Surat us Sharah
Surah: 94
Verse: 2
سورة الشرح
وَ وَضَعۡنَا عَنۡکَ وِزۡرَکَ ۙ﴿۲﴾
And We removed from you your burden
اور تجھ پر سے تیرا بوجھ ہم نے اتار دیا ۔
وَ وَضَعۡنَا عَنۡکَ وِزۡرَکَ ۙ﴿۲﴾
And We removed from you your burden
اور تجھ پر سے تیرا بوجھ ہم نے اتار دیا ۔
And removed from you your burden. This means, لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ That Allah may forgive you your sins of the past and the future. (48:2) الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ
2۔ 1 یہ بوجھ نبوت سے قبل چالیس سالہ دور زندگی سے متعلق ہے۔ اس دور میں اگرچہ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گناہوں سے محفوظ رکھا، کسی بت کے سامنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ ریز نہیں ہوئے، کبھی شراب نوشی نہیں کی اور بھی دیگر برائیوں سے دامن کش رہے، تاہم معروف معنوں میں اللہ کی عبادت و اطاعت کا نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم تھا نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کی، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احساس و شعور نے اسے بوجھ بنا رکھا تھا اللہ نے اسے اتار دینے کا اعلان فرما کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر احسان فرمایا۔
ووضعنا عنک وزرک…: بوجھ اتار دینے سے مراد وحی الٰہی برداشت کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(انا سنلقی علیک قولاً ثقیلاً ) (المزمل : ٥)” یقیناً ہم تجھ پر ایک بھاری بات نازل کریں گے۔ “ حدیث میں ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی اترتی تو اس کے بوجھ سے وہ اونٹنی جس پر آپ سوار ہوتے بیٹھ جاتی (مسند احمد : ٦/١٨ ، ح : ٢٣٨٦٨، سندہ صحیح) اس کے علاوہ نبوت کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی مراد ہے، جسے آپ بہت شدت سے محسوس کرتے تھے، جیسا کہ فرمایا :(لعلک باخع نفسک الا یکونوا مومنین) (الشعرائ : ٣)” شاید آپ اپنے آپ کو اس لئے ہلاک کرلیں گے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ “ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر یہ بوجھ بھی اتار دیا، (لیس علیک ھدھم ولکن اللہ یھدی من یشآئ) (البقرۃ : ٢٨٢) ” تیرے ذمے انہیں ہدایت دینا نہیں اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “
وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ (And We removed from you your burden that had [ almost ] broken your back...94:2-3). The word wizr literally denotes &burden& and the phrase naqd-uz-zahr means &to break one&s back as for instance when a heavy load is put on one&s back, it bends&. This verse signifies that Allah had relieved him of his burden that was breaking his back. What was that burden or heavy load? One answer to this question is that now and then the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did certain permissible deeds, thinking that they were of benefit and in the interest [ of spiritual development ]. Later on he discovered that they were not in keeping with wisdom, or they were undesirable. The Holy Prophet was conscious of his high status and close proximity to Allah. He regarded even such things as serious infractions. This was naturally a very heavy load that made him grieved. But Allah relieved him of his burden in that a blanket pardon was granted to him and it was declared that he would not be held accountable for such things. Some commentators say that wizr (burden) refers to the effect of revelation. It weighed heavily on him in the initial stages of the Prophethood. He was saddled with a nerve-racking and back-breaking task of raising [ a morally degenerated people ], through propagation of Tauhid and elimination of kufr and shirk, [ from the depths of moral turpitude to the peaks of spiritual excellence, and then through them to cleanse and purify the whole of mankind of the dross of iniquity, ignorance and superstition ]. The task enjoined: فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ &So, stand firm - as you have been commanded [ 11:112] & The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) used to feel the heavy weight of this task and responsibility. Some narration report that a few strands of his beard had turned grey as a result of this command. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said that the following verse has made me old: فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ &So, stand firm - as you have been commanded [ 11:112] & Verses [ 2-3] give the cheerful news that Allah will remove from him the load which was weighing down his back. The following verses show how the back-breaking load will be removed, and every difficulty will be followed by ease and relief. By means of expansion of bosom, Allah gave the Holy Prophet so much of courage that no instance of hardship seemed hardship, and no burden of any magnitude seemed a burden. And Allah knows best!
