Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 41

سورة التوبة

اِنۡفِرُوۡا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۴۱﴾

Go forth, whether light or heavy, and strive with your wealth and your lives in the cause of Allah . That is better for you, if you only knew.

نکل کھڑے ہو جاؤ ہلکے پھلکے ہو تو بھی اور بھاری بھرکم ہو تو بھی ، اور راہ رب میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم میں علم ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Jihad is required in all Conditions Allah says; انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً ... March forth, whether you are light or heavy, Sufyan Ath-Thawri narrated from his father from Abu Ad-Duha, Muslim bin Subayh, who said, "This Ayah, انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً (March forth, whether you are light or heavy), was the first part to be revealed from Surah Bara'ah." Mutamir bin Sulayman narrated that his father said, "Hadrami claimed that he was told that some people used to declare that they will not gain sin (if they lag behind the forces of Jihad) because they are ill or old. This Ayah was revealed, انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً (March forth, whether you are light or heavy)." Allah commanded mass mobilization together with the Messenger of Allah for the battle of Tabuk, to fight the disbelieving, People of the Book, the Romans, Allah's enemies. Allah ordained that the believers all march forth with the Messenger regardless whether they felt active, lazy, at ease or had difficult circumstances, انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً (March forth, whether you are light or heavy). Ali bin Zayd narrated that Anas said that Abu Talhah commented (on this Ayah), "Whether you are old or young, Allah did not leave an excuse for anyone." Abu Talhah marched to Ash-Sham and fought until he was killed. In another narration, Abu Talhah recited Surah Bara'ah until he reached this Ayah, انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً وَجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ... March forth, whether you are light or heavy, and strive hard with your wealth and your lives in the cause of Allah. He then said, "I see that Allah had called us to mobilize whether we are old or young. O my children! Prepare my supplies." His children said, `May Allah grant you His mercy! You conducted Jihad along with the Messenger of Allah until he died, then with Abu Bakr until he died, then with Umar until he died. Let us perform Jihad in your place." Abu Talhah refused and he went to the sea (under the command of Muawiyah) where he died. They could not find an island to bury him on until nine days later, during which his body did not deteriorate or change and they buried him on the island. As-Suddi said, " انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً (March forth, whether you are light or heavy), whether you are rich, poor, strong, or weak. A man came forward, and he was fat, complained, and asked for permission to stay behind (from Jihad), but the Prophet refused. Then this Ayah, انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً (March forth, whether you are light or heavy) was revealed, and it became hard on the people. So Allah abrogated it with this Ayah, لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاء وَلاَ عَلَى الْمَرْضَى وَلاَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُواْ لِلّهِ وَرَسُولِهِ ... There is no blame on those who are weak or ill or who find no resources to spend, if they are sincere and true (in duty) to Allah and His Messenger..." (9:91) Ibn Jarir said that Hibban bin Zayd Ash-Sharabi narrated to him, "We mobilized our forces with Safwan bin Amr, who was the governor of Hims towards the city of Ephsos appointed to the Jerajima Christian expatriates (in Syria). I saw among the army an old, yet active man, whose eyebrows had sunk over his eyes (from old age), from the residents of Damascus, riding on his animal. I said to him, `O uncle! Allah has given you an excuse (to lag behind).' He said, `O my nephew! Allah has mobilized us whether we are light or heavy. Verily, those whom Allah loves, He tests them. Then to Allah is their return and eternal dwelling. Allah tests from His servants whoever thanks (Him) and observes patience and remembrance of Him, all the while worshipping Allah, the Exalted and Most Honored, and worshipping none else."' Next, Allah encourages spending in His cause and striving with one's life in His pleasure and the pleasure of His Messenger, ... وَجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ and strive hard with your wealth and your lives in the cause of Allah. This is better for you, if you but knew. Allah says, this is better for you in this life and the Hereafter. You might spend small amounts, but Allah will reward you the property of your enemy in this life, as well as, the honor that He will keep for you in the Hereafter. The Prophet said, تَكَفَّلَ اللهُ لِلْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِهِ إِنْ تَوَفَّاهُ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرُدَّهُ إِلَى مَنْزِلِهِ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَة Allah promised the Mujahid in His cause that if He brings death to him, He will enter him into Paradise. Or, He will return him to his house with whatever reward and war spoils he earns. So Allah said; كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْيًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْيًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ Jihad is ordained for you (Muslims) though you dislike it, and it may be that you dislike a thing which is good for you and that you like a thing which is bad for you. Allah knows but you do not know. (2:216) Imam Ahmad recorded that Anas said that the Messenger of Allah said to a man, أَسْلِم Embrace Islam, but the man said, "I dislike doing so." The Messenger said, أَسْلِمْ وَإِنْ كُنْتَ كَارِهًا Embrace Islam even if you dislike it."

جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ کہتے ہیں کہ سورہ براۃ میں یہی آیت پہلے اتری ہے اس میں ہے کہ غزوہ تبوک کے لئے تمام مسلمانوں کو ہادی امم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکل کھڑے ہونا چاہئے اہل کتاب رومیوں سے جہاد کے لئے تمام مومنوں کو چلنا چاہئے خواہ دل مانے یا نہ مانے خواہ آسانی نظر آئے یا طبیعت پر گراں گزرے ۔ ذکر ہو رہا تھا کہ کوئی بڑھاپے کا کوئی بیمار کا عذر کر دے گا تو یہ آیت اتری ۔ بوڑھے جوان سب کو پیغمبر کا ساتھ دینے کا عام حکم ہوا کسی کا کوئی عذر نہ چلا حضرت ابو طلحہ نے اس آیت کی یہی تفسیر کی اور اس حکم کی تعمیل میں سر زمین شام میں چلے گئے اور نصرانیوں سے جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ جان بخشنے والے اللہ کو اپنی جان سپرد کر دی ۔ رضی اللہ عنہ وارضاء اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر آئے تو فرمانے لگے ہمارے رب نے تو میرے خیال سے بوڑھے جوان سب کو جہد کے لئے چلنے کی دعوت دی ہے میرے پیارے بچو میرا سامان تیار کرو ۔ میں ملک شام کے جہاد میں شرکت کے لئے ضرور جاؤں گا بچوں نے کہا ابا جی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات تک آپ نے حضور کی ماتحتی میں جہاد کیا ۔ خلافت صدیقی میں آپ مجاہدین کے ساتھ رہے ۔ خلافت فاروقی کے آپ مجاہد مشہور ہیں ۔ اب آپ کی عمر جہاد کی نہیں رہی آپ گھر پر آرام کیجئے ہم لوگ آپ کی طرف سے میدان جہاد میں نکلتے ہیں اور اپنی تلوار کے جوہر دکھاتے ہیں لیکن آپ نہ مانے اور اسی وقت گھر سے روانہ ہوگئے سمندر پار جانے کے لئے کشتی لی اور چلے ہنوز منزل مقصود سے کئی دن کی راہ پر تھے جو سمندر کے عین درمیان روح پروردگار کو سونپ دی ۔ نو دن تک کشتی چلتی رہی لیکن کوئی جزیرہ یاٹاپو نظر نہ آیا کہ وہاں آپ کو دفنایا جاتا ۔ نو دن کے بعد خشکی پر اترے اور آپ کو سپرد لحد کیا اب تک نعش مبارک جوں کی توں تھی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ اور بھی بہت سے بزرگوں سے خفافاً و ثقالاً کی تفسیر جوان اور بوڑھے مروی ہے ۔ الغرض جوان ہوں ، بوڑھے ہوں ، امیر ہوں ، فقیر ہوں ، فارغ ہوں ، مشغول ہوں ، خوش حال ہوں یا تنگ دل ہوں ، بھاری ہوں یا ہلکے ہوں ، حاجت مند ہوں ، کاری گر ہوں ، آسانی والے ہوں سختی والے ہوں پیشہ ور ہوں یا تجارتی ہوں ، قوی ہوں یا کمزور جس حالت میں بھی ہوں بلاعذر کھڑے ہو جائیں اور راہ حق کے جہاد کے لئے چل پڑیں ۔ اس مسئلہ کی تفصیل کے طور پر ابو عمرو اوزاعی کا قول ہے کہ جب اندرون روم حملہ ہوا ہو تو مسلمان ہلکے پھلکے اور سوار چلیں ۔ اور جب ان بندرگاہوں کے کناروں پر حملہ ہو تو ہلکے بوجھل سوار پیدل ہر طرح نکل کھڑے ہو جائیں ۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ ( فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ ١٢٢؀ۧ ) 9- التوبہ:122 ) سے یہ حکم منسوخ ہے ۔ اس پر ہم پوری روشنی ڈالیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مروی ہے کہ ایک بھاری بدن کے بڑے شخص نے آپ سے اپنا حال ظاہر کر کے اجازت چاہی لیکن آپ نے انکار کر دیا اور یہ آیت اتری ۔ لیکن یہ حکم صحابہ پر سخت گذرا پھر جناب باری نے اسے ( لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى وَلَا عَلَي الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۭمَا عَلَي الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 91۝ۙ ) 9- التوبہ:91 ) سے منسوخ کر دیا یعنی ضعیفوں بیماروں تنگ دست فقیروں پر جبکہ ان کے پاس خرچ تک نہ ہو اگر وہ اللہ کے دین اور شرع مصطفیٰ کے حامی اور طرف دار اور خیر خواہ ہوں تو میدان جنگ میں نہ جانے پر کوئی حرج نہیں ۔ حضرت ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اول غزوے سے لے کر پوری عمر تک سوائے ایک سال کے ہر غزوے میں موجود رہے اور فرماتے رہے کہ خفیف وثقیل دونوں کو نکلنے کا حکم ہے اور انسان کی حالت ان دو حالتوں سے سوا نہیں ہوتی ۔ حضرت ابو راشد حرانی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت مقداد بن اسود سوار سرکار رسالت مآب کو حمص میں دیکھا کہ ہڈی اتر گئی ہے پھر بھی ہودج میں سوار ہو کر جہاد کو جا رہے ہیں تو میں نے کہا اب تو شریعت آپ کو معذور سمجھتی ہے آپ یہ تکلیف کیوں اٹھا رہے ہیں ؟آپ نے فرمایا سنو سورۃ البعوث یعنی سورہ برات ہمارے سامنے اتری ہے جس میں حکم ہے کہ ہلکے بھاری سب جہاد کو جاؤ ۔ حضرت حیان بن زید شرعی کہتے ہیں کہ صفوان بن عمرو والی حمص کے ساتھ جراجمہ کی جانب جہاد کے لئے چلے ، میں نے دمشق کے ایک عمر رسیدہ بزرگ کو دیکھا کہ حملہ کرنے والوں کے ساتھ اپنے اونٹ پر سوار وہ بھی آ رہے ہیں ان کی بھوئیں ان کی آنکھوں پر پڑ رہی ہیں شیخ فانی ہو چکے ہیں میں نے پاس جا کر کہا چچا صاحب آپ تو اب اللہ کے نزدیک بھی معذور ہیں یہ سن کر آپ نے اپنی آنکھوں پر سے بھوئیں ہٹائیں اور فرمایا بھتیجے سنو اللہ تعالیٰ نے ہلکے اور بھاری ہونے کی دونوں صورتوں میں ہم سے جہاد میں نکلنے کی طلب کی ہے ۔ سنو جہاں اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے وہاں اس کی آزمائش بھی ہوتی ہے پھر اس پر بعد از ثابت قدمی اللہ کی رحمت برستی ہے ۔ سنو اللہ کی آزمائش شکر و صبر و ذکر اللہ اور توحید خالص سے ہوتی ہے ۔ جہاد کے حکم کے بعد مالک زمین و زماں اپنی راہ میں اپنے رسول کی مرضی میں مال و جان کے خرچ کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ دنیا آخرت کی بھلائی اسی میں ہے ۔ دنیوی نفع تو یہ ہے کہ تھوڑا سا خرچ ہو گا اور بہت سی غنیمت ملے گی آخرت کے نفع سے بڑھ کر کوئی نفع نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے دو باتوں میں سے ایک ضروری ہے وہ مجاہد کو یا تو شہید کر کے جنت کا مالک بنا دیتا ہے یا اسے سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹاتا ہے خود الہ العالمین کا فرمان عالی شان ہے کہ تم پر جہاد فرض کر دیا گیا ہے باوجود یہ کہ تم اس سے کترا کھا رہے ہو ۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ تمہاری نہ چاہی ہوئی چیز ہی دراصل تمہارے لئے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری چاہت کی چیز فی الواقع تمہارے حق میں بیحد مضر ہو سنو تم تو بالکل نادان ہو اور اللہ تعالیٰ پورا پورا دانا بینا ہے ۔ حضور نے ایک شخص سے فرمایا مسلمان ہو جا اس نے کہا جی تو چاہتا نہیں آپ نے فرمایا گو نہ چاہے ( مسند احمد )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں مثلًا انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر خوشی سے یا ناخوشی سے غریب ہو یا امیر جوان ہو یا بوڑھا پیادہ ہو یا سوار عیال دار ہو یا اہل و عیال کے بغیر۔ وہ پیش قدمی کرنے والوں میں سے ہو یا پیچھے لشکر میں شامل۔ امام شوکانی فرماتے ہیں آیت کا حمل تمام معافی پر ہوسکتا ہے، اس لئے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ ' تم کوچ کرو، چاہے نقل و حرکت تم پر بھاری ہو یا ہلکی '۔ اور اس مفہوم میں مذکورہ تمام مفاہیم آجاتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں یعنی خواہ برضا ورغبت نکلو یا بکراہت اور بوجھل دل سے نکلو، یا بےسرو سامانی کی حالت میں نکلو یا ساز و سامان کے ساتھ اور خواہ تم پیدل ہو یا سوار یا مجرد ہو یا عیالدار، مفلس ہو یا نادار جو بھی صورت ہو تمہیں اللہ کی راہ میں نکلنا ضرور چاہیے۔ اور اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کرنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کوئی اسلامی حکومت جہاد کا عام اعلان نہ کرے اس وقت تک تو جہاد فرض کفایہ ہوتا ہے لیکن جب ایسا اعلان کر دے تو جہاد مسلمانوں پر فرض عین بن جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا : اللہ تعالیٰ نے تبوک کے لیے نہ نکلنے کی صورت میں دنیا و آخرت میں عذاب الیم کی وعید سنا کر اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کے سوا کسی کی مدد کا محتاج نہ ہونے کا ذکر فرما کر اب تاکید کے ساتھ تمام مسلمانوں کو جنگ کے لیے نکلنے کا حکم دیا، اسے ” نفیر عام “ کہا جاتا ہے۔ اس حکم کے بعد ہر مسلمان پر نکلنا فرض ہوجاتا ہے، ماں باپ یا کسی کے اذن (اجازت) کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ” ہلکے اور بوجھل “ الفاظ عام ہیں، اس لیے اس میں سب شامل ہیں، یعنی طبیعت چاہتی ہے یا نہیں، خوش حال ہو یا تنگ دست، مجرد ہو یا عیال دار، جوان ہو یا بوڑھے، ہتھیار بند ہو یا بےہتھیار، ہر حال میں جہاد کے لیے نکلو۔ انس (رض) فرماتے ہیں کہ ابوطلحہ (رض) نے قرآن کی یہ آیت پڑھی : (اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا ) تو کہنے لگے : ” میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم بوڑھوں اور جوانوں سب کو نکلنے کے لیے کہا ہے۔ “ ان کی اولاد نے کہا : ” اباجان ! آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ جنگیں لڑیں، حتیٰ کہ وہ فوت ہوگئے اور ابوبکر و عمر (رض) کے ساتھ بھی تو ہم آپ کی جگہ جنگ کریں گے، مگر وہ نہ مانے، چناچہ انھوں نے سمندر کا سفر اختیار کیا، یہاں تک کہ فوت ہوگئے۔ تو سات دن تک انھیں دفن کرنے کے لیے کوئی جزیرہ نہ ملا اور اس دوران میں ان کے جسم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ [ مستدرک حاکم : ٣؍٣٥٣، ح : ٥٥٠٨، صححہ الحاکم و سکت عنہ الذھبی ] اسی طرح مقداد بن اسود (رض) بڑھاپے اور بھاری جسم کے باوجود نکلے، ایک آدمی نے ان سے کہا، کاش آپ اس سال جنگ کے لیے نہ جائیں تو انھوں نے کہا : ” سورة بحوث (توبہ) ہمیں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا ) ” نکلو، ہلکے ہو یا بھاری “ اور میں اپنے آپ کو ہلکا ہی پاتا ہوں۔ “ [ السنن الکبریٰ للبیہقی : ٩؍٢١، ح : ١٨٢٥٦ ] ابوایوب انصاری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے، پھر ایک سال کے سوا کبھی مسلمانوں کی کسی جنگ سے پیچھے نہیں رہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق نوے سال کی عمر میں قسطنطنیہ جانے والے لشکر میں آپ شریک ہوئے، ان کے امیر یزید بن معاویہ تھے، بیمار ہوئے تو یزید ان کی بیمار پرسی کے لیے آئے۔ پوچھا : ” کوئی خواہش ہو تو بتائیں ؟ “ فرمایا : ” میری خواہش یہ ہے کہ جب میں فوت ہوجاؤں تو سوار ہو کر دشمن کی سرزمین میں جہاں تک آگے جا سکو جاؤ، جب اس سے آگے بڑھنے کی گنجائش نہ رہے تو مجھے وہاں دفن کر دو ، پھر واپس آجاؤ۔ “ ابوایوب (رض) یہ آیت پڑھا کرتے : (اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا ) اور فرماتے : ” تو میں یا تو ہلکا ہوں گا یا بوجھل۔ “ یعنی ہر حال میں نکلنے کا حکم ہے۔ [ مستدرک حاکم : ٣؍٤٥٨، ح : ٥٩٣٠، سکت عنہ الذھبی ] جہاد کے لیے نکلنا کسی شخص پر کب ہر حال میں فرض ہوتا ہے اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٢١٦) کے حواشی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fourth verse (41), the command given earlier has been re¬peated for emphasis. It is being said here that, once the Prophet of Al¬lah orders people to come out for Jihad, they must come out as a matter of absolute obligation - for on the compliance of this command hinges all that is good for them.

