Surat ul Balad
Surah: 90
Verse: 12
سورة البلد
وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡعَقَبَۃُ ﴿ؕ۱۲﴾
And what can make you know what is [breaking through] the difficult pass?
اور کیا سمجھا کہ گھاٹی ہے کیا؟
وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡعَقَبَۃُ ﴿ؕ۱۲﴾
And what can make you know what is [breaking through] the difficult pass?
اور کیا سمجھا کہ گھاٹی ہے کیا؟
[١٠] یہ گھاٹی دراصل اخلاقی بلندیاں ہیں اور ان پر چڑھنے کا راستہ دشوار گزار اس لحاظ سے ہے کہ ایسے راستے عموماً انسان کی خواہش کے خلاف اور طبیعت کے لئے ناگوار اور گرانبار ہوتے ہیں۔
وما ادریک ما العقبۃ…: مال دار کے لئے بلندیوں پر لے جانے والا مشکل راستہ کیا ہے ؟ وہ گردن چھڑانا ہے، کیونکہ غلامی سے بڑی ذلت کوئی نہیں اور آزادی دلانے سے بڑھ کر کسی کے ساتھ کو ئح سن سلوک نہیں۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، (لا یجزی ولد والدا الا ان یجدہ مملوکا فیشتریہ فیعتقہ) (مسلم ، العتق، باب فضل عتق الوالد : ١٥١٠)” کوئی اولاد اپنے والد کا بدلا نہیں دے سکتی سوائے اس کے کہ اسے غلامی کی حالت میں پائے اور خرید کر اسے آزاد کر دے۔ “ گردن چھڑانے کی ایک اور فضیلت بھی ہے۔ ابوہیرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(من اعتق رقبہ مومنۃ اعتق اللہ بکل عضو منہ عضوا من النار حتی یعتق فرجۃ بفرجہ) (مسلم ، العتق ، باب فضل العتق : ٢٣/١٥٠٩)” جو شخص مومن گردن کو آزاد کرے اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلے اس کا ایک عضو آگ سے آزاد کرے گا، حتیٰ کہ اس کی شرم گاہ کے بدلے اس کی شرم گاہ کو آزاد کر دے گا۔ “ گردن چھڑانے میں غلام آزاد کرنے کے ساتھ کسی ناحق گرفتار کو رہائی دلوانا اور کسی مقروض کی گردن قرض سے چھڑانا بھی شامل ہے۔
وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَۃُ ١٢ ۭ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ دری الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری/ 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة/ 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر/ 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة/ 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار/ 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس/ 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس/ 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری/ 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری/ 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة/ 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر/ 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة/ 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار/ 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس/ 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس/ 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری/ 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) الدریۃ ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔ عَقَبَةُ : طریق وعر في الجبل، والجمع : عُقُب وعِقَاب، والعُقَاب سمّي لتعاقب جريه في الصّيد، وبه شبّه في الهيئة الرّاية، والحجر الذي علی حافتي