Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 3

سورة التوبة

وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی النَّاسِ یَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَکۡبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیۡٓءٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ۬ ۙ وَ رَسُوۡلُہٗ ؕ فَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللّٰہِ ؕ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ۙ﴿۳﴾

And [it is] an announcement from Allah and His Messenger to the people on the day of the greater pilgrimage that Allah is disassociated from the disbelievers, and [so is] His Messenger. So if you repent, that is best for you; but if you turn away - then know that you will not cause failure to Allah . And give tidings to those who disbelieve of a painful punishment.

اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی ، اگر اب بھی تم توبہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے اور کافروں کو دکھ کی مار کی خبر پہنچا دیجئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, وَأَذَانٌ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ ... And a declaration from Allah and His Messenger, and a preface warning to the people, ... إِلَى النَّاسِ ... to mankind ... يَوْمَ الْحَجِّ الاَكْبَرِ ... on the greatest day of Hajj, the day of Sacrifice, the best and most apparent day of the Hajj rituals, during which the largest gathering confers. ... أَنَّ اللّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ ... that Allah is free from (all) obligations to the Mushrikin and so is His Messenger. also free from all obligations to them. Allah next invites the idolators to repent, ... فَإِن تُبْتُمْ ... So if you repent, from the misguidance and Shirk you indulge in, ... فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ ... it is better for you, but if you turn away, and persist on your ways, ... فَاعْلَمُواْ أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّهِ ... then know that you cannot escape Allah, Rather, Allah is capable over you, and you are all in His grasp, under His power and will, ... وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ And give tidings of a painful torment for those who disbelieve. earning them disgrace and affliction in this life and the torment of chains and barbed iron bars in the Hereafter. Al-Bukhari recorded that Abu Hurayrah said, "Abu Bakr sent me during that Hajj with those dispatched on the day of Sacrifice to declare in Mina that no Mushrik will be allowed to attend Hajj after that year, nor will a naked person be allowed to perform Tawaf." Humayd said, "The Prophet then sent Ali bin Abi Talib and commanded him to announce Bara'ah." Abu Hurayrah said, "Ali publicized Bara'ah with us to the gathering in Mina on the day of Sacrifice, declaring that no Mushrik shall perform Hajj after that year, nor shall a naked person perform Tawaf around the House." Al-Bukhari also collected this Hadith. this narration of which, Abu Hurayrah said, "On the day of Nahr, Abu Bakr sent me along with other announcers to Mina to make a public announcement that `No pagan is allowed to perform Hajj after this year, and no naked person is allowed to perform the Tawaf around the Ka`bah.' Abu Bakr was leading the people in that Hajj season, and in the year of `The Farewell Hajj' when the Prophet performed Hajj, no Mushrik performed Hajj."' This is the narration that Al-Bukhari recorded in the Book on Jihad. Muhammad bin Ishaq reported a narration from Abu Jafar Muhammad bin Ali bin Al-Hussein who said, "When Bara'ah was revealed to Allah's Messenger, and he had sent Abu Bakr to oversee the Hajj rites for the people, he was asked, `O Messenger of Allah! Why not send this (message) to Abu Bakr?' So he said, لاَا يُوَدِّي عَنِّي إِلاَّ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي It will not be accepted to have been from me if it is not from a man from my family. Then he called for Ali and said to him, اخْرُجْ بِهذِهِ الْقِصَّةِ مِنْ صَدْرِ بَرَاءَةَ وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ يَوْمَ النَّحْرِ إِذَا اجْتَمَعُوا بِمِنًى أَنَّهُ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ كَافِرٌ وَلاَ يَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلاَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ وَمَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلّم عَهْدٌ فَهُوَ لَهُ إِلَى مُدَّتِه Take this section from the beginning of Bara'ah and proclaim to the people on the day of the Sacrifice while they are gathered at Mina that no disbeliever will enter Paradise, no idolator will be permitted to perform Hajj after the year, there will be no Tawaf while naked, and whoever has a covenant with Allah's Messenger (peace be upon him), then it shall be valid until the time of its expiration. Ali rode the camel of Allah's Messenger named Al-Adba until he caught up with Abu Bakr in route. When Abu Bakr saw him he said, `Are you here as a commander or a follower.' Ali replied, `A follower.' They continued on. Abu Bakr lead the people in Hajj while the Arabs were camping in their normal locations from Jahiliyyah. On the day of Sacrifice, Ali bin Abi Talib stood and proclaimed, `O people! No disbeliever will be admitted into Paradise, no idolator will be permitted to perform Hajj next year, there shall be no Tawaf while naked, and whoever has a covenant with Allah's Messenger, then it shall be valid until its time of expiration.' So no idolator performed Hajj after that year, Tawaf around the House while naked ceased. Then they returned to Allah's Messenger. So this was the declaration of innocence, whoever among the idolators had no treaty, then he had a treaty of peace for one year, if he had a particular treaty, then it was valid until its date of expiration."

حج اکبر کے دن اعلان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عام اعلان ہے اور ہے بھی بڑے حج کے دن ۔ یعنی عید قرباں کو جو حج کے تمام دنوں سے بڑا اور افضل دن ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بری الذمہ بیزار اور الگ ہے اگر اب بھی تم گمراہی اور شرک و برائی چھوڑ دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے توبہ کر لو نیک بن جاؤ اسلام قبول کر لو ، شرک و کفر چھوڑ دو اور اگر تم نے نہ مانا اپنی ضلالت پر قائم رہے تو تم نہ اب اللہ کے قبضے سے باہر ہو نہ آئندہ کسی وقت اللہ کو دبا سکتے ہو وہ تم پر قادر ہے تمہاری چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں وہ کافروں کو دنیا میں بھی سزا کرے گا اور آخرت میں بھی عذاب کرے گا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قربانی والے دن ان لوگوں میں جو اعلان کے لیے بھیجے گئے تھے بھیجا ۔ ہم نے منادی کر دی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی شخص ننگا ہو کر نہ کرے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو بھیجا کہ سورہ براۃ کا اعلان کر دیں پس آپ نے بھی منٰی میں ہمارے ساتھ عید کے دن انہیں احکام کی منادی کی ۔ حج اکبر کا دن بقرہ عید کا دن ہے ۔ کیونکہ لوگ حج اصغر بولا کرتے تھے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اعلان کے بعد حجتہ الوداع میں ایک بھی مشرک حج کو نہیں آیا تھا ۔ حنین کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا تھا پھر اس سال حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو منادی کے لیے روانہ فرمایا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ برات کا اعلان کر دیں امیر حج حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آنے کے بعد بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی رہے رضی اللہ عنہما ۔ لیکن اس روایت میں غربت ہے عمرہ جعرانہ والے سال امیر حج حضرت عتاب بن اسید تھے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ تو سنہ ٩ ھ میں امیر حج تھے ۔ مسند کی روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں اس سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ میں تھا ہم نے پکار پکار کر منادی کر دی کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے بیت اللہ کا طواف آئندہ سے کوئی شخص عریانی کی حالت میں نہیں کر سکے گا ۔ جن کے ساتھ ہمارے عہد و پیمان ہیں ان کی مدت آج سے چار ماہ کی ہے ، اس مدت کے گذر جانے کے بعد اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بری الذمہ ہیں اس سال کے بعد کسی کافر کو بیت اللہ کے حج کی اجات نہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ یہ منادی کرتے کرتے مرا گلا پڑ گیا ۔ حضرت علی کی آواز بیٹھ جانے کے بعد میں نے منادی شروع کر دی تھی ۔ ایک روایت میں ہے جس سے عہد ہے اس کی مدت وہی ہے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں مجھے تو ڈر ہے کہ یہ جملہ کسی راوی کے وہم کی وجہ سے نہ ہو ۔ کیونکہ مدت کے بارے میں اس کے خلاف بہت سی روایتیں ہیں ۔ مسند میں ہے کہ براۃ کا اعلان کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجا وہ ذوالحلیفہ پہنچے ہوں گے جو آپ نے فرمایا کہ یہ اعلان تو یا میں خود کروں گا یا میرے اہل بیت میں سے کوئی شخص کرے گا پھر آپ نے حضرت علی کو بھیجا حضرت علی فرماتے ہیں سورہ برات کی دس آیتیں جب اتریں آپ نے حضرت ابو بکر کو بلا کر فرمایا انہیں لے جاؤ اور اہل مکہ کو سناؤ پھر مجھے یاد فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تم جاؤ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے تم ملو جہاں وہ ملیں ان سے کتاب لے لینا اور مکہ والوں کے پاس جاکر انہیں پڑھ سنانا میں چلا جحفہ میں جا کر ملاقات ہوئی ۔ میں نے ان سے کتاب لے لی آپ واپس لوٹے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میرے بارے میں کوئی آیتیں نازل ہوئی ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا کہ یا تو یہ پیغام خود آپ پہنچائیں یا اور کوئی شخص جو آپ میں سے ہو ۔ اس سند میں ضعف ہے اور اس سے یہ مراد بھی نہیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت لوٹ آئے نہیں بلکہ آپ نے اپنی سرداری میں وہ حج کرایا حج سے فارغ ہو کر پھر واپس آئے جیسے کہ اور روایتوں میں صراحتاً مروی ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیغام رسانی کا ذکر کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا کہ میں عمر کے لحاظ سے اور تقریر کے لحاظ سے اپنے میں کمی پاتا ہوں آپ نے فرمایا لیکن ضرورت اس کی ہے کہ اسے یا تو میں آپ پہنچاؤں یا تو پہنچائے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر یہی ہے تو لیجئے میں جاتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اللہ تیری زبان کو ثابت رکھے اور تیرے دل کو ہدایت دے ۔ پھر اپناہاتھ ان کے منہ پر رکھا ۔ لوگوں نے حضرت علی سے پوچھا کہ حج کے موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا بات پہنچانے بھیجا تھا ؟ آپ نے وہی اوپر والی چاروں باتیں بیان فرمائیں ۔ مسند وغیرہ میں یہ روایت کسی طریق سے آئی ہے اس میں لفظ یہ ہیں کہ جن سے معاہدہ ہے وہ جس مدت تک ہے اسی تک رہے گا اور حدیث میں ہے کہ آپ سے لوگوں نے کہا کہ آپ حج میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بھیج چکے ہیں کاش کہ یہ پیغام بھی انہیں پہنچا دیتے آپ نے تو حج کا انتظام کیا اور عید والے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ احکام پہنچائے ۔ پھر یہ دونوں آپ کے پاس آئے پس مشرکین میں سے جن سے عام عہد تھا ان کے لیے تو چار ماہ کی مدت ہو گئی ۔ باقی جس سے جتنا عہد تھا وہ بدستور رہا ۔ اور روایت میں ہے کہ ابو بکر صدیق کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر حج بنا کر بھیجا تھا اور مجھے ان کے پاس چالیس آیتیں سورۃ برات کی دے کر بھیجا تھا آپ نے عرفات کے میدان میں عرفہ کے دن لوگوں کو خطبہ دیا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اُٹھئے اور سرکار رسالت مآب کا پیغام لوگوں کو سنا دیجئے ۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر ان چالیس آیتوں کی تلاوت فرمائی ۔ پھر لوٹ کر منٰی میں آکر جمرہ پر کنکریاں پھینکیں اونٹ نحر کیا سر منڈوایا پھر مجھے معلوم ہوا کہ سب حاجی اس خطبے کے وقت موجود تھے اس لیے میں نے ڈیروں میں اور خیموں میں اور پڑاؤ میں جا جا کر منادی شروع کر دی میرا خیال ہے کہ شاید اس وجہ سے لوگوں کو یہ گمان ہو گیا یہ دسویں تاریخ کا ذکر ہے حالانکہ اصل پیغام نویں کو عرفہ کے دن پہنچا دیا گیا تھا ۔ ابو اسحق کہتے ہیں میں نے ابو جحیفہ سے پوچھا کہ حج اکبر کا کونسا دن ہے؟ آپ نے فرمایا عرفے کا دن ۔ میں نے کہا یہ آپ اپنی طرف سے فرما رہے ہیں یاصحابہ رضی اللہ عنہم سے سنا ہوا ۔ فرمایا سب کچھ یہی ہے ۔ عطاء بھی یہی فرماتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی یہی فرما کر فرماتے ہیں پس اس دن کو کوئی روزہ نہ رکھے ۔ راوی کہتا ہے میں نے اپنے باپ کے بعد حج کیا مدینے پہنچا اور پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں؟ لوگوں نے کہا حضرت سعید بن مسیب ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں نے مدینے والوں سے پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں؟ تو انہوں نے آپ کا نام لیا تو میں آپ کے پاس آیا ہوں یہ فرمائیے کہ عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں اپنے سے ایک سو درجے بہترین شخص کو بتاؤں وہ عمرو بن عمر ہیں وہ اس روزے سے منع فرماتے تھے اور اسی دن کو حج اکبر فرماتے تھے ۔ ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) اور بھی بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے ۔ کہ حج اکبر سے مراد عرفے کا دن ہے ایک مرسل حدیث میں بھی ہے آپ نے اپنے عرفے کے خطبے میں فرمایا یہی حج اکبر کا دن ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد بقرہ عید کا دن ۔ حضرت علی یہی فرماتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت علی بقر عید والے دن اپنے سفید خچر پر سوار جا رہے تھے کہ ایک شخص نے ان کی لگام تھام لی اور یہی پوچھا آپ نے فرمایا حج اکبر کا دن آج ہی کا دن ہے لگام چھوڑ دے ۔ عبداللہ بن ابی اوفی کا قول بھی یہی ہے ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اپنے عید کے خطبے میں فرمایا آج ہی کا دن یوم الاضحی ہے آج ہی کا دن یوم النحر ہے ۔ آج ہی کا دن حج اکبر کا دن ہے ۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور بھی بہت سے لوگ اسی طرف گئے ہیں کہ حج اکبر بقرہ عید کا دن ہے ۔ امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے ۔ صحیح بخاری کے حوالے سے پہلے حدیث گذر چکی ہے ۔ کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منادی کرنے والوں کو منٰی میں عید کے دن بھیجا تھا ۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع میں جمروں کے پاس دسویں تاریخ ذی الحجہ کو ٹھہرے اور فرمایا یہی دن حج اکبر کا دن ہے اور روایت میں ہے کہ آپ کی اونٹنی سرخرنگ کی تھی آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ جانتے بھی ہو؟ آج کیا دن ہے؟ لوگوں نے کہا قربانی کا دن ہے ۔ آپ نے فرمایا سچ ہے یہی دن حج اکبر کا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اونٹنی پر سوار تھے لوگ اس کی نکیل تھامے ہوئے تھے ۔ آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ کونسا دن ہے جانتے ہو؟ ہم اس خیال سے خاموش ہوگئے کہ شاید آپ اس کا کوئی اور ہی نام بتائیں ۔ آپ نے فرمایا یہ حج اکبر کا دن نہیں؟ اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے آپ کے سوال پر جواب دیا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے ۔ سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ عید کے بعد کا دن ہے ۔ مجاہد کہتے ہیں حج کے سب دنوں کا یہی نام ہے ۔ سفیان بھی یہی کہتے ہیں کہ جیسے یوم جمل یوم صفین ان لڑائیوں کے تمام دنوں کا نام ہے ایسے ہی یہ بھی ہے ۔ حسن بصری سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے فرمایا تمہیں اس سے کیا حاصل یہ تو اس سال تھا جس سال حج کے امیر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ ابن سیرین اسی سوال کے جواب میں فرماتے ہیں یہی وہ دن تھا جس میں رسول اللہ کا اور عام لوگوں کا حج ہوا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد (10 ذوالحجہ) کا دن ہے، اسی دن منیٰ میں اعلان نجات منایا گیا 10 ذوالحجہ کو حج اکبر کا دن اسی لئے کہا گیا کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم مناسک ادا کئے جاتے ہیں، اور عوام عمرے کو حج اصغر کہا کرتے تھے۔ اس لئے عمرے سے ممتاز کرنے کے لئے حج کو حج اکبر کہا گیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جو حج جمعہ والے دن آئے وہ حج اکبر ہے یہ بےاصل بات ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] جزیرۃ العرب کی شرک اور مشرکوں سے تطہیر :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اس جزیرۃ العرب کی مشرکین سے تطہیر مطلوب ہے اور تمہاری کوئی بھی کوشش اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ گویا اس اعلان سے صرف بیت اللہ ہی کو شرک کی نجاست سے بچانا مقصود نہ تھا بلکہ پورے جزیرہ عرب کو ان ناپاک مشرکوں سے پاک کرنا مقصود تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى النَّاسِ : یوم حج اکبر سے مراد ١٠ ذوالحجہ ہے، جس دن حاجی منیٰ میں آکر قربانی کرتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رض) نے مجھے ان لوگوں کے ہمراہ بھیجا جو قربانی کے دن منیٰ میں اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور کوئی ننگا شخص بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا اور حج اکبر کا دن یوم النحر (قربانی کا دن) ہے، کیونکہ لوگ ( عمرے کو) حج اصغر کہتے تھے، چناچہ ابوبکر صدیق (رض) نے اس سال صاف اعلان کروا دیا، تو حجۃ الوداع جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کیا، کسی مشرک نے حج نہیں کیا۔ [ بخاری، الجزیۃ و الموادعۃ، باب کیف ینبذ إلی أہل العھد ؟ : ٣١٧٧ ] اس سے معلوم ہوا کہ بعض لوگ جو اس حج کو حج اکبر کہتے ہیں جو جمعہ کے دن آئے ان کی بات درست نہیں۔ ابوہریرہ (رض) ہی سے ایک روایت میں مزید اضافہ ہے کہ پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کو یہ اعلان دے کر بھیجا، پھر آپ نے ان کے بعد علی (رض) کو بھیجا کہ وہ ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے) یہ اعلان کریں، چناچہ ابوبکر (رض) ، جو امیر حج تھے، ان کے حکم پر میں نے، میرے ساتھیوں نے اور علی (رض) نے منیٰ میں یہ اعلان کیا۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( و أذان من اللہ ۔۔ ) : ٤٦٥٦ ] مسند احمد میں ہے کہ چار ماہ کی مہلت دینے، ننگے کو طواف کی اجازت ختم کرنے اور آئندہ سال کسی مشرک کے حج نہ کرنے کے اعلان کے ساتھ ایک اعلان یہ بھی کرتے تھے کہ جنت میں ایمان والوں کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا۔ [ أحمد : ٢؍٢٩٩، ح : ٧٩٩٦ ] وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا : یہ اعلان تاکید کے لیے دوبارہ کیا گیا، تاکہ کافر اپنے آپ کو اللہ کی پکڑ سے کسی طرح بھی بچ نکلنے والے نہ سمجھیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The generosity of giving respite to disbelievers even after trea¬ties with them had expired It was stipulated that these injunctions shall come into force and the period of respite shall start from the time the relevant information has been promulgated throughout the Arabian Peninsula. According to the arrangement made for this purpose, the public proclamation was to be made in the great gathering of the Hajj of the Hijrah year 9 at Mina and ` Arafat. This finds mention in the third and fourth verses of Surah At-Taubah as follows: وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ‌ أَنَّ اللَّـهَ بَرِ‌يءٌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ۙ وَرَ‌سُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ ۗ وَبَشِّرِ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣﴾ And here is an announcement, from Allah and His Messenger to the people on the day of the greater Hajj, that Allah is free from [ any commitment to ] the Mushriks, and so is His Mes¬senger. Now, if you repent, it is good for you. And if you turn away, then be sure that you can never defeat Allah. And give those who disbelieve the ` good& news of a painful punishment - (9:3, 4). When abrogating a treaty with disbelievers, taking any action against them without prior public announcement is not correct So, in order to implement this Divine injunction, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) sent Sayyidna Abu Bakr and Sayyidna ` Ali (رض) to the Hajj of the Hijrah year 9 at Makkah al-Mukarramah and had them make this proclamation before a gathering of all tribes of Arabia on the plains of Arafat and Mina. It was all too obvious that this injunction would become widely known through the medium of that great gathering all over Arabia. However, as a matter of added precau¬tion, he had this proclamation particularly made in distant Yemen through Sayyidna Ali (رض) . After this public proclamation, the situation was that the first group, that is, the disbelievers of Makkah had to leave the limits of the state by the end of the ` sacred months,& that is, the end of the month of Muharram of the Hijrah year 10. Similarly, the deadline for the second group was Ramadan of the Hijrah year 10; and that of the third and fourth groups was the tenth of Rabi& ath-Thani of the Hijrah year 10. Any contravention of this executive order would have rendered the offender liable to face an armed confrontation. Under this arrangement, by the time of Hajj next year, no disbeliever was to remain within state limits. This will appear in verse 28 of Surah At-Taubah where it has been said: فَلَا يَقْرَ‌بُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَ‌امَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا (so, let them not come near Al masjid-al-Haram after this year of theirs). And the saying of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in Hadith: لا یحجنّ بعد العام مشرک (The disbelievers shall not perform Hajj after this year) means precisely this. Up to this point, given here was an explanation of the first verses of Surah At-Taubah in the light of corresponding events. Now, some relevant point that emerge from these verses are being discussed below. What do these five verses teach? 1. First of all, soon after the Conquest of Makkah, the general am¬nesty granted by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to the Quraysh of Makkah, and to other enemy tribes, taught Muslims a practical lesson in high morals. The lesson was: if they overpower an enemy who stands helpless before them, they should not seek revenge from that enemy for his past hostilities. Rather than do something like that, they should actually demonstrate the best of Islamic morals by being generous and forgiving to their enemies. Though, acting in this man¬ner may require a certain trampling over their natural feelings, still such a conduct is full of great advantages. A- To begin with, it can be said that revenge does help one take out anger, at least temporarily - which may even give one a sense of personal relief - yet, this sense of relief or comfort is transitory. Then, as compared with it, the pleasure of Allah Ta` ala and the high ranks of Paradise one is going to get are far more and are forever in all respects. Consequently, reason demands that one should prefer what is everlasting to what is temporary. B- Then, there is this act of suppressing one&s angry emotions af¬ter having overpowered the enemy. This clearly proves that the battle fought by these people had no selfish motive behind it. The only mo¬tive they had was fighting in the way of Allah - and this great objec-tive is what draws the decisive line between the Jihad of Islam and the wars of common kings and rulers of the world, and what also lays bare the difference in Jihad and rotten aggression. Thus, the truth is that a war waged for Allah to implement His injunctions shall be what Jihad is, otherwise it shall remain a highhanded exercise in disorder. C- The third benefit yielded by this conduct comes naturally. When the overpowered enemy observes the high morals of the victors, he is likely to be drawn towards Islam and Muslims, something which is bound to lead him on to the path of his own success in life - and this is the real objective of Jihad. Forgiving disbelievers never means lack of vigilance against any impending harm from them 2. The second ruling which has been deduced from these verses is that forgiveness and generosity do not mean that one should become negligent about self-protection against the evil designs of enemies by giving them free rein to go ahead and keep causing loss and injury to their forgivers. No doubt, forgiveness and generosity are in order, but along with these, commonsense demands that one should take lesson from past experience and restructure the pattern of life ahead by blocking all holes and crevices through which one could come within the range of enemy hostility. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: لا یلدغ المرء من جحر واحد مرتین (One is not bitten twice from the same hole) meaning that a person does not put his hand twice in the same hole from which a poisonous reptile had bitten him. The Qur&anic proclamation of the withdrawal of Hijrah year 9 and the ensuing instructions given to the Mushriks that they should va¬cate the environs of the Sacred Mosque peacefully within the period of respite allowed are proofs of this wise strategy. 3. The initial verses of Surah At-Taubah also tell us that forcing weak people to leave a place without reasonable notice of evacuation, or attacking them without warning is cowardly, and very ignoble indeed. Whenever such an action has to be taken, it is necessary to make a public announcement first so that the affected people, who do not ac-cept the law of the land, may get the time to go wherever they wished, freely and conveniently. This becomes clear through the general proc¬lamation of the Hijrah year 9 as mentioned in the cited verses and as demonstrated by the legal respite granted to all affected groups. 4. The fourth ruling emerging from the cited verses tells us that, in case there is the need to annul a treaty of peace already made - which is permitted subject to some conditions - it is far better to allow the treaty to remain valid until it expires automatically. This has been commanded in the fourth verse of Surah At-Taubah where Muslims were required to fulfill their treaty obligations to the tribes of Banu Damurah and Banu Mudlaj for the remaining nine months. 5. The fifth ruling from the cited verses tells us about the standard Muslim attitude towards the enemies of Islam. When confronted with enemies, Muslims should always keep in mind that they are no enemy to them personally. The truth of the matter is that they are opposed to their disbelief, which is actually the cause of their own loss in the present world as well as in the Hereafter. As for the opposition of Mus¬lims to them, that too is really based on good wishes for them. Therefore, Muslims should never abandon the opportunity to give good coun¬sel to them, whether in war or peace. This theme appears in these verses repeatedly. It promises real prosperity for them in this world and in the world to come, only if they were to rescind their thinking. The text does not leave it at that. It also warns them of the conse¬quences: if they refused to repent and correct, they would not only be destroyed and killed in the present world but, they would also not es-cape their punishment even after death. It is interesting that, along with the proclamation of withdrawal in these verses, the strain of sym¬pathetic insistence also continues.

