Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 51

سورة التوبة

قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوۡلٰىنَا ۚ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۵۱﴾

Say, "Never will we be struck except by what Allah has decreed for us; He is our protector." And upon Allah let the believers rely.

آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں سوائے اللہ کے ہمارے حق میں لکھے ہوئے کوئی چیز پہنچ ہی نہیں سکتی وہ ہمارا کارساز اور مولیٰ ہے ، مومنوں کوتواللہ تعالٰی کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُل ... Say, (to them), ... لَّن يُصِيبَنَا إِلاَّ مَا كَتَبَ اللّهُ لَنَا ... Nothing shall ever happen to us except what Allah has ordained for us. for we are under His control and decree, ... هُوَ مَوْلاَنَا ... He is our Mawla, Master and protector, ... وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُوْمِنُونَ And in Allah let the believers put their trust. and we trust in Him. Verily, He is sufficient for us and what an excellent guardian.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 یہ منافقین کے جواب میں مسلمانوں کے صبر و ثبات اور حوصلے کے لئے فرمایا جا رہا ہے کیونکہ جب انسان کو یہ معلوم ہو کہ اللہ کی طرف سے مقدر کا ہر صورت میں ہونا ہے اور جو بھی مصیبت یا بھلائی ہمیں پہنچتی ہے اسی تقدیر الٰہی کا حصہ ہے، تو انسان کے لئے مصیبت کا برداشت کرنا آسان اور اس کے حوصلے میں اضافے کا سبب ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٥] مومن اور کافر یا منافق کی خصلت کا فرق :۔ اس آیت میں مومنوں اور منافقوں کے نظریاتی اختلاف کو بیان کیا گیا ہے۔ منافق جو کچھ بھی کرتا ہے اسے صرف اپنا دنیوی مفاد ملحوظ ہوتا ہے۔ پھر اگر اسے کامیابی ہو تو اترانے لگتا ہے اور خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور اگر ناکامی ہو تو مایوس ہو کر رہ جاتا ہے جبکہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے دین کی سربلندی اور اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے اگر کامیابی ہو تو اللہ کی مہربانی سمجھتا ہے اور اس کا شکر ادا کرتا ہے مگر اتراتا نہیں اور ناکامی ہو تو وہ بھی اسے مایوس نہیں کرتی اور وہ اسے اللہ ہی کی طرف سے سمجھتا ہے کیونکہ اسباب کو اختیار کرنا مومن کا کام ہے اور اس کے اچھے یا برے نتائج پیدا کرنا اللہ کا کام ہے۔ لہذا وہ ہر حال میں اللہ ہی بھروسہ رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا : یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان و یقین کی برکت کا ذکر ہے، سچ ہے : ” مَنْ عَلِمَ سِرَّ اللّٰہِ فِی الْقَدَرِ ھَانَتْ عَلَیْہِ الْمَصَاءِبُ “ ” جس نے قضا و قدر میں اللہ تعالیٰ کے راز کو پا لیا اس پر مصیبتیں آسان ہوجاتی ہیں۔ “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” کوئی مصیبت نہ زمین میں پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں، یقیناً یہ اللہ پر بہت آسان ہے، تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمہیں عطا فرمائے۔ “ [ الحدید : ٢٢، ٢٣ ] هُوَ مَوْلٰىنَا : وہی ہمارا مالک، مددگار اور حمایتی ہے۔ ہم اپنے مالک پر خوش ہیں اور ایمان والوں کو تو بس اللہ ہی پر بھروسا رکھنا لازم ہے، نہ دنیا کے سازوسامان پر اور نہ اس کے سوا کسی اور ذات پر۔ ” وَعَلَي اللّٰهِ “ کے پہلے آنے سے حصر کا مفہوم پیدا ہوگیا اور ” فَلْيَتَوَكَّلِ “ میں فاء کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان منافقین کے رویے سے پیدا ہونے والی بددلی کا علاج چاہتے ہیں تو ایمان والوں کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ صرف اللہ پر بھروسا رکھیں اور اس کے سوا کسی کی پروا نہ کریں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the ninth verse (51), Allah Ta` ala has instructed the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and Muslims, that they should not allow themselves to be affected by things like