البئر، والخیط الذي في القرط، والیعقوب : ذکر الحجل لما له من عقب الجري العقبۃ پہاڑ پر چڑھنے کا دشوار گذار راستہ اس کی جمع عقب و عقاب ہے اور شاہین کو بھی عقاب کہا جاتا ہے کیونکہ وہ شکار کا تعاقب کرتا ہے اور تشبیہ کے طور پر عقاب کا لفظ ( 1 ) جھنڈے ( کنوئیں کے پتھر جس پر پانی ملانے والا کھڑا ہوتا ہے اور ( 3 ) کان کی بالی کے تاگے پر بھی بولا جاتا ہے الیعقوب نر چکور کیونکہ اس کی عادت یہ ہے کہ ایک مرتبہ دوڑنے کے بعد ٹھہر جاتا ہے اور پھر دوسری بار دوڑتا ہے ۔
(90:12) وما ادرک مالعقبہ : ما استفہامیہ ۔ کیا چیز ۔ کون۔ ادرک : ادری ماضی واحد مذکر غائب ادراء (افعال) مصدر سے بمعنی خبردار کرنا۔ بتانا۔ واقف کرنا۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر، کون تجھے بتائے۔ کیا چیز تمہیں خبردار کرے۔ ، طلب یہ کہ تجھے کیا خبر، تجھے کیا معلوم۔ ما العقبۃ ۔ ما استفہامیہ : کیا۔ (العقبۃ) کیا ہے۔ تم کیا جانو کہ گھاٹی کیا ہے ؟
پھر اس گھاٹی کی عظمت اور بڑائی بیان کرنے کے لئے سوال وما ادرک ما العقبة (12:90) ” تم کیا جانو کہ وہ دشوار گزار گھاٹی کیا ہے “۔ یہ سوال اس لئے نہیں ہے کہ وہ گھاٹی کوئی بہت ضخیم ہے اور ناقابل عبور ہے ، مطلب یہ ہے کہ یہ بہت اہم ہے۔ اللہ کے نزدیک اس کو عبور کرنا ضروری ہے تاکہ انسان جرات کرکے گھس جائے اور جست لگادے۔ اگرچہ اس کی راہ میں مشکلات حائل ہوں ، کیونکہ محنت اور مشقت کے بغیر تو کوئی کام بھی نہیں ہوتا اور اگر کوئی یہ مشقت برداشت کرے گا تو اسے ضرور اس کا ثمرہ مل جائے گا اور اس کی تکالیف کا صلہ اس کے سامنے ہوگا ، اور اس کا کوئی عمل ضائع نہ ہوگا اور یہ کام ہر حال میں ہونے والا ہے۔ یہ دشوارگزار گھاٹی کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی مکہ کی سوسائٹی کو بےحد ضرورت تھی ، جہاں تحریک اسلامی دعوت کا کام کررہی تھی۔ ان غلاموں کو آزادی دلانا جو اس سوسائٹی میں نہایت ہی برے حالات کار میں کام کررہے تھے ، اس خود غرض سوسائٹی میں لوگ نہایت ہی خود غرضی سے مفادات کے پیچھے دوڑ رہے تھے اور نادار لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔ اس میں لوگوں کے لئے ابتدائی انسانی ضروریات فراہم کرنا ، یہ باتیں تو مکہ کی سوسائٹی کے پس منظر میں تھیں ، باقی بعض ایسی باتیں جن کا تعلق کسی زمان ومکان سے نہیں ہے اور جن کا تعلق تمام انسانوں کے ساتھ ہے اور جو نجات کے لئے ہمیشہ دشوار گزار گھاٹی کی طرح رہے ہیں مثلاً ثم کان ............................ بالمرحمة (17:90) ” پھر وہ آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی “۔ روایات میں ہے کہ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانے کا مقصد یہ ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنے میں شرکت کرنا ، اور لغوی لحاظ سے عتق کے معنی ہیں کسی کو مکمل آزاد کردینا یعنی ایک شخص کسی کو آزاد کردے۔ کوئی کسی کی آزادی میں شریک ہو یا کسی کو پورا آزاد کردے ، حاصل دونوں کا ایک ہی ہے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو مکہ میں لوگوں نے اسلام کو ہر طرف سے گھیررکھا تھا۔ اسلامی حکومت قائم نہ تھی کہ وہ آزادی غلاماں کا قانون پاس کردیتی۔ غلامی جزیرة العرب اور اس کے علاوہ پوری دنیا میں عام تھی اور پوری دنیا میں عورتوں کے ساتھ نہایت ظالمانہ سلوک کیا جاتا تھا ، جب بعض غلام مسلمان ہوگئے ، مثلاً عمار ابن یاسر ان کا خاندان ، بلال ابن رباح ، صہیب (رض) وغیرہ۔ تو ان غلاموں کے مالکان نے ان پر سخت تشدد شروع کردیا۔ اور ان پر ایسا تشدد شروع کردیا جو ناقابل برداشت تھا ، مسلمان اس نتیجے پر پہنچے کہ ماسوائے آزادی کے اور کسی طریقے سے ان کی جان نہیں چھوٹ سکتی اور آزادی کا صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ ان لوگوں کو ، ان کے شقی القلب اور سنگدل مالکان سے خریدا جائے۔ اس میدان میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) مرد اول رہے ، جیسا کہ ان کی عادت تھی کہ وہاسلام کے ہر معاملے میں سب سے پہلے لبیک کہتے ، اور نہایت ثابت قدمی سے اور اطمینان سے اور استقامت سے اس راہ پر آگے بڑھتے۔ ابن اسحاق لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے آزاد کردہ غلام حضرت بلال ، اس سے پہلے بنی جمح کے پیدائشی غلام تھے ، یہ نہایت سچے مسلمان تھے ، نہایت پاک دل تھے۔ امیہ ابن حلف ابن وہب ابن خذافہ ابن جمح تپتی دوپہر میں انہیں نکالتا ، وادی مکہ میں زمین پر پیٹھ کے بل لٹاتا اور حکم دیتا کہ ان کے سینے پر ایک بھاری پتھر رکھ دیا جائے اور ان سے کہتا کہ ” تم اسی طرح رہو گے جب تک تم مر نہیں جاتے یا محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی نبوت کا انکار نہیں کردیتے اور لات وعزیٰ کی عبادت نہیں کرتے ؟ “ اس مصیبت کی حالت میں وہ صرف یہی کہتے “ احد .... احد “۔ ایک دن حضرت ابوبکر صدیق (رض) پاس سے گزرے اور یہ لوگ اس وقت ان پر اس طرح تشدد کررہے تھے۔ حضرت ابوبکر (رض) کا گھر محلہ بنی جمح میں تھا ۔ آپ نے امیہ ابن خلف سے کہا : ” کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے کب تک تم یہ ظلم کرتے رہو گے ؟ “ اس نے جواب دیا : ” تم ہی نے تو اسے برباد کیا ہے لہٰذا اس عذاب سے تمہی اسے چھڑاﺅ گے “۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا ” اچھا میں کرتا ہوں۔ میرے پاس ایک سیاہ فام غلام ہے اس سے زیادہ قوی اور مضبوط اور وہ تمہارے دین پر ہے۔ میں اسے اس کے بدلے تمہیں دیتا ہوں “۔ امیہ ابن خلف نے کہا : ” میں نے قبول کیا “۔ تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اسے اپنے غلام کے بدلے خرید لیا اور آزاد کردیا۔ ” مدینہ کو ہجرت کرنے سے پہلے ، ان کے ساتھ اور چھ غلام بھی حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے آزاد کرائے ، بلال ساتویں تھے۔ عامر ابن فہیرہ (رض) جو بدر میں شریک ہوئے اور ہئر معمونہ میں شہید ہوئے۔ ام عبیں ، زنیرہ ، جب ان کو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے آزاد کرایا تو ان کی بصارت چلی گئی۔ قریش نے کہا اس سے لات اور عزیٰ کے سوا کسی اور نے نظر نہیں چھین لی۔ اس پر اس نے یہ تبصرہ لیا : ” وہ جھوٹ بولتے ہیں ، بیت اللہ کی قسم لات اور عزیٰ نہ نقصان پہنچاسکتے اور نہ نفع “۔ اس کے بعداللہ نے اس کی نظر کو لوٹا دیا۔ نہدیہ اور اس کی بیٹی ، یہ دونوں بنی عبدالدار کی ایک عورت کی لونڈیاں تھیں۔ اس نے ان کو آٹا دے کر بھیجا اور ساتھ ہی یہ کہا خدا کی قسم میں تمہیں کبھی بھی آزادانہ کروں گی۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق (رض) پاس ہی سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے کہا : ام فلاں ، اس قسم کا کفارہ ادا کرکے اس سے نکل آﺅ، اس نے جواب دیا تم اس کا کفارہادا کرو ، تم ہی نے تو ان کو خراب کیا ہے۔ لہٰذا تم ہی انہیں آزاد کرو ، تو حضرت نے فرمایا ، بتاﺅ قیمت ، اس نے کہا یہ ہے قیمت ، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا بس میں نے خرید لیا اور یہ آزاد ہوئیں۔ اس کا آٹا اسے لوٹا دو ، انہوں نے کہا ، مناسب نہیں کہ ہم اس سے فارغ ہوجائیں اور پھر اسے لوٹا دیں۔ تو انہوں نے کہا جس طرح تم چاہو۔ اسی طرح ایک بار ایک لونڈی کے پاس سے گزرے ، یہ بنی عدی قبیلے کی شاخ بنی مومل سے تھی اور مسلمان تھی۔ عمرو ابن مہیب اسے سخت سزا دیتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اسلام چھوڑ دو ، اس وقت حضرت عمر (رض) مشرک تھے ، اسے یہ مار رہے تھے۔ جب وہ تھک گئے تو کہا میں معذرت کرتا ہوں کہ میں نے تمہیں محض اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ میں تھک گیا ہوں ورنہ اور ماتا اور وہ کہتی ، اسی طرح اللہ تیرے ساتھ کرے۔ اسے بھی حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے خریدا اور آزاد کردیا “۔ ابن اسحاق کہتے ہیں ، محمد ابن عبداللہ ابن ابو عتیق نے بیان کیا ، عامر ابن عبداللہ سے انہوں نے ابن زبیر سے ، انہوں نے ان کے خاندان والوں سے یہ کہ ابو قحافہ نے کہا : ” بیٹے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم ضعیف غلاموں کو آزاد کررہے ہو ، اگر تم یہ کام کرتے ہی ہو جو کررہے ہو تو پھر تمہیں چاہیے کہ مضبوط لوگوں کو آزاد کرو ، جو تمہارے حامی ہوں اور جب تم پر مصیبت آئے تو تمہارے آگے کھڑے ہوں “۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : ” اے باپ ، میں جو چاہتا ہوں وہ صرف رضائے الٰہی کے لئے چاہتا ہوں “۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) تھے جو اس مشکل گھاٹی کو عبور کرنے کے لئے گھس رہے تھے ، اور وہ ایسے مصیبت زدہ جن پر تشدد ہورہا تھا ، اور سوسائٹی ایسی تھی جس میں ایسا اقدام نہایت ابتدائی جست شمار ہوتا اور نہایت انقلابی اقدام ہوتا تھا۔ یوں جس طرح کوئی مشکل ترین گھاٹی کو عبور کرے۔
(12) اور اے پیغمبر آپ کو کچھ معلوم ہے کہ گھاٹی کیا ہے عقبہ اس پہاڑ کی گھاٹی کو کہتے ہیں جس کو عبور کرنا اور جس سے گزرنا دشوار ہوتا ہے۔ اقتحام کے معنی داخل ہوجانے اور ہمک کر اس دشوار راستے میں داخل ہوجانے کے ہیں۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنا مال ایسی راہ میں کیوں خرچ نہیں کیا جس سے وہ گھاٹی اس پر سہل اور آسان ہوجاتی ۔ یعنی انفاق فی سبیل اللہ اور دین کا اور نجات کا راستہ کیوں اختیار نہیں کیا۔ حضرت حسن اور مقاتل نے فرمایا کہ نفس کی مخالفت اور شیطانی وساوس کا مقابلہ اور اس راہ میں مشقت اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے گھاٹی سے تعبیر کیا ہے دین کے کاموں کو اس لئے گھاٹی فرمایا کہ یہ امورنفس پر شاق ہوتے ہیں۔ ہمکنا اردو کا ایک پرانا محاورہو ہے یعنی طبیعت کی رغبت سے کسی چیز کو حاصل کرنے کو بڑھنا عام طور سے چھوٹ شیر خوار بچہ جب گود میں آنے کو ہاتھ بڑھاتا اور اچھلتا ہے تو اس کو ہمکنا بولتے ہیں گھاٹی کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے سوال فرمایا۔ وما ادرک ما العقبہ یعنی آپ کو کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے یعنی دین کی گھاٹی یا قیامت کی وہ گھاٹی جس کا عبور کرنا بدون ان اعمال کے مشکل ہوگا آگے ان اعمال کا ذکر فرمایا جن میں بظاہر مشقت اور تکلیف ہے لیکن ان اعمال سے قیامت کے دن تمام دشوار تر گھاٹیاں آسان ہوجائیں گی۔