ووضعنا عنک وزرک الذی انقص ظہرک وزر کے لفظی معنے بوجھ کے ہیں اور نقض ظہر کے لفظیم عنے کم رتوڑ دینے یعنی کمر کو جھکا دینے کے ہیں جیسا کوئی بڑا بوجھ انسان پر لاد دیا جائے تو اس کی کمر جھک جاتی ہے، اس آیت میں ارشاد یہ ہے کہ وہ بوجھ جس نے آپ کی کمر جھکا دی تھی ہم نے اس کو آپ سے ہٹا دیا۔ وہ بوجھ کیا تھا اس کی ایک تفسیر تو وہ ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں آچکی ہے کہ اس سے وہ جائز اور مباح کام ہیں جن کو بعض اوقات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرین حکمت و مصلحت سمجھ کر اختیار کرلیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مصلحت کیخلاف یا خلاف اولیٰ تھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی علوشان اور تقریب الٰہی میں خاص مقام حاصل ہونے کی بناء پر ایسی چیزوں پر بھی سخت رنج و ملال اور صدمہ ہوتا تھا۔ حق تعالیٰ نے اس آیت میں بشارت سنا کر وہ بوجھ آپ سے ہٹا دیا کہ ایسی چیزوں پر آپ سے مواخذہ نہ ہوگا۔ اور بعض حضرات مفسرین نے وزر یعنی بوجھ کی مراد اس جگہ یہ لکھی ہے کہ ابتداء نبوت میں وحی کا اثر بھی آپ پر شدید ہوتا تھا اور اس میں آپ پر جو ذمہ داری ساری دنیا میں کلمہ حق پھیلانے اور کفر و شرک کو مٹا کر خلق خدا کو توحید پر جمع کرنے کی ڈالی گئی تھی اور اس سب کام میں حکم یہ تھا کہ فاستقم کما امرت یعنی آپ امر الٰہی کے مطابق استقامت پر رہیں جس میں کسی طرف جھکاؤ نہ ہو، اس کا بار عظیم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محسوس فرماتے تھے اور بعض روایات حدیث میں آی ہے کہ آپ کی لحیہ مبارک میں کچھ سفید بال آگئے تو آپ نے فرمایا کہ اس آیت فاستقم کما امرت نے بوڑھا کردیا۔ یہ وہ بوجھ تھا جس کو آپ کے قلب سے ہٹا دینے کی بشارت اس آیت میں دی گئی ہے اور اس کے ہٹا دینے کی صورت اگلی آیات میں یہ آئی ہے کہ آپ کی ہر مشکل کے بعد آسانی ہونیوالی ہے حق تعالیٰ نے شرح صدر کے ذریعہ آپ کا حوصلہ اتنا بنلد فرما دیا کہ یہ سب مشکلات آسان نظر آنے لگیں اور وہ بوجھ بوجھ نہ رہا، واللہ اعلم
وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ ٢ ۙ وضع الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة . ( و ض ع ) الواضع ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ وزر الوَزَرُ : الملجأ الذي يلتجأ إليه من الجبل . قال تعالی: كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة/ 11] والوِزْرُ : الثّقلُ تشبيها بِوَزْرِ الجبلِ ، ويعبّر بذلک عن الإثم کما يعبّر عنه بالثقل . قال تعالی: لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل/ 25] ، کقوله : وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت/ 13] وحمل وِزْر الغیرِ في الحقیقة هو علی نحو ما أشار إليه صلّى اللہ عليه وسلم بقوله : «من سنّ سنّة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجره شيء، ومن سنّ سنّة سيّئة کان له وِزْرُهَا ووِزْرُ من عمل بها» أي : مثل وِزْرِ مَن عمل بها . وقوله تعالی: وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى[ الأنعام/ 164] أي : لا يحمل وِزْرَهُ من حيث يتعرّى المحمول عنه، وقوله : وَوَضَعْنا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ [ الشرح/ 2- 3] ، أي : ما کنت فيه من أمر الجاهليّة، فأعفیت بما خصصت به عن تعاطي ما کان عليه قومک، والوَزِيرُ : المتحمِّلُ ثقل أميره وشغله، والوِزَارَةُ علی بناء الصّناعة . وأَوْزَارُ الحربِ واحدها وِزْرٌ: آلتُها من السّلاح، والمُوَازَرَةُ : المعاونةُ. يقال : وَازَرْتُ فلاناً مُوَازَرَةً : أعنته علی أمره . قال تعالی: وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه/ 29] ، وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه/ 87] . ( و ز ر ) الوزر ۔ پہاڑ میں جائے پناہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة/ 11] بیشک کہیں پناہ نہیں اس روز پروردگار ہی کے پاس جانا ہے ۔ الوزر ۔ کے معنی بار گراں کے ہیں اور یہ معنی وزر سے لیا گیا ہے جس کے معنی پہاڑ میں جائے پناہ کے ہیں اور جس طرح مجازا اس کے معنی بوجھ کے آتے ہیں اسی طرح وزر بمعنی گناہ بھی آتا ہے ۔ ( اسی کی جمع اوزار ہے ) جیسے فرمایا : ۔ لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل/ 25]( اے پیغمبر ان کو بکنے دو ) یہ قیامت کے دن اپنے ( اعمال کے ) پورے سے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی ( اٹھائیں گے ) جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت/ 13] اور یہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی ۔ اور دوسروں کو بوجھ اٹھانے کے حقیقت کیطرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا من سن سنتہ حسنتہ کان لہ اجرھا واجر من عمل بھا من غیران ینقض من اجرہ شیئ ومن سن سنتہ سیئتہ کان لہ وزرھا ووزر من عمل بھا کی جس شخص نے اچھا طریقہ جاری کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا بھی اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بدوں اس کے کہ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی ہو اور جس نے بری رسم جاری کی اس کا بوجھ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے ۔ تویہاں ان لوگوں کے اجر یا بوجھ سے ان کی مثل اجر یا بوجھ مراد ہے۔ اور آیت کریمہ : ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : ۔ وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى[ الأنعام/ 164] اور کوئی شخص کسی ( کے گناہ ) کا بوجھ نہیں اٹھائیگا ۔ سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ محمول عنہ یعنی وہ دوسرا اس گناہ سے بری ہوجائے لہذا ان دونوں میں کوئی منافات نہیں ہے اور آیت : ۔ وَوَضَعْنا عَنْكَوِزْرَكَ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ [ الشرح/ 2- 3] اور تم پر سے بوجھ بھی اتار دیا ۔ میں وزر سے مراد وہ لغزشیں ہیں جو جاہلی معاشرہ کے رواج کے مطابق قبل از نبوت آنحضرت سے سر زد ہوئی تھیں ۔ الوزیر وہ ہے جو امیر کا بوجھ اور اس کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہو ۔ اور اس کے اس عہدہ کو وزارۃ کہا جاتا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي[ طه/ 29] اور میرے گھر والوں میں سے ( ایک کو ) میرا وزیر ( یعنی مدد گار امقر ر فرمایا ۔ ارزار الحرب اس کا مفرد ورر ہے اور اس سے مراد اسلحہ جنگ ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنَّا حُمِّلْنا أَوْزاراً مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ [ طه/ 87] بلکہ ہم لوگوں کے زیوروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے ۔ میں زیورات کے بوجھ مراد ہیں ۔ الموزراۃ ( مفاعلۃ ) کے معنی ایک دوسرے کی مدد کرنے کے ہیں اور وازرت فلانا موازرۃ کے معنی ہیں میں نے اس کی مدد کی ۔
(2 ۔ 5) نیز ہم نے آپ سے آپ کا وہ بوجھ اتار دیا جس نے آپ کی کمر ٹیڑھی کر رکھی تھی، یا یہ کہ بار نبوت، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بےشک۔ اور نیز ہم نے اذان، دعا، تشہد میں آپ کا ذکر بلند کردیا کہ جب میرا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ کا بھی ذکر ہوتا ہے اب فقر وفاقہ پر اللہ تعالیٰ آپ کی تسلی فرماتے ہیں بیشک تنگی کے ساتھ فراخی ہے اور بیشک تنگی کے ساتھ فراخی ہونے والی تو دو فراخیوں کے درمیان ایک تنگی کا ذکر کیا۔
