Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 32

سورة التوبة

یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِئُوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۳۲﴾

They want to extinguish the light of Allah with their mouths, but Allah refuses except to perfect His light, although the disbelievers dislike it.

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ تعالٰی انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر ناخوش رہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

People of the Scriptures try to extinguish the Light of Islam Allah says, يُرِيدُونَ أَن يُطْفِوُواْ نُورَ اللّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ ... They (the disbelieving idolators and People of the Scriptures) want to extinguish the Light of Allah with their mouths, They try through argument and lies to extinguish the guidance and religion of truth that the Messenger of Allah was sent wi... th. Their example is the example of he who wants to extinguish the light of the sun or the moon by blowing at them! Indeed, such a person will never accomplish what he sought. Likewise, the light of what the Messenger was sent with will certainly shine and spread. Allah replied to the idolators' desire and hope, ... وَيَأْبَى اللّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ but Allah will not allow except that His Light should be perfected even though the disbelievers (Kafirun) hate (it). Linguistically a Kafir is the person who covers something. For instance, night is called Kafiran (covering) because it covers things (with darkness). The farmer is called Kafiran, because he covers seeds in the ground. Allah said in an Ayah, أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ thereof the growth is pleasing to the (Kuffar) tillers. (57:20) Islam is the Religion That will dominate over all Other Religions Allah said next,   Show more

کفارہ کی دلی مذموم خواہش ۔ فرماتا ہے کہ ہر قسم کے کفار کا ارادہ اور چاہت یہی ہے کہ نور الٰہی بجھا دیں ہدایت ربانی اور دین حق کو مٹا دیں تو خیال کر لو کہ اگر کوئی شخص اپنے منہ کی پھونک سے آفتاب یا مہتاب کی روشنی بجھانی چاہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے؟ اسی طرح یہ لوگ بھی نور رب کے بجھانے کی چاہت میں اپ... نی امکانی کوشش کریں آخر عاجز ہو کر رہ جائیں گے ۔ ضروری بات ہے اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ دین حق تعلیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بول بالا ہو گا ۔ تم مٹانا چاہتے ہو اللہ اس کو بلند کرنا چاہتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ کی چاہت تمہاری چاہت پر غالب رہے گی ۔ تم گو ناخوش رہو لیکن آفتاب ہدایت بیچ آسمان میں پہنچ کر ہی رہے گا ۔ عربی لغت میں کافر کہتے ہیں کسی چیز کے چھپا لینے والے کو اسی اعتبار سے رات کو بھی کافر کہتے ہیں اس لئے کہ وہ بھی تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ کسان کو کافر کہتے ہیں کیونکہ وہ دانے زمین میں چھپا دیتا ہے جیسے فرمان ہے ( كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا ۭوَفِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ 20؀ ) 57- الحديد:20 ) اسی اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی خبروں اور صحیح ایمان اور نفع والے علم پہ مبنی یہ ہدایت ہے اور عمدہ اعمال جو دنیا آخرت میں نفع دیں ان کا مجموعہ یہ دین حق ہے ۔ یہ تمام اور مذاہب عالم پر چھا کر رہے گا آنحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے لئے مشرق و مغرب کی زمین لپیٹ دی گئی میری امت کا ملک ان تمام جگہوں تک پہنچے گا ۔ فرماتے ہیں تمہارے ہاتھوں پر مشرق و مغرب فتح ہو گا تمہارے سردار جہنمی ہیں ۔ بجز ان کے جو متقی پرہیزگار اور امانت دار ہوں ۔ فرماتے ہیں یہ دین تمام اس جگہ پر پہنچے گا جہاں پر دن رات پہنچیں کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جہاں اللہ عزوجل اسلام کو نہ پہنچائے ۔ عزیزوں کو عزیز کرے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا اسلام کو عزت دینے والوں کو عزت ملے گی اور کفر کو ذلت نصیب ہو گی حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو یہ بات خود اپنے گھر میں بھی دیکھ لی جو مسلمان ہوا اس سے خیر و برکت عزت و شرافت ملی اور جو کافر رہا اسے ذلت و نکبت نفرت و لعنت نصیب ہوئی ۔ پستی اور حقارت دیکھی اور کمینہ پن کے ساتھ جزیہ دینا پڑا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روئے زمین پر کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کلمہ اسلام کو داخل نہ کر دے وہ عزت والوں کو عزت دے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا جنہیں عزت دینی چاہے گا انہیں اسلام نصیب کرے گا اور جنہیں ذلیل کرنا ہو گا وہ اسے نہیں مانیں گے لیکن اس کی ماتحتی میں انہیں آنا پڑے گا ۔ حضرت عدی فرماتے ہیں میرے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے مجھ سے فرمایا اسلام قبول کر تاکہ سلامتی ملے میں نے کہا میں تو ایک دین کو مانتا ہوں آپ نے فرمایا تیرے دین کا تجھ سے زیادہ مجھے علم ہے میں نے کہا سچ؟ آپ نے فرمایا بالکل سچ ۔ کیا تو رکوسیہ میں سے نہیں ہے؟ کیا تو اپنی قوم سے ٹیکس وصول نہیں کرتا ؟ میں نے کہا یہ تو سچ ہے ۔ آپ نے فرمایا تیرے دین میں یہ تیرے لئے حلال نہیں پس یہ سنتے ہی میں تو جھک گیا آپ نے فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تجھے اسلام سے کون سی چیز روکتی ہے؟ سن صرف ایک یہی بات تجھے روک رہی ہے کہ مسلمان بالکل ضعیف اور کمزور ناتواں ہیں تمام عرب انہیں گھیرے ہوئے ہے یہ ان سے نپٹ نہیں سکتے لیکن سن حیرہ کا تجھے علم ہے؟ میں نے کہا دیکھا تو نہیں لیکن سنا ضرور ہے ۔ آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امر دین کو پورا فرمائے گا یہاں تک کہ ایک سانڈنی سوار حیرہ سے چل کر اکیلے امن کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچے گا اور بیت اللہ شریف کا طواف کرے گا ۔ واللہ تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے میں نے کہا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ نے فرمایا ہاں کسریٰ بن ہرمز کے تم میں مال کی اس قدر کثرت ہو پڑے گی کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا ۔ اس حدیث کو بیان کرتے وقت حضرت عدی نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پورا ہوا ۔ یہ دیکھو آج حیرہ سے سواریاں چلتی ہیں بےخوف خطر بغیر کسی کی پناہ کے بیت اللہ پہنچ کر طواف کرتی ہیں ۔ صادق و مصدوق کی دوسری پیشنگوئی بھی پوری ہوئی ۔ کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے میں خود اس فوج میں تھا جس نے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کسریٰ کے مخفی خزانے اپنے قبضے میں لئے ۔ واللہ مجھے یقین ہے کہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری پیشین گوئی بھی قطعاً پوری ہو کر ہی رہے گی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دن رات کا دور ختم نہ ہو گا جب تک پھر لات و عزیٰ کی عبادت نہ ہونے لگے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( آیت ھو الذی ارسل ) کے نازل ہونے کے بعد سے میرا خیال تو آج تک یہی رہا کہ یہ پوری بات ہے آپ نے فرمایا ہاں پوری ہو گئی اور مکمل ہی رہے گی جب تک اللہ پاک کو منظور ہو گا پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین ایک پاک ہوا بھیجیں گے جو ہر اس شخص کو بھی فوت کرے گی جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو ۔ پھر وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں کوئی خیر و خوبی نہ ہو گی پس وہ اپنے باپ دادوں کے دین کی طرف پھر سے لوٹ جائیں گئے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 یعنی اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے، یہود و نصاریٰ اور مشرکین چاہتے ہیں کہ اپنے جدال و افترا سے اس کو مٹا دیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص سورج کی شعاعوں کو یا چاند کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دے پس ! جس طرح یہ ناممکن ہے اسی طرح ج... و دین حق اللہ نے اپنے رسول کو دے کر بھیجا ہے اس کا مٹانا بھی ناممکن ہے۔ وہ تمام دینوں پر غالب آ کر رہے گا، جیسا کہ اگلے جملے میں اللہ نے فرمایا، کافر کے لغوی معنی ہیں چھپانے والا اسی لئے رات کو بھی ' کافر ' کہا جاتا ہے کہ وہ تمام چیزوں کو اپنے اندھیروں میں چھپا لیتی ہے کاشت کار کو بھی ' کافر ' کہتے ہیں کیونکہ وہ غلے کے دانوں کو زمین میں چھپا دیتا ہے۔ گویا کافر بھی اللہ کے نور کو چھپانا چاہتے ہیں یا اپنے دلوں میں کفر و نفاق اور مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بغض وعناد چھپائے ہوئے ہیں۔ اس لئے انہیں کافر کہا جاتا ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] اللہ کے نور سے مراد :۔ اللہ کے نور سے مراد آفتاب ہدایت یا کتاب و سنت کی روشنی ہے جس طرح سورج کی روشنی کو پھونکوں سے بجھایا یا ماند نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح ان کافروں کی معاندانہ سرگرمیوں سے، ان کے لغو اعتراضات سے، ان کی آیات الٰہی میں شبہات پیدا کرنے سے یا اللہ کی آیات، اللہ کے رسول اور مسلمان... وں کا مذاق اڑانے سے دین اسلام کی راہ کو روکا نہیں جاسکتا۔ جسے اللہ ہر صورت میں پورا کرنا چاہتا ہے اور یہ تو یقینی بات ہے کہ کافروں کو اسلام کی ترقی ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی۔ ہر ترقی کے قدم پر وہ جل بھن کے رہ جاتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ : اللہ کے نور سے مراد اسلام اور اس کے صدق کے دلائل ہیں جو بےانتہا روشن ہیں۔ اس آیت میں یہودو نصاریٰ کی تیسری قبیح صفت کا بیان ہے کہ وہ اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے اور اسے مٹانے کے لیے ہر قسم کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ان کی اسلام کو ... روکنے اور مٹانے کی تمام کوششوں کے بےکار ہونے کو استعارے کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ ایک طرف بہت ہی بڑا نور مثلاً سورج یا چاند ہو اور دوسری طرف اسے بجھانے کی سب سے کمزور کوشش منہ سے پھونکیں مارنا ہو تو ان پھونکوں کا انجام ہر ایک پر واضح ہے۔ اسی طرح ایک طرف اللہ کا نور، یعنی اسلام ہے، جسے اللہ تعالیٰ ہر حال میں پورا کرنا طے کرچکا ہے، دوسری طرف ان یہود و نصاریٰ کی اسے روکنے اور مٹانے کی حقیر اور بےکار کوششیں ہیں، جو سورج کو نہیں بلکہ کائنات کے سب سے بڑے نور کو سب سے حقیر چیز منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں۔ بھلا اس سے وہ نور اسلام کی تکمیل کو روک سکتے ہیں ؟  