Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 70

سورة التوبة

اَلَمۡ یَاۡتِہِمۡ نَبَاُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ۬ ۙ وَ قَوۡمِ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اَصۡحٰبِ مَدۡیَنَ وَ الۡمُؤۡتَفِکٰتِ ؕ اَتَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ ۚ فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظۡلِمَہُمۡ وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ ﴿۷۰﴾

Has there not reached them the news of those before them - the people of Noah and [the tribes of] 'Aad and Thamud and the people of Abraham and the companions of Madyan and the towns overturned? Their messengers came to them with clear proofs. And Allah would never have wronged them, but they were wronging themselves.

کیا انہیں اپنے سے پہلے لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں ، قوم نوح اور عاد اور ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور اہل مؤتفکات ( الٹی ہوئی بستیوں کے رہنے والے ) کی ان کے پاس ان کے پیغمبر دلیلیں لے کر پہنچے اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Advising the Hypocrites to learn a Lesson from Those before Them Allah advises the hypocrites who reject the Messengers, أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ... Has not the story reached them of those before them! have you (hypocrites) not learned the end of the nations before you who rejected the Messengers, ... قَوْمِ نُوحٍ ... The people of Nuh, and the flood that drowned the entire population of the earth, except those who believed in Allah's servant and Messenger Nuh, peace be upon him, ... وَعَادٍ ... and `Ad, who perished with the barren wind when they rejected Hud, peace be upon him, ... وَثَمُودَ ... and Thamud, who were overtaken by the Sayhah (awful cry) when they denied Salih, peace be upon him, and killed the camel, ... وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ ... and the people of Ibrahim, over whom He gave Ibrahim victory and the aid of clear miracles. Allah destroyed their king Nimrod, son of Canaan, son of Koch from Canaan, may Allah curse him, ... وِأَصْحَابِ مَدْيَنَ ... and the dwellers of Madyan, the people of Shu`ayb, peace be upon him, who were destroyed by the earthquake and the torment of the day of the Shade, ... وَالْمُوْتَفِكَاتِ ... and the overturned cities, the people of Lut who used to live in Madyan. Allah said in another Ayah, وَالْمُوْتَفِكَةَ أَهْوَى And He destroyed the overturned cities. (53:53), meaning the people of the overturned cities in reference to Sadum (Sodom), their major city. Allah destroyed them all because they rejected Allah's Prophet Lut, peace be upon him, and because they committed the sin that none before them had committed (homosexuality). ... أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ... to them came their Messengers with clear proofs. and unequivocal evidence, ... فَمَا كَانَ اللّهُ لِيَظْلِمَهُمْ ... So it was not Allah Who wronged them, when He destroyed them, for He established the proofs against them by sending the Messengers and dissipating the doubts, ... وَلَـكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ but they used to wrong themselves. on account of their denying the Messengers and defying the Truth; this is why they earned the end, torment and punishment, that they did.

بدکاروں کے ماضی سے عبرت حاصل کرو ان بدکردار منافقوں کو وعظ سنایا جا رہا ہے کہ اپنے سے پہلے کے اپنے جیسوں کے حالات پر عبرت کی نظر ڈالو ۔ دیکھو کہ نبیوں کی تکذیب کیا پھل لائی؟ قوم نوح کا غرق ہونا اور سوا مسلمانوں کے کسی کا نہ بچنا یاد کرو ۔ عادیوں کا ہود علیہ السلام کے نہ ماننے کی وجہ سے ہوا کے جھونکوں سے تباہ ہونا یاد کرو ، ثمودیوں کا حضرت صالح علیہ السلام کے جھٹلانے اور اللہ کی نشانی اونٹنی کے کاٹ ڈالنے سے ایک جگر دوز کڑاکے کی آواز سے تباہ و بربار ہونا یاد کرو ۔ ابراہیم علیہ السلام کا دشمنوں کے ہاتھوں سے بچ جانا اور ان کے دشمنوں کا غارت ہونا ، نمرود بن کنعان بن کوش جیسے بادشاہ کا مع اپنے لاؤ لشکر کے تباہ ہونا نہ بھولو ۔ وہ سب لعنت کے مارے بےنشان کر دیئے گئے ، قوم شعیب انہی بدکرداریوں اور کفر کے بدلے زلزلے اور سائبان والے دن کے عذاب سے تہ و بالا کر دی گئی ۔ جو مدین کی رہنے والی تھی ۔ قوم لوط جن کی بستیاں الٹی پڑی ہیں مدین اور سدوم وغیرہ اللہ نے انہیں بھی اپنے نبی لوط کے ماننے اور اپنی بدفعلی نہ چھوڑنے کے باعث ایک ایک کو پیوند زمین کر دیا ۔ ان کے پاس ہمارے رسول ہماری کتاب اور کھلے معجزے اور صاف دلیلیں لے کر پہنچے لیکن انہوں نے ایک نہ مانی ۔ بالآخر اپنے ظلم سے آپ برباد ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو حق واضح کر دیاکتاب اتار دی رسول بھیج دیئے حجت ختم کردی لیکن یہ رسولوں کے مقابلے پر آمادہ ہوئے کتاب اللہ کی تعمیل سے بھاگے حق کی مخالفت کی پس لعنت رب اتری اور انہیں خاک سیاہ کر گئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

70۔ 1 یہاں ان چھ قوموں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جن کا مسکن ملک شام رہا ہے۔ یہ بلاد عرب کے قریب ہے اور ان کی کچھ باتیں انہوں نے شاید آباواجداد سے سنی بھی ہوں قوم، نوح، جو طوفان میں غرق کردی گئی۔ قوم عاد جو قوت اور طاقت میں ممتاز ہونے کے باوجود، باد تند سے ہلاک کردی گئی۔ قوم ثمود جسے آسمانی چیخ سے ہلاک کیا گیا قوم ابراہیم، جس کے بادشاہ نمرود بن کنعان بن کوش کو مچھر سے مروا دیا گیا۔ اصحاب مدین (حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم) جنہیں چیخ زلزلہ اور بادلوں کے سائے کے عذاب سے ہلاک کردیا گیا اور اہل مؤتفکات سے مراد قوم لوط ہے جن کی بستی کا نام ' سدوم ' تھا اشفاک کے معنی ہیں انقلاب الٹ پلٹ دینا۔ ان پر آسمان سے پتھر برسائے گئے۔ دوسرے ان کی بستی کو اوپر اٹھا کر نیچے پھینکا گیا جس سے پوری بستی اوپر نیچے ہوگئی اس اعتبار سے انہیں اصحاب مؤتفکات کہا جاتا ہے۔ 70۔ 2 ان سب قوموں کے پاس، ان کے پیغمبر، جو ان ہی کی قوم ایک فرد ہوتا تھا آئے۔ لیکن انہوں نے ان کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی، بلکہ تکذیب اور عناد کا راستہ اختیار کیا، جس کا نتیجہ بالآخر عذاب الیم کی شکل میں نکلا۔ (3) یعنی یہ عذاب ان کے ظلم پر استمرار اور دوام کا نتیجہ ہے یوں ہی بلا وجہ عذاب الٰہی کا شکار نہیں ہوئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٤] یہ سب اقوام ایسی ہیں جن کا اپنے اپنے وقتوں میں ڈنکا بجتا تھا۔ پھر جب انہوں نے اللہ کے رسول اور اس کی آیات کو جھٹلایا اور نافرمانی اور مخالفت کی راہ اختیار کی تو ان پر اللہ کی طرف سے ارضی یا سماوی عذاب آیا جس نے انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ ایسی قوموں کے حالات کی تفصیل پہلے سورة اعراف میں بھی گزر چکی ہے اور آئندہ بھی متعدد مقامات پر مذکور ہوگی۔ الٹائی ہوئی بستیوں سے مراد سیدنا لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں ہیں۔ سیدنا جبریل نے بحکم الٰہی ان بستیوں کو اپنے پر کے اوپر اٹھایا اور بلندیوں پر لے جا کر انہیں اٹھا کر زمین پردے مارا تھا۔ پھر بھی اس قوم پر اللہ کا غضب کم نہ ہوا تو ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ سیدنا لوط کا مرکز تبلیغ سدوم کا شہر تھا۔ اور یہ الٹائی ہوئی بستیاں غالباً آج کل بحیرہ مردار میں دفن ہوچکی ہیں۔ [٨٥] یعنی اللہ تعالیٰ کو نہ ان لوگوں سے کوئی دشمنی تھی، نہ انہیں عذاب دینے کا شوق تھا اور نہ ضرورت تھی بلکہ جس طریق زندگی کو انہوں نے اختیار کیا اور اس پر مصر رہے وہ راستہ ہی ہلاکت اور بربادی کا تھا اور اس بات کی اطلاع انہیں رسولوں کے ذریعہ دی جا چکی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ يَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ : ” وَالْمُؤْتَفِكٰتِ “ ” اِءْتَفَکَ یَأْتَفِکُ “ باب افتعال سے اسم فاعل ہے، الٹنے والیاں، یعنی لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں جن کا مرکز سدوم تھا، جنھیں ان کے اعمال بد کی وجہ سے زمین سے اٹھا کر الٹا گرا دیا گیا اور کھنگروں کی بارش برسائی گئی۔ ان چھ قوموں کا خصوصاً ذکر اس لیے فرمایا کہ یہ عرب کے آس پاس عراق، شام اور یمن میں آباد تھیں۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اس کے انبیاء کو جھٹلایا، اس لیے انھوں نے خود اپنے اوپر عذاب کو دعوت دی۔ سورة اعراف میں ان کے واقعات گزر چکے ہیں اور آگے سورة ہود میں مزید تفصیل آرہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ يَاْتِہِمْ نَبَاُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ۝ ٠ۥۙ وَقَوْمِ اِبْرٰہِيْمَ وَاَصْحٰبِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكٰتِ۝ ٠ ۭ اَتَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ۝ ٠ ۚ فَمَا كَانَ اللہُ لِيَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَ۝ ٧٠ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ ثمد ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ( ث م د ) ثمود ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ أفك الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة/ 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة/ 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات/ 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف/ 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور/ 11] ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ } ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى } ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) { قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ } ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ { يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ } ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ { فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ } ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ { أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا } ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : { إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ } ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٠) کیا ان لوگوں کو اپنے سے پہلے لوگوں کی ہلاکت کی خبر نہیں کہ کس طرح ہم نے ان کو ہلاک کیا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کو پانی میں غرق کے ذریعے اور قوم ہود کو تیز آندھی کے ذریعے اور قوم صالح (علیہ السلام) کو خوفناک چیخ سے اور قوم شعیب کو زلزلہ سے اور وہ جھٹلانے والی الٹی ہوئی بستیاں یعنی لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کو ہم نے الٹا کردیا اور ان پر پتھروں کی بارش کی، ان کے پاس ان کے پیغمبر اور امر ونواہی اور صاف صاف نشانیاں لے کر آئے تھے مگر ان لوگوں نے انکار کردیا اور ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ نے انکو ہلاک کردیا، اللہ تعالیٰ نے انکو ہلاک کرکے ان پر ظلم نہیں کیا مگر یہ لوگ خود ہی کفر اور انبیاء کرم (علیہما السلام) کو جھٹلا کر اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ (اَلَمْ یَاْتِہِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَلا وَقَوْمِ اِبْرٰہِیْمَ ) یہ قرآن مجید کا واحد مقام ہے جہاں قوم ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ اس انداز میں آیا ہے کہ شاید آپ ( علیہ السلام) کی قوم پر بھی عذاب آیا ہو ‘ لیکن واضح طور پر ایسے کسی عذاب کا ذکر پورے قرآن میں کہیں نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :78 اشارہ ہے قوم لوط کی بستیوں کی طرف ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :79 “یعنی ان کی تباہی و بربادی اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اللہ کو ان کے ساتھ کوئی دشمنی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ انہیں تباہ کرے ۔ بلکہ دراصل انہوں نے خود ہی اپنے لیے وہ طرز زندگی پسند کیا جو انہیں بربادی کی طرف لےجانے والا تھا ۔ اللہ نے تو انہیں سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کا پورا موقع دیا ، ان کی فہمائش کے لیے رسول بھیجے ، رسولوں کے ذریعہ سے ان کو غلط روی کے برے نتائج سے آگاہ کیا اور انہیں کھول کھول کر نہایت واضح طریقے سے بتا دیا کہ ان کے لیے فلاح کا راستہ کونسا ہے اور ہلاکت و بربادی کا کونسا ۔ مگر جب انہوں نے اصلاح حال کے کسی موقع سے فائدہ نہ اُٹھایا اور ہلاکت کی راہ چلنے ہی پر اصرار کیا تو لامحالہ ان کا وہ انجام ہونا ہی تھا جو بالآخر ہو کر رہا ، اور یہ ظلم ان پر اللہ نے نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

60: ان کے واقعات کے لیے دیکھئے سورۃ اعراف، آیات 59 اور 92 اور ان کے حواشی

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:70) نبأ۔ خبر۔ اطلاع۔ ثمود۔ بوجہ معرفہ و عجر غیرمنصرف ہے اور اسی طرح ابراہیم بھی غیر منصرف ہے۔ اصحب مدین۔ اہل مدین۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم۔ والمر تفکت۔ اسم فاعل جمع مؤنث مجرور المؤتفکۃ واحد ایتفاک (افتعال) مصدر افک مادہ۔ الٹی ہوئی۔ منقلب۔ مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیاں ہیں جو بحیرہ مردار کے ساحل پر آباد تھیں۔ اور جن کے تخت گاہ سندوم شہر یا سدوم تھی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا حکم نہ ماننے اور ظلم و لواطت سے باز نہ آنے کی وجہ سے اللہ نے ان کو زمین کا تختہ الٹ دیا اور اوپر سے کنکریلے پتھروں کی بارش کردی۔ اتتھم رسلہم بالبینت کے بعد فکذبوھم فاہلکوا محذوف ہے۔ ان سب کے پاس ان کے رسول روشن دلائل لے کر آئے تھے۔ لیکن انہوں نے ان کی تکذیب کی پس ہلاک ہوگئے۔ یا ہلاک کر دئیے گئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی جن کی بستیاں اللہ کے عذاب سے الٹ گئیں ،۔ مراد لوط ( علیہ السلام) کی قوم ہے جس کا صدر مقام سدرم شہر تھا۔ ( از قرطبی)4 انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اس کے ابنیا ( علیہ السلام) کو جھٹلا یا۔ اس لیے انہوں نے خود اپنے عذاب کو دعوت دی۔ سورة اعراف میں ان قوموں کو وقعات گزر چکے ہیں۔ اور آگے سورة ہود میں مزید تفصیل آرہی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اوپر منافقین کے قبائح وفضائح مذکور تھے آگے زیادہ کشف مضمون کے لیے الاشیاء تعرف کے لیے مومنین کے بعض مدائح کا بیان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کو پہلے اشارے کی زبان سے مغضوب قوموں کے حوالے سے وارننگ دی گئی اور اب دو ٹوک الفاظ میں ہلاک ہونے والی قوموں کا ذ کر ہوتا ہے۔ پہلی آیت میں عربی کے حرف ” ک کے ذریعے مغضوب قوموں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اب منافقین کو کھلی وارننگ دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں مغضوب اور ملعون قوموں کا ذکر کیا ہے تاکہ انھیں معلوم ہو کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کی طویل عمر اور عاد، ثمود، اہل مدین کے مال و اسباب اور ان کی افرادی قوت انھیں رب ذوالجلال کے عذاب سے نہیں بچا سکی تھی اور نہ ہی ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کو ان کی تہذیب و تمدن اور دنیوی ترقی اللہ کی گرفت سے محفوظ رکھ سکی حالانکہ ان کے پاس انبیاء عظام تشریف لائے اور انھوں نے اپنی اپنی قوم کی اصلاح اور فلاح کے لیے بےپناہ کوشش کی لیکن نافرمان اقوام نے انبیاء کے ساتھ ناروا سلوک کیا اور ان کی دعوت کو ٹھکرا یا جس کے نتیجے میں انھیں اللہ کے عذاب نے آلیا اور وہ اپنے سے بعد والی اقوام کے لیے نشان عبرت بن گئے انھوں نے اپنی ہلاکت و بربادی کا خود ہی سامان مہیا کیا جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ذرہ برابر بھی زیادتی نہیں کی گئی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا۔ (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ أَسَآءَ فَعَلَیْہَا وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیْدِ )[ حم السجدۃ : ٤٦] ” جس نے کوئی نیک عمل کیا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور جو برائی کرے اس کا وبال اسی پر ہے اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ “ (قُلْ أَغَیْرَ اللّٰہِ أَبْغِیْ رَبًّا وَّہُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ وَلاَ تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَیْہَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی ثُمَّ إِلٰی رَبِّکُم مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّءُکُم بِمَا کُنتُمْ فیہِ تَخْتَلِفُونَ )[ الأنعام : ١٦٤] ” کہیں : کیا میں اللہ کے علاوہ دوسرا رب تلاش کروں حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے اور جو کوئی برا کام کرے گا تو اس کا بار اسی پر ہوگا۔ کوئی شخص کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا پھر تمہیں اپنے رب کے ہاں لوٹنا ہے اور جن باتوں میں تم اختلاف کرتے ہو وہ تمہیں بتلا دے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی اقوام کو ان کے ظلم کی وجہ سے تباہ کیا۔ ٢۔ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا : ١۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا مگر لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (العنکبوت : ٤٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس : ٤٤) ٣۔ اللہ نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ٥٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا۔ (النساء : ٤٠) ٥۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا مگر خود انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ (الروم : ٩) ٦۔ اللہ تعالیٰ کا قول تبدیل نہیں ہوا کرتا اور نہ وہ اپنے بندوں پر ظلم فرماتا ہے۔ (قٓ: ٢٩) ٧۔ نیک اعمال کرنے والے کو اس کی نیکی کا صلہ ملے گا اور برے کو برائی کا اور تیرا رب ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ (حٰم السجدۃ : ٤٦) ٨۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان میں حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (الزمر : ٦٩) ٩۔ قیامت کے دن ہر کوئی اپنا نامہ اعمال پڑھ لے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا۔ (بنی اسرائیل : ٧١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب منافقین کو چھوڑ کر روئے سخن عام ہوجاتا ہے۔ یہ عام خطاب تعجب کرتے ہوئے کیا جاتا ہے کہ عجیب ہیں یہ لوگ کہ سابقہ لوگوں کے انجام کو دیکھتے ہوئے اور جانتے ہوئے یہ لوگ اس راہ پر بدستور چلتے ہیں۔ یہ لوگ اس دنیا کے مزے لوٹ رہے ہیں اور اس کو اپنی حالت کا اچھی طرح شعور نہی ہے۔ یہ لوگ ہلاکت کی راہ پر مسلسل چل رہ ہی اور کسی نصیحت کو پلے نہیں باندھتے۔ الم یاتھم نبا الذین من قبلہم " کیا ان لوگوں کو اپنے پیش روؤں کی تاریخ نہیں پہنچی ؟ " جو اسی راہ پر چلے جس پر یہ چلتے ہیں۔ ذرا قوم نوح کی تاریخ کو پڑھیں کہ کس طرح انہیں طوفان نے گھیر لیا اور ہلاک کیے گئے اور یہ سخوت خوفناک ہلاکت تھی۔ قوم عاد جسے ایک شدید آندھی نے آ لیا۔ قوم ثمود جسے ایک زبردست چیخ اور آواز نے ہلاک کردیا۔ قوم ابراہیم عع جو بڑے بڑے جباروں پر مشتمل تھی ، اسے ہلاک کرکے اللہ نے حضرت ابراہیم کو معجزانہ طور پر نجات دی۔ اصحاب مدین جن کو شدید زلزلے نے آ لیا۔ اور قوم لوط جن کی نسل کو اللہ نے کاٹ کر رکھ دیا اور چند لوگ ہی اس عذاب سے بچے۔ کیا ان لوگوں کو ان تاریخی واقعات کا علم نہیں ہے۔ ان اقوام کے پاس بھی رسول روشن دلائل دے کر بھیجے گئے تھے۔ لیکن ان اقوام نے ناحق ان کی تکذیب کی اور اللہ نے ان کو پکڑا۔ فما کان اللہ لیظلمہم ولکن کانوا انفسہم یظلمون " پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے "۔ ایک منحرف انسان کو قوت اور اقتدار مزید سرکش بنا دیتا ہے۔ پھر مال و دولت کی وجہ سے ایسے لوگ اندھے ہوجاتے ہیں۔ لہذا ماضی کے تاریخی واقعات صرف ان لوگوں کو فائدے دیتے ہیں۔ لہذا ماضی کے تاریخ واقعات صرف ان لوگوں کو فائدے دیتے ہیں جن کی چشم بصیرت وا ہوتی ہے اور وہ لوگ سنت الہی کو سمجھنے کی استعداد رکھتے ہیں کیونکہ سنت الہی اٹل ہوتی ہے۔ اور ہمیشہ کام کرتی رہتی ہے۔ اور وہ کسی شخص کی کوئی رعایت بھی نہیں کرتے۔ اکثر لوگ جو قوت و اقتدار اور انعام و کرام سے نوازے جاتے ہیں اور ان کو آزماش میں ڈآلا جاتا ہے ، اندھے ہوجاتے ہیں اور ان کی قوت بصارت و بصیرت پر پردے پڑجاتے ہیں اور وہ حقائق کے ادراک سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ دیکھ نہیں سکتے کہ تاریخ میں بڑی بڑی قوتیں کس طرح سرنگوں ہوئیں۔ اکثر لوگ ان باغیوں اور سرکشوں کے انجام پر غور نہیں کرتے۔ جب انسان اپنے آپ کو اس طرح اندھا اور بہرا بنا دے۔ تو پھر وہ اللہ کے عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اب سنت الہیہ اپنا کام کرتی ہے اور مکافات عمل کا اصول سامنے اٹا ہے اور ایسے لوگ اور اقوام پکڑی جاتی ہیں۔ ان کو اپنی قوت پر غرہ ہوتا ہے اور انعامات و عیاشیوں میں سرکش ہوکر غفلت میں ہوتے ہیں اور اچانک اللہ کے گھیرے میں آجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غفلت ، نادانی اور نابینی مال و دولت کے ساتھ چمٹی رہتی ہے اور اس کا انجام ہر دور میں اچھا نہیں ہوتا اور اس برے انجام سے جو لوگ بچ نکلتے ہیں وہ وہی ہوتے ہیں جن پر اللہ کا خصوصی کرم ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اقوام سابقہ کی بربادی سے عبرت لیں : اس کے بعد پرانی قوموں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا (اَلَمْ یَاْتِھِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ قَوْمِ اِبْرٰھِیْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِکٰتِ ) کیا ان لوگوں کے پاس ان لوگوں کی خبریں نہیں آئیں جو ان سے پہلے تھے، کیا نوح (علیہ السلام) کی قوم کی بربادی کا حال اور عاد وثمود کی ہلاکت کے واقعات اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم اور مدین والوں کی ہلاکت کے قصے انہیں معلوم نہیں ہیں ؟ اور جو بستیاں برے کرتوتوں کی وجہ سے الٹ دی گئی تھی یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم جن بستیوں میں رہتی تھی کیا ان کے واقعات معلوم نہیں ہیں ؟ انہیں معلوم ہے کہ ان لوگوں پر عذاب اس لیے آیا کہ ان لوگوں نے اللہ کے رسولوں کو اور واضح دلائل کو جھٹلا دیا۔ پھر بھی کفر سے باز نہیں آتے۔ (اَتَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَان اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسُھُمْ یَظْلِمُوْنَ ) (ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی دلیلیں لے کر آئے سو اللہ ایسا نہیں تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

66:“ اَلَمْ یَاتِھِمْ الخ ” یہ تخویف دنیوی ہے اس میں خطاب سے غیبت کی طرف التفات ہے اور ضمیر غائب سے کفار و منافقین مراد ہیں یعنی کفار و منافقین کو اقوامِ سابقہ کے حالات سے عبرت حاصل کرنا چاہئے کہ کس طرح ان کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ہلاک کیا گیا۔ “ فَمَا کَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَھُمْ الخ ” یعنی اللہ نے ان کو ہلاک کر کے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ظالم تھے اور ضد و انکار کی وجہ سے انہوں نے خود اپنی جانوں پر ظلم کیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

70 کیا ان لوگوں کو ان کے احوال اور ان لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں جوان سے پہلے ہو گزرے ہیں جیسے نوح (علیہ السلام) کی قوم اور عاد اور ثمود اور ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم اور مدین کے رہنے والے اور الٹی ہوئی بستیوں والے ان سب کے پاس ان کے پیغمبر صاف اور واضح دلائل لے کر آئے اور انہوں نے ان دلائل کو حق نہ کہا اور برباد ہوگئے پھر اللہ تعالیٰ کی تو یہ شان نہ تھی اور وہ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔ ان قوموں کا تذکرہ فرمایا جن کو کفار عرب خود جانتے تھے اور ان کی بربادی کے قصے عام و خاص کی زبان زد تھے الٹی ہوئی بستیاں فرمایا لوط کی قوم کو۔