Surat uz Dhuha

Surah: 93

Verse: 7

سورة الضحى

وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾

And He found you lost and guided [you],

اور تجھے راہ بھولا پا کر ہدایت نہیں دی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He found you unaware and guided you. This is similar to Allah's saying, وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَأ إِلَيْكَ رُوحاً مِّنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِى مَا الْكِتَـبُ وَلاَ الاِيمَـنُ وَلَـكِن جَعَلْنَـهُ نُوراً نَّهْدِى بِهِ مَن نَّشَأءُ مِنْ عِبَادِنَا And thus We have sent to you a Ruh from Our command. you knew not what is the Book, nor what is Faith. But We have made it a light wherewith We guide whosoever of our servants We will... (42:52) Allah says, وَوَجَدَكَ عَايِلً فَأَغْنَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی تجھے دین شریعت اور ایمان کا پتہ نہیں تھا، ہم نے تجھے راہ یاب کیا، نبوت سے نوازا اور کتاب نازل کی، ورنہ اس سے قبل تو ہدایت کے لئے سرگرداں تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچپن ہی سے کفر و شرک سے بیزار تھے۔ جھوٹ، بددیانتی اور اخلاق رذیلہ سے آپ کو طبعاً نفرت تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے مالک و خالق حقیقی کو ٹھیک طرح پہنچانتے تھے۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ گمراہی میں پڑے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کیسے ممکن ہے ؟ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کے اس تاریک دور میں پانچ چھ آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہم خیال اور ہمنوا تھے جن میں سرفہرست سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کا نام آتا ہے۔ یہ لوگ بھی شرک اور دوسری معاشرتی برائیوں سے سخت متنفر تھے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس معاملہ میں سب سے زیادہ متفکر رہتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تن تنہا پہاڑوں کی غاروں میں چلے جاتے۔ وہاں جاکر مالک حقیقی سے لو لگاتے اور سوچتے رہتے کہ وہ کون سا طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے جس سے مخلوق خدا کو کفر و شرک کی گمراہیوں سے بچایا جاسکتا ہے ؟ چناچہ آپ اسی غرض سے غار حرا میں مقیم تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلی بار جبریل امین کا نزول ہوا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دیرینہ تڑپ کو پورا کرنے کی راہ ہموار کردی جو ایک عرصہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ میں موجزن تھی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسان اور نعمت کا ذکر فرمایا ہے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں ضالاً کا لفظ استعمال ہوا اور ضَلَّ کا لفظ عربی زبان میں مندرجہ ذیل چھ معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ خ ضلّ کا مفہوم :۔ ١۔ ضَلَ ّکا بنیادی معنی راستہ کھو دینا یا گم کردینا ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی ایسے مقام تک جا پہنچا ہے جہاں آگے یا تو کئی راستے ہوجاتے ہیں یا کسی ایک راستہ کا بھی نشان گم ہوجاتا ہے اور وہ وہاں یہ سوچنے لگتا ہے کہ اب کیا کرے ؟ وہیں کھڑے کا کھڑا رہ جائے ؟ یا اگر کوئی راستہ اختیار کرے تو کون سی راہ اختیار کرے ؟ کسی شخص کے اس طرح راہ گم کردینے کو لفظ ضَلَّ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس آیت میں ضالا خ آپ ضالّ کن معنوں میں تھے ؟۔ ٢۔ پھر کبھی انسان اسی حیرانگی کے عالم میں کسی غلط راستے پر بھی جا پڑتا ہے۔ اب اگر یہ غلط راستے پر پڑنا غیر ارادی طور پر اور سہواً ہو تو ضَلَّ کے معنی بھولنا ہوں گے۔ جیسے فرمایا : (اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىھُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى ٢٨٢۔ ) 2 ۔ البقرة :282) یعنی اگر ان دونوں عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ ٣۔ اور اگر غلط راستے پر پڑنا اور راہ راست سے ہٹ جانا ارادہ کے ساتھ یعنی عمداً ہو تو یہ گناہ ہے جیسے فرمایا : (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِیْنَ ) (١: ٧) یعنی نہ تو ان لوگوں کی راہ دکھانا جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ گمراہوں گی۔ اور احادیث میں یہ صراحت ملتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عدی بن حاتم کو فرمایا تھا کہ (مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ ) الفاتحه سے مراد یہود اور (ضَالِّیْنَ ) سے مراد نصاریٰ ہیں جو عقیدہ تثلیث کے موجد اور قائل تھے۔ ٤۔ اور کبھی یہ لفظ کسی چیز کے اپنے وجود کو کھو کر دوسری چیز کے مل جانے کے معنوں میں آتا ہے جیسے کافر کہتے ہیں کہ ( وَقَالُوْٓا ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِي الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ ڛ بَلْ هُمْ بِلِقَاۗئِ رَبِّهِمْ كٰفِرُوْنَ 10 ؀) 32 ۔ السجدة :10) یعنی جب ہم زمین میں مل کر زمین ہی بن جائیں گے تو کیا از سر نو پیدا ہوں گے ؟ ٥۔ اور کبھی یہ لفظ ایسے کام کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو رہا ہو یعنی جس غرض کے لیے کوئی کام کیا جائے وہ پوری نہ ہو۔ جیسے فرمایا : (اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ١٠ 4 ۔ ) 18 ۔ الكهف :104) یعنی وہ لوگ جن کی سعی دنیا میں برباد ہوگئی اور وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ ٦۔ اور کبھی یہ لفظ کسی کی محبت میں فریفتہ ہونے پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا : ( قَالُوْا تَاللّٰهِ اِنَّكَ لَفِيْ ضَلٰلِكَ الْقَدِيْمِ 95؀) 12 ۔ یوسف :95) یعنی اللہ کی قسم ! تم تو یوسف کی اسی پرانی محبت میں (ابھی تک) مبتلا ہو۔ اس آیت میں پہلا اور چھٹا دونوں معنی استعمال ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں معنی آپ کی نبوت سے پہلی زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں اور ترجمہ میں پہلا معنی اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ اس لفظ کا بنیادی معنی وہی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وو جدک ضالاً فھدی :) نبوت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی برائی سے آپ کی حفاظت فرمئای ، حتی ٰکہ فرمایا :(فقد لیثت فیکم عمراً من قبلہ افلاً تعقلون) (یونس : ١٦)”(انہیں کہہ دو کہ ) یقیناً میں نے نبوت سے پہلے ایک عمر تم میں گزاری ہے، کیا تم عقل نہیں کرتے ؟ “ مگر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا صحیح طریقہ کیا ہے ، یہ آپ کو معلوم نہ تھا، یہ اس وقت معلوم ہوا جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :(وکذلک اوحینا الیک روحاً من امرنا ماکنت تدری ماالکتب ولا ایمان) (الشوری : ٥٢)” اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی وحی کی ، تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔ “ اس آیت میں اس احسان کا ذکر ہے کہ تم راستے سے ناواقف تھے، تو وہ تمہیں ہم نے بتایا۔ اس کے علاوہ دیکھیے سورة ہود (٤٩) ، عنکبوت (٤٨) اور سورة قصص (٨٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Favour [ 2] وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ (And He found you unaware of the way [ the Shari` ah ], then He guided you....93:7). The word dall has two meanings: [ 1] stray; and [ 2] unaware. Here it stands for the second meaning. The verse signifies that before Muhammad k was commissioned as the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، he was unaware of Divine Shari&ah. He was granted the status of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and thus was guided.