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Then, it was said that these people chose to take the way of error although they were asked by Allah to worship only one God who is free and pure from what they associated with Him. This verse limits itself to saying that they followed the false and obeyed people other than Al¬lah, something they were not permitted to do. In the verse that follows (32), mentioned there is another error they make. ... It is said that they do not stop at the error they have already made. They, rather, like to compound their errors when they try to subvert Divine guidance and black out the Faith of Truth. The statement has been dressed in a si-militude - ` they want to blow out the Light of Allah with their mouths& - although, this is something they cannot do. Allah Ta` ala has already decided that He shall see to it that His Light, that is, the Religion of Islam, reaches its perfection, no matter how displeasing this may turn out to be for those who disbelieve.  Show more

اس کے بعد فرمایا کہ ان لوگوں نے یہ گمراہی اختیار کرلی حالانکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جو ان تمام چیزوں کے شرک سے پاک ہے جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ اس آیت میں تو ان کے اتباع باطل اور غیر اللہ کی ناجائز اطاعت کا ذکر تھا، اس کے بعد کی آیت...  میں ان کی ایک اور گمراہی کا ذکر ہے کہ یہ لوگ صرف اسی پر بس نہیں کرتے کہ خود گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں، بلکہ ہدایت اور دین حق کے مٹانے اور رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی مضمون کو بطور مثال کے اس طرح فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ ان کے بس کی بات نہیں، اللہ تعالیٰ یہ طے کرچکے ہیں کہ وہ اپنے نور یعنی دین اسلام کو مکمل اور پورا ہی کریں گے خواہ کافر لوگ کیسے ہی ناخوش ہوں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝ ٣٢ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَو... ْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ طفی طَفِئَتِ النارُ وأَطْفَأْتُهَا . قال تعالی: يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ [ التوبة/ 32] ، يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ [ الصف/ 8] ، والفرق بين الموضعین أنّ في قوله : يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا يقصدون إِطْفَاءَ نورِ الله، وفي قوله : لِيُطْفِؤُا يقصدون أمرا يتوصّلون به إلى إِطْفَاءِ نور اللہ ( ط ف ء ) طفئت ( س ) النار کے معنی آگ بجھجانے کے ہیں ۔ اور اطفا تھا ( افعال ) کے معنی پھونک سے بجھادینے کے قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ [ التوبة/ 32] یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ سے ( پھونک مار کر بجھادین يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ [ الصف/ 8] یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے چراغ کی روشنی کو منہ سے ( پھونک مارکر ) بجھادیں ۔ ان دونوں آیتوں میں معنوی طور پر یہ فرق پایا جاتا ہے کہ یریدون ان یطفوا کے معنی نور الہی کو بجھانے کا قصد کرنے کے ہیں مگر لیطفوا کے معنی ایسے امر کا قصد کرنے کے ہیں جو اطفاء نور کا سبب بن سکے نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ فوه أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5]. ( ف و ہ ) افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب/ 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ أبى الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا . قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة/ 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه/ 116] ( اب ی ) الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ { وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ } [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ { وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ } ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔{ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ } [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا {إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى } [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے تمَ تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف/ 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف/ 142] . ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف/ 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف/ 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔ كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) یہ چاہتے ہیں کہ دین الہی کو اپنے جھوٹ اور اپنی زبان درازیوں سے مٹا ڈالیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہرگز مہلت نہیں دے گا جب تک کہ اپنے دین اسلام کو وہ غالب نہ کردے گو کہ کفار کو یہ چیز ناگوار گزرے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِءُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ ) (وَیَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآاَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ) اس اسلوب میں یہودیوں پر ایک طرح کا طنز ہے کہ وہ خفیہ سازشوں کے ذریعے سے اس دین کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی علی الاعلان میدان میں آکر مق... ابلہ کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ اس آیت کی ترجمانی مولانا ظفر علی خان نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کی ہے : ؂ نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا !   