے کیونکہ اس کے اس مجمل طور کے یقین میں کوئی شک وشبہ شریک نہیں ہے اس لئے اس مجمل طور کے یقین کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ دل یقین پورا نہیں ہے ہاں مثلا جب ہجرت سے پہلے رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے۔ تو اس مجمل طور کے یقین میں روزوں کے اسلام ہونے کا یقین تفیلیو طور پر نہیں تھا جب ہجرت کے بعد رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اس اعمالی یقین میں ایک تفصیلی حالت بڑھ گئی تفصیلی معلومات کے بڑھ جانے سے علم میں ترقی کا ہوجانا ایک ایسا ظاہری مسئلہ ہے کہ جس میں زیادہ بحث کی گنجائش نہیں ہے کس لئے کہ مثلا طب کے علم کا ایک ناتجربہ کار طالب علم اجمالی طور پر یہ تو طالب علمی کے زمانہ سے جانتا ہے کہ گرم مرض کا علاج ٹھنڈی دواؤں سے ہوتا ہے لیکن تفصیلی طور پر ابھی اس کو یہ معلوم نہیں کہ کونسی ٹھنڈی دوا مرض کے کس موقع پر کس مقدار میں برتی جاتی ہے مدت کے تجربہ کے بعد جب اس طالب علم کو یہ سب باتیں تفصیل سے معلوم ہوگئیں تو اس کا کون انکار کرسکتا ہے کہ بہ نسبت پہلے کے اب اس کے علم طب میں ترقی ہوگئی۔ ایمان کے گھٹنے بڑھنے کی ایک صورت تو یہ تھی جس کا ذکر اوپر گزرا دوسری صورت یہ ہے کہ دلی یقین کا حال تو سوا اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں اس واسطے اکثر علماء نیک عملوں کو دلی یقین کے پورا اور ادھورے ہونے کی نشانی ٹھہراتے ہیں اور نیک عملوں میں زیادہ مصروف رہنے والے شخص کو کامل الایمان اور کم مصروف رہنے والے کو ناقص الایمان کہتے ہیں غرض یہ ایمان کے گھٹنے بڑھنے کا مسئلہ بڑا طول طویل ایک مسئلہ ہے جس کی تفصیلی بحث بڑی کتابوں میں ٢ ؎ ہے۔ ہر نیک کام کا اجر دس سے لے کر سات سو تک ہے اس لئے جو نئی سورت یا آیت نازل ہوتی تھی صحابہ اس پر عمل کرنے کو زیادتی اجر کا ذریعہ سمجھ کر جدید احکام کے نزول پر خوش وقتی ظاہر کیا کرتے تھے۔ منافقوں کا حال اس کے برعکس تھا ایک آیت پر اکہرا شک تو تھا اور دوسری نئی آیت پر وہ دوہرا ہوگیا اس لئے فرمایا کہ مرتے دم تک ان کی روز بروز کی گندگی بڑہتی جاویگی صحیح بخاری ومسلم کی ابوسعید خدری (رض) کی حدیث اس تفسیر میں ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احکام کی مثال مینہ اور امت کے اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی ٣ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح اچھی بری زمین میں مینہ تو ایک سا برستا ہے لیکن اچھی زمین میں اس کا نتیجہ اور اثر مفید ہوتا ہے۔ اور بری زمین میں نامفید اسی طرح اللہ کے رسول کی معرفت آسمانی کے نصیحتی احکام تو اچھے برے سب لوگوں کو اس وقت ایک ساتھ پہنچے اور سلسلہ بہ سلسلہ قیامت تک پہنچیں گے مگر اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں جو لوگ نیک قرار پاچکے تھے ان پر ان احکام کا اثر مرتے دم تک نیک ہوا اور جو بدقرار پاچکے تھے ان پر ان احکام کا اثر بہ عکس۔ یہ حدیث اس آیت کی گویا تفسیر ہے بخار کھانسی وغیرہ جس طرح جسمانی مرض کہلاتے ہیں۔ نفاق ریا کاری اسی طرح دلی امراض میں اسی واسطے نفاق کو دل کا مرض فرمایا صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ لوگوں کے جسموں اور صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ تو لوگوں کے دلوں کو دیکھتا ہے ٤ ؎ کہ قلبی امراض سے ان کے دل کہاں تک پاک صاف ہیں صحیح بخاری ومسلم میں نعمان بن (رض) بشیر کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کے جسم میں دل ایک ایسی چیز ہے کہ اگر وہ اچھی حالت میں ہے تو آدمی کا سارا جسم اچھی حالت میں ٥ ؎ ہے نعمان بن بشیر (رض) کی یہ حدیث ابوہریرہ (رض) کی حدیث کی گویا تفسیر ہے دونوں حدیثوں کو ملانے سے حاصل مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر خاص آدمی کے دل کی حالت پر ہے اگر امراض قلبی سے اس کا دل پاک ہے تو ہاتھ پاؤں زبان سب اعضا کی عبادت اس کی مقبول ہے نہیں تو نہیں یہ حدیثیں بھی گویا آیت کی تفسیر ہیں۔ ١ ؎ تفسیر ابن جریر ج ١١ ص ٧٣۔ ٢ ؎ مثلا صحیح بخاری میں ایمان کی زیادتی کمی کا باب مع شرح فتح الباری ٣ ؎ صحیح بخاری ص ١٨ باب فضل من علم و علم ٤ ؎ صحیح مسلم ج ٢ ص ٣١٧ باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ الخ ٥ ؎ مشکوۃ ص ٢٤١ باب الکسب وطلب الحلال۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:124) اذا ما۔ جب کبھی۔ فمنھم۔ میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب۔ منافقین کی طرف راجع ہے جن میں سے بعض جب کبھی کوئی سورت نازل ہوتی تو مذاق کے طور پر مسلمانوں سے پوچھتے ” کہو تم میں سے کس کے ایمان میں اس سے اضافہ ہوا ہے “۔ زادتہ۔ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب ایکم کی طرف راجع ہے۔ یعنی تم میں سے کون ہے جس کا اس سورة نے ایمان زیادہ کردیا۔ زادت کا فاعل ھذہ ہے جس کا اشارہ سورة کی طرف ہے۔ یستبشرون مضارع جمع مذکر غائب استبشار (استفعال) مصدر ۔ وہ خوش ہوتے ہیں وہ خوشیاں مناتے ہیں (سورۃ کے نزول پر) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ جیسا کہ سلف و خلف اکثرعلما کا مسلک ہے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 124 تا 127 ایکم (تم میں سے کس کا) زادتہ (اس نے اضافہ کیا) یستبشرون (وہ خوشیاں مناتے ہیں) رجس (گندگی) یفتون (آزمائے جاتے ہیں ) کل عام (ہر سال) لایتوبون (وہ توبہ نہیں کرتے ہیں) لا ھم یذکرون (اور نہ دھیان دیتے ہیں) نظر (دیکھا) ھل یرکم (کیا کوئی تمہیں دیکھ رہا ہے) انصرفوا (وہ چل دیتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 124 تا 127 جب بھی کچھ آیات نازت ہوتیں تو عام طور پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کو بلا کر آیات سناتے۔ وہ لوگ جو نفاق کے مرض میں مبتلا تھے وہ صرف اس لئے آجاتے تھے کہ کہیں ان کی منافقت کا پردہ چاک نہ ہوجائے۔ جو اہل ایمان تھے وہ تو ان آیات کو بہت ذوق شوق سے سنتے تھے لنک منافقین جو محض مارے باندھے شرکت کرلیا کرتے تھے اور اکتائے ہوئے سے بیٹھے رہتے اور موقع ملتے ہی کھسک لیتے۔ کبھی تو وہ طنز کے طور پر کہتے بھلابتائو اس نئی سورت سے یا تازہ آیات سے کس کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کو سال بھر میں اسی طرح کئی مرتبہ آزماتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی منافقانہ ذہنیت سے باز نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بےعقل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان کو عقل ہوتی تو وہ اپنے وقتی مفادات کی وجہ سے آخرت کی زندگی کو برباد نہ کرتے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قتال فی سبیل اللہ کی بنیادی پالیسی اور تربیتی بیان کے بعد منافقوں کی قرآن مجید کے بارے میں روش بیان کی جاتی ہے۔ منافق کا بنیادی مرض یہ ہوتا ہے کہ اس کا اللہ اور اس کے رسول پر حقیقی ایمان نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے وہ ہر وقت شک اور تذبذب کا شکار رہتا ہے۔ اسی وجہ سے منافقین نئی آیات سنتے تو تمسخر کے طور پر مسلمانوں سے کہتے کہ بتائیں جناب ان آیات کے اترنے سے تمہارے ایمان میں کیا اضافہ ہوا ہے ؟ جس کے جواب میں مسلمان کہتے کہ ہم تو اپنی راہنمائی اور ایمان میں اضافہ محسوس کررہے ہیں۔ اس پر منافق شرمندہ ہو کر رہ جاتے اور ان کی منافقت میں اور اضافہ ہوجاتا۔ یاد رہے البقرۃ آیت ١٠ میں منافقت کو مرض اور یہاں منافقت کو گندگی اور کفر قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ کفر کی حالت میں مریں گے۔ جس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ منافق حقیقی ایمان لانے کی بجائے تادم آخر نفاق پر ہی جان دیں گے۔ کفر اور نفاق مرض اور گندگی ہیں : (فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُوْنَ )[ البقرۃ : ١٠] ” ان کے دلوں میں بیماری ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں زیادہ کردیا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ “ (وَأَمَّا الَّذِیْنَ فِی قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا إِلٰی رِجْسِہِمْ وَمَاتُوْا وَہُمْ کٰفِرُوْنَ ) [ التوبۃ : ١٢٥] ” اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے تو اس نے ان کی پلیدی کے ساتھ اور پلیدی کا اضافہ کردیا اور وہ اس حال میں مرے کہ وہ کافر تھے۔ “ مومن کی حالت : (إِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیَاتُہٗ زَادَتْہُمْ إِیْمَانًا)[ الانفال : ٢] ” جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جائیں تو ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں۔ “ (وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْہُمْ مَنْ یَّقُوْلُ أَیُّکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہِٓٓ إِیْمَانًا فَأَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ إِیْمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ )[ التوبۃ : ١٢٤] ” اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اس نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے ؟ پس جو لوگ ایمان لائے، ان کے ایمان میں تو اس نے اضافہ کیا ہے اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید کی تلاوت سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٢۔ منافق عناد کی وجہ سے قرآن مجید کی تاثیر کا انکار کرتے ہیں۔ ٣۔ ایمان والے قرآن مجید کی تلاوت سے خوش ہوتے ہیں۔ ٤۔ قرآن مجید کے نزول سے منافقین کی منافقت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ ٥۔ منافق کا خاتمہ کفر پر ہوگا۔ تفسیر بالقرآن منافق کے نفاق میں اضافہ : ١۔ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے اللہ ان کی پلیدی کو اور بڑھا دیتا ہے۔ (التوبۃ : ١٢٥) ٢۔ منافقوں کے دلوں میں بیماری ہے اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا۔ (البقرۃ : ١٠) ٣۔ آپ دیکھیں گے ان لوگوں کو جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اس کی طرف جلدی کرتے ہیں۔ (المائدۃ : ٥٢) ٤۔ منافق اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدے کو فراڈ سمجھتے ہیں۔ (الاحزاب : ١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا مآ انزلت سورق فمنھم من یقول ایکم زادتہ ھذٓہ ایمانًا فاما الذین امنوا فزادتھم ایمانًا اور جب کوئی (جدید) سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافق (غرباء مسلمین سے بطور تمسخر) کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان میں ترقی دی ؟ سو (سنو ! ) جو لوگ ایماندار ہیں ‘ اس سورت نے ان کے ایمان میں ترقی دی ہے۔ یعنی جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو منافقوں میں سے کچھ لوگ اپنے بھائی بندوں سے بطور مذاق کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان و یقین میں اضافہ کیا۔ اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا : ایمانداروں کے ایمان کو نازل شدہ سورت بڑھاتی ہے۔ سورت کے اندر جو اعجاز بیان ہوتا ہے ‘ اس سے مؤمنوں کے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور نازل شدہ سورت پر ان کو یقین ہوجاتا ہے ‘ اسلئے سابق ایمان کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے (پہلے اسی حصہ پر ان کا ایمان تھا جو نازل ہوچکا تھا ‘ پھر سورت جدیدہ پر بھی ان کا ایمان ہوجاتا ہے اور جو کچھ سورت میں علمی اور اعجازی حصہ ہوتا ہے ‘ وہ بھی ان کو حاصل ہوجاتا ہے۔ اس طرح ایمان بڑھ جاتا ہے) ۔ وھم یستبشرون۔ اور وہ (سورت کے نزول سے) خوش ہو رہے ہیں کیونکہ سورت کی وجہ سے ان کے علم و کمال میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ان کے درجات اونچے ہوجاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

118:“ وَاِذَا مَا اُنْزِلَتْ الخ ” منافقین بطور ِ استہزاء آپس میں یہ گفتگو کرتے تھے۔ “ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الخ ” بشارت برائے مومنین۔ “ وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ الخ ” زجربرائے منافقین۔ “ مَرَضٌ ” سے ضد وعناد مراد ہے یعنی ان کے دلوں میں انابت الی اللہ (اللہ کی طرف رجوع) نہیں۔ “ رِجْسٌ ” گندگی۔ مراد نفاق ہے۔ قرآن کی آیتوں کے نزول کے ساتھ ساتھ ان کے کفر ونفاق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے کیونکہ وہ ہر نازل ہونیوالی آیت کو جھٹلاتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

124 اور جب کوئی سورت نازل ہوئی تو ان منافقوں میں سے بعض منافقین بطور استہزاء اور تمسخر یوں کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم لوگوں میں سے کس کس کے ایمان کو بڑھایا اور کس کے ایمان کو ترقی دی۔ سو جو لوگ اہل ایمان ہیں ان کے ایمان کو تو اس سورت نے ترقی دی اور بڑھایا اور وہ اس ترقی پر خوش ہورہے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں۔ یعنی مسلمانوں سے تمسخر کرتے ہوں گے کہ بتائو اس نئی سورت سے تمہارے ایمان کو کیا تقویت ہوئی۔ اس کا جواب ہے کہ اہل ایمان کے قلب کو تو یقیناً تقویت ہوتی ہے لیکن تم اس باطنی نعمت سے محروم ہو۔