دوسری نعمت ووجدک ضالافھدی لفظ ضال کے معنے گمراہ کے بھی آتے ہیں اور ناواقف بیخبر کے بھی، یہاں دوسرے ہی معنے مراد ہو سکتے ہیں کہ نبوت سے پہلے آپ شریعت الٰہیہ کے احکام اور علوم سے بیخبر تھے، آپ کو منصب نبوت پر فائز کر کے آپ کی رہنمائی فرمائی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَہَدٰى۝ ٧ ۠ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ ضَلل وإذا کان الضَّلَالُ تركَ الطّريق المستقیم عمدا کان أو سهوا، قلیلا کان أو كثيرا، صحّ أن يستعمل لفظ الضَّلَالِ ممّن يكون منه خطأ ما، ولذلک نسب الضَّلَالُ إلى الأنبیاء، وإلى الكفّار، وإن کان بين الضَّلَالَيْنِ بون بعید، ألا تری أنه قال في النّبي صلّى اللہ عليه وسلم : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی/ 7] ، أي : غير مهتد لما سيق إليك من النّبوّة . وقال في يعقوب : إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف/ 95] ، وقال أولاده :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 8] ، إشارة إلى شغفه بيوسف وشوقه إليه، وکذلك : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 30] ، وقال عن موسیٰ عليه السلام : فَعَلْتُها إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء/ 20] ، تنبيه أنّ ذلک منه سهو، وقوله : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة/ 282] ، أي : تنسی، وذلک من النّسيان الموضوع عن الإنسان . جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں خواہ وہ ہٹنا عمدا ہو یا سہوا تھوڑا ہو یا زیادہ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور کفار دونوں کی طرف ضلالت کی نسبت کی گئی ہے گو ان دونوں قسم کی ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے ۔ دیکھئے آنحضرت کو آیت کریمہ : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی/ 7] میں ضالا میں فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں ک ہدایت نبوت کے عطا ہونے سے قبل تم اس راہ نمائی سے محروم تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی اولاد کا کہنا إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف/ 95] کہ آپ اسی پرانی غلطی میں مبتلا ) ہیں ۔ یا یہ کہنا :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 8] کچھ شک نہیں کہ اباصریح غلطی پر ہیں ۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف ( (علیہ السلام) ) کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگردان ہیں اسی طرح آیت کریمہ : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف/ 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں ۔ میں بھی ضلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء/ 20] اور میں خطا کاروں میں تھا ۔ میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوا ہوا تھا ۔ اور آیت : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة/ 282] اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی ۔ میں تضل کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور پھر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو گمراہ لوگوں کے درمیان پایا پھر آپ کو نبوت عطا کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بےشک، اور یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نادار پایا تو حضرت خدیجہ کے مال سے آپ کو مال دار بنا دیا، یا یہ کہ جو آپ کو دیا اس سے آپ کو راضی کردیا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۔ } ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش حقیقت میں سرگرداں پایا تو ہدایت دی ! “ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شعور کی پختگی کی عمر کو پہنچے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کائنات کے حقائق کے بارے میں غوروفکر کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راہنمائی فراہم کردی۔ (١)

