Surat ul Alaq

Surah: 96

Verse: 5

سورة العلق

عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾

Taught man that which he knew not.

جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Read! And your Lord is the Most Generous. Who has taught by the pen. He has taught man that which he knew not. There is a narration that states, "Record knowledge by writing." There is also a saying which states, "Whoever acts according to what he knows, Allah will make him inherit knowledge that he did not know."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] انسان جب ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے اس وقت وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ اسے قلم کے استعمال سے پہلے ہی بہت سی باتیں سکھا دیتا ہے۔ یہ پہلی وحی کی آخری آیت ہے جس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ علم دیا جارہا ہے جو جاننے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرصہ ... سے بےتاب تھے اور اس نے آپ کو اپنا نبی بنا لیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(علم الانسان مالم یعلم): انسان پیدا ہوتا ہے تو کچھ بھی نہیں جانتا (دیکھیے نحل : ٧٨) اللہ تعالیٰ ہی اسے آہستہ آہستہ سب کچھ سکھاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہی اپنے ایک ان پڑھ بندے کو اعلم بلکہ عالموں کا استاذ بنائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۝ ٥ ۭ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما ي... لي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور انسان کو اس تعلیم سے پہلے اس کی خبر نہیں تھی یا کہ آدم (علیہ السلام) کو ہر ایک چیز کے نام بتلائے کہ اس سے پہلے وہ ان کو جاننے والے نہ تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ۔ } ” اور انسان کو وہ کچھ سکھایا ہے جو وہ نہیں جانتا تھا۔ “ پہلی وحی ان پانچ آیات پر مشتمل تھی۔ اس وحی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ و انذار سے متعلق کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ البتہ اس وحی کی خاص اہمیت یہ ہے کہ اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ و... سلم) کی نبوت کا ظہور ہوا (ہر نبی اگرچہ پیدائشی طور پر ہی نبی ہوتا ہے لیکن اس کی نبوت کا باقاعدہ ظہور پہلی وحی کے وقت ہوتا ہے) ۔ تبلیغ کا باقاعدہ حکم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورة المدثر کی ان آیات میں دیا گیا : { یٰٓــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ - قُمْ فَاَنْذِرْ - وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ۔ } کہ اے لحاف میں لپٹ کرلیٹنے والے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہو جائو اور اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرو۔ یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب آپ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے جدوجہد شروع کردیجیے ۔ سورة العلق اور سورة المدثر کے مابین اس لحاظ سے گہری مشابہت پائی جاتی ہے کہ سورة المدثر کی طرح یہ سورت بھی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پھر جس طرح سورة المدثر کی پہلی سات آیات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کے بعد تین آیات میں قیامت کا ذکر آیا ہے ‘ بالکل اسی طرح اس سورت میں بھی پہلی پانچ آیات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے اور اس کے بعد درج ذیل تین آیات میں آخرت کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 That is, Man originally was absolutely illiterate. Whatever of knowledge he obtained, he obtained it as a gift from Allah. Whatever doors of knowledge at any stage did Allah will to open for man, they went on opining up before