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٢۔ ٣٣۔ اللہ پاک نے اس آیت میں یہودی و نصارا اور مشرکین مکہ کی ایک اور حالت بیان فرمائی کہ یہ سب مل کر خدا کا دین جو نہایت سچا ہے اور اس کی روشنی آفتاب سے بھی کہیں زیادہ ہے اس کو اپنی ان ایجادی باتوں سے اس طرح بجھانا چاہتے ہیں جس طرح کوئی پھونک سے چراغ کو بجھانا چاہے پھر فرمایا کہ ان کی ان باتوں سے ... کیا ہوتا ہے اللہ تو اپنے دین کو پھیلا کر رہے گا یہ لوگ اگر برا مانیں تو برا مانا کریں پھر اللہ پاک نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے رسول برحق خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اس دین کو تمام روئے زمین کے دینوں پر غالب کر کے ظاہر کر دے اس پر یہ مشرک برا مانیں تو مانا کریں۔ اللہ سچا ہے اور اس کا وعدہ سچا ہے اہل اسلام اور ان کے سردار جب تک شریعت الٰہی کے پابند رہے ان کے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ نے ان دن بدن اسلام کی روشنی کو بڑھایا مثلا خلفائے عباسیہ میں سے ہارون رشید کے زمانہ تک اتنی شریعت کی پابندی باقی تھی کہ ہارون رشید نے جب بشر مریسی کا یہ حال سنا کہ یہ شخص قرآن شریعت کے کلام ازلی ہونے کا قائل نہیں ہے تو فورا برسردربار ہارون رشید نے بشر کے قتل کا ارادہ ظاہر کیا اس پابندی شریعت کی برکت بھی یہ تھی کہ جب یقفور بادشاہ روم نے صلح کے توڑنے کا خط ہارون رشید کے نام لکھا تو ہارون رشید نے فورا یقفور پر چڑھائی کی جس میں ہارون رشید کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی اب تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ہارون رشید کی اولاد میں پابندی شریعت کا یہ حال ہے کہ مامون رشید اس بشر مریسی کا معتقد ہوگیا اور اس وقت کے مشہور علماء کو اپنا ہم عقیدہ کرنا چاہا اور اس باب میں علماء کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں امام احمد جیسا امام الوقت کو اسی جھگڑے میں قید کردیا اس مامون رشید کے زمانہ میں یونانی فلسفہ کا علم اہل اسلام میں آیا اور اس فلسفہ کے سبب سے قرآن شریف کے کلام ازلی نہ ہونے کا مسئلہ اہل قبلہ میں پھیلا غرض پہلا ضعف تو لشکر بغداد میں مامون اور اس کے بھائی کی خونخوار لڑائی سے پیدا ہوا اس کے بعد علویوں کی کثرت سے بغداد پر حملے رہے اس کے بعد ابوشجاع دیلمی کے خاندان کا غلبہ بغداد اور نواح بغداد پر ٣٣٤ ھ میں ایسا ہوا کہ یہ دیلمی لوگ عماد الدولہ وغیرہ بادشاہ بن گئے اور بغداد کی خلافت برائے نام رہ گئی لیکن خلفاء عباسیہ کے شرعی مسائل میں دخل دینے کا فقط اسی قدر نتیجہ نہیں ہوا جو بیان کیا گیا بلکہ دیلمی بادشاہت کے بعد بغداد سلجوتی خوارزمی وغیرہ بادشاہتوں کا زیردست اور برائے نام خلافت کا مستقر رہا اور سب سے آخری نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بغداد جہاں سے خلفا عباسیہ کے بڑے بڑے لشکر دور دور چڑھائیاں کر کے جاتے تھے خلیفہ معتصم باللہ عباسی کے زمانہ میں موید الدین علقمی شیعہ وزیر کی سازش سے ٦٦٥ ھ میں ہلاکو خان تاتاری نے اسی بغداد پر چڑھائی کی جس چڑھائی سے بغداد کی خلافت کا ایسا خاتمہ ہوگیا کہ چالیس دن کے قریب تک تاتاریوں نے بغداد میں قتل عام جاری رکھا جس میں خلیفہ ان کے رشتہ دار غرض سب ملا کر لاکھ بغدادیوں سے زیادہ قتل ہوئے اور کسی بغدادی میں تاتاریوں کے ہاتھ پکڑنے تک کا حوصلہ باقی نہ رہا یہ ہلاکو خاں تو لے خاں کا بیٹا اور چنگیز خاں کا پوتا ہے۔ چنگیز خاں امیر تیمور کا رشتہ میں نانا ہوتا ہے یہ شیعہ وزیر عباسیوں کی خلافت کو مٹا کر علویوں میں خلافت کا قائم ہوجانا چاہتا تھا اور اسی ارادہ کے پورا کرنے کی غرض سے اس نے تاتاریوں سے سازش کی تھی لیکن اس کا یہ ارادہ پورا نہیں ہوا کیونکہ ہلا کو خان نے اس کو پسند نہیں کیا سازش کے سبب سے اگرچہ یہ شیعہ وزیر بغداد کے حادثہ میں بچ گیا لیکن اس حادثہ کے بعد ہلاکو خاں نے اس کو بڑی بےعزتی سے رکھا بغداد کی خلافت مٹ جانے کے بعد پھر عباسیوں کی خلافت کچھ دنوں مصر میں قائم ہوئی لیکن نہایت کمزور۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کے تن بدن اور صورت شکل پر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظر تو ہمیشہ انسان کے دل پر لگی رہتی ہے کہ انسان نے جو کام کیا وہ دل کے کس ارادہ اور نیت سے کیا اس حدیث کو آیت کے پہل ٹکڑے کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت کے پہلے ٹکڑے اور حدیث کو ملانے یہ مطلب ہوا کہ اہل اسلام اور ان کے سرداروں نے جب تک خالص دل اور نیک نیتی سے اسلام کی روشنی کے بڑھانے کا دل میں ارادہ رکھا اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق ان ارادوں میں انہیں کامیاب کیا اور پھر جب انکے دلی اعتقاد اور نیک نیتی میں فرق آگیا تو وہ کامیابی باقی نہیں رہی اور آخر کو ان کی سلطنت میں زوال آگیا آیت کے ٹکڑے اور حدیث کے مطلب کے ساتھ خلفائے عباسیہ کی حالت کو بھی مثال کے طور پر ملا لیا جاوے تو آیت کے ٹکڑے کا یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ اسلام کے آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے وعدہ کا ظہور کم کیوں ہوگیا۔ صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پچھلی شریعتوں کو مثال بیان کر کے پھر فرمایا ہے کہ ان شریعتوں میں جب شریعت محمدی مل گئی تو وہ مکان پورا ہوگیا مطلب یہ ہے کہ کہ پچھلی شریعتوں کے غیر منسوخ احکام اور شریعت محمدی کے احکام مل جانے سے ایک پوری عمارت کی طرح یہ آخری شریعت ایسی پوری ہوگئی جس میں اب قیامت تک کسی تکمیل کی ضرورت نہیں آیت کے آخر ٹکڑے میں اور شریعتوں پر اسلام کے غالب رہنے کا جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہی اسی مطلب کو پورا کرنے کے لئے مسند امام احمد وغیرہ کے حوالہ سے جابر (رض) کی صحیح حدیث جو ایک جگہ گذر چکی ہے اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس آخری زمانہ میں موسیٰ (علیہ السلام) اگر زندہ ہوتے تو ان پر بھی اس شریعت کی پیروی لازم ہوتی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:32) یطفئوا۔ مضارع منصوب جمع مذکر غائب۔ اطفاء (افعال) سے مصدر ۔ اصل میں یطفئون تھا۔ ان کی وجہ سے نون اعرابی گرگیا۔ کہ وہ بجھا دیں۔ نور اللہ۔ یہاں مراد اسلام ہے۔ دین اللہ۔ افواھم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کے منہ ۔ اس کا ترجمہ اپنی اپنی پھونکوں سے بھی ہوسکتا ہے۔ افواہ۔ فم کی جمع ہے جس کے معنی منہ کے ہیں۔ ... فم کی اصل فوۃ تھی۔ ہ کو گرا کر واؤ کو میم سے بدل دیا گیا۔ قرآن مجید میں جہاں صرف منہ سے کہنے پر بات رکھی گئی ہے وہاں دروح بیانی کی طرف اشارہ ہے اور اس طرف تنبیہ ہے کہ اعتقاد واقع کے مطابق نہیں۔ یابی۔ مضارع واحد مذکر غائب اباء مصدر (باب فتح) وہ انکار کرتا ہے وہ نہیں مانتا۔ لو۔ اگرچہ۔ کرہ۔ ناپسند کریں۔ ماضی واحد مذکر غائب ۔ (باب سمع) یہاں جمع کے لئے استعمال ہوا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اس آیت میں رؤسا یہود و نصاری ٰ کی تیسری صفت قبیحہ کا بیان ہے کہ وہ تحریک اسلام کو کچلنے کے لیے مختلف قسم کی سازشیں کر رہے ہیں۔ یہاں جھوٹی باتوں کو پھو نک مارنے سے تشبیہ دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دن کو ( نور) یعنی چراغ سے، یا ان کے دلائل حقہ کو جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت ظاہر...  کر رہے تھے ان کو نور فرمایا ہے کیونکہ صدق وصواب کی طرف رہنمائی کرنے میں دلائل حقہ بھی نور یعنی روشنی کے مثل ہوتے ہیں۔ ( کبیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 32 تا 33 ان یطفنوا (یہ کہ وہ بجھا دیں) نور اللہ (اللہ کی روشنی) یابی اللہ (اللہ نہیں مانے گا) ان یتم (یہ کہ وہ پورا کر دے) کرہ (ناگوار گذرا) لیظھرۃ (تاکہ وہ غالب کر دے) تشریح : آیت نمبر 32 تا 33 اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو ہزاروں ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ ” عقل “ ان میں ایک بہت...  بڑی نعمت ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ یہ فرمایا ہے کہ وہ لوگ جو عقل سے کام نہیں لیتے انہیں اللہ پسند نہیں کرتا۔ لیکن جس طرح آنکھ دیکھنے میں روشنی کی محتاج ہے اسی طرح عقل “ روحانی روشنی اور نور الٰہی کی محتاج ہے ‘ اگر انسانی عقل کی مناسب رہنمائی کیلئے وحی الٰہی کی روشنی نہ ہو تو زندگی کے اندھیروں اور حیات کی وادیوں میں بھٹکنا انسان کا مقدر بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی عقل و فکر کی رہنمائی کیلئے اپنا کلام، روشنی اور نور بنا کر خاتم الانبیاء حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر نازل کیا تاکہ آپ ان سچائیوں کے اصولوں کو اپنی سیرت پاک میں ڈھال کر ہر ایک دل میں اتاریں دیں اور انسانی عقل سے اس کو سنوار کر بہترین اسوہ حسنہ بنا دیں۔ انسانی عقل تو وقتی مفادات کے بھنور میں پھنسی رہتی ہے لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی جو ایک بہترین اور کامل نمونہ زندگی ہے عقل کی بہترین رہنما ہے جو انسانی عقل کو شریعت کے تابع کردیتی ہے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ” نور مبین “ اور کتاب ہدایت اور اپنے اسوہ حسنہ کو کفار و مشرکین کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس دین کو نہ صرف مٹانے کے لئے ایٹری چوٹی کا زور لگا دیا۔ بلکہ زندگی بھر اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ ہم جب چاہیں گے اپنی پھونکوں سے اس چراغ کو بجھا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں یہ ارشاد فرما دیا کہ کفار و مشرکین کی یہ بھول ہے کہ وہ اللہ کی اس روشنی اور نور کو جب چاہیں گے بجھا دیں گے۔ اللہ نہ صرف اس دین مبین اور اس روشنی کو مکمل کر کے رہے گا بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اپنی سیرت پاک کے ذریعہ دنیا کے اندھیروں کو دور کرنے کے لئے اسی دین حق اور دین ہدایت کو ساری دنیا کے مذہبوں اور نظریات پر غالب کر کے چھوڑیں گے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ کفار و مشرکین کی تمام تر کوششیں اور مخالفتیں بھی اس نور کی شعاعوں کو ماند نہ کرسکیں اور نہ کرسکیں گی۔ آج ہر شخص اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ ساری دنیا کے فلسفی مفکر، مدبر اور سائنسدان مدتوں آسمان کی بلندیوں، زمین کی وسعتوں، سمندر کی گہرائیوں اور ذروں کی تابانیوں میں تحقیق، جستجو اور نظریات میں بھٹکنے کے بعد اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ انسان کا بھلا اور کامیابی اگر کسی دین اور نظریہ زندگی میں ہے تو وہ صرف دین اسلام اور نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مبارک زندگی ہے۔ وہ زبان سے برملا اعلان نہ بھی کریں مگر یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ انسانی معلموات ایجادات ، طرح طرح کے ذرائع اور سائنسی ترقیات جتنی بھی آگے بڑھتی جا رہی ہیں دین اسلام کی سچائیاں اسی قدر کھلتی چلی جا رہی ہیں اس کے برخلاف وہ مذناہب جن کی بنیاد جن بھوتوں بادشاہوں اور جھوٹی کہانیوں پر ہے ان کا جھوٹ اور بےبنیاد ہونا ثابت ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لئے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ سائنس کی ترقیات سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے انسان ان معلومات کے ذریعہ جتنا بھی آگے بڑھے گا اور بیدار ہوگا اسلام کے ہر اصول کی تابانی بڑھتی ہی چلے گی جائے گی اور ایک وقت ا ٓئے گا کہ انسان کو اسلام کے قدموں پر اپنا سر جھکانا ہی پڑے گا اور من گھڑت جھوٹے مذہبوں سے انسانوں کی جان چھوٹ جائے گی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی منہ سے رد و اعتراض کی باتیں اس غرض سے کرتے ہیں کہ دین حق کو فروغ نہ ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دین حق کے خلاف مشرکین کی مذموم کوششیں۔ مشرکین توحید کا نوربجھانا اور قرآن کی روشنی کو مٹانا چاہتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اسے مکمل فرماکر قیامت تک غالب رکھے۔ کفار، مشرکین اور اہل کتاب پہلے دن سے ہی اس کوشش میں ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں جبکہ اللہ ... تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو مکمل کرکے رہے گا۔ بیشک یہ کفار اور مشرکوں کے لیے کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ اس نے تو اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ دین اسلام تمام باطل ادیان پر غالب آجائے خواہ مشرکوں اور کفار کے لیے یہ بات کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ نور سے پہلی مراد اللہ کی توحید اور دوسری مراد قرآن مجید کی تعلیم اور رہنمائی ہے کیونکہ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے نور قرار دیا ہے۔ (البقرہ : ٢٥٧) میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ ایمانداروں کا خیر خواہ اور دوست ہے وہ انھیں ہر قسم کے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کفار کے دوست شیطان ہیں وہ ان کو نور سے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں اس آیت سے پہلے آیۃ الکرسی اور دین کا تذکرہ ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کو کھول کر بیان کرتے ہوئے اسے دین اور ہدایت قرار دیا ہے سورة المائدۃ میں قرآن مجید کو نور اور روشن کتاب قرار دیا گیا ہے۔ کافر چاہتے ہیں کہ اللہ کی توحید کے چراغ اور قرآن مجید کی تعلیمات اور روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں پھونکوں کا لفظ لا کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جس طرح سورج کی روشنی اور چاند کی ضیاء پاشیوں کو پھونکوں سے نہیں بجھایا جاسکتا۔ توحید اور اللہ کے دین کی روشنی سورج اور چاند کی روشنی سے کہیں بڑھ کر ہے جس طرح سورج اور چاند کی طرف منہ کرکے تھوکنے اور پھونکنے والا پاگل پن کا مظاہرہ کرتا ہے، کفار، مشرکین اور اہل کتاب کی کوششیں بھی ان کے اخلاقی دیوالیہ پن کا مظہر ہیں۔ سورة الاحزاب : آیت ٤٦ اور ٤٧ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اور ذات کو چمکتے ہوئے سورج سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں انھیں اللہ کے بڑے فضل کی خوشخبری دیجیے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ تمام باطل ادیان پر دین اسلام کو غالب کردے ہدایت سے مراد وہ رہنمائی اور طریقہ ہے جس کی روشنی میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین کا ابلاغ اور نفاذ فرمایا یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریقہ ہے کیونکہ کوئی دین اور قانون کتنا ہی مفصل کیوں نہ ہو اس کے سمجھنے اور نفاذ کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے یہاں بالہدیٰ کا لفظ استعمال فرما کر واضح کردیا ہے کہ جس رب نے یہ دین نازل فرمایا ہے اسی نے ہی اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رہنمائی کا بندوبست کیا تاکہ اس کی منشا کے مطابق دین کی تشریح اور اس کا نفاذ کرے۔ ” لِیُظْہِرَہٗ “ کا معنی ہے زبردست کشمکش جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دین آسانی کے ساتھ نافذ نہیں ہوگا جب تک کفار، مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ زبردست کشمکش اور معرکہ آرائی نہ ہوجائے چناچہ یہی کچھ ہوا کہ اس دین کے ابلاغ اور نفاذ کے لیے کئی معرکے برپا ہوئے اور نہ معلوم قیامت تک کتنے معرکے پیش آئیں گے۔ دین کے غلبہ سے پہلی مراد اس کا دلائل اور براہین کے ساتھ باطل نظریات اور ادیان پر غالب رہنا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ دین اپنی سچائی اور دلائل کے زور پر باطل ادیان پر غالب رہا اور رہے گا۔ جہاں تک اس کے سیاسی غلبے اور نفاذکا تعلق ہے اس کا دارومدار مسلمانوں کے اخلاص اور کردار پر ہے۔ جب مسلمان جان، مال کا ایثار کرکے دین کو غالب کرنا چاہیں گے تو یقیناً دین سیاسی طور پر بھی غالب رہے گا جس طرح کہ تقریباً ایک ہزار سال تک اس کا غلبہ رہا ہے اور قرب قیامت ایک دفعہ پھر اس کے غلبے کا دور آئے گا بیشک یہ بات کفار اور مشرکین کے لیے کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ ان آیات سے پہلے اور بعد میں اہل کتاب کا ذکر ہے۔ لیکن درمیان میں رسول کی بعثت اور دین کے غلبہ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کافر اور مشرک جتنا چاہیں زور لگالیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا میاب ہوں گے اور دین غالب آکر رہے گا۔ کفار اور مشرکین کے الفاظ استعمال فرما کر واضح کیا ہے کہ اہل کتاب کا کردار کفار اور مشرکین جیسا ہوچکا ہے۔ (عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَلَا یَتْرُکُ اللّٰہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہٗ اللّٰہُ ہَذَا الدِّینَ بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِیلٍ عِزًّا یُعِزُّ اللّٰہُ بِہِ الْإِسْلَامَ وَذُلًّا یُذِلُّ اللّٰہُ بِہِ الْکُفْرَ ) [ رواہ أحمد ] ” حضرت تمیم داری (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرما رہے تھے یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن رات کا سلسلہ جاری ہے اللہ تعالیٰ ہر کچے پکے مکان میں اس کو داخل کر دے گا۔ معزز کو عزت دے گا اور ذلیل کو مزید ذلیل کرے گا۔ معزز کو اللہ تعالیٰ دین اسلام کے ساتھ عزت دے گا اور ذلیل کو مزید ذلت کفر سے ملے گی۔ “ (عَنْ أبی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُوشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہٗ أَحَدٌ حَتّٰی تَکُون السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! عنقریب تم میں عیسیٰ ابن مریم عادل حکمران کی حیثیت میں آئیں گے وہ صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے اور جزیہ ختم کریں گے مال و دولت کی اس قدر بہتات ہوگی کوئی اس کو لینے والا نہ ہوگا یہاں تک کہ ایک سجدہ کرنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ “ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمَہْدِیُّ مِنِّی أَجْلَی الْجَبْہَۃِ أَقْنَی الْأَنْفِ یَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا کَمَا مُلِءَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا یَمْلِکُ سَبْعَ سِنِینَ ) [ رواہ ابو داؤد : کتاب المہدی ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مہدی میری اولاد سے ہوگا کشادہ پیشانی، اونچی ناک والا جو عدل و انصاف سے زمین کو بھر دے گا جیسے وہ ظلم وستم سے بھری تھی اور وہ سات برس تک حکمران رہے گا۔ “ مسائل ١۔ کفار ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے دین کے دشمن رہے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین اسلام کو پوری دنیا پر غالب کرے گا۔ ٣۔ مشرکین کی مخالفت اس دین کو غالب آنے سے نہیں روک سکے گی۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ “ کا دین غالب آکر رہے گا : ١۔ وہ ذات جس نے رسولوں کو مبعوث کیا تاکہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے۔ (الفتح : ٢٨) ٢۔ ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور خالصتادین اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرۃ : ١٩٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد سیاق کلام یوں بڑھتا ہے : " یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے خواہ...  مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو " یعنی اہل کتاب کا قصور صرف یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے حقیقی دین سے منحرف ہوگئے ہیں جو سچا دین تھا اور ان کا جرم صرف یہ نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ کے سوا اور شخصیات کو رب بنا رکھا تھا اور آخرت پر ایمان نہ لاتے تھے جیسا کہ آخرت کے صحیح مفہوم کے تقاضے ہیں بلکہ اس کے علاوہ ان کا ایک اور ناقابل معافی جرم بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ انہوں نے دین حق کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین حق کی شکل میں جو نئی روشنی پھیلا رہے ہیں وہ اپنی آنکھوں سے اس چراغ کو بجھانا بھی چاہتے اور اس دعوت کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ اور اس نظام زندگی کو برباد کرنا چاہتے ہیں جو اس جدید دعوت کے مطابق تشکیل پایا ہے۔ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ " یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں " لہذا یہ لوگ اللہ کے نور کے دشمن ہیں۔ وہ اپنے جھوٹ ، سازش اور فتنہ پردازی کی وجہ سے اس نور کو بجھانا چاہتے ہیں یا وہ اپنے متبعین اور اپنی جماعتوں اور اہالی و موالی کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اس دین کے خلاف جنگ کریں اور اس کی راہ روکین۔ جس وقت یہ آیات نازل ہو رہی تھیں اس وقت یہی صورت حال تھی اور آج بھی یہی صورت حال ہے۔ ان آیات سے اس وقت غرض وغایت یہ تھی کہ مسلمان اپنے دفاع کی تیاری جوش و خروش سے کریں لیکن اس وقت کے حالات کے بعد آج تک اسلام کے بارے میں اہل کتاب کا موقف یہی ہے۔ وہ اسلام کی روشنی کو ہر وقت بجھانے کی سعی کرتے ہیں لیکن اللہ کا موقف یہ ہے : وَيَأْبَى اللَّهُ إِلا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ " مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو " یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور یہ وعدہ اللہ کی ناقابل تغیر سنت پر مبنی ہے کہ اگرچہ کافر اس بات کو ناپسند کریں گے لیکن اللہ اپنی روشنی کو پوری طرح چمکائے گا۔ یہ وعدہ ایمانداروں اور اسلامی انقلاب کے کارکنوں کے لیے باعث اطمینان ہے۔ انہیں اپنی پسندیدہ راہ پر مزید آگے بڑھنا چاہیے اور قدم بڑھاتے چلے جانا چاہیے اور مشکلات راہ کو انگیز کرنا چاہیے اور دشمن کی سازشوں اور دشمن کی مسلسل جنگ کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ابتدا میں مراد تو اہل کتاب تھے لیکن مراد عام دشمن ہیں جو اسلام کی راہ روکنا چاہتے ہیں۔ چاہے جس عنوان سے روکیں اور چاہے جس کی امان میں روکیں۔ اب اگلی آیت میں اس مضمون کی مزید تاکید کی جاتی ہے  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھونکوں سے اللہ تعالیٰ کا نور بجھایا نہ جائے گا ان دونوں آیات میں دشمنان اسلام کے عزائم باطلہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ پہلی آیت میں فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دینا چاہتے ہیں، یعنی اسلام پر اعتراض کر کے مہمل باتیں کر کے لوگوں کو اسلام سے دور رکھنا چاہتے ہیں اور خود بھی دور رہتے ہ... یں۔ ان کی باتوں سے اسلام کا نوربجھنے والا نہیں اور ان کی شرارتوں سے اسلام کو ٹھیس لگنے والی نہیں ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ اس کا نور پورا ہو کر رہے گا۔ اگرچہ کافروں کو نا گوار ہو اور برا لگے۔ اور دوسری آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو دوسرے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو نا گوار ہو۔ پہلی آیت کے ختم پر (وَ لَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ) فرمایا اور دوسری آیت کے ختم پر (وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ) فرمایا۔ جو لوگ شرک کی وجہ سے مشرک ہیں اور جو لوگ مشرک نہیں کسی دوسری وجہ سے کافر ہیں مثلاً خدائے تعالیٰ کے وجود کو نہیں مانتے یا اس کی ذات پر اعتراض کرتے ہیں یا اس کی کتابوں اور اس کے نبیوں کو جھٹلاتے ہیں ان دونوں قسم کے دشمنوں کی نا گواری کا تذکرہ فرما دیا کہ کافر اور مشرک یہ جو چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین نہ پھیلے اور اس کا غلبہ نہ ہو ان کے ارادوں سے کچھ نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ضرور غالب فرمائے گا۔ یہ جلتے رہیں۔ حسد کرتے رہیں۔ ان کی نیتوں اور ارادوں پر خاک پڑے گی اور دین اسلام بلند اور غالب ہو کر رہے گا۔ غالب ہونے کی تین صورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ دلیل اور حجت کے ساتھ غلبہ ہو اور یہ غلبہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا کوئی بھی شخص خواہ دین آسمانی کا مدعی ہو، خواہ بت پرست ہو۔ خواہ آتش پرست ہو خواہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر ہو، خواہ ملحد اور زندیق ہو وہ اپنے دعویٰ اور اپنے دین کو لے کر دلیل کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے نہیں آسکتا اور اپنے دعویٰ کو صحیح ثابت نہیں کرسکتا۔ اسلام کے دلائل سے یہود و نصاریٰ اور مشرکین، زنادقہ اور ملحدین سب پر حجت قائم ہے۔ اس اعتبار سے دین اسلام ہمیشہ سے غالب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے کامل بھی فرما دیا اور قرآن مجید میں اعلان فرما دیا۔ (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ) (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی) اسلام دین کامل ہے انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ دیگر تمام ادیان کے ماننے والے صرف چند تصورات اور خود تراشیدہ معتقدات کو لیے بیٹھے ہیں۔ عبادات، معاملات، مناکحات، معیشت اور معاشرت، سیاست اور حکومت، اخلاق اور آداب کا کوئی مذہبی نظام ان کے پاس نہیں ہے۔ خود سے قوانین بنا لیتے ہیں اور پھر انہیں توڑ دیتے ہیں (بلکہ یوں کہتے ہی نہیں کہ یہ قانون اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے) خود ساختہ قانون کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیسے منسوب کریں۔ اسلام نے انسانوں کو ہر شعبہء زندگی کے احکام دیئے ہیں اور اخلاق عالیہ کی تعلیم دی ہے جن کی تصریحات اور تفصیلات قرآن مجید میں اور احادیث شریفہ میں موجود ہیں۔ دوسری صورت اسلام کے غالب ہونے کی یہ ہے کہ دنیا میں بسنے والے کفر و شرک چھوڑ کر اسلام قبول کرلیں اور دنیا میں اسلام ہی اسلام ہو اور ان کا راج ہو۔ ایسا قیامت سے پہلے ضرور ہوگا۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی ( علیہ السلام) کے زمانے میں اسلام خوب اچھی طرح پھیل جائے گا اور زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی جیسا کہ احادیث شریفہ میں اس کی تصریح آتی ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28: یہ ایک تمثیل ہے۔ “ نُوْرُ اللّٰهِ ” سے اللہ کی توحید یا اللہ کا دین مراد ہے۔ “ اي دلالته وحججه علی توحیده ” (قرطبی ص 121 ج 8) وہ شرک و کفر کے دبیز پردوں سے نور توحید کو چھپانا اور اس کے دلائل کی تذیب و انکار سے شمع توحید کو بجھانے کی کوشش کر رہے مگر ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ اللہ کا دین ت... وحید اپنی پوری شان کے ساتھ درجہ کمال وتمام کو پہنچ کر رہے گا۔ “ ھُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ الخ ” اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری رسول بھیجا ہے اس لیے ہے تاکہ تمام ادیان باطلہ پر دین حق اور فوقیت ثابت کردے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

32 وہ اہل کتاب یوں چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہوں سے پھونک مار کر بجھادیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے نورکو پورے کمال تک بدون پہنچائے نہیں رہے گا اگرچہ کافر کتنا ہی برا مانیں۔ یعنی یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کی روشنی کو ختم کردیں اور اللہ تعالیٰ اس سے انکار کرتا ہے وہ اپنے نور کو پورا کئے بغیر نہیں...  رہے گا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جیسا کوئی پھونک سے چراغ بجھا دے وہ چاہتے ہیں کہ اپنی جھوٹی باتوں سے دین اسلام کو نہ پھیلنے دیں۔ 12  Show more