تعارف : نبی کریم خاتم الانبیاء احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ابتداء میں تیس چالیس دن تک وحی کا سلسلہ بند رہا پھر اس کے بعد لگاتار وحی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وحی بند ہونے کے بعد ایک طرف تو آپ پریشان تھے ادھر کفار مکہ کی طعن آمیز باتوں سے آپ بہت غمگین اور رنجیدہ تھے۔ وہ کہتے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا تمہارا رب تم سے ناراض ہوگیا اور وحی کا سلسلہ بند ہوگیا۔ ابو لہب کی بیوی ام جمیل نے تو یہاں تک کہہ دیا ” معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے “ نعوذ باللہ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے دن کی تیز روشنی اور چمک، رات کے اندھیرے اور تاریکی کی قسم کھا کر فرمایا اے میرے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے رب نے آپ کو نہ چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے بیزار ہوا۔ یعنی جس طرح دن کی روشنی کے بعد رات کا اندھیرا ہر طرف چھا جاتا ہے تو پھر اسی اندھیری رات سے ایک نئی صبح طلوع ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کچھ وقت کے لئے وحی کا سلسلہ بند ہوگیا تو اس سے یہ کیوں سمجھ لیا گیا کہ اب کبھی وحی نہ آئے گی۔ وقتی اندھیرے سے یہ کیوں سمجھ لیا گیا کہ اب کبھی روشنی نہ ہوگی بلکہ وہ صبح ضرور ہوگی اور اس کی روشنی ہر طرف پھیل کر رہے گی۔ یہ تو اللہ کی مصلھت ہے کہ اس نے وحی کے سلسلہ کو وقتی طور پر روک لیا ہے تاکہ آپ کے اندر وحی الٰہی کے انوارات کو قبول کرنے کی مزید صلاحیت اور سہولت پیدا ہوجائے اور آپ آسانی سے وحی کے بوجھ کو برداشت کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کے لئے ہر آنے والا دور پہلے دور سے اور موجود دنیا کے مقابلے میں آخرت زیادہ بہتر ہوگی۔ یہ مشکلات کے بادل بہت جلد چھٹ جائیں گے۔ پھر اس کے بعد آپ پر اللہ تعالیٰ کی عطا اور بخشش اتنی زیادہ ہوگی کہ آپ اس سے خوش ہوجائیں گے۔ مزید تسلی دیتے ہوئے خاص طور پر تین نعمتوں کا ذکر فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ یتیم تھے کیا اسی اللہ نے آپ کو سہار انہیں دیا تھا ؟ آپ حق کی تلاش اور جستجو میں تھے کیا اسی نے آپ کو راہ ہدایت نہیں دکھائی ؟ آپ نادار تھے کیا اسی نے مال و دولت سے آپ کو بےنیاز نہیں کردیا تھا ؟ یہ ساری نعمتیں اسی کی دی ہوئی ہیں۔ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ بےماں باپ کے بچوں پر شفقت کیجئے کسی طرح کی سختی نہ کیجئے۔ اگر کوئی سوال کرنے والا ہو تو اس کو جھڑکنے کے بجائے نرمی اختیار کیجئے۔ اور آپ کے پروردگا رنے آپ کو جن نعمتوں سے نوازا ہے اس کا ذکر اور شکر ادا کرتے رہیے۔
سورة الضّحٰی کا تعارف اس سورت کا نام اس کے پہلے لفظ پر رکھا گیا ہے یہ ایک رکوع اور گیارہ آیات پر مشتمل ہے یہ سورت مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب نبوت کے ابتدائی دور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت کی خاطر کچھ دیر کے لیے سلسلہ وحی موقوف کیا گیا۔ اس پر اہل مکہ نے پراپیگنڈا کیا کہ اس کا نبوت کا دعویٰ جھوٹا تھا اس لیے اس کے رب نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پراپیگنڈے کی تردید کے لیے تین قسمیں اٹھا کر آپ کو تسلی دی کہ آپ کی زندگی کا ہر آنے والا دور پہلے دور سے بہتر ہوگا اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس قدر عنایت فرمائے گا کہ آپ اپنے رب پر راضی ہوجائیں گے۔ اس خوشخبری کی تائید میں آپ کے ماضی کے تین ادوار کا حوالہ دے کر تلقین فرمائی کہ آپ کو اپنے رب کی نعمت کا اعتراف اور شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔
سورة الضحیٰ ایک نظر میں اپنے موضوع ، انداز تعبیر ، اپنی فضا اور اپنے اثرات کے اعتبار سے یہ سورت محبت کی ایک چٹکی ہے ، رحمت خداوندی کی باد نسیم اور محبت کا پیغام ہے۔ یہ رنج والم میں مبتلا ایک مریض کے لئے دست شفقت ہے ۔ اور یہ پوری سورت روح پرور ، رضامندی اور امید پر مشتمل ہے۔ اور مخاطب کے دل کو ٹھنڈک ، اطمینان اور یقین سے بھردیتی ہے۔ یہ پوری سورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے ، آپ کے ساتھ رب تعالیٰ کی ہمکلامی ہے ، آپ کے لئے تسلی ، تسکین اور اطمینان ہے ۔ پوری سورت میں رحمت کے جھونکے ہیں اور محبت کی شبنم ہے۔ اللہ کے قرب کی لطف اندوزیاں ہیں ، ایک تھکی روح ، ایک پریشان دل اور ایک رنجیدہ دل کے لئے تسلیاں اور تشنیاں ہیں۔ کئی روایات میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ حضور پر وحی آا کچھ عرصہ کے لئے رک گیا اور جبرائیل (علیہ السلام) نہ آئے ، مشرکین نے یہ کہنا شروع کردیا ۔ محمد کو اس کے رب نے چھوڑ دیا ہے ، اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ ان مشکل دنوں میں ، جب کہ ہر طرف سے مصائب اور مشکلات کے پہاڑ توڑے جارہے تھے ، آپ کے لئے وحی کا آنا ، اور اللہ کے ساتھ ہمکلام ہونا ایک بڑی تسلی کا ذریعہ ہوتا تھا۔ کفر و انکار کی تپش میں یہ آپ کے لئے ٹھنڈا پانی اور تکذیب کی گرمی اور شدت میں یہ آپ کے لئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہوتے تھے۔ حضور اکرم اس زمانے میں یوں دن گزار رہے تھے جس طرح کوئی سخت دوپہر کی تپش میں سفر کررہا ہو ، ہر طرف سے نفرت ، عناد ، نافرمانی اور دور بدکنے کی فضا تھی۔ یہی نہیں بلکہ آپ کے خلاف سازشیں ہورہی تھیں ، اذیت دی جارہی تھی اور دعوت اسلامی کی راہ روکی جارہی تھی ، مشرکین دعوت اسلامی اور ہدایت کی تحریک پر حملہ آورہو رہے تھے۔ ان حالات میں جب سلسلہ وحی منقطع ہوا تو حضور کا زادراہ اور سرچشمہ قوت منقطع ہوگیا اور آپ کو سیراب کرنے والا سرچشمہ خشک ہوگیا اور دل بےقرار کو اپنے محوب سے جدا کردیا گیا۔ اب آپ سخت تپش میں بغیر سازوسامان اور بغیر ٹھنڈے پانی کے رہ گئے اور محبت بھرے ہوا کے جھونکے آنا بند ہوگئے اور تمام مصائب کے مقابلے میں آپ کے لئے یہ بڑی مصیبت تھی۔ ایسے حالات میں یہ سورت نازل ہوئی ، محبت کے جھونکے آنا شروع ہوئے۔ رحمت اور محبت ، قرب اور امید اور رضا و اطمینان کا پیغام آنا شروع ہوہا۔ اور ہر طرف سے یقین کا پیغام آیا۔ ماودعک ................................ فترضی (3:93 تا 5) ” تمہارے رب نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا ، اور نہ وہ ناراض ہوا ۔ اور یقینا تمہارے لئے بعد کا دور پہلے سے بہتر ہے اور عنقریب تمہارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہوجاﺅ گے “۔ تمہارے رب نے ہرگز تمہیں نہیں چھوڑا اور نہ ناراض ہوا ہے اور نہ اس نے تم پر سے دست شفقت اٹھالیا ہے بلکہ اس کی رحمت اور مہربانی اب بھی تمہارے ساتھ شامل حال ہے۔ الم یجدک .................... فاغنی (6:93 تا 8) ” کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانہ فراہم کیا ؟ اور تمہیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی اور تمہیں نادار پایا اور پھر مالدار کردیا “۔ ذرا اپنی گزشتہ زندگی پر غور کرو ، کیا یہ حقائق اس میں نہیں پائے جاتے ؟ کیا یہ باتیں تم اپنے دل میں نہیں پاتے ، اور تمہارے زندگی کے واقعات میں اس قسم کے آثار نہیں پائے جاتے۔ ہرگز نہیں ، ہرگز نہیں ، اللہ نے تمہیں ہرگز نہیں چھوڑا۔ اور نہ وہ ناراض ہوا ہے۔ اللہ کے بھلائی تمہارے شامل حال ہے۔ نہ اس کا سلسلہ کٹا ہے اور نہ کٹے گا بلکہ آنے والا دور بہت ہی خوب ہوگا اور تم اس پر بہت ہی خوش ہوگے۔ حقیقت نفس الامری کے ان لطیف جھونکوں میں اور حقیقت پسندانہ روح کے ساتھ ، حقیقی انداز بیان اور حقیقی اثرات کے ساتھ ، پھر اس حقیقت کو جس کائناتی فریم کے اندر رکھا گیا ہے اور روز روشن اور چھا جانے والی رات کے ساتھ قسم اٹھاتے ہوئے جو بات کہی گئی ہے ، اس انداز تعبیر نے درحقیقت فضا کو نہایت لطیف اور پر محبت بنادیا ہے۔ ماحول پر رحمت و شفقت ، مکمل رضامندی اور شفاف محبت اور نجم والم کے شکوے چھائے ہوئے ہیں۔ والضحیٰ................................ فاغنی (1:93 تا 8) ” کیا اس نے تم کو یتیم پیدا نہیں پایا اور پھر ٹھکانہ فراہم کیا ؟ اور تمہیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی اور تمہیں نادار پایا اور پھر مالدار کردیا “۔ یہ ہے فضائے محبت ، یہ ہے باران رحمت ، یہ ہے مکمل رضامندی ، اور یہ شکوے جو نہایت ہی فصیح وبلیغ انداز کلام میں بیان ہورہے ہیں۔ الفاظ نرم ، نہایت مترنم ، موسیقی کی حرکات مرتب ، قدم مضبوط ، آواز بلند ، اثر دردانگیز ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے ، اس لطیف محبت ، اس الوداعی شفقت ، اس مکمل خوشنودی اور ان شفاف شکوﺅں کی تصاویر کو کہ کیا خوبصورت فریم تیار کیا گیا ہے۔ روشن دن اور چھا جانے والی رات کا فریم۔ اوقات شب وروز میں سے یہ نہایت ہی صاف اور شفاف اوقات ہوتے ہیں ، ان اوقات میں انسانی قلب ونظر غوروفکر کے لئے تیار ہوتا ہے اور انسان اس کائنات اور خالق کائنات کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ ان اوقات میں انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ پوری کائنات اپنے خالق کے آگے جھکی ہوئی ہے اور اپنے خالق کے سامنے تسبیح وتہلیل میں مصروف ہے۔ نہایت خوشی ، سرور اور مدہوشی کی حالت میں ، اس فریم کو اللہ نے کیا ہی خوبصورت نقش ونگار دیئے ہیں۔ رات کیسی ہے ؟ والیل اذا سجی (2:93) ” قسم ہے اس رات کی جب وہ پر سکون ہوجائے “۔ صرف رات نہیں ، جس میں وحشت ہوتی ہے ، تاریکیاں ہوتی ہیں ، یہ رات رکی ہوئی ہے ، پر سکون ہے ، صاف ہے ، ہاں اس پر شفاف محبت اور گلے شکوے کی بدلیاں جابجا پائی جاتی ہیں ، اور اس میں الوداعی تاملات کی کدورت بھی ہے جس طرح یتیموں اور غریبوں کی رات ہوتی ہے۔ جس کی فضاﺅں میں کدورتیں ہوتی ہیں ، اور یہ رات بھر ایک صاف و شفاف دن میں بدل جاتی ہے۔ یوں اس تصویر کے رنگ ، اس کے فریم کے رنگوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں اور یہ تصور خوب سجتی ہے۔ (یہ میری کتاب التصویر الغنی فی القرآن سے ایک اقتباس ہے) حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا بےمثال فصیح اور بدیع کلام اس بات پر دلیل ہے کہ یہ اللہ کی کمال درجے کی صفت ہے ، جس کی صفت کی کوئی نقل نہیں کرسکتا ، اور نہ کوئی اس کی تقلید میں چند قدم آگے جاسکتا ہے۔