Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 5

سورة التوبة

فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾

And when the sacred months have passed, then kill the polytheists wherever you find them and capture them and besiege them and sit in wait for them at every place of ambush. But if they should repent, establish prayer, and give zakah, let them [go] on their way. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.

پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو انہیں گرفتار کروان کا محاصرہ کرلو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جابیٹھو ، ہاں اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو یقیناً اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

This is the Ayah of the Sword Allah said next, فَإِذَا انسَلَخَ الاَشْهُرُ الْحُرُمُ ... So when the Sacred Months have passed..., meaning, `Upon the end of the four months during which We prohibited you from fighting the idolators, and which is the grace period We gave them, then fight and kill the idolators wherever you may find them.' Mujahid, Amr bin Shu`ayb, Muhammad bin Ishaq, Qatadah, As-Suddi and Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said that; the four months mentioned in this Ayah are the four-month grace period mentioned in the earlier Ayah, فَسِيحُواْ فِي الاَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ (So travel freely for four months throughout the land). Allah's statement next, ... فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ... then fight the Mushrikin wherever you find them, means, on the earth in general, except for the Sacred Area, for Allah said, وَلاَ تُقَـتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَـتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِن قَـتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ And fight not with them at Al-Masjid Al-Haram, unless they fight you there. But if they attack you, then fight them. (2:191) Allah said here, ... وَخُذُوهُمْ ... and capture them, executing some and keeping some as prisoners, ... وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ... and besiege them, and lie in wait for them in each and every ambush, do not wait until you find them. Rather, seek and besiege them in their areas and forts, gather intelligence about them in the various roads and fairways so that what is made wide looks ever smaller to them. This way, they will have no choice, but to die or embrace Islam, ... فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلَةَ وَاتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ But if they repent and perform the Salah, and give the Zakah, then leave their way free. Verily, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. Abu Bakr As-Siddiq used this and other honorable Ayat as proof for fighting those who refrained from paying the Zakah. These Ayat allowed fighting people unless, and until, they embrace Islam and implement its rulings and obligations. Allah mentioned the most important aspects of Islam here, including what is less important. Surely, the highest elements of Islam after the Two Testimonials are the prayer, which is the right of Allah, the Exalted and Ever High, then the Zakah, which benefits the poor and needy. These are the most honorable acts that creatures perform, and this is why Allah often mentions the prayer and Zakah together. In the Two Sahihs, it is recorded that Ibn Umar said that the Messenger of Allah said, أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ وَيُقِيمُوا الصَّلَةَ وَيُوْتُوا الزَّكَاة I have been commanded to fight the people until they testify that there is no deity worthy of worship except Allah and that Muhammad is the Messenger of Allah, establish the prayer and pay the Zakah. This honorable Ayah (9:5) was called the Ayah of the Sword, about which Ad-Dahhak bin Muzahim said, "It abrogated every agreement of peace between the Prophet and any idolator, every treaty, and every term." Al-Awfi said that Ibn Abbas commented: "No idolator had any more treaty or promise of safety ever since Surah Bara'ah was revealed. The four months, in addition to, all peace treaties conducted before Bara'ah was revealed and announced had ended by the tenth of the month of Rabi Al-Akhir."

جہاد اور حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں سے مراد یہاں وہ چار مہینے ہیں جن کا ذکر ( اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ڏ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ 36؀ ) 9- التوبہ:36 ) میں ہے پس ان کے حق میں آخری حرمت والا مہینہ محرم الحرام کا ہے ابن عباس اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے لیکن اس میں ذرا تامل ہے بلکہ مراد اس سے یہاں وہ چار مہینے ہیں جن میں مشرکین کو پناہ ملی تھی کہ ان کے بعد تم سے لڑائی ہے چنانچہ خود اسی سورت میں اس کا بیان اور آیت میں آرہا ہے ۔ فرماتا ہے ان چار ماہ کے بعد مشرکوں سے جنگ کرو انہیں قتل کرو ، انہیں گرفتار کرو ، جہاں بھی پاؤ پس یہ عام ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ خاص ہے حرم میں لڑائی نہیں ہو سکتی جیسے فرمان ہے ( وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ ۭكَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ ١٩١؁ ) 2- البقرة:191 ) یعنی مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک کہ وہ اپنی طرف سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں ۔ اگر یہ وہاں تم سے لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑائی کرنے کی اجازت ہے ۔ چاہو قتل کرو ، چاہو قید کر لو ، ان کے قلعوں کا محاصرہ کرو ان کے لیے ہر گھاٹی میں بیٹھ کر تاک لگاؤ انہیں زد پر لاکر مارو ۔ یعنی یہی نہیں کہ مل جائیں تو جھڑپ ہو جائے خود چڑھ کر جاؤ ۔ ان کی راہیں بند کرو اور انہیں مجبور کردو کہ یا تو اسلام لائیں یا لڑیں ۔ اس لیے فرمایا کہ اگر وہ توبہ کرلیں پابند نماز ہو جائیں زکوٰۃ دینے کے مانعین سے جہاد کرنے کی اسی جیسی آیتوں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دلیل لی تھی کہ لڑائی اس شرط پر حرام ہے کہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اسلام کے واجبات بجا لائیں ۔ اس آیت میں ارکان اسلام کو ترتیب وار بیان فرمایا ہے اعلٰی پھر ادنٰی پس شہادت کے بعد سب سے بڑا رکن اسلام نماز ہے جو اللہ عزوجل کا حق ہے ۔ نماز کے بعد زکوٰۃ ہے جس کا نفع فقیروں مسکینوں محتاجوں کو پہنچتا ہے اور مخلوق کا زبردست حق جو انسان کے ذمے ہے ادا ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا ذکر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حکم کیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد جاری رکھو ، جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ کوئی معبود بجز اللہ کے نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ ہیں اور نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ تمہیں نمازوں کے قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم کیا گیا ہے جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز بھی نہیں ۔ حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلام فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ہرگز کسی کی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے آپ کی فقہ سب سے بڑھی ہوئی تھی ۔ جو آپ نے زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے ۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ بجز اللہ تعالیٰ برحق کے اور کوئی لائق عبادت نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ جب وہ ان دونوں باتوں کا اقرار کرلیں ، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرلیں ، ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں ، ہم جیسی نمازیں پڑھنے لگیں تو ہم پر ان کے خون ان کے مال حرام ہیں مگر احکام حق کے ماتحت انہیں وہ حق حاصل ہے جو اور مسلمانوں کا ہے اور ان کے ذمے ہر وہ چیز ہے جو اور مسلمانوں کے ذمے ہے یہ روایت بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے سوائے ابن ماجہ کے ۔ ابن جریر میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو دنیا سے اس حال میں جائے کہ اللہ تعالیٰ اکیلے کی خالص عبادت کرتا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو وہ اس حال میں جائے گا کہ اللہ اس سے خوش ہوگا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہی اللہ کا دین ہے اسی کو تمام پیغمبر علیہم السلام لائے تھے اور اپنے رب کی طرف سے اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا تھا اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں ادھر ادھر لگ جائیں اس کی سچائی کی شہادت اللہ کی آخری وحی میں موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ ۭوَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ 11۝ ) 9- التوبہ:11 ) پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق ہے پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق کے سوا اوروں کی عبادت سے دست بردار ہوجائیں نماز اور زکوٰۃ کے پابند ہوجائیں اور آیت میں ہے کہ ان تینوں کاموں کے بعد وہ تمہارے دینی برادر ہیں ضحاک فرماتے ہیں یہ تلوار کی آیت ہے اس نے ان تمام عہد و پیمان کو چاک کر دیا ، جو مشرکوں سے تھے ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ برات کے نازل ہو نے پر چار مہینے گزر جانے کے بعد کوئی عہد و ذمہ باقی نہیں رہا ۔ پہلی شرطیں برابری کے ساتھ توڑ دی گئیں ۔ اب اسلام اور جہاد باقی رہ گیا ، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو چار تلواروں کے ساتھ بھیجا ایک تو مشرکین عرب میں فرماتا ہے ( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ۝ ) 9- التوبہ:5 ) مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو ۔ یہ روایت اسی طرح مختصراً ہے ۔ میرا خیال ہے کہ دوسری تلوار اہل کتاب میں فرماتا ہے ( قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ 29؀ۧ ) 9- التوبہ:29 ) اللہ تبارک و تعالیٰ پر قیامت کے دن پر ایمان نہ لانے والوں اور اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہ ماننے والوں اور اللہ کے سچے دین کو قبول کرنے والوں سے جو اہل کتاب ہیں جہاد کرو تاوقتیکہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا قبول کرلیں ۔ تیری تلوار منافوں میں فرمان ہے ( يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۭ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ 73؀ ) 9- التوبہ:73 ) اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو ۔ چوتھی تلوار باغیوں میں ارشاد ہے ( وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ Ḍ۝ ) 49- الحجرات:9 ) اگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی ہو جائے تو ان میں صلح کرادو پھر بھی اگر کوئی جماعت دوسری کو دباتی چلی جائے تو ان باغیوں سے تم لڑو جب تک کہ وہ پلٹ کر اللہ کے حکم کی ماتحتی میں نہ آجائے ۔ ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ یہ آیت تلوار ( فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۭ حَتّىٰٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ڎ فَاِمَّا مَنًّـۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَاڃ ذٰ۩لِكَ ړ وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ ۭ وَالَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَلَنْ يُّضِلَّ اَعْمَالَهُمْ Ć۝ ) 47-محمد:4 ) سے منسوخ ہے یعنی بطور احسان کے یا فدیہ لے کر کافر قیدیوں کو چھوڑ دو ۔ قتادہ اس کے برعکس کہتے ہیں پچھلی آیت پہلی سے منسوخ ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 ان حرمت والے مہینوں سے مراد کیا ہے ؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے اس سے مراد چار مہینے ہیں جو حرمت والے ہیں۔ رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور اعلان نجات 0 1 ذوالحجہ کو کیا گیا۔ اس اعتبار سے گویا یہ اعلان کے بعد پچاس دن کی مہلت انہیں دی گئی، لیکن امام ابن کثیر نے کہا کہ یہاں اَ شھَرُ حُرْم سے مراد حرمت والے مہینے نہیں بلکہ 10 ذوالحجہ سے لے کر 10 ربیع الثانی تک کے چار مہینے مراد ہیں۔ انہیں اشھر حرم اس لیے کہا گیا ہے کہ اعلان براءت کی رو سے ان چار مہینوں میں ان مشرکین سے لڑنے اور انکے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ اعلان برات کی رو سے یہ تاویل مناسب معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم) ۔ 5۔ 2 بعض مفسرین نے اس حکم کو عام رکھا یعنی حل یا حرم میں، جہاں بھی پاؤ قتل کرو اور بعض مفسرین نے کہا مسجد حرام کے پاس مت لڑو ! یہاں تک کہ وہ خود تم سے لڑیں، اگر وہ لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ 5۔ 3 یعنی انہیں قیدی بنا لویا قتل کردو۔ 5۔ 4 یعنی اس بات پر اکتفا کرو کہ وہ تمہیں کہیں ملیں تو تم کاروائی کرو، بلکہ جہان جہاں ان کے حصار، قلعے اور پناہ گاہیں ہیں وہاں وہاں ان کی گھات میں رہو، حتٰی کہ تمہاری اجازت کے بغیر ان کے لئے نقل و حرکت ممکن نہ رہے۔ 5۔ 5 یعنی کوئی کاروائی ان کے خلاف نہ کی جائے، کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ گویا قبول اسلام کے بعد اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوٰۃ کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی ترک کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔ جس طرح حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے جہاد کیا : اور فرمایا واللہ لأقتلن من فرق بین الصلوٰ ۃ وال زکوٰۃ (متفق علیہ) اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کریں گے۔ " یعنی نماز تو پڑھیں لیکن زکوٰۃ ادا کرنے سے گریز کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد ١٠ ذی الحجہ ٩ ہجری سے لے کر ١٠ ربیع الثانی ١٠ ہجری تک چار ماہ کی مدت ہے جو مشرکوں کو سوچ بچار کے لیے دی گئی تھی۔ یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب نہیں ہیں جو دور جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے اور اسلام نے بھی ان کی حرمت کو بحال رکھا ہے۔ [٥] مشرکوں سے جنگ نہ کرنے کی شرائط :۔ درج ذیل حدیث اس کی مزید وضاحت کر رہی ہے۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا && مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی نہ دیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ پھر جب وہ یہ کام کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال محفوظ کرلیے سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ && (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب فان، تابوا۔۔ مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب الامر بقتال الناس حتی۔۔ ) یعنی ان مشرکوں کو محض اسلام لانے کا اعلان یا توبہ کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں اپنے دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لیے نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ اور اگر کوئی مشرک ظاہری طور پر یہ تینوں شرائط پوری کر دے تو اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا خواہ اس کی نیت میں فتور بدستور موجود ہو۔ اور اگر ایسی صورت ہو تو اللہ اس سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں سے نمٹ لے گا۔ اس آیت سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان خواہ وہ موروثی مسلمان ہو یا نو مسلم ہو اگر وہ نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو ایک اسلامی حکومت میں اسے حقوق شہریت مل سکتے ہیں اور اگر نہیں کرتا تو اسے مسلمانوں جیسے حقوق نہیں مل سکتے۔ مرتدین اور بالفعل زکوٰۃ نہ دینے والوں سے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کا جہاد :۔ دور نبوی میں اس اعلان کے بعد مشرکوں نے صرف تیسری راہ اختیار کی یعنی وہ اسلام لے آئے۔ البتہ آپ کی وفات کے بعد پھر ایسے مشرکوں نے سر اٹھایا۔ کچھ تو سرے سے اسلام سے ہی مرتد ہوگئے اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے ایسے لوگوں کے بارے میں جنگ کرنے سے متعلق مجلس شوریٰ طلب کی۔ اور ایسے نازک حالات میں ان مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے کے متعلق مشورہ کیا۔ اس مجلس میں اکثر صحابہ نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر ان سے فی الحال تعرض نہ کرنے کا مشورہ دیا اور بعض نے یہ کہا کہ آپ ایسے لوگوں سے کیسے جنگ کرسکتے ہیں جو کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل ہوچکے ہیں تو سیدنا ابوبکر (رض) نے اسی آیت سے استدلال کر کے شوریٰ پر ثابت کردیا کہ اسلام کے دعویٰ کی صداقت کے لیے جیسے نماز کی ادائیگی شرط ہے ویسے ہی زکوٰۃ کی ادائیگی بھی شرط ہے چناچہ شوریٰ کو اس بات کا قائل ہونا پڑا اور آپ نے ان مانعین زکوٰۃ سے کفار و مشرکین کی طرح جہاد کیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ : ان چار مہینوں سے مراد ١٠ ذوالحجہ سے ١٠ ربیع الثانی تک کے ایام ہیں۔ بعض لوگوں نے اس سے معروف حرمت والے مہینے مراد لیے ہیں، یعنی رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ ١٠ ذوالحجہ کو اعلان براءت ہو تو محرم ختم ہونے تک کل پچاس دن بنتے ہیں، اس لیے حافظ ابن کثیر اور دوسرے مفسرین نے ١٠ ذوالحجہ سے ١٠ ربیع الثانی تک ہی چار ماہ مراد لیے ہیں اور انھیں ” الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ “ اس لیے کہا گیا کہ اس مہلت میں مشرکین کا قتل حرام کردیا گیا، یہی تفسیر درست ہے۔ كُلَّ مَرْصَدٍ : گھات کی جگہ سے مراد وہ راستہ یا جگہ ہے جہاں سے دشمن کے گزرنے کی توقع ہو اور جہاں سے اس پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کرنا ممکن ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان مشرکین سے صرف میدان جنگ میں لڑنا ہی کافی نہیں، بلکہ جس طریقے سے بھی تم ان پر قابو پا کر انھیں قتل کرسکتے ہو ضرور کرو۔ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ : شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” جن سے وعدہ ٹھہر گیا تھا اور دغا ان سے نہ دیکھی ان کی صلح قائم رہی اور جن سے کچھ وعدہ نہ تھا ان کو فرصت ملی چار مہینے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دل کی خبر اللہ کو ہے، ظاہر میں جو مسلمان ہو وہ سب کے برابر امان میں ہے اور ظاہر مسلمانی کی حد ٹھہرائی ایمان لانا، کفر سے توبہ کرنا اور نماز اور زکوٰۃ۔ اس واسطے جب کوئی شخص نماز چھوڑ دے تو اس سے امان اٹھ گئی۔ “ (موضح) یہی وہ حکم ہے جس کی بنا پر ابوبکر صدیق (رض) نے زکوٰۃ کے منکرین سے جنگ کی اور فرمایا کہ میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا اور عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی گواہی دیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، پھر جب وہ یہ ( تین) کام کرلیں تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے مال مجھ سے محفوظ کرلیے، مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب : ( فإن تابوا و أقاموا الصلاۃ۔۔ ) : ٢٥ ] یاد رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی شہادت میں آپ کے تمام احکام کی فرماں برداری کا اقرار آجاتا ہے، اگر ان میں سے کسی حکم کا انکار کرے، جو عام سب کو معلوم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے تو مرتد ٹھہرے گا اور اگر کسی حکم کا انکار تو نہ کرے مگر عمل نہ کرسکے تو گناہ گار مسلمان ہوگا، کافر نہیں ہوگا۔ البتہ مسلمان ہونے کی ظاہری نشانیاں وہ ہیں جو اوپر ذکر ہوئیں، ان کا صرف اقرار کرنا یا دل میں ماننا کافی نہیں، بلکہ ان پر عمل کرنا خون اور مال کی حفاظت کا ضامن ٹھہرایا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

