Surat ul Balad
Surah: 90
Verse: 4
سورة البلد
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ؕ﴿۴﴾
We have certainly created man into hardship.
یقیناً ہم نے انسان کو ( بڑی ) مشقت میں پیدا کیا ہے ۔
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ؕ﴿۴﴾
We have certainly created man into hardship.
یقیناً ہم نے انسان کو ( بڑی ) مشقت میں پیدا کیا ہے ۔
Verily, We have created man in Kabad. Ibn Abi Najih and Jurayj reported from `Ata, from Ibn Abbas concerning the phrase `in Kabad', "He was created while in hardship. Don't you see him" Then he mentioned his birth and the sprouting of his teeth. Mujahid said, فِى كَبَدٍ (in Kabad.) "A drop of sperm, then a clot, then a lump of flesh, enduring in his creation." Mujahid then said, "This is similar to Allah's statement, حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهاً وَوَضَعَتْهُ كُرْهاً His mother bears him with hardship. And she brings him forth with hardship. (46:15) and she breast-feeds him with hardship, and his livelihood is a hardship. So he endures all of this." Sa`id bin Jubayr said, لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنسَـنَ فِى كَبَدٍ (Verily, We have created man in Kabad). "In hardship and seeking livelihood." Ikrimah said, "In hardship and long-suffering." Qatadah said, "In difficulty." It is reported from Al-Hasan that he said, "Enduring the hardships of the world by life and the severity of the Hereafter." Man is encompassed by Allah and His Bounties Allah says, أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ
4۔ 1 یعنی اس کی زندگی محنت و مشقت اور شدائد سے معمور ہے۔ امام طبری نے اس مفہوم کو اختیار کیا ہے، یہ جواب قسم ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ (Indeed We have created man [ to live ] in hard struggle…90:4) The word kabad means &labour, &toil& or &difficulty&. The verse purports to say that man&s life is a series of hard and toilsome works. Ibn ` Abbas (رض) says: &Man was conceived and held in his mother&s womb. The mother bore the pangs of birth. The hardship of sucking the mother&s milk and the difficulty of weaning. This is followed by seeking livelihood and other necessities of life with hardship. Then he endures hardships and long-suffering of old age, death, grave, resurrection, accountability of deeds before Allah, reward and punishment.& These difficulties and hardships are not confined to man. Other animals too share them. Man has particularly been mentioned in this connection because of his intelligence. The more the power of a creature&s intelligence, the higher the degree of his legal obligation. Lastly, the greatest difficulty and hardship would be borne at resurrection and life-after-death, when we will be required to give an account of the deeds we might have done throughout our life. Other species of animals will not be required to do this. Some scholars say that no creation suffers as much difficulties or hardships as human beings, despite the fact that his body is smaller and weaker than most other animals. Man&s brainpower, however, is most powerful. Therefore, he has been specifically mentioned. Swearing an oath by Makkah, &Adam and his children, Allah has made it plain that man has been created in difficulties and to endure hardships. This is a proof that man did not come into existence on his own but his Creator is an All-Powerful Being who has, in His wisdom, created every species of creation with specific predisposition and capacity of actions. If man had any part in his own creation, he would never have allowed such difficulties and hardships for himself. [ Qurtubi ] Absolute Comfort, without Hardship, Is not Possible in the World: Man Must be Prepared to Endure Hardships The oath and its subject makes plain to man that his desire to live peacefully and comfortably in this world, without enduring any hardship, is a silly idea and false notion, which is not possible to happen. Therefore, it is necessary for difficulty, hardship, distress and affliction to befall every person. Since they are bound to befall, a wise person should be in readiness to work hard for something that may help him for an eternal life. The only factor that will help him for this is faith and obedience to the Truth. Then, after describing a few of the ignorant disbeliever&s qualities, the following verse says about an unbeliever: أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَهُ أَحَدٌ (Does he think that no one has seen him?...90:7) that is, his evil deeds. He should realise that his Creator watches every action of his.
