Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 19

سورة التوبة

اَجَعَلۡتُمۡ سِقَایَۃَ الۡحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ کَمَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ لَا یَسۡتَوٗنَ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۘ۱۹﴾

Have you made the providing of water for the pilgrim and the maintenance of al-Masjid al-Haram equal to [the deeds of] one who believes in Allah and the Last Day and strives in the cause of Allah ? They are not equal in the sight of Allah . And Allah does not guide the wrongdoing people.

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر کر دیا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں اور اللہ تعالٰی ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Providing Pilgrims with Water and maintaining the Sacred Masjid are not equal to Faith and Jihad أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ امَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللّهِ ... Do you consider the providing of drinking water to the pilgrims and the maintenance of Al-Masjid Al-Haram as equal to the worth of those...  who believe in Allah and the Last Day, and strive hard and fight in the cause of Allah! In his Tafsir, Al-`Awfi reported that Ibn Abbas explained this Ayah: "The idolators said, `Maintaining Al-Masjid Al-Haram and providing water for pilgrims are better than embracing the faith and performing Jihad.' They used to boast and show off among the people because they claimed, they were the people and maintainers of Al-Masjid Al-Haram. Allah mentioned their arrogance and rejection (of the faith), saying to `the people of Al-Haram', who were idolators, قَدْ كَانَتْ ءَايَـتِى تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنتُمْ عَلَى أَعْقَـبِكُمْ تَنكِصُونَ مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَـمِراً تَهْجُرُونَ Indeed My Ayat used to be recited to you, but you used to turn back on your heels (denying them, and refusing to listen to them with hatred). In pride, talking evil about it (the Qur'an) by night. (23:66-67) They used to boast about being those who maintained the Sacred Sanctuary, بِهِ سَـمِراً (talking about it by night). They used to talk about this by night while shunning the Qur'an and the Prophet. Allah declared that faith and Jihad with the Prophet are better than the idolators' maintaining Al-Masjid Al-Haram and providing water for pilgrims. These actions -- maintaining and serving Allah's House -- will not benefit them with Allah because they associate others with Him. Allah the Exalted said, ... لااَ يَسْتَوُونَ عِندَ اللّهِ وَاللّهُ لااَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ They are not equal before Allah. And Allah guides not those people who are the wrongdoers. those who claimed they are the maintainers of the House. Allah described them with injustice, on account of their Shirk, and thus, their maintaining the Masjid will not avail them." Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "This Ayah was revealed about Al-Abbas bin Abdul-Muttalib, for when he was captured in the battle of Badr, he said, `If you rushed before us to embrace Islam, perform Hijrah and Jihad, we were maintaining Al-Masjid Al-Haram, providing water for the pilgrims and setting the indebted free.' Allah, the Exalted and Ever High, said, أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ امَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللّهِ لااَ يَسْتَوُونَ عِندَ اللّهِ وَاللّهُ لااَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ Do you consider the providing of drinking water to the pilgrims and the maintenance of Al-Masjid Al-Haram as equal to the worth of those who believe in Allah and the Last Day, and strive hard and fight in the cause of Allah! They are not equal before Allah. And Allah guides not those people who are the wrongdoers. Allah says, `All these actions were performed while committing Shirk, and I do not accept the (good deeds) that are performed while in a state of Shirk."' Ad-Dahhak bin Muzahim said, "Muslims came to Al-Abbas and his friends who were captured during the battle of Badr and admonished them for their Shirk. Al-Abbas said, `By Allah! We used to maintain Al-Masjid Al-Haram, release the indebted, serve the House (or cover it, or maintain it) and provide water for pilgrims.' Allah revealed this verse, أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ (Do you consider the providing of drinking water to the pilgrims..."' There is a Hadith (from the Prophet) about the Tafsir of this Ayah that we should mention. Abdur-Razzaq recorded that An-Nu`man bin Bashir said that; a man said, "I do not care if I do not perform an action after embracing Islam other than providing drinking water for pilgrims (who visit the Ka`bah at Makkah)." Another man said, "I do not care if I do not perform an action after embracing Islam other than maintaining Al-Masjid Al-Haram." A third man said, "Jihad in the cause of Allah is more righteous than what you have said." Umar admonished them, "Do not raise your voices next to the Minbar of the Messenger of Allah," and as it was a Friday, he said, "but after we pray the Friday prayer, we will go to the Prophet and ask him." This verse was revealed, أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (Do you consider the providing of drinking water to the pilgrims and the maintenance of Al-Masjid Al-Haram), until, لااَ يَسْتَوُونَ عِندَ اللّهِ (They are not equal before Allah). Then Allah said; الَّذِينَ امَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللّهِ وَأُوْلَيِكَ هُمُ الْفَايِزُونَ   Show more

سب سے بری عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کافروں کا قول تھا کہ بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کے پانی پلانے کی سعادت ایمان وجہاد سے بہتر ہے ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجام دے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں ۔ اللہ نے ان کے فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھ... یرنے کو بےنقاب کیا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم ان سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو ۔ پس تمہارا گمان بیجا تمہارا غرور غلط ، تمہارا فخر نامناسب ہے یوں بھی اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کی راہ میں جہاد بہت بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا کیڑا کھا جاتا ہے ۔ پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے تئیں آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ نے ان کا نام ظالم رکھا ان کی اللہ کے گھر کی خدمت بیکار کر دی گئی ۔ کہتے ہیں کہ حضرت عباس نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے ۔ صحابہ نے جب ان سے پر لے دے شروع کی تو حضرت عباس نے کہا تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی تھے ، ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے ، ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے ، ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے ، اس پر یہ آیت اتری ، مروی ہے کہ یہ گفتگو حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ہوئی تھی ۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ ، عباس بن عبد المطلب ، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے ، عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری رات رہ سکتا ہوں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو ؟ میں لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں اور اس پر یہ آیت پوری اتری ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی پلانے کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں دوسرے نے اسی طرح مسجد حرام کی آبادی کو کہا تیسرے نے اسی طرح راہ رب کے جہاد کو کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ کے پاس آوازیں بلند نہ کرو یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں آپ جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات دریافت کرلوں گا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 مشرکین حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کا کام جو کرتے تھے، اس پر انہیں بڑا فخر تھا اور اس کے مقابلے میں وہ ایمان و جہاد کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے جس کا اہتمام مسلمانوں کے اندر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم سقایت حاج اور عمارت مسجد حرام کو ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ...  کے برابر سمجھتے ہو ؟ یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ برابر نہیں، بلکہ مشرک کا کوئی عمل بھی قبول نہیں، چاہے وہ صورۃً خیر ہی ہو۔ جیسا کہ پہلی آیت کے جملے (حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ) 2 ۔ البقرۃ :217) میں واضح کیا جا چکا ہے۔ بعض روایت میں اس کا سبب نزول مسلمانوں کی آپس میں ایک گفتگو کو بتلایا گیا ہے کہ ایک روز منبر نبوی کے قریب کچھ مسلمان جمع تھے اس میں سے ایک نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد میرے نزدیک سب سے بڑا عمل حاجیوں کو پانی پلانا ہے دوسرے نے کہا مسجد حرام کو آباد کرنا ہے تیسرے نے کہا بلکہ جہادفی سبیل اللہ ان تمام عملوں سے بہتر ہے جو تم نے بیان کیے ہیں حضرت عمر (رض) نے جب انہیں اس طرح باہم تکرار کرتے ہوئے سنا تو انہیں ڈانٹا اور فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آوازیں اونچی مت کرو یہ جمعہ کا دن تھا راوی حدیث حضرت نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ جمعہ کے بعد نبی صلی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی آپس کی اس گفتگو کی بابت استفسار کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحیح مسلم) جس میں گو یا یہ واضح کردیا گیا کہ ایمان باللہ ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ سب سے زیادہ اہمیت و فضیلت والے عمل ہیں گفتگو کے حوالے سے اصل اہمیت و فضیلت تو جہاد کی بیان کرنی تھی لیکن ایمان باللہ کے بغیر چونکہ کوئی بھی عمل مقبول نہیں اس لیے پہلے اسے بیان کیا گیا بہرحال اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ اس کا سبب نزول مشرکین کے مزعومات فاسدہ کے علاوہ خود مسلمانوں کا بھی اپنے اپنے طور پر بعض عملوں کو بعض پر زیادہ اہمیت دینا تھا جب کہ یہ کام شارع کا ہے نہ کہ مومنوں کا مومنوں کا کام تو ہر اس بات پر عمل کرنا ہے جو اللہ اور رسول کی طرف سے انہیں بتلائی جائے۔ 19۔ 2 یعنی یہ لوگ چاہے کیسے بھی دعوے کریں۔ حقیقت میں ظالم ہیں یعنی مشرک ہیں، اس لئے کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ اس ظلم کی وجہ سے یہ ہدایت الٰہی سے محروم ہیں۔ اس لئے ان کا اور مسلمانوں کا، جو ہدایت الٰہی سے بہرہ ور ہیں، آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] جہاد کے مسائل :۔ اس آیت کے شان نزول سے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :۔ سیدنا نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں آپ کے منبر کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص کہنے لگا && مجھے کوئی پروا نہیں اگر میں اسلام لانے کے بعد کوئی عمل نہ کروں سوائے حاجیوں کو پانی پلانے کے۔ && دوسرے نے کہا &... & مجھے کوئی پروا نہیں اگر میں اسلام لانے کے بعد کوئی عمل نہ کروں سوائے مسجد حرام کی تعمیر و آبادی کے۔ && تیسرے نے کہا && اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ان کاموں سے افضل ہے جن کا تم ذکر کر رہے ہو۔ && سیدنا عمر نے ڈانٹا کہ منبر کے پاس اپنی آوازیں بلند نہ کرو۔ && نعمان کہتے ہیں کہ وہ جمعہ کا دن تھا۔ پھر سیدنا عمر نے کہا کہ && میں جمعہ کی نماز کے بعد رسول اللہ کے پاس جاؤں گا اور جس بات میں تم اختلاف کر رہے ہو اس بارے میں ضرور سوال کروں گا۔ && اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الامارۃ باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللہ) اس آیت میں روئے سخن مسلمانوں اور مشرکوں سب کے لیے عام ہے۔ مشرکوں کے لیے اس لحاظ سے کہ وہ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہم حاجیوں کی خدمت کرتے، انہیں پانی پلاتے اور انہیں کھانا کپڑا مہیا کرتے ہیں نیز ہم مسجد حرام کی مرمت یا غلاف کعبہ یا روشنی وغیرہ کا بھی انتظام کرتے ہیں اگر مسلمان اپنے جہاد و ہجرت کو افضل اعمال سمجھتے ہیں تو ہمارے پاس بھی عبادات کا یہ ذخیرہ موجود ہے۔ انہیں تو یہ جواب دیا گیا کہ جب تمہارا آخرت اور اللہ پر ایمان ہی نہیں تو تمہارے یہ سب اعمال رائیگاں جائیں گے اور اگر اس آیت کا روئے سخن مسلمانوں کی طرف سمجھا جائے تو اس سے مراد ان کے اعمال کا باہمی موازنہ ہوگا۔ یعنی صرف اللہ اور آخرت پر ایمان لانے والے مسلمان اللہ کے نزدیک ان مسلمانوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو ایمان بھی لائے اور جہاد بھی کیا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاۗجِّ : اس آیت کے مخاطب مشرکین اور مسلمان دونوں ہیں، کیونکہ مشرکین کعبہ کی خدمت، تولیت اور حاجیوں کو شربت اور پانی پلانے پر بہت فخر کرتے تھے اور بعض مسلمان بھی اس کو سب سے اعلیٰ عمل سمجھتے تھے۔ نعمان بن بشیر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے ... پاس آپ کے اصحاب کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا، تو ایک آدمی نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ میں کوئی کام نہ کروں تو مجھے کچھ پروا نہیں۔ دوسرے نے کہا، بلکہ مسجد حرام کی آباد کاری ( افضل ہے) ۔ ایک اور نے کہا، بلکہ جہاد فی سبیل اللہ اس سے بہتر ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ تو عمر (رض) نے انھیں ڈانٹا اور فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے پاس آوازیں مت بلند کرو، یہ جمعہ کے دن کی بات ہے، لیکن جب تم جمعہ پڑھ چکو گے تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤں گا اور تمہارے اس جھگڑے کا فیصلہ کروا لوں گا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : (اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ) [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللّٰہ تعالیٰ : ١٨٧٩] یعنی یہ کام گو فضیلت کے ہیں مگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتے اور پھر یہ ایمان کے بغیر مقبول بھی نہیں۔ (وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ) شرک سب سے بڑا ظلم ہے، پھر جو اس پر اصرار کرے اس ظالم کو سیدھی راہ کیسے نصیب ہو ؟  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The first four verses (19 - 22) relate to a particular event. A cursory look into its background shows that many Mushriks of Makkah felt proud that they kept the Sacred Mosque bustling with visitors and devotees and ran a drinking water service for the pilgrims. Keeping their rival Muslims in view, they claimed that no deed by anyone could match theirs. When Sayyidna ` Abbas (رض) came t... o Muslims as a prisoner from the battle of Badr, he had not embraced Islam by that time. His Muslim relatives reproached him for remaining deprived of the blessing of &Iman. In response, he too had said the same things, ` you think &Iman and Hijrah are big feathers in your cap, but we too have our own assets. We are the custodians of the building of the Sacred Mosque and serve water to the pilgrims. No deed by anyone can match these.& Revealed thereupon were these verses. (Ibn Kathir on the au¬thority of ` Ali ibn Abi Talhah from Ibn ` Abbas) And according to some narratives in the Musnad of ` Abd al-Razzaq, it was after the entry of Sayyidna ` Abbas (رض) into the fold of Islam that Sayyidna Talhah ibn Shaybah, Sayyidna ` Abbas and Sayyidna Ali (رض) were talking together. Talhah said: ` I enjoy an excellence which none of you do. I have the keys to the Baytullah in my hands. If I wish I could go inside it and spend the night there.& Sayyidna ` Abbas said: (رض) ` I am the administrator of the water service for pilgrims and I have rights to the Sacred Mosque.& Sayyidna ` Ali (رض) said, ` I do not understand that which makes you so proud. As for me, I have said my prayers facing the Baytullah six months before anyone of you and I have participated in Jihad with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .& There-upon, these verses were revealed. They made it clear that no deed done without &Iman, no matter how merit worthy, carries any value in the sight of Allah, and no doer of such deeds, while still involved in Shirk, is acceptable with Him. And the Sahih of Muslim reports an event on the authority of Sayy¬idna Nu` man ibn Bashir (رض) who says that he was sitting with some Companions (رض) close to the Mimbar of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in his Mosque on a Friday. Someone from those present there said, ` In my view, after Islam and &Iman, there is no deed superior to serving water to the pilgrims and I do not care about any deed other than this.& Someone else retorted, ` no, Jihad in the way of Allah is the highest of all deeds.& When an argument started between those two, Sayyidna ` Umar (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (رض) reprimanded both of them and said, ` stop quarreling near the Mimbar of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .The proper thing to do is to say your Jumu&ah prayer first, then you can go and ask the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself about it.& As suggested, they did go to the Holy Prophet (رض) to find out his opinion on the matter. Thereupon, these verses were revealed where Jihad has been identi¬fied as the deed superior to the ` building& of the Sacred Mosque and the serving of water to pilgrims. There is nothing far out about the possibility that the revelation of the verses themselves may have been aimed as an answer to the pride and arrogance of the Mushriks. Later, when unpleasant things took place among Muslims, it is quite possible that the same verses were used as the deciding argument - which might have given the listeners the feeling that these particular verses were revealed in the background of that particular event. However, the present &ayat of the Qur&an carry an answer to both these kinds of events - that an accomplishment, no matter how good and acceptable, is reduced to zero if it smacks of Shirk. Therefore, no Mushrik is superior to Muslims because of his association with the maintenance of the Mosque or the serving of water to pilgrims. And even after their rejection of disbelief and entry into Faith, the status of &Iman and Jihad is much higher than the maintenance of the Sacred Mosque and the serving of water to pilgrims. Muslims who took the in¬itiative in &Iman and Jihad are superior to Muslims who did not take part in Jihad and remained rendering these services to the Sacred Mosque and the pilgrims. After these introductory remarks, let us go back to the words of the verses and their translation once again. It reads: أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَ‌ةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿١٩﴾ Have you taken the serving of water to the pilgrims and the maintenance of Al-masjid-al-Haram as equal to (the acts) of one who believes in Allah and in the Last Day, and takes up jihad in the way of Allah? They are not equal in the sight of Allah -19) Seen contextually, the purpose is to urge that each one from &Iman and Jihad is superior to the serving of water to pilgrims and the main¬tenance of the Mosque, that is, &Iman too is superior to both, and Jihad too. Thus, the superiority of &Iman provides an answer to what the Mushriks said and the superiority of Jihad corrects Muslims who said that maintaining the Mosque and serving water to pilgrims were su¬perior to Jihad. The Dhikr of Allah is superior to Jihad Qadi Thana&ullah has said in Tafsir Mazhari, ` the precedence given to Jihad over the maintenance of the Mosque has been done in terms of physical and outward maintenance, that is, the building, repair, cleaning and allied arrangements - for it goes without saying that Ji¬bad takes precedence over these.