Surat ul Alaq

Surah: 96

Verse: 19

سورة العلق

کَلَّا ؕ لَا تُطِعۡہُ وَ اسۡجُدۡ وَ اقۡتَرِبۡ ﴿٪ٛ۱۹﴾  21

No! Do not obey him. But prostrate and draw near [to Allah ].

خبردار! اس کا کہنا ہرگز نہ ماننا اور سجدہ کر اور قریب ہو جا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

كَلَّ لاَ تُطِعْهُ ... Nay! Do not obey him. meaning, `O Muhammad! Do not obey him in what he is forbidding from such as steadfastness in worship and performing worship in abundance. Pray wherever you wish and do not worry about him. For indeed Allah will protect you and help you, and He will defend you against the people.' ... وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ Fall prostrate and draw ... near (to Allah)!) This is just like what has been confirmed in the Sahih of Muslim on the authority of Abu Salih who reported from Abu Hurayrah that the Messenger of Allah said, أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَكْثِرُوا الدُّعَاء "The closest that a servant can be to his Lord is when he is in prostration. Therefore, make abundant supplications (i.e., while prostrating)." It has also been mentioned previously that the Messenger of Allah used to prostrate when he recited إِذَا السَّمَأءُ انشَقَّتْ When the heaven is split asunder. (84:1) and, اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِى خَلَقَ Read! In the Name of your Lord Who has created. (96:1) This is the end of the Tafsir of Surah Al-`Alaq. Unto Allah is due all praise and thanks, and He is the Giver of success and protection against error.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] سجدہ کی فضیلت :۔ یعنی اس بدکردار شخص کی بات مان کر کعبہ میں نماز کی ادائیگی سے رکنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اسی طرح نماز ادا کرتے رہو۔ جیسے پہلے ادا کرتے رہے ہو۔ واضح رہے کہ یہاں سجدہ سے مراد صرف سجدہ نہیں بلکہ نماز ہے اور عربوں کا قاعدہ ہے کہ وہ کسی چیز کا جزء اشرف بول کر اس سے کل یا اصل چیز ... مراد لیتے ہیں اور بتایا یہ جارہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس قدر نمازیں ادا کریں گے اتنا ہی زیادہ اللہ کا قرب حاصل ہوگا۔ لہذا نمازیں بکثرت ادا کیا کیجیے۔ سجدہ کی فضیلت سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ ربیعہ بن کعب اسلمی فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں ہی رات کو رہا کرتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاجت اور وضو کے لیے پانی لایا کرتا۔ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مانگ کیا مانگتا ہے۔ میں نے عرض کیا && جنت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت چاہتا ہوں && آپ نے پوچھا :&& کچھ اور بھی ؟ && میں نے عرض کیا : && بس یہی کچھ چاہتا ہوں && آپ نے فرمایا :&& اچھا تو کثرت سجود کو اپنے اوپر لازم کرلو اور اس طرح اس سلسلہ میں میری مدد کرو && (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ باب فضل السجود والحث علیہ) ٢۔ اس سورة کے اختتام پر بھی سجدہ تلاوت کرنا چاہیے۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سورت ( اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ ۝ ۙ ) 84 ۔ الانشقاق :1) اور سورة اقراء میں سجدہ کیا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) کلا لاتطعہ واسجد واقترب : فرمایا : وہ آپ کو نماز سے روکتا ہے تو آپ اس کا کہنا ہرگز نہ مانیں، بلکہ آپ نماز پڑھتے، سجدہ کرتے اور اللہ تعالیٰ کا رقب حاصل کرتے رہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد فاکثرو الدعائ) (مسلم ، الصلاۃ ، باب ما یقال فی الرک... وع و السجود ؟: ٣٨٢)” بندہ اللہ کے سب سے زیادہق ریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو تو تم (سجدے میں ) دعا زیادہ کا یک رو۔ “ صحیح مسلم ہی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت پر سکدہ کرتے تھے۔ (دیکھیے مسلم، المساجد، باب سجود التلاوۃ : ١٠٨/٥٨٨) (٢) اگرچہ ان آیات کا اولین مصداق ابوجہل ہے، مگر الفاظ عام ہونے کی وجہ سے ہر وہ شخص ان کا مصداق ہے جس میں یہ سجدہ کرتا رہے اور اس کا قرب تلاش کرتا رہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse [ 19] كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِ‌ب ۩ (No! never obey him, and bow down in sajdah { Prostration}, and come closer.) The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is advised to ignore and disobey Abu Jahl when he stops him from praying. He is asked to be steadfast in prayer and prostration. Acceptability of Supplication in the Posture of Prostration It is recorded in Abu Dawud on t... he authority of Sayyidna Abu Hurairah (رض) that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اقرب ما یکون العبد من ربّہٖ وھو ساجد فاکثروا الدعاء . (The closest that a servant can be to his Lord is when he is in prostration. Therefore, make abundant supplications [ while prostrating ]) Another authentic Tradition states: فانّہ قمن ان یستجاب لکم (...because it is fitting and proper that supplications be accepted in the state of prostration.) Ruling It is valid to supplicate in the supererogatory (nafi) salah while prostrating. In certain narrations, special words of the supplications are recorded from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . It is better to recite those transmitted prayers of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . There is no proof or evidence of such supplications in the prostration of obligatory salah, because the obligatory salah needs to be short. Ruling A prostration is compulsory for one who recites this verse and listens to it. A narration of Sayyidna Abu Hurairah (رض) states that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) used to prostrate when he recited this verse. Allah knows best! Al-hamdulillah The Commentary on Surah Al-` Alaq Ends here  Show more

کلا لا تطعہ و اسجد و اقترب یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت ہے کہ ابوجہل کی بات پر کان نہ دھریں اور سجدہ اور نماز میں مشغول رہیں کہ یہی اللہ تعالیٰ کے قرب کا راستہ ہے۔ سجدے کی حالت میں قبولیت دعائ :۔ ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمای... ا اقرب مایکون العبد من ربہ وہوساجد فاکتروا الدعائ، یعنی بندہ اپنے رب سے قریب تر اس وقت ہوتا ہے جبکہ وہ سجدہ میں ہو اس لئے سجدہ میں بہت دعا کیا کرو اور ایک دوسری صحیح حدیث میں یہ لفظ بھی آئے ہیں فانہ قمن ان یستجاب لکم، یعنی سجدے کی حالت میں دعا قبول ہونے کے لائق ہے۔ مسئلہ :۔ نفل نمازوں کے سجدہ میں دعا کرنا ثابت ہے، بعض روایات حدیث میں اس دعا کے خاص الفاظ بھی آئے ہیں وہ الفاظ ماثورہ پڑھے جائیں تو بہتر ہے۔ فرائض میں اس طرح کی دعائیں ثابت نہیں، کیونکہ فرائض میں اختصار مطلوب ہے۔ مسئلہ :۔ اس آیت کو پھڑنے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔ صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت پر سجدہ تلاوت کرنا ثابت ہے۔ واللہ اعلم تمت سورة العلق 5 رمضان سہ 1391 ھ   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَلَّا۝ ٠ ۭ لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ۝ ١٩ ۧ۞ كلا كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال ... : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] . کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩{ کَلَّاط لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ ۔ } ” کوئی بات نہیں ! (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس کی بات نہ مانیے ‘ آپ سجدہ کیجیے اور (اللہ سے اور) قریب ہوجایئے ! “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جھوٹے ‘ غلط کار شخص کی ایک نہ سنیے۔ یہ اگر آپ کو نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے تو اس کی پر... وا نہ کیجیے۔ آپ اپنے پروردگار کی جناب میں سجدے کرتے رہیے اور کثرت سجود سے اس کا قرب حاصل کرتے رہیے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 "Sajdah" (prostration) here implies the Prayer, so as to say: "O Prophet, continue to perform your Prayer fearlessly as you have been in the past, and seek your Lord's presence through it." In the Sahih of Muslim and other books of Hadith there is a tradition from Hadrat Abu Huraira to the effect: "The servant is nearest to his Lord when he is in the state of prostration", and in Muslim there i... s also a tradition from Hadrat Abu Hurairah that when the Holy Prophet recited this verse, he performed a sajdah of recital.  Show more

سورة العلق حاشیہ نمبر : 16 سجدہ کرنے سے مراد نماز ہے ۔ یعنی اے نبی ، تم بے خوف اسی طرح نماز پڑھتے رہو جس طرح پڑھتے رہے ہو ، اور اس کے ذریعہ سے اپنے رب کا قرب حاصل کرو ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ بندہ سب سے زیادہ اپنے رب سے اس وقت قریب ہوتا ہے جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے ...  اور مسلم میں حضرت ابو ہریرہ کی یہ روایت بھی آئی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے تھے تو سجدہ تلاوت ادا فرماتے تھے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: یہ بڑا پیار بھرا فقرہ ہے، اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِنسان کو سجدے کی حالت میں اﷲ تعالیٰ کا خاص قرب عطا ہوتا ہے۔ یہ آیت سجدے کی آیت ہے، اور اس کی تلاوت کرنے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت واجب ہوجاتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(96:19) کلا۔ روع لذلک اللعین (روح المعانی) ای ارتدع ایہا الکافر الکاذب (ایسر التفاسیر) یہ جھڑک ہے ملعون ابو جہل کے لئے۔ اے چھوٹے کافر باز رہ۔ (ایسی بےجا حرکتوں سے باز رہ) لاتطعہ : لا تطع فعل نہی واحد مذکر حاضر اطاعۃ (افعال) مصدر سے ہ ضمیر واحد مذکر غائب۔ تو اس کی اطاعت نہ کر۔ تو اس کا کہنا مت مان۔...  