لقد خلقنا الانسان فی کبد، کبد کے لفظی معنے محنت ومشقت کے ہیں۔ معنے یہ ہیں کہ انسان اپنی فطرت سے ایسا پیدا کیا گیا ہے کہ اول عمر سے آخر تک محنتوں اور مشقتوں میں رہتا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ابتدائے حمل سے رحم مادر میں محبوس رہا پھر ولادت کے وقت کی محنت ومشقت برداشت کی، پھر ماں کا دودھ پینے پھر اسکے چھوٹنے کی محنت اور پھر اپنے معاش اور ضروریات زندگی فراہم کرنے کی مشقت پھر بڑھاپے کی تکلیفین پھر موت پھر قبر، پھر حشر اور اس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال کی جوابدہی پھر جزا وسزا، یہ سب دور اس پر محنتوں ہی کے آتے ہیں، اور یہ محنت ومشقت اگرچہ انسان کے ساتھ مخصوص نہیں سب جانور بھی اس میں شریک ہیں مگر اس حال کو انسان کے لئے بالخصوص اسلئے فرمایا کہ اول تو وہ سب جانوروں سے زیادہ شعور و ادراک رکھتا ہے اور محنت کی تکلیف بھی بقدر شعور زیادہ ہوتی ہے، دوسرے آخری اور سب سے بڑی محنت محشر میں دوبارہ زندہ ہو کر عمر بھر کے اعمال کا حساب دینا ہے وہ دوسرے جانوروں میں نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا کہ کوئی مخلوق اتنی مشقتیں نہیں جھیلتی جتنی انسان برداشت کرتا ہے باوجود یکہ وہ جسم اور جثہ میں اکثر جانوروں کی نسبت ضعیف و کمزور ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ انسان کی دماغی قوت سب سے زیادہ ہے اس لئے اس کی تخصیص کی گئی۔ مکہ مکرمہ اور آدم واولاد آدم (علیہ السلام) کی قسم کھا کر حق تعالیٰ نے اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ انسان کو ہم نے شدت و محنت اور مشقت ہی میں اور اسی کے لئے پیدا کیا ہے جو اس کی دلیل ہے کہ انسان خود بخود پیدا نہیں ہوگیا یا اس کو کسی دوسرے انسان نے جنم نہیں دیا بلکہ اس کا پیدا کرنے والا ایک قادر مختار ہے جس نے اپنی حکمت سے ہر مخلوق کو خاص خاص مزاج اور خاص اعمال و افعال کی استعداد دے کر پیدا کیا ہے اگر انسان کی تخلیق میں خود انسان کو کچھ دخل ہوتا تو وہ اپنے لئے یہ محنتیں مشقتیں کبھی تجویز نہ کرتا (قرطبی) دنیا میں مکمل راحت جس میں کوئی تکلیف نہ ہو کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی اسلئے انسان کو چاہئے کہ مشقت کیلئے تیار رہے اس قسم اور جواب قسم میں انسان کو اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ تمہاری جو یہ خواہش ہے کہ دنیا میں ہمیشہ راحت ہی راحت ملے کسی تکلیف سے سابقہ نہ پڑے یہ خیال خام ہے جو کبھی حاصل نہیں ہوگا اسلئے ضروری ہے کہ ہر شخص کو دنیا میں محنت ومشقت اور رنج و مصیبت پیش آئے اور جب ممشقت وکلفت پیش آنا ہی ہے تو عقلمند کا کام یہ ہے کہ یہ محنت ومشقت اس چیز کیلئے کرے جو اس کو ہمیشہ کام آوے اور دائمی راحت کا سامان بنے اور وہ صرف ایمان اور اطاعت حق میں منحصر ہے۔ آگے غافل اور آخرت کے منکر انسان کی چند جاہلانہ خصلتوں کا ذکر کرکے فرمایا ایحسب ان لم یرہ احد یعنی کیا یہ بیوقوف سمجھتا ہے کہ اس کے اعمال بد کو کسی نے دیکھا نہیں اس کو جاننا چاہئے کہ اس کا خالق اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍ ٤ ۭ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ كبد الْكَبِدُ معروفة، والْكَبَدُ والْكُبَادُ توجّعها، والْكَبْدُ إصابتها، ويقال : كَبِدْتُ الرجل : إذا أصبتَ كَبِدَهُ ، وكَبِدُ السّماء : وسطها تشبيها بکبد الإنسان لکونها في وسط البدن . وقیل : تَكَبَّدَتِ الشمس : صارت في كبد السّماء، والْكَبَدُ : المشقّة . قال تعالی: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي كَبَدٍ [ البلد/ 4] تنبيها أنّ الإنسان خلقه اللہ تعالیٰ علی حالة لا ينفكّ من المشاقّ ما لم يقتحم العقبة ويستقرّ به القرار، كما قال : لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَنْ طَبَقٍ [ الانشقاق/ 19] . ( ک ب د ) الکبد جگر کو کہتے ہیں اور الکبد والکباد کے معنی دود جگر کے ہیں ۔ اور لکبد ( مصدر) کے معنی جگر پر مارنے کے ہیں اس سے کبدت الرجل ( س ) کا محاورہ ہے ۔ یعنی جگر پر مارنا ۔ پھر انسان کا جگر چونکہ وسط جسم میں ہوتا ہے اس لئے تشبیہ کے طورپر وسط ) آسمان کو کبد السماء کہاجاتا ہے ۔ تکبدت الشمس ( آفتاب ) کا وسط آسمان میں پہنچنا) نیز الکبد کے معنی مشقت بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي كَبَدٍ [ البلد/ 4] کہ ہم نے انسان کو تکلیف ( کی حالت ) میں رہنے والا ) بنایا ہے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان کی ساخت ہی اللہ تعالیٰ نے کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب تک دین کی ) گھاٹی پ رہو کر نہ گزرے وہ نہ تو رنج ومشقت سے نجات پاسکتا ہے ۔ اور نہ ہی اس ( حقیقی ) چین نصیب ہوسکتا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَنْ طَبَقٍ [ الانشقاق/ 19] کہ تم درجہ بدرجہ ( رتبہ اعلیٰ پر) چڑھوگے ۔
ان تمام چیزوں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے انسان مثلاً کلدہ کو معتد القامت پیدا کیا ہے یا یہ کہ دنیا و آخرت کی بڑی مشقت میں پیدا کیا، یا یہ کہ قوت و سختی میں پیدا کیا ہے۔
آیت ٤{ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ ۔ } ” بیشک ہم نے انسان کو پیدا ہی محنت اور مشقت میں کیا ہے۔ “ سورة الانشقاق میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : { یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ ۔ } ” اے انسان ! تو مشقت پر مشقت برداشت کرتے جا رہا ہے اپنے رب کی طرف ‘ پھر تو اس سے ملنے والا ہے “۔ انسانی زندگی کے بارے میں یہ تلخ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس دنیا میں کوئی انسان جیسا ہے جہاں ہے ‘ غریب ہے ‘ امیر ہے ‘ صاحب اقتدار ہے ‘ فقیر ہے ‘ کلفت ‘ مشقت ‘ کو فت ‘ پریشانی اس کا مقدر ہے۔ کوئی انسان جسمانی محنت کے ہاتھوں بےحال ہے تو کوئی ذہنی مشقت کی وجہ سے پریشان ۔ کوئی جذباتی اذیت سے دوچار ہے تو کوئی نفسیاتی خلفشار کا شکار ہے۔ کوئی کوڑی کوڑی کا محتاج ہے تو کسی کے لیے دولت کے انبار وبال جان ہیں ‘ کسی کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تو کوئی مخملی گدیلوں پر لیٹا نیند کو ترستا ہے ۔ غرض مختلف انسانوں کی مشقت کی کیفیت ‘ نوعیت اور شدت تو مختلف ہوسکتی ہے مگر مشقت اور پریشانی سے چھٹکارا جیتے جی کسی کو بھی نہیں ہے۔ بقول غالب ؎ قید ِحیات و بند ِغم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں ! بظاہر تو یہ صورت حال بھی بہت گھمبیر محسوس ہوتی ہے ‘ لیکن انسان کی اصل مشکل اس سے کہیں بڑی ہے اور وہ مشکل یہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی میں پیش آنے والی یہ تمام پریشانیاں اور سختیاں بھی سہنی ہیں اور اس کے بعد اپنے ربّ کے حضور پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب بھی دینا ہے۔ سورة الانشقاق کی مذکورہ آیت میں اسی ” ملاقات “ کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے انسان کی قسمت کا حتمی فیصلہ تو اسی ملاقات میں ہونا ہے۔ اس ساری صورتحال میں انسان کی اصل مشقت ‘ اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی کا اندازہ لگانا ہو تو ایک ایسے انسان کا تصور کریں جو زندگی بھر ” دنیا “ حاصل کرنے کے جنون میں کو لہو کا بیل بن کر محنت و مشقت کی چکی ّمیں ِپستا اور طرح طرح کی ذہنی و نفسیاتی اذیتوں کی آگ میں جلتا رہا۔ پھر مشقتوں پر مشقتیں برداشت کرتا اور تکلیفوں پر تکلیفیں جھیلتا یہ انسان جب اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوا تو اس کا دامن مطلوبہ معیار و مقدار کی نیکیوں سے خالی تھا۔ چنانچہ اس عدالت سے اسے دائمی سزا کا حکم ہوا : { وَیَصْلٰی سَعِیْرًا ۔ } (الانشقاق) اور اس کے بعدا سے جہنم میں جھونک دیا گیا۔۔۔۔ ہمیشہ ہمیش کے لیے ! یہ ہے انسان کی اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی جس کا تصور بھی روح فرسا ہے۔ چناچہ ہر انسان کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ : اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟
5 This is that for which the oaths as mentioned above have been sworn. Man's being created in toil means that tnan in this world has not been created to enjoy himself and live a life of ease and comfort, but the world for him is a place of enduring and undergoing toil, labour and hardship, and no man can be immune from this. The city of Makkah is a witness that a servant of Allah toiled and struggled hard, then only did it become a city and the centre of Arabia. In this city of Makkah the condition of Muhammad (upon whom be Allah's peace) is a witness that he is enduring every kind of hardship for the sake of a mission; so much so that there is full peace here for the wild animals but no peace for him. Then, every man's survival, from the tithe he is conceived in the mother's womb till the last breath of life, is a witness that he has to pass through trouble, toil, labour, dangers and hardships at every step. The most fortunate of us is also exposed to grave dangers of death before birth or of elimination by abortion while in the mother's womb. At birth he is only a hair-breadth away from death. After birth he is so helpless that had there not been somebody to look after him, he would perish uncared for and un-noticed. When he became able to walk he stumbled at every step. Froth childhood to youth and old age he had to pass through such physical changes that if any change had taken a wrong turn, his very life would have been at stake. Even if he is a king or a dictator, he at no time enjoys internal peace from the tear that a rebellion might arise against him somewhere. Even if he is a conqueror he is never at peace from the danger that one of his generals might rise in revolt against him Even if he is a Korah of his time, he is ever anxious to increase his wealth and to safeguard it. Thus, there is no one who may he enjoying perfect peace freely and without hesitation, for man indeed has been created into a life of toil and trouble.
سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :5 یہ ہے وہ بات جس پر وہ قسمیں کھائی گئی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں ۔ انسان کے مشقت میں پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں مزے کرنے اور چین کی بنسری بجانے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کے لیے یہ دنیا محنت اور مشقت اور سختیاں جھیلنے کی جگہ ہے اور کوئی انسان بھی اس حالت سے گزرے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہ شہر مکہ گواہ ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے اپنی جان کھپائی تھی تب یہ بسا اور عرب کا مرکز بنا ۔ اس شہر مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت گواہ ہے کہ وہ ایک مقصد کے لیے طرح طرح کی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں ، حتی کہ یہاں جنگل کے جانوروں کے لیے امان ہے مگر ان کے لیے نہیں ہے ۔ اور ہر انسان کی زندگی ماں کے پیٹ میں نطفہ قرار پانے سے لے کر موت کے آخری سانس تک اس بات پر گواہ ہے کہ اس کو قدم قدم پر تکلیف ، مشقت ، محنت ، خطرات اور شدائد کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ جس کو تم بڑی سے بڑی قابل رشک حالت میں دیکھتے ہو وہ بھی جب ماں کے پیٹ میں تھا تو ہر وقت اس خطرے میں مبتلا تھا کہ اندر ہی مرجائے یا اس کا اسقاط ہو جائے ۔ زچگی کے وقت اس کی موت اور زندگی کے درمیان بال بھر سے زیادہ فاصلہ نہ تھا ۔ پیدا ہوا تو اتنا بے بس کہ کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہوتا تو پڑے پڑے ہی سسک سسک کر مر جاتا ۔ چلنے کے قابل ہوا تو قدم قدم پر گرا پڑتا تھا بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک ایسے ایسے جسمانی تغیرات سے اس کو گزرنا پڑا کہ کوئی تغیر بھی اگر غلط سمت میں ہو جاتا تو اس کی جان کے لالے پڑ جاتے ۔ وہ اگر بادشاہ یا ڈکٹیٹر بھی ہے تو کسی وقت اس اندیشے سے اس کو چین نصیب نہیں ہے کہ کہیں اس کے خلاف سازش سے کوئی بغاوت نہ کر بیٹھے ۔ وہ اگر اپنے وقت کا قارون بھی ہے تو اس فکر میں ہر وقت غلطاں و پیچاں ہے کہ اپنی دولت کیسے بڑھائے اور کس طرح اس کی حفاظت کرے ۔ غرض کوئی شخص بھی بے غل و غش چین کی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہے ، کیونکہ انسان پیدا ہی مشقت میں کیا گیا ہے ۔
3: یہ ہے وہ بات جو قسم کھاکر فرمائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں اِنسان کو اِس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مشقت میں لگارہتا ہے، چاہے کوئی کتنا بڑا حاکم ہو، یا دولت مند شخص ہو، اُسے زندہ رہنے کے لئے مشقت اُٹھانی ہی پڑتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اُسے دُنیا میں کبھی کوئی محنت نہ کرنی پڑے تو یہ اُس کی خام خیالی ہے، ایسا کبھی ممکن ہی نہیں ہے، ہاں مکمل راحت کی زندگی جنّت کی زندگی ہے جو دُنیا میں کی ہوئی محنت کے نتیجے میں ملتی ہے۔ ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اِنسان کو دُنیا میں جب کسی مشقت کا سامنا ہو تو اُسے یہ حقیقت یاد کرنی چاہئے، خاص طور پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کو مکہ مکرَّمہ میں جو تکلیفیں پیش آرہی تھیں، اِس آیت نے اُن کو بھی تسلی دی ہے، اور یہ بات کہنے کے لئے اوّل تو شہرِ مکّہ کی قسم کھائی ہے، شاید اس لئے کہ مکہ مکرَّمہ کو اگرچہ اﷲ تعالیٰ نے دُنیا کا سب سے مقدس شہر بنایا ہے، لیکن وہ شہر بذاتِ خود مشقّتوں سے بنا، اور اُس کے تقدس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے آج بھی مشقت کرنی پڑتی ہے، پھر خاص طور پر اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقیم ہونے کا حوالہ دینے میں شاید یہ اشارہ ہے کہ افضل ترین پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم، افضل ترین شہر میں مقیم ہیں، لیکن مشقّتیں اُن کو بھی اُٹھانی پڑرہی ہیں۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کی ساری اولاد کی قسم کھانے سے اشارہ ہے کہ اِنسان کی پوری تاریخ پر غور کرجاؤ، یہ حقیقت ہر جگہ نظر آئے گی کہ اِنسان کی زندگی مشقتوں سے پر رہی ہے۔
(90:4) لقد خلقنا الانسان فی کبد۔ یہ جواب قسم ہے لام تاکید کا ہے۔ قد فعل ماضی ساتھ تحقیق کے معنی دیتا ہے اور اس جملہ فعلیہ میں جو کہ قسم کے جواب میں آیا ہو تاکید کا فائدہ دیتا ہے۔ تحقیق ہم نے پیدا کیا۔ الانسان ۔ خلقنا کا مفعول ہے۔ اس میں الف لام جنس کا ہے (کوئی انسان ہو) یا یہ ال عہد کا ہے۔ لیکن یہ اس روایت کے بموجب ہوگا۔ کہ یہ آیت ابو الاشد کے متعلق نازل ہوئی۔ اس کا نام اسید بن کلدہ بن الجمحی تھا۔ بڑا طاقتور تھا ۔ عکاظی چمڑا اپنے پاؤں کے نیچے دبا کر کہتا تھا کہ جو اس چمڑے سے میرے قدم ہٹا دے گا اس کو اتنا انعام ملے گا۔ لیکن کوئی اس کے قدم کو ہٹا نہ سکتا یہاں تک کہ چمڑا کھینچنے سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا تھا اور قدم اپنی جگہ جما رہتا تھا۔ کبد بمعنی فضا۔ ریت کے تودے کا درمیانی حصہ۔ دن کا وسط۔ مصیبت، مشقت۔ الکبد بمعنی جگر ہے اور الکبد بطور کبد یکبد کے مصدر کے جگر پر مار کر زخمی کرنا ہے۔ ترجمہ آیت :۔ تحقیق ہم نے انسان کو تکلیف و مشقت (کی حالت) میں (رہنے والا) بنایا ہے۔ اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے کہ انسان کی ساخت ہی اللہ تعالیٰ نے کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب تک دین کی گھاٹی پر ہو کر نہ گزرے وہ نہ تو رنج و مشقت سے نجات پاسکتا ہے اور نہ ہی اسے (حقیقی) چین نصیب ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : لترکبن طبقا عن طبق (84:19) رم درجہ بدرجہ (رتبہ اعلیٰ پر) چڑھو گے ۔ (المفردات) بعض علماء کے نزدیک مشقت میں پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان پیدائش سے لے کر موت تک کسی نہ کسی مشقت و مصیبت میں گرفتار رہتا ہے خواہ وہ مصیبت اس کی اپنی ذات سے ہو یا دوسروں کے ساتھ معاشی و معاشرتی روابط کے سلسلہ میں پیش آنے والی ہو۔ (نیز ملاحظہ ہو تفسیر حقانی)
ف 14 یعنی ابتداء سے انتہا تک سختیاں اور مصیبتیں ہی جھیلتا رہتا ہے کبھی بیماری میں گرفتار ہے کبھی رنج میں کبھی فقر و فاقہ میں اور کبھی کسی اور فکر میں۔ عمر بھر میں مشکل ہی سے کوئی لمحہ آتا ہے جب وہ ہر لحاظ سے بےفکر اور مطمئن ہو
3۔ چناچہ عمر میں کہیں مرض میں کہیں رنج میں کہیں فکر میں اکثر اوقات مبتلا رہتا ہے اور اس کا مقتضا یہ تھا کہ اس میں عجز و درماندگی پیدا ہوتی اور اپنے کو بستہ حکم قضا سمجھ کر مطیع امرو تابع رضا ہوتا لیکن انسان کافر کی یہ حالت ہے کہ بالکل بھول میں پڑا ہے۔
اور اس قسم کا جواب کیا ہے ، کس حقیقت کے اظہار کے لئے یہ قسم اٹھالی گئی۔ لقد ................ فی کبد (4:90) ” درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے “۔ سخت جدوجہد اور مشقت میں سخت کشمکش اور مصائب کے مقابلے کی حالت میں پیدا کیا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ یایھا ................................ فملقیہ (6:84) ” اے انسان تو سخت مشقت کرتا ہوا اپنے رب کی طرف جارہا ہے اور آخرکار تو اس سے ملنے والا ہے “۔ رحم کے اندر جب ایک خلیہ قرار پکڑتا ہے تو وہ پہلے دن ہی سے جہد ومشقت شروع کردیتا ہے کہ اپنے لئے غذا فراہم کرے اور آنے والی زندگی کے لئے اچھے حالات فراہم کرے ، یہ تمام کام وہ رب تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق کرتا ہے۔ رحم کے اندر یہ اسی طرح جدوجہد میں ہوتا ہے ، یہاں تک کہ اس کے نکلنے کا وقت آتا ہے تو اپنی ماں کی طرح یہ بھی درد زہ کی تکالیف سہتا ہے ، اس پر رحم مادر سے نکلتے وقت سخت دباﺅ پڑتا ہے ، پھر جب نکلتا ہے اور روشنی دیکھتا ہے تو بھی اس پر دباﺅ ہوتا ہے۔ باہر آتے ہی ایک نئی جدوجہد شروع ہوتی ہے ، جب یہ ہوا کھینچتا ہے اور سانس لینے کا عمل شروع کرتا ہے اور پہلی مرتبہ وہ منہ کھولتا ہے ، تو اس کے پھیپھڑے کام شروع کرتے ہیں تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے اور وہ چلانے لگتا ہے ، اس کا خون دوران شروع کرتا ہے۔ پھر اس کا نظام ہضم کام شروع کرتا ہے اور یہ سب اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا وہ عادی نہیں ہوتا ، اس کی انتڑیاں فضلات خارج کرنے کی عادی نہیں ہوتیں۔ غرض اس کے بعد اس کا ہر قدم مشقت میں اٹھتا ہے ، ہر حرکت مشقت ہوتی ہے۔ ذرا دیکھئے اب یہ گھٹنوں کے بل چل رہا ہے ، پھر یہ پاﺅں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے اور چلتا ہے ، یہ سب مشقتیں ہیں اور ہر مرحلے پر جدوجہد کرتی ہیں۔ پھر جب دانت نکلتے ہیں تو مشقت ، سیدھا کھڑے ہونے میں مشقت اور جم کر چلنے میں مشقت ، تعلیم حاصل کرنے میں مشقت ، غوروفکر کرنے میں مشقت ، غرض جو جدید تجربہ وہ کرتا ہے ، جس طرح گھٹنوں کے بل چلنے کا تجربہ اس نے کیا یہ سب مشقت اور جدوجہد ہے۔ اب ذرا آگے پڑھئے ، اب ان مشقتوں کی شاخیں نکل آتی ہیں۔ یہ دیکھو ، اپنے عضلات سے مزدوری کرنے کی مشقت کرتا ہے۔ دوسرا اپنی فکر سے مشقت کرتا ہے ، یہ روح کے ساتھ محنت کررہا ہے ، یہ دیکھو ایک لقمہ جویں کے لئے مشقت کررہا ہے ، یہ دوسرے کیڑے کے لئے جدوجہد کررہا ہے ، اور یہ دوسرا ہزار کو دو ہزار بنارہا ہے۔ پھر دس ہزار اور آگے ، یہ دیکھو ایک حکومت اور مرتبے کے لئے جدوجہد کررہا ہے ، ان میں ایک دیکھو اللہ کے راستے میں جدوجہد کررہا ہے ، بعض عیاشیوں اور خواہشات کے بندے ہیں ، بعض جہنم کے لئے محنت کررہے ہیں اور ان کے مقابلے دوسرے جنت کے لئے جدوجہد کررہے ہیں ، ہر شخص اپنا بوجھ اٹھائے ہوئے جارہا ہے اور بڑی مشقت کے ساتھ رب کے قریب ہورہا ہے ، اور جب میدان حشر میں اللہ کے سامنے سب کھڑے ہوں گے تو پھر بدبختوں کو دائمی مشقت اور مصیبت میں گرفتار ہونا ہوگا اور نیکوکاروں اور نیک بختوں کو عظیم نعمت اور آرام سے ملے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی ایک مشقت ہی ہے ، لیکن اس کی مشقت کی شکلیں مختلف ہیں ، نوعیت کے اختلاف کے باوجود اصل میں یہ زندگی کی مشقت ہی ہے۔ لیکن عظیم خسارہ اٹھانے والا شخص وہ ہے جو اس دنیا کی پوری مشقت اور مسلسل تکلیفات اٹھا کر نہایت ہی دائمی ، تلخ مشقت تک جا پہنچتا ہے اور جہنم رسید ہوتا ہے اور اس جدوجہد میں سب سے زیادہ کامیاب وہ شخص ہوتا ہے جو نہایت ہی تکلیف دہ انداز میں اپنے رب کی طرف بڑھتا ہے اور ایسی کمائی کرکے اس دنیا کی زندگی کا بوجھ اپنے کاندھوں سے اتارتا ہے اور آخر کار دائمی کامیابی حاصل کرتا ہے اور دائمی راحت پاتا ہے۔ ہاں یہ ہے کہ بعض اوقات اس دنیا کی مشقتوں کا بعض انعام اس دنیا میں بھی مل جاتا ہے ، کیونکہ جو شخص کسی اعلیٰ مقصد کے لئے جدوجہد کرتا ہے ، وہ اس شخص کی طرح نہیں ہوتا جو کسی حقیر سے کام کے لئے محنت کرتا ہے ۔ ایک اعلیٰ مقاصد کے لئے جان ومال خرچ کرتا ہے اور دوسرا حقیر مقاصد کے لئے ، دونوں کی خوشی ، اطمینان اور روحانی مسرت یکساں نہیں ہوسکتی۔ جو شخص محنت اور جدوجہد کرتا ہے ، اور اس کے پیش نظر کوئی مادی مقصد نہیں ہے ، یا وہ اس مادیت سے نکلنے کی جدوجہد کررہا ہے ۔ وہ اس شخص کی طرح نہیں ہوتا جو اس مادیت کے لئے اس طرح ہلکان ہوتا جس طرح کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض پیٹ بھرنے کے لئے مشقت کرتے ہیں۔ جو شخص اقامت دین کی جدوجہد کرتا ہے۔ وہ اس شخص کی طرح نہیں ہوتا جو کسی دنیاوی خواہش کے پیچھے مرتا ہے ، دونوں کی مشقت ، شعور احساس برابر نہیں ہوتے۔ زندگی کی حقیقت واضح کرنے کے بعد انسان کے بعض مزعومات ، تصورات اور بعض دعوﺅں اور بعض تصرفات پر ناقدانہ تبصرہ کیا جاتا ہے !
﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ كَبَدٍؕ٠٠٤ ﴾ (یہ واقعی بات ہے کہ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا فرمایا) ۔ انسان اشرف المخلوقات ﴿اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ﴾ میں پیدا فرمایا ہے وہ اپنے احوال میں مشقتوں تکلیفوں میں مبتلا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے شرف بھی بخشا اور مشکلات اور مسائل میں بھی مبتلا فرما دیا، اس کی اپنی دنیاوی حاجات اور ضروریات جان کے ساتھ ایسی لگی ہوئی ہیں جو اس کے لیے مشقتوں کا باعث ہوتی ہیں، انسان کو کھانے پینے کو بھی چاہیے، پہننے کی بھی ضرورت ہے، رہنے کے لیے مکان بھی چاہیے ساتھ ہی بیماریاں بھی لگی ہوئی ہیں وہ خود تو مصیبت ہیں ہی ان کے علاج کے لیے تدبیریں بھی کرنی پڑتی ہیں اور مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے، مال آسانی سے حاصل نہیں ہوتا اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ پہاڑ توڑنے پڑتے ہیں بوجھ ڈھونا پڑتا ہے نیند چھوڑ کر ڈیوٹی پر جانا پڑتا ہے، حالت مرض میں بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں جی نہیں چاہتا مگر ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نفس کو دبا کر کام پر جانا ہوتا ہے، غذا کو زمین سے حاصل کرنا پڑتا ہے، زمین میں ٹریکٹر چلاؤ یا ہل کو ہلاؤ بیج ڈالو، پودے نکلیں تو پانی دیتے رہو کھیتی پک جائے تو اسے کاٹو، کاٹنے کے بعد بھوسے سے دانے کو نکالو پھر اسے پیسو پھر گوندھو، پھر روٹی پكاؤ چاول ہوں تو دیگچہ چڑھاؤ۔ اور اسی پر بس نہیں بلکہ کھاؤ بھی اور نکالو بھی۔ قبض ہوگیا تو دوا تلاش کرو، دست ہوگئے تو بار بار جاؤ، نکاح نہ ہو تو مشکل، نکاح ہوگیا تو بچوں کی پیدائش اور ان کی پرورش اور ان کے دکھ درد کا سامنا، یہ سب دنیاوی مسائل اور مشکلات کی چند مثالیں ہیں۔ غور کریں گے تو اور بہت سی چیزیں سامنے آئیں گی۔ یہ تو دنیاوی مشکلات کی طرف کچھ اشارہ ہوا دین پر عمل میں بھی نفس کو تکلیف ہوتی ہے۔ نیند چھوڑ کر نماز پڑھنی پڑتی ہے روزے رکھ کر بھوک پیاس برداشت کرنی پڑتی ہے نفس نہیں چاہتا پھر بھی زکوٰۃدینی پڑتی ہے۔ حج میں پیسہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے اور تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے، وغیرہ وغیرہ یہ مشکلات انسان کی جان کے ساتھ ہیں، دوسری مخلوق ان چیزوں سے آزاد ہے۔ جو شخص کوئی بھی تکلیف اللہ کی رضا کے لیے برداشت کرے گا آخرت میں اس کا ثواب پائے گا اور جو شخص محض دنیا کے لیے عمل کرے گا اس کو آخرت میں کچھ نہ ملے گا۔ اور اگر گناہ کرے گا (جن میں اپنے اعضاء کو اور مال کو استعمال کرے گا) تو اس کی سزا پائے گا۔ جب انسان مشقت اور دکھ تکلیف میں مبتلا ہوتا رہتا ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ یہ سب کچھ جو میرے پاس ہے میرے خالق ومالک کا دیا ہوا ہے تو اسے اللہ جل شانہ کا مطیع اور فرمانبردار ہونا اور ہر حال میں اسی کی طرف متوجہ رہنا لازم تھا، اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرنا اور اس کی عبادتیں بھی کرنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا۔ لیکن انسان کا یہ طریقہ ہے کہ باغی بن کر رہتا ہے اپنے خالق اور مالک کے مواخذہ سے نہیں ڈرتا۔
3:۔ ” لقد خلقنا “ یہ جواب قسم ہے مذکورہ قسمیں شاہد ہیں کہ انسان کو ہم نے مشقت میں پیدا کیا ہے اور انسان کو مشقت اور شدت میں ڈالنا ہمارے اختیار میں ہے۔ ” کبد “ مشقت۔ فالمراد من کبد النصب والمشقۃ (مظہری) فی کبد مشقۃ یکابد مصائب الدنیا وشدائد الاخرۃ (مدارک) ۔
(4) کہ انسان کو ہم نے بڑی محنت اور مشقت میں رہنے والا بنایا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ساری عمر محنت میں رہے خالی کبھی نہیں۔ خلاصہ : یہ ہے کہ حرارت ، بردوت، رطوبت، یبوست کا مجموعہ ہر وقت کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے اخلاط کی کشمکش میں گھرا رہتا ہے ، کبھی سر میں درد کبھی دانتوں میں تکلیف کبھی پیٹ میں درد ، پھر اپنے اور پرایوں کا دکھ اور تکلیف ، پھر بیماری اور مرض الموت ، پھر مرنا اور قبر کی وحشت پھر میدان حشر کی صعوبات ۔ غرض انسان کی بناوٹ اور زندگی کیا ہے ایک مجموعہ رنج والم ہے اور مشقت و محنت اور گوناگوں تکالیف کا گہوارہ ہے۔ اس کو فرمایا لقد خلقنا الانسان فی کبد بعض حضرات نے کبد کی تفسیر استوا اور اعتدال سے کی ہے اور یہ معنی کئے ہیں کہ انسان کو ہم نے معتدل القامت بنایا ہے بخلاف دوسرے حیوانات کے بہرحال علماء نے سابقہ معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کے ہاتھوں سے جو اذیت اور مشقت جھیلتے تھے اس کے متعلق آپ کو ایک گونہ تسلی اور کفار کو من وجہ تو بیخ مقصود ہے آگے اس توبیخ کا اظہار ہے۔