(94:2) ووضعنا عنک وزرک : جملہ کا عطف الم نشرح پر ہے۔ ووضعنا ماضی کا صیغہ جمع متکلم وضع (باب فتح) مصدر سے۔ ہم نے اتار دیا۔ ہم نے ہلکا کردیا۔ عنک متعلق وضعنا ۔ وزرک مضاف مضاف الیہ مل کر وضعنا کا مفعول۔ وزر۔ بوجھ۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ ولاتزر وازرۃ وزراخری۔ (6:165) اور کوئی شخص کسی (کے گنا) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ وزر سے مراد امور مباحہ جو احیانا آپ سے بنا بر تصور کسی حکمت کے صادر ہوجاتے تھے اور بعد میں ان کا خلاف حکمت و خلاف اولیٰ ہونا ثابت ہوجاتا تھا اور آپ بوجہ علوشان وغایت قرب کے جس طرح کوئی گناہ سے مغموم ہوتا ہے ایسے ہی مغموم ہوتے تھے۔ اس میں بشارت ہے ان امور پر مؤاخذہ نہ ہونے کی۔ (کذا فی الدر المنثور عن مجاہد و شریح بن عبید الحضرمی) ترجمہ :۔ اور کیا ہم نے آپ سے آپ کا (وہ) بوجھ نہیں اتار دیا جو ۔۔
ووضعنا ............................ ظھرک (3:94) ” اور تم پر سے وہ باری بوجھ اتاردیا جو تمہاری کمر توڑے ڈال رہا تھا “۔ یعنی دعوت اسلامی کا بوجھ اس قدر بھاری ہوگیا کہ قریب تھا کہ آپ کی کمر ہی توڑ دے۔ ہم نے آپ کو شرح صدر عطا کیا اور یہ بوجھ ہلکا ہوگیا ، آپ کو کام کرنے کی توفیق دی ، آپ کے لئے دعوت کا کام آسان کردیا اور یہ لوگوں کے دلوں تک پہنچنے لگی۔ وحی کا سلسلہ جاری ہوگیا اور بذریعہ وحی حقائق کا انکشاف ہونے لگا۔ اور یوں یہ دعوت دلوں میں اترنے لگی۔ اور بذریعہ وحی یہ کام نہایت آسانی ، نرمی اور سکون سے ہونے لگا۔ کیا آپ اس تبدیلی کو اس بوجھ میں محسوس نہیں کرتے جس نے آپ کی کمر توڑ دی اور اب یہ ہلکا ہوگیا ہے۔ شرح صدر کے بعد اب آپ پر نہ بوجھ ہے اور نہ تنگی دل۔
﴿ وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَۙ٠٠٢ الَّذِيْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَۙ٠٠٣﴾ (اور ہم نے آپ کا وہ بوجھ اٹھا دیا یعنی دور کردیا جس نے آپ کی کمر توڑ دی) اس بوجھ سے کون سا بوجھ مراد ہے، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ آیت سورة ٴ فتح کی آیت ﴿لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ ﴾ کے ہم معنی ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ چھوٹے موٹے اعمال جو آپ سے لغزش کے طور پر بلا ارادہ یا خطاء اجتہادی کے طور پر صادر ہوئے ان کا جو بوجھ آپ محسوس کرتے تھے اور اس بوجھ کا اس قدر احساس تھا کہ اس احساس نے آپ کی کمر توڑ دی تھی یعنی خوب زیادہ بوجھل بنا دیا تھا، وہ بوجھ ہم نے ہٹا دیا یعنی سب کچھ معاف کردیا۔ احقر کے خیال میں اس آیت کو سورة ٴ فتح کی آیت میں لینے کے بجائے یہ معنی لینا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے جو علامہ قرطبی (رح) نے عبدالعزیز بن یحییٰ اور حضرت ابو عبیدہ سے نقل کیا، یعنی خففنا عنک اعباء النبوة والقیام بھا حتی لا تثقل علیک۔ یعنی ہم نے نبوت سے متعلقہ ذمہ داریوں کو ہلکا کر دیاتا کہ آپکو بھاری معلوم نہ ہوں، درحقیقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو فضیلت بھی بہت دی اور کام بھی بہت دیا مشرکین کے درمیان توحید کی بات اٹھانا بڑا سخت مرحلہ تھا۔ آپ کو تکلیفیں بہت پہنچیں جن کو آپ برداشت کرتے چلے گئے اللہ تعالیٰ نے صبر دیا اور استقامت بخشی پھر ایمان کے راستے کھل گئے، آپ کے صحابہ بھی کار دعوت میں آپ کے ساتھ لگ گئے اور عرب و عجم میں آپ کی دعوت عام ہوگئی۔ فصلی اللّٰہ علیہ وعلی الہ وعلی من جاھد معہ۔
3:۔ ” ووضعنا “ ، وزر سے کفر و شرک اور معاصی کا بوجھ مراد ہے۔ یعنی ہم نے کفر و شرک اور دیگر معاصی کا بوجھ ہٹا دیا اور ان کو آپ کے قریب تک نہیں آنے دیا اور آپ کو ان سے بالکلیہ محفوظ رکھا۔ ” الذی انقض ظھرک “ ماضی بمعنی مستقبل ہے یعنی آپ کو ایسے تمام گناہوں سے محفوظ رکھا کہ اگر ان میں سے ایک بھی آپ سے ایسا کوئی گناہ صادر ہوجاتا تو آپ کی کمر توڑ دیتا مگر واقع میں ایسا نہیں ہوا اور ہم نے آپ سے ایسا کوئی گناہ صادر نہیں ہونے دیا یا وزر سے زلات مراد ہیں جیسا کہ ارشاد ہے۔ ” عفا اللہ عنک لم اذنت لہم الخ “ (توبہ رکوع 7) ۔ اور ” وماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض الخ “ (انفال رکوع 9) ۔