Surat us Sharah

Surah: 94

Verse: 6

سورة الشرح

اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ؕ﴿۶﴾

Indeed, with hardship [will be] ease.

بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, along with every hardship is relief, Verily, along with every hardship is relief, Meaning, whatever troubles are encountered by the creation, Allah always provides a relief with it. The relief does not merely comes after the difficulty: it is provided with it. Then All�h says, فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اور صحابہ کرام کے لیے خوشخبری ہے کہ تم اسلام کی راہ میں جو تکلیفیں برداشت کر رہے ہو تو گھبرانے کی ضرورت نہیں اس کے بعد ہی اللہ تمہیں فراغت و آسانی سے نوازے گا چناچہ ایسا ہی ہوا جیسے ساری دنیا جانتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(6 ۔ 7 ۔ 8) تو جب جہاد سے فارغ ہوجایا کریں تو عبادت میں کوشش کیا کیجیے یا کہ جس وقت فرض نماز سے فارغ ہوں تو خوب کوشش سے دعا کیا کریں اور تمام حاجتوں میں اپنے رب ہی سے امید رکھیے۔ شان نزول : اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ الخ جب مشرکین نے مسلمانوں کو فقر کے ساتھ عار دلائی تب یہ سورت نازل ہوئی اور ا... بن جریر نے حسن سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا نازل ہوئی تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو تمہیں کشادگی دی گئی ہے اس سے خوش ہوجاؤ کیوں کہ ایک تنگی دو فراخیوں پر غالب نہیں آسکتی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦{ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۔ } ” یقینا مشکل ہی کے ساتھ آسانی ہے۔ “ یہ سورت دراصل مشکلات القرآن میں سے ہے۔ آیت ٢ میں جس بوجھ کا ذکر ہوا ہے اس کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا گیا ہے کہ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ کی مشقتوں اور لوگوں کی طرف سے پہنچائی جانے والی اذیت... وں کی طرف اشارہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رائے صرف جزوی طور پر درست ہے اس لیے کہ یہ سورت بالکل ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی ۔ اس زمانے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشکلات کا ابھی آغاز ہو رہا تھا اور بعد کے زمانے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نسبتاً بہت زیادہ مشکل مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔ مثلاً شعب ابی طالب میں تین سال کی قید کا واقعہ اس سورت کے نزول کے بعد پیش آیا اور اس کے بعد ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوم طائف اور یوم احد جیسے گھمبیر حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ دعوت و تبلیغ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فریضہ رسالت سے متعلقہ مشکلات بھی اس سورت کے نزول کے بعد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں ‘ بلکہ بڑھتی ہی چلی گئیں۔ اس لیے یہ حقیقت تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہاں جس بوجھ کے اتار دینے کا ذکر ہوا ہے وہ اصل میں کوئی اور بوجھ تھا۔ اس بوجھ کی کیفیت کے بارے میں جاننے کے لیے پہلے اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ پیغمبروں کو اپنے قرب خاص کی نعمت سے نوازتا ہے۔ چناچہ قرب خاص کی لذت سے آشنا ہوجانے کے بعد انبیاء و رسل - کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت اسی کیفیت میں گزاریں۔ لیکن وہاں سے حکم ملتا ہے کہ جائو خلق خدا تک میرا پیغام پہنچائو اور انہیں ہدایت کا راستہ دکھائو ! مثلاً اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کو ہِ طور پر اپنے قرب خاص سے نوازا اور آپ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا تو اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خواہش تو یہی ہوگی کہ وہ سدا اسی کیفیت میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مکالمے اور مخاطبے کی لذت سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ لیکن اس کے فوراً بعد آپ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا : { اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی ۔ } (طٰہٰ ) ” اب جائو فرعون کی طرف ‘ وہ بڑا سرکش ہوگیا ہے ! “ ظاہر ہے فریضہ رسالت کی ادائیگی کوئی آسان کام تو نہیں۔ اس بارے میں اصل حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پیغمبروں کی دعوت کے جواب میں لوگوں کی طرف سے بےاعتنائی برتی جاتی تھی اور طنز و تمسخر کے تیر برسائے جاتے تھے ‘ حتیٰ کہ جسمانی اذیت پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا تھا۔ الغرض اس راستے میں تو ہر قدم پر مخالفت اور ہر موڑ پر تکالیف و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چناچہ ایسی صورت حال میں پیغمبروں کو دوہری مشکل کا سامنا رہا ہے یعنی ایک طرف قرب و حضوری کی خصوصی کیفیت سے باہر آنے کا ملال اور دوسری طرف لوگوں کے رویے کے باعث دل پر تکدر کا بوجھ۔ کہاں وہ قرب ِخاص کا کیف و سرور اور کہاں یہ مشقت بھری مصروفیات۔ روح اور طبیعت کا میلان تو ظاہر ہے اسی طرف ہوگا کہ وہی خلوت ہو ‘ وہی حضوری ہو اور وہی کیف و سرور ہو۔ غالبؔ نے اپنی زبان اور اپنے انداز میں محبوب کی قربت کے حوالے سے انسان کی اس کیفیت اور خواہش کی ترجمانی یوں کی ہے : ؎ دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت ‘ کہ رات دن بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے ! اس صورت حال یا کیفیت کو علامہ اقبال کے بیان کردہ اس واقعہ کے حوالہ سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال اپنے خطبات (چوتھے لیکچر) میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالقدوس گنگوہی - دنیا ومافیہا سے بیخبر مراقبے کی کیفیت میں بیٹھے تھے ۔ اسی اثنا میں انہیں اقامت کی آواز سنائی دی۔ آپ (رح) فوراً نماز کے لیے کھڑے تو ہوگئے مگر جھنجھلا کر کہا : ” حضوری سے نکال کر دربانی میں کھڑا کردیا ! “ اب ظاہر ہے حضوری کی کیفیت میں تو اور ہی لذت تھی جبکہ نماز میں جماعت کا نظم ملحوظ رکھنے کی پابندی ہے اور ہر صورت میں امام کی اقتداضروری ہے۔ فرض کریں مقتدی کو تلاوت سننے میں لذت محسوس ہو رہی ہے اور وہ مزید سننا چاہتا ہے لیکن یہاں وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے جب امام قراءت ختم کر کے رکوع میں جائے گا تو اسے اس کی اقتدا کرنا ہوگی۔ اگر وہ دیر تک سجدہ میں ہی پڑے رہنا چاہتا ہے تو بھی اسے اپنا سجدہ مختصر کر کے امام کی اقتدا میں سر اٹھانا ہوگا۔ اس تمہیدی وضاحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اب آپ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس کیفیت کا تصور کیجیے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کی تنہائی میں اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے ۔ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح کیسی کیسی قربتوں اور رفعتوں سے آشنا ہوتی ہوگی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر کیسے کیسے انوار و تجلیات کی بارش ہوتی ہوگی۔ پھر صبح کو جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ کے درمیان جا کر ان سے شاعر ‘ مجنون ‘ کذاب (نعوذ باللہ) جیسے القابات سنتے ہوں گے اور ان کے تمسخر بھرے جملوں کا سامنا کرتے ہوں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طبیعت میں کیسا تکدر اور کیسی کو فت محسوس کرتے ہوں گے۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اصل معاملہ یہ تھا کہ ” عروج “ (قربِ خاص) کی لذت کے بعد ” نزول “ کا مرحلہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بہت شاق گزرتا تھا۔ اور یہی وہ ” بوجھ “ تھا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کمر کو دہرا کیے دے رہا تھا۔ البتہ رفتہ رفتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مزاج جب اس معمول کا خوگر ہوگیا تو اس بوجھ کے احساس میں کمی واقع ہوتی گئی۔ پھر جب روز بروز اہل ایمان کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی تو دعوت و تحریک کی مصروفیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسکین کا سامان پیدا فرما دیا ۔ بہرحال یہاں پر یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ فریضہ رسالت کی انجام دہی کے لیے عروج اور نزول (ان کیفیات کے لیے صوفیاء کے ہاں ” سیر الی اللہ “ اور ” سیر عن اللہ “ کی اصطلاحات بھی معروف ہیں) کی دونوں کیفیات کا بیک وقت باہم متوازی چلنا ضروری ہے۔ اس نکتہ لطیف کو مولانا روم نے بارش کی مثال سے بہت موثر انداز میں سمجھایا ہے ۔ مولانا کی بیان کردہ اس حکایت کا خلاصہ یہ ہے کہ سمندر سے بخارات کی شکل میں بالکل صاف اور پاکیزہ پانی فضا میں پہنچتا ہے۔ بارش برستی ہے تو یہ صاف پانی فضا کی کدورتوں کو بھی صاف کرتا ہے ‘ زمین کی گندگیوں کو بھی اپنے ساتھ بہا کر سمندر میں ڈال دیتا ہے اور اس کے بعد سمندر سے پھر بخارات بن کر صاف اور پاکیزہ حالت میں بارش کے لیے فضا میں پہنچ جاتا ہے۔ اس مثال کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر منطبق کرتے ہوئے یوں سمجھیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” سیر الی اللہ “ (قیام اللیل اور خلوت کی مناجات وغیرہ) کے ذریعے روحانی ترفع حاصل ہوتا۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” سیر عن اللہ “ کی صورت میں معاشرے کی طرف رجوع فرماتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت اور روحانیت لوگوں پر بارش کی طرح برستی اور راستے میں آنے والی تمام ظاہری و باطنی آلائشوں اور کدورتوں کو دھو ڈالتی۔ اسی دوران لوگوں کی مخالفت اور گھٹیا حرکات کے باعث آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ” روحانیت “ میں کچھ تکدر بھی پیدا ہوتا ‘ جسے ” سیر الی اللہ “ کے اگلے مرحلے میں صاف کردیا جاتا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا۔ یہاں ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ نتائج کے اعتبار سے تو دعوت و تبلیغ کی مصروفیات بھی ” سیر الی اللہ “ ہی کے زمرے میں آتی ہیں لیکن عملی طور پر اس کی کیفیت بظاہر ” سیر عن اللہ “ جیسی ہے۔ جیسے نماز کی حالت میں انسان کا رخ اللہ کی طرف ہوتا ہے لیکن ایک داعی جب نماز سے فارغ ہو کر تبلیغ کے لیے نکلتا ہے تو بظاہر اس کی پشت اللہ کی طرف ہوتی ہے اور رُخ لوگوں کی طرف ہوتا ہے ۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 This has been repeated twice so as to reassure the Holy Prophet that the bad times hp was passing through at that time would not last for ever, but were going to be replaced by good times in the near future. On the surface this appears to be a contradiction that hardship should be accompanied by ease, for these two things do not co-exist. But the words "hardship with ease" instead of "ease after...  hardship" have been used in the sense that the period of ease is so close to it as if it were a concomitant of it.  Show more