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 The word daallan as used in the original is derived from dalalat, which has several meanings in Arabic. Its one meaning is to be lost in error and deviation; another, to be unaware of the way and to be bewildered at the crossroads as to which way one should choose; still another meaning is of being lost and astray. The tree also is daallah which stands alone and lonely in the desert; the word dalal is also used for a thing which is wasting in unfavourable and uncongenial condition and climate, and also for heedlessness, of which there is an example in the Qur'an itself: La yadillu Rabbi wa la yansa:. "My Lord is neither heedless nor He forgets." ('Ta Ha: 52) . Out of these different meanings. The first meaning does not apply here, for in the historical accounts of the Holy Prophet's life, from childhood till just before Prophethood, there is no trace that he ever might have been involved in idolatry, polytheism or atheism, or in any of the acts, customs and practices of paganism prevalent among his people. Therefore, inevitably wa wa. jadaka daallan cannot mean that Allah had found him erring and astray in respect of creed or deed. The other meanings, however, can be applicable here in one or other aspect, and possibly all are applicable in their own particular aspect. Before Prophethood the Holy Prophet was certainly a believer in the existence of Allah and His Unity, and his Iife was free from sin and reflected excellent morals, yet he was unaware of true Faith, its principles and injunctions, as it has been pointed out in the Qur'an: "You did not know at all what was the Book and what was the Faith." (Ash-Shura: 52) . This verse may also mean that the Holy Prophet was lost in a society, engrossed in ignorance, and his personality as a guide and leader was not in anyway prominent before Prophethood. It may as well mean that in the desert of ignorance, he was standing like a lonely tree, which had the capability to bear fruit and turn the whole desert into a garden, but this capability was not being put to any use before Prophethood. It may also imply that the extraordinary powers that Allah had blessed him with, were going waste in the unfavourable environment of ignorance. Dalal can also be taken in the meaning of heedlessness, so as to say: "You were heedless of the truths and sciences of which Allah made you aware after Prophethood." This thing also has been referred to in the Qur'an itself: "Though before this you were utterly unaware of these truths." (Yusuf: 3) . (Also see AI-Baqarah: 282, Ash-Shu'ara: 20) .

سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :7 اصل میں لفظ ضالاً استعمال ہوا ہے جو ضلالت سے ہے ۔ عربی زبان میں یہ لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے ایک معنی گمراہی کے ہیں ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص راستہ نہ جانتا ہو اور ایک جگہ حیران کھڑا ہو کہ مختلف راستے جو سامنے ہیں ان میں سے کدھر جاؤں ۔ ایک اور معنی کھوئے ہوئے کے ہیں ، چنانچہ عربی محاورے میں کہتے ہیں ضل الماء فی اللبن ، پانی دودھ میں گم ہو گیا ۔ اس درخت کو بھی عربی میں ضالہ کہتے ہیں جو صحرا میں اکیلا کھڑا ہو اور آس پاس کوئی دوسرا درخت نہ ہو ۔ ضائع ہونے کے لیے بھی لفظ ضلال کا لفظ بولا جاتا ہے ، مثلاً کوئی چیز ناموافق اور ناساز گار حالات میں ضائع ہو رہی ہو ، غفلت کے لیے بھی ضلال کالفظ استعمال ہوتا ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کی مثال موجود ہے کہ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى ( طہ ۔ 52 ) میرا رب نہ غافل ہوتا ہے نہ بھولتا ہے ۔ ان مختلف معنوں میں سے پہلے معنی یہاں چسپاں نہیں ہوتے ، کیونکہ بچپن سے قبل نبوت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو حالات تاریخ میں موجود ہیں ان میں کہیں اس بات کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا کہ آپ کبھی بت پرستی ، شرک یا دہریت میں مبتلا ہوئے ہوں ، یا جاہلیت کے جو اعمال ، رسوم اور طور طریقے آپ کی قوم میں پائے جاتے تھے ان میں سے کسی میں آپ ملوث ہوئے ہوں ۔ اس لیے لا محالہ ووجدک ضالاً کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ اللہ تعالی نے آپ کو عقیدے یا عمل کے لحاظ سے گمراہ پایا تھا ۔ البتہ باقی معنی کسی نہ کسی طور پر یہاں مراد ہو سکتے ہیں ، بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایک اعتبار سے سب مراد ہوں ۔ نبوت سے پہلے حضور اللہ کی ہستی اور اس کی وحدانیت کے قائل تو ضرور تھے ، اور آپ کی زندگی گناہوں سے پاک اور فضائل اخلاق سے آراستہ بھی تھی ، لیکن آپ کو دین حق اور اس کے اصول اور احکام کا علم نہ تھا ، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ( الشوریٰ ، آیت 52 ) تم نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور نہ ایمان کی تمہیں کوئی خبر تھی ۔ یہ معنی بھی اس آیت کے ہو سکتے ہیں کہ حضور ایک جاہلی معاشرے میں گم ہو کر رہ گئے تھے اور ایک ھادی و رہبر ہونے کی حیثیت سے آپ کی شخصیت نبوت سے پہلے نمایاں نہیں ہو رہی تھی ۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جاہلیت کے صحراء میں آپ ایک اکیلے درخت کی حیثیت سے کھڑے تھے جس میں پھل لانے اور ایک پورا باغ کا باغ پیدا کر دینے کی صلاحیت تھی مگر نبوت سے پہلے یہ صلاحیت کام نہیں آ رہی تھی ۔ یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے جو غیر معمولی قوتیں آپ کو عطا کی تھیں وہ جاہلیت کے ناساز گار ماحول میں ضائع ہو رہی تھیں ۔ ضلال کو غفلت کے معنی میں بھی لیا جا سکتا ہے ، یعنی آپ ان حقائق اور علوم سے غافل تھے جن سے نبوت کے بعد اللہ تعالی نے آپ کو آگاہ فرمایا ۔ یہ بات خود قرآن میں بھی ایک جگہ ارشاد ہوئی ہے: وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ ( یوسف 3 ) ۔ اور اگرچہ تم اس سے پہلے ان باتوں سے غافل تھے ( نیز ملاحظہ ہو البقرہ آیت 282 ، اور الشعراء آیت 20 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: یعنی آپ وحی نازل ہونے سے پہلے شریعت کے احکام سے ناواقف تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے آپ کو شریعت عطا فرمائی، نیز بعض روایتوں میں کچھ ایسے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں جن میں آپ کسی سفر کے دوران راستہ بھول گئے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے غیر معمولی طریقے پر آپ کو راستے پر لگا دیا۔ ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں اس قسم کے کسی واقعے کی طرف بھی اشارہ ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(93:7) ووجدک ضالا فھدی۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ ضالا ۔ ضلال (باب ضرب) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ۔ ناواقف ۔ بیخبر ۔ حیران۔ ضل یضل گمراہ ہوا۔ بہکا۔ بھٹکا۔ دور جا پڑا۔ کھوگیا۔ ضائع ہوگیا۔ ہلاک ہوگیا۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور آپ کو راستہ سے ناواقف پایا تو سیدھا راستہ دکھا دیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی آپ حق کی تلاش میں سرگردان اور نبوت وغیرہ حقائق سے قطعی غافل تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو راہ حق کی توفیق دی۔ نبوت جیسی نعمت سے نوازا اور آپ پر اپنی کتاب اتاری۔ (کذا فی للرضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ کقولہ تعالیٰ ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان اور وحی سے پہلے شریعت کی تفصیل معلوم نہ ہونا کوئی منقصت نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اور اللہ تعالیٰ نے معالم نبوت اور احکام شریعت سے بیخبر اور ناواقف پایا پھر آپ کو راہ دکھائی یعنی مطلوب تک پہنچا دیا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب حضرت جوان ہوگے قوم کی راہ ورسم سے بیزار تھے ان کے پاس کوئی راہ ورسم نہ تھی اللہ نے دین حق نازل کیا۔ خلاصہ : یہ کہ قوم کی راہ ورسم مشرکانہ سے سخت بیزار تھے اور بت پرستی سے بہت ناخوش تھے اس بنا پر سخت حیران و سرگرداں رہتے تھے سورة شوریٰ کے آخر میں گزر چکا ہے ماکنت تدری ماالکتاب ولاالایمان نہ نبوت سے واقف نہ کتاب سے واقف یعنی نہ شریعت وایمان کی تفصیل سے واقف مگر راہ کی تلاش میں بےچین و حیران آخر یکسوئی حاصل کرنے کی غرض سے غار حرا میں جانا شروع کیا اور بالآخر جس کی تلاش میں سرگرداں تھے وہ پالی اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان تھا کہ تلاش حق کرنے والے کو حق مل گیا۔