چوتھی آیت میں پھر تاکید کے طور پر اس حکم کا اعادہ فرمایا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم لوگوں کو جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دے دیاتو تم پر نکلنا ہر حال میں فرض ہوگیا، اور اس حکم کی تعمیل ہی میں تمہاری ہر بھلائی کا انحصار ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝ ٤١ نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . ( ن ف ر ) النفر ( عن کے معیق کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے خفیف الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل . والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان، نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد . الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس، وثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی: الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] وأرى أنّ من هذا قوله : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف/ 189] . الرّابع : يقال خفیف فيمن يطيش، و ثقیل فيما فيه وقار، فيكون الخفیف ذمّا، والثقیل مدحا . الخامس : يقال خفیف في الأجسام التي من شأنها أن ترجحن إلى أسفل کالأرض والماء، يقال : خَفَّ يَخِفُّ خَفّاً وخِفَّةً ، وخَفَّفَه تَخْفِيفاً وتَخَفَّفَ تَخَفُّفاً ، واستخففته، وخَفَّ المتاع : الخفیف منه، و کلام خفیف علی اللسان، قال تعالی: فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف/ 54] ، أي : حملهم أن يخفّوا معه، أو وجدهم خفافا في أبدانهم وعزائمهم، وقیل : معناه وجدهم طائشين، وقوله تعالی: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون/ 102- 103] ، فإشارة إلى كثرة الأعمال الصّالحة وقلّتها، وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم/ 60] ، أي : لا يزعجنّك ويزيلنّك عن اعتقادک بما يوقعون من الشّبه، وخفّوا عن منازلهم : ارتحلوا منها في خفّة، والخُفُّ : الملبوس، وخُفُّ النّعامة والبعیر تشبيها بخفّ الإنسان . ( خ ف ف ) الخفیف ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں اسی معنی پر محمول ہیں بلکہ ہمارے نزدیک آیت : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف/ 189] اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ ( 4) جو شخص جلد طیش میں آجائے اسے خفیف اور جو پر وقار ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کے اعتبار سے خفیف صفت ذم ہوگئی اور ثقیل سفت مدح ۔ ( 5 ) جو اجسام نیچے کی طرف جھکنے والے ہوں انہیں ثقلا اور جو اپر کی جاں ب چڑھنے والے ہوں انہیں خفیفہ کہا جاتا ہے اسی معنی کے لحاظ سے زمین پانی وگیرہ ہا کو اجسام ثقیلہ اور ہوا آگ وغیرہ ہا اجسام خفیفہ میں داخل ہوں گے ۔ خف ( ض ) خفا وخفتہ ویخفف ۔ ہلکا ہونا خففہ تخفیفا ۔ ہکا کرنا ۔ استخفہ ۔ ہلکا سمجھنا خف المتاع سامان کا ہلکا ہونا اسی سے کلام خفیف علی اللسان کا محاورہ مستعار ہے یعنی وہ کلام جو زبان پر ہلکا ہو ۔ اور آیت کریمہ : فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف/ 54] غرض اس نے اپنی قوم کی عقل مار دی اور انہوں نے اس کی بات مان لی ۔ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اس نے اپنی قوم کو اکسایا کہ اس کے ساتھ تیزی سے چلیں اور یا یہ کہ انہیں اجسام وعزائم کے اعتبار سے ڈھیلا پایا اور بعض نے یہ معنی بھی کئے کہ انہیں جاہل اور کم عقل سمجھا ۔ اور آیت کریمہ : : فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون/ 102- 103] اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے ۔ میں اعمال صالحہ کی کمی کی طرف اشارہ ہی اور آیت کریمہ : وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم/ 60] اور وہ تمہیں اوچھا نہ بنادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ شبہات پیدا کر کے تمہیں تمہارے عقائد سے منزل اور برگشتہ نہ کردیں ۔ خفوا عن منازھم ۔ وہ تیزی سے کوچ کر گئے الخف ۔ موزہ ۔ انسان کے موزہ سے تشبیہ دے کر خف النعامتہ والبعیر ۔ ( سپل شتر وسم شتر مرغ ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ ثقل الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح ( ث ق ل ) الثقل یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (انفروا خفافاً وثقالاً وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ) تا آخر آیت۔ حسن، مجاہد اور ضحاک سے مروی ہے کہ ہلکے اور بوجھل سے مراد جوان اور بوڑھے ہیں، ابو صالح سے مروی ہے کہ دولت مند اور فقراء مراد ہیں جبکہ حسن سے ایک اور روایت کے مطابق مصروف کار اور غیر مصروف کار مراد ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ کے نزدیک چست و چالاک اور سست و کاہل مراد ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے کہ سوار اور پیادو مراد ہیں۔ ایک قول کے مطابق ہنر مند اور غیر ہنر مند مراد ہیں۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ الفاظ میں مذکورہ بالا تمام وجوہ کا احتمال ہے اس لئے تخصیص کی دلالت موجود نہ ہونے کی بنا پر مدلول و مفہوم کو عام رکھنا واجب ہے۔ قول باری (وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ) میں جان اور مال دونوں کے ذریعے جہاد فرض کردیا گیا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس مال ہو اور وہ خود بیمار ہو یا اپاہج ہو یا کمزور ہو جس کی بنا پر وہ میدان جنگ میں جانے کے قابل نہ ہو تو اس پر مال کے ذریعے جہاد فرض ہوگا یعنی اس کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ اپنا مال خرچ کرکے کسی اور کو جہاد پر بھیج دے جس طرح اگر کسی شخص میں اتنی طاقت اور سکت ہو کہ وہ قتال کی تکلیفیں جھیل سکے تو اس پر اپنی جان کے ذریعے جہاد فرض ہے خواہ وہ صاحب مال نہ بھی ہو اور اس مالی استطاعت موجود بھی نہ ہو۔ اسے صرف اتنی گنجائش مل جانا کافی ہے جس کے ذریعے وہ میدان جنگ یا محاذ پر پہنچ سکتا ہو۔ جس شخص کے پاس جان ومال دونوں کی گنجائش ہو اس پر جان اور مال دونوں کے ذریعے جہاد کرنا لازم ہے، اگر کوئی شخص جان و مال دونوں کے لحاظ سے گیا گزرا ہو تو اس پر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے خلوص دل کے ساتھ وفاداری کے ذریعے جہاد کرنا فرض ہوگا اس لئے کہ قول باری ہے (لیس علی الضعفاء ولا علی المرضیٰ ولا علی الذین لا یجدون ماینفقون حرک اذا نصحوا للہ ورسولہ ۔ ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکت جہاد کے لئے زاد راہ نہیں پاتے اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہوں۔ قول باری ہے (ذلکم خیر لکم۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے) جبکہ ترک جہاد میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں ہے۔ اس لئے اس کی دو توجیہیں کی گئی ہیں ایک تو یہ کہ یہ بات اس بات کی بہ نسبت بہتر ہے کہ جہاد پر جانے کے بجائے مباح عمل کو اس صورت میں اختیار کرلیا جائے جبکہ حالات کے تحت اس پر جہاد فرض عین کی طرح لازم نہ ہوگیا ہو۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ جہاد کرنے میں بھلائی ہے۔ ترک جہاد میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ قول باری ہے (ان کنتم تعلمون۔ اگر تم جانو ایک قول کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ اگر تمہیں فی الجملہ یہ معلوم ہو کہ خیر اور بھلائی کا کیا مفہوم ہے تو تمہیں معلوم ہونا چائ ہے کہ یہ بھلائی ہے۔ ایک قول کے مطابق اگر تم یہ جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ثواب اور جنت کا جو وعدہ کیا ہے اس کا وعدہ سچا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١) یعنی اپنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ تبوک کیلے بوڑھے اور جوان یا یہ کہ تھوڑے مال کے ساتھ اور زیادہ مال کے ساتھ نکل کھڑے ہو اور اطاعت خداوندی میں جہاد کرو، یہ جہاد بیٹھے رہنے سے بہتر ہے بشرطیکہ تم اس کو جانتے اور اس کی تصدیق کرتے ہو۔ شان نزول : (آیت) ” انفروخفافا وثقالا “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے حضرمی سے روایت کیا ہے کہ ان سے ذکر کیا گیا کہ کچھ لوگ بیمار تھے اور کچھ بوڑھے تو ان میں سے کچھ کہنے لگے کہ ہم گنہگار نہیں ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالاً ) یہ جو ہلکے اور بوجھل کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس سے ان لوگوں کی کیفیت مراد ہے ‘ اور اس کیفیت کے دو پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک پہلو تو داخلی ہے ‘ یعنی بوجھل دل کے ساتھ نکلو یا آمادگی کے ساتھ ‘ اب نکلنا تو پڑے گا ‘ کیونکہ اب بات صرف تحریض و ترغیب تک نہیں رہی ‘ بلکہ جہاد کے لیے نفیر عام ہوچکی ہے ‘ لہٰذا اب اللہ کے رستے میں نکلنا فرض عین ہوچکا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو خارجی ہے اور اس پہلو سے مفہوم یہ ہوگا کہ چاہے تمہارے پاس سازو سامان اور اسلحہ وغیرہ کافی ہے تب بھی نکلو اور اگر سازو سامان کم ہے تب بھی ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :43 ہلکے اور بوجھل کے الفاظ بہت وسیع مفہوم رکھتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جب نکلنے کا حکم ہو چکاہے تو بہرحال تم کو نکلنا چاہیے خواہ برضا و رغبت خواہ بکراہت ، خواہ خوشحالی میں خواہ تنگ دستی میں ، خواہ ساز و سامان کی کثرت کے ساتھ خواہ بے سروسامانی کے ساتھ ، خواہ موافق حالات میں خواہ ناموافق حالات میں ، خواہ جوان و تندرست خواہ ضعیف و کمزور ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤١۔ اس آیت میں اللہ پاک نے جہاد میں جانے کا حکم فرمایا کہ تم کسی حال میں ہو خواہ تم پر جہاد ہلکا ہو خواہ بھاری ہم تم اپنی جان ومال سے خدا کی راہ میں جہاد کرو مفسروں کے قول خفافاوثقالا کی تفسیر میں بہت مختلف ہیں۔ لیکن صحیح تفسیر وہی ہے جو تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی صحیح قول کے حوالہ سے ہے کہ جن لوگوں کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لڑائی پر جانے کا حکم دیں ان لوگوں کا دل خواہ چاہے یا نہ چاہے لیکن ان کو اللہ کے رسول کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے اور ہر سمجھ دار کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ کے رسول کی فرمانبرداری میں اس کی بہتری ہے کیونکہ اس طرح کے لوگ اگر شہید ہوگئے تو جنت میں جاویں گے اور اگر صحیح و سلامت رہے تو عقبے میں اللہ انہیں اجر دیگا اور دنیا میں مال غنیمت جدا حاصل ہوگا۔ ابوہریرہ (رض) کی حدیث صحیح بخاری ومسلم میں ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص محض خدا اور رسول کی فرمانبرداری کے طور پر دین کی لڑائی میں شریک ہوتا ہے اس کا خدا ضامن ہوجاتا ہے اگر وہ واپس آیا تو اجر و غنیمت لے کر پھر آیا شہید ہوا تو جنت میں داخل ہوگا یہ حدیث ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون کی گویا تفسیر ہے جس سے دین دنیا کی بہتری کا حال اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے جو علماء اس بات کے قائل ہیں کہ جہاد تو خود فرض کفایہ ہے لیکن اللہ کے رسول یا اللہ کے رسول کے قائم مقام جن لوگوں کو لڑائی پر جانے کا حکم دیں تو ان لوگوں کے ذمہ لڑائی پر جانا فرض عین ہوجاتا ہے۔ ان آیتوں کی ترتیب سے ان علماء کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ پہلے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر خفگی فرمائی جو حکم کے بعد بھی لڑائی پر نہیں گئے اور پھر اس آیت میں لڑائی پر جانے کی تائید فرمائی اس ترتیب سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں پر اوپر کی آیت میں خفگی فرمائی تھی اس آیت میں یہ تاکید بھی ان ہی لوگوں کو فرمائی ہے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ عباس (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمائی کہ اب ہجرت تو باقی نہیں رہی ہاں خالص نیت سے دین کی لڑائی باقی ہے اس لئے جن لوگون کو دین کی لڑائی کا حکم دیا جاوے انہیں اس حکم کی تعمیل ضرور ہے حاصل اس حدیث کا یہ ہے کہ جس طرح فتح مکہ سے پہلے ہجرت کا سفر فرض تھا اسی طرح فتح مکہ کے بعد دین کی لڑائی کے لئے سفر کرنا ان لوگوں پر فرض ہے جن کو دین کی لڑائی پر جانے حکم دیا جاوے ہجرت سے پہلے سفر ہجرت کے فرض عین ہونے میں سب علماء متفق ہیں اس واسطے اس صحیح حدیث کے موافق یہی مسئلہ صحیح قرار پاتا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ کے رسول دین کی لڑائی پر جانے کا حکم دیتے تھے ان کے حق میں لڑائی پر جانا فرض عین تھا اور باقی لوگوں کے حق میں فرض کفایہ معتبر سند سے ابوداؤد اور صحیح ابن حبان میں ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کہ یمن سے ایک شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس نے جہاد میں جانے کی اجازت چاہی آپ نے اس شخص سے پوچھا کہ یمن میں تیرا کوئی رشتہ دار ہے اس شخص نے جواب دیا یمن میں میرے ماں باپ ہیں یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ پہلے اپنے ماں باپ سے جہاد میں جانے کی اجازت حاصل کرلے پھر جہاد میں جانے کا قصد کیجیو اس حدیث سے اکثر علماء نے یہ بات نکالی ہے کہ ماں باپ کی خدمت فرض عین ہے اور جہاد فرض کفایہ ہے اسی واسطے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بغیر اجازت ماں باپ کے جہاد پر جانے کی اجازت اس شخص کو نہیں دی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں کی ترتیب اور صحیح حدیثوں کے موافق انہیں علماء کا قول صحیح معلوم ہوتا ہے جس اس بات کے قائل ہیں کہ جہاد خود تو فرض کفایہ ہے لیکن شرعی سردار جن لوگوں کو جہاد کا حکم دے ان پر فرض عین ہوجاتا ہے اس صحیح قول کے موافق آیت کی صحیح تفسیر وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی فرض عین وہ ہے جس کا ادا کرنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے مثلا جیسے پنجگانہ نماز۔ فرض کفایہ وہ ہے جس کو بعضے مسلمان بھی ادا کر لیویں تو سب مسلمانوں کے ذمہ سے اس کا بوجھ اتر جاوے جیسے مثلا جنازہ کی نماز۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:41) خفافا۔ سبک بار۔ ہلکے۔ خفیف کی جمع بروزن فعیل صفت مشیہ کا صیغہ ہے۔ ثقالا۔ بوجھل۔ ثقیل کی جمع ہے۔ ہر دو خفافا وثقالا۔ انفروا سے حال ہیں۔ خفافا وثقالا۔ یعنی ہر حال میں خواہ تم جواب ہو یا بوڑھے۔ فقیر ہو یا امر ۔ سوار ہو یا پیادے۔ تندرست ہو یا بیمار۔ تنہا ہو یا عیالدار (روح البیان) جنگ کے سامان کے ساتھ یا بغیر سامان جنگ کے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعن تم خوشحال ہو یا تنگدست جو ان ہو یابو ڑھے۔ تندرست ہو یا بیمار، مجرد ہو یا عیال دار ہتھیار بند ہو یا بےہتھیار۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 42 تا 46 عرض (اسباب، مال غنیمت) سفر قاصد (آرام والا سفر) ، لاتبعوک (البتہ وہ آپ کے پیچھے چل پڑتے) بعدت (دور لگا) الشقۃ (فاصلہ، حصہ) استطعنا (ہماری استطاعت ہوتی) عفا اللہ (اللہ نے معاف کردیا ) لم اذنت (آپ نے کیوں اجازت دی ؟ ) حتی یتبین (جب تک واضح نہ ہوجاتا) صدقوا (جنہوں نے سچ کہا) لا یستاذنو (وہ اجازت نہیں مانگتے ) ارتابت (شک کیا) ریب (شک) یترددون (وہ بھٹک رہے ہیں) لاعدوا (البتہ وہ تیاری کرتے) کرہ اللہ (اللہ نے پسند نہیں کیا) انبعاث (اٹھنا) ثبط (ہم نے جما دیا، روک دیا) افعدوا (بیٹھے رہو) تشریح آیت نمبر 42 تا 46 تاریخ گواہ ہے کہ جب جنگیں لڑی جاتی ہیں تو ان میں موسم، وسائل، قوم کی حمایت فتح و شکست میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ان کو نظر انداز کر کے گھر میں بیٹھ کر جنگیں کرنا مشکل ہے لیکن اگر دور دراز جا کر دشمن سے مقابلہ کرنا ہو تو اس میں اور بھی زیادہ وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو فتح مکہ، غزوہ حنین اور طائف میں مسلسل مسلمانوں کی شرکت نے ان کو تھکا کر رکھ دیا تھا۔ تھکی ماندی قوم کبھی بھی دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتی دوسری طرف سخت گرم موسم، طویل ترین سفر، راستے میں ریت کے طوفانی اور ٹیلوں سے واسطہ، کھلا میدان، پانی کی شدید کمی جھلسا دینے والی لو کے تھپیڑے تیسری طرف یہ کہ کھجوریں پک چکی تھیں ہر شخص جانتا ہے کہ جب فصل تیار ہو جس پر سارے سال کے گذر بسر کا دار وم دار ہو اس وقت نکلنا فقر و فاقہ کو دعوت دینا ہے۔ چوتھے یہ کہ اتنی بڑی سلطنت سے ٹکر لینے میں جنتے وسائل کی ضرورت تھی وہ بھی مہیا نہیں تھے ان حالات میں جنگ کا تصور بڑا بھیانک تھا مگر اس موقع پر صحابہ کرام کا جوش و خروش ایثار و قربانی، اطاعت و فرما برداری کے وہ بےمثال کارنامے سامنے آئے جن کی مثال دنیا کی کسی تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ یہ وہ جاں نثار صحابہ کرام تھے جن کے نزدیک یہ سارے بھیانک تصورات اور موسم کی سختیاں کچھ حیثیت نہ رکھتی تھیں وہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی تعمیل میں اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے مالوں اور جانوں کو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کردیا۔ دوسری طرف وہ منافق تھے جو اپنے مفادات کے لئے اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے وہ بھی کھل کر سامنے آگئے انہوں نے طرح طرح کے بہانے بنانے شروع کردیئے۔ چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتہائی نرم مزاج اور فضل و کرم کے پیکر تھے اس لئے جب بھی کسی شخص نے آ کر کوئی بہانہ پیش کای تو آپ نے اس کو مدینہ میں رہ جانے کی اجازت دیدی۔ جس نے جو سہولت چاہی وہ اس کو دیدی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلسل آیتیں نازل فرمائیں کہ جن سے منافقین کے لئے جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر کہیں قریب کا سفر ہوتا اور خوب مال غنیمت ملنے کی توقع ہوتی تو یہ ضرور ساتھ ہو لیتے لیکن یہاں تک جان پر بن رہی ہے انہیں یہ سفر بہت دور کا سفر نظر آ رہا ہے فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کی قسمیں کھا کر آپ کو یقین دلائیں گے کہ ہمارے اندر ذرا بھی طاقت نہیں ہے۔ اگر طاقت ہوتی تو ہم ضرور آپ کے ساتھ نکلتے اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ بہانے نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور یہ جو بہانے بنا رہے ہیں اللہ کو معلوم ہے کہ یہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ اے ہمارے پیارے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے اپنے مزاج کے اعتبار سے بعض لوگوں کو اجازت دے کر نرمی کا معاملہ کیا ہے لیکن اگر آپ ان کو آزما کر دیکھ لیتے کہ کون اپنے دعوے میں سچا ہے اور کون جھوٹا ہے تو یہ کہیں بہتر ہوتا ہے۔ فرمایا کہ بہرحال وہ لوگ جو اللہ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں وہ اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں وہ کبھی آپ کے پاس اجازت لینے نہیں آئیں گے۔ اللہ ایسے نیک اور متقی لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے لیکن وہ لوگ جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جن کے دل ہمیشہ شک و شبہ میں ڈولتے رہتے ہیں وہ ہزاروں بہانے بنا کر آپ سے اجازت مانگنے آجائیں گے۔ اگر وہ واقعی اللہ کے راستے میں نکلنے کی تیاری کرتے کچھ تو معلوم ہوتا مگر جنہوں نے پیچھے بیٹھ رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے وہ تو پیچھے بیٹھنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہیں گے۔ اللہ بھی ایسے بدطینت لوگوں کو اپنے راستے میں نکلنے کی توفیق نہیں دیتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ہجرت کا واقعہ یاد دلوا کر اب پھر جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے۔ ہجرت کے موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر صدیق (رض) کا نکلنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو اپنے نبی کو اس سے پہلے بھی ہجرت کرنے کا حکم دے سکتے تھے لیکن اس نے اپنی قدرت کاملہ کا نمونہ دکھانے کے لیے یہ کیا کہ جب کفار متحد ہو کر انتہائی قدم اٹھا چکے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بسلامت نکال کر یہ ثابت کر دکھایا کہ اللہ کے حکم کے مقابلہ میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اسی پس منظر کی روشنی میں مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اللہ کا حکم سمجھ کر تمہیں اس کے راستے میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے نکل کھڑے ہونا چاہیے۔ بیشک تم دشمن کے مقابلہ میں طاقتور ہو یا کمزور، تھوڑے ہو یا زیادہ ہلکے ہو یا بوجھل جب اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے تو اس کے راستے میں نکلنا ہی بہتر ہے بشرطیکہ تم اس کی حقیقت جان سکو۔ غزوۂ تبوک کے حالات سے واضح ہوتا ہے اگر دشمن حملہ آور ہونے کی کوشش کرے تو پھر اس کے ساتھ افرادی اور جنگی سازو سامان کا موازنہ کرنے کی بجائے اس کے مقابلہ میں نکلنا ہی بہتر اور فرض ہوجا تا ہے۔ عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدِنِ الْاَنْصَارِیِّ (رض) قَالَ جَآءَ رَجُلٌ بِنَاقَۃٍ مَخْطُوْمَۃٍ فَقَالَ ھٰذِہٖ فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَکَ بِھَا ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ سَبْعُ ماءَۃِ نَاقَۃٍ کُلُّھَا مَخْطُوْمَۃٌ۔ (مسلم) حضرت ابومسعود انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص لگام والی اونٹنی لا کر کہنے لگا یہ اللہ کے لیے ہے۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ قیامت کے دن تجھے اس کے بدلے سات سو اونٹنیاں ملیں گی اور وہ سب لگام والی ہونگی۔ (مسلم) مسائل ١۔ مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ کے راستے میں نکلنا چاہیے۔ ٢۔ مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنا لازم ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ہر حال میں نکلو ، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ، اور جہاد کرو الل کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے ، اگر تم جانو۔ ہر حال میں نکلو ، جانی اور مالی قربانی دو ، حجتیں نہ گڑھو اور عذرات نہ پیش کرو ، مشکلات اور رکاوٹوں کو پاٹتے جاؤ۔ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : " تمہارے لیے یہ بہتر ہے ، اگر تم جانتے ہو "۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ مخلص مومنین ان حقائق کو پا گئے۔ وہ تمام رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود نکل کھڑے ہوئے۔ ان کے پاس عذرات موجود تھے لیکن انہوں نے عذرات سے فائدہ نہ اٹھایا۔ تو اللہ نے ان کے سامنے زمین کے دروازے کھول دئیے۔ ان کے لیے لوگوں کے دل بھی کھل گئے اور ان مخلصین کے ذریعے اللہ نے اپنے کلمے کو بلند کردیا۔ اور اللہ کے کلمات کے ذریعے خود ان کو بلند اور ممتاز کردیا۔ اور ان کے ہاتھوں وہ وہ کارنامے وجود میں آئے کہ آج بھی وہ تاریخ انسانی کا اعجوبہ ہیں۔ حضرت ابوطلحہ سورت توبہ پڑھ رہے تھے ، جب وہ اس آیت پر آئے تو انہوں نے فرمایا : ہمارے رب نے ہمیں نکلنے کا حکم دیا ہے ، خواہ ہم بوڑھے ہوں یا نوجوان ! بیٹو ! مجھے تیار کرو ، اس کے بیٹوں نے کہا : ابو تم پر اللہ کا رحم ہو ، تم نے تو رسول اللہ کے ساتھ جہاد کیا یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئے ، تم نے حضرت ابوبکر کے ساتھ جہاد کیا یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئے ، تم نے حضرت عمر کے ساتھ جہاد کیا یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئے۔ اب تو ہم آپ کی طرف سے جہاد کریں گے۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور بحری بیڑے میں چلے گئے۔ سمندر میں آپ کو موت نے آ لیا۔ بحریہ کو کوئی جزیرہ نہ ملا کہ اسے دفن کردے۔ نو دنوں کے بعد انہیں جزیرہ ملا۔ ان نو دنوں میں ان کے جسم میں کوئی تغیر واقع نہ ہوا تھا۔ چناچہ انہوں نے اسے اس جزیرے میں دفن کردیا۔ ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے۔ وہ ابوراشد حرانی سے روایت کرتے ہیں ، کہتے ہیں : " میں نے رسول اللہ کے سوا مقداد ابن اسود (رض) سے ملا۔ یہ ایک صراف کے تابوت پر بیٹھے ہوئے تھے اور جہاد کا ارادہ رکھتے تھے۔ میں نے ان سے کہا : چچا آپ تو عنداللہ معذور ہیں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم پر سورت البعوث نازل ہوئی ہے (یعنی توبہ) اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا " نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل " حبان ابن زید الشرعی سے روایت ہے کہ ہم صفوان ابن عمرو کے ساتھ جہاد پر نکلے ، یہ حمص کے گورنر تھے۔ ہم افسوس کی جانب جراجمہ کی طرف گئے۔ میں نے ایک ایسے بوڑھے کو دیکھا جس کی بھنویں اس کی آنکھوں پر گری ہوئی تھیں اور یہ اہل دمشق کے لوگوں سے تھا اور گھورے پر سوار تھا۔ میں اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہا اے چچا تم تو اللہ کے نزدیک رہو۔ کہتے ہیں اس بوڑھے نے اپنی دونوں بھنویں اوپر کو اٹھائیں اور کہا بھتیجے اللہ نے تو ہم سے مطالبہ کیا ہے کہ نکلو اللہ کی راہ میں ہلکے ہو یا بوجھل۔ یاد رکھو ، جسے اللہ محبوب رکھتا ہے اسے مشکلات سے دو چار کرتا ہے اور پھر اسے صحیح و سلامت واپس لاتا ہے لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے صرف اس شخص کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے جو صبر کرے ، شکر کرے اور اسے یاد کرے اور اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرے۔ یہ تھی وہ جدوجہد اور جہاد مسلسل جس کے ذریعے اللہ نے اسلام کو دنیا میں پھیلایا اور اللہ کے ان بندوں نے تمام انسانیت کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر صرف اللہ وحدہ کی بندگی میں داخل کردیا۔ اور اسلام کی مدوجزر کی تاریخ میں وہ معجزہ رونما ہوا جس کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

غزوۂ تبوک میں مومنین مخلصین کی شرکت اور منافقین کی بےایمانی اور بد حالی کا مظاہرہ جب تبوک چلنے کے لیے حکم ہوا تو مسلمان بھاری تعداد میں آپ کے ہمراہ چلنے کے لیے تیار ہوگئے، اور جن کو کچھ تردد ہوا تھا بعد میں وہ بھی ساتھ ہو لیے۔ کچھ لوگ مریض تھے وہ اپنی مجبوری کی وجہ سے نہ جاسکے اور کچھ لوگ منافق تھے جن کے دو فریق تھے۔ ایک فریق تو وہ تھا جس نے جھوٹے عذر پیش کر کے آپ سے اس بات کی اجازت لے لی کہ آپ کے ساتھ نہ جائیں۔ اور اس وقت ان کا نفاق بالکل کھل کر سامنے آگیا اور منافقین کا دوسرا فریق وہ تھا جو جاسوسی کے لیے اور شرارت کرنے کے لیے ساتھ ہو لیا تھا۔ ان کی باتوں کا تذکرہ اسی سورت میں آ رہا ہے (انشاء اللہ تعالیٰ ) (اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا) میں اول تو مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ ہلکے ہو یا بھاری ہو اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہو، اور اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرو۔ اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھتے ہو۔ (خِفَافًا وَّ ثِقَالًا) کا ترجمہ تو یہی ہے جو اوپر مذکور ہوا (یعنی ہلکے اور پھلکے) لیکن اس کا مصداق بتاتے ہوئے مفسرین نے متعدد اقوال لکھے ہیں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ صحیح اور مریض ہونا مراد ہے اور بعض حضرات نے مالدار اور تنگدست ہونا مراد لیا ہے اور بعض حضرات نے بوڑھا اور نو عمر ہونا اور بعض حضرات نے موٹاپا اور دبلاپن مراد لیا ہے، چونکہ الفاظ میں ان سب باتوں کی گنجائش ہے اس لیے سبھی کو مراد لیا جاسکتا ہے لیکن ثِقَالاً سے مریض مراد لینا محل نظر ہے کیونکہ مریض عذر شرعی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے خروج کا حکم کیسے ہوا ؟

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40:“ خِفَافاً ” کم ہتھیاروں کے ساتھ “ وَ ثِقَالاً ” زیادہ ہتھیاروں کے ساتھ مطلب یہ ہے کہ ہتھیاروں اور سامان کی قلت و کثرت کو مت دیکھو۔ ہتھیار کم ہوں یا زیادہ ہر حال میں جہاد کے لیے ضرور نکلو یہ مطلب نہیں کہ مریض ہو یا نہ ہو ضرور نکلو۔ کیونکہ “ لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَاءِ وَ لَا عَلَی الْمَرْضیٰ ” سے ضعفاء اور مرضی مستثنی ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

41 مسلمانو ! تم جس حالت میں بھی ہو جہاد کیلئے نکل کھڑے ہو خواہ تم ہلکے ہو یا بھاری اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو اگر تم کچھ سمجھ رکھتے ہو تو تمہارے لئے یہی بہتر ہے یعنی نفیر عام کی حالت میں یہ نہ دیکھو کہ سامان تھوڑا ہے یا زیادہ۔ مال دار ہو یا فقیر۔ بوڑھے ہو یا جوان۔ غرض ! جس حالت میں ہو نکل پڑو اور کوچ کرو جہاد کرنا دین و دنیا دونوں کے اعتبار سے بہتر ہے اگر تم جانتے اور یقین رکھتے ہو۔