& But, the maintenance (` imarah) of the masjid is not restricted to this sense alone. It has another meaning also, that of being present in the masjid for ` Ibadah and Dhikr of Allah, which also applies here strongly. In fact, the genuine flowering of the objective of making, maintaining and manning the masjid with eager devotees comes out from this factor alone. Given this sense, the maintenance of the masjid - as very clearly stated by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - is superior to Jihad. To substantiate, we can refer to the report of Sayyidna Abu al-Darda& (رض) appearing in the Musnad of Ahmad and in Tirmidhi and Ibn Majah. According to this report, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, ` should I not tell you about an act that is superior to all your acts and certainly more so in the sight of your Master? - This act would raise your ranks to the highest levels, would be even superior to spending gold and silver in the way of Allah, and still be way superior to that you bravely fight your enemies in Jihad where you kill them and they kill you?& The noble Companions (رض) said, ` Do tell us about that act, Ya Rasulallah.& He said, ` that act is the Dhikr of Allah.& This tells us that the merit of the Dhikr of Allah is more pronounced than that of Jihad also. And if the ` maintenance of the masjid& is taken in the sense of the Dhikr of Allah, then, it is superior to Jihad. But, at this place, the pride shown by the Mushriks was not based on the Dhikr of Allah and the ` Ibadah performed in the masjid, instead, it was based on its struc¬tural and administrative aspects. Therefore, Jihad was deemed as su-perior to that. And when we deliberate into different statements of the Qur&an and Sunnah as a whole, it appears that the phenomena of the superi¬ority of one act over the other depends on attending conditions and cir¬cumstances. There are conditions when one act is superior to the oth¬er. With a change in conditions, things could be the other way round. When Islam and Muslims must be defended at all costs, at that time Jihad shall definitely be more merit worthy as compared to all ` Ibadat - as evident from the event of the battle of Khandaq where the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had to miss four of his daily prayers (qada). Con¬versely, when the need is not so acute, the Dhikr of Allah and ` Ibadah will be more merit worthy as compared to Jihad. At the end of the verse (19), by saying: وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (And Allah does not lead the wrongdoing people to the right path), it was pointed out that the thing they were being told about was not difficult to un¬derstand. In fact, it was clear, as clear as it can be - that &Iman is the foundation of all that is done, and is superior to all of them. Then comes Jihad that is superior as compared to the maintenance of the masjid and serving water to pilgrims. But, Allah Ta` ala does not bless the unjust and the wrongdoing with the gift of understanding. Therefore, they keep at their crooked hairsplitting into things that are oth¬erwise very open and obvious.  Show more

خلاصہ تفسیر کیا تم لوگوں نے حجاج کے پانی پلانے کو اور مسجد حرام کے آباد رکھنے کو اس شخص ( کے عمل) کی برابر قرار دے لیا جو کہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہو، اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو ( وہ عمل ایمان اور جہاد ہے، یعنی یہ عمل برابر نہیں اور جب اعمال برابر نہیں تو) یہ ( عامل) لوگ...  ( بھی باہم) برابر نہیں اللہ کے نزدیک ( غرض عمل عمل باہم اور عامل عامل باہم برابر نہیں مقصود بقرینہ سیاق یہ ہے کہ ایمان اور جہاد میں سے ہر واحد افضل ہے، سقایہ اور عمارت کے ہر واحد سے یعنی ایمان بھی دونوں سے افضل ہے، اور اس سے جواب ہوگیا مشرکین کا کہ ان میں ایمان نہ تھا، اور جہاد بھی دونوں سے افضل ہے، اس سے جواب ہوگیا بعض مومنین کا جو کہ بعد ایمان کے سقایہ اور عمارت کو جہاد پر تفضیل دیتے تھے) اور ( یہ امر مذکور بہت ہی ظاہر ہے لیکن) جو لوگ بےانصاف ہیں ( مراد مشرک ہیں) اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ نہیں دیتا ( اس لئے وہ نہیں مانتے بخلاف اہل ایمان کے کہ وہ اس تحقیق کو فوراً مان گئے، آگے اس مضمون کی تصریح ہے جو اوپر لایستون سے مقصود تھا یعنی) جو لوگ ایمان لائے اور ( اللہ کے واسطے) انہوں نے ترک وطن کیا اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کیا وہ درجہ میں اللہ کے نزدیک ( بمقابلہ اہل سقایہ و اہل عمارت کے) بہت بڑے ہیں ( کیونکہ اگر اہل سقایہ و اہل عمارت میں ایمان نہ ہو تب تو یہ بڑائی انہی مومنین مہاجرین مجاہدین میں منحصر ہے اور اگر ان میں ایمان ہو تو گو وہ بھی بڑے ہیں مگر یہ زیادہ بڑے ہیں) اور یہی لوگ پورے کامیاب ہیں ( کیونکہ اگر ان کے مقابلین میں ایمان نہ ہو تب تو کامیابی کا حصر انہی میں ہے، اور اگر ایمان ہو تو کامیابی مشترک ہے لیکن ان کی کامیابی ان سے اعلی ہے، آگے اس درجہ اور فوز کا بیان ہے کہ) ان کا رب ان کو بشارت دیتا ہے اپنی طرف سے بڑی رحمت اور بڑی رضامندی اور ( جنت کے) ایسے باغوں کی ان کے لئے کہ ان ( باغوں) میں دائمی نعمت ہوگی ( اور) ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے بلاشبہ اللہ کے پاس بڑا اجر ہے، ( اس میں سے ان کو دیا جائے گا) اے ایمان والو اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو ( اپنا) رفیق مت بناؤ اگر وہ لوگ کفر کو بمقابلہ ایمان کے ( ایسا) عزیز رکھیں ( کہ ان کے ایمان لانے کی امید نہ رہے) اور جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ رفاقت رکھے گا سو ایسے لوگ بڑے نافرمان ہیں ( مطلب یہ کہ بڑا مانع ہجرت سے ان لوگوں کا تعلق ہے اور خود وہی جائز نہیں پھر ہجرت میں کیا دشواری ہے ) ۔ معارف و مسائل شروع کی چار آیتیں ١٩ سے ٢٢ تک ایک خاص واقعہ سے متعلق ہیں وہ یہ کہ بہت سے مشرکین مکہ مسلمانوں کے مقابلہ میں اس پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہم مسجد حرام کی آبادی اور حجاج کو پانی پلانے کا انتظام کرتے ہیں، اس سے بڑھ کر کسی کا کوئی عمل نہیں ہوسکتا، اسلام لانے سے پہلے جب حضرت عباس غزوہ بدر میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں آئے اور ان کے مسلم عزیزوں نے ان کو اس پر ملامت کی کہ آپ نعمت ایمان سے محروم ہیں تو انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ آپ لوگ ایمان و ہجرت کو اپنا بڑا سرمایہ فضیلت سمجھتے ہیں مگر ہم بھی تو مسجد حرام کی عمارت اور حجاج کو پانی پلانے کی اہم خدمات کے متولی ہیں جن کی برابر کسی کا عمل نہیں ہو سکتا، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ( ابن کثیر بروایت علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس) اور مسند عبدالرزاق کی بعض روایات میں ہے کہ حضرت عباس کے مسلمان ہوجانے کے بعد طلحہ بن شیبہ اور حضرت عباس اور علی کرم اللہ وجہہ کے آپس میں گفتگو ہو رہی تھی، طلحہ نے کہا کہ مجھے وہ فضیلت حاصل ہے جو تم میں سے کسی کو حاصل نہیں کہ بیت اللہ کی چابی میرے ہاتھ میں ہے میں اگر چاہوں تو بیت اللہ کے اند جاکر رات گذار سکتا ہوں، حضرت عباس نے فرمایا کہ میں حجاج کو پانی پلانے کا متولی اور منتظم ہوں اور مسجد حرام میں میرے اختیارات ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ حضرات کس چیز پر فخر کر رہے ہیں، میرا حال تو یہ ہے کہ میں نے سب لوگوں سے چھ مہینہ پہلے بیت اللہ کی طرف نماز پڑھی ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد میں شریک رہا ہوں، اور اس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں واضح کردیا گیا کہ کوئی عمل کتنا ہی اعلیٰ و افضل ہو ایمان کے بغیر اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہیں اور نہ حالت شرک میں ایسے اعمال کا کرنے والا اللہ کے نزدیک مقبول ہے۔ اور صحیح مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر (رض) کی روایت سے یہ واقعہ منقول ہے کہ وہ ایک روز جمعہ کے دن مسجد نبوی میں چند حضرات صحابہ کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے پاس جمع تھے، حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ اسلام و ایمان کے بعد میرے نزدیک حجاج کو پانی پلانے سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں، اور مجھے اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے عمل کی پروا نہیں، ایک دوسرے صاحب نے ان کے جواب میں کہا کہ نہیں اللہ کی راہ میں جہاد سب سے بڑا عمل ہے، ان دونوں میں بحث ہونے لگی تو حضرت فاروق اعظم نے دونوں کو ڈانٹ کر کہا کہ منبر نبوی کے پاس شور و شغب نہ کرو، مناسب بات یہ ہے کہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد یہ بات خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرلو، اس تجویز کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں جہاد کو عمارت مسجد حرام اور سقایہ حجاج سے افضل عمل بتلایا گیا۔ اور اس میں کوئی بعد نہیں کہ اصل آیات کا نزول تو مشرکین کے فخر وتکبر کے جواب میں ہوا ہو، پھر اس کے بعد جو واقعات مسلمانوں کے باہم پیش آئے ان میں بھی انہی آیات کو استدلال کے لئے پیش کیا گیا ہو جس سے سننے والوں کو یہ محسوس ہوا کہ یہ آیات اس واقعہ میں نازل ہوئیں۔ بہرحال آیات مذکورہ میں دونوں قسم کے واقعات کا یہ جواب ہے کہ شرک کے ساتھ تو کوئی عمل کتنا ہی بڑا ہو مقبول اور قابل ذکر ہی نہیں، اس لئے کسی مشرک کو عمارت مسجد یا سقایہ حجاج کی وجہ سے کوئی فضیلت و بزرگی مسلمانوں کے مقابلہ میں حاصل نہیں ہوسکتی اور ایمان کے بعد بھی ایمان و جہاد کا درجہ بہ نسبت عمارت مسجد حرام اور سقایة الحجاج کے بہت زیادہ ہے جو مسلمان ایمان و جہاد میں مقدم رہے وہ ان مسلمانوں سے افضل ہیں جنہوں نے جہاد میں شرکت نہیں کی، صرف مسجد حرام کی تعمیر اور حجاج کے پانی پلانے کی خدمت انجام دیتے رہے۔ اس تمہید کے بعد آیات مذکورہ کے الفاظ اور ترجمہ پر پھر ایک نظر ڈالئے، ارشاد فرمایا کہ کیا تم نے حجاج کو پانی پلانے اور مسجد حرام کے آباد رکھنے کو اس شخص کے برابر قرار دیا جو کہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہو اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یہ لوگ برابر نہیں اللہ کے نزدیک۔ بقرینہ سیاق مقصود یہ ہے کہ ایمان اور جہاد میں سے ہر ایک افضل ہے، سقایة الحجاج اور عمارت مسجد سے یعنی ایمان بھی دونوں سے افضل ہے اور جہاد بھی، ایمان کے افضل ہونے سے مشرکین کی بات کا جواب ہوگیا اور جہاد کے افضل ہونے سے ان مسلمانوں کی بات کا جواب ہوگیا جو عمارت مسجد اور سقایة حجاج کو جہاد سے افضل کہتے تھے۔ ذکر اللہ جہاد سے افضل ہے : تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ (رح) نے فرمایا کہ اس آیت میں جو عمارت مسجد پر جہاد کو فضیلت اور ترجیح دی گئی ہے یہ عمارت کے ظاہری معنی کی رو سے ہے یعنی مسجد کی تعمیر اور ضروری انتظامات کہ جہاد کا ان کے مقابلہ میں افضل ہونا مسلم ہے۔ لیکن عمارت مسجد کے ایک دوسرے معنی عبادت اور ذکر اللہ کے لئے مسجد میں حاضری کے بھی آتے ہیں اور درحقیقت مسجد کی اصلی عمارت وآبادی اسی سے ہے، اس معنی کے اعتبار سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صریح ارشادات کی بناء پر عمارت مسجد جہاد سے افضل و اعلی ہے جیسا کہ مسند احمد اور ترمذی، ابن ماجہ میں حضرت ابوالدرداء کی روایت سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسا عمل بتلاؤں جو تمہارے تمام اعمال سے بہتر اور تمہارے مالک کے نزدیک سب سے زیادہ افضل ہو اور تمہارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا اور سونے چاندی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بھی افضل ہو اور اس سے بھی افضل ہو کہ تم جہاد میں دشمن سے سخت مقابلہ کرو جس میں تم ان کو قتل کرو وہ تمہیں قتل کریں، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ عمل ضرور بتلایئے، آپ نے فرمایا کہ وہ عمل ذکر اللہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ذکر اللہ کی فضیلت جہاد سے بھی زیادہ ہے اور عمارت مسجد جب بمعنی ذکر اللہ لی جائے تو وہ بھی جہاد سے افضل ہے، مگر اس جگہ مشرکین کا فخر و غرور ظاہر ہے کہ ذکر اللہ اور عبادت کی بناء پر نہ تھا بلکہ ظاہری تعمیر اور انتظامات کی بناء پر تھا اس لئے جہاد کو اس سے افضل قرار دیا گیا۔ اور قرآن و سنت کے مجموعی ارشادات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عمل کا دوسرے عمل سے افضل و اعلی ہونا حالات و واقعات کے تابع ہوتا ہے، بعض حالات میں ایک عمل دوسرے سے افضل ہوتا ہے اور حالات بدلنے کے بعد معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے، جس وقت اسلام اور مسلمانوں سے دفاع کی ضرورت شدید ہو اس وقت یقیناً جہاد تمام عبادات سے افضل ہوگا جیسا کہ غزوہ خندق میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار نمازیں قضا ہوجانے کے واقعہ سے ظاہر ہے اور جس وقت ایسی شدید ضرورت نہ ہو تو ذکر اللہ اور عبادت بمقابلہ جہاد کے افضل ہوگا۔ آخر آیت میں (آیت) وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ، فرما کر یہ بتلا دیا کہ یہ کوئی دقیق اور باریک بات نہیں بلکہ بالکل واضح ہے کہ ایمان سارے اعمال کی بنیاد اور ان سب سے افضل ہے، اور یہ کہ جہاد بہ نسبت عمارت مسجد اور سقایة الحجاج کے افضل ہے، مگر اللہ تعالیٰ بےانصاف لوگوں کو سمجھ نہیں دیتا، اس لئے وہ ایسی کھلی اور ظاہری باتوں میں بھی کج بحثی کرتے رہتے ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَجَعَلْتُمْ سِقَايَۃَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ ۭ لَا يَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللہِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ١٩ ۘ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخو... اتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ سقاية ما يجعل فيه ما يسقی، وأسقیتک جلدا : أعطیتکه لتجعله سقاء، وقوله تعالی: جَعَلَ السِّقايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ [يوسف/ 70] ، فهو المسمّى صواع الملک، فتسمیته السِّقَايَةَ تنبيها أنه يسقی به، وتسمیته صواعا أنه يكال به . سقاية ( مشکیزہ ) وہ برتن جس میں پینے کی چیز رکھی جائے اسی سے ہے اسقیتک جلدا کہ ميں نے تمہیں ( مشکیزہ بنانے کے لئے چمڑا دیا ) اور آیت کریمہ : جَعَلَ السِّقايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ [يوسف/ 70]( تو ) اپنے بھائی کے شلتیے میں پینے کا برتن رکھ دیا ۔ میں سقایۃ سے مراد وہی ہے جسے ( بعد کی آیت ہیں ) صواع الملک کہا گیا ہے اس ایک ہی برتن کسے یہ دونام دو اعتبار سے ہیں یعنی اس کے ساتھ پانی پینے کے لحاظ سے اسے سقایۃ کہا ہے اور اس لحاظ سے کہ اس کے ساتھ غلہ ماپا جاتا ہے اسے صواع کہد یا ہے ۔ حج أصل الحَجِّ القصد للزیارة، قال الشاعر : يحجّون بيت الزّبرقان المعصفرا خصّ في تعارف الشرع بقصد بيت اللہ تعالیٰ إقامة للنسک، فقیل : الحَجّ والحِجّ ، فالحَجُّ مصدر، والحِجُّ اسم، ويوم الحجّ الأكبر يوم النحر، ويوم عرفة، وروي : «العمرة الحجّ الأصغر» ( ح ج ج ) الحج ( ن ) کے اصل معنی کسی کی زیارت کا قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (99) یحجون سب الزیتون المعصفرا وہ زبر قان کے زر رنگ کے عمامہ کی زیارت کرتے ہیں ۔ اور اصطلاح شریعت میں اقامت نسک کے ارادہ سے بیت اللہ کا قصد کرنے کا نام حج ہے ۔ الحج ( بفتح الما) مصدر ہے اور الحج ( بکسرالحا) اسم ہے اور آیت کریمہ :۔ ويوم الحجّ الأكبر يوم میں حج اکبر سے مراد یوم نحر یا یوم عرفہ ہے ۔ ایک روایت میں ہے :۔ العمرۃ الحج الاصغر عمر حج اصغر ہے ۔. حَرَمُ ( محترم) والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام، جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جسے بدر کے دن قید کرلیا گیا تھا اس نے حضرت علی (رض) یا بدرین میں سے کسی پر فخریہ یہ اظہار کیا کہ ہم حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں اور مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں اور فلاں فلاں کام کرتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم نے حجاج کو پانی پلانے کو اس شخص یعنی بدری...  کے عمل کے برابر قرار دے لیا جو کہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہو اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہو، یہ اعمال ثواب اور (وہ حضرات) اطاعت خداوندی میں برابر نہیں ہوسکتے اور اللہ تعالیٰ مشرکوں کو جو کہ بذات خود اس کے اہل نہیں ہوتے اپنے دین کی سمجھ نہیں دیتا۔ شان نزول : (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحاج “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے علی بن ابی طلحہ (رض) کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عباس (رض) غزوہ بدر کے دن جب قید کرلیے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر تم لوگ ہم سے اسلام ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کی بنا پر سبقت لے گئے ہو تو ہم بھی مسجد حرام کی خدمت کرتے ہیں اور حجاج کو پانی پلاتے اور غلاموں کو آزاد کرتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت امام مسلم (رح) ابن حبان (رح) اور ابوداؤد (رح) نے نعمان بن بشیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ میں صحابہ کرام (رض) کی کچھ جماعت میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے پاس تھا تو ان میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ اسلام کے بعد اگر صرف میں حاجیوں کو پانی پلاتا رہوں اور کوئی بڑی نیکی نہ کروں تو میرے لیے یہی کافی ہے، دوسرا کہنے لگا نہیں بلکہ مسجد حرام کی خدمت بڑی نیکی ہے اور تیسرے صاحب کہنے لگے کہ جن نیکیوں کا تم نے ذکر کیا ہے ان سب سے بڑھ کر نیکی جہاد فی سبیل اللہ ہے، حضرت عمر (رض) نے ان سب کو ڈانٹا اور فرمایا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے قریب آوازیں مت اونچی کرو اور یہ جمعۃ المبارک کا دن ہے۔ لیکن جب میں جمعۃ المبارک کی نماز پڑھ چکا تو میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور جن باتوں میں ہمارے درمیان اختلاف ہورہا تھا ان کے متعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت اتاری اور فریابی نے علامہ ابن سیرین سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی (رض) سے دریافت کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور فریابی نے علامہ ابن سیرین سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (رض) مکہ مکرمہ آئے تو حضرت عباس (رض) سے فرمایا اے چچا آپ ہجرت کیوں نہیں کرتے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کیوں نہیں آجاتے، اس پر حضرت عباس (رض) نے فرمایا کیا آپ مسجد آباد کرتے ہیں اور بیت اللہ کی نگرانی کرتے ہیں چناچہ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اور ایک قوم سے کہا کہ تم لوگ ہجرت کیوں نہیں کرلیتے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کیوں نہیں آجاتے وہ کہنے لگے ہم اپنے بھائیوں قبیلوں اور گھروں میں ٹھہرے ہوئے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے اخیر تک یہ آیات نازل فرمائیں ، (آیت) ” قل ان کان ابآؤکم “۔ (الخ) اور عبدالرزاق نے شعبی سے اسی طرح روایت کیا ہے اور ابن جریر (رح) نے محمد بن کعب قرظی سے روایت کیا ہے کہ طلحہ بن شیبہ اور حضرت عباس (رض) اور علی بن ابی طالب نے آپس میں فخر کیا طلحہ کہنے لگا میں بیت اللہ والا ہوں، میرے پاس بیت اللہ کی چابی ہے، حضرت عباس (رض) بولے میں صاحب سقایہ اور اس کا نگران ہوں، حضرت علی (رض) نے فرمایا میں نے لوگوں سے پہلے قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے اور میں صاحب جہاد ہوں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ تمام آیات نازل فرمائیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط) مشرکین مکہ اس بات پر بہت نازاں ہیں کہ انہوں نے بیت اللہ کو آباد رکھا ہوا ہے اور وہ حاجیوں کو پانی پلانے جیسا کار خیر سر انجام دیتے ہیں ‘ تو کیا...  ان کے یہ امور ایمان باللہ ‘ ایمان بالآ خرت اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہوجائیں گے ؟   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :21 یعنی کسی زیارت گاہ کی سجادہ نشینی ، مجاوری اور چند نمائشی مذہبی اعمال کی بجا آوری ، جس پر دنیا کے سطح بیں لوگ بالعموم شرف اور تقدس کا مدار رکھتے ہیں ، خدا کے نزدیک کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتی ۔ اصلی قدر و قیمت ایمان اور راہ خدا میں قربانی کی ہے ۔ ان صفات کا جو...  شخص بھی حامل ہو وہ قیمتی آدمی ہے خواہ وہ کسی اونچے خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو اور کسی قسم کے امتیازی طرّے اس کو لگے ہوئے نہ ہوں ۔ لیکن جو لوگ ان صفات سے خالی ہیں وہ محض اس لیے کہ بزرگ زادے ہیں ۔ سجادہ نشینی ان کے خاندان میں مدتوں سے چلی آرہی ہے اور خاص خاص موقعوں پر کچھ مذہبی مراسم کی نمائش وہ بڑی شان کے ساتھ کر دیا کرتے ہیں ، نہ کسی مرتبے کے مستحق ہو سکتے ہیں اور نہ یہ جائز ہو سکتا ہے کہ ایسے بے حقیقت ”موروثی“ حقوق کو تسلیم کر کے مقدس مقامات اور مذہبی ادارے ان نالائق لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دیے جائیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: اس آیت کریمہ نے یہ اصول بھی بتادیا ہے کہ تمام نیک کام ایک درجے کے نہیں ہوتے، اگر کوئی شخص فرائض توادا نہ کرے، اور نفلی عبادتوں میں لگا رہے تو یہ کوئی نیکی نہیں ہے، حاجیوں کو پانی پلانا بیشک ایک نیک کام ہے، مگر وہ نفلی حیثیت رکھتا ہے، اور مسجد حرام کی دیکھ بھال بھی بعض حیثیتوں سے فرض کفایہ اور بع... ض حیثیتوں سے نفلی عبادت ہے، اس کے مقابلے میں ایمان انسان کی نجات کے لئے بنیادی شرط ہے، اور جہاد کبھی فرض عین اور کبھی فرض کفایہ، لہذا کسی کو صرف ان خدمات کی وجہ سے کسی مومن پر فوقیت حاصل نہیں ہوسکتی۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:19) سفایۃ۔ پانی پلانا۔ عمارۃ۔ آباد کرنا۔ صاحب ضیاء القرآن ۔ مظہری۔ قرطبی و بیضاوی لکھتے ہیں :۔ الفاظ آیت سقایۃ وعمارۃ مصدر ہیں۔ اگر یہ اسم فاعل کے معنی میں استعمال ہوں تو کلام میں کسی لفظ کو مقدر ماننے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی معنی ہوگا :۔ کہ حاجیوں کو پانی پلانے والا اور مسجد کو آباد کرنے والا اس ش... خص کی طرح نہیں ہوسکتا جو اللہ اور قیامت پر ایمان لائے اور جہاد کرے۔ اور اگر مصدری معنی ہی میں مستعمل ہو تو پھر کلام میں حذف ماننا پڑیگا۔ اور اس کی دو صورتیں ہیں یا تو مشبہ میں محذوف مانیں تو اس وقت تقدیر کلام یوں ہوگی۔ اجعلتم اہل السقایۃ الحاج وعمارۃ المسجد الحرام۔۔ اور یا مشبہ بہٖ میں محذوف مانیں تو اس وقت تقدیر کلام ہوگی : اجعلتم سقایۃ الحاج وعمارۃ المسجد الحرام کا یمان من امن باللہ والیوم الاخرو جھاد من جاھد فی سبیل اللہ۔ لایستون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب استواء (افتعال) مصدر۔ وہ برابر نہیں ہیں ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی یہ کام گو فضیلت کے ہیں مگر ایمان باللہ اور جہاد کے مقابلے میں کچھ حثیت نہیں رکھتے اور پھر ایمان کے بغیر یہ مقبول بھی نہیں، ( کبیر) مشرکین مکہ کو اس بڑا فخر تھا کہ ہم کعبہ کے متولی ہیں حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں۔ لہذا مسلمانو جہاد اور ہجرت کی وجہ سے ہم سے افضل نہیں ہوسکتے۔ چناچہ جنگ بدر کے بعد ... حضرت ابن عباس (رض) قید ہو کر آئے تو ان کی حضرت علی (رض) سے اس قسم کی بحث بھی ہوئی۔ حضرت اعباس (رض) کہنے لگے، اگر تم ایمان جہاد اور ہجرت میں ہم سے سبقت رکھتے ہو تو ہم اس کے مقابلے میں مسجد حرام کی خدمت کرتے اور حاجیوں کو پانی پلاتے رہے ہیں پس تم ہم سے کسی صورت افضل نہیں ہوسکتے۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک جمعہ کو چند مسلمان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے پاس اس مسئلہ میں بحث کرنے لگے، ایک نے کہا کہ مسلمان ہونے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے سے بہتر کوئی عمل نہیں۔ دوسرا کہنے لگا کہ میرے نزدیک مسجد حرام کی خدمت افضل ہے تیسرے نے کہا۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد تمام عبادات و اعمال سے افضل ہے۔ آخرت کار حضرت عمر (رض) نے ان لوگوں کو ڈانٹا اور خاموش کرایا،۔ پھر جمعہ کے بعد ان لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی مسئلہ پوچھا تو یہ آیات نازل ہوئیں، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور ان تمام لوگوں کا رد فرمایا جو خانہ کعبہ اور حاجیوں کی خدمت کو ایمان اور اور جہاد فی سبیل اللہ کا ہم مرتبہ سمجھتے تھے کیونکہ ایمان تو ہر چیز کی روح اور اصل ہے اس کے بغیر کسی بڑے سے بڑے عمل کا بھی اعتبار نہیں ہے اور جہاد سے سچے اور جھوٹے مسلمان کے مابین تمیز ہوجاتی ہے اور یہ دین کی حٖفاظت اور اعلا کلمتہ اللہ کا واحد ذریعہ ہے اس لیے اس کا درجہ ایمان کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ ( ابن کثیر، و کبیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مراد مشرک ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ ہر قسم کے جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود سمجھتے تھے کہ وہ حرم کے موروثی وارث اور حجاج کرام کے خدام ہیں اس لیے ہماری تولیت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس پر مؤاخذہ کرتے ہوئے حرم کے متولی کے اوصاف کا ذکر ضروری سمجھا گیا ہے۔ مسجد حرام اور دیگر مساجد کی تولیت کا استحقاق رکھن... ے والوں کے اوصاف بیان کرنے کے بعد مشرکین مکہ کے حوالے سے واضح کیا جا رہا ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ حجاج کرام کی خدمت کرنا، انھیں زمزم پلانا، مسجد حرام کی تولیت اور تعمیر کرنا نیک کام ہیں۔ بیشک یہ عظیم کام ہیں لیکن ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر نہیں ہوسکتے۔ مسجد حرام کی تعمیر و ترقی، حجاج کو زمزم پلانا اور ان کی خدمت کرنے کا انھی لوگوں کو اجر ملے گا جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے یعنی توحید خالص کا عقیدہ اپنانے اور آخرت کی جوابدہی پر ایمان رکھنے کے ساتھ اپنے مال اور نفس کے ساتھ دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرنے والے ہوں۔ جو لوگ ان اوصاف سے تہی دامن ہوں بیشک وہ مسجد حرام کی خدمت اور حجاج کرام کو چلو بھر بھر کر پانی پلائیں اور ان کے لیے اپنے مکان خالی کردیں یا صبح و شام انھیں کھانا کھلائیں اگر ان کے عقیدہ میں شرک کی آمیزش ہوگی تو ان کا کوئی عمل بھی اللہ کی بارگاہ میں مستجاب نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشرک اور مواحد برابر نہیں ہوسکتے مشرک ظالم ہوتا ہے اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات اور اس کی صفات کو دوسروں میں تصور کرتا ہے جو پرلے درجے کی بےانصافی اور زیادتی ہے لہٰذا مشرک ظالم ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (عن عُمَر بن الْخَطَّابِ (رض) قَالَ لَمَّا کَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوا فُلَانٌ شَہِیدٌ فُلَانٌ شَہِیدٌ حَتّٰی مَرُّوا عَلٰی رَجُلٍ فَقَالُوا فُلَانٌ شَہِیدٌ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلَّا إِنِّی رَأَیْتُہُ فِی النَّارِ فِی بُرْدَۃٍ غَلَّہَا أَوْ عَبَاءَ ۃٍ ثُمَّ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا ابْنَ الْخَطَّابِ اذْہَبْ فَنَادِ فِی النَّاسِ أَنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ قَالَ فَخَرَجْتُ فَنَادَیْتُ أَلَا إِنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ ) [ رواہ أحمد ] ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں خیبر کے دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) میں سے کچھ لوگ آئے انہوں نے کہا فلاں شہید ہے فلاں بھی شہید ہے یہاں تک کہ انہوں نے کسی آدمی کا تذکرہ کیا کہ فلاں بھی شہید ہے تو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ میں اس کو مال غنیمت میں سے چرائی گئی چادر میں لپٹا دیکھ رہا ہوں جو کہ جہنم کی آگ سے جلائی جارہی ہے پھر رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابن خطاب لوگوں میں اعلان کردو جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں میں نے وہاں سے اٹھ کر لوگوں میں اعلان کردیا جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہُ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنْ نِفَاقٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب ذم من مات لم یغز ولم یحدث بہ نفسہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی اس حالت میں فوت ہوا کہ اس نے نہ کبھی جہاد کیا اور نہ ہی کبھی اس کے دل میں اس کی خواہش پیدا ہوئی بلاشبہ وہ نفاق کی ایک علامت پر مرا۔ “ مسائل ١۔ مسجد حرام کی خدمت اور حجاج کو زمزم پلانا ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر نہیں ہوسکتے۔ ٢۔ مشرک ظالم ہوتا ہے اور ظلم کرنے والے کو اللہ ہدایت نہیں دیتا۔ ٣۔ جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کو دوسرے لوگوں پر فضیلت بخشی گئی ہے۔ ٤۔ کسی کو ہدایت نہ ملنا بہت بڑی بدبختی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا : ١۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدۃ : ١٠٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (القصص : ٥٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ کفار کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدۃ : ٦٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ جھوٹے اور ناشکرے کو ہدایت نہیں دیتا۔ (الزمر : ٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور مسلمانوں اور مشرکوں دونوں کے سامنے یہ اصول رکھا جاتا ہے۔ لہذا وہ لوگ جو جاہلیت میں خانہ کعبہ کی تعمیر کرتے تھے اور اس میں حاجیوں کو پانی پلاتے تھے ، لیکن ان کے عقائد خالص نہ تھے اور انہوں نے نیک اعمال اور جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ بھی نہیں لیا اور لوگ جنہوں نے بیت اللہ کی تعمیر میں حصہ لیا اور ج... ن کا ایمان صحیح کیا اور اس صحیح ایمان پر انہوں نے اچھے اعمال بھی کیے اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی کیا باہم برابر نہیں ہوسکتے۔ اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰهَدَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰه ِ ۭ لَا يَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِ : " کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں ؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دنوں برابر نہیں ہیں " بیشک برابر نہیں ، کیونکہ اللہ کے میزان اور پیمانوں کے مطابق نہیں اور پیمانے اور اقدار تو اللہ ہی کی ہوتی ہیں۔ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : " اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا "۔ وہ مشرک جو دین حق کو قبول نہیں کرتے اور جو اپنے عقائد کو شرک سے پاک نہیں کرتے۔ اگرچہ وہ بیت اللہ کے معمار ہوں اور حاجیوں کے ساقی و خادم ہوں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حجاج کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا ایمان اور جہاد کے برابر نہیں : پھر فرمایا (اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) (الآیۃ) اس کے بارے میں دو سبب نزول نقل کیے گئے ہیں۔ ان میں ایک تو وہی ہے جو پہلے مذکور ہوا کہ جب بدر میں مشرکین کو قید کیا جن میں عباس بن ع... بدالمطلب بھی تھے اور عباس کو کفر اختیار کرنے پر عار دلائی گئی تو انہوں نے کہا کہ اگر تم ہم سے اسلام میں اور ہجرت میں اور جہاد میں آگے بڑھ گئے تو ہم بھی تو مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں اور حجاج کو پانی پلاتے ہیں اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ (معالم التنزیل ص ٢٧٥ ج ٢) مطلب یہ ہے کہ کیا حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کے در و دیوار کی دیکھ بھال کرنے کو تم نے اس شخص کے عمل کے برابر کردیا جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان لایا اور جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے یعنی ایمان اور جہاد والوں کے مقابلہ میں حجاج کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال جبکہ ایمان نہ ہو اس کی کچھ بھی حیثیت نہیں۔ کفر و شرک کے ساتھ کوئی بھی عمل مقبول اور معتبر نہیں۔ اور دوسرا سبب نزول یہ لکھا ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر کے پاس تھا۔ ایک شخص نے کہا کہ اگر میں حجاج کو پانی پلاؤں اور اس کے بعد دوسرا کوئی نیک عمل نہ کروں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ دوسرے نے کہا کہ اگر میں مسجد حرام کو آباد کرنے کے علاوہ کوئی عمل نہ کروں تو مجھے دوسرے اعمال کے چھوٹ جانے کی کوئی پرواہ نہیں، تیسرے شخص نے کہا کہ تم نے جو اپنے اعمال کے بارے میں کہا ان اعمال سے بڑھ کر جہاد فی سبیل اللہ ہے، ان لوگوں کو حضرت عمر (رض) نے جھڑک دیا اور فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت عالی میں حاضر ہو کر اس بارے میں دریافت کروں گا جس میں تم اختلاف کر رہے ہو، چناچہ انہوں نے خدمت عالی میں حاضر ہو کر سوال کیا اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ (معالم التنزیل ص ٢٧٥ ج ٢) اس سے معلوم ہوا کہ ایمان تو تمام اعمال سے افضل ہے ہی جہاد فی سبیل اللہ بھی حجاج کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال اور تولیت سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا (لَا یَسْتَوٗنَ عننْدَ اللّٰہِ ) یہ لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ (وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ) اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا (ظالموں سے مشرک مراد ہیں وہ شرک پر قائم ہوتے ہوئے حق اور صحیح بات کو نہیں مانتے) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16: خطاب مشرکین سے ہے یعنی ایک وہ شخص ہے جو دل و جان سے ایمان لایا اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کی اور ایک وہ ہے جو بحالت شرک حاجیوں کو پانی پلاتا اور بیت اللہ کی تعمیر کرتا ہے یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ مومن کے تمام اعمال عنداللہ مقبول ہیں اور مشرک کے تمام اعمال مردود اور رائیگاں ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

19 کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کے آباد کرنے کو اس شخص کے عمل کے برابر سجھ رکھا ہے اور اس شخص کے مساوی تجویز کررکھا ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس نے جہاد کیا تو یہ دونوں عمل کرنے والے لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں نہ دونوں عمل بر... ابر نہ عمل کرنے والے برابر اور اللہ تعالیٰ بےانصاف لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا اور ان کو سمجھ نہیں دیتا۔ یعنی جو لوگ پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی خدمت پر ان لوگوں کے روبرو فخر کررہے ہیں جو دل سے ایمان رکھتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہیں تو ان کا یہ فخر بےسود اور لاحاصل ہے۔  Show more