Surat ul Alaq

The Clot

Surah: 96

Verses: 19

Ruku: 1

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف : علماء امت اور محدثین کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ سورة علق کی انیس (١٩) آیتوں میں سے پہلی پانچ (٥) آیات حضرت جبرئیل کے واسطے سے سب سے پہلے جبل نور کے غار حرا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئیں۔ بقیہ آیات بعد میں نازل فرمائی گئیں۔ سورة علق کی ابتدائی پانچ آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے اس رب کے نام سے پڑھئے جس نے جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کو پیدا کیا اور قلم کے ذریعہ انسان کو ان چیزوں کا علم دیا جسے وہ جانتا تک نہ تھا۔ قرآن کریم کی ابتدائی آیات کے نازل ہونے کے بعد آپ نے اللہ کے حکم سے اعلان نبوت فرمایا جس پر مکہ کا ہر شخص اس نئی آواز پر چونک پڑا اور گھر گھر میں اس پر باتیں اور بحثیں ہونے لگیں۔ ایک دن آپ نے اللہ کے سکھائے ہوئے طریقے پر بیت اللہ شریف میں نماز ادا کی۔ اس نئے طریقہ عبادت پر لوگوں کو اور بھی تعجب اور اعتراض ہوا۔ ابو جہل نے نبی کریم و سے کہا کہ آپ کو اس طرح بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک دن جب کہ آپ مقام ابراہیم پر نماز ادا کر رہے تھے کہ ابوجہل نے آپ کو بڑی سختی سے نماز پڑھنے سے نہ صرف منع کیا بلکہ گستاخی کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں نے تمہیں پہلے بھی نماز سے منع کیا تھا اگر میں نے آئندہ تمہیں نما زپڑھتے اور سجدہ کرتے دیکھا تو اپنے پاؤں سے تمہاری گردن کو رگڑ دوں گا۔ نبی کریم و نے ابوجہل کی گستاخی کے جواب میں اس کو ڈانٹ دیا۔ ابوجہل کہنے لگا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تمہیں معلوم نہیں کہ اس شہ رمین میرے ساتھیوں کی کتنی زیادہ تعداد ہے ؟ اگر میں نے ان کو آواز دے ڈالی تو پھر تم اپنے انجام کا اندازہ کرسکتے ہو۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو خاموش رہے اللہ تعالیٰ نے سورة علق کی آخری چودہ آیات میں ابوجہل اور اس جیسے لوگوں کو جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں پر بڑی حیرت ہے جو اللہ کے ایک ایسے نیک بندے کو اللہ کے گھر میں اس کی عبادت سے روک رہے ہیں جو سیدھے راستے اور پرہیز گاری کی تلقین کر رہا ہے۔ جب کہ اس عبادت سے منع کرنے والا شخص وہ ہے جو اللہ کے دین کی سچائی کو جھٹلا کر اس سے منہ موڑ رہا ہے ۔ ابوجہل کی دھمکی کے جواب میں فرمایا کہ اگر وہ اپنے حمایتی ٹولے کو آواز دے کر بلائے گا تو ہم بھی اپنے ان فرشتوں کو حکم دیں گے جو عذاب کے فرشتے ہیں جو ایسے گستاخوں کو ان کی پیشانیوں سے گھسیٹ کر جہنم کے گڑھے میں لے جا کر پھینک دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے کہ آپ ایسے جاہلوں کی باتوں پر نہ تو دھیان دیں اور نہ ان کی بات سنیں بلکہ نمازوں اور سجدوں کے ذریعے اپنے پروردگار کا قرب حاصل کرنے کی جدوجہد کریں یہ گستاخ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة العلق کا تعارف اس سورت کا نام العلق اس کی دوسری آیت میں موجود ہے اس کی انیس آیات ہیں جو ایک رکوع پر مشتمل ہیں۔ اس سورت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے آپ کی نبوت کا آغاز ہوا اور اسی سے قرآن مجید کی ابتدا ہوئی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی ابتدائی آیات پڑھنے کا حکم ہوا۔ اس میں انسان کو اس کی ابتداء بتلا کر آگاہ کیا ہے کہ انسان اس وقت اپنے رب کو فراموش کردیتا ہے جب یہ اپنے آپ کو بےنیاز اور بڑا سمجھتا ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے بالآخر وہ ذلت اور رسوائی کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ ذلّت اور رسوائی سے وہی شخص بچ پائے گا جو اپنے رب کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے سامنے جھکے گا اور اس کی قربت کا متلاشی رہے گا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیات قرآن مجید کی سب سے پہلی نازل ہونے والی آیا ہیں جن روایات میں آیا ہے کہ کچھ دوسری آیات سے وحی کا آغاز ہوا ، وہ قوی روایات نہیں ہیں۔ امام احمد نے روایت کی ہے ، عبدالرزاق سے ، انہوں نے معمر سے ، انہوں نے زہری سے ، انہوں نے عروہ سے ، انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ وہ فرماتی ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا آغاز یوں ہوا کہ سونے کی حالت میں آپ کو سچے خواب آتے۔ آپ جو خواب بھی دیکھتے وہ روزروشن کی طرح عیاں ہوتے۔ اس کے بعد آپ خلوت نشینی پسند کرنے لگے۔ چناچہ آپ غار حرا میں جاکر خلوت اختیار فرماتے۔ آپ وہاں تحنث یعنی عبادت فرماتے ، اور یہ سلسلہ کئی شب روز تک رہتا ۔ اور اس کے بعد آپ گھروالوں کے پاس آتے۔ اور اس خلوت نشینی کے لئے توشہ بےجاتے۔ پھر واپس حضرت خدیجہ (رض) کے پاس آتے اور مزید عرصے کے لئے سامان لے جاتے۔ یہاں تک کہ آپ پر سچائی آگئی ، اس وقت آپ غار حرا ہی میں تھے۔ فرشتہ آیا تو اس نے کہا : ” پڑھو “ تو حضور نے فرمایا :” میں پڑھنے والا نہیں ہوں “۔ فرماتے ہیں اس نے مجھے پکڑا اور بھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی۔ تب مجھے چھوڑا اور کہا : ” پڑھو “ تو میں نے وہی جواب دیا کہ ” میں پڑھنے والا نہیں ہوں “۔ اس نے دوسری مرتبہ مجھے پکڑا اور بھینچا یہاں تک کہ میری قوت جواب دینے لگی۔ پھر مجھے چھوڑ دیا اور پھر کہا : ” پڑھو “ تو میں نے کہا : ” میں پڑھنے والا نہیں ہوں “۔ تو اس نے مجھے پھر پکڑا اور بھینچا یہاں تکہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی اور پھر کہا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi