Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 99

سورة التوبة

وَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ؕ اَلَاۤ اِنَّہَا قُرۡبَۃٌ لَّہُمۡ ؕ سَیُدۡخِلُہُمُ اللّٰہُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۹۹﴾  1

But among the bedouins are some who believe in Allah and the Last Day and consider what they spend as means of nearness to Allah and of [obtaining] invocations of the Messenger. Unquestionably, it is a means of nearness for them. Allah will admit them to His mercy. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.

اور بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو عند اللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں ۔ یاد رکھو کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان کے لئے موجب قربت ہے ، ان کو اللہ تعالٰی ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا اللہ تعالٰی بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمِنَ الاَعْرَابِ مَن يُوْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ... And of the Bedouins there are some who believe in Allah and the Last Day, and look upon what they spend (in Allah's cause) as means of nearness to Allah, and a cause of receiving the Messenger's invocations. This is the type of praiseworthy Bedouins. They give charity in Allah's cause as way of achieving nearness to Allah and seeking the Messenger's invocation for their benefit, ... أَلا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ... Indeed these are a means of nearness for them. they will attain what they sought, ... سَيُدْخِلُهُمُ اللّهُ فِي رَحْمَتِهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ Allah will admit them to His mercy. Certainly Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

99۔ 1 یہ اعراب کی دوسری قسم ہے جن کو اللہ نے شہر سے دور رہنے کے باوجود، اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور اس ایمان کی بدولت ان سے وہ جہالت بھی دور فرما دی جو بددینیت کی وجہ سے اہل بادیہ میں عام طور پر ہوتی ہے۔ چناچہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردہ مال کو جرمانہ سمجھنے کی بجائے۔ اللہ کے قرب کا اور رسول کی دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ اشارہ ہے رسول اللہ کے اس طرز عمل کی طرف، جو صدقہ دینے والوں کے بارے میں آپ تا یعنی آپ ان کے حق میں دعائے خیر فرماتے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ایک صدقہ لانے والے کے لئے آپ نے دعا فرمائی اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ اَبِیْ اَوْفٰی (صحیح بخاری نمبر 4166 صحیح مسلم نمبر 756) ' اے اللہ ! ابو اوفی کی آل پر رحمت نازل فرما ـ' 99۔ 2 یہ خوشخبری ہے کہ اللہ کا قرب انہیں حاصل ہے اور اللہ کی رحمت کے وہ مستحق ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١١] بدوی مومنوں کا کردار :۔ یعنی یہ بدو لوگ بھی سب ایک جیسے نہیں۔ ان میں سے بھی کچھ حقیقی مومن ہیں۔ قرآن کی معجزانہ تاثیر اور آپ کی تعلیم سے کافی حد تک متاثر ہوچکے ہیں اور اللہ کی راہ میں رغبت اور خوش دلی سے خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرتے وقت دو مقاصد ان کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ ایک قرب الٰہی کا حصول دوسرے آپ سے دعا لینے کی آرزو۔ کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی تھی کہ جب آپ صدقہ وصول کریں تو صدقہ دینے والے کو دعا دیا کریں۔ اس لیے کہ آپ کی دعا انکے لیے باعث تسکین ہوتی ہے۔ اور اس دعا کا ثمرہ بھی اللہ کی رحمت اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بشارت دی ہے کہ واقعی ان لوگوں کا دیا ہوا صدقہ قرب الہٰی کا ذریعہ بن جاتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يُّؤْمِنُ باللّٰهِ : ” قُرُبٰتٍ “ یہ ” قُرْبَۃٌ“ کی جمع ہے، وہ عمل جسے انسان اپنے خالق کے قریب ہونے کا ذریعہ بنائے۔ ” صَلَوٰتِ “ یہ ” صَلاَۃٌ“ کی جمع ہے جس کا معنی نماز کے علاوہ دعا بھی آتا ہے۔ یعنی سب اعراب ایک جیسے نہیں، ان میں کئی مخلص مسلمان بھی ہیں، جو خوش دلی سے صدقہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کے ہاں قربتوں اور رسول کی دعاؤں کو حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں شہادت دی کہ ان کے یہ اعمال یقیناً ان کے لیے قرب کا ذریعہ ثابت ہوں گے اور اللہ تعالیٰ انھیں ضرور اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا۔ عبداللہ بن ابی اوفی (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی گروہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صدقہ لے کر آتا تو آپ اس کے لیے دعا کرتے ہوئے کہتے : ( اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی فُلَانٍ ) ” اے اللہ ! فلاں پر رحم فرما۔ “ عبداللہ بن ابی اوفی (رض) فرماتے ہیں کہ جب میرے والد زکوٰۃ لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے تو آپ نے انھیں دعا دیتے ہوئے فرمایا : ( اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ اَبِیْ اَوْفٰی ) ” اے اللہ ! ابو اوفی کی آل پر رحم فرما۔ “ [ بخاری، الزکاۃ، باب صلاۃ الإمام و دعاء ہ لصاحب الصدقۃ ۔۔ : ١٤٩٧ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After having described the state of affairs prevailing among hypo¬crites of distant deserts, it was considered appropriate that the true and staunch Muslims from among the same stock of Bedouins should also be mentioned. This was done in verse 99 - very much in line with the typical style of the Qur&an - so that, it stands established that Bed¬ouins too are not all alike. Among them, there are many sincere Mus¬lims, and people of sense and discernment as well. Their style of life is different. When they give in obligatory alms (Zakah) or in voluntary charities (Sadaqat), they regard these as a source of nearness to Allah Ta` ala and hope that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would be praying for them. That Sadaqat are a source of nearness to Allah Ta` ala is obvious. However, the hope of prayers from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is on a different basis. It should be borne in mind that the Holy Qur&an - wherever it has asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to collect Zakah on the wealth and property of Muslims - has also directed him that he should also pray for those who pay Zakah. The forthcoming verse (103): خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُ‌هُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ (Take out of their wealth a Sadaqah [ obligatory alms ] through which you may cleanse and purify them, and pray for them) is a good example? The instruction to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that he should pray for these people has been termed: وَصَلِّ عَلَيْهِمْ (and pray for them) using the word: صلٰوہ (salat) for it. Therefore, in the present verse as well, the sense of the prayers of the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has been expressed by the use of the word: صلٰوہ (salat).

دیہاتی منافقین کے حالات کا ذکر کرنے کے بعد قرآنی اسلوب کے مطابق تیسری آیت میں ان دیہاتیوں کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھا گیا جو سچے اور پکے مسلمان ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ دیہات کے باشندے بھی سب ایک سے نہیں ہوتے، ان میں مخلص مسلمان اور سمجھ دار لوگ بھی ہوتے ہیں، ان کا حال یہ ہے کہ وہ جو زکوٰة و صدقات دیتے ہیں تو اس کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ سمجھ کر اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں کی امید پر دیتے ہیں۔ صدقات کا اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہونا تو ظاہر ہی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں کی امید اس بناء پر ہے کہ قرآن حکیم نے جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسلمانوں سے اموال زکوٰة وصول کرنے کا حکم دیا ہے وہیں یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ زکوٰة ادا کرنے والوں کے لئے آپ دعا بھی کیا کریں جیسے آگے آنے والی آیت میں ارشاد ہے (آیت) خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ، اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صدقات وصول کرنے کے ساتھ یہ حکم بھی دیا ہے کہ ان کے لئے دعا کیا کریں، یہ حکم لفظ صلوۃ کے ساتھ آیا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ، اسی لئے مذکورہ آیت میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں کو لفظ صلوات سے تعبیر کیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يُّؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللہِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ۝ ٠ ۭ اَلَآ اِنَّہَا قُرْبَۃٌ لَّھُمْ۝ ٠ ۭ سَـيُدْخِلُھُمُ اللہُ فِيْ رَحْمَتِہٖ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٩٩ ۧ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة/ 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ صلوات ۔ صلوۃ کی جمع۔ دعائیں۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائیں لینے کا ذریعہ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٩) اور قبیلہ مزینہ جہنیہ اور اسلم میں سے بعض دیہاتی ایسے بھی ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ اور روز جزا پر پورا پورا ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ جہاد وغیرہ پر خرچ کرتے ہیں، قرب الہی کا ذریعہ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یاد رکھو کہ ان کا یہ خرچ اللہ کی راہ میں کرنا بلاشبہ ان کے لیے اللہ کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں جگہ دیں گے، وہ بڑے غفور و رحیم ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” ومن الاعراب من یؤمن باللہ “۔ (الخ) ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت بنی مقرن کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جن کے بارے میں یہ آیت ”۔ ولا علی الذین اذا ما اتوک .... الخ نازل ہوئی تھی۔ نیز عبدالرحمن بن معقل مزنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا گیا ہے کہ ہم بن مقرن کے دس لوگ تھے، ہمارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٩ (وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰہِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ ط) یعنی یہ بادیہ نشین لوگ سب کے سب ہی کفر و نفاق پرکار بند اور انفاق فی سبیل اللہ کو تاوان سمجھنے والے نہیں ہیں ‘ بلکہ ان میں سچے مؤمن بھی ہیں ‘ جو نہ صرف اللہ کے راستے میں شوق سے خرچ کرتے ہیں بلکہ اس انفاق کو تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ دین کے لیے مال خرچ کرنے سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائیں بھی ان کے شامل حال ہوجائیں گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٩۔ پھر فرمایا کہ تیسری قسم کے وہ گنوار ہیں جو خدا پر اور قیامت کے دن پر سچے دل سے ایمان لاچکے ہیں اور خدا کی راہ میں اس امید پر خرچ کر رہے ہیں کہ خدا سے نزدیکی ہو اور رسول ان کے مغفرت چاہیں کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے اور صدقہ دینے والوں کے لئے دعا فرمایا کرتے تھے۔ عبدالرحمن بن مغفل (رح) کہتے ہیں ہم مقرن کے دس بیٹے تھے یہ آیت ہماری شان میں اتری ١ ؎ ہے مجاہد نے بھی آیت کی یہی شان نزول بیان کی ٢ ؎ ہے جو عبدالرحمن بن مغفل (رح) کہتے ہیں ہم مقرن کے دس بیٹے تھے یہ آیت ہماری شان میں اتری ٣ ؎ ہے مجاہد نے بھی آیت کی یہی شان نزول بیان کی ٤ ؎ ہے جو عبدالرحمن بن مغفل (رح) کہتے ہیں یہ عبدالرحمن بن مغفل (رح) ثقہ تابعی ہیں بعضے علماء نے ان کو صحابہ میں جو شمار کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے کلبی کا قول ہے کہ اسلم وغفارو جہنیہ ومزنیہ یہ لوگ اسی امید میں خرچ کرتے تھے کہ خدا سے نزدیکی ہو اور حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے واسطے دعا فرمائیں اس واسطے یہ آیت انہیں کی شان میں اتری ہے بنی مقرن قبیلہ مزنیہ سے ہیں اس واسطے مجاہد اور کلبی کے قول میں کچھ اختلاف نہیں ہے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنی نیک کمائی میں سے جو کوئی شخص ذر اسی چیز بھی صدقہ خیرات میں ویوے تو اللہ تعالیٰ اس چیز کے اجر کو خاص اپنے سیدھے ہاتھ لیتا ہے اور اس ذراسی چیز کے اجر کو ایک پہاڑ کے برابر کردیتا ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ سید ہے میں لیکن نیک کمائی اور نیک نبتی کے صدقہ خیرات کی شان بڑھانے کے لئے سیدھے اتھ کا لفظ حدیث میں فرمایا صدقہ خیرات کے سبب سے قربت الہٰٓی کا ذکر جو آیت میں ہے یہ حدیث گویا اس کو تفسیر ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن جریر ص ٦ ج ١١ ٢ ؎ تفسیر ابن جریر ص ٥ ج ١١ و تفسیر الدر المنثور ص ٢٦٩ ج ٣ و تفسیر فتح البیان ص ٩٥ ٢ ج ٢ ٣ ؎ تفسیر فتح البیان ص ٢٩٥ ج ٢:۔ ٥ ؎ صحیح بخاری ص ١٨٩ ج ١ باب الصدقہ من کسب طیب الخ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:99) قربت۔ قربۃ کی جمع ہے۔ مرتبہ کا قرب۔ خوشنودی۔ رضا۔ یعنی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ۔ صلوات۔ صلوۃ کی جمع۔ دعائیں۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائیں لینے کا ذریعہ۔ الا انھا یہ اللہ کی طرف سے ان کے اعتقاد کی صحت کی تصدیق کی شہادت ہے۔ اور انھا میں ضمیر ھا واحد مؤنث غائب۔ نفضتہم۔ (ان کا راہ خدا میں خرچ) کے لئے ہے الا انھا قربۃ لہم بیشک ان کا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ان کے لئے قرب الٰہی کا موجب ہے۔ سیدخلہم۔ میں س تحقیق اور تاکید کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ اعراب (گنواروں) میں کچھ مخلص مسلمان بھی ہیں جو مال کے خرچ کرنے کو جرمانہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کے قرب اور پیغمبر (علیہ السلام) کی دعا حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ کیونکہ آپ کی عادت شریف تھی کہ ایسے مواقع پر خرچ کرنے والے کو دعادیتے تھے جیسا کہ احادیث میں ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دیہاتی منافقین کے بعد دیہاتی مومنوں کے ایمان اور کردار کا تذکرہ۔ یہ بات کئی مرتبہ عرض کی جا چکی ہے کہ قرآن مجید کی عدل پسندی اور طرز بیان ہے کہ جہنم کے ساتھ جنت، برے انجام کے ساتھ اچھے انجام، کفار اور منافقین کے بیان کے معاً بعد مخلص مسلمانوں اور مومنوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ تاکہ قارئ قرآن کو دونوں کردار اور انجام کا تجزیہ کرنے میں آسانی رہے چناچہ اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ دیہات میں رہنے والے سب کے سب کافر اور منافق نہیں بلکہ ان میں ایسے خوش بخت بھی ہیں جو اپنے رب پر کامل ایمان اور قیامت کے دن اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کا پکا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اور جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کے پیچھے ان کی صرف اور صرف یہی تمنا ہوتی ہے کہ انہیں اپنے رب کا قرب حاصل ہو۔ اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہو کر ان کے لیے دعائے خیر کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائیں ان کے لیے دنیا اور آخرت کا خزانہ ہیں۔ ان کے اخلاص اور نیک اعمال کی وجہ سے انہیں خوشخبری سنائی جارہی ہے کہ خوش ہوجاؤ کہ اللہ کی قربت و رحمت تمہارے لیے ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا اور آخرت میں اپنی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کی کمزوریوں کو معاف کرتے ہوئے ان پر رحم و کرم فرمانے والا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیم کے پیش نظر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقہ کرنے والے صحابہ (رض) کے بارے میں یہ الفاظ استعمال فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں صدقہ پیش کیا جس پر آپ نے مجھے اس دعا سے نوازا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ اَبِیْ اَوْفٰی (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا اَتَاہُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِھِمْ قَال اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ فُلَانٍ فَاَتَاہُ اَبِیْ بِصَدَقَتِہٖ فَقَالَ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ اَوْفٰی (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ ) وَفِیْ رِوَاے َۃٍ اِذَا اَتَی الرَّجُلُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِصَدَقَتِہٖ قَالَ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَےْہِ )[ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ ] ” حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب لوگ زکوٰۃ لے کر آتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے دعا فرماتے۔ اے اللہ فلاں کے اہل و عیال پر رحمت فرما۔ میرے والد آپ کی خدمت میں زکوٰۃ لے کر آئے تو آپ نے دعا فرمائی اے اللہ ابو اوفی ٰکے اہل و عیال پر رحمت نازل فرما۔ دوسری روایت میں ہے جب کوئی آدمی زکوٰۃ پیش کرتا تو آپ دعا کرتے کہ اے اللہ اس پر رحمت فرما۔ “ مسائل ١۔ دیہاتیوں میں سے اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ ٢۔ ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کی قربت کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ ٣۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے اللہ کی رحمت کے حقدار ہوتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بہت ہی رحمت فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہونے والے لوگ : ١۔ اللہ، انبیاء کو اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص کرتا ہے۔ (الانبیاء : ٨٦) ٢۔ اللہ نیک لوگوں کو اپنی رحمت سے ہمکنار کرتا ہے۔ (الانبیاء : ٧٥) ٣۔ ایمان میں پختہ رہنے والے کو اللہ اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ (النساء : ١٧٥) ٤۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ (الشورٰی : ٨) ٥۔ اللہ کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ( الاعراف : ١٥٦) ٦۔ اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٧۔ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا۔ (التوبۃ : ٩٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ پر ایمان اور جزائے یوم آخرت کی امیدواری کی وجہ سے یہ لوگ خرچ کرتے ہیں ، عوام الناس کے خوف کی وجہ سے نہیں اور نہ اہل اقتدار کو خوش کرنے کے لیے ۔ نہ ان لوگوں کے پیش نظر دنیا کا سود و زیاں ہے۔ بلکہ یہ فریق اللہ اور یوم آخرت پر پختہ ایمان رکھتا ہے اور جو کچھ خرچ کرتا ہے محض رضائے الہی کے لیے خرچ کرتا ہے۔ اور اس بات کا طلبگار ہے کہ رسول خدا ان کے حق میں دعائے خیر کردیں اور حضور کسی کے لیے تب ہی دعا کرتے ہیں جب وہ کسی سے راضی ہوں اور جب آپ کسی کے لیے دعا کردیں تو یقینی ہے کہ وہ شخص مفہوم دعا کو پا گیا۔ کیونکہ حضور کی دعا ہی ان کے ایمان ، بعد ، ایمان بالآخرت اور طلب رضائے الٰہی اور خلوص کی گارنٹی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوراً اعلان کردیا جاتا ہے کہ ایسے لوگو کی یہ سعی مشکور ہوئی۔ الا انہا قربۃ لہم " بیشک وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے " اور ساتھ ہی یہ اعلان ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ مقصد کو پا گئے۔ سیدخلھم اللہ فی رحمتہ " اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا " یہاں قرآن کریم اللہ کی رحمت کو بھی مجسم شکل میں پیش کرتا ہے کہ وہ گویا ایک محل ہوگا جس میں یہ لوگ داخل ہوجائیں گے ، جس طرح اس سے قبل فریق مخالف کے ان منافقین اور کفار کے لیے مصیبت کو ایک دائرے کی شکل میں مجسم کرکے انہیں اس میں گھیرے ہوئے دکھایا تھا ، جو مسلمانوں کے لیے دل میں کینہ رکھتے تھے۔ ان اللہ غفور رحیم " یقینا اللہ در گزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے " وہ توبہ بھی قبول کرتا ہے ، نفقہ بھی قبول کرتا ہے ، اور جو تقصیرات اسلام کی راہ میں ہوگئی ہوں ان کو بھی معاف کرتا ہے اور جو رحمت کا طلبگا رہے اسے مایوس نہیں کرتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

95:“ وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ الخ ” یہاں ان دیہات والوں کی تعریف فرمائی جو مخلص مومن تھے۔ ان کا حال یہ تھا کہ وہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ کے تقرب اس کی رضا اور اللہ کے رسول کی دعا کا ذریعہ سمجھتے ہیں “ اَلَا اِنَّھَا قُرْبَةٌ لَّھُمْ ” بیشک وہ ان کے لیے قرب خداوندی کا ذریعہ ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے ان کے اعتقاد کی تصدیق ہے۔ “ سَیُدْخِلُھُمُ اللّٰهُ الخ ” یہ بشارت اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

99 اور انہی دیہاتیوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اور یوم آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ اور جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ اور پیغمبر کی دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں یاد رکھو ان کی خیرات و صدقات واقعی ان کے لئے تقرب اور قربت ِ خداوندی کا ذریعہ ہیں اللہ تعالیٰ ضرور ان لوگوں کو اپنی خاص رحمت میں داخل کرے گا بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا ہے۔ اوپر منافق دیہاتیوں کا ذکر تھا اس آیت میں مسلمان دیہاتیوں کا ذکر فرمایا۔