that said by the hypocrites and that they must always keep reality as it is before them. The words of the Holy Qur&an are:. قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿٥١﴾ (Say, |"Nothing , can ever reach us except what Allah has written for us. He is our Mas¬ter. And in Allah alone the believers must place their trust|" ). In other words, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is being asked that he should tell those, who worship material causes such as these, that they were in a serious deception. These material causes were no more than a curtain. The power that moves inside them belongs to none but Allah. Whatev¬er happens to us is exactly whatever Allah has written for us - and He, is our Master, Guardian and Helper. And Muslims must place their real trust in Him alone. Consequently, they must see material causes as no more than effective agents and signs while never taking them to be the real dispensers of any good or evil. Belief in Destiny includes Management of affairs: Giving Inaction or Mismanagement the name of Trust is Wrong This verse (51) brings into sharp focus the essential reality of the re¬ligious issue of Taqdir (destiny) and Tawakkul (trust). The outcome of believing in Taqdir and Tawakkul should never be that one goes home, sits tight, does nothing and says what will be will be. This is no belief in destiny and this is no practice of trust. Instead, the thing to do is that one should devote full personal energy and courage to put togeth¬er whatever lawful material means one can arrange for - within the range of what lies in control. After this has been done, the matter should be resigned to destiny and trust. However, the caveat is that one has to keep his or her sight trained toward Allah alone - for it is He who has the ultimate outcome of everything one does under His ab¬solute power and control. Speaking generally, people around the world are found in great confusion about the religious problem of Taqdir and Tawakkul. Some of them are plain irreligious. They just do not recognize the very possi¬bility that something like that exists. They are content with material means as the deity they are comfortable with. Then, there are other people who lack proper awareness. They have turned destiny and trust into a pretext for their sloth and inertia. The Prophet of Islam, may the blessing of Allah and peace be upon him, made full preparation for Jihad, after which, the revelation of this verse put an end to this cycle of excess and deficiency and showed the right way - as put in the live¬ly Persian saying: بر توکل زانوے اشتربہ بند (With Tawakkul [ trust ], do tie the knees of the camel). To sum up, means which you have the option to utilize, are nothing but blessings given by Allah Ta` ala. Not taking ad-vantage of these means is ingratitude, even stupidity. Of course, do not give means the status they do not have and believe that results and outcomes are not subservient to these means - instead of all that, they obey the command of Allah Almighty.

آٹھویں آیت میں حق تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو منافقین کے مذکورہ اقوال سے متاثر نہ ہونے اور اصل حقیقت کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ہدایت ان الفاظ میں دی : (آیت) قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا ۚ هُوَ مَوْلٰىنَا ۚ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی آپ ان مادی اسباب کی پرستش کرنے والوں کو بتلا دیجیئے کہ تم دھوکہ میں ہو یہ مادی اسباب محض ایک پردہ ہیں، ان کے اندر کام کرنے والی قوت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، ہمیں جو حال پیش آتا ہے وہ سب وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے، اور وہی ہمارا مولیٰ اور مددگار ہے، اور مسلمانوں کو چاہئے کہ اسی پر اصل بھروسہ رکھیں، مادی اسباب کو صرف اسباب و علامات ہی کی حیثیت سے دیکھیں، ان پر کسی بھلائی یا برائی کا مدار نہ جانیں۔ اعتقاد تقدیر استعمال تدبیر کے ساتھ ہونا چاہئے بےتدبیری کا نام توکل رکھنا غلط ہے : اس آیت نے مسئلہ توکل کی اصل حقیقت بھی واضح کردی، کہ تقدیر و توکل پر یقین رکھنے کا یہ حاصل نہ ہونا چاہئے، کہ آدمی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے، اور یہ کہے کہ جو کچھ قسمت میں ہوگا وہ ہوجائے گا بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ اسباب اختیاریہ کے لئے اپنی پوری توانائی اور ہمت صرف کی جائے اور سجد قدرت اسباب جمع کرنے کے بعد معاملہ کو تقدیر و توکل کے حوالہ کریں، نظر صرف اللہ تعالیٰ پر رکھیں کہ نتائج ہر کام کے اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ مسئلہ تقدیر و توکل میں عام دنیا کے لوگ بڑی افراتفری میں پائے جاتے ہیں، کچھ بےدین لوگ تو وہ ہیں جو سرے سے تقدیر و توکل کے قائل ہی نہیں انہوں نے مادی اسباب ہی کو خدا بنایا ہوا ہے، اور کچھ ناواقف ایسے بھی ہیں جنہوں نے تقدیر و توکل کو اپنی کم ہمتی اور بیکاری کا بہانہ بنا لیا ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جہاد کے لئے پوری پوری تیاری اور اس کے بعد اس آیت کے نزول نے اس افراط وتفریط کو ختم کرکے صحیح راہ دکھلا دی |" بر توکل زانوئے اشتر بہ بند |"۔ یعنی اسباب اختیاریہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی دی ہوئی نعمت ہیں، ان سے فائدہ نہ اٹھانا ناشکری اور بیوقوفی ہے، البتہ اسباب کو اساب کے درجہ سے آگے نہ بڑھاؤ اور عقیدہ یہ رکھو کہ نتائج وثمرات ان اسباب کے تابع نہیں، بلکہ فرمان حق جل شانہ کے تابع ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللہُ لَنَا۝ ٠ ۚ ہُوَمَوْلٰىنَا۝ ٠ ۚ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝ ٥١ كتب ( لکھنا) الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] . ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔ ولي والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (قل لن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا ھو مولنا۔ ان سے کہو ” ہمیں ہرگز کوئی برائی یا بھلائی نہیں چنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے) حسن سے مروی ہے کہ جو برائی یا بھلائی ہمیں پہنچتی ہے یہ لوح محفوظ میں اللہ کی طرف سے لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ “ اس بارے میں کافروں کا یہ تو ہم غلط ہے کہ ہمیں اپنی کوتاہی اور غفلت کی بنا پر برائی پہنچتی ہے اور اس کا ہمارے رب کی تدبیر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ایک قول کے مطابق اس کی تفسیر یہ ہے کہ انجام کار ہمیں وہی نصیب ہوگا جس کا وعدہ اللہ نے کررکھا ہے یعنی اس کی مدد اور نصرت۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥١) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان منافقین سے فرمادیجیے کہ ہم کو جو اللہ نے ہمارے لیے مقدر فرمادیا ہے وہی حادثہ پیش آتا ہے وہی ہمارا مالک ہے اور مومنوں کو تو اپنے سب کام اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد رکھنے چاہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلاَّ مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَاج ہُوَ مَوْلٰٹنَا ج) ہم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ اللہ ہی کی مرضی اور اجازت سے آتی ہے۔ اس کے اذن کے بغیر کائنات میں ایک پتابھی نہیں ہل سکتا۔ وہ ہمارا کارساز اور پروردگار ہے۔ اگر اس کی مشیت ہو کہ ہمیں کوئی تکلیف آئے تو سر آنکھوں پر ع سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔ جو اس کی رضا ہو ہم بھی اسی پر راضی ہیں۔ اگر اس کی طرف سے کوئی تکلیف آجائے تو اس میں بھی ہمارے لیے خیر ہے ع ہرچہ ساقئما ریخت عین الطاف است (ہمارا ساقی ہمارے پیالے میں جو بھی ڈال دے اس کا لطف وکرم ہی ہے) ۔ محبوب کی شمشیر سے ذبح ہونا یقیناً بہت بڑے اعزاز کی بات ہے اور یہ اعزاز کسی غیر کے نصیب میں کیوں ہو ‘ جبکہ ہماری گردنیں ہر وقت اس سعادت کے لیے حاضر ہیں : ؂ نہ شود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت سردوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :51 ”یہاں دنیا پرست اور خدا پرست کی ذہنیت کے فرق کو واضح کیا گیا ہے ۔ دنیا پرست جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کے نفس کی خوشی بعض دنیوی مقاصد کے حصول پر منحصر ہوتی ہے ۔ یہ مقاصد اسے حاصل ہو جائیں تو وہ پھول جاتا ہے اور حاصل نہ ہوں تو اس پر مردنی چھا جاتی ہے ۔ پھر اس کا سہارا تمام تر مادی اسباب پر ہوتا ہے ۔ وہ سازگار ہوں تو اس کا دل بڑھنے لگتا ہے اور ناسازگار ہوتے نظر آئیں تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے ۔ بخلاف اس کے خدا پرست انسان جو کچھ کرتا ہے اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کام میں اس کا بھروسہ اپنی قوت یا مادی اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہوتا ہے ۔ راہ حق میں کام کرتے ہوئے اس پر مصائب نازل ہوں یا کامرانیوں کی بارش ہو ، دونوں صورتوں میں وہ یہی سمجھتا ہے کہ جو کچھ اللہ کی مرضی ہے وہ پوری ہو رہی ہے ۔ مصائب اس کا دل نہیں توڑ سکتے اور کامیابیاں اس کو اتراہٹ میں مبتلا نہیں کر سکتیں ۔ کیونکہ اول تو دونوں کو وہ اپنے حق میں خدا کی طرف سے سمجھتا ہے اور اسے ہر حال میں یہ فکر ہوتی ہے کہ خدا کی ڈالی ہوئی اس آزمائش سے بخیریت گذر جائے ۔ دوسرے اس کے پیش نظر دنیوی مقاصد نہیں ہوتے کہ ان کے لحاظ سے وہ اپنی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ کر ے ۔ اس کے سامنے تو رضائے الہٰی کا مقصد وحید ہوتا ہے اور اس مقصد سے اس کے قریب یا دور ہونے کا پیمانہ کسی دنیوی کامیابی کا حصول یا عدم حصول نہیں ہے بلکہ صرف یہ امر ہے کہ راہ خدا میں جان و مال کی بازی لگانے کا جو فرض اس پر عائد ہوتا تھا اسے اس نے کہاں تک انجام دیا ۔ اگر یہ فرض اس نے ادا کر دیا ہو تو خواہ دنیا میں اس کی بازی بالکل ہی ہر گئی ہو لیکن اسے پورا بھروسا رہتا ہے کہ جس خدا کے لیے اس نے مال کھپایا اور جان دی ہے وہ اس کے اجر کو ضائع کرنے والا نہیں ہے ۔ پھر دنیوی اسباب سے وہ آس ہی نہیں لگاتا کہ ان کی سازگار حالات میں بھی اسی عزم و ہمت کے ساتھ کام کیے جاتا ہے جس کا اظہار اہل دنیا سے صرف سازگار حالات ہی میں ہوا کرتا ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ ان دنیا پرست منافقین سے کہہ دو کہ ہمارا معاملہ تمہارے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے ۔ تمہاری خوشی و رنج کے قوانین کچھ اور ہیں اور ہمارے کچھ اور تم اطمینان اور بے اطمینانی کسی اور ماخذ سے لیتے ہو اور ہم کسی اور ماخذ سے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 سچ ہے : من علم سر اللہ فی القدر ھانت علیہ المصائب کہ جس نے قصا و قدر میں سرالہیٰ کو پا لیا اور اس پر مصائب آسان ہوجاتے ہیں۔ پس انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر راضی رہے تاکہ اجرو ثوب کا مستحق ہو۔ ( کبیر)14 کام بنانے والا اور حماتی ،۔ وہ جیسے چاہے عالم میں تصرف کرے ( کبیر ) 15 نہ دنیا کے سازوسامان اور نہ دنیا کے کسی شخص پر۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ مالک اور حاکم ہیں حاکم ہونے کی حثییت سے ان کو ہر تصرف کا اختیار ہے اس لیے ہم راضی ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور اللہ نے تو مومنین کے حق میں فتح لکھ دی ہے اور ان کے ساتھ آخری فتح کا وعدہ بھی کر رکھا ہے۔ ان کو چاہئے جس قدر مشکلات بھی پیش آئیں ، وہ عظیم ابتلاؤں کے ساتھ دوچار کیوں نہ ہوں ، آخر کار ان کو فتح نصیب ہوگی اور یہ مشکلات اس فتح کی تمہید ہیں تاکہ مسلمانوں کو جب فتح نصیب ہو تو نظر آئے کہ وہ اس کے مستحق ہیں۔ اور یہ کہ وہ ان کی صفوں کو چھان کر صاف کردیا جائے اور یہ فتح و نصرت ، دنیاوی ذرائع اور وسائل کے اندر ہو اور مشکلات کے بعد ہو تاکہ مسلمان اس قدر و منزلت کا احساس کریں ، اور یہ فتح بلند ہمت لوگوں کی عظی قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہو۔ ابتلاؤں کے بعد حاصل ہو اور لوگوں نے اس کے لیے قربانیاں دی ہوں۔ اور حقیقی و ناصر چونکہ اللہ ہی ہے اس لیے مسلمان ہمیشہ اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ، اپنی قربانیوں پر نہیں کرتے۔ علی اللہ فلیتوکل المومنون۔ لیکن اللہ کی تقدیر پر ایمان اور اللہ پر بھروسہ اس بات کے منافی نہیں ہیں کہ کوئی کسی کام کے لیے تیاری کرے اور ضروری وسائل جمع کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد کے بارے میں اللہ کا صریح حکم ہے کہ و اعدوا لہم ماستطعتم من قوۃ کہ تیار رکھو دشمنوں کے لیے اس قدر قوت جو تمہاری استطاعت کے اندر ہو۔ اور جو شخص اللہ کے احکام کو نافذ نہ کرے گا ، اس کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ متوکل ہے۔ پر توکل باز و استر بیند اور جو شخص حکم الہی کے مطابق اسباب مہیا نہیں کرتا وہ سنت الہی کے ادراک سے قاصر ہے جو اس کائنات میں جاری وساری ہے۔ یہ سنت اٹل ہے اور وہ کسی کی رو رعایت نہیں کرتی۔ مومن پر تو ہر حال میں وارے نیارے ہیں ، اگر اسے فتح ملے تو بھی کامیاب شہادت ملے تو بھی کامیاب۔ رہا کافر تو وہ ہر طرح ناکام ہے۔ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں دنیا ہی میں عذاب پا لے اور جہنم رسید ہو تو بھی ناکام اور طبعی موت مرنے کے بعد جہنم رسید ہو تو بھی ناکام۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا) یعنی آپ ان سے فرما دیجیے کہ ہمیں وہی حالت پیش آئے گی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر فرما دی ہے۔ خوشحالی خوبی اور بہتری ہو یا کسی قسم کا کوئی حادثہ ہوجائے یا دکھ تکلیف سے دو چار ہوجائیں یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے مقرر اور مقدر ہے۔ (ھُوَ مَوْلٰنَا) اللہ وہ ہمارا مددگار ہے ہمارا ولی ہے ہم اس کی قضاء اور قدر پر راضی ہیں۔ سب کچھ اسی کی طرف سے ہے۔ اور ہماری ہر حالت میں اس نے خیر رکھی ہے۔ فتح و ظفر ہوجائے۔ مال غنیمت مل جائے تو یہ بھی خیر ہے اگر تکلیف پہنچ جائے تو اجر وثواب کے اعتبار سے وہ بھی خیر ہے اور ہم میں سے جو لوگ جام شہادت نوش کرتے ہیں یہ بھی خیر ہے۔ (وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ) اور مومنین ہمیشہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں اپنے سارے امور اللہ ہی کے سپرد کریں اور اسی سے خیر و خوبی اور خوشحالی کی امید رکھیں۔ مومنین کا بھروسہ صرف اللہ پر ہے۔ وہ اسباب بھی اختیار کرلیتے ہیں لیکن بھروسہ اسباب پر اور ہتھیاروں پر اور اپنی قوت اور طاقت پر نہیں کرتے۔ اسباب کو اختیار کرنا تقدیر اور تو کل کے خلاف نہیں۔ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو کل بھی سکھایا اور اسباب بھی اختیار فرمائے اور اسباب اختیار کرنے کا حکم بھی دیا آپ نے جو فرمایا اور جو کر کے دکھایا اہل ایمان اسی کو اختیار کرتے ہیں نہ ترک اسباب کریں اور نہ اسباب پر بھروسہ رکھیں۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں بأن یفوضوا الامر الیہ سبحانہ و لا ینافی ذلک التشبث بالاسباب العادیۃ اذا لم یعتمد علیھا (اس طرح کہ معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد کردیں اور معروف اسباب اختیار کرنا اس کے منافی نہیں ہے جب کہ اسباب پر بھروسہ نہ ہو) (ص ١١٥ ج ١٠)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50: آپ فرما دیں خیر و شر اللہ کی طرف سے مقدر ہے اور وہی ہمارا کارساز اور مالک و مختار ہے اور جو اس نے ہمار قسمت میں لکھا ہے وہ ضرور ہو کر رہے گا اور ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے اور مومن کی شان ہے کہ وہ اللہ پر ہی بھروسہ رکھیں “ و حق المؤمنین ان لا یتوکلوا علی غیر اللہ ” (مدارک ص 99 ج 2) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

51 آپ فرما دیجئے کہ ہم پر ہرگز کوئی مصیبت نہیں آسکتی اور ہم کو کوئی حادثہ پیش نہیں آتا مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے اور ہمارے لئے مقرر کردیا ہے وہی ہمارا مالک اور آقا و مولا ہے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ بس اللہ ہی پر بھروسہ رکھا کریں۔