نماز پڑھتا رہ۔ اسے مت چھوڑ۔ یہ جملہ مستانفہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے سوال ہوسکتا تھا کہ جب یہ روکتا ہے تو میں کیا کروں ؟ اس کا جواب دے دیا کہ اس کی بات مت مانو۔ واسجد۔ یہ لفظا لاتطعہ پر معطوف ہے اور معنوی اعتبار سے لاتطع کے معنی کی تاکید ہے۔ واؤ عاطفہ ہے۔ اسجد فعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر سجود (باب نصر) مصدر سے۔ واقترب۔ اس کا عطف بھی جملہ سابقہ پر ہے۔ فعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر اقتراب (افتعال) مصدر سے۔ تو نزدیک ہو۔ تو قربت حاصل کر۔ یعنی نماز کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرو۔ علامہ پانی پتی رقمطراز ہیں :۔ سورة انشقت میں سجدہ تلاوت کے مبحث میں ہم لکھ چکے ہیں کہ اس جگہ لفظ اسجد اللہ کی طرف سے سجدہ تلاوت کا حکم ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل اس کی دلیل ہے۔ کیونکہ مسلم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اذا السماء انشقت (84:21) اور اقرأ (سورۃ زیر مطالعہ) میں سجدہ کیا۔ جمہور کے نزدیک اسجد کا عطف جو لاتطعہ پر ہے اس لئے اس سجدہ سے مراد نماز ہے۔ جزء بول کر کل مراد لیا گیا ہے ۔ پس یہ نماز پڑھنے کا حکم ہے (سجدہ کا حکم نہیں ہے) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اقرأ میں سجدہ کیا ہے تو آپ کے عمل کا اتباع سنت ہے۔ اس سے سجدہ اقرأ کا مسنون ہونا ثابت ہوتا ہے وجوب نہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ ادھر ابوجہل آگیا اور کہنے لگا :’ د کیا میں نے تمہیں اس حرکت (نماز سے منع کیا تھا تم جانتے ہو کہ مکہ کی سر زمین میں مجھ سے زیادہ کسی کے ساتھی اور حمایتی نہیں ہیں “ اسی کا جواب اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں دیا ہ... ے (ترمذی ابن جریر وغیرہ) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ابوجہل کہنے لگا :” کیا محمد (ﷺ) تمہارے درمیان اپنا چہرہ زمین پر رکھتا (یعنی سجدہ کرتا) ہے ؟ “ لوگوں نے کہا ” ہاں “ بولا ” مجھے لات و عزی کی قسم اگر میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا تم میں اس کی گردن دبوچ لوں گا اور اس کا چہرہ زمین میں گاڑ دوں گا۔ پھر وہ اس ارادہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ آگے بڑھنے کے بجائے پیھچے ہٹ رہا ہے اور ہاتھوں سے اپنی روک کر رہا ہے۔ لوگوں نے پوچھا ” کیا ہوا ؟ “ کہنے لگا ” میرے اور اس شخص کے درمیان آگ کی ایک خناق اور دہشت اور بہت سے پر ہیں۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کی تکا بوٹی کر ڈالتے۔ “ (مسلم نسائی احمد وغیرہ) فتح القدیر11 اس مقام پر سجدہ تلاوت ہے (ابن کثیر) بحوالہ صحیح مسلم عن ابی ہریرہ)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یعنی یہ سرکش جو تمہیں نماز سے روکتا ہے ، اس کی اطاعت نہ کرو ، یہ جو دعوت اسلامی کی راہ روکتا ہے ، اس کی مزاحمت کرو ، رب کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اس کا قرب حاصل کرو۔ انسان صرف عبادت اور اطاعت کے ذریعہ ہی خدا کے قریب ہوتا ہے۔ ایسے سرکشوں کو نظر انداز کردو ، اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی قوتیں اس سے نمٹ لیں۔ ... روایات صحیحہ میں یہ بات مذکور ہے کہ اس سورت کے پہلے پیراگراف کے علاوہ اگلا پورا حصہ ابوجہل کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ یہ جب خانہ کعبہ میں آیا تو حضور مقام ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ تو اس نے کہا اے محمد کیا میں نے تم کو اس سے روکا نہ تھا ، اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھمکی دی اور حضور نے بھی اس کو خوب ڈانٹا۔ اور شاید اس موقعہ پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو گلے سے پکڑ کر کہا۔ اولی لک فاولی (باز آجاﺅ ورنہ ....) اور اس نے کہا ، اے محمد تم مجھے کس چیز کی دھمکی دیتے ہو ، خدا کی قسم اس وادی میں میرے دوست ویار سب سے زیادہ ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ فلیدع نادیہ (17:96) ” یہ اپنے یارومددگار بلائے “۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر اس وقت یہ اپنے حامیوں کو بلاتا تو عذاب کے فرشتے اسی وقت ان کو دبوچ لیتے۔ لیکن اس سورت کا مفہوم عام ہے۔ ہر مومن اور مطیع فرمان داعی الی اللہ اور ان کے مقابل آنے والے سرکش اور نافرمان پر یہ سورت صادق آتی ہے۔ ہر وہ باغی جو لوگوں کو نماز سے روکتا ہے اور اللہ کی اطاعت شعاری سے منع کرتا ہے اور نیکی کے خلاف سازشیں کرتا ہے ، اس کے لئے یہ دھمکی تیار ہے۔ آخری ہدایت یہ ہے۔ کلا لا ........................ واقترب (19:96) ” ہرگز نہیں اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو ، اور اللہ کا قرب حاصل کرو “۔ اس تفسیر کے مطابق سورت کے تمام پیراگراف باہم مربوط ہوجاتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿لَا تُطِعْهُ﴾ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس کی بات نہ مانیے نماز نہ چھوڑیئے اور ایمان اور اعمال خیر سے جو یہ روکتا ہے اس میں اس کی اطاعت نہ کیجئے وَ اسْجُدْ (اور اپنے رب کے لیے سجدہ کرتے رہو) ﴿وَ اقْتَرِبْ ٠٠١٩﴾ (اور اپنے رب کا قرب حاصل کرتے رہیے) اس میں خوب زیادہ نماز پڑھنے کا حکم فرمایا...  جس میں تکثیر سجدات کا حکم بھی آجاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب سجدہ کی حالت میں ہو لہٰذا تم خوب زیادہ دعا کیا کرو۔ (رواہ مسلم صفحہ ١٩١: ج ١) حضرت ربیعہ بن کعب (رض) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رات گزارا کرتا تھا ایک مرتبہ (نماز تہجد کے لیے) میں نے آپ کی خدمت میں وضو کا پانی اور دوسری ضرورت کی چیزیں حاضر کردیں، آپ نے فرمایا مانگو کیا مانگتے ہو میں نے کہا میں یہ چاہتا ہوں کہ جنت میں آپ کے ساتھ رہوں، آپ نے فرمایا اس کے علاوہ اور کچھ ؟ میں نے کہا کہ میرا تو یہی مطلوب ہے آپ نے فرمایا اچھا تو اپنے نفس کے مقابلہ میں میری مدد کرو خوب سجدے کیا کرو۔ (رواہ مسلم صفحہ ١٩٣: ج ١) مطلب یہ ہے کہ انسان کا نفس آگے بڑھنے نہیں دیتا اور صرف دعا پر بھروسہ کرنا چاہیے تم بھی محنت کرو میں بھی دعا کروں گا نفس سستی کرے تو اس کی بات نہ ماننا خوب ہمت اور محنت کے ساتھ سجدوں کی کثرت کرتے رہنا، بندہ کے پاس اپنا عجز و نیاز اور تذلل اور شان عبدیت کا عملی اقرار ظاہر کرنے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ اپنے اشرف الاعضاء یعنی سر کو ارذل العناصر یعنی مٹی پر رکھ دے اور اپنے رب کریم کے حضور اپنی ذات کو بالکل ذلیل کر کے پیش کر دے۔ اسی لیے حضرات اکابر نے فرمایا ہے کہ نماز کے ارکان میں سب سے بڑا رکن سجدہ ہی ہے اسی لیے ہر رکعت میں قیام اور رکوع ایک ایک بار اور سجدہ دو بار ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ آیات بالا ابو جہل لعین کی بےادبی اور بدتمیزی اور گستاخی پر نازل ہوئیں اس کے بارے میں جو ﴿لَنَسْفَعًۢا بالنَّاصِيَةِۙ﴾ فرمایا ہے اس سے اس کی دنیا کی ذلت بھی مراد لی جاسکتی ہے بدر کی لڑائی میں وہ دیگر مشرکین مکہ کے ساتھ بڑے طمطراق اور فخر و غرور کے ساتھ آیا اور بری طرح مقتول ہوا۔ اگر آیت کریمہ سے یہ دنیا والی سزا مراد لی جائے تو پیشانی پکڑ کر گھسیٹنے سے ذلیل کرنا مراد ہوگا اور روح المعانی میں یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ جنگ بدر کے موقعہ پر حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے جب اس کا سر کاٹ دیا اور خدمت عالی میں حاضر کرنے کے لیے اٹھانا چاہا تو اٹھا نہ سکے لہٰذا انہوں نے ابو جہل کے کان میں سوراخ کیا اور اس میں دھاگہ ڈال کر کھینچتے ہوئے لے گئے۔ اور آخرت کا عذاب اور وہاں کی ذلت مراد لی جائے تو وہ بھی مراد لے سکتے ہیں۔ سورة المومن میں فرمایا ہے ﴿فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَۙ٠٠٧٠ اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْۤ اَعْنَاقِهِمْ وَ السَّلٰسِلُ ١ؕ يُسْحَبُوْنَۙ٠٠٧١ فِي الْحَمِيْمِ ١ۙ۬ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَۚ٠٠٧٢﴾ (سو عنقریب جان لیں گے جبکہ طوق ان کے گردنوں میں ہوں گے کھولتے ہوئے پانی میں کھینچے جائیں گے پھر آگ میں جھونک دیئے جائیں گے) ۔ اور سورة الرحمٰن میں فرمایا ہے ﴿يُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِيْمٰهُمْ فَيُؤْخَذُ بالنَّوَاصِيْ وَ الْاَقْدَامِۚ٠٠٤١﴾ (مجرمین کو ان کی پیشانیوں سے اور قدموں سے پکڑ لیا جائے گا) ۔ نَاصِیَۃٍ (پیشانی) کو کاذِبَۃٍ سے موصوف فرمایا اس سے پوری شخصیت مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس شخص کا ہر ہر جزو ہر ہر عضو جھوٹا اور خطاکار ہے۔ قال صاحب الروح ویفید انہ لشدة کذبہ خطاہٴ کان کل جزء من اجزائہ یكذّب ویخطی اس سورت میں ﴿كَلَّا﴾ تین جگہ آیا ہے عربی زبان میں یہ لفظ ردع یعنی جھڑکنے اور روکنے کے لیے آتا ہے اور کبھی کبھی حقًّا کے معنی میں بھی آتا ہے پہلی جگہ حَقًّا کے معنی میں اور دوسری اور تیسری جگہ زجر و توبیخ کے لیے لایا گیا ہے یعنی جس شخص کی یہ حرکتیں ہیں اسے ان حرکتوں سے بچنا لازم ہے۔ لَنَسْفَعًا مصاحف میں الف کے ساتھ مکتوب ہے جو صیغہ جمع متکلم بالام تاکید و نون خفیفہ ہے سفع یسفع سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے شدت کے ساتھ کھینچنا نون خفیفہ کو الف کے ساتھ لکھا گیا ہے اس پر وقف کریں گے تو الف ہی کے ساتھ وقف کیا جائے گا یعنی نون واپس نہیں آئے گا جیسا کہ ﴿وَ لَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ ٠٠٣٢﴾ میں نون خفیفہ کو تنوین کی صورت میں لکھا گیا ہے اس کے آخر میں بھی الف ہے، اس پر بھی الف کے ساتھ وقف کیا جائے گا۔ فائدہ : آیت کریمہ ﴿ اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰىۙ٠٠٩ عَبْدًا اِذَا صَلّٰى ؕ٠٠١٠﴾ سے معلوم ہوا کہ نماز پڑھنے سے روکنا مسلمان کا کام نہیں ہے، یہ کام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن ابو جہل نے کیا تھا جس پر سورة العلق کی آیات نازل ہوئیں۔ بہت سے لوگ جو مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں اپنی اولاد کو فرض نماز تک پڑھنے سے روکتے ہیں اور ایسے کاموں میں لگا دیتے ہیں جس میں نماز فرض کے اوقات آجاتے ہیں اور محکمے والے یا کمپنی والے نماز پڑھنے کا موقع نہیں دیتے اگر کسی لڑکے کو اس کا احساس ہو کہ فرائض ضائع ہو رہے ہیں اور ماں باپ سے کہے کہ میں اس کام کو چھوڑتا ہوں تو کہتے ہیں ایک تو ہی رہ گیا ہے ملاں بننے کے لیے ؟ کتنی دنیا ہے جو نماز نہیں پڑھتی تو نے ہی نہ پڑھی تو کیا ہوجائے گا ؟ (یہ نہیں سمجھتے کہ فرض نماز چھوڑنے والوں کے لیے دوزخ کا داخلہ ہے) اسی طرح کمپنیوں کے ذمہ دار بڑے بڑے تاجر نہ خود نماز پڑھتے ہیں نہ ملازمین کو نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں اگر کوئی شخص نماز کی بات کرے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا نقصان ہوگا قضاء نماز گھر جا کر پڑھ لینا اول تو ایسی جگہ ملازمت کرنا ہی حرام ہے جہاں فرائض ضائع ہوتے ہیں اور ایسی کمپنیوں کا ذمہ دار بننا جن میں نماز پڑھنے کا موقع نہ دیا جائے یہ بھی حرام ہے لوگ دنیا کے نقصان کو دیکھتے ہیں نماز کی دینی و دنیاوی برکات، آخرت کے فوائد اور عذاب سے نجات اور بےانتہا اجر وثواب کو نہیں دیکھتے۔ بندہ مومن کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دونوں فریضوں کو انجام دے نہ یہ کہ نماز پڑھنے والوں کو نماز سے روک دے ایک نماز ہی پر کیا منحصر ہے شریعت کے تقاضوں کے مطابق ہر گناہ سے روکنا لازم ہے ہر گناہ سے بھی روکیں اور نیکیوں کا بھی حکم کرتے رہیں اگر کوئی شخص حرام روزی کماتا ہو اور کوئی عالم بتادے کہ یہ پیشہ حرام ہے اور فلاں کاروبار کی آمدن حرام ہے اور کوئی نوجوان اس کو چھوڑنے لگے اور حلال کے لیے فکر مند ہوجائے تو ماں باپ اور دوسرے رشتہ دار اور دوست احباب اس سے کہتے ہیں کہ تجھے تقویٰ کا ہیضہ ہوگیا ہے۔ دنیا میں کون ہے جو حلال کھا رہا ہے وغیرہ وغیرہ، حالانکہ دوسروں کے حرام کھانے سے اپنے لیے حرام کھانا حلال نہیں ہوجاتا۔ فتفکروا یا اھل الاسلام فائدہ : اس سورت کی آخری آیت سجدہ تلاوت کی آیت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر سجدہ فرمایا تھا۔ كما روی مسلم (صفحہ ٢١٥: ج ١) عن ابی ھریرة قال سجدنا مع النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی اذا السماء انشقت واقرا باسم ربك۔ وھذا آخر تفسیر سورة العلق، والحمد للہ الذی خلق والصلٰوة والسلام علی رسولہ الذی صدع بالحق، من امن بہ اطمئن من البخس والرھق  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ ” کلا لا تطعہ “ کلا ردعیہ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا جیسا کہ ابوجہل کا گمان ہے کہ اس کے مددگار اس کو خدا کے عذاب سے چھڑا لیں گے۔ ہرگز نہیں ! ” لاتطعہ “ ابوجہل آپ کو نماز سے روکتا ہے، آپ اس کی بات نہ مانیں، بلکہ نماز پڑھیں اور اللہ ہی کی بارگاہ میں سجدہ بجا لائیں اور کثرت سجود اور عبادت وطاعت سے اس ... کا قرب اور اسی کی رضامندی حاصل کریں۔ عبادت صرف اسی کی بجا لائیں اور مصائب میں صرف اسی کو پکاریں سورة العلق ختم ہوئی  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) نہیں نہیں آپ اس کا کہنا نہ مانیے اور سجدہ کرتے رہیے اور اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیے یعنی نماز پڑھتے رہیے اور نماز کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیجئے کیونکہ سجہ بندے کو اللہ تعالیٰ سے بہت قریب کردیتا ہے۔ اہل تصوف کی بعض کتابوں میں نظر سیگزرا ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسل... م) نے دریافت کیا تھا کہ بندہ آپ سے کس حالت میں زیادہ قریب ہوتا ہے ارشاد ہوا جب بھوکا ہوتا ہو اور جب وہ سجدہ کرتا ہے یعنی بندے کی یہ دو حالتیں اس کو ہم سے زیادہ قریب کردیتی ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایک بار ابوجہل حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز میں دیکھ چلا کہ بےادبی کرے وہاں نہ پہنچا تھا کہ جھپکا لگا پروں کا ڈر کر الٹے پائوں پھرا پھر کبھی یہ خیال نہ کیا۔ معلوم ہوا کہ سجدے میں بندہ اللہ سے نزدیک ہوتا ہے۔ تم تفسیر سورة العلق  Show more