سورة الْاِنْشِرَاح حاشیہ نمبر :4 اس بات کو دو مرتبہ دہرایا گیا ہے تاکہ حضور کو پوری طرح تسلی دے دی جائے کہ جن سخت حالات سے آپ اس وقت گزر رہے ہیں یہ زیادہ دیر رہنے والے نہیں ہیں بلکہ ان کے بعد قریب ہی میں اچھے حالات آنے والے ہیں ۔ بظاہر یہ بات متناقض معلوم ہوتا ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی ہو ، کیونک... ہ یہ دونوں چیزیں بیک وقت جمع نہیں ہوتیں ۔ لیکن تنگی کے بعد فراخی کہنے کے بجائے تنگی کے ساتھ فراخی کے الفاظ اس معنی میں استعمال کیے گئے ہیں کہ فراخی کا دور اس قدر قریب ہے کہ گویا وہ اس کے ساتھ ہی چلا آ رہا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ شروع میں آپ کو فرائضِ رسالت کی ادائیگی میں جو مشکلات پیش آ رہی ہیں، وہ عنقریب آسانی میں تبدیل ہوجائیں گی۔ اِس کے ساتھ ایک عام قاعدے کے طور پر یہ حقیقت بتلا کر عام اِنسانوں کو بھی یہ سبق دیا گیا ہے کہ دُنیا میں مشکلات پیش آئیں تو یہ سمجھ لیں کہ ... ان کے بعد آسانی کا وقت بھی آئے گا۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(94:6) ان مع العسر یسرا۔ بیشک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ صاحب تفہیم القرآن حاشیہ پر لکھتے ہیں :۔ اس بات کو (یعنی بیشک تنگی کے ساتھ فراخی ہے) دو دفعہ دہرایا گیا ہے تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری طرح تسلی ہوجائے کہ جن سخت حالات سے آپ گزر رہے ہیں یہ زیادہ دیر تک رہنے والے نہیں ہیں۔ بلکہ ... اس کے بعد قریب ہی اچھے حالات آنے والے ہیں۔ بظاہر یہ بات متناقض معلوم ہوتی ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی ہو کیونکہ یہ دونوں چیزیں بیک وقت جمع نہیں ہوتیں۔ لیکن تنگی کے بعد فراخی ہو کیونکہ یہ دونوں چیزیں بیک وقت جمع نہیں ہوتیں۔ لیکن تنگی کے بعد فراخی کہنے کی بجائے تنگی کے ساتھ فراخی کے الفاظ اس معنی میں استعمال کئے گئے ہیں کہ فراخی کا دور اس قدر قریب ہے کہ گویا وہ اس کے ساتھ ہی چلا آرہا ہے۔ آیت کی تکرار وعدہ کی تاکید کے لئے آئی ہے۔ (تفسیر ماجدی) کر رہ لتاکید الوعد۔ آیت کی تکرار وعدہ کی تاکید کے لئے آئی ہے۔ (الخازن) یحتمل ان یکون تکریرا للجملۃ السابقۃ لتقریر معناھا۔ (روح المعانی) ہوسکتا ہے کہ تکرار آیت سابقہ آیت کے معنی کی تائید میں ہو۔ بعض مفسرین نے لغوی باریکیوں میں جاکر اور معانی بھی اخذ کئے ہیں جس کے لئے تفسیر مظہری، روح المعانی، مدارک التنزیل وغیرہ تفاسیر کی طرف رجوع کیا جائے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ایک سختی کے ساتھ دو آسانیاں لگی ہیں۔ اس میں آنحضرت کو بغایت کمال آئی ہے کہ دعوت و تبلیغ میں جس قدر مشقت برداشت کرو گے اس سے دوگنا راحت و اکرام نصیب ہوگا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ مکہ میں آپ اور اہل ایمان طرح طرح کی تکالیف اور شدائد میں گرفتار تھے، لیکن آخر کار وہ مشکلات ایک ایک کر کے سب رفع ہوگئیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) یقینا ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو سختیاں برداشت کیں اور رنج وتعب کھینچے ان میں سے ہر سختی کے ساتھ کئی کئی آسانیاں ہیں یا یہ کہ جس طرح ہم نے آپ کی روحانی کلفت دور کردی جیسا کہ شرح صدر اور رضع وزر اور رفعت ذکر سے معلوم ہوتا ہے اسی طرح ہم دنیوی تمام مشکلات کو آسان کردیں...  گے اور ایک سختی کے بدلے میں کئی کئی آسانیاں عنایت فرمائیں گے۔ اسی لئے تاکید کے طور پر فرمایا فان مع العسر یسراً ان مع العسر یسراً دو دفعہ فرمایا چناچہ کتب سیر سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام دشواریاں اور مشکلات ایک ایک کرکے آسان کردی گئیں۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں ایک دن رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جگہ تشریف رکھتے تھے آپ نے ایک سوراخ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا اگر سختی آئے اور سوراخ میں گھس جائے تو آسانی آگے اور اس سختی کو اس سوراخ میں سے نکال دے گی پھر فرمایا فان مع العسر یسرا۔ اس روایت کی سند ضعیف ہے ایک دن سرکار مکان میں تشری لائے اور خوش وخرم ہنستے ہوئے فرمایا ان یغلب عسر بین یسرین دو آسانیوں کے درمیان کوئی سختی غلبہ نہیں پاسکتی اور غالب نہیں آسکتی۔ بہرحال جو بندہ مصائب پر صبر کرتا ہے اور سختی سے گھبراتا نہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر آسانیاں لے آتا ہے اور آسانی کا دروازہ کھول دیتا ہے طریقہ الٰہی اسی طرح جاری ہے اب آگے ان نعمتوں پر شکر بجالانے کا حکم ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔  Show more