him. This same thing has been expressed in the verse of the Throne, thus: "And the people cannot comprehend anything of His knowledge save what He Himself may please to re... veal." (Al-Baqarah: 255) . Whatever man looks upon as his own scientific discovery was, in fact, unknown to him before. Allah gave him its knowledge whenever He willed without his realizing that Allah by His grace had blessed him with the knowledge of it. These verses were the very first to be revealed to the Holy Prophet (upon whom be peace) , as is stated in the Hadith reported by Hadrat `A'ishah. This first experience was so intense and tremendous that the Holy Prophet could not bear it any more. Therefore, at that time he was only made aware that the Being Whom he already knew and acknowledged as his Lord and Sustainer was in direct communion with him, had started sending down Revelations to him, and had appointed him as His Prophet. Then after an intermission the opening verses of Surah al-Muddaththir were revealed in which he was told what mission he had to perform after his appointment to Prophethood. (For explanation, see Introduction to Al-Muddaththir)  Show more

سورة العلق حاشیہ نمبر : 6 یعنی انسان اصل میں بالکل بے علم تھا ۔ اسے جو کچھ بھی علم حاصل ہوا اللہ کے دینے سے حاصل ہوا ۔ اللہ ہی نے جس مرحلے پر انسان کے لیے علم کے جو دروازے کھولنے چاہے وہ اس پر کھلتے چلے گئے ۔ یہی بات ہے جو آیۃ الکرسی میں اس طرح فرمائی گئی ہے کہ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ ... عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۔ اور لوگ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے سوائے اس کے جو وہ خود چاہے ۔ ( البقرہ ، 255 ) جن جن چیزوں کو بھی انسان اپنی علمی دریافت سمجھتا ہے ، درحقیقت وہ پہلے اس کے علم میں نہ تھیں ، اللہ تعالی ہی نے جب چاہا ان کا علم اسے دیا بغیر اس کے کہ انسان یہ محسوس کرتا کہ یہ علم اللہ اسے دے رہا ہے ۔ یہاں تک وہ آیات ہیں جو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئیں ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، یہ پہلا تجربہ اتنا سخت تھا کہ حضور اس سے زیادہ کے متحمل نہ ہوسکتے تھے ۔ اس لیے اس وقت صرف یہ بتانے پر اکتفا کیا گیا کہ وہ سب جس کو آپ پہلے سے جانتے اور مانتے ہیں ، آپ سے براہ راست مخاطب ہے ، اس کی طرف سے آپ پر وحی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ، اور آپ کو اس نے اپنا نبی بنا لیا ہے ، اس کے ایک مدت بعد سورہ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں آپ کو بتایا گیا کہ نبوت پر مامور ہونے کے بعد اب آپ کو کام کیا کرنا ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ششم ، المدثر ، دیباچہ )   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: اِس میں یہ اشارہ ہے کہ اگرچہ تعلیم دینے کا عام طریقہ یہی ہے کہ قلم سے لکھی ہوئی کوئی تحریر پڑھوائی جاتی ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ اس کے بغیر بھی کسی کو تعلیم دے سکتا ہے، چنانچہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو اُمّی ہونے کے باوجود وہ علوم عطا فرمائے گا جو کتاب سے پڑھنے والوں کے خیال میں بھی نہیں آئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(96:5) علم الانسان مالم یعلم : علم، تعلیم (تفعیل) مصدر سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ اس نے سکھایا، اس نے علم دیا۔ الانسا مفعول۔ ما مفعول ثانی علم کا۔ جس نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی آدمی کا بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو کچھ نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ ہی آہستہ آہستہ اسے سکھاتا ہے۔ لہٰذا وہی اپنے ایک ان پڑھ بندے کو عالم بلکہ عالموں کا سردار بنائے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مطلب یہ کہ اول تو تعلیم کچھ کتابت میں منحصر نہیں، دوسرے اسباب سے بھی تعلیم ہو رہی ہے، ثنیا اسباب موثر بالذات نہیں، سبب حقیقی و مفیض علوم ہم ہیں۔ پس گو آپ لکھنا نہیں جانتے مگر ہم نے جب آپ کو قرات کا امر کیا ہے تو ہم دوسرے ذریعہ سے آپ کو قرات اور حفظ علوم وحی پر قدرت دیدیں گے، چناچہ ایسا ہی ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

علم الانسان مالم یعلم (5:96) ” اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو انسان نہ جانتا تھا “۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک نے عالم بالا کے ابتدائی لمحات ہی میں اس حقیقت کو اخذ فرمایا اور آپ کی سوچ ، آپ کے تصرفات ، آپ کے کلام اور آپ کے عمل اور آپ کے رخ پر اور آپکی پوری زندگی میں یہ شعو... ر چھایا رہا۔ کیونکہ یہ ایمان کا پہلا اصول تھا۔ امام شمس الدین ابو عبداللہ محمد ابن قیم الجوزیہ اپنی کتاب ” زادالمعاد فی ہدی خیر العباد “ میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے اہم خدوخال کے بارے میں یوں فرماتے ہیں : ” اللہ کی یاد اور اس کے ذکر کے معاملے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک نہایت ہی مکمل انسان تھے ، آپ کی گفتگو کا اہم حصہ ذکر الٰہی اور ذات باری کے متعلق مسائل ہی پر مشتمل ہوتا تھا۔ آپ کے احکام آپ کے مناہی ، اسلامی قوانین کی وضاحت ، اور تمام دوسری ہدایات دراصل ذکر الٰہی ہی کے پہلو تھے ، اللہ کے اسماء وصفات بیان کرنا ، اللہ کے احکام اور شریعت کے مسائل بیان کرنا ، انجام بد سے ڈرانا وغیرہ سب باتیں اللہ کا ذکر ہی تھیں ، پھر اللہ کی نعمتوں پر اس کی تعریف ، اس کی برتری ، اس کی حمد ، اس کی تسبیح اللہ کا ذکر ہی تو تھا ، پھر اللہ سے مانگنا ، دعا کرنا ، اللہ کی طرف راغب ہونا ، اللہ سے ڈرنا ، یہ سب ذکر الٰہی کے مختلف انداز ہی تو تھے ، جب آپ خاموش ہوتے تو بھی یاد الٰہی کرتے ، ہر وقت ہر حال میں آپ کے شعور میں ذات باری موجود ہوا کرتی تھی۔ ہر سانس جو اندر جاتا یا باہر آتا ، آپ کھڑے ہوتے یا بیٹھے ہوتے ، چلتے پھرتے یا سوار ہوتے ، سفر میں ہوتے یا حضر میں ، اقامت پذیر ہوتے یا کوچ کی حالت میں ہوتے ، غرض ہر دم اور ہر حال میں اللہ کو یاد فرماتے “۔ آپ جب نیند سے بیدار ہوتے تو فرماتے۔ الحمدللہ الذی ............................ النشور ” اس ذات کے لئے حمدوثنا ہے جس نے ہمیں موت دینے (نیند) کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے “۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ رات کو جب کبھی ، اچانک بیدار ہوتے تو دس بار ” اللہ اکبر “ کہتے اور دس بار تہلیل کرتے یعنی کہتے۔ لاالہ الا اللہ ” نہیں ہے کوئی حاکم مگر اللہ “۔ اور اس کے بعد دس بار یہ دعا پڑھتے۔ اللھم انی اعوذبک من ضیق الدنیا ومن ضیق یوم القیمة ” اے اللہ میں دنیا کی تنگی اور آخرت کی تنگی سے تیری پناہ مانگتا ہوں “۔ اس کے بعد آپ نماز شروع کرتے۔ اور انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو جاگتے تو یہ دعا پڑھتے۔ لا الہ الا انت سبحانک الھم استغفرک لذنبی واسئلک رحمتک اللھم زدنی علما ولا تزع قلبی بعد اذ ھدیتنی وھب لی من لدنک رحمة انک انت الوھاب (ابوداﺅد) ” اے اللہ تیرے سوا کوئی حاکم نہیں ، تو پاک ہے اور برتر ہے۔ اے اللہ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں ، اور تجھ سے تیری رحمت طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما اور میرے دل کو ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا نہ کر ، اور مجھے اپنی جانب سے رحمت عطا فرما۔ بیشک تو ہی بخشنے والا ہے “۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص رات کو بیدار ہو اور کہے۔ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر۔ الحمد للہ وسبحان اللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم ” نہیں کوئی حاکم مگر اللہ صرف وہی حاکم ہے ، اسکے ساتھ کوئی شریک نہیں ، بادشاہت اسی کی ہے ، تعریف اسی کی ہے ، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، وہی پاک ہے ، ہر عیب سے ۔ اس کے سوا کوئی حاکم نہیں۔ اللہ ہی بڑا ہے ، کوئی تدبیر اور کوئی قوت نہیں مگر اللہ کے ذریعہ ہی ہے ، جو بلند اور عظیم ہے “۔ اور پھر وہ یہ دعا کرے۔ اللھم اغفرلی ” اے اللہ ، مجھے بخش دے “۔ یا کوئی اور دعا کرے تو یہ دعا قبول ہوگی اور اگر وہ وضو کرکے نماز بھی ادا کرے تو نماز قبول ہوگی (بخاری) ۔ ایک بار حضرت ابن عباس (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رات گزاری۔ فرماتے ہیں کہ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ نے آسمان کی طرف سراٹھایا اور سورة آل عمران کی دس آیات انا فی خلق السموت سے آخر تک تلاوت کیں اور پھر اللہ کی حمد یوں بیان کی۔ اللھم لک احمد انت نور السموت والارض ومن فیھن۔ لک الحمد انت قیم السموات والارض ومن فیھن۔ ولک الحمد انت الحق وعدک الحق وقولک الحق ولقائک الحق والجنة حق والنار حق والنبیون حق ، ومحمد حق ، والساعة حق اللھم لک اسلمت وبک امنت وعلیک توکلت والیک انبت وبک خاصمت والیک حاکمت فاغفرلی ماقدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت انت الھی لا الہ الا انت ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم۔ ” اے اللہ سب تعریفیں تیرے لئے ہیں ، تو ہی زمین اور آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ، ان کا نور ہے ، سب تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں ، تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان سب چیزوں کا قائم رکھنے والا ہے ، حمد تیرے ہی لئے ہے ۔ تو حق ہے تیرا وعدہ حق ہے ، تیری بات حق ہے ، تجھ سے ملناحق ہے ، جنت حق ہے ، آگ حق ہے ، نبی حق ہیں ، محمد حق ہیں ، قیامت حق ہے۔ اے اللہ میں تیرا مطیع فرمان ہوں تیرے اوپر ایمان لانے والا ہوں ، آگ حق ہے ، نبی حق ہیں ، محمد حق ہیں ، قیامت حق ہے۔ اے اللہ میں تیرا مطیع فرمان ہوں تیرے اوپر ایمان لانے والا ہوں ، تجھ پر توکل کرنے والا ہوں ، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں تیری ہی خاطر لڑا ، اور سب معاملات تیرے ہی سامنے پیش کیے۔ اس لئے مجھے معاف کردے۔ میری اگلی اور پچھلی غلطیوں کو معاف کردے ، جو پوشیدہ رکھا اور جو علانیہ کیا ، تو ہی مرا حکم ہے اور تیرے سوا کوئی حاکم نہیں ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی تدبیر اور کوئی قوت نہیں ہے ، جو علی وعظیم ہے “۔ اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہے ، حضور جب رات کو قیام فرماتے تو یہ دعا پڑھتے۔ اللھم رب جبرائیل ومیکائیل واسرافیل فاطر السموات والارض عالم الغبت والشھادة انت منکم بین عباد لئفیما کانوا فیہ یختلفون اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم۔ ” اور اللہ ، جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل کے رب ، زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے کھلی اور پوشیدہ ہر چیز کو جاننے والے ، تو فیصلہ کرنے والا ہے ان چیزوں کا جن میں لوگ اختلاف کرتے ہیں ، حق کی جن باتوں میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے ان کے بارے میں مجھے راہ راست کی طرف ہدایت کر ، بیشک تو جسے چاہتا ہے راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے “۔ انہوں نے غالباً یہ کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کا آغاز اسی دعا سے کرتے تھے۔ اور جب آپ وتر پڑھتے تھے تو وتر سے فارغ ہونے کے بعد آپ سبحان اللہ القدوس تین بار پڑھتے تھے اور تین بار باآواز بلند پڑھتے تھے ۔ ذرا لمبی آواز کے ساتھ۔ آپ جب اپنے گھر سے نکلتے تھے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ بسم اللہ توکلت علی اللہ اللھم انی اعوذ بک من ان اضل اواضل اوازل اواظلم اواظلم او اجھل اویجھل علی۔ (حدیث صحیح) ” اللہ کے نام سے شروع کیا ، اللہ پر بھروسہ کیا ، اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں گمراہ ہوجاﺅ، یا گمراہ کردیا جاﺅں یالغزش کروں یا میں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے میں کسی سے جھگڑوں یا مجھ سے ناحق جھگڑا کیا جائے “۔ اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر سے نکلے وقت یہ دعا پڑھے۔ بسم اللہ توکلت علی اللہ ولا حول ولا قوة الا باللہ۔ ” شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے ، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور نہیں ہے کوئی تدبیر اور کوئی قوت مگر اللہ کے ساتھ “۔ تو اللہ کی طرف سے ایسے شخص کو کہا جاتا ہے۔ ھدیت وکفیت ورفیت ” تمہیں راہ راست ملی ، تمہاری حاجت پوری ہوئی اور تمہیں پورا پورا اجر ملا “۔ اور شیطان اس کنارہ کش ہوجائے گا (حدیث حسن) حضرت ابن عباس (رض) ایک رات آپ کے پاس رہے تو فرماتے ہیں کہ صبح کو جب آپ نماز کے لئے نکلے تو آپ نے یہ دعا پڑھی۔ اللھم اجعل قلبی نوراء واجعل فی لسانی نوراء واجعل فی سمعی نورا ، واجعل فی بصری نورا ، واجعل فی خلفی نورا ، ومن امامی نورا وجعل من فوقی نورا ، واجعل من تحتی نورا اللھم اعظم لی نورا۔ ” اے اللہ ، میرے دل میں تو نوردے ، میری زبان کو منور کردے ، میرے کانوں میں نور ڈال دے ، میری آنکھوں میں روشنی کردے ، میرے پیچھے روشنی کردے ، میرے آگے روشنی کردے ، میرے اوپر روشنی کردے ، میرے نیچے روشنی کردے اور میرے نور کو عظیم کردے “۔ فضل ابن مرزوق نے عطیہ عوفی سے روایت کی ہے ، انہوں نے ابوسعید خدری سے ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص بھی اپنے گھر سے نماز کے لئے نکلے اور یہ دعا پڑھے۔ اللھم انی اسئلک بحق السائلین علیک وبحق ممشائی الیک فائی لم اخراج بطور اولا اشراولا ریاء ولا سمعة وانما خرجت اتقاء سخطک وابتغاء مرضاتک اسئلک ان تنقذنی من النار وان تغفرلی ذنوبی فانہ لایغفرالذنوب الاانت۔ ” اے اللہ میں تجھ سے ان سوال کرنے والوں کے حق کے ذریعہ سوال کرتا ہوں ، جو تجھ پر ہے ، پھر میری جانب سے تیری طرف چلنے کے حق سے سوال کرتا ہوں ، کیونکہ میں نہ غرور کرتا ہوا نکلا ہوں اور نہ اکڑتا ہوا نکلا ہوں ، نہ ریاکاری سے اور شہرت کی طلب میں نکلا ہوں۔ تیرے غضب سے بچنے کے لئے نکلا ہوں اور تیری رضاکا طلبگار ہوں ، میرا سوال یہ ہے کہ مجھے آگ سے بچا دے ، میرے گناہوں کو بخش دے ، گناہ بخشنے والا تو تو ہی ہے “۔ تو اللہ ستر ہزار فرشتے مقرر فرمائے گا جو اس کے لئے بخشش طلب کریں گے اور اللہ اس کی طرف اپنا چہرہ مبارک کرے گا جب تک وہ نماز ادا نہیں کرتا (یہ حدیث سندا ومتنا ضعیف ہے) امام ابوداﺅد نے روایت کی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی مسجد میں داخل ہوتے تو فرماتے۔ اعوذ باللہ العظیم وبوجھہ الکریم و سلطانہ القدیم من الشیطن الرجیم۔ ” میں شیطان رجیم سے اللہ عظیم کی پناہ مانگتا ہوں ، اس کے مکرم چہرے کی پناہ مانگتا ہوں اور اس کے قدیم اقتدار میں پناہ مانگتا ہوں “۔ جب کوئی یہ دعا پڑھتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اس شخص نے پورے دن کے لئے اپنے آپ کو مجھ سے محفوظ کرلیا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو ، تو چاہئے کہ وہ مجھ پر صلوٰة وسلام پڑھے اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے۔ اللھم افتح لی ابواب رحمتک۔ ” اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے “۔ اور جب مسجد سے نکلے تو یہ کہے۔ اللھم انی اسئلک من فضلک۔ ” اے اللہ میں تیرے فضل کا سوالی ہوں “۔ اور آپ سے یہ نقول ہے کہ جب بھی آپ مسجد میں داخل ہوتے تو محمد اور آل محمد پہ صلوٰة وسلام بھیجتے اور پھر کہتے۔ اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک۔ ” اے اللہ میرے گناہ بخش دے اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لئے کھول دے اور جب آپ نکلتے تو پھر بھی حضرت محمد اور آل محمد پر صلوٰة وسلام بھیجتے اور پھر کہتے۔ اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی باب رحمتک۔ ” اے اللہ ! میرے گنہ معاف کردے اور میرے لئے اپنے فضل کا دروازہ کھول دے “۔ ” حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت تھی کہ جب صبح کی نماز پڑھتے تو مصلے پر بیٹھتے اور اللہ کو یاد فرماتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔ جب صبح ہوتی تو آپ فرماتے۔ : اللھم بک اصبحنا وبک اسینا وبک نحیا وبک نموت والیک النشور (حدیث صحیح) ” اللہ تیرے ہی حکم سے ہم صبح تک پہنچتے ہیں اور تیرے ہی ختم سے ہماری شام ہوتی ہے اور تیرے ہی حکم سے ہم زندہ رہتے ہیں اور تیرے ہی حکم سے ہم مرتے ہیں اور تیرے ہی طرف ہم نے زندہ ہوکراٹھنا ہے “۔ اور آپ یہ کلمات بھی کہا کرتے تھے : اصبحنا واصبح الملک للہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ وحد لاشریک لہ۔ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر۔ رب اسئلک خیر مافی ھذا الیوم وخیر مابعدہ واعوذبک من شر ھذا الیوم وشرمابعدہ رب اعوذبکمن الکس وسوء الکبر رب اعوذبک من عذاب فی النار و عذاب فی القبر۔ ” ہم صبح میں داخل ہوئے اور تمام اقتدار اللہ کے لئے ہے ، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، اللہ کے سوا کوئی حاکم نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی کی بادشاہت ہے ، اس کی تعریف ہے اور وہ عر چیز پر قدرت رکھتا ہے اے اللہ میں تجھ سے اس دن کی بھلائی مانگتا ہوں اور اس کے بعد کے دن کی بھی اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس دن کے شر سے اور اس کے بعد کے دن کے شر سے اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے بڑھاپے کی کمزوریوں سے پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ میں آگ کے عذاب اور قبر کے عذاب سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں “۔ اور شام ہوتی تو آپ یہی دعا یوں پڑھتے : امسینا وامسی الملک بعد ” ہم شام کے وقت تک پہنچے اور بادشاہت اللہ کے لئے ہے تاآخر (مسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ مجھے ایسے کلمات بتائیے کہ میں صبح وشام کہوں تو آپ نے فرمایا یہ کلمات کہا کریں : اللھم فاطر السموات والارض عالم الغیب والشھادة رب کل شئی ملیکة ومال کہ اشھد ان لا الہ الاانت۔ اعوذبک من شر نفسی وشر الشیطن وشرکہ وان اقترف علی نفسی سو اور اجرہ الی مسلم ۔ ” اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ظاہر اور غیب کے جاننے والے ، ہر چیز کے رب حکمران اور مالک ، میں شہادت دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ میں اپنے نفس اور شیطان کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے نفس کو نقصان پہنچاﺅں یا کسی مسلمان کی طرف نقصان کا رخ کروں “۔ اس کے بعد اس باب میں انہوں نے بہت سی احادیث نقل کیں۔ ” اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نیا کپڑاپہنتے تھے تو اس کا نام لیتے تھے یعنی پاجامہ ، قمیص اور چادر پھر یہ پڑھتے تھے۔ اللھم لک الحمد انت کسوتنیہ اسئلک خیرہ وخیر ماصنع لہ واعوذبک من شرہ وشرما صنع لہ۔ ” اے اللہ ، سب تعریفیں تیرے لئے ہیں۔ یہ تونے مجھے پہنایا ہے۔ میں تجھ ہی سے اس کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس مقصد کی بھلائی چاہتا ہوں جس کے لئے یہ بنا اور تجھ ہی سے اس کے شر اور اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جس کے لئے اسے بنایا گیا “۔ (حدیث صحیح) ” آپ سے یہ بھی منقول ہے کہ جب آپ اپنے گھر کو لوٹتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ الحمدللہ الذی کفانی واوانی والحمدللہ الذی اطعمنی وسقانی والحمد للہ الذی من علی اسئلک ان تجیرنی من النار۔ ” اس خدا کی تعریف جو میرے لئے کافی ہو اور جس نے مجھے ٹھکانا دیا۔ اس خدا کی تعریف جس نے مجھے کھلایا پلایا ، اس خدا کی تعریف جس نے مجھ پر احسان کیا۔ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تم مجھے آگ سے بچا “۔ اور صحیحین میں یہ روایت مروی ہے کہ آپ جب بیت الخلا کو جاتے تھے تو یہ فرماتے۔ اللھم انی اعوذبک میں الخبث والخبائث۔ ” اے اللہ میں گندی چیزوں اور گندی باتوں سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں “۔ اور جب آپ بیت الخلاء سے نکلتے تھے فرماتے۔ غفرانک ” اے اللہ میں تیری مغفرت طلب کرتا ہوں “۔ اور یہ بھی آتا کہ آپ یہ الفاظ فرماتے۔ الحمد للہ الذی اذھب عینی الاذی وعافانی۔ ” اللہ کا شکر ہے کہ جس نے مجھ سے تکلیف وہ چیز دور کردیا اور عافیت بخشی “۔ (ابن ماجہ) اور آپ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے اپنا دست مبارک ایک برتن میں ڈالا جس میں پانی تھا اور پھر صحابہ (رض) سے کہا ، اللہ کے نام سے وضوکرو اور آپ سے بھی منقول ہے کہ آپ چاند دیکھتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے۔ اللھم اھلہ علینا بالا من والا ایمان والسلامة والاسلام ربی وربک اللہ۔ ” اے اللہ ! اس چاند کو ہم پر امن ، ایمان ، سلامتی اور اسلام کے ساتھ نکال۔ اے چاند میرا رب تیرا رب اللہ ہے “۔ (ترمذی) اور جب آپ کھانے میں ہاتھ ڈالتے تو بسم اللہ پڑھتے اور لوگوں کو حکم دیتے کہ بسم اللہ کہہ کر کھاﺅ، اور فرماتے جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اس پر اللہ کا نام لے ، اگر وہ بھول جائے اور آغاز میں نہ کہہ سکے تو یوں کہے۔ بسم اللہ فی اولہ واخرہ۔ ” اللہ کے نام سے آغاز میں بھی اور آخر میں بھی “۔ (صحیح) یہ تھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی اور اس پوری زندگی میں آپ اس ہدایت پر عمل پیرا تھے جو آغاز وحی میں کی گئی تھی۔ اور آپ کا ایمان ، آپ کے نظریات اور آپ کے افعال وحرکات میں یہ بات رچ بس گئی تھی۔ اس حقیقت کے تقاضے تو یہ تھے کہ انسان اللہ کی معرفت حاصل کرتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا ، یعنی اس حقیقت پر کہ اللہ نے اسے پیدا کیا ، اس نے علم سکھایا ، اور اسے تمام مخلوقات میں مکرم بنایا ، لیکن انسان نے ایسا نہ کیا بلکہ وہ اس سے بالکل الٹا چلا اور اس کا انحراف اور اس کی خلاف توقع حرکت کا ذکر اگلے پیراگراف میں کیا جاتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” علم الانسان “ الانسان سے حضرت آدم (علیہ السلام) مراد ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اسماء کی تعلیم دی یا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں اور مطلب یہ ہے جو امور اسباب ظاہرہ سے معلوم نہ ہوں ان کا علم وحی کے ذریعہ عطا فرماتا ہے۔ اور مراد صرف وہی باتیں ہیں جن کا رسالت سے تعلق ہے۔ اس سے کلی علم...  غیب مراد لینا غلط اور باطل ہے کیونکہ کلی علم غیب کا فریضہ رسالت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ پانچ آیتیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب سے پہلے نازل ہوئیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اس نیانسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا یعنی ایک قلم ہی پر کیا موقوف اس نے انسان کو مختلف ذرائع سے وہ وہ چیزیں سکھائیں اور بتائیں جن کو وہ بالکل نہیں جانتا تھا ۔ روحانی تعلیم کی تو کوئی انتہا ہی نہیں۔ مادی تعلیم کی یہ حالت ہے کہ ہر روز نئی نئی چیزیں اور نئی نئی قوتیں معلوم ہو... رہی ہیں اور ہر روز ان کا سلسلہ جاری ہے خود انسان نے انسان کی تباہی کے وہ سامان مہیا کئے ہیں کہ العیاذ باللہ غرض حقیقی طور پر تو علوم کا افاضہ ہم سے ہوتا ہے اگرچہ آپ لکھنا نہیں جانتے اور نہ پڑھنا جانتے ہیں لیکن جب ہم نے آپ کو امر گیا ہے تو ہم دوسرے ذرائع سے آپ کو قراءت اور حفظ علوم پر قدرت عطا فرمائیں گے چناچہ ایسا ہی ہوا اور اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور آپ کے پیغمبر ہونے کا اظہار بلکہ کھلی ہوئی دلیل ہے۔ آگے نبی کے دشمنوں اور نبوت کی مخالفت کرنے والوں کی مذمت ہے۔  Show more