7. Details as they appear in the fifth verse carry the seventh rul¬ing. When war in defense of a correct objective breaks out against any power, all available combat resources should be used fully and conclu¬sively. That is a time when showing mercy and appeasement would be showing cowardice. From the same fifth verse comes the eighth ruling, that is, trust in a non-Muslim who has become a Muslim depends on three things. (A) Taubah (repentance) over disbelief in the past, (B) the establishing of Salah and (C) the paying of Zakah as due. Until these three conditions have been implemented practically, the option of war will not be withdrawn simply on the basis that someone has recited the Kalimah of Islam. When after the passing away of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، some people refused to pay Zakah, Sayyidna Abu Bakr (رض) had de¬clared a Jihad against them. On that occasion, by referring to this very verse in support of his action, he was able to convince and satisfy all Companions (رض) . 8. The ninth question in these verses concerns the meaning of the expression: يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ‌ (yaumu &l-hajju &l-akbar: The day of the great hajj). The sayings of early commentators differ in this matter. Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas, Sayyidna ` Umar, Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar, and Sayyidna ` Abdullah ibn Zubayr (رض) say that ` the day of the greater hajj means ` the day of ` Arafah& because the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: الحج العرفۃ (&Arafah is the Hajj). (Abu Dawud, Tirmidhi) 9. Some others have said that it signifies: یوم النحر (yaumu &n-nahr: the day of sacrifice), that is, the tenth of Dhu al-hijjah. In order to accom¬modate all these sayings, Sufyan ath-Thawri and other authorities have said that all five days of the Hajj are the substantiation of: یوم الحج الاکبر (yaumu -&l-hajju &l-akbar: the day of the greater hajj) which in¬cludes ` Arafah and Yaumu &n-nahr both. As for the use of the word یوم yaum or day in the singular, it is in accordance with the usage elsewhere as the Holy Qur&an calls a few days of the battle of Badr by the name of یوم الفرقان :yaumu &l-Furqan in the singular form. Then, there are the common wars of Arabia. They too are identified by the word yaum or day - even though, they may have been spread over many more days - such as, یوم البعاث :yaumu &l-bu` ath, یوم الاحد :yaumu l&Uhud etc. And since ` Umrah is called ` the smaller hajj, ( حج اصغر), therefore, it was to make it distinct that Hajj was called حج الاکبر ` the greater hajj& حج الاکبر (al-hajju &1-akbar). This tells us that, in the terminology of the Qur&an, Hajj as it takes place every year is nothing but ` the greater hajj& حج الاکبر (al-hajju &1-akbar). As for the popular assumption that the year in which ` Arafah falls on a Friday is specially ` the greater hajj,& it has no real basis except that the year in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) performed his last Hajj (حجۃ الوداع hajjatu &l-wady`) just happened to be the year in which ` Arafah fell on the day of Jumu&ah. No doubt, this is a matter of distinction in its own place, but it has nothing to do with the sense of this verse. In his Ahkam a1-Qur&an, Imam Abu Bakr al-Jassas has said: By calling the days of Hajj as ` the greater hajj,& the problem that ` Umrah cannot be performed during the days of Hajj has also been resolved here - because, the Holy Qur&an has specified these days for ` the great¬er hajj.&

(٧) ساتواں مسئلہ مذکورہ پانچویں آیت کی تفصیلات سے یہ معلوم ہوا کہ جب صحیح مقصد کے لئے کسی قوم سے جنگ چھڑ جائے تو پھر ان کے مقابلہ کے لئے ہر طرح کی قوت پورے طور پر استعمال کرنا چاہئے اس وقت رحم دلی یا نرمی درحقیقت رحم دلی نہیں بلکہ بزدلی ہوتی ہے۔ (٨) آٹھواں مسئلہ مذکورہ پانچویں آیت سے یہ ثابت ہوا کہ کسی غیر مسلم کے مسلمان ہوجانے پر اعتماد تین چیزوں پر موقوف ہے۔ ایک توبہ دوسرے اقامت صلوٰة تیسرے ادائے زکوٰة جب تک اس پر عمل نہ ہو محض کلمہ پڑھ لینے سے ان کے ساتھ جنگ بند نہ کی جائے گی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد جن لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا تھا ان کے مقابلہ پر صدیق اکبر نے جہاد کرنے کے لئے اسی آیت سے استدلال فرما کر تمام صحابہ کو مطمئن کردیا تھا۔ (٩) نواں مسئلہ ان آیات میں یہ ہے کہ (آیت) يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ سے کیا مراد ہے۔ اس میں حضرات مفسرین کے مختلف اقوال ہیں حضرت عبداللہ بن عباس، فاروق اعظم، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر (رض) اجمعین وغیرہ نے فرمایا کہ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ سے مراد یوم عرفہ ہے کیونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے الحج عرفۃ ( ابوداؤد۔ ترمذی ) ۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے مراد یوم النحر یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ہے۔ حضرت سفیان ثوری اور بعض دوسرے ائمہ نے ان سب اقوال کو جمع کرنے کے لئے فرمایا کہ حج کے پا نچوں دن يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ کا مصداق ہیں جن میں عرفہ اور یوم النحر دونوں داخل ہیں اور لفظ یوم مفرد لانا اس محاورہ کے مطابق ہے جیسے غزوہ بدر کے چند ایام کو قرآن کریم میں یوم الفرقان کے مفرد نام سے تعبیر کیا ہے۔ اور عرب کی عام جنگوں کو لفظ یوم ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے اگرچہ ان میں کتنے ہی ایام صرف ہوئے ہوں جیسے یوم بعاث، یوم احد وغیرہ اور چونکہ عمرہ کو حج اصغر یعنی چھوٹا حج کہا جاتا ہے اس سے ممتاز کرنے کے لئے حج کو حج اکبر کہا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآنی اصطلاح میں ہر سال کا حج حج اکبر ہی ہے۔ عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جس سال عرفہ بروز حمبعہ واقع ہو صرف وہ ہی حج اکبر ہے اس کی اصلیت اس کے سوا نہیں ہے کہ اتفاقی طور پر جس سال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حجة الوداع ہوا ہے اس میں عرفہ بروز جمعہ ہوا تھا۔ یہ اپنی جگہ ایک فضیلت ضرور ہے مگر آیت مذکورہ کے مفہوم سے اس کا تعلق نہیں۔ امام جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ ایام حج کو حج اکبر فرمانے سے یہ مسئلہ بھی نکل آیا کہ ایام حج میں عمرہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ان ایام کو قرآن کریم نے حج اکبر کے لئے مخصوص فرما دیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ۝ ٠ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٥ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) سلخ السَّلْخُ : نزع جلد الحیوان، يقال : سَلَخْتُهُ فَانْسَلَخَ ، وعنه استعیر : سَلَخْتُ درعه : نزعتها، وسَلَخَ الشهر وانْسَلَخَ ، قال تعالی: فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ [ التوبة/ 5] ، وقال تعالی: نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهارَ [يس/ 37] ، أي : ننزع، وأسود سَالِخٌ ، سلخ جلده، أي : نزعه، ونخلة مِسْلَاخٌ: ينتثر بسرها الأخضر . ( س ل خ ) السلخ اس کے اصل معنی کھال کھینچنے کے ہیں ۔ جیسے محاورہ ہے ۔ سلختہ فانسلخ میں نے اس کی کھال کھینچی تو وہ کھچ گئی پھر اسی سے استعارہ کے طور پر زرہ اتارنے اور مہینہ کے گزر جاں ے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے سلخت درعہ میں نے اس کی زرہ اتار لی ۔ سلخ الشھر و انسلخ مہینہ گزر گیا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ [ التوبة/ 5] جب غربت کے مہینے گزر جائیں ۔ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهارَ [يس/ 37] کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں ۔ شهر الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة/ 185] ، ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة/ 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل كيا گيا هے۔ حَرَمُ ( محترم) والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام، قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] حيث حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة/ 149] . ( ح ی ث ) حیث ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] اور تم جہاں ہوا کرو وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ حصر الحَصْر : التضييق، قال عزّ وجلّ : وَاحْصُرُوهُمْ [ التوبة/ 5] ، أي : ضيقوا عليهم، وقال عزّ وجل : وَجَعَلْنا جَهَنَّمَ لِلْكافِرِينَ حَصِيراً [ الإسراء/ 8] ، أي : حابسا . قال الحسن : معناه : مهادا «5» ، كأنه جعله الحصیر المرمول کقوله : لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهادٌ [ الأعراف/ 41] ( ح ص ر ) الحصر ( ن ) کے معنی تضییق یعنی تنگ کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا :۔ اور گھیر لو یعنی انہیں تنگ کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَجَعَلْنا جَهَنَّمَ لِلْكافِرِينَ حَصِيراً [ الإسراء/ 8] اور ہم نے جہنم کو کافروں کیلئے قید خانہ بنا رکھا ہے ۔ میں حصیر کے معنی روکنے والا کے ہیں ۔ حسن نے کہا ہے کہ حصیر کے معنی مھاد یعنی بچھونے کے ہیں گویا ان کے نزدیک اس سے حصیر مرموں یعنی چنائی مراد ہے اور چٹائی کو حصیر اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے ریشے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں ۔ قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیً کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔ رصد الرَّصَدُ : الاستعداد للتّرقّب، يقال : رَصَدَ له، وتَرَصَّدَ ، وأَرْصَدْتُهُ له . قال عزّ وجلّ : وَإِرْصاداً لِمَنْ حارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 107] ، وقوله عز وجل : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، تنبيها أنه لا ملجأ ولا مهرب . والرَّصَدُ يقال لِلرَّاصِدِ الواحد، وللجماعة الرَّاصِدِينَ ، ولِلْمَرْصُودِ ، واحدا کان أو جمعا . وقوله تعالی: يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً [ الجن/ 27] ، يحتمل کلّ ذلك . والمَرْصَدُ : موضع الرّصد، قال تعالی: وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [ التوبة/ 5] ، والْمِرْصَادُ نحوه، لکن يقال للمکان الذي اختصّ بِالتَّرَصُّدِ ، قال تعالی: إِنَّ جَهَنَّمَ كانَتْ مِرْصاداً [ النبأ/ 21] ، تنبيها أنّ عليها مجاز الناس، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وارِدُها [ مریم/ 71] . ( ر ص د ) الرصد : گھات لگا کر بیٹھنا ۔ اور رصد لہ وترصد کے معنی ہیں کسی کے لئے گھات لگانا اور ارصدتہ کس کو گھات لگانے کے لئے مقرر کرنا اور ارصد لہ کے معنی پناہ دینا بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِرْصاداً لِمَنْ حارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 107] اور ان لوگوں کو پناہ دیں جو اللہ اور رسول کے ساتھ پہلے لڑ چکے ہیں ۔ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تیرا پروردگار ( نافرمانوں کی ) تاک میں ( لگا رہتا ہے ) رصد ( صیغہ صفت ) یہ معنی فاعلی اور مفعولی دونوں کے لئے آتا ہے اور واحد اور جمع دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَداً [ الجن/ 27] تو ان کے آگے اور انکے پیچھے ( فرشتوں سے ) پہرہ دینے والے ان کے ساتھ رہتے ہیں ۔ تو یہاں رصدا سے واحد اور جمع دونوں مراد ہوسکتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [ التوبة/ 5] اور ہر گھات کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھو ۔ اور مرصاد بمعنی مرصد آتا ہے لیکن مرصاد اس جگہ کو کہتے ہیں جو گھات کے لئے مخصوص ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جَهَنَّمَ كانَتْ مِرْصاداً [ النبأ/ 21] بیشک دوزخ گھات میں ہے ۔ تو آیت میں اس بات پر بھی تنبیہ ہے کہ جہنم کے اوپر سے لوگوں کا گزر ہوگا جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وارِدُها [ مریم/ 71] اور تم میں سے کوئی ( ایسا بشر ) نہیں جو جہنم پر سے ہو کر نہ گزرے ۔ اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ خل الخَلَل : فرجة بين الشّيئين، وجمعه خِلَال، کخلل الدّار، والسّحاب، والرّماد وغیرها، قال تعالیٰ في صفة السّحاب : فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور/ 43] ، فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] ، ( خ ل ل ) الخلل ۔ دو چیزوں کے درمیان کشاد گی اور فاصلہ کو کہتے ہیں مچلا بادل اور گھروں کے درمیا کا فاصلہ یا راکھ وغیرہ کا اندرونی حصہ اس کی جمع خلال ہے ۔ چناچہ بادل کے متعلق فرمایا : فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے بارش برسنے لگتی ہے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اشہر حرم گزرنے پر مشکین سے قتال قول باری ہے (فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلو المشرکین حیث و جدتموھم پس جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پائو) معاویہ بن صالح نے علی بھ ابی طلحہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قول باری (لست علیھم بسطیطر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پر کچھ مسلط تو نہیں ہیں) نیز (وما انت علیھم بجبار اور آپ ان پر جبر کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے) نیز (قل للذین امنوا یغفروا للذین لا یرجون ایام اللہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ان سے کہہ دیجئے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ درگزر سے کام لیں جو اللہ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے) ان سب کو ان دو آیات نے منسوخ کردیا ہے۔ پہلی آیت یہ ہے (فاقتلو المشرکین حیث و جدتموھم) اور دوسری آیت یہ ہے (قاتلوا الذین لا یومنون باللہ والیوم الاخر۔ ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ اور یوم آخرت پر یقین نہیں رکھتے) تا آخر آیت۔ موسیٰ بن عقبہ کا قول ہے کہ اس سے قبل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قول باری (و القوا الیکم السلم فما جعل اللہ لکم علیھم سبیلا اور تمہاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لئے ان پر دست درازی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے) کی بنا پر ان مشرکین سے اپنا ہاتھ روک رکھتے جو آپ سے جنگنہ کرتے پھر قول باری (براء ۃ من اللہ و رسولہ) نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ پھر فرمایا (فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں آیت زیر بحث کا عموم تمام مشرکین کو خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب قتل کرنے کی مقتضی ہے۔ نیز یہ کہ ان سب سے اسلام یا تلوار کے سوا اور کوئی بات قبول نہ کی جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو جزیہ کے بدلے ان کے مذہب پر برقرار رکھ کر ان کی تخصیص کردی چناچہ ارشاد باری ہے (قاتلوا الذین لا یومنون باللہ والیوم الاخر) تا آخر آیت۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ھجر کے علاقے میں رہنے والے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا تھا۔ علقمہ بن مرثد کی روایت میں جو انہوں نے ابن بریدہ سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے کہ آپ جب کوئی فوجی مہم یعنی سریہ روانہ کرتے تو اس میں شامل مجاہدین کو یہ ہدایات دیتے کہ ” جب مشرکین سے تمہارا مقابلہ ہوجائے تو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو ، اگر وہ انار کریں تو انہیں جزیہ ادا کرنے کے لئے کہو اگر وہ یہ بات مان جائیں تو ان سے جزیہ وصول کرلو اور اپنا ہاتھ ان سے روک لو۔ “ اس حکم میں تمام مشرکین کے لئے عموم ہے لیکن ہم نے آیت کی بنا پر ان مشرکین ی تخصیص کردی جو مشرکین عرب میں سے نہیں تھے اور قول باری (فاقتلوا المشرکین حیث و جدتموھم) کا حکم مشرکین عرب کے ساتھ خاص ہوگیا دوسرے مشرکین اس حکم میں داخل نہ رہے۔ محاصرہ سے مشرکین کو غور و خوض کا موقع مل جائے گا قول باری (وخدوھم احصروھم اور انہیں پکڑو اور گھیرو) اس پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں پکڑنے کے بعد قید کردیا جائے اور انہیں قتل کرنے میں سست روی اختیار کی جائے تاکہ انہیں اسلام کے متعلق سوچنے اور اسے قبول کرنے کا موقع مل جائے اس لئے کہ حصر کے معنی حبس یعنی قید کرنے کے ہیں۔ یہ اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ مشرکین کو ان کے قلعوں اور شہروں میں محصور کردینا بھی جائز ہے جبکہ ان میں بچے اور عورتیں موجود ہوں جن کا قتل جائز نہیں ہے۔ نیز یہ کہ محاصرہ کے ذریعے ان کا مقابلہ کیا جائے۔ قول باری (فاقتلوا لمشرکین) کا عموم مشرکین کو قتل کی تمام صورتوں کے ذریعے قتل کرنے کے جواز کا مقتضی ہے تاہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے مثلہ کرنے یعنی اعضاء و جوارح کاٹ ڈالنے اور باندھ کر تیروں سے قتل کرنے کی ممانعت ثابت ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (اعف الناس قتلۃ اہل الایمان۔ اہل ایمان کے قاتلین مکروہ ترین لوگ ہیں) نیز آپ نے فرمایا (اذا قتلتم فاحسنوا القتلۃ) جب تم کسی کو قتل کرو تو یہ عمل بھی اچھے طریقے سے انجام دو ) حضرت ابوبکر نے جب مرتدین کو آگ میں جلا کر، سنگسار کر کے، پہاڑوں سے نیچے گرا کر اور کنووں میں ہلاک کیا تھا تو عین ممکن ہے کہ انہوں نے ظاہر آیت سے استدلال کیا ہو، حضرت علی (رض) نے بھی مرتدین کے ایک گروہ کو آگ میں جلا کر ہلاک کیا تھا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے آیت کے عموم کا اعتبار کیا ہو۔ قول باری ہے (فان تابوا و اقامو الصلوۃ و اتوا الزکوۃ فخلوا سبیلھم، اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ) آیت میں مذکور افعال ک وجود یا تو ان سے قتل کا حکم ٹل جانے کے لئے شرط قرار پائے گا یا ان کو قبول کرتے ہوئے اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردینا ہی اس حکم کے ٹل جانے کے لئے کافی ہوگا۔ ان افعال کے وجود کی کوئی شرط نہیں ہوگی۔ یہ بات تو واضح ہے کہ شرک سے توبہ کا وجود ہی اس حکم کے ٹل جانے کے لئے لامحالہ شرط ہے۔ نیز اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر مشرکین نماز اور زکوۃ کی ادائیگی کے سلسلے میں اللہ کا حکم تسلیم کرلیں لیکن وہ وقت نماز کا وقت نہ ہو تو وہ مسلمان کہلائیں گے اور ان کی جان مفحظو ہوجائے گی اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر مشرکین اللہ کے اوامر کو قبول کرلیں اور ان کے لزوم کا اعتراف بھی کرلیں تو اس کے ساتھ ان کے قتل کا حکم مل جائے گا۔ نماز کی ادائیگی یا زکوۃ کا اخراج اس کے لئے شرط نہیں ہے۔ نیز زکوۃ نکالنے کا حکم نفس اسلام کے لئے لازم نہیں ہوتا بلکہ سال گزر جانے کے بعد اس کا لزوم ہوتا ہے۔ اس لئے زکوۃ کی ادائیگی کو قتل کے حکم کے ٹل جانے کے لئے شرط قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ اسی طرح نماز کی ادائیگی بھی اس کے لئے شرط نہیں ہے۔ اس حکم کو ٹالنے کی شرط صرف یہ ہے کہ ان فرائض کو قبول کرلیا جائے۔ ان کا التزام کچیا جائے اور ان کے وجوب کا اقرار و اعتراف کیا جئاے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فان تابوا و اقاموالصلوۃ و اتوالزکوۃ) تو اس میں توبہ کے ساتھ نماز کی ادائیگی اور زکوۃ کے اخراج کی شرط عائد کی۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ کفر سے مکمل طور پر قطع تعلقی کر کے اسلام کی طرف لوٹ آنے کا نام توبہ ہے۔ اس لئے آیت میں توبہ کے ذکر کے ساتھ ان فرائض کے التزام اور ان کے اقرار کا مفہوم خودبخود ذہن میں آ جاتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے بغیر توبہ درست ہی نہیں ہوسکتی۔ پھر جب توبہ کے ساتھ نماز اور زکوۃ کی شرط عائد کردی تو اس سے اس امر پر دلالت ہوگئی کہ مشرکین سے قتل کے حکم کو ٹالنے والی علت دراصل یہ ہے کہ ایمان کا اس کی شرائط کے ساتھ اعتقاد اور نماز کی ادائیگی نیز زکوۃ کا اخراج پایا جائے۔ یہ چیز نماز اور زکوٰۃ کے وجوب کے باوجود نماز نہ ڑھنے والے اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کے قتل کو واجب کردیتی ہے۔ چاہے ایسا شخص ایمان کا اعتقاد اور اس کی شرائط کے لزوم کا اعتراف کیوں نہ کرتا ہو۔ اس ک جواب میں کہا جائے گا کہ اگر نماز کی ادائیگی اور زکوٰۃ کا اخراج قتل کا حکم ٹل جانے کے لئے شرط قرار دیا جاتا تو یہ حکمران مشرکین سے ہرگز نہ ٹلتا جو نماز کی ادائیگی اور زکوٰۃ کے اخراج کے اوقات کے سوا کسی اور وقت میں مسلمان ہوجاتے۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ اگر ایک مشرک ایمان کا اس کی شرائط کے ساتھ اعتقاد کرے اور اس کے لزوم کا اعتراف کرلے تو اس سے قتل کا حکم ٹل جاتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ نماز کی ادائیگی اور زکوٰۃ کا اخراج قتل کا حکم ٹل جانے کی شرائط میں سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کی شرط یہ ہے ک مشرک ایمان کا اظہار کرے اور اس کے احکامات کو قبول کرلے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب ایمان کا اظہار اور احکامات کا التزام اس حکم کے ٹل جانے کے لئے شرط قرار دیئے گئے تو ان میں بعض کو ترک کرنے کی بنا پر ایسے شخص سے قتل کا حکم زائل نہیں ہوتا۔ قرآن کی ایک آیت کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے حضرات صحابہ کرام نے مانعین زکوٰۃ کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کیا تھا اور ان کے لڑنے والے مردوں کو قتل کردیا تھا اور انہیں اہل ردہ یعنی مرتدین کے نام سے موسم کیا تھا اس لئے کہ انہوں نے زکوٰۃ کی فرضیت کو قبول کرنے اور اس کی ادائیگی کا التزام کرنے سے انکار کردیا تھا اسی بنا پر وہ مرتدین قرار دیئے گئے تھے۔ اس لئے کہ جو شخص قرآن کی ایک آیت کا انکار کرتا ہے وہ گویا پورے قرآن کا منکر ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے تمام صحابہ کرام کے ساتھ مل کر مرتدین کے خلاف اسی طریق کار کو اپنایا اور ان کے ساتھ قتال کیا۔ زکوٰۃ کی فرضیت کو قبول کرنے سے انکار کی بنا پر ان کے مرتد ہوجانے پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے معمر نے زہری سے نقل کیا ہے، انہوں نے حضرت انس (رض) سے اس کی روایت کی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو تمام عرب میں ارتداد کا فتنہ پھیل گیا۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا کہ آپ پورے عرب سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر (رض) نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا ہے کہ (جب لوگ اس بات کی گواہی دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کریں نیز زکوٰۃ ادا کریں تو پھر وہ مجھ سے اپنا خون اور اپنے اموال محفوظ کرلیں گے) خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ مھ سے ایک رسی کی ادائیگی بھی روک دیں جسے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ادا کرتے تھے تو اس پر بھی میں ان سے جنگ کروں گا۔ حضرت ابوبکر (رض) کا جرأت مندانہ اقدام مبارک بن فضالہ نے حسن سے روایت کی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو عرب کے لوگ اسلام سے مرتد ہوگئے۔ صرف مدینہ منورہ اور کچھ دوسرے علاقوں کے لوگ اس سے محفوظ رہے حضرت ابوبکر (رض) نے ان کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے کہا، ہم اللہ کی وحدانیت اور معبودیت کی گواہی دیتے ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں لیکن ہم زکوٰۃ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں “۔ حضرت عمر (رض) اور دیگر بدری صحابہ کرام حضرت ابوبکر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ تجویز پیش کی کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ جب اسلام ان کے دلوں میں گھر کر جائے گا تو یہ خود زکوٰۃ کی ادائیگی شروع کردیں گے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا : بخدا اگر یہ لوگ مجھے ایک رسی بھی دینے سے انکار کردیں جسے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زکوٰۃ میں دیا کرتے تھے تو اس پر بھی میں ان سے جنگ کروں گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین باتوں کو نہ ماننے پر لوگں سے جنگ کی تھی۔ کلمہ طیبہ کے عدم اقرار پر اور نماز نیز زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر، اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے (فان تابوا و اقامو الصلوۃ و اتوالزکوۃ فخلو سبیلھم۔ اگر یہ توبہ کرلیں۔ اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ) بخدا میں ان سے نہ اس سے زائد کا مطالبہ کرتا ہوں اور نہ اس سے کم کا۔ “ مانعین زکوٰۃ نے کہا کہ ہم زکوٰۃ نکالیں گے لیکن آپ کے حوالے نہیں کریں گے۔ اس پر حضرت ابوبکر (رض) نے انہیں جواب دیا۔ نہیں، بخدا نہیں، جب تک زکوٰۃ تم لوگوں سے وصول نہیں کروں گا جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وصول کرتے تھے، اور جب تک زکوٰۃ کو اس کے صحیح مصارف میں خرچ نہیں کروں گا اس وقت تک میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ حماد بن زید نے ایوب سے اور انہوں نے محمد بن سیرین سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ زہری نے عبید اللہ بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے ہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا اور حضرت ابوبکر (رض) خلیفہ بن گئے اور عرب کے لوگ مرتد ہوگئے تو حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے جنگ کرنے کے لئے فوجیں روانہ کیں۔ اس موقع پر حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا کہ آپ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا تھا کہ ” مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک وہ یہ نہیں کہتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جب وہ اس کا اقرار کرلیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے اموال محفوظ کرلیں گے۔ الا یہ کہ حق کی بنا پر کسی کی جان یا مال پر ہاتھ ڈالاجائے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہوگا۔ “ حضرت ابوبکر نے یہ سن کر فرمایا : خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ ایک رسی بھی مجھے دینے سے انکار کردیں جسے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زکوٰۃ میں ادا کرتے تھے تو میں اس پر بھی ان سے جنگ کروں گا۔ “ ان تمام راویوں نے یہ بتایا ہے کہ عرب کے جو لوگ مرتد ہوگئے تھے ان کا ارتداد اس بنا پر تھا کہ انہوں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ہمارے نزدیک یہ امر اس پر محمول ہے کہ انہوں نے زکوٰۃ کے فریضہ کو رد کرتے ہوئے اور اسے قبول نہ کرتے ہوئے اس کی ادائیگی سے انکار کیا تھا اسی بنا پر انہیں مرتدین کے نام سے موسم کیا گیا تھا۔ منکرین زکوٰۃ فرضیت زکوٰۃ کے قائل تھے حسن کی روایت کے مطابق حضرت ابوبکر نے یہ بتایا تھا ک آپ ان سے زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کی بنا پر جنگ کر رہے ہیں اگرچہ وہ اس کی فرضیت کا اقرار کرتے تھے اس لئے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ ہم زکوۃ نکالیں گے لیکن اسے آپ کے یعنی حضرت ابوبکر (رض) کے حوالے نہیں کریں گے، اس پر حضرت ابوبکر (رض) نے جواب دیا تھا کہ نہیں بخدا نہیں، میں ان سے زکوٰۃ اسی طرح وصول کروں گا جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وصول کیا کرتے تھے “ حضرت ابوبکر (رض) کے قول میں دو باتوں پر دلالت ہو رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ جو شخص زکوٰۃ اپنے اوپر لازم سمجھتے ہوئے اور اس کے وجوب کا اعتقاد نہ رکھتے ہوئے اس کی ادائیگی سے انکار کرے وہ مرتد کہلائے گا، دوسری بات یہ کہ جو شخص زکوٰۃ کے وجوب کا اقرار کرتا ہو لیکن زکوٰۃ امام المسلمین کے حوالے کرنے سے انکار کرتا ہو وہ اس بات کا سزاوار گردانا جائے گا کہ اس کے خلاف جنگ کی جائے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جو شخص اپنے مویشیوں کی زکوٰۃ فقراء ومساکین کے حوالے کر دے گا تو امام المسلمین اس کا احتساب نہیں کرے گا لیکن اگر وہ اسے امام المسلمین کو ادا کرنے سے انکار کر دے گا تو وہ اس پر اس شخص سے جنگ کرے گا۔ مویشیوں کی زکوۃ کے بارے میں ہمارے اصحاب کا بھی یہ مسلک ہے جہاں تک اموال کی زکوٰۃ کا تعلق ہے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رح) ان کی زکوٰۃ مویشیوں کی زکوٰۃ کی طرح خود وصول کرتے تھے۔ لیکن جب حضرت عثمان (رض) کی خلافت کا زمانہ آیا تو آپ نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : لوگو ! یہ تمہاری زکوٰۃ کی ادائیگی کا مہینہ ہے “ اس لئے جس شخص پر کوئی قرض ہو وہ اپنا قرض ادا کر دے اور پھر باقی ماندہ مال کی زکوٰۃ ادا کر دے “۔ حضرت عثمان (رض) نے زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری خود زکوٰۃ نکالنے والوں پر ڈال دی تھی اور یہ لوگ اس کی ادائیگی میں گویا امام المسلمین کے وکیل اور کارنے بن گئے تھے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف جو اقدام کیا تھا اس میں انہیں صحابہ کرام کی پوری حمایت حاصل تھی، جب اس معاملہ میں حضرت ابوبکر (رض) کی رائے اور اجتہاد یک صحت ان حضرات کے سامنے واضح ہوگئی تو پھر کسی نے آپ سے اختلاف نہیں کیا۔ زیربحث آیت سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو جان بوجھ کر نماز نہ پڑھنے والے اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آیت شرک کے قتل کو واجب کرتی ہے الا یہ کہ وہ ایمان لے آئے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے۔ ہم نے قول باری (واقاموالصلوۃ و الوا الزکوۃ) کی تفسیر کرتے ہوئے یہ واضح کردیا تھا کہ اس سے راد یہ ہے کہ وہ ان دونوں باتوں کے لزوم اور فرضیت کا اقرار کرلیں اور ان کی فرضیت کا التزام کرلیں تو ان کے لئے یہی کافی ہوگا اور دونوں کو بجا لانا ضروری نہیں ہے۔ نیز آیت میں ان لوگوں کے مسلک کے حق میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت صرف مشرکین کے قتل کی موجب وہتی ہے۔ لیکن جو شخص شرک سے توبہ کر کے اسلام میں داخل ہو جاء اور اس کے فرائض کو لازم سمجھے اور اس کا اقرار کرلے وہ بالاتفاق مشرک نہیں ہوگا۔ اس طرح آیت ایسے شخص کے قتل کی مقتضی نہیں ہوگی۔ کیونکہ آیت کا حکم صرف اس شخص کے قتل کے ایجاب تک محدود ہے جو مشرک ہو جبکہ تارک صلوۃ اور مانع زکوٰۃ مشرک نہیں ہوتا۔ اگر یہ لوگ یہ کہیں کہ مشرک سے قتل کا حکم دو شرطوں کی بنیاد پر ٹل جاتا ہے۔ ایک توبہ یعنی ایمان لانا اور اس کی شرائط کو تسلیم کرنا دوسری یہ کہ نماز پڑھنا اور زکوٰۃ ادا کرنا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد (فاقتلوا المشرکینض کے ذریعے بنیادی طور پر مشرکین کے قتل کو واجب کردیا۔ اس لئے جب ایک شخص سے شرک کی علامت دور ہوجائے گی تو قتل کا حکم بھی اس سے ٹل جائے گا۔ اس صورت میں معترض کے لئے ایسے شخص کے قتلے ایجاب پر آیت کے سوا کوئی اور دلالت پیش کرنا ضروری ہوگا۔ اگر معترض یہ کہے کہ آپ کی وضاحت کے نتیجے میں آیت کے اندر بیان کردہ دونوں شرطوں کا ذکر بےفائدہ قرار پائے گا تو اس کے جواب میں کا ہ جائے گا کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرخ معترض نے سوچا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں عبادتوں یعنی اقامت صلوۃ اور ادائے زکوۃ کو مشرکین کے راستے سے ہٹ جانے کے وجوب کی شرط قرار دیا ہے کیونکہ ارشاد ہے (فان تابوا و اقامو الصلوۃ و اتوالزکوۃ فخلو سبیلھم) اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر مشرکین کو گھیر کر قتل کرنے کے حکم کے بعد کیا ہے۔ جب شرک کی علامت زائل ہونے کی بنا پر قتل کا حکم بھی زائل ہوجائے گا تو ترک صلوۃ اور منع زکوۃ کی بنا پر گھیرنے اور قید میں رکھنے کا حکم باقی رہے گا۔ اس لئے کہ جو شخص جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے اور اس پر مصر ہوجائے اسی طرح زکوٰۃ ادا نہ کرے اسے امام المسلمین قید میں ڈا سکتا ہے۔ اس صورت میں اس کی رہائی صرف اس صورت میں واجب ہوگی جب وہ نمازیں پڑھے گا اور زکوٰۃ نکالے گا۔ اس لئے زیربحث آیت مشرک کے قتل اور اسلام لانے کے بعدتارک صلوۃ نیز مانع زکوٰۃ نے حبس کے احکام پر مشتمل ہے تاوقتیکہ موخر الذکر دونوں اشخاص نماز پڑھنا اور زکوٰۃ نکالنا شروع نہ کردیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥) اور جب اشہرحرم پورے ہوجائیں تو اس جماعت کو جس کو صرف پچاس دن کی مہلت دی تھی، حل و حرم میں جہاں ملیں قتل کردو یا ان کو قید کو لو اور مکانوں میں باندھو اور جن رستوں پر سے یہ تجارت کے لیے آتے جاتے ہیں ان موقعوں کی تاک میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر یہ کفر سے توبہ کرلیں اور ایمان باللہ کے قائل ہوجائیں اور پانچ وقتہ نمازیں ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اقرار کرلیں تو ان کو مکانوں سے رہا کر دو کیوں کہ جو ان میں سے توبہ کرے اللہ تعالیٰ اسے معاف کرنے والے ہیں اور جو توبہ پر مرجائے تو اللہ تعالیٰ بڑا مہربان ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ ) یہاں محترم مہینوں سے مراد وہ چار مہینے ہیں جن کی مشرکین کو مہلت دی گئی تھی۔ چار مہینے کی یہ مہلت یا امان غیر میعادی معاہدوں کے لیے تھی ‘ جبکہ میعادی معاہدوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان کی طے شدہ مدت تک پابندی کی جائے۔ لہٰذا جیسے جیسے کسی گروہ کی مدت امان ختم ہوتی جائے گی اس لحاظ سے اس کے خلاف اقدام کیا جائے گا۔ بہر حال جب یہ مہلت اور امان کی مدت گزر جائے : (فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ ج) ان الفاظ میں موجود سختی کو محسوس کرتے ہوئے اس منظر اور ماحول کو ذہن میں لائیے جب یہ آیات بطور اعلان عام پڑھ کر سنائی جا رہی تھیں اور اندازہ کیجیے کہ ان میں سے ایک ایک لفظ اس ماحول میں کس قدر اہم اور پر تاثیر ہوگا۔ اس اجتماع میں مشرکین بھی موجود تھے اور ان کے لیے یہ اعلان اور الٹی میٹم یقیناً بہت بڑی ذلت و رسوائی کا باعث تھا۔ جب یہ چھ آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو قافلہ حج کے پیچھے روانہ کیا اور انہیں تاکید کی کہ حج کے اجتماع میں میرے نمائندے کی حیثیت سے یہ آیات بطور اعلان عام پڑھ کر سنادیں۔ اس لیے کہ عرب کے رواج کے مطابق کسی بڑی شخصیت کی طرف سے اگر کوئی اہم اعلان کرنا مقصود ہوتا تو اس شخصیت کا کوئی قریبی عزیز ہی ایسا اعلان کرتا تھا۔ جب حضرت علی (رض) قافلۂ حج سے جا کر ملے تو قافلہ پڑاؤ پر تھا۔ امیر قافلہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) تھے۔ جونہی حضرت علی (رض) آپ (رض) سے ملے تو آپ (رض) نے پہلا سوال کیا : اَمِیرٌ اَوْ مَاْمُورٌ ؟ یعنی آپ (رض) امیر بنا کر بھیجے گئے ہیں یا مامور ؟ مراد یہ تھی کہ پہلے میری اور آپ (رض) کی حیثیت کا تعین کرلیا جائے۔ اگر آپ (رض) کو امیر بنا کر بھیجا گیا ہے تو میں آپ (رض) کے لیے اپنی جگہ خالی کر دوں اور خود آپ (رض) کے سامنے مامور کی حیثیت سے بیٹھوں۔ اس پر حضرت علی (رض) نے جواب دیا کہ میں مامور ہوں ‘ امیر حج آپ (رض) ہی ہیں ‘ البتہ حج کے اجتماع میں آیات الٰہی پر مشتمل اہم اعلان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے میں کروں گا۔ اس واقعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کی تربیت بہت خوبصورت انداز میں فرمائی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اسی تربیت کے باعث ان (رض) کی جماعتی زندگی انتہائی منظم تھی۔ اور آج مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ یہ دنیا کی انتہائی غیر منظم قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ (فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) یعنی اگر وہ شرک سے تائب ہو کر مسلمان ہوجائیں ‘ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دینا قبول کرلیں تو پھر ان سے مواخذہ نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :6 یہاں حرام مہینوں سے اصطلاحی اشہُر حرُم مراد نہیں ہیں جو حج اور عُمرے کے لیے حرام قرار دیے گئے ہیں ۔ بلکہ اس جگہ وہ چار مہینے مراد ہیں جن کی مشرکین کو مہلت دی گئی تھی ۔ چونکہ اس مہلت کے زمانہ میں مسلمانوں کے لیے جائز نہ تھا کہ مشرکین پر حملہ آور ہوجاتے اس لیے انہیں حرام مہینے فرمایا گیا ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :7 یعنی کفر و شرک سے محض توبہ کر لینے پر معاملہ ختم نہ ہوگا بلکہ انہیں عملًا نماز قائم کرنی اور زکوٰۃ دینی ہوگی ۔ اس کے بغیر یہ نہیں مانا جائے گا کہ انہوں نے کفر چھوڑ کر اسلام اختیار کر لیا ہے ۔ اسی آیت سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فتنہ ارتداد کے زمانہ میں استدلال کیا تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے فتنہ برپا کیا تھا ان میں سے ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم اسلام کے منکر نہیں ہیں ، نماز بھی پڑھنے کے لیے تیار ہیں ، مگر زکوٰۃ نہیں دیں گے ۔ صحابہ کرام کو بالعموم یہ پریشانی لاحق تھی کہ آخر ایسے لوگوں کے خلاف تلوار کیسے اٹھائی جا سکتی ہے؟ مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ہمیں تو ان لوگوں کو چھوڑ دینے کا حکم صرف اس صورت میں دیا گیا تھا جبکہ یہ شرک سے توبہ کریں ، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ، مگر جب یہ تین شرطوں میں سے ایک شرط اُڑائے دیتے ہیں تو پھر انہیں ہم کیسے چھوڑ دیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: یہ تیسری قسم کے مشرکین ہے جنہوں نے بد عہدی کی تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥۔ اس آیت میں اللہ پاک نے حکم دیا کہ جب دسویں ذی الحجہ سے دسویں ربیع الآخر تک چار مہینے گذر جاویں تو خوب دل کھول کر مشرکوں سے لڑو اور جہاں کہیں پاؤ ان کو قتل کرو ظاہر آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانون کو اللہ پاک نے ہر جگہ قتل کا حکم اس آیت میں دیا ہے مگر بعض جگہ ان کو قتل کرنا منع ہے جیسا کہ اللہ پاک سورة بقر میں فرماتا ہے ولا تقاتلوھم عند المسجد الحرام (٢۔ ١٩١) اس آیت کے موافق بیت الحرام میں خونیریزی منع ہے اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت اللہ بن عباس (رض) کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حرم کی حد کے اندر قیامت تک لڑائی حرام ہے فتح مکہ کے دن فقط تھوڑی دیر کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حرم کے اندر لڑائی کی اجازت دی تھی پھر فرمایا کہ ہر جگہ ان کی تاک میں رہو اور ان کو گرفتار کرو اور ان کا محاصرہ کر لو کہ نکلنے نہ پائیں پھر گرفتار کرنے پر خواہ ان کو مار دو یا قید رکھو تمہیں اختیار ہے اور اگر یہ مسلمان ہوجائیں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دیں تو ان کو چھوڑ دو کیونکہ حکم شرع ظاہر پر ہے دل کی بات خدا جانتا ہے اسی آیت سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ بات نکالی ہے کہ جو شخص زکوٰۃ نہ دے اس سے جنگ کرنا چاہئے ابن عمر (رض) سے صحیح بخاری و صحیح مسلم میں روایت ہے کہ ہمیں حکم ہوا ہے کہ ہم لوگوں سے اس وقت تک لڑیں جب تک یہ لوگ کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اِللّٰہ زبان سے نہ کہیں اور نماز نہ پڑھیں اور زکوۃ نہ دیں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جس سے یہ آیت اتری کسی مشرک اور کافر کے لئے کوئی عہد و پیمان نہ رہا جو کچھ قول وقرار پہلے ان سے ہوا تھا وہ سب ٹوٹ گیا اور پہلی کل شرطیں جاتی رہیں اور اللہ نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ جن لوگوں سے پہلے قول وقرار ہوچکا ہے اگر وہ لوگ ایمان نہ لاویں تو ان پر تلواریں نکالو اگر اسلام قبول کریں تو بہتر ورنہ ان کو قتل کرو صحیح بخاری وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان میں ہے کہ مکہ کے گردہ نواح میں جو مشرک قبیلے رہتے تھے انہوں نے یہ بات ٹھہرار کھی تھی کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم قریش پر غالب آجاویں اور مکہ فتح ہوجاوے تو پھر دائرہ اسلام میں داخل ہوجانا چاہئے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اسلام کی ترغیب دلائی تاکہ انہیں یاد آجاوے کہہ جو بات انہوں نے ٹھہرا رکھی تھی وہ پوری ہوگئی مکہ فتح ہوگیا مکہ کے سب بت ٹوٹ پھوٹ کر برابر ہوگئے اب دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بغیر کوئی صورت بہبودی کی نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:5) انسلخ۔ وہ گزر گیا۔ (یعنی حرمت والے مہنے گزر جائیں) نیز ملاحظہ ہو (7:175) احصروہم (باب نصر۔ باب ضرب) ان کو محصور رکھو۔ ان کو قید رکھو۔ ان کو روکے رکھو۔ امر جمع مذکر حاضر۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب حصر سے۔ مرصد۔ واحد۔ مراصد۔ جمع ۔ ظرف مکان۔ گھاٹ کی جگہ ۔ رصد یرصد (نصر) نگاہ رکھنا۔ گھات لگانا۔ واقعدوا لہم کل مرصد۔ ان کی تاک میں ہر گھات کی جگہ بیٹھو۔ فخلوا سبیلہم۔ تو ان کا راستہ چھوڑ دو ۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تخلیۃ (تفعیل) سے مصدر چھوڑ دینا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی وہ چار مہینے ان کی ان مشرکین کو مہلت دی گئی تھی، ابن عباس (رض) نے فرمایا مراد وہی ادب کے مہینے ہیں یعنی رجب، ذوالحج اور محرم کی آخری تایخ تک ان کو مہلت ہے۔ شروع صفر سے ان کے خلاف جنگ ہے۔ ( وحیدی) 1 گھات کی جگہ سے مراد وہ راستہ ہے یا جگہ ہے جہاں سے دشمن کے گزر نے کی تو فیق ہو اور جہاں سے اس پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کرنا ممکن ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان مشرکین سے صرف میدان جنگ میں لڑنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ جس طریقے سے بھی تم ان پر قابو پاکر انہیں قتل کرسکتے ہو ضرور قتل کرو، ( کبیر)2 شاہ صاحب اپنے فوائد میں لکھتے ہیں : جن وہ عدم ٹھہر گیا تھا اور دغا ان سے نہ دیکھی ان کی صلح قائم رہی اور جن سے وعدہ کچھ نہ تھا ان کو فرصت ملی چا رمہینے۔ اور حضرت نے فرمایا دل کی خبر اللہ کو ہے۔ ظاہر میں جو مسلمان ہو وہ سب کے برابر امان میں ہے اور ظاہر مسلمان کی حد ٹھہری ایمان لانا کفر سے توبہ کرنا اور نماز اور زکوٰۃ، اس واسطے جب کوئی شخص نماز چھوڑ دے یا زکوٰۃ، تو پھر اس سے امان اٹھ گئی۔ ( مو ضح) یہی وہ مضمون ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ مجھے حکم ملا ہے کہ اس وقت تک لوگوں سے جنگ کروں جب تک وہ لا لہ الا اللہ محمد الر سول اللہ کی شہادت نہیں دیتے نماز قائم نہیں کرتے اور زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، ( صحیحین بروایت حضرت عمر (رض) اور یہی وہ آیت اور حدیث ہے جس سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان مانعین زکوٰۃ سے جنگ کرتے تھے لیکن زکوٰۃ ادا کرنے سے انکای تھے، حضرت صدیق اکبر استدلال یہ تھا کہ اس آیت اور حدیث میں تعرض نہ کرنے کے لیے تین چیزوں کا بطور شرط ذکر کیا گیا ہے، لوگ شرک وکفر سو تو بہ کریں یعنی لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اب جب یہ لوگ ان تین شرطو میں سے ایک شرط کو پورا کرنے سے انکار کر رہے ہیں تو ان سے جنگ کرنا واجب ہے۔ ( مختصر ازابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی لڑائی میں جو ہوتا ہے سب کی اجازت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جن مشرکوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی ان کو چار مہینے اور جنھوں نے مسلمانوں سے کیے ہوئے عہد کی پاسداری کی ان کو معاہدے کے اختتام تک مہلت دی گئی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدات کرنے والے کفار اور مشرکین کی دو قسمیں تھیں ایک وہ جنھوں نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ کرنے کے باوجود اسے توڑ دیا تھا۔ ان کو چار مہینے کی مہلت دی گئی لیکن جو لوگ آپ سے کیے ہوئے عہد کی پاسداری کر رہے تھے انھیں عہد کے اختتام تک مہلت دی گئی ہے۔ اس لیے انھیں برأتِ عہد سے مستثنٰی قرار دیتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ ان مشرکوں کے ساتھ ابھی برأت کا اعلان نہیں ہے جنھوں نے نہ عہد کی خلاف ورزی کی اور نہ ہی مسلمانوں کے خلاف کسی کے ساتھ تعاون کیا۔ ان کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی مکمل طور پر پاسداری ہونی چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ متقین کو پسند کرتا ہے یہاں تقویٰ سے پہلی مراد عہد شکنی سے بچنا ہے جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو پھر مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور ان کو ہر کمین گاہ سے گرفتار کرلو اور ان کے لیے پوری طرح مورچہ بندی کرو۔ اگر یہ ایمان لے آئیں اور اس کے ثبوت میں نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو پھر ان کا راستہ چھوڑ دو کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا انتہائی مہربان ہے۔ گیارہویں آیت میں فرمایا کہ اگر توبہ کرکے نماز اور زکوٰۃ ادا کریں تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں یہاں صرف نماز، زکوٰۃ کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ نماز بدنی عبادات کی ترجمان ہے۔ جس میں روزہ اور حج بھی شامل ہیں اور زکوٰۃ مالی عبادات کا سرچشمہ ہے جس میں صدقہ و خیرات، حقوق العباد شامل ہیں۔ یاد رہے کہ مشرکین کو ہر مقام پر قتل کرنے کا حکم حالت جنگ میں ہے۔ عام حالات میں کسی مشرک یا کافر کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ (عَنْ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوا أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ وَیُقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاءَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُہُمْ عَلٰی اللّٰہِ ) [ رواہ بخاری : کتاب الایمان، باب فان کان تابوا ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں۔ جب انہوں نے یہ کام کرلیے تو انہوں نے مجھ سے اپنا خون اور مال بچا لیا سوائے اسلام کے حق کے اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔ “ (اسلام کے حقوق سے مراد حدود اللہ کا نفاذ ہے ) مسائل ١۔ عہد کی پاسداری کرنے والوں کے ساتھ عہد کا احترام کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ متقین کو پسند کرتا ہے۔ ٣۔ کفر و شرک سے توبہ کرنے کے بعد نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی توبہ کرنے کی نشانی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا انتہائی مہربان ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب یہا بتایا جاتا ہے کہ مسلمان اس مدت کے اختتام پر کیا اقدامات کریں گے ؟ یہاں لفظ الاشہر الحرام (حرام مہینے) کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں کہ ان سے مراد کون سے مہینے ہیں ؟ عام مشہور حرام مہینے ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور پھر رجب تو پھر چار مہینوں سے مراد تین ماہ اور ذوالحجہ کے باقی بیس دن ہوں گے۔ یہ پچاس دن ہوئے ، یعنی اعلان کے بعد یا اس سے مراد مردت چار ماہ ہے اور اس کا آغاز دس ذوالحجہ سے ہے اور اختتام دس ربیع الاخر تک ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ پہلی مدت ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے عہد توڑا اور دوسری مدت ان لوگوں کے لیے جن کے ساتھ اس سے قبل کوئی معاہدہ ہی نہ تھا۔ یہ ہیں مختلف اقوال۔ میرے نزدیک یہاں جن چار مہینوں کا تذکرہ ہوا ہے اس سے اصطلاحی اشہر حرم مراد نہیں ہیں اور ان چار مہینوں کو اشہر حرم (محترم مہینے) اس لیے کہا گیا ہے کہ ان میں قتل و مقاتلہ حرام قرار دے دیا گیا تھا تاکہ اس عرصے میں مشرکین چل پھر سکیں۔ یہ عام میعاد تھی۔ البتہ جن لوگوں کے معاہدوں میں مدت مقرر تھی اور ان کے لیے مدت تک مہلت دے دی گئی تھی۔۔ چونکہ اللہ نے ان کو چار مہینے آزادی کا اختیار دے دیا تھا۔ اس لیے اس مدت کا آغاز اس کے اعلان سے ہونا چاہیے اور جس نوعیت کا یہ اعلامیہ تھا اس کی نسبت سے یہی راجح ہے کہ اس مدت کا آغاز روز اعلان سے چار ماہ تصور کیا جائے۔ اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس مدت کے خاتمے کے بعد جہاں بھی مشرک ملے ، اسے قتل کردیں یا قید کردیں اور ہر راہ اور گھات پر بیٹھ جائیں تاکہ ان میں سے کوئی بھاگ کر نکلنے نہ پائے ، ماسوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں استثناء وارد ہے۔ اور وہ اس کے سوا کوئی دوسرا سلوک ان کے ساتھ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ مشرکین کو ایک عرصہ تک انجام بد سے ڈرایا گیا اور انہیں مہلت دی گئی۔ اس لیے ان کے خلاف یہ ایکشن نہ اچانک ہے اور نہ ہی غیر منصفانہ ہے۔ جبکہ ان کے ساتھ طے شدہ معاہدے ختم کردیے گئے ہیں۔ اب ان کے لیے کوئی بات غیر متوقع نہیں ہے۔ بہرحال مشرکین کے خلاف یہ ایکشن اس غرض کے لیے نہ تھا کہ ان کو نییست و نابود کردیا جائے بلکہ اس لیے تھا کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: " پس اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو ۔ اللہ در گزر فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے " اس سے قبل ان کے ساتھ تحریک اسلامی کے 12 سال گزرے تھے اور اس عرصے میں دعوت و تبلیغ کا حق ادا کردیا گیا تھا۔ اس عرصے میں انہوں نے مسلمانوں کو بےپناہ اذیتیں پہنچائیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف لشکر کشیاں کیں اور ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوششیں کیں۔ پھر دین اسلام نے ان کے ساتھ جس قدر نرم رویہ اختیار کیا (اللہ کے رسول نے ان کے ساتھ جس قدر شریفانہ سلوک کیا وہ ایک طویل تاریخ ہے۔ اس کے باوجود اسلام کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو جن کی اذیت دی گئی ، جن کے ساتھ جنگ کی گئی اور جن کو ملک سے نکالا گیا اور قتل کیا گیا ایسے مسلمانوں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ اگر یہ مشرکین توبہ کرلیں تو ان سے ہاتھ کھینچ لو اگر وہ سچے دل سے اسلام کو قبول کرلیں اور اسلامی شعائر کو قبول کرلیں۔ جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہو کہ وہ سچے دل سے مسلمان ہوگئے ہیں اس لیے کہ اللہ کسی بھی ایسے شخص کو مایوس نہیں کرتا جو سچی توبہ کرکے لوٹ آتا ہے۔ ان اللہ غفور رحیم " بیشک اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے " اس آیت کے بارے میں فقہاء کے درمیان جو فقہی مباحث چلے ہیں ، ہم ان سے کوئی تعرض نہیں کرتے یعنی فان تابوا و اقاموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ " یعنی اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں " فقہاء نے یہ بحثیں کی ہیں کہ آیا ادائے نماز اور ادائے زکوۃ شروط اسلام میں سے ہیں یا ان کے تارک کو کافر کہا جائے گا ؟ اور کب وہ کافر ہوگا ؟ اور کیا نماز اور زکوۃ ہی کو علامت توبہ سمجھا جائے گا یا دوسرے ارکان اسلام کا مطالبہ بھی ان سے کیا جائے گا میں سمجھتا ہوں کہ ان سوالات میں سے کسی سوال کے حل کے لیے یہ آیت نازل ہی نہیں ہوئی ہے۔ یہ نص اس وقت مشرکین عرب کے واقعی حالات کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور اس وقت یہ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی توبہ کرے تو صرف نماز اور زکوۃ پر عمل پیرا ہو اور دوسرے اعمال کو نظر انداز کردے ، جو توبہ کرتا تھا وہ پورے اسلام میں داخل ہوتا تھا بلکہ اس آیت نے اگرچہ ان دو باتوں کا ذکر کیا ہے لیکن یہ اس لیے کہ اسوقت جو لوگ اسلام میں داخل ہوتے تھے وہ اسلام کی تمام شرائط کے ساتھ اس میں داخل ہوتے تھے۔ اور ان میں سے پہلی شرط یہ ہوتی کہ وہ پوری زندگی میں اللہ کا دین نافذ کریں گے۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لے آئیں۔۔۔ لہذا فقہاء اور مفسرین نے جو بحثیں کی ہیں۔ اس آیت کے وہ پیش نظر نہ تھیں بلکہ یہ ایک عملی کارروائی کے سلسلے میں ہدایت تھی۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ چار ماہ کی مدت کے بعد بھی اسلام رواداری ، سنجیدگی اور واقعیت پسندی کا دامن نہیں چھوڑتا ، جیسا کہ ہم نے کہا اسلام کی یہ جنگ نسل کشی کے لیے نہیں ہے ، بلکہ وہ ہدایت کی ایک مہم ہے۔ وہ مشرکین جو جاہلی سوسائٹی کی صورت میں جتھ بند نہیں ہیں ، افراد کی شکل میں ہیں ، اور وہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے ، ان کے لیے دار الاسلام میں مکمل امن وامان کے حقوق محفوظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ اور مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں کہ آپ ان کو پناہ دیں اور وہ اللہ کے کلام کو سنیں اور سمجھیں اور پھر ان کو ایسے علاقے میں پہنچا دیں جہاں وہ امن سے ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

٩ (فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ ) (الآیۃ) حضرت مجاہد اور ابن اسحاق نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں جن أشہر الحرام کا ذکر ہے ان سے وہی مہینے مراد ہیں جن کا شروع سورت میں ذکر آیا ہے جن لوگوں کے ساتھ کوئی معاہدہ بلا تعیین مدت کا تھا اور جن سے کوئی عہد نہ تھا ان کو چار ماہ کی مہلت دی گئی اور جنہوں نے نقض عہد کیا تھا یعنی قریش مکہ ان کو چار ماہ کی مدت میں سے بیس دن ذی الحجہ کے اور پورا مہینہ محرم کا گزر جانے تک کی مہلت دی گئی۔ صاحب معالم التنزیل نے یہ بات لکھی ہے اور علامہ نسفی نے بھی مدارک التنزیل میں ایسا ہی فرمایا ہے صاحب روح المعانی نے بھی یوں ہی لکھا ہے کہ اشہر الحرام سے وہ مہینے مراد نہیں ہیں جو عرب میں معروف و مشہور تھے (یعنی ذیقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب ١ ؂) اور یہ اس لیے فرمایا کہ جس وقت برأت کا اعلان ہوا تھا ان میں سے صرف بیس دن ذی الحجہ کے اور ایک مہینہ محرم کا باقی رہ گیا تھا اور رجب تک پہنچنے کے لیے بیچ میں پانچ مہینے کا فصل تھا اگر ان پانچ مہینوں کو بھی حساب میں لگا دیا جائے تو میعاد لمبی ہوجاتی حالانکہ چار مہینوں سے زیادہ کسی کو مہلت نہیں دی گئی۔ آیت کریمہ میں یہ فرمایا کہ جب اشہر الحرام نکل جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں بھی پاؤ ان کو پکڑو اور انہیں روک لو۔ روکنے کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ان کو قلعہ بند کر دو ، باہر نکلنے سے روک دو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ میں بیٹھ جاؤ یعنی مکہ کے راستوں میں بیٹھو، مشرکین کو اس میں داخل نہ ہونے دو ۔ (فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ ) یعنی اگر وہ شرک سے توبہ کرلیں اور اسلام قبول کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ۔ ان پر چلنے پھرنے کی اور مکہ معظمہ میں داخل ہونے پر کوئی پابندی نہیں۔ (اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) (بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے) جب اسلام قبول کرلیا تو زمانہ کفر میں جو کچھ کیا تھا سب ختم ہے اس پر دارو گیر نہیں۔ وَاحْصُرُوْ ھُمْ سے دشمنوں کا محاصرہ کرنے کا جواز معلوم ہوا اور (وَ اقْعُدُوْا لَھُمْ ) سے معلوم ہوا کہ دشمنوں سے حفاظت کے لیے ان سے چوکنا رہنے کے لیے اپنے ملکوں اور شہروں میں چوکیاں مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ ابوبکر جصاص احکام القرآن (ص ٨٣ ج ٣) میں لکھتے ہیں کہ (فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فََخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ ) سے معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص شرک و کفر سے توبہ کرے تو اسے قتل نہ کیا جائے۔ البتہ حصر اور حبس کا حکم باقی رہے گا۔ جو شخص قصداً نماز چھوڑے اور اس پر اصرار کرے اور زکوٰۃ نہ دے امام المسلمین کے لیے جائز ہے کہ اسے محبوس رکھے۔ اس کا چھوڑ دینا اس وقت تک واجب نہیں جب تک کہ وہ نماز نہ پڑھے اور زکوٰۃ نہ دے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5: یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم گذر جائیں تو مشرکین جہاں کہیں ملیں ان کو قتل کر ڈالو یا انہیں پکڑ کر محصور کرلو اور انہیں پکڑنے کے ہر مناسب کمین گاہ میں چھپ کر بیٹھ جاؤ۔ “ فَاِنْ تَابُوْا الخ ” مشرکین اگر گرفتار یا محصور ہونے کے بعد کفر و شرک سے توبہ کرلیں اور ایمان لا کر احکام اسلام کی بجا آوری کا عہد کرلیں تو انہیں رہا کردو۔ “ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ” جو شخص شرک و کفر توبہ کر کے سچے دل سے اسلام قبول کرلے اللہ تعالیٰ اس پر رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور اس کے گذشتہ گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ یعنی “ لمن تاب و رجع من الشرک الی الایمان ومن المعصیة الی الطاعة ” (خازن ج 3 ص 51) “ یغفر لھم ما قد سلف و یثیبھم بایمانھم و طاعتھم ” (روح ج 10 ص 52) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

5 پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو پھر ان مشرکوں کو جہاں پائو قتل کرو اور ان کو گرفتار کرو اور ان کو بند کرو اور گھیرو اور ہر کمین گاہ پر ان کی تاک کے لئے بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے کوئی عہد نہیں تھا یا انہوں نے عہد کرکے نقض عہد کیا اور بنی بکر سے خزاء پر حملہ کرایا مارنا، گھیرنا، تاک میں بیٹھنا غرض ! لڑائی میں جو کچھ ہوتا ہے اس سب کے کرنے کا حکم دیا گیا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جن سے وعدہ ٹھہر گیا تھا اور دغا ان سے نہ دیکھی ان کی صلح قائم رہی اور جن سے وعدہ کچھ نہ تھا ان کو فرصت ملی چار مہینے اور حضرت نے فرمایا دل کی خبر اللہ کو ہے ظاہر میں جو مسلمان ہو وہ سب کے برابر امان میں ہے اور ظاہر مسلمانی کی حد ٹھہرائی ایمان لانا کفر سے توبہ اور نماز اور زکوٰۃ اسی واسطے جب شخص نماز چھوڑ دے یا زکوٰۃ پھر اس سے امان اٹھ گئی۔ حضرت صدیق (رض) نے زکوٰۃ کے منکروں کو برابر کافروں کے قتل فرمایا۔