کفار سے معاہدات ختم ہوجانے پر بھی ان کو مہلت دینے کا کریمانہ سلوک : ان احکام کا نفاذ اور مہلت کا شروع اس وقت سے تجویز ہوا جبکہ ان احکام کا اعلان تمام عرب میں ہوجائے۔ اس اعلان عام کے لئے یہ انتظام کیا گیا کہ ٩ ہجری کے ایام حج میں منیٰ و عرفات کے عام اجتماعات میں اس کا اعلان کیا جائے جس کا ذکر سورة توبہ کی تیسری آیت میں اس طرح آیا (آیت) وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ڏ وَرَسُوْلُهٗ ۭ فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ ۔ یعنی اعلان عام ہے عام لوگوں کے سامنے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑے حج کی تاریخوں میں اس بات کا کہ اللہ اور اس کا رسول دونوں دست بردار ہوتے ہیں ان مشرکین سے پھر اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ اور اگر تم نے اعراض کیا تو یہ سمجھ رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے اور ان کافروں کو ایک دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے۔ کفار سے معاہدہ ختم کیا جائے تو اعلان عام اور سب کو ہشیار خبردار کئے بغیر ان کے خلاف کوئی عمل درست نہیں : چنانچہ اس حکم ربانی کی تعمیل کے لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٩ ہجری کے حج میں حضرت صدیق اکبر اور علی مرتضی (رض) کو مکہ مکرمہ بھیج کر میدان عرفات اور منٰی میں جہاں تمام قبائل عرب کا اجتماع تھا یہ اعلان کرادیا اور یہ بھی ظاہر تھا کہ اس عظیم الشان مجمع کی معرفت پورے عرب میں میں اس حکم کا مشتہر ہوجانا لازمی تھا۔ پھر احتیاطًا حضرت علی کی معرفت یمن میں بالتخصیص اس کا اعلان کرادیا۔ اس اعلان عام کے بعد صورت حال یہ ہوگئی کہ پہلی جماعت یعنی مشرکین مکہ کو اشھر حرم کے خاتمہ یعنی محرم ١٠ ہجری کے ختم تک اور دوسری جماعت کو رمضان ١٠ ہجری تک اور تیسری چوتھی جماعتوں کو ١٠ ربیع الثانی ١٠ ہجری تک حدود سے خارج ہوجانا چاہئے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے وہ مستحق قتال ہے۔ اس طرح اگلے سال کے زمانہ حج تک کوئی کافر داخل حدود نہ رہنے پائے گا جس کا ذکر سورة توبہ کی اٹھائیسویں آیت میں آئے گا جس میں ارشاد ہے (آیت) فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا۔ یعنی یہ لوگ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس نہ جاسکیں گے۔ اور حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ا رشاد لا یحجن بعد العام مشرک کا یہی مطلب ہے سورة توبہ کی ابتدائی پانچ آیتوں کی تفسیر واقعات کی روشنی میں سامنے آچکی۔ مذکورہ پانچ آیات سے متعلق چند مسائل اور فوائد : اول یہ کہ فتح مکہ کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ اور دوسرے دشمن قبائل کے ساتھ جو معاملہ عفو و درگزر اور رحم و کرم کا فرمایا اس نے عملی طور پر مسلمانوں کو یہ اخلاقی درس دیا کہ جب تمہارا کوئی دشمن تمہارے قابو میں آجائے اور تمھاے سامنے عاجز ہوجائے تو اس سے گذشتہ عداوتوں اور ایذاؤں کا انتقام نہ لو بلکہ عفو و کرم سے کام لے کر اسلامی اخلاق کا ثبوت دو ۔ اگرچہ ایسا کرنا اپنے طبعی جذبات کو کچلنا ہے لیکن اس میں چند عظیم فائدے ہیں۔ اول خود اپنے لئے کہ انتقام لے کر اپنا غصہ اتار لینے سے وقتی طور پر اگرچہ نفس کو کچھ راحت محسوس ہو لیکن یہ راحت فنا ہونے والی ہے اور اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کے درجات عالیہ جو اس کو ملنے والے ہیں وہ اس سے ہر حیثیت میں زیادہ بھی ہیں اور دائمی بھی اور عقل کا تقاضا یہی ہے کہ دائمی کو فانی پر ترجیح دے، دوسرے یہ کہ دشمن پر قابو پانے کے بعد اپنے غصہ کے جذبات کو دبا دینا اس کا ثبوت ہے کہ ان کی لڑائی اپنے نفس کے لئے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے لئے تھی اور یہی وہ اعلی مقصد ہے جو اسلامی جہاد اور عام بادشاہوں کی جنگ میں امتیاز اور جہاد و فساد میں فرق کرنے والا ہے کہ جو لڑائی اللہ کے لئے اور اس کے احکام جاری کرنے کے لئے ہو وہ جہاد ہے ورنہ فساد۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ دشمن جب مقہور و مغلوب ہونے کے بعد ان اخلاق فاضلہ کا مشاہدہ کرے گا تو شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو اسلام اور مسلمانوں سے محبت پیدا ہوگی جو اس کے لئے کلید کامیابی ہے اور یہی جہاد کا اصل مقصد ہے۔ کفار سے عفو و درگزر کے یہ معنی نہیں کہ ان کے ضرر سے بچنے کا اہتمام بھی نہ کیا جائے : (٢) دوسرا مسئلہ جو آیات مذکورہ سے سمجھا گیا یہ ہے کہ عفو و کرم کے یہ معنی نہیں کہ دشمنوں کے شر سے اپنی حفاظت نہ کرے اور ان کو ایسا آزاد چھوڑ دے کہ وہ پھر ان کو نقصان اور ایذاء پہنچاتے رہیں۔ بلکہ عفو و کرم کے ساتھ تقاضائے عقل یہ ہے کہ پچھلے تجربوں سے آئندہ زندگی کے لئے سبق حاصل کرے اور ان تمام رخنوں کو بند کرے جہاد سے یہ خود دشمنوں کی زد میں آسکے۔ اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکیمانہ ارشاد ہے لا یلدغ المرء من حجر واحد مرتین۔ یعنی عقلمند آدمی ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ جس سوراخ سے ایک مرتبہ کسی زہریلے جانور نے اس کو کاٹا ہے اس میں دوبارہ ہاتھ نہیں دیتا۔ ٩ ہجری کے قرآنی اعلان براءت اور مشرکین کو مہلت و اطمینان کے ساتھ حدود حرم خالی کردینے کی ہدایات اسی حکمت عملی کا ثبوت ہیں۔ ( ٣) تیسرا فائدہ سورة توبہ کی ابتدائی آیات سے یہ معلوم ہوا کہ کمزور قوموں کو بلا مہلت کسی جگہ سے نکل جانے کا حکم یا ان پر یکبارگی حملہ بزدلی اور غیر شریفانہ فعل ہے۔ جب ایسا کرنا ہو تو پہلے سے اعلان عام کردیا جائے اور ان کو اس کی پوری مہلت دی جائے کہ وہ اگر ہمارے قانون کو تسلیم نہیں کرتے تو آزادی کے ساتھ جہاں چاہیں بسہولت جاسکیں۔ جیسا کہ مذکورہ آیتوں میں ٩ ہجری کے اعلان عام اور اس کے بعد تمام جماعتوں کو مہلت دینے کے احکام سے واضح ہوا۔ (٤) چوتھا مسئلہ آیات مذکورہ سے یہ معلوم ہوا کہ کسی قوم کے ساتھ معاہدہ صلح کرلینے کے بعد اگر میعاد سے پہلے اس معاہدہ کو ختم کردینے کی ضروری پیش آجائے تو اگرچہ چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت ہے مگر بہتر یہی ہے کہ معاہدہ کو اس کی میعاد تک پورا کردیا جائے جیسا کہ سورة توبہ کی چوتھی آیت میں بنو ضمرہ اور بنو مدلج کا معاہدہ نو مہینہ تک پورا کرنے کا حکم آیا ہے۔ (٥) پانچواں مسئلہ ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ دشمنوں کے ساتھ ہر معاملہ میں اس کا خیال رہنا چاہئے کہ مسلمانوں کی دشمنی ان کی ذات کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے کافرانہ عقائد و خیالات کے ساتھ ہے جو انھیں کے لئے دنیا و آخرت کی بربادی کے اسباب ہیں۔ اور مسلمانوں کی ان سے مخالفت بھی درحقیقت ان کی ہمدردی اور خیر خواہی پر مبنی ہے۔ اسی لئے جنگ و صلح کے ہر مقام پر ان نصیحت و خیر خواہانہ فہمائش کسی وقت نہ چھوڑنا چاہئے۔ جیسا کہ ان آیتوں میں جابجا اس کا ذکر ہے کہ اگر تم اپنے خیالات سے تائب ہوگئے تو یہ تمہارے لئے فلاح دنیا و آخرت ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی بتلا دیا کہ اگر تائب نہ ہوئے تو صرف یہی نہیں کہ تم دنیا میں قتل و غارت کئے جاؤ گے جس کو بہت سے کافر اپنا قومی کارنامہ سمجھ کر اختیار کرلیتے ہیں بلکہ یہ بھی سمجھ رکھو کہ مرنے کے بعد بھی عذاب سے نجات نہ پاؤ گے۔ مذکورہ آیتوں میں اعلان براءت کے ساتھ ہمدردانہ فہمائش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللہَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝ ٠ۥۙ وَرَسُوْلُہٗ۝ ٠ ۭ فَاِنْ تُبْتُمْ فَہُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝ ٠ ۚ وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللہِ۝ ٠ ۭ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ۝ ٣ ۙ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ عجز عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه : مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] . ( ع ج ز ) عجز الانسان عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (واذاک من اللہ و رسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر ان اللہ بریء من المشرکین و رسولہ۔ اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج کے بڑے دن، تمام لوگوں کے لئے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی) یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان ہے کہا جاتا ہے اذنیٰ بکذا مجھے اس نے یہ بات معلوم کرائی اور مجھے اس کا علم ہوگیا۔ حج اکبر کے بارے میں تعبیرات ” یوم الحجۃ الاکبر “ کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ بعض روایات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ اس سے مراد یوم عرفہ ہے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، عطاء اور مجاہد سے مختلف روایات کی صورت میں یہی منقول ہے کہ اس سے یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ مراد ہے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ، حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) ، ابراہیم نخعی اور سعید بن جبیر (رض) سے مختلف روایات کی صورت میں یہ قول بھی منقول ہے کہ اس سے ایام حج مراد ہیں۔ یہ تعبیر عربی زبان میں عام ہے جس طرح نگ صفین میں کئی دنوں تک لڑائی ہوتی رہی لیکن اس کی تعبیر یوم صفین کے الفاظ سے کی جاتی ہے۔ حماد نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ حج اکبر حج قرآن کو کہتے ہیں اور حج اصغر حج افراد کچا نام ہے۔ لیکن یہتفسیر اس بنا پر ضعیف ہے کہ اس سے یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ حج افراد کے لئے ایک معین دن ہوتا ہے اور حج قرآن کے کلیے بھی ایک معین دن۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ حج افراد کے لئے بھی وہی دن ہے جو قرآن کے لئے ہے۔ اس صور میں حج اکبر کے دن کی فضیلت کا فائدہ باطل وہ جائے گا۔ اس صورت میں یہ واجب تھا کہ برأت کا یہ اعلان حج قران کے دن کیا جاتا۔ دوسری طرف قو باری (یوم الحج الاکبر) سے جب یوم عرفہ یا یوم النحر مراد ہوتا اور حج اصغر عمرہ کو کہا جاتا تو اس سے یہ ضروری ہوجاتا کہ حج کے ایام عمرہ کے ایام سے جدا ہوتے اور عمرہ ایام حج میں ادا نہ کیا جاتا۔ ابن سیرین سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (یوم الحج الاکبر) صرف اس لئے فرمایا کہ تمام مذاہب کی عیدیں اس میں جچمع ہوگئی ہیں۔ نیز یہ وہ سال تھا جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فریضہ حج ادا کیا تھا۔ ابن سیرین کی اس تفسیر کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ غلط ہے اس لئے کہ برأت کا اعلان اس سال ہوا تھا جس سال حضرت ابوبکر (رض) نے امیر حج کی حیثیت سے فریضہ حج ادا کیا تھا نیز جس سال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فریضہ حج ادا کیا تھا اس سال مشرکین پر حج کے دروازے بند کردیئے گئے تھے۔ اس لئے کہ انہیں ایک سال قبل ہی آئندہ کے لئے بیت اللہ میں داخل ہونے کی ممانعت کردی گئی تھی۔ حضرت عبداللہ بن شداد کا قول ہے کہ حج اکبر یوم النحر ہے اور حج اصغر عمرہ ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ عمرہ حج اصغر ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (الحج الاکبر) اس بات کا مقتضی ہے کہ کوئی حج اصغر بھی ہونا چاہیے اور یہ عمرہ ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن شداد (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی منقول ہے کہ آپ نے فرمایا (العمرۃ الحج الصغریٰ عمرہ چھوٹا حج ہے۔ جب یہ باتثابت ہوگئی کہ حج کا اسم عمرہ پر بھی واقع ہوتا ہے پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اقرع بن جابس (رض) ک اس سوال پر کہ آیا حج کا فریضہ ہر سال ادا کیا جائے گا یا صرف ایک مرتبہ ؟ ارشاد فرمایا کہ (لا بل حجۃ واحدۃ نہیں بلکہ صرف ایک حج) یہ بات عمرہ کے وجوب کی نفی پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حج کے سوا حج کے وجوب کی نفی فرما دی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ (الحج عرفہ حج عرفہ ہے) یعنی عرفات کے میدان میں کھڑے ہونے کا نام ہے۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے حج اکبر کا دن عرفہ کا دن ہے۔ اس میں یوم النحر کوھی حج اکبر کا دن ہونے کا احتمال ہے اس لئے کہ اس دن مناسک کی ادائیگی کی تکمیل ہوتی اور میل کچیل دور کیا جاتا ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے ایام منیٰ مراد ہوں جیسا کہ مجاہد سے منقول ہے۔ اسے اکبر کی صفت سے موصوف کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایام منیٰ میں صرف حج کے ارکان ادا کئے جاتے ہیں عمرہ ادا نہیں کیا جاتا۔ ایک قول ہے کہ یوم عرفہ کی بہ نسبت یوم النحر کا یوم حج اکبر بننا اولیٰ ہے اس لئے کہ یوم النحر میں تمام حاجیوں کا اجتماع وہ جاتا ہے جبکہ عرفات میں بعض حاجی رات کے وقت آتے ہیں اور بعض دن کے وقت جہاں تک سورة برأت کے اعلان کا تعلق ہے اس میں یہ ممکن ہے کہ اس کا اعلان یوم عرفہ کو ہوا ہو اور اس کا بھی امکان ہے کہ یوم النحر کو ہوا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣) یہ انکار کرنے والی جماعت چار ماہ کے بعد عذاب الہی سے جو ان کے قتل کی صورت میں ہوگا کہیں بچ کر نہیں جاسکتے اور چار ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ کافروں کو قتل کی سزا دینے والا ہے اور یہ یوم النحر کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے عام لوگوں کے سامنے اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں مشرکین کے دین اور ان کے معاہدہ سے جس کی انہوں نے بدعہدی کی ہے دست بردار ہوتے ہیں۔ پھر اگر تم لوگ کفر سے توبہ کرلو اور اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان لے آؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا اور اگر ایمان اور توبہ سے روگردانی کرتے رہو گے تو تم جان لو کہ عذاب الہی کو تم اپنے سے الگ نہیں کرسکتے اور ماہ کے بعد قتل کی سزا جھیلو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ ) عمرے کو چونکہ حج اصغر کہا جاتا ہے اس لیے یہاں عمرے کے مقابلے میں حج کو حج اکبر کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ حج اگر جمعہ کے دن ہو تو وہ حج اکبرہوتا ہے ‘ ایک بےبنیاد بات ہے۔ (اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَلا وَرَسُوْلُہٗ ط) یہ اعلان چونکہ حج کے اجتماع میں کیا گیا تھا اور حج کے لیے جزیرہ نمائے عرب کے تمام اطراف و اکناف سے لوگ آئے ہوئے تھے ‘ لہٰذا اس موقع پر اعلان کرنے سے گویا عرب کے تمام لوگوں کے لیے اعلان عام ہوگیا کہ اب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین سے برئ الذمہ ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں رہا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :4 یعنی ۱۰ ذی الحجہ جسے یوم النحر کہتے ہیں ۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے حاضرین سے پوچھا یہ کونسا دین ہے؟ لوگوں نے عرض کیا یوم النحر ہے ۔ فرمایا ھٰذا یوم الحج الاکبر ۔ ” یہ حج اکبر کا دن ہے“ ۔ حج اکبر کا لفظ حج اصغر کے مقابلہ میں ہے ۔ اہل عرب عمرے کو چھوٹا حج کہتے ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں وہ حج جو ذوالحجہ کی مقررہ تاریخوں میں کیا جاتا ہے ، وہ حج اکبر کہلاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: دست برداری کا یہ حکم آچکا تھا، لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں سے انصاف کی خاطر ان مختلف مدتوں کی ابتدا اس وقت سے فرمائی جب ان کو ان سارے احکام کی اطلاع ہوجائے۔ پورے عرب میں اعلان کا سب سے موثر ذریعہ یہ تھا کہ یہ اعلان حج کے موقع پر کیا جائے، کیونکہ اس وقت سارے عرب کے لوگ حجاز میں جمع ہوتے تھے، اور اس وقت تک مشرکین بھی حج کے لئے آتے تھے۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد جو حج ۹ ہجری میں ہوا۔ اس سال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بہ نفس نفیس توحج کے لئے تشریف نہیں لے گئے تھے، لیکن حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو امیر حج بناکر بھیجا تھا۔ اُن کے بعد آپ نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھی اسی مقصد سے روانہ فرمایا کہ وہ ان احکام کا سب کے سامنے اعلان کردیں، وجہ یہ تھی کہ اہل عرب میں یہ معمول تھا کہ اگر کسی شخص نے کوئی معاہدہ کیا ہوتا اور وہ اسے ختم کرنا چاہتا تو یہ ضروری سمجھاجاتا تھا کہ معاہدہ ختم کرنے کا اعلان یا تو وہ خود کرے یا اس کا کوئی قریبی عزیز۔ اس لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو روانہ فرمایا. (الدرالمنثورص ۱۱۴ ج، ۴ بیروت ۱۴۲۱ ھ)۔ واضح رہے کہ ’’حج اکبر‘‘ ہر حج کو اس لئے کہتے ہیں کہ عمرہ چھوٹا حج ہے، اور اس کے مقابلے میں حج بڑا حج ہے۔ اور یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ اگر حج جمعہ کے دن آجائے تو وہ ’’حج اکبر‘‘ ہوتا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ جمعہ کے دن حج ہو تو بیشک دو فضیلتیں جمع ہوجاتی ہیں، لیکن صرف اسی کو حج اکبر قرار دینا درست نہیں ہے، بلکہ یہ لقب ہر حج کا ہے، چاہے وہ کسی بھی دن ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣۔ اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ چار مہینے تک کی مدت دے کر کفار سے یہ کہہ دو کہ ایسے دن یہ حکم دیا جارہا ہے کہ حج اکبر کا دن ہے یہ بھی فرمایا کہ چار مہینے کے بعد خدا اور اس کا رسول صلح سے بری ہے تم اپنا سورچ سمجھ لو اگر تم کفر سے تائب ہوگئے تو تمہارے واسطے بہتر ہے اور اگر نہیں تو یاد رکھو تم خدا کو نہیں تھکا سکتے ہو جہاں جاوگے پکڑے جاؤ گے کہیں بھاگ نہیں سکتے دنیا میں قتل و غارت کے سوا آخرت میں بھی تم پر درد ناک عذاب ہوگا حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور کفار مکہ اور چند فرقہ کے لوگوں سے ٦؁ ہجری میں صلح ہوئی تھی جو حدیبیہ کی صلح مشہور ہے اس کا ذکرانا فتحنا میں ہے پھر جب مکہ فتح ہوگیا تو یہ حکم ہوا کہ کسی مشرک اور کافر سے صلح نہ رکھو اور نہ عہدو پیمان کرو اور عرفات سے پھر کر قربانی کے مفام میں جب یہ سب جمع ہوں تو یہ حکم قربانی والے دن پکار دو اور صلح کے جواب میں چار مہینے کی مہلت اس لئے دے دو کہ اس عرصہ میں وہ لوگ ایمان قبول کریں تو بہتر ہے اور نہیں تو اپنا اپنا گھر چھوڑ کر چلے جائیں اور اگر یہ بھی نہ کریں تو لڑائی کا انتظام کریں اور جنگ کے واسطے آمادہ ہوجائیں پھر گھڑی بھر کی فرصت نہ دو بعض مفسروں نے بیوم الحج الاکبر کی تفسیر میں یہ بیان کیا ہے کہ حج اکبر کے دن سے مراد عرفہ کا دن ہے مگر اکثر مفسرین کا یہ قول ہے کہ اس سے دسویں ذی الحجہ مقصود ہے جس رواز منی میں آن کر سب لوگ قربانی کرتے ہیں بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی ایک حدیث ہے کہ اس حج میں جس میں یہ حکم سنایا گیا مجھے بھی ابوبکر صدیق (رض) نے بھیجا تھا وہ قربانی کا دن تھا ہم لوگ منی میں یوں پکارتے پھرتے تھے کہ اس سال کے بعد پھر کوئی مشرک حج کرنے نہ پائے گا اور نہ ننگے بدن کسی مشرک کو طواف کرنا ملے گا اس حدیث سے پچھلے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ مجاہد کا قول یہ ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) صدیق اور حضرت علی (رض) کے سبب سے اس حج میں یہ ایک بڑی بات ہوئی کہ عرفات سے منیٰ میں واپس آنے کے بعد دسویں ذی الحجہ سے آئندہ کے لئے مشرکوں کا طواف بند اور حرم مشرکوں کی ناپاکی سے پاک صاف ہوگیا اسی واسطے اس حج کو بڑا حج فرمایا طبرانی میں معتبر سند سے سمرۃ بن جندب (رض) کی اس مضمون کی ایک حدیث ہے جس سے مجاہد کے قول کی تائید ہوتی ہے اس حج میں دوسری یہ بات بھی ہوئی جس کا ذکر اوسط طبرانی میں عبداللہ بن عمر وبن العاص (رض) کی صحیح روایت سے ہے کہ مشرکین مکہ اپنی ضرورتوں سے سال کے مہینوں میں کچھ ردو بدل جو کرلیا کرتے تھے وہ ردو بدل اس سال میں نہیں ہوا بلکہ سال کا حج عین وقت پر ادا کیا گیا سال کے مہینوں کی ردوبدل کی تفصیل اس سورة میں آگے آوے گی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:3) اذان من اللہ ۔۔ الی الناس۔ تمام لوگوں کے لئے اطلاع عام۔ برأت صرف ان مشرکین سے تھی جن کے ساتھ معاہدات تھے اور اذان تمام لوگوں کے لئے اس برأت کی اطلاع عام۔ یوم الحج الاکبر۔ بڑے حج کا دن یعنی یوم عرفات 9 ذوالحج کا دن۔ جس دن حجاج میدان عرفات میں قیام کرتے ہیں۔ اور غروب آفتاب سے قبل مزدلفہ کی طرف جانے کے لئے نکل آتے ہیں۔ 8 ۔ 9 ۔ 10 ذوالحج کے ایام ہیں۔ مناسک حج میں میدان عرفات میں قیام سب سے اہم ہے۔ یا اس سے یوم البخر بھی مراد ہوسکتا ہے یعنی دسویں ذوالحج کیونکہ اس دن مناسک حج پوری ہوجاتی ہیں۔ یعنی حجاج طواف اور قربانی سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ یا جملہ ایام حج مراد ہیں کہ عرب میں عمرہ کو حج اصغر کہتے ہیں اور ذی الحجہ کی مقررہ تاریخوں میں جو حج ہوتا ہے اسے حج اکبر کہا جاتا ہے۔ لیکن یہاں چونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے 10 ذوالحجہ کو اعلان سنایا تھا لہٰذا یہاں مراد یوم النحر ہی ہوسکتا ہے (یعنی آج حج اکبر کے دن اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے یہ اعلان عام کیا جاتا ہے) بریٔ۔ بری۔ بری الذمہ۔ بیزار۔ ملاحظہ ہو (9:1) ورسولہ۔ واؤ حرف عطف۔ رسولہ مضاف مضاف الیہ مل کر معطوف ۔ اس کا معطوف علیہ اللہ ہے۔ عام قاعدہ کے مطابق معطوف اور معطوف الیہ کا اعراب ایک ہی ہونا چاہیے تھا۔ یعنی اللہ کی طرح رسولہٗ بھی منصوب ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے مرفوع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ رسولہٗ مضاف مضاف الیہ مل کر مبتدا ہے اور اس کی خبر بریٔ محذوف ہے اور جملہ ورسولہٗ بریٔ بصورت جملہ پہلے جملہ ان اللہ بریٔ کا معطوف ہے۔ ان تبتم۔ اگر تم تائب ہوجاؤ۔ یہاں خلاف مشرکین سے ہے کہ اگر تم شرک و کفر سے باز آجاؤ۔ ان تولیتم۔ اگر تم پھرگئے۔ ولی (تفعل) سے ماضی جمع مذکر حاضر۔ بشیر۔ تو خوشخبری دے۔ تو بشارت دے۔ تو خبر دے۔ تبشیر (تفعیل) سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ بشارت استہزاء کے طور پر ہوا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یوم الحج الا کبر۔ ( بڑے حج کے دن) سے مراد 10 ذی الحجہ ہے جس دن حاجی منیٰ میں آکر قربانی کرتے ہیں۔ ، حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ بڑے حج کا دن نو نسا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قربانی کا دن (ترمذی) حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حجتہ الوداع میں قربانی کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمرات کے درمیان کھڑے ہو کر لوگوں سے دریافت فرمایا کہ آج کونسا دن ہے ؟َ لوگوں نے جواب دیا کہ قربانی دن فرمایا یہی بڑے حج کا دن ہے۔ ( ابوداؤد۔ ابن ماجہ)7 یعنی کسی قسم کا معاہدہ یا دوستی ان سے نہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : مشرکین کی سازشوں اور بد عہدیوں کی ٹھیک ٹھیک سزا تو یہ تھی کہ انھیں فوری طور پر حدود حرم سے نکال باہر کیا جاتا لیکن اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت اور اس کے رسول کی شفقت کا نتیجہ تھا کہ ان کے لیے یہ اعلان کیا گیا کہ چار مہینے تک تم کھلے عام حدود حرم کے اندر رہتے ہوئے اپنے کام کاج اور معاملات کو سمیٹ کر نکل جاؤ اور ساتھ ہی انھیں یہ انتباہ فرمایا کہ وہ دن گزر گئے کہ جب تم سازشیں کیا کرتے تھے اب ایسا کرو گے تو انتہائی ذلیل کردیے جاؤ گے اور تم کسی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کو بےبس نہیں کرسکتے۔ کفار اور مشرکین کی حرم کی تولیت سے محرومی اور ہمیشہ کے لیے اپنے گھروں سے بےدخل ہونا کچھ کم ذلت نہ تھی مگر اس کے باوجود انھیں متنبہ کردیا گیا کہ اگر تم باز نہ آئے تو دنیا میں ذلیل اور آخرت میں اذیت ناک عذاب میں مبتلا کیے جاؤ گے البتہ تم ایمان لے آؤ تو تمہارے لیے دنیا میں خیر ہی خیر اور آخرت میں بہترین جزا ہوگی۔ عام لوگ عرفہ کے دن جمعہ ہو تو اسے حج اکبر کہتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں۔ حج اکبر کی اصطلاح عمرہ کے مقابلہ میں ہے کیونکہ عرب عمرہ کو حج اصغر اور حج کو حج اکبر کہا کرتے تھے۔ حدود حرم سے غیر مسلموں کو نکالنا اس لیے ضروری تھا تاکہ امت مسلمہ کا مرکز روحانی نجاست اور سیاسی سازشوں سے ہمیشہ کے لیے پاک ہوجائے۔ وفات سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے جزیرہ نما عرب سے نکل جانے کا حکم دیا کیونکہ اس قوم نے بھی شرارتوں اور سازشوں کی حد کردی تھی۔ اس لیے آپ نے حکم صادر فرمایا کہ انھیں ہمیشہ کے لیے سر زمین حجاز سے نکال باہر کیا جائے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ بَیْنَا نَحْنُ فِی الْمَسْجِد خَرَجَ النَّبِیُّ فَقَالَ انْطَلِقُوْا اِلٰی یَہُوْدَ فَخَرَجْنَا مَعَہٗ حَتّٰی جِءْنَا بَیْتَ الْمِدْرَاسِ فَقَام النَّبِیُّ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ یَہُوْدَ اَسْلِمُوْا تَسلَمُوْا اِعْلَمُوْا اَنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہٖ وَاِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ اُجْلِیَکُمْ مِنْ ھٰذِہٖ الْاَرْضِ فَمَنْ وَّجَدَ مِنْکُمْ بِمَالِہٖ شَیْءًا فَلْیَبِعْہُ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجزیۃ، باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں ہم مسجد میں موجود تھے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا یہودیوں کی جانب چلو۔ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلے اور ان کے مدرسہ میں پہنچے۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑے ہو کر فرمایا اے یہود مسلمان ہوجاؤ تم محفوظ رہو گے اور یقین کرلو یہ زمین اللہ اور اس کے رسول کے قبضہ میں ہے میں تمہیں اس سرزمین سے جلا وطن کرنا چاہتا ہوں۔ تم میں سے جس شخص کو اس کے مال کے بدلے کچھ دستیاب ہوتا ہے تو وہ اسے فروخت کر دے۔ “ مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشرکین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ٢۔ عمرہ کے مقابلے میں حج کو حج اکبر کہا جاتا ہے۔ ٣۔ ایمان لانا اور اس کے تقاضے پورے کرنے والا دنیا اور آخرت میں بہترین اجر پائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں اور کافروں کو بالآخر ذلیل کرے گا۔ تفسیر بالقرآن کفار کی سزا : ١۔ بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کی تکفیر کی ان کے لیے شدید عذاب ہے۔ ( آل عمران : ٤) ٢۔ کفار کے لیے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (آل عمران : ٩١) ٣۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہوگا۔ (البقرۃ : ١١٤) ٤۔ وہ لوگ جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ عذاب میں مبتلا ہونگے۔ (المائدۃ : ٧٣) ٥۔ کفار کے چمڑے جب جل جائیں گے تو ہم انہیں عذاب کا مزہ چکھانے کے لیے انکے چمڑے تبدیل کردیں گے۔ (النساء : ٥٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(درس نمبر 87 کا بقیہ حصہ) اور دین کے معاملے میں ہر قسم کے جبر اور اکراہ کے استعمال کو ممنوع قرار دیا جس طرح ہم نے آیات (256:2، ص 26 ۔ 40 ، ج 3) میں تفصیل سے دیا ہے۔ چناچہ مشرکین نے حضور کا مقابلہ کیا اور مسلمانوں کو فتنہ میں مبتلا کرکے ان پر تشدد کیا۔ اور ان کو اللہ کی راہ سے روکنے کی کوشش کی۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی انہوں نے تبلیغ کرنے سے جبراً منع کردیا۔ اور حالات ایسے ہوگئے کہ آپ کے متبعین میں سے کوئی بھی مامون نہ تھا۔ ہر کسی کو تشدد اور جان کا خطرہ لاحق تھا۔ الا یہ کہ وہ کسی کی پناہ میں ہوں یا کسی کے حلیف ہوں۔ لہذا مسلمانوں نے کئی بار ہجرت کی۔ اس کے بعد ان کی ایذا رسانی اور نیش زنی میں مزید اضافہ ہوگیا ، چناچہ انہوں نے خفیہ فیصلہ کیا کہ آپ کو دائمی طور پر قید کردیا جائے یا ملک بدر کردیا جائے یا قتل کردیا جائے اور یہ مشورہ انہوں نے دار الندوہ میں علانیہ کیا۔ لیکن آخری فیصلہ یہ کیا کہ آپ کو قتل کردیا جائے۔ چناچہ اللہ نے آپ کو ہجرت کا حکم دیا جیسا کہ اس کی تفصیلات ہم نے آیت (3:8) میں دے دی ہیں۔ واذ یمکر بک الذین (ج 9، ص 650) چناچہ آپ نے ہجرت فرمائی اور جن دوسرے لوگوں کی قسمت میں یہ اعزاز لکھا تھا انہوں نے بھی ہجرت فرمائی اور ان لوگوں کو مدینہ میں انصار ملے جن کے دلوں میں رسول اللہ اور ہجرت کرنے والوں کی محبت بسی ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے مثالی ایثار سے کام لیا اور اہل ہجرت اور رسول اللہ اور کفار مکہ کے درمیان اس وقت کے عرف کے مطابق حالت جنگ تھی۔ مدینہ کے ارد گرد پھیلے ہوئے اہل کتاب نے آپ کے ساتھ معاہدہ امن کیا لیکن انہوں نے اس معاہدے کو پورا نہ کیا اور خیانت اور غداری کی۔ اور مشرکین عرب کے ساتھ ساز باز کرکے وہ ہمیشہ رسول اللہ اور مسلمانوں کے خلاف قوتوں کی حمایت کرتے رہے جس کی تفصیلات ہم نے سورت انفال میں دی ہیں۔ دیکھئے اسی جلد کے صفحات (53 تا 68) اس قبل آپ نے حدیبیہ میں مشرکین کے ساتھ دس سالہ معاہدہ کیا تھا اور یہ معاہدہ آپ نے کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ قوت اور غلبے کے باوجود مشرکین کے شرائط پر کیا۔ محض اس لیے کہ آپ امن و سلامتی کو پسند فرماتے تے۔ اور اپنے دین کو حجت و دلیل کے ساتھ پھیلانا چاہتے تھے۔ (یہ بات اس حد تک درست ہے کہ تحریکی انداز میں تبلیغ اسلام بھی حجت و دلیل کے ساتھ ہے۔ لیکن اگر اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام میں جہاد صرف دفاع کے لیے ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ دفاع کے سوا بھی جہاد مسلمانوں پر فرض ہے۔ ) بنو خزاعہ نے آپ کے ساتھ عہد کیا اور بنوبکر نے قریش کے ساتھ عہد کیا۔ اور اس کے بعد قریش نے بنوبکر کی حمایت کرتے ہوئے خزاعہ پر حملہ کردیا اور اس طرح نقض عہد کے مستحق قرار پائے۔ اور اس نقض عہد کی وجہ سے مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان دوبارہ حالت جنگ عود کر آئی۔ اس کے نتیجے میں مکہ فتح ہوا۔ جس کی وجہ سے شوکت اسلامی قائم ہوئی اور مشرکین ذلیل ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود جس وقت بھی ممکن ہوا یہ لوگ حضور اکرم کے ساتھ غداری کرتے رہے۔ اور یہ بات تجربے سے ثابت ہوگئی کہ وہ قوی ہوں یا ضعیف ہوں ، مسلمانوں کے ساتھ غداری ان کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے اور وہ ہر گز پاس عہد نہیں رکھتے۔ جیسا کہ اسی سورت کی آیت کی تشریح میں آئے گا کہ وہ ہر وقت نقض عہد کے لیے آمادہ تھے۔ کیف یکون للمشرکین عھد عند اللہ تا آخر آیت 12 فقاتلوا ائمۃ الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھون۔ تک یعنی ان کے بارے میں یہ سمجھ لو کہ وہ کسی عہد کو پورا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ یعنی ان لوگوں کے ساتھ مسلمانوں کا بذریعہ معاہدہ یکجا رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس طرح کہ ان میں سے ہر فریق دوسرے کے شرر اور فتنہ سے محفوظ و مامون ہو اور مشرکین اپنے نظریات پر رہیں اور قانون ان کا نہ چلے۔ اور اس طرح باہم مل کر دونوں فریق زندہ رہ سکیں۔ کیونکہ ان کی سابقہ غداریوں اور مکاریوں کی وجہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے حالانکہ ان کے حسب حال یہ تھا کہ وہ اہل کتاب ہونے کے ناطے وفائے عہد کرتے۔ (تعجب کی بات ہے کہ مصنف اس گہری حقیقت تک پہنچ گئے ہیں جو ان اقدامات کا اصل سبب ہے اور یہ کہ ان معاہدات کا جو حشر ہوا اس سے ثابت ہوگیا کہ اسلامی محاذ اور مشرکین کے محاذ کے درمیان باہم سلامتی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ الا یہ کہ چند مختصر عرصے کے لیے کوئی وقفہ ایسا ہو ، لیکن اس کے باوجود مصنف اسلامی نظام اور شرکیہ نظام کے درمیان ایسے معاہدات کے قائل ہیں ، جن کی وجہ سے دار الاسلام میں دونوں نظام یکجا ہوکر رہ سکتے ہیں۔ یہ ان کے نزدیک دائماً ممکن ہے اور اس کے خلاف اگر کوئی صورت ہوئی ہے تو وہ استثنائی ہے۔ الا یہ کہ امر مشرکین مکہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ (کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ یہ حکم مشرکین مکہ تک محدود ہے لیکن دوسرے مشرکین کی حالت بھی جزیرۃ العرب کے مشرکین سے مختلف کس طرح ہوسکتی ہے۔ تفصیلات ہم آگے دے رہے ہیں۔ ) " یہ ہے وہ حقیقی شرعی اصول جس کے مطابق مطلق معاہدات کی منسوخی کے احکا امت وارد ہوئے اور جن لوگوں نے معاہدے کی خلاف ورزی نہ کی تھی ان کے ساتھ معاہدات کو اپنی مدت تک پورا کرنے کی ہدایت آئی اور ان احکام کی حکمت یہ تھی کہ جزیرۃ العرب سے شرک جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور جزیرۃ العرب کو مسلمانوں کے لیے مخصوص کردیا جائے ، لیکن سابقہ اصول اپنی جگہ قائم رکھے گئے مثلاً بقرہ 190 میں کہا گیا وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم (یعنی اللہ کی راہ میں ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی جائے جو تمہارے ساتھ لڑتے ہیں) اور دوسری وان جنحوا لسلم فاجنح لھا (یعنی اگر وہ سلامتی و امن کے لیے جھکیں تو تم بھی ان کی طرف جھکو) ۔ حتی الامکان یہ پالیسی رہی۔ اگرچہ جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ یہ سابقہ آیات اس سورت کی آیت سیف کے ذریعے منسوخ ہیں اور اہل شرک کے ساتھ تمام عہد منسوخ ہیں۔ اس اقتباس اور اس پر آخری تعقیب اور تفسیر منار کی دوسری تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ مصنف معاہدات کی منسوخی اور مشرکین و اہل کتاب کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف آغاز جنگ کے حقیقی اسباب تک بہرحال پہنچ گئے ہیں لیکن وہ اس سبب کی حقیقی جڑوں تک نہیں پہنچے اور نہ اس سبب کو وہ وسعت دے کر اسے عام پالیسی بنانا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ اس معاملے میں دین کی حقیقت اور اس کے تحریکی مزاج تک نہیں پہنچ سکتے اور وہ اس نکتے تک بھی نہیں پہنچ سکے کہ اسلامی نظام حیات اور انسانوں کے بنائے ہوئے نظامہائے حیات کے درمیان بنیادی اور حقیقی تضاد پایا جاتا ہے اور ان دونوں کا ایک جگہ زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔ تفسیر منار کے علاوہ اس مسئلے پر استاد محمد عزہ کی تصریحات بھی قابل غور ہیں۔ وہ اپنی تفسیر " التفسیر و الحدیث " میں جو کچھ فرماتے ہیں وہ اس حقیقت کبریٰ سے بہت دور ہے اور وہ ان واقعات و احکامات کے حقیقی اسباب کو پا ہی نہیں سکے۔ استاد محمد عزہ زمانہ حال کے دوسرے اہل قلم کی طرح رات دن اس تلاش میں رہتے ہیں کہ وہ اسلام کو امن و آشتی کا دین ثابت کریں اور اس کے لیے دلائل تلاش کریں ، یہ لوگ آج کل جب ان نسلوں کے برے دنوں کو دیکھتے ہیں جن کے آباؤاجداد مسلان تھے اور پھر اس کے مقابلے میں دیکھتے ہیں کہ آج کل کے بےدین ، ملحدین اور نام نہاد اہل کتاب مادی لحاظ سے عروج پر ہیں تو یہ لوگ رات دن یہ ثابت کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ اسلام تو نہایت ہی گوسفندانہ مذہب ہے اور وہ اپنے حدود کے اندر دبک کر رہنے والا ہے۔ اور جب بھی اس کے ساتھ کوئی امن و سلامتی کے سلسلے میں بات کرے وہ قبول کرتا ہے۔ یہ لوگ سورت توبہ کی ان آیات کا سبب نزول صرف اس بات کو قرار دیتے ہیں کہ بعض لوگوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چونکہ نقض عہد کردیا تھا لہذا ان کے خلاف یہ اقدام ہوا اور جن لوگوں نے نقض عہد نہ کیا تھا چاہے ان کے معاہدے موقت ہوں یا دائمی ہوں ان کو یہ سورت بحال رکھتی ہے۔ اور اگر کسی نے نقض عہد کر بھی لیا تھا تو یہ سورت اجازت دیتی ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ از سر نو عہد کرلیا جائے۔ یہ لوگ ابتدائی مراحل کی آیات کو اصل الاصول قرار دیتے ہیں اور اس سورت کی ان آخری آیات کو مفید قرار دیتے ہیں۔ اس لیے یہ صاحب اس آیت 4، 5 توبہ کی تشریح اس طرح کرتے ہیں۔ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ ۔ فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْم : " بجز ان مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے۔ پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں کریں اور زکوۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو ۔ اللہ در گزر فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے " ان دو آیات میں اور ان سے پہلی آیات میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے مدنی دور کے آخری دنوں کا ایک رنگ ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان فتح مکہ کے بعد یا فتح مکہ کے قبل کے دور میں منعقد ہونے والے کچھ معاہدے تھے۔ مشرکین میں سے کچھ لوگ تو ایسے تھے کہ وہ اپنے معاہدوں کو پورا کرتے رہے اور بعض لوگ ایسے تے جنہوں نے عہد شکنی کی اور مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی قوتوں کی طرفداری کرتے رہے۔ اور غداری اور نقض عہد کے مرتکب ہوتے رہے "۔ ہم اس سے قبل کہہ آئے ہیں کہ مفسرین اور اہل تاویل زیر تفسیر دو آیتوں میں سے دوسری آیت کو آیت السیف کہتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ آیت ان تمام آیات کو منسوخ کردیتی ہے جن میں مشرکین کے حوالے سے تسامح ، تساہل ، چشم پوشی اور صرف نظر کے احکام یا اشارے موجود ہیں۔ بلکہ اس آیت کے بموجب علی الاطلاق ان کا قتل واجب ہے۔ بعض مفسرین نے اتنا کہا ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ معاہدہ ہے ، ان کے بارے یہ حکم دیا ہے کہ وہ لوگ اپنی مدت معاہدہ تک اس کے حکم سے مستثنی ہوں گے اور بعض لوگ ان کو بھی مستثنی نہیں کرتے اور ماسوائے قبول اسلام کے ان سے کوئی اور صورت قبول نہیں کرتے۔ ہم نے اس پر اس سے قبل متنبہ کردیا ہے کہ اس رائے میں غلو پایا جاتا ہے اور یہ رائے قرآن مجید کے صریح احکام کے خلاف ہے۔ جن میں واضھ طور پر کہا گیا ہے کہ ماسوائے اعداء کے کسی اور کو قتل نہ کیا جائے اور یہ کہ دوستی کرنے والوں اور معاہدے کرنے والوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے۔ مفسرین نے اپنے اقوال اور روایات مکرر اسی حوالے سے قدیم اہل تفسیر و تاویل سے نقل کیے ہیں۔ علامہ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ آپ ان تمام لوگوں کی گردن پر تلوار رکھ دیں جن کے ساتھ معاہدات ہوئے تھے یہاں تک کہ وہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور ان کے ساتھ جو معاہدات ہوئے تھے ان کو ختم کردیا جائے۔ خود اس مصنف نے سلیمان ابن عیینہ کا ایک عجیب قول نقل ہے جنہوں نے آیات اور سورت اور دوسری سورتوں میں آنے والی دوسری آیات جن میں مشرکین کے ساتھ قتال کا حکم نہیں ہے ، کے درمیان تطابق اس طرح پیدا کیا ہے کہ یہ آیات تین تلواریں ہیں اور یہ کہ حضور نے حج اکبر کے دن حضرت علی ابن ابوطالب کو یہ تین آیات دے کر بھیجا تھا اور ان میں سے یہ آیت بھی ہے اور اسے انہوں نے عرب مشرکین کے لیے تلوار کہا ہے اور ایک تلوار اہل کتاب کے لیے ہے اور وہ سورت توبہ کی آیت 29 ہے یعنی قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (٢٩): " جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے ، اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہٰں بتاتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں " ایک تلوار منافقین کے لیے ہے اور وہ سورت توبہ کی آیت (73) ہے۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (٧٣): " اے نبی کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے " اور ایک تلوار باغیوں کے خلاف ہے اور وہ سورت الحجرات کی آیت (9) ہے۔ و ان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فان بغت احداھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء الی امر اللہ " اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے " اور مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ امام طبری اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت کا اطلاق معاہدین اور غیر معاہدین سب پر ہوتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں۔ حالانکہ سورت ممتحنہ کی آیت (8) کی تفسیر میں انہوں نے یہ قرار دیا کہ یہ آیت محکم ہے۔ آیت یہ ہے۔ لاینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم و تقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین " اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ، اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے "۔ لہذا اللہ مسلمانوں کو اس بات سے نہیں منع کرتا کہ جو شخص ان کے معاملات سے غیر جانبدار رہتا ہے اور امن و سلامتی کا معاہدہ کرتا ہے خواہ جس مذہب و ملت کا ہو ، اس کے ساتھ تم احسان و انصاف کا رویہ اختیار کرو۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگ معاہد بھی نہ ہوں "۔ " یہ تمام دلائل اور اس آیت کے سیاق وسباق سے یہ بات واضح ہے کہ یہ حکم صرف ان لوگوں کے لیے آای ہے جو معاہد تھے اور جنہوں نے اپنے عہد سے روگردانی کرلی تھی اس کے سوا کسی اور گروہ سے مطلق قتال جائز نہیں ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ یہ آیت السیف ہے اور ہر مشرک پر اس کا عموماً اطلاق ہوتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کی متحمل یہ آیت نہیں ہے اور نہ ہی سیاق کلام سے یہ مطلب نکلتا ہے اور نہ یہ کہنا درست ہے کہ یہ آیت متعدد آیات کی ناسخ ہے۔ خصوصاً ان آیات کی ناسخ ہے جن کا مضمون اصولی اور عمومی ہے۔ مثلاً لا اکراہ فی الدین یا الدعوت بالحکمت اور بذریعہ وعظ حسن یا مباحثہ و مجادلہ بطریق احسن ، یا نیکی اور انصاف کی تلقین کرنے والی آیات خصوصاً جبکہ بعد میں اس مضمون کی آیات آرہی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ مسجد حرام کے پاس تمہارے ساتھ جن لوگوں نے معاہدہ کیا ہے ، جب تک وہ معاہدے پر قائم رہیں اس معاہدے کا احترام کیا جائے جس پر ہم عنقریب تفصیلی بحث کریں گے " " ان آیات میں جو احکامات ہیں ان کے بارے میں دو سوالات اٹھتے ہیں ؟ پہلا یہ کہ پہلی آیت میں جو استثناء ہے وہ معاہدے کی مدت کے ختم ہونے تک ہے تو کیا معاہدہ کرنے والے مشرکین اس مدت کے خاتمے پر اللہ اور رسول اللہ کی ذمہ داری سے نکل جائیں گے اور اب ان کے ساتھ جنگ فرض ہوگی۔ مفسرین کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی قابل اعتبار روایت نہیں ملی ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر آیت اول کے مفہوم کو علی الاطلاق لیا جائے تو مفسرین کا اخذ کردہ مفہوم درست ہے۔ اس کی پھر وضاحت کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ دیکھا جائے گا کہ جن لوگوں نے معاہدہ کیا تھا ان کی پوزیشن اس معاہدے سے پہلے کیا تھی ؟ یا تو وہ معاہدے سے پہلے دشمن تھے اور ان کے ساتھ جنگ اور مقاتلہ ہوا تھا۔ پھر مسلمانوں نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا جس طرح قریش کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کی تھی۔ یا وہ ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے بغیر جنگ وجدال اور مقاتلہ کے مسلمانوں کے ساتھ امن اور دوستی کا معاہدہ کرلیا تھا۔ سورت نساء کی یہ آیت (90) انہی لوگوں کے بارے میں ہے : إِلا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَنْ يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلا (٩٠): " البتہ وہ منافق اس حکم سے مستچنی ہیں جو کسی ایسی قوم سے جا ملیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے ، اسی طرح وہ منافق بھی مستثنی ہیں جو تمہارے پاس آتے ہیں اور لڑائی سے دل برداشتہ ہیں ، نہ تم سے لڑنا چاہتے ہیں اور نہ اپنی قوم سے ، اللہ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردیتا اور وہ بھی تم سے لڑتے لہذا اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوجائیں اور لڑنے سے باز رہیں اور تمہاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر دست درازی کرنے کی کوئی سبیل نہیں رکھی) "۔ تو ایسے لوگوں کا حکم اس آیت میں بطور واقعہ ذکر ہے۔ سیرت کے بعض واقعات میں بھی ایسے لوگوں کی مثالیں موجود ہیں۔ ابن اسحاق نے نقل کیا کہ حضور نے کنانہ کی شاخ بنو صخر سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ آپ ان پر حملہ نہ کریں۔ اور نہ وہ مدینہ پر حملہ کریں گے۔ نہ وہ کسی قوم کی تعداد آپ کے خلاف بڑھائیں گے نہ آپ کے دشمن کی معاونت کریں۔ اسی سلسلے میں آپ نے ان کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ بھی کیا تھا۔ پھر اس آیت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ کسی کے ساتھ تجدید عہد نہ کیا جاسکتا ہو یا یہ کہ کسی ایسی قوم کے ساتھ معاہدے کی مدت کو نہ بڑھایا جاسکتا ہو جبکہ ایسی قوم نے نہ وعدہ خلافی کی ہو اور نہ غداری کا ارتکاب کیا ہو۔ اور مسلمانوں کو اس کا کوئی اختیار بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑیں یا کسی نہ کسی شکل میں دست درازی کریں۔ خصوصاً اس آیت میں جو عنقریب آرہی ہے۔ بصراحت کہا گیا ہے کہ مشرکین کے ساتھ عہد کو پورا کرو جب تک وہ عہد کو پورا کرتے ہیں ، اس آیت میں بھی اس بات پر قرینہ موجود ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ ان شاء اللہ۔ " دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ دوسری آیت کے آخر میں کہا گیا ہے اگر وہ نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے اور ان کے ساتھ قتال کو ختم کردیا جائے "۔ " اس سوال کے سلسلے میں جو بات ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے جن مشرکین نے نقض عہد کیا اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تو اب وہ اس بات کے مستحق نہیں رہے کہ ان کے ساتھ دوبارہ کوئی معاہدہ کیا جائے لہذا مسلمانوں پر یہ فرض ہوگیا کہ ان پر ایسی شائط مسلط کردیں جن کے نتیجے میں علاقے میں امن و سلامتی کی ضمانت دی جاسکے اور وہ شرائط یہی ہو سکتی ہیں کہ وہ شرک سے توبہ کرلیں۔ اور اسلام میں داخل ہوجائیں اور اسلامی عبادات ادا کریں اور مالی ذمہ داریاں پوری کریں۔ اور ایسے اقدامات کو اکراہ فی الدین تصور نہ کیا جائے گا۔ قطع نظر اس بات سے کہ جس نظام شرک میں وہ پڑے ہوئے ہیں وہ انسانیت کو نہایت ہی ذلت کے مقام تک گراتا ہے اور انسانوں کو ایسے عقائد و اعمال دیتا ہے جو نہایت ہی بودے اور عقل و منطق کے خلاف ہوتے ہیں اور ان نظریات کے نتیجے میں ایک ایسا جاہلی نظام رائج ہوتا ہے جو نہایت ہی ظالمانہ نظام ہوتا ہے۔ جس میں نہایت ہی مکروہ اور منکر فعال کا ارتکاب ہوتا ہے اور لوگ عجیب قسم کے تعصبات کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام ان پر جس نظام اسلامی میں داخلے کی شرائط عائد کرتا ہے اس میں ان کے لیے آزادی ، ترقی عقلی اور عملی کمال کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسلامی نظام ان کو عبادت کے اچھے طریقے ، اخلاق کا اعلی معیار اور فکر و نظر کا منطقی نظام دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم یہ نہیں سمجھتے کہ ایسے نقض عہد کرنے والوں کے ساتھ دوبارہ کسی معاہدے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر فریقین کی مصلحت اسی میں ہو اور بعض اوقات ایسا ہو سکتا ہے کہ مسلمان جنگ کرنے کے قابل ہی نہ ہوں یا ایسے لوگوں کو وہ جنگ کے ذریعے زیر نگیں لانے کی قوت ہی نہ کر رکھتے ہوں واللہ اعلم "۔ مصنف کی تفسیر سے ہم نے جو فقرے اوپر منتخب کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف اور ان جیسے دوسرے لوگ اسلام کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ اٹھے اور اس پوری دنیا سے انسانوں کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے آزاد کرے اور انہیں اللہ کی غلامی میں داخل کردے ، جہاں جہاں بھی اسلام کے لیے یہ ممکن ہو اور جب بھی ممکن ہو ، قطع نظر اس سے کہ کہیں مسلمانوں پر زیادتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اور یہ زیادتی مسلمانوں پر ان کے اقلیمی حدود کے اندر ہوئی ہو یا باہر۔ ایسے لوگ اس اصول ہی کو مسترد کردتے ہیں حالانکہ اس اصول پر اسلامی کا نظام جہاد مرتب ہوتا ہے اور اس اصول کے سوا دین اسلام کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اپنی راہ سے وہ تمام مادی رکاوٹیں دور کردے۔ اگر اس اصول کی نفی کردی جائے تو پھر اسلامی نظام واقعیت اور سنجیدگی کے ساتھ مساوی وسائل و مواقف کے ساتھ انسانیت کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہ وہ مختلف حالات اور مراحل میں ان کے حسب حال اور حالات کے مطابق کوئی حکمت عملی اختیار کرسکتا ہے اور اسلام کے لیے صرف یہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ مادی قوتوں کے سامنے صرف وعظ و ت تبلیغ سے کام لے۔ یہ ایک ایسی کمزور پوزیشن ہے جو اللہ اپنے دین کے لیے ہرگز پسند نہیں کرتا۔ (تفصیلات کے لیے دیکھئے مولانا ابو الاعلی مودودی کی کتاب الجہاد فی الاسلام اور اس تفسیر کے نویں پارے میں ہم نے اس کتاب کے جو اقتباسات دیے ہیں) ان اقتباسات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کے فکر و نظر میں احیائے اسلام کا تحریکی منہاج نہیں ہے جس میں ہر موقع پر دشمن کے مقابلے میں برابر کے ہتھیار استعمال کیے جانے ضروری ہیں۔ مصنف نے جو انداز تفسیر اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ تحریک اسلامی کے سابقہ مراحل والی آیات کو فائنل قرار دے کر آخری دور میں آنے والی آیات کو ان کے ذریعے مقید کرتا ہے۔ اور وہ یہ نہیں دیکھتے کہ سابقہ ادوار میں جو آیات نازل ہوئیں وہ سابقہ مراحل اور حالات جیسے کے لیے ہیں۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ یہ احکام در اصل منسوخ نہیں ہیں بایں معنی کہ اب بھی کسی جگہ اگر ایسے حالات درپیش ہوں جس طرح کے حالات سابقہ آیات کے وقت تھے تو ان آیات کے احکام پر عمل نہ ہوگا اور سورتوبہ کی ان آخری آیات ہی کو لیا جائے گا۔ سابقہ آیات اب بھی باقی رہیں لیکن یہ آیات مسلمانوں کو اس بات کے لیے پابند نہیں کرتیں کہ اگر وہ سورت توبہ کی آخری آیات جیسے حالات میں داخل ہوچکے ہیں تو بھی وہ مناسب اقدامات نہ کرسکیں۔ اور زیر بحث آیات کو نافذ نہ کریں۔ یہ موضوع نہایت ہی وسعت قلبی اور گہری سوچ کا تقاضا کرتا ہے اور اس کا حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ احیائے اسلام میں اسلام کے مزاج اور اس کے تحریکی منہاج کو سمجھا جائے جیسا کہ ہم نے اوپر کہا۔ اب میں سمجھتا ہوں ان سطور پر ایک بار پھر نظر ڈالی جائے جن سے ہم نے اس سبق پر تبصرے کا آغاز کیا تھا۔ " جو لوگ سیرت النبی کے احوال و واقعات کا اچھی طرح مطالعہ کریں تو انہیں اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کہ احیائے اسلام کا تحریکی منہاج کیا ہے۔ اس کی نوعیت اور مزاج کیا ہے اور اس عمل میں مختلف اقدامات کے لیے مراحل کیا ہیں ؟ اور اس کے آخری اہداف کیا ہیں۔ نیز وہ بآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ اسلامی محاذ اور جزیرۃ العرب کے مشرکین اور اہل کتاب کے مختلف کیمپوں کے درمیان اس سورت میں تعلقات کے جو آخری خطوط کھینچے گئے ہیں وہ بالکل بروقت تھے۔ ان کے لی زمین تیار ہوگئی تھی ، حالات سازگار تھے اور یہی خطوط اور اقدامات فیصلہ کن تھے اور ان کو اپنے وقت پر ہونا تھا "۔ بار بار کے تجربات سے یہ اصول اور قانون متعین ہو رہا تھا کہ ایک ایسے معاشرے جس میں حاکمیت اور اقتدار اعلی صرف اللہ کے لیے مخصوص ہو اور جس کے قوانین اللہ کے بنائے ہوئے ہوں اور ایک ایسے معاشرے کے درمیان جو جاہلی معاشرہ ہو جس میں یہ تمام امور غیر اللہ کے لیے مخصوص ہوں یا ان میں اللہ کے ساتھ کوئی غیر اللہ بھی شریک ہو ، کے درمیان تعلقات کی آخری نوعیت کیا ہو اور یہ تعلقات کا حتمی اصول وہ دائمی کشمکش ہے جو ایک اسلامی اور کسی بھی جاہلی معاشرے کے درمیان ہر وقت برپا ہوتی ہے۔ جس کا تذکرہ سورت الحج کی اس آیت میں کیا گیا ہے۔ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (٤٠): " اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ریعے سے دفع نہ کرتا رہے تو زمین میں فساد برپا ہوجائے) اس آخری اور حتمی قانون کے آثار دو طرح ظاہر ہوئے۔ ایک یہ اسلام قدم بقدم آگے بڑھتا رہا۔ ایک غزوے کے بعد دوسرا غزوہ پیش آیا۔ ایک مرحلے کے بعد دوسرا مرحلہ آیا اور اسلام ارد گرد کے علاقے میں پھیلتا رہا۔ اور اللہ کا کلمہ علاقوں کے بعد دوسرے علاقوں اور قبیلے کے بعد دوسرے قبائل تک پھیلتا رہا۔ اس طرح پورے کرہ ارض تک دعوت اسلامی کو پہنچانا اور اس تبلیغ اور اشاعت کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو دور کرنا تاکہ دنیا کے تمام انسانوں تک یہ دعوت بغیر کسی مادی رکاوٹ کے پہنچ سکے۔ ان مراحل کے آخر میں مسلمانوں نے مکہ مکرمہ کو فتح کرلیا اور اسلام کے پھیلاؤ کی راہ میں آنے والی بڑی رکاوٹ دور ہوگئی اور ہوازن اور ثقیف جو قریش کے بعد طاقتور قبیلے تھے ، انہوں نے بھی اسلام کی برتری کو قبول کرلیا۔ اور اس مرحلے میں اسلام ایک ایسی قوت بن گیا جس سے اسلام کے دشمن خوف کھانے لگے اور اس طرح جزیرۃ العرب میں آخری اور فیصلہ کن اقدام کے لی راہ ہموار ہوگئی اور یہ بات جزیرۃ العرب تک موقوف نہ تھی بلکہ یہی پالیسی تھی۔ پوری دنیا میں کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ دوسرا مظہر یہ ہے کہ جاہلی کیمپ بار بار ان معاہدوں کو تور دیتا تھا ، جو معاہدے وہ خود اسلامی محاذ سے کرتا تھا اور جب بھی اسے موقعہ ملتا وہ یہ عہد توڑ دیتا تھا۔ جب بھی اہل جاہلیت کو یہ احساس ہوتا اسلامی محاذ خطرے میں ہے اور زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے یا کم از کم عہد تڑنے والے مشرکین اور اہل کتاب کو یہ یقین ہو کہ ان کا مستقبل محفوظ ہے۔ جس قدر بھی معاہدے ان لوگوں نے کیے ان کے پیچھے یہ خواہش نہ تھی کہ یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ فی الواقعہ امن و آشتی چاہتے تھے بلکہ یہ انہوں نے نہایت ہی مجبوری کی حالت میں کیے تھے اور ایک مناسب وقت کے لیے تھے۔ یہ معاہدے تو وہ کرلیتے لیکن وہ جب دیکھتے کہ اسلام موجود ہے اور ترقی کر رہا ہے تو وہ بےبس ہوجاتے اور ان معاہدوں کو توڑ دیتے تھے۔ کیونکہ اسلام اپنے وجود کے اعتبار سے ان کے وجود کے لیے متضاد تھا۔ اور زندگی کے چھوٹے اور بڑے معاملات میں ان کے طور طریقوں کے متضاد تھا۔ اسلام میں چونکہ سچائی ، زندگی ، حرکت ، پھیلاؤ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس لیے وہ ان کے وجود کے لیے خطرہ تھا کیونکہ اسلام کا مقصد وحید ہی یہ تھا کہ تمام لوگوں کو الل کی غلامی میں داخل کیا جائے۔ یہ آخری مطہر اور وہ اصول جس کے نتیجے میں یہ رنگ ظاہر ہوتا تھا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں اشارہ کیا ہے۔ ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا (اور وہ مسلسل تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں ، اگر وہ ایسا کرسکیں) یہ تو تھا مشرکین کے بارے میں اور اہل کتاب کے بارے میں۔ ود کثیر من اھل الکتب لو یردونکم من بعد ایمانکم کفارا حسدا من عند انفسہم من بعد ما تبین لھم الحق " اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے ، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لی ان کی یہ خواہش ہے) اور دوسری جگہ ہے ولن ترضی عنک الیھود والنصری حتی تتبع ملتھم (یہودی اور عیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے جب تک کہ تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو) چناچہ ان قطعی نصوص کے ذریعے اللہ تعالیٰ خود اسلام کے خلاف تمام محاذوں کی سرگرمیوں کی اطلاع دیتا ہے ، کہ وہ اسلام کے خلاف متحد ہیں اور ان کا یہ موقف عارضی نہیں ہے بلکہ دائمی ہے اور عالم گیر موقف ہے اور کسی زمان و مکان کا پابند نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے اور اس کی حکومت اور جاہلی نظاموں اور حکومتوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے اسلام کے حتمی اور آخری قانون اور ضابطے کو سمجھے بغیر اور اس قانون اور ضابطے کے تاریخی مظاہر پر غور کیے بغیر اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے دونوں محاذوں کے موقف کو سمجھے بغیر اسلام کے نظریہ جہاد کو بالکل نہیں سمجھا جاسکتا۔ نہ اس طویل تاریکی کشمکش کو سمجھا جاسکتا ہے۔ موجودہ سو سال سے اسلامی کیمپ اور جاہلیت کے کیمپوں کے درمیان قائم رہی ہے۔ نہ یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ صحابہ کرام کے مجاہد گروہ نے کیوں یہ کارروائیاں کیں ، نہ بعد کے ادوار میں ہونے والی اسلامی فتوحات کو سمجھا جاسکتا ہے ، نہ بت پرستی اور اسلام کی جنگ کو سمجھا جاسکتا ہے ، نہ اسلام اور صلیبی جنگوں کی طویل جنگوں کی طویل کشمکش کو سمجھا جاسکتا ہے ، جو چودہ سو سال تک رہیں اور آج یہ جنگیں مسلمانوں کی اولاد کے خلاف بھی جاری ہیں ، اگرچہ بدقسمتی کی وجہ سے انہوں نے اسلام کی حقیقت کو ایک عرصہ ہوا ہے ، خیر باد کہہ دیا ہے ، ان کے ہاں اسلام کا صرف نام اور عنوان ہی رہ گیا ہے۔ مسلمانوں کی اولاد کے خلاف یہ صلیبی جنگ روسی علاقوں اور عیسائی صلیبی علاقوں میں آج بھی جاری ہے۔ روس میں ، چین میں ، یوگو سلاویہ میں ، جاپان میں ، ہندوستان اور کشمیر میں غرض ہر جگہ یہ جنگ جاری ہے۔ حبشہ ، زنجبار ، کینیا ، جنوبی افریقہ اور امریکہ ہر جگہ اسلام کے خلاف صلیبی جنگ جاری ہے۔ پھر جہاں جہاں اسلامی تحریکات اٹھتی ہیں ان کو سر اٹھانے نہیں دیا جاتا۔ خود عالم اسلام کے اندر یا اس خطے میں جو کبھی اسلامی تھا ، اسلام کی احیاء کی تحریکات اٹھتی ہیں ان کو سر اٹھانے نہیں دیا جاتا۔ خود عالم اسلام کے اندر یا اس خطے میں جو کبھی اسلامی تھا ، اسلام کی احیاء کی تحریکات کو ختم کیا جاتا ہے بلکہ کچلا جاتا ہے۔ اور اس معاملے میں بت پرست ، مغرب کے صلیبی اور مشرق کے کمیونسٹ بالکل متفق اور متحد ہیں۔ اور جو حکومتیں یہ فریضہ سر انجام دیتی ہیں ان کو اس قدر امداد دی جاتی ہے کہ ان کی تمام ضروریات کے لیے کفیل ہوتی ہے اور پھر یہ حکمران جو اسلامی لیڈوں پر ظلم کرتے ہیں ان کے بارے میں ان نام نہاد ترقی یافتہ اور بنیادی حقوق کے داعی ممالک مکمل خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ حالانکہ احیائے اسلام کا کام کرنے والے لوگ نہایت ہی معزز شہری ہوتے ہیں۔ یہ اسلامی قانون بین الممالک سورت توبہ کے نزول سے قدرے پہلے ہی واضح ہوکر سامنے آگیا تھا اور فتح مکہ کے بعد یہ درج بالا دو مناظر و مظاہر کی شکل میں عیاں ہوگیا تھا ، اس لیے جزیرۃ العرب میں مشرکین کے حوالے سے جو اقدامات بھی کیے گئے یا اہل کتاب کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا گیا اس کی تصیلات سورت توبہ کے اس حصہ میں دی گئی ہیں۔ اس قانون اور ان اقدامات کے بارے میں تو اسلامی قیادت کو شرح صدر حاصل تھا لیکن اس وقت اسلامی جماعت کے اندر جو مختلف گروہ تھے ، خصوصاً وہ لوگ جو ابھی ابھی ایمان لائے تھے یا مؤلفۃ القلوب میں شامل تھے یا ضعیف الایمان مسلمان یا منافقین تھے ان کی سمجھ میں اسلام کا نظریہ جہاد یا جزیرۃ العرب میں یہ پالیسی نہ آرہی تھی۔ اسلامی معاشرے میں ایسے لوگ بھی تھے اور شاید وہ مسلمانوں میں معزز ترین اور مدبر و فہیم لوگ تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ تمام مشرکین کے ساتھ کیے ہوئے معاہدوں کو کیوں ختم کیا جا رہا ہے۔ یعنی جن لوگوں نے نقض عہد کیا تھا ، ان کو چار ماہ کی مہلت دی گئی۔ جن کے معاہدے میں کوئی وقت مقرر نہ تھا ، یا ایسے لوگ جن کے ساتھ نہ معاہدہ تھا اور نہ ہی انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تھی ، یا جن کے ساتھ چار ماہ سے کم کے لیے تھا ، یا جن لوگوں کے ساتھ موقت معاہدے تھے لیکن انہوں نے معاہدوں کی خلاف ورزی نہ کی تھی اور نہ مسلمانوں کے خلاف محاذ میں شریک ہوتے تھے۔ مسلمانوں کے یہ گروہ اگرچہ نقض عہد کرنے والوں یا جن سے خیانت کا خطرہ ہوتا ان کے ساتھ معاہدوں کے ختم کرنے کے اس حکم کو سمجھ رہے تھے جیسا کہ سورت انفال میں آچکا ہے۔ و اما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیھم علی سواء ان اللہ لا یحب الخائنین " اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا " لیکن دوسرے لوگوں کے معاہدوں کو چار ماہ کے بعد ختم کردینا یا ان کو مقررہ مدت کے بعد ختم کردینا ان کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کیونکہ وہ دور جاہلیت میں اس قسم کے احکام کے عادی ہیں کیونکہ جاہلیت میں جب تک فریقین معاہدے کی پابندی کرتے یا ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرتے یا امن و سلامتی سے رہتے تو ایسے لوگوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جاتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی اسکیم اس عادی اسکیم سے زیادہ دور رس تھی اور عربوں کے اندر انقلاب جہاں تک ہپنچ گیا تھا یہ اس کا طبیعی مرحلہ اور اقدام تھا۔ پھر اسلامی صٖوں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے اور ہوسکتا ہے کہ سربرآوردہ اور اہم لوگوں میں بھی ایسے لوگ ہوں جن کے خیال میں تمام مشرکین جزیرہ کے ساتھ قتال اور جنگ شروع کردینا مناسب نہ تھا۔ خصوصاً یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھنا جب تک یہ لوگ اسلام کے سامنے جھک نہیں جاتے جبکہ اسلام جزیرۃ العرب میں فاتح و غآلب ہوگیا تھا۔ صرف چند منتشر دور دراز علاقے رہ گئے جو اسلام کے زیر نگیں نہ تھے اور ان علاقوں سے اسلام کو کوئی ڈر نہ تھا۔ اور یہ توقع بھی تھی کہ یہ علاقے بھی اسلام کو قبول کرلیتے۔ خصوصاً پر امن حالات کے اندر خصوصاً ایسے لوگ اپنے اقرباء ، ہم قبیلہ اور سماجی اور اقتصادی تعلقات رکھنے والے گروہوں اور لوگوں سے بھی لڑنا مناسب نہ سمجھتے ہوں۔ جبکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس سخت کارروائی کے بغیر بھی ان لوگوں کے داخل اسلام ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے لیکن اللہ کی منشا یہ تھی کہ دار الاسلام میں لوگوں کے باہم تعلقات صرف اسلامی نظریہ حیات کی اساس پر رہ جائیں۔ دوسرے تمام روابط کٹ جائیں اور جزیرۃ العرب اسلام کے لیے خالص ہوجائے اور یہ اسلام کا محفوظ مرکز بن جائے۔ جبکہ اللہ کو معلوم تھا کہ رومی شام کی جانب سے اسلام پر حملہ آور ہونے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اسلامی معاشرے میں بعض ایسے لوگ بھی تھے ، شاید یہ ان میں سے معزز اور معتبر لوگ ہوں ، جو یہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح مکہ و مدینہ کی منڈیاں کساد بازاری کا شکار ہوجائیں گی اور جزیرۃ العرب کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات بگڑ جائیں گے کیونکہ اب مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان ہر جگہ جنگ اور قتل و مقاتلہ شروع ہوجائے گا۔ خصوصا موسم حج اس سے متاثر ہوگا جبکہ اس اعلان میں یہ بات بھی ہے کہ مشرک اور ننگے حج نہ کریں گے۔ اور اب مشرکین کا حصہ تعمیر مساجد میں بھی نہ ہوگا جبکہ ایسے لوگوں کے خیال میں اسی اقدام کی کوئی جنگی ضرورت نہ تھی۔ اور اس مقصد کو تدریجی اور پر امن طریقوں سے بھی حاصل کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اللہ کا منشا یہ تھا کہ اجتماعی معاملات و تعلقات صرف نظریات کی اساس پر ہوں اور یہ کہ مومنین کے دلوں میں عقائد و نظریات کی اہمیت تمام دوسرے مقاصد و اہداف سے برتر ہو ، چاہے یہ تعلقات قرابت داری کے ہوں ، چاہے یہ صدقوں اور تجارتی منافع کے ہوں ، چناچہ اللہ نے فرمایا کہ وہی رزاق ہے اور اسباب رزق اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اللہ جس طرح چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے۔ پھر اسلامی معاشرے میں اس وقت ضعیف العقیدہ ، متردد ، مؤلفۃ القلوب ، منافقین اور دوسرے غیر جانبدار عافیت کوش لوگ بھی تھے اور یہ دین اسلام میں فوج در فوج داخل ہوگئے تھے اور یہ پوری طرح اسلامی رنگ میں نہ رنگے گئے تھے ، اور یہ لوگ مشرکین کے خلاف عمومی اعلان جنگ سے ذرا خوف کھاتے تھے۔ خصوصاً تجارتی کساد بازاری اور جنگ کی حالت میں مواصلات کی خرابی اور تجارتی راستوں کی بندش اور سب سے زیادہ یہ کہ جہاد کی مشکلات کو برداشت کرنا ، جبکہ وہ اپنے اندر اس کی قوت نہ پاتے تھے ، کیونکہ عوام کا جم غفیر اسلام کے غلبے کو دیکھ کر داخل ہوگیا تھا۔ کیونکہ یہ نفع کا سودا تھا۔ لیکن یہ اعلان عام تو ان کے حاشیہ خیال ہی میں نہ تھا کیونکہ یہ لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اس راہ کی مشکلات سے ابھی خبردار ہی نہ تھے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اسلامی صفوں کو پاک و صاف کردے اس کا فرمان تو یہ تھا۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلا رَسُولِهِ وَلا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (١٦): " کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤگے اور اللہ ان لوگوں کو ممتاز نہ کردے گا جو تم میں سے جہاد کرتے ہیں اور جنہوں نے اللہ اور رسول اللہ اور مومنین کے سوا کسی اور کو ولی نہیں بنایا اور اللہ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے " غرض اس مخلوط اسلامی معاشرے میں فتح مکہ کے بعد مختلف الاغراض لوگ تھے ، اس لیے سورت توبہ کے اس حصے میں اس قدر مفصل اور مختلف اسلوب کلام میں ہدایات دی گئیں اور اشارات دیے گئے تاکہ لوگوں کے دلوں میں جو کمزوریاں یا غلط خیالات رہ گئے تھے ان کو دور کیا جاسکے ، اسلامی صفوں میں سے بےچینی ، انتشار اور خیالات و افکار سے شبہات کو پاک کیا جاسکے ، جو بعض مخلص ترین لوگوں کے دلوں میں بھی تھے۔ چناچہ ایسے حالات میں اس سورت کا آغاز اس دو ٹوک اعلان سے ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول مشرکین سے اب بری الذمہ ہیں۔ اور ایک آیت کے بعد اعلامیہ میں دوبارہ بتکرار یہ بات دہرائی گئی کہ اللہ اور رسول اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہیں اور نہایت ہی پر زور الفاظ میں تاکہ کوئی مسلمان ان لوگوں سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھے جن سے اللہ اور رسول اللہ نے براءت کا اظہار کردیا ہے۔ بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ : " اعلان براءت ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان کو مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے " اور مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے اور کافروں کو ڈرانے کے لیے یہ ضروری تھا کہ یہ اعلان بھی کردیا جائے کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے اور جو لوگ روگردانی کریں گے وہ اللہ کے عذاب سے بچ کر نکلنے والے نہیں ہیں۔ وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْۗءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ڏ وَرَسُوْلُهٗ : " اطلاع عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی " فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ : " ملک میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو الا یہ کہ اللہ منکرین حق کو رسوا کرنے والا ہے " فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۭ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِــيْمٍ : " اب اگر تم توبہ کرلو ، تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ اور اے نبی انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دو " اس بات پر سخت ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ ان مشرکین کے ساتھ اللہ اور رسول اللہ کا عہد کیسے ہوسکتا ہے ؟ ماسوائے ان لوگوں کے جنہوں نے عہد کیا اور پھر اس پر پوری طرح قائم رہے ، تو یہ عہد بھی مدت عہد تک جاری رہے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو متنبہ کردیا گیا کہ یہ مشرکین جب بھی قدرت پائیں گے وہ عہد و پیمان کا کوئی پاس نہ رکھیں گے۔ اور وہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی اقدام کو مذموم نہیں سمجھتے۔ بشرطیکہ وہ اس پر قادر ہوں۔ چناچہ ان کے کفر کا نقشہ کھینچا گیا اور کہا گیا کہ یہ لوگ بڑے جھوٹے ہیں۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (٧) كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلا وَلا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ (٨) اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (٩) لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلا وَلا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ (١٠): " ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی آخر کیسے ہوسکتا ہے ؟ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے مگر ان کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے ، جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پاجائیں تو تمہارے معاملے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدے کی ذمہ درای کا ؟ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی پھر اللہ کے راستے میں سد راہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ بہت برے کرتوت تھے جو یہ کر رہے ہیں۔ کسی مومن کے معاملے میں یہ نہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا اور زیادتی ہمیشہ انہی کی طرف سے ہوتی ہے " مسلمانوں کے دلوں میں جو تلخ یادیں تھیں یا ان کے شعور اور جذبات میں انتقام کے لیے جو غیظ و غضب تھا ، حالات کا تقاضا یہ تھا کہ ذرا اسے ابھارا جائے ، اس طرح اللہ کے دشمنوں ، اللہ کے دین کے دشمنوں اور خود مسلمانوں کے دشمنوں کو کچل کر دلوں کو ٹھنڈا کیا جائے۔ أَلا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (١٣) قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ (١٤) وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (١٥): " کیا تم نہ لڑو گے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہتے ہیں اور جنہوں نے رسول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے ؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ ان سے لڑو ، اللہ تمہارے ہاتھوں ، ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلے میں تمہاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق بھی دے دے گا۔ اللہ سب کچھ جانے والا اور دانا ہے " حالات کا تقاضا یہ تھا کہ نظریات کی اساس پر مکمل جدائی ہوجائے اور ذاتی مصلحوں اور رشتہ داری کے جذبات کا مقابلہ کیا جائے اور ان کو اللہ ، رسول اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کی راہ میں رکاوٹ بننے نہ دیا جائے۔ چناچہ مسلمانوں کو دو راستوں کے درمیان کھڑا کردیا جاتا ہے کہ وہ ایک کے بارے میں فیصلہ کریں۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ھ میں حضرت ابوبکر کے زیر امارت حج کی ادائیگی اور مشرکین سے برأت کا اعلان : برأت کے مفہوم کو دوبارہ (وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ) فرما کر دہرا دیا اور ٩ ھ میں جو حج ہوا (جو فتح مکہ کے بعد پہلا حج تھا) اس میں حضرت ابوبکر اور حضرت علی (رض) کے ذریعہ مواقف حج میں اعلان کروا دیا کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری ہے اور اس کے علاوہ بھی بعض امور کا اعلان کروایا گیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضرت ابوہریرہ کو اعلان کرنے پر مامور فرمایا۔ صحیح بخاری (ص ٢٧١ ج ٢) میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جس حج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر صدیق کو امیر بنا کر بھیجا تھا اس میں انہوں نے یوم النحر (ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو) جن لوگوں کو اعلان کرنے کے لیے بھیجا تھا ان میں میں بھی تھا تاکہ یہ لوگ منیٰ میں اعلان کردیں الا لا یحج بعد العام مشرک لا یطوف بالبیت عریان۔ (خبر دار اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور کوئی شخص ننگے ہونے کی حالت میں بیت اللہ کا طواف نہ کرے) مشرکین ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا کرتے تھے۔ اس لیے یہ اعلان کروایا۔ حضرت ابوبکر صدیق کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امیر حج بنا کر بھیج دیا تھا پھر پیچھے سے حضرت علی کو بھی بھیجا تاکہ ان کے ذریعہ اعلان کروایا جائے اور وجہ اس کی یہ تھی کہ آپ کی خدمت میں یہ رائے پیش کی گئی تھی کہ اہل عرب کا یہ طریقہ ہے کہ عہد اور نقض عہد کے بارے میں اسی شخص کے اعلان کو معتبر سمجھتے تھے جو خاص اسی قبیلے کا ہو جس سے معاہدہ تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ قبیلے کی حیثیت سے تو نہ تھا مسلمانوں کی جماعت کا امام ہونے کی حیثیت سے تھا اور دین اسلام کی طرف سے تھا لیکن احتمال تھا کہ لوگ اسے بنی ہاشم کا معاہدہ سمجھیں اس لیے حضرت علی (رض) کو بھیجا جانا مناسب سمجھا جو بنی ہاشم ہی کے ایک فرد تھے۔ حضرت علی سورة برأت کے مطابق اعلان کرتے تھے اور مشرکین کو پوری طرح اعلان سناتے تھے چونکہ اتنے بڑے اجتماع میں شخص واحد کافی نہ تھا اس لیے حضرت ابوہریرہ اور دیگر حضرات کو بھی حضرت ابوبکر نے اس کام پر لگایا۔ معالم التنزیل (ص ٢٦٧ ج ٢) میں زید بن تبیع سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت علی سے سوال کیا کہ آپ کو اس حج میں کیا پیغام دے کر بھیجا گیا تھا (جس میں آپ اعلان کرنے پر مامور ہوئے تھے) انہوں نے فرمایا کہ مجھے چار چیزوں کا اعلان کرنے کا حکم ہوا تھا۔ اول یہ کہ آئندہ بیت اللہ کا طواف کوئی شخص ننگا ہونے کی حالت میں نہ کرے۔ دوم یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جس قبیلے سے کوئی معاہدہ ہے تو یہ معاہدہ صرف اپنی مدت تک ہے اور جس سے کوئی معاہدہ نہیں اس کو چار ماہ کی مہلت دی جا رہی ہے (چار ماہ تک زمین میں چلیں پھریں) مسلمان ان سے کوئی تعرض نہ کریں گے یہ مدت ختم ہوجانے کے بعد ان کے خون کی حفاظت کی کوئی ذمہ داری نہ ہوگی۔ سوم یہ کہ جنت میں مومن کے سوا کوئی شخص داخل نہ ہوگا۔ چہارم یہ کہ اس سال کے بعد مشرکین اور مسلمین (حج میں) جمع نہ ہوں گے یعنی کسی مشرک کو اس سال کے بعد حج کرنے کی اجازت نہیں ہوگی نیز صاحب معالم التنزیل ( ص ٢٦٦ ج ٢) لکھتے ہیں کہ یہ چار ماہ کی مدت مقرر کی گئی کہ اس کے بعد امان نہ ہوگی اس کی ابتداء حج کے دن سے ہے جس میں برأت کا اعلان کیا گیا تھا اور یہ مدت دس ذوالحجہ سے لے کر دس ربیع الآخر تک تھی چونکہ مدت کا شمار اعلان کے بعد ہی سے معتبر ہوسکتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3: یعنی حج کے دن بھی براءت کا اعلان کردو کیونکہ حج کے موقع پر دور دراز کے لوگ آتے ہیں تاکہ جسے پہلے علم نہیں ہوسکا اسے بھی علم ہوجائے مگر موسم حج میں اعلان براءت کے ساتھ چار ماہ کا ذکر نہیں کیا کیونکہ چار ماہ کا شمار تو ابتدائے نزول آیت سے ہوگا اور موسم حج تک دو ماہ گذر چکے ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

3 اور حج اکبر کے دنوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جانب سے عام لوگوں کے روبرو یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اب امن کی ذمہ داری نہیں لیتے پس اگر تم توبہ کرلو تو یہ توبہ کرلینا تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر اب بھی تم نے توبہ سے اعراض کیا اور روگردانی کی تو یہ جان لو اور یہ بات سمجھ لو کہ تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے اور اس کو ہرا نہیں سکتے اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان لوگوں کو جنہوں نے کافرانہ روش اختیار کررکھی ہے ایک دردناک عذاب کی بشارت اور خبر دے دیجئے۔ قریش کی بات کہی اور ان سے امن اٹھائے جانے کا اعلان کیا اور امان سے دست برداری فرمائی کیونکہ یہلوگ نقض عہد کے مرتکب ہوئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں چھٹے برس حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ کے لوگوں سے صلح ہوئی تھی اور بھی کئی فرقوں سے جو انا فتحنا میں بیان ہے اور عرب کی بہت قوموں سے صلح تھی جب مکہ فتح ہوا اس سے بعد ایک برس حکم نازل ہوا کہ کسی مشرک سے صلح نہ رکھو اور یہ بات حج کے دن یعنی عید قربان کو سب حج کے قافلوں میں پکار دو کہ سب کو خبر پہنچے اور صلح کا جواب دیکر چار مہینے فرصت دی کہ اس میں خواہ لڑائی کا سرانجام کریں یا وطن چھوڑ جائیں یا مسلمان ہوں۔ 12