Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 59

سورة التوبة

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ رَضُوۡا مَاۤ اٰتٰىہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۙ وَ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ سَیُؤۡتِیۡنَا اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ رَسُوۡلُہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوۡنَ ﴿٪۵۹﴾  13

If only they had been satisfied with what Allah and His Messenger gave them and said, "Sufficient for us is Allah ; Allah will give us of His bounty, and [so will] His Messenger; indeed, we are desirous toward Allah ," [it would have been better for them].

اگر یہ لوگ اللہ اور رسول کے دیئے ہوئے پر خوش رہتے اور کہہ دیتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے اللہ ہمیں اپنے فضل سے دے گا اور اس کا رسول بھی ہم تو اللہ کی ذات سے ہی توقع رکھنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Would that they were content with what Allah and His Messenger gave them and had said: "Allah is sufficient for us. Allah will give us of His bounty, and so will His Messenger (from alms). We implore Allah (to enrich us)." This honorable Ayah contains a gracious type of conduct and an honorable secret. Allah listed; contentment with what He and His Messenger give, trusting in Allah alone -- by saying; وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ (and they had said: Allah is sufficient for us), and hoping in Allah alone, and He made these the indications of obedience to the Messenger, adhering to his commands, avoiding his prohibitions, believing his narrations and following his footsteps.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٤] یعنی منافقوں کے حق میں بہتر یہی تھا کہ رسول اللہ کی ذات پر اعتماد کرتے اور جو کچھ اللہ نے انہیں پہلے ہی دے رکھا ہے اور اب جو رسول نے انہیں دیا ہے اس پر قناعت کرتے اور راضی ہوجاتے اور اگر انہیں بزعم خود کچھ کسر لگ گئی تھی تو آئندہ کے لیے اللہ کے فضل و کرم پر نگاہ رکھتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَـيُؤْتِيْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ : یعنی کاش ! وہ طعنہ زنی اور عیب جوئی کے بجائے اس طرح کہتے، کیونکہ ان کے حق میں یہی بہتر تھا اور یقیناً اللہ تعالیٰ بھی ان پر فضل کرتا مگر ان ناشکروں کو اتنی توفیق کہاں کہ اس قسم کا کلمۂ خیر کہہ سکیں، یہ تو جب بات کریں گے ایسی ہی کریں گے جس میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برائی کا پہلو نکلتا ہو۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے زبردستی یہ بات نکالنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی دیتے ہیں، حالانکہ ان آیات میں آپ کی زندگی میں غنیمت اور صدقات کی تقسیم کا ذکر ہو رہا ہے اور اگر شرک کی نجاست ذہن میں نہ بھری ہو تو اسی آیت میں یہ الفاظ ” حَسْبُنَا اللّٰهُ “ (ہمیں اللہ کافی ہے) پھر ” سَـيُؤْتِيْنَا اللّٰهُ “ اور ” وَرَسُوْلُهٗٓ“ کے درمیان ” مِنْ فَضْلِهٖ “ اللہ کے فضل کا ذکر کرکے دونوں کو الگ کرنا اور آخر میں ” اِنَّآ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ “ (بےشک ہم تو اللہ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں) کے الفاظ واضح دلالت کر رہے ہیں کہ دینے والا فقط اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس سے پہلے فرمایا : ” کاش وہ اس پر راضی ہوجاتے جو انھیں اللہ اور اس کے رسول نے دیا۔ “ اس کے بعد وہ الفاظ ذکر فرمائے جو اوپر ذکر ہوئے ہیں، جن کا معنی یہ ہے کہ اصل دینے والا تو اللہ ہے لیکن اس کے حکم سے تقسیم آپ کرتے تھے، جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ یُعْطِیْ ) [ بخاری، العلم، باب من یرد اللہ ۔۔ : ٧١ ] ” میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے۔ “ اپنی زندگی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حکم کے مطابق تقسیم فرماتے تھے، اب ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق امیرا لمومنین تقسیم فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کئی جگہ یہ اعلان فرمانے کا حکم دیا کہ میں نہ اپنے نفع و نقصان کا مالک ہوں نہ تمہارے اور یہ بھی کہ اللہ کے سوا کوئی بھی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ دیکھیے سورة جن (٢١) ، اعراف (١٨٨، ١٩٧، ١٩٨) اور فاطر (١٣ تا ١٥) جنگ تبوک میں جب آپ سے سواریاں مانگنے کے لیے بعض مجاہد آپ کے پاس آتے اور آپ فرماتے کہ میرے پاس سواریاں نہیں ہیں جو میں تمہیں دوں، تو سواریاں حاصل نہ کرسکنے والے مجاہد روتے ہوئے واپس جاتے۔ دیکھیے سورة توبہ (٩٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰىہُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ۝ ٠ ۙ وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ سَـيُؤْتِيْنَا اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَرَسُوْلُہٗٓ۝ ٠ ۙ اِنَّآ اِلَى اللہِ رٰغِبُوْنَ۝ ٥٩ ۧ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء/ 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ رغب أصل الرَّغْبَةِ : السّعة في الشیء، يقال : رَغُبَ الشیء : اتّسع وحوض رَغِيبٌ ، وفلان رَغِيبُ الجوف، وفرس رَغِيبُ العدو . والرَّغْبَةُ والرَّغَبُ والرَّغْبَى: السّعة في الإرادة قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] ، فإذا قيل : رَغِبَ فيه وإليه يقتضي الحرص عليه، قال تعالی: إِنَّا إِلَى اللَّهِ راغِبُونَ [ التوبة/ 59] ، وإذا قيل : رَغِبَ عنه اقتضی صرف الرّغبة عنه والزّهد فيه، نحو قوله تعالی: وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ [ البقرة/ 130] ، أَراغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي[ مریم/ 46] ، والرَّغِيبَةُ : العطاء الکثير، إمّا لکونه مَرْغُوباً فيه، فتکون مشتقّة من الرّغبة، وإمّا لسعته، فتکون مشتقّة من الرّغبة بالأصل، قال الشاعر يعطي الرَّغَائِبَ من يشاء ويمن ( ر غ ب ) الرغبتہ اس کے اصل معنی کسی چیز میں وسعت کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رغب الشیءُ کسی چیز کا وسیع ہونا اور حوض رغیب کشادہ حوض کو کہتے ہیں ۔ عام محاورہ ہے ۔ فلان رغبت الجوف فلاں پیٹو ہے فرس رغیب العدو تیز رفتار اور کشادہ قدم گھوڑا الرغبۃ والرغب والرغبیٰ ارادہ اور خواہش کی وسعت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] اور وہ ہم کو ( ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے ) خوف سے پکارتے ہیں ۔ اور رغب فیہ والیہ کے معنی کسی چیز پر رغبت اور حرص کرنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا إِلَى اللَّهِ راغِبُونَ [ التوبة/ 59] ہم تو اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں ۔ لیکن رغب عن کے معنی کسی چیز سے بےرغبتی کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ [ البقرة/ 130] اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے انحراف کرے أَراغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي[ مریم/ 46] اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھرا ہوا ہے ۔ اور رغیبۃ کے معنی بہت بڑے عطیہ کے ہیں ( ج رغائب ) یہ رغبت سے مشتق ہے یا تو اس لئے کہ وہ مرغوب فیہ ہوتی ہے اور یا اصل معنی یعنی وسعت کے لحاظ سے عطیہ کو رغبہ کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ( الکامل ) يعطي الرَّغَائِبَ من يشاء ويمنعوہ جسے چاہتا ہے بڑے بڑے عطا یا بخشا اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ولو انھم رضوا مااتاھم اللہ ورسولہ وقالوا حسبنا اللہ سیوتینا اللہ من فضلہ ورسولہ۔ کیا اچھا ہوتا کہ اللہ اور رسول نے جو کچھ بھی انہیں دیا تھا اس پر وہ راضی رہتے اور کہتے کہ ” اللہ ہمارے لئے کافی ہے وہ اپن فضل سے ہمیں اور بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی) اس کا جوب محذوف ہے ۔ فقرہ اس طروح مقدر ہوگا۔ ولو انھم رضوا مااتاھم اللہ ورسولہ لکان خیرا لھم واعود علیھم (اگر یہ لوگ اس پر راضی ہوجاتے جو اللہ اور رسول نے انہیں دیا تھا تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا یا یہ ان کے لئے زیادہ فائدہ مند ہوتا) ایسے مقام پر جواب کو محذوف کردینا زیادہ بلیغ ہوتا ہے اس لئے کہ خبر میں اتنی تاکید ہوتی ہے کہ جواب کے ذکر کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اگر جواب حذف کردیا جائے تو انسانی ذہن اپنی استعداد کے مطابق کئی جواب تلاش کرلیتا ہے لیکن جواب اگر ذکر کردیا جائے تو ذہن صرف ایک صورت کے اندر محدود ہوجاتا ہے اور دوسری صورتوں کی گنجائش نہیں رہتی۔ آیت میں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ اللہ کے فعل پر راضی رہنا جسے رضا بقضا کہتے ہیں اللہ کی طرف سے مزید بھلائی اور مہربانی کا موجب ہوتا ہے جو سز اور ثواب کے طور پر اسے دیا جاتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٩) اور ان منافقین کے لیے بہتر ہوتا اگر یہ اسی پر راضی ہوجاتے جو کچھ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دلوادیا اور یہ کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا عطا کیا ہوا کافی ہے، آئندہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور روزی خاص سے ہمیں غنی کردے گا اور اس کے رسول عطا یا دیں گے ہم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف راغب ہیں، اگر منافق یہ کہتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (وَلَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰٹہُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗلا وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَرَسُوْلُہٗٓلا اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ ) اگر ان لوگوں کی سوچ مثبت ہوتی اور وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اچھا گمان رکھتے تو ان کے لیے بہترہوتا۔ اب وہ مشہور آیت آرہی ہے جس میں زکوٰۃ کے مصارف بیان ہوئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :58 یعنی مال غنیمت میں دے جو حصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیتے ہیں اس پر قانع رہتے ، اور خدا کے فضل سے جو کچھ یہ خود کماتے ہیں اور خدا کے دیے ہوئے ذرائع آمدنی سے جو خوشحالی انہیں میسر ہے اس کو اپنے لیے کافی سمجھتے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :59 یعنی زکوۃ کےعلاوہ جو اموال حکومت کے خزانے میں آئیں گے ان سے حسب استحقاق ہم لوگوں کو اسی طرح استفادہ کا موقع حاصل رہے گا جس طرح اب تک رہا ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :60 یعنی ہماری نظر دنیا اور اس کی متاع حقیر پر نہیں بلکہ اللہ اور اس کے فضل و کرم پر ہے ۔ اسی کی خوشنودی ہم چاہتے ہیں ۔ اسی سے امید رکھتے ہیں ۔ جو کچھ وہ دے اس پر راضی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:59) ولوانھم رضوا ما اتہم اللہ ورسولہ۔ جواب لو محذوف ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے ولو انھم رضوا ما اتھم اللہ ورسولہ لکان خیرا لہم۔ راغبون۔ راغب کی جمع رغبت کرنے والے۔ رغب فیہ ورغب الیہ کے معنی ہیں کسی چیز پر رغبت اور حرص کرنا۔ اور اگر عن کے ساتھ آئے تو بےرغبتی کرنا اور انحراف کرنا کے معنی میں ہوتا ہے۔ مثلاً ومن یرغب عن ملۃ ابراہیم (2:130) اور کون ہے جو ملت ابراہیم سے انحراف کرے۔ سیؤتینا اللہ ورسولہ۔ اللہ اپنے فضل سے ہمیں عطا فرمائے گا (اور اس کا رسول بھی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 تو ان کے حق میں بہترہو تا۔ اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرتا، مگر ان ناشکروں کا اتنی توفیق کہا جو اس قسم کا کلمہ خیر زبان سے نکال سکیں۔ یہ تو جب بات کریں گے ایسی ہی کریں گے جس میں اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برائی ہی کا پہلو نکلتا ہو۔ ( وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وَلَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا الخ۔ کیا اچھا ہوتا کہ اللہ اور رسول نے جو کچھ بھی انہیں دیا تھا اس پر وہ راضی رہتے اور کہتے کہ " اللہ ہمارے لیے کافی ہے ، وہ اپنے فضل سے ہمیں اور بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی ہم پر عنایت فرمائے گا ، ہم اللہ کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں۔ یہ ہے اسلام کی سوچ کا طریقہ اور یہ ہیں اسلام میں انداز گفتگو اور یہ ہیں اسلام میں آداب ایمان۔ یہ کہ انسان اللہ اور رسول اللہ کی تقسیم پر راضی ہو۔ وہ اللہ اور رسول کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ مھض دباؤ کی وجہ سے یا ماحول کے غلبہ کی وجہ سے بات مانے۔ اللہ پر بھروسہ کرنا ادب اسلامی ہے کیونکہ اپنے بندوں کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ انسان کو اللہ اور رسول اللہ کی دین کا امیدوار رہنا چاہیے اور وہ ہر کام محض رضائے الہی کے لیے کرے اور اس کے سامنے کوئی مادی مفاد نہ ہو۔ کوئی دنیوی لالچ اس کے پیش نظر نہ ہو۔ یہ ہیں ایمانی آداب جن کی وجہ سے انسان کا قلب و ضمیر تروتازہ اور سرشار ہوتا ہے۔ منافقین کے دل اور ان کا طرز عمل ان آداب سے خالی اور نابلد ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کی ارواح میں ایمان کی تازگی اور خوشی داخل ہی نہیں ہوا کرتی اور ان کے دل نور یقین سے خالی ہوتے ہین۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

غور کرو رحمۃ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طالب دنیا کو کیسی بد دعا دی منافقوں کا حال بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا (وَ لَوْ اَنَّھُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ ) (اور ان کے لیے بہتر تھا کہ جو کچھ اللہ نے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں دیا اس پر راضی ہوتے اور یوں کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے عنقریب اللہ ہمیں اپنے فضل سے عطا فرمائے گا اور اس کا رسول دے گا۔ اور یوں بھی کہنا چاہئے تھا کہ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف رغبت کرنے والے ہیں) بات یہ ہے کہ مومن آدمی اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور اسی سے امیدیں باندھے رکھتا ہے تھوڑا مال جو اللہ کی طرف سے مل جائے اس پر بھی راضی رہتا ہے۔ اور منافق تھوڑے پر راضی نہیں ہوتا۔ برکتوں سے واقف نہیں ہوتا اللہ سے لو نہیں لگاتا، ہر وقت مال ہی کی طلب اور حرص میں لگا رہتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

57: یہ پوری آیت حیز شرط میں ہے اور جواب شرط محذوف ہے “ اي لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ ” یعنی جو کچھ اللہ کے رسول نے مال غنیمت سے ان کو دیا تھا اگر وہ اس پر قانع ہوجاتے اور کہتے ہمیں مال کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اللہ کافی ہے۔ اللہ ہمیں اپنے فضل و کرم سے مالدار کردے گا۔ اور اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئندہ کسی موقع پر ہمیں صدقات سے یا غنائم سے دے کر ہماری یہ کمی پوری کر دے گا اور ہمیں مال و دولت کی پرواہ نہیں ہمیں تو اللہ کی رضا چاہئے اور بس تو یہ چیز ان کے حق میں دنیا اور آخرت میں بہتر ہوتی۔ “ مَا اٰتٰھُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ ” میں رسول کے دینے سے مال غنیمت میں سے دینا مراد ہے۔ (کما فی المظہری ج 4 ص 230 والمدارک ج 2 ص 100 والخازن ج 3 ص 108 وابن جریر وابن کثیر وغیرھا) ۔ اسے سے حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غائبانہ حاجات میں دینا مراد نہیں جیسا کہ اہل بدعت کا خیال ہے۔ حدیث میں جو “ اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ ” وارد ہے اس سے “ قَاسِمٌ للعلم او الغنائم ” مراد ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

59 اور ان کے حق میں کیا اچھا ہوتا اگر اللہ نے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوان کو دیا تھا اس پر وہ لوگ راضی رہتے اور اس کی نسبت یوں کہتے کہ ہم کو اللہ تعالیٰ کافی ہے اور جو کچھ اس نے ہم کو دیا ہے وہ کافی ہے اللہ تعالیٰ آئندہ ہم کو اپنے فضل و کرم سے اور بہت کچھ دے گا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہم پر عنایت فرمائیں گے بلاشبہ ہم تو اللہ ہی پر توقع رکھنے والے ہیں اور ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں۔ قبیلۂ نبی تمیم کے ایک شخص پر یہ آیت نازل ہوئی اس منافق کا نام حرقوص اور اس کا لقب ذوا نحویصرہ